October 18, 2019

LUNCH BOX


لنچ بکس
"اسد زکاء آپ لنچ نہیں کر رھے" مس راحیلہ نے روز کی
طرح آج بھی اسد زکاء کو لنچ نہ کرتے دیکھ کر پوچھا۔
" میم مجھے بھوک نہیں ھے" اسد زکاء نے بھی روز کی طرح وھی جواب دیا۔
کلاس فور کو شروع ھوئے دو ہفتے ھو چکے تھے ان دو ہفتوں میں روز مس راحیلہ اسد زکاء کو لنچ نہ کرتے دیکھ کر پوچھتی اور وہ بھی روز ایک ھی جواب دیتا۔ اسد زکاء کلاس تھری میں ٹاپ کرکے کلاس فور میں آیا تھا۔ بلکہ نرسری سے لےکر کلاس تھری تک ھر کلاس میں ھر ٹرم میں وھی ٹاپ کرتا تھا۔ اس لیے مس راحیلہ نے آج طے کیا تھا کہ وہ آج بریک میں ضرور اسد زکاء سے پوچھیں گی کہ وہ لنچ کیوں نہیں کرتا۔ اور اسکے والدین کو بھی بلا کر بات کریں گی کہ وہ بچے کو لنچ کیوں نہیں دے کر بھیجتے۔ مس راحیلہ کو لگ رھا تھا کہ قصور ماں باپ کا ھے وہ شاید لنچ دے کر ھی نہیں بھجیتے۔ یہ سب بات کرنے کے لیے بریک کی بیل کے بعد مس راحیلہ نے اسد زکاء کو کہا کہ آپ میری بات سن کر باھر جایئے گا۔
ساری کلاس کے باھر جانے کے بعد مس راحیلہ نے اسد زکاء سے پوچھا" بیٹا میں دو ہفتے سے دیکھ رھی ھوں آپ لنچ کیوں نہیں کرتے۔"
" وہ میم مجھے بھوک نہیں ھوتی۔ " اسد زکاء نے وھی رٹا ھوا جملہ بول دیا۔
"بیٹا یہ کیسے ھو سکتا ھے۔ آپ صبح سات بجے ناشتہ کرتے ھو گے۔ گیارہ بجے تک یہاں سکول میں پڑھ پڑھ کے آپ کو ذرا بھی بھوک نہ لگے۔ آپ جاؤ اپنا لنچ بکس لے کر آؤ۔ " مس راحیلہ نے اپنا شک دور کرنے کے لیے کہا۔ کیونکہ انھیں یقین تھا کہ اسد ذکاء کے پاس لنچ ھے ھی نہیں۔ اسد اپنی جگہ سے نہیں ھلا۔ وہ وھی کھڑا رھا۔
مسں راحیلہ نے کچھ دیر انتظار کیا پھر ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا۔ " یعنی میرا شک ٹھیک نکلا۔ بلاتی ھوں آپ کے والدین کو کہ آپ بچے کو لنچ تک نہیں دے کر بھیجتے اتنی لا پرواھی۔ " مس راحیلہ کو سخت غصّہ آگیا۔
انکی یہ بات سن کر اسد کے پاؤں تلے جیسے زمین نکل گئی ھو۔ وہ انتہائی پریشانی سے بولا " نہیں میم میرے پاس لنچ ھے۔ الله کی قسم میرے پاس لنچ ھے۔ " وہ جیسے رونے لگا تھا۔ مس راحیلہ اسکی پریشانی پر حیران اور پریشان ھو گئیں۔ اور بولیں" اچھا دکھاؤ کہاں ھے۔" ان کے کہتے ھی اسد فوراً جاکر اپنے بیگ سے اپنا لنچ بکس لے کر آگیا۔ اس کے لنچ بکس میں پراٹھا اور اچار تھا۔ مس راحیلہ کو سمجھ نہیں آئی کہ پھر وہ لنچ کرتا کیوں نہیں۔ انھوں نے پھر بڑے پیار سے پوچھا۔ " بیٹا لنچ ھے تو آپ کرتے کیوں نہیں۔ کیوں بھوکے رھتے ھو۔ زیادہ نہیں تو تھوڑا تو کھا لیا کرو۔" انھوں نے پیار سے سمجھایا۔
جی میم آئندہ ضرور کھا لیا کروں گا۔ بس آپ میری امّی بابا کو مت بتائیے گا۔" اسد نے روھانسی آواز میں کہا۔ مس راحیلہ کو لگا کہ کوئی بات ضرور ھے۔ وہ پھر پوچھنے لگ