May 30, 2019

WAZIRSTAN OPERATION ZARB E AZAB



تحریر: ڈاکٹر محمد عبداللہ
لیں جناب یہ ہیں موصوف ''عثمان حسن زئی" صاحب،
انہوں ایک انتہائی غلیظ پوسٹ دی جس میں لکھا تھا کہ ہر وہ موصوف جو فوج کا دفاع کرتا ہے اس کا بہنوئی فوج میں ہوتا ہے حالنکہ انکا دور دور تک اپنا فاٹا سے تعلق نہیں، لیکن فاٹا معاملے پر فوج کے خلاف ایسی ٹؤیٹس دیتے ہیں جیسے انڈیا کو انہوں نے اپنا بہنوئی بنایا ہوا، خیر انکی پوسٹ پر میرا کمنٹ یہ تھا کہ
" میرا تعلق مہمند ایجنسی (فاٹا ) سے ہے اور میرا دور دور تک کوئی رشتہ دار فوج تو کیا سرکاری ملازم بھی نہیں ہے میرے بھی گھر بار آپریشن میں تباہ ہوئے لیکن میں بتاسکتا ہوں کہ آرمی کا ھم پہ کیا احسان ہے"
صرف یہ بات کرنے پر موصوف نے تڑخ کر مجھے بلاک کردیا،
اب یہ تو واقعی سبکی کی بات تھی کہ انکا تعلق فاٹا سے ہے بھی نہیں ، جبکہ میرا تعلق فاٹا سے ہے تو لوگ میری ہے بات مستند مانیں گے سو ان سے کہاں برداشت ہوتا کہ انکی لسی کو کھٹا کہا جائے اور انکی پوسٹ پر فوج کے احسانات ایک فاٹا کے رہائشی منہ سے نکلیں سوچیں ان غداروں کے پراپیگنڈے کی کیا حقیقت رہ جائے گی ؟
انکی پوسٹ پر جائیں اور بتائیں کہ ہر کسی کے بہنوئی تو فوج میں نہیں ہوں گے لیکن آپ نے اپنا بہنوئی انڈیا یا فضل الرحمان کو ضرور بنا رکھا ہوگا جس کے لیے اپ دن رات فوج کے خلاف زہر بھی اگلتے اور وہ بھی بے بنیاد،
کل انہی موصوف نے ایک ٹویٹ لگائی تھی کہ محسن داوڑ اور علی وزیر کے حلقے کے تمام افراد فوج کے خلاف ہیں ، میں نے پوچھا کہ جس سورس نے آپکو یہ  خبر بتائی مجھے اس سورس سے یہ پوچھ کر بتادیں کہ انکے حلقے میں ٹوٹل کتنے محسود اور وزیر ہیں تاکہ پتا چل سکے انکا سورس کتنا مستند ہے تو آگے سے آئیں بائیں شائیں۔۔۔۔۔
خیر یہ لنک ہے کلک کریں اور ان سے پوچھیں کہ کیا وجہ ہے کہ آپ مسلسل فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کررہے ہیں فاٹا کے ترجمان بھی بنے ہھرتے ہو اور فاٹا کے نمائندے کا موقف تک سننے پر تیار نہیں کمال ہے بھئئ منافقت کی، باقی میرا جواب بلکہ مکمل تفصیل کنک کے نیچے موجود ہے کہ فوج کو فاٹا میں کیوں آنا پڑا اور طالبان کیسے فاٹا میں وارد ہوئے
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2331730377150976&id=100009421084812&_rdr#2331753427148671
یہاں میں اپ کو چند حقائق بتانا چاہتا ہوں ، کہ میرے فاٹا میں آپریشن سے پہلے کیا ہوتا تھا
یہ 2005/06 کی بات ہے (شاید سال میں غلطی ہو) لیکن شروع میں طالبان(موجودہ طالبان گروپ) آئے اور انہوں نے جہاد کے نام لر ہمارے علاقے میں کیمپس بنانا شروع کیے، کہ ہم افغانستان میں جہاد کرتے ہیں مقامی لوگوں نے انکو زمینیں دیں جہاں انہوں نے مرکز بنایا، اور انکی ہر طرح کی مالی و جسمانی سپورٹ کی لیکن کوئی ان کے ساتھ شامل نہ ہو، لوگوں کی ہمدردیاں انکے ساتھ تھیں،
پہلے یہ گنے چنے تھے جو دن کے وقت آتے تھے اور رات کو بارڈر کراس کرکے افغانستان چلے جاتے تھے، پھر یوں ہوا کہ انہوں نے اہستہ آہستہ خود کو آرگنائز کرنا شروع کیا، ، انکے پاس فوجی گاڑیاں اسلحہ مال و غنیمت جو کہ امریکی تھا اور انکے بقول امریکہ سے جہاد میں مال غنیمت میں چھینا تھا انہوں نے، فوج گاڑیوں کی امدورفت، طالبان مرکز آباد ہونا شروع ہوگیا، دولت کی ریل پیل، اس وقت ھمارے مہمند میں لڑائی جھگڑے عروج پر تھے چونکہ علاقہ غیر تھا ہر بندے کے پاس اسلحہ تھا معمولی باتوں کر سالہا سال لڑائیاں چلتیں ہر ہر جگہ یہ لوگ مورچہ بند ہوکر ایک دوسرے کے خلاف فائرنگ کررہے ہوتے جس کی وجہ سے لوگوں کو دور دراز سے گھوم پھر کر آنا پڑتا تاکہ خاندانی دشمنیوں والوں کی اندھی گولی ک سامنا نہ ہو، یہ مہمند پہلے بھی بہن بیٹی کا انکا حق نہیں دہتے تھے (اب بھی نہیں دیتے) بات بات پر قتل کرنا جھگڑے عام تھے، ہر بندہ بدمعاش بنا ہوا تھا پنجاب میں اکر بھی کسی کو نہیں بخشتے تھے(یہ صرف مہمند کا بتارہا، کہ انکی یہ خامیاں تھیں ،دوسری طرف وزیر محسود قبائل کے لوگ سودی تھے انتہا حد تک, اب بھی سودی کاروبار کرتی انکی اکثریت، اور دوسرا یہ کہ یہ لوگ معمولی بات چند ہزارو روپوں کے مسئلے پر پنجاب سے بندے کو اٹھا لیتے پھر پیسے بھی لیتے اور بندہ بھی ماردیتے،، میں سبھی کی بت نہیں کررہ لیکن اکثریت تھی، اجرتی قاتل تھے, یہ وہ خامیان تھیں جن کی بنیاد پر اللہ نے ہم پر طالبان والی مصیبت مسلط کی، پھر اپریشن کی وجہ سے گھر بار اجڑے) یہ تو تھا بیک گراؤنڈ، سو طالبان آئے اور جب انہوں نے خود کو آرگنائز کیا تو سب سے پہلے انہوں نے یہ خاندانی دشمنیوں والے بدمعاشوں کو ختم کیا، جس نے بات نہیں مانی انکو ذبح کرنا شروع کردیا، یہاں سے ذبح کرنے والی روایت کا آغاز ہوا،شریف لوگ بھی بڑے خوش ہوئے کہ چلو یہ گند یہ بدمعاش لوگ تو صاف ہوئے کسی بہانے
اب طالبان عوام کے اندر اپنا مقام حاصل کرچکے تھے، عوام انکو زکوات وغیرہ بھی دیتی، باہر سے فنڈنگ(بقول انکے مال غنیمت) بھی آتی دولت کی ریل پیل شروع ہوئی تو
انکو مقامیوں نے جوائن کرنا شروو کردیا کیوں کہ یہ بڑی بڑی تنخواہیں دینا شروع ہوگئے، ہر وہ ویلا نکما جس کا اور کوئی کام نہ ہوتا بس ادھر ادھر لڑکیوں کے پیچھے گھومتا اا نے طالبان جوائن کرلیے نوکری مل گئی ، دھونس دھاندلی اور بدنعاشی رعب آگیا ، کسی بھی وقت کسی کو بھی اکر دھمکاتےاپنی مرضی کی چیزیں اٹھا کر لے جاتے
"بھئی تم جانتے نہیں میں کون ہوں، میں طالبان میں ہوں"
خیر یوں ہر لوفر بدمعاش بدتمیز نے طالبان جوائن کرلی، اب ہونا یہ شروع ہوگیا کہ کسی شریف آدمی کی عزت محفوظ نہ رہی، لوگوں کے گھروں کی مخبریاں آنی شروع ہوگئیں کہ فلاں کہ گھر اتنا اسلحہ ہے شاباش وہ اسلحہ مرکز لے کر آؤ، نہیں کے کر آتے، تو یہ مقامی طالبان اسے اٹھا کر مرکز لے جاتے اور امیر صاحب جو اسکے ساتھ کرتے کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا،
اس دوران کچھ لوگوں نے طالبان کے خلاف آواز بلند کی اور انکے خلاف اپنے گھروں میں مورچہ بند ہوگئے، طالبان نے انکے گھروں کو چاروں طرف سے گھیر لیا، اب کہاں ایک عام آدمی اس کے گھر کے پندرہ بیس
افراد اورکہاں پوری طالبان آرمی جن کےپاس لامحدوداسلحہ اور سپلائی تھی جبکہ گھر والوں کے پاس محدود راشن اور محدود اسلحہ تھا سو چند دنوں میں وہ اسلحہ و راشن ختم ہوگیا اور طالبان نے بالاخر انکو پکڑ لیاا ، یہ 2007-8 کی عید الفطر تھی جب سارے برمہمند والوں کو اکٹھا کر کے سرعام انکے اامنے 10 ، 12 افراد کو ذبح کیا گیا اور پورے گاؤں میں ایک دھشت بٹھادی،
اسکے بعد جس جس نے فوج کو مخبری کی کوشش کی، طالبان اسے اٹھالیتے اور اگلے دن ذبح شدہ لاش ملتی، بھتہ خوری کا رواج عام ہوگیا، طالبان ہر کسی کے گھر بوریاں پھینکتے اور جتنا دل ہوتا اتنا اناج وصول کرتے، یہاں تک تو بات محدود رہتی تو چل جاتی لیکن اس پہ موقوف نہیں
طالبان کے شر سے وہ مہمند قبائل جو وہاں سے ہجرت کرکے آئے پنجاب سندھ کے پی میں سیٹل ہوئے وہ بھی محفوظ نہیں رہے، یوں سمجھے جائیداد میں ہی طالبان نے حصہ مانگ لیا، پرچیاں پھینکتے کہ زکات جمع کرواؤ مرکز میں آکر فاٹا میں،
جس کا جتنا کاروبار ہوتا اسکی مالیت لگا کر آدھا یا تین چوتھائی کے برابر رقم مانگ لیتے صرف یہی نہیں بلکہ گھر جائیداد کی مالیت میں سے بھی آدھا یا ایک چوتھائی مانگ لیتے پھر جہاں جو راضی ہوگیا لیکن مذاکرات ہوں گے تو مہمند ایجنسی کے طالبان مرکز میں ، وہاں انسان اتنا بے بس ہوتا ہر طرف طالبان چھریاں لیے پھر رہے ہوتے کہ ذرا سی غلط بیانی کی تو ھمیں سب پتا ہے آپ کے گلے پر چھری پھیر دیں گے
سو چارو ناچار طالبان کو اپنی جائیداد کاروبار میں سے آدھا بھتہ دینا پڑتا
اور اگر کسی نے انکار کیا تو ان لوگوں نے وہاں پنجاب سندھ سرحد میں آکر اس فرد جو گولیوں سے بھون ڈالا یا پھر گرنیڈ پھینک دیتے گھروں میں ، یہ دیکھے بنا کہ یہاں خواتین بچے بھی ہیں، نہیں بالکل نہیں، اسی طرح قتل کرتے وقت اگر قہ بندہ دوکان پر ہے تو یہ نہیں دیکھتے کہ ساتھ بے گناہ بھی ہیں، نہیں ، سب کو بھون ڈالتے
یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا، طالبان زور پکڑتے گئے خودکش دھماکوں اور ڈرونز کا سلسلہ شروع ہوگیا آرمی کا آپریشن شروع ہوگیا، ارمی سے علاقے سے نابلد تھی اور طالبان میں سبھی مقامی افراد جن کہ تگڑی تنخواہیں تھی شامل ہوچکے تھے تقریبا ہر گھر کا ایک عدد لوفر لفانڈر ویلا نکلا نواجوان اس رعب و بدمعاشی بلکہ تنخواہ کے لالچ میں بھی شامل ہوچکا تھا اور یہ لوگ متعدد بم بلاسٹس راکٹ حملوں اور اغوا برائے تاوان یا بھتہ خوری میں ملوث تھے
آپریشن شروع ہوا، تو رزسٹنس سامنے آئی کہاں طالبان اپنا بنا بنایا سیٹ اپ چھوڑنا چاہتے تھے سو فوج کے لڑائی شروع ہوئی، اب فوج بھی اس علاقے میں نئی تھی طالبان اور مقامیوں کا حلیہ بھی ایک تھا دوسری بات تقریبا ہر چوتھے ہانچویں گھر میں سے ایہ فرد طالبان کا حصہ بن چکا تھا، جو کہ یا تو ایکٹیو پارٹیسیپنٹ تھا یا پھر ان ڈاریکٹ مخبر تھا (ھمیں اس وقت سے خبر تھی کہ ان میں سے کسی نے نہیں بچنا، یہ دو ہاتھیوں کی لڑائی ہے جس میں کوئی بھی سائڈ لینے والی عوام کچلی جائیگی سو ھم نیوٹرل رہے) اس دوران اپریشن بھی ہوئے فوج جہان آپریشن کرتی طالبان کو پہلے سے پتا لگ جاتا، وہ لوگ وہاں سے غائب ہوجاتے ، یہ نہیں کہ سارے مہمند طالبان تھے بلکہ نشکل سے دس گھروں میں ایک فرد طالبان کے ساتھ تھا لیکن اس وجہ سے آپریشن مکمل ناکام جارہا تھا، دوسرا فوج پر مسلسل تابڑ توڑ خودکش حملے اور گویریلا حملے ہورہے تھے،
فوج تنگ اگئی کہ مقامیوں کی وجہ سے ہی فوج آپریشن میں ناکام ہورہی جو کہ سبھی نہیں
چند ایک تھے لیکن فوج کے دل پورا گاؤں کے لیے نفرت پیدا ہوگئی اور سبھی غدار نظر آتے نتیجہ فوج کا رویہ کرخت سے کرخت تر ہوتا گیا آئے روز سرچ اپریشنز، آئی ایس ائئ طالبان کے اندر گھسی، پتا چلتا گیا کون کون سا مقامی انکے ساتھ مخبر، انکو بھرپور طرہقے سے اٹھاتے، لیکن اس دوران گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا گیا، اگر ایک بندہ مجرم ہوتا تو ساتھ پورا خاندان اٹھا لیتے فوجیوں کا ریمانڈ بیت برا ہوتا انتہائی غیر انسانی جس میں بچہ بوڑھا نازک حصہ یا ایسا کچھ نہیں دیکھتے، انکا ارادہ ہوتا کہ طالبان کا حصہ تھا سارے ثبوت کنفرم ہوتے کہ کتنے دھماکوں کتنے فوجوں کتنی عوام کو مارنے میں ملوث برہا بس اقرار کرواکر مزید تفصیلات حاصل کرکے ماردیتے، مارنا تو
یہ آپریشن جاری رہا فوجی بھی مرتے رہے علاقہ بھی کلیر ہوتا رہا لیکن چونکہ مغربی سرحد افغانستان کی کھلی تھی سو دراندازی جاری رہی ، مزید مستہزاد یہ کہ آہستہ اہستہ طالبان کمانڈر اور رہںما پکڑے جاتے رہے اور نت نئے انکشافات ہوتے رہے کہ فلاں بندہ بھی ملوث تھا فلاں بھی ملوث تھا اب فوج ایک ایک کرکے اٹھاتی رہی، یون کئی سو افراد فوج کی گرفت میں آئے جن کے جرم قطعا سزائے موت سے کم نہیں تھے ان میں سے اکثریت کو ھم جانتے تھے کہ یہ جو آج میسنے بن کر ہجرت کرکے پرسکون زندگی گزار رہے انکو ایک نہ ایک دن آرمی ضرور اٹھائے گی جو گںد یہ طالبان کے دور میں کرتے رہے اور ایسا ہی ہوا اٹھایا اسی کو جاتا رہا جس نے طالبان کے ساتھ کسی بھی ایکٹیویٹی میں حصہ لیا ہوا ہوتا
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بہت سے لوگ طالبان نے خودکش کرواکر بھی مروادیے کئی افغانستان جہاد میں مارے گئےانکو بھی آرمی کے سر پہ ڈالتےگئے کہ یہ بھی آرمی نے اٹھائے
غرض یہ جگ و جدل جاری تھی کہ
آرمی پبلک سکول والاسانحہ رونما ہوگیا یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ ملک کے اندر اتنی تباہی مہمند کے طالبان نے نہیں پھیلائی جتنی وزیرستان کے طالبانِ نے پھیلائی، 7 ایجنسیاں ہیں قبائلی علاقہ جات میں اس سب میں طالبان کا ہولڈ تھا لیکن ہر ایجنسی(گاؤں) کے طالبان نے اپنا واسطہ متعلقہ ایجنسی تک ہی زیادہ تر رکھا سوائے وزیرستان کے طالبان کے، جنہوں نے بلا تخصیص پورے پاکستان میں ہر کسی کے خلاف کاروائیاں کیں، میرا ایک دوست اس زمانےمیں رزمک کیڈٹ کالج کا طالبعلم تھا انکء پوری کلاس کو اغوا کیا گیا تھا لیکن پھر اپنے طالبان چھڑاانے کے بدلے انہیں چھوڑ دیا گیا تھا،
سو ارمی پبلک سکول والے سانحے کے بعد ضرب عضب کا آغاز ہوا اور ان کے ںڑے مرکز یعنی وزیرستان کو خالی کرنے کا حکم دے دیا گیا، تاکہ طالبان کو چن چن کر مارا جاسکے
اب علاقہ خالی کیے بںا اپریشن ممکن نہ تھا اور آپریشن کیے بنا ملک محفوظ کرنا ممکن نہ تھا ، ورںہ اے پی ایس جیسے سانحے مزید رونما ہوتے
سو علاقہ خالی کروالیا گیا اور وارننگ دے دی گئی کہ جو رہ گیا وہ اپنی جان و مال کا خود ذمہدار ہوگا، یہ اپ کے میران شاہ اور میر علی کے بازاروں پر مکمل طالبان کا ہولڈ تھا اور یہ دندناتے پھرتے تھے لیکن محسن دووڑ جیسے لوگ اورعلی وزیر جیسے لوگ جن کے طالبان کے ساتھ مفادت وابستہ تھے انہوں نے علاقہ خالی کرنے سے انکار کردیا، طالبان نے ہر دوکان کے اوپر ہر پہاڑ کے اوپر مورچے بنائے ہوئے تھے فوج پیش قدمی کرنے سے قاصر تھے
ادھر سے وہ قبائلی جو ہجرت کرگئے تھے وہ فوج کو طعنے دیتےکہ تم اور طالبان آپس میں ے ہو اسی لیے طالبان کو ختم ںہیں کررہے ورنہ تنہارے پاس جیٹ ہیں توپ ہیں استعمال کرو، اور فوج نے گرینڈ اپریشن کا آغاز کردیا جس میں جیٹ طیاروں سے طالبان پر علی الاعلان بمباری کی گئی بازاررملیامیٹ ہوئے طالبان فنا ہوگئے ہزاروں لاکھوں وزیروں کے قبائل کے گھرمسمار ہوئے(ھنارا گھر بھی مسمار ہوا آپریشن میں : پنکھے تک پگھلی ہوئی حالت میں ملے)
جنگ میں تباہی ہوتی ہے سب کی ہوئی لیکن محسن داوڑ اور علی وزیر نے اپنی مارکیٹ قور پٹرول پمپ کو پکڑ کر ایشو بنالیا کہ فوج یہ کرتی فوج وہ کرتی،
فوج نے جو کیا بحالت مجبوری اپکے کرتوتوں کی وجہ سے کیا اور پھر جو تباہی ہوئی اسکا ازالہ پولیٹیکل گورنمنٹ کو کرنا چاہیے تھا جو اس نہیں کیا،
(جاری ہے)

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews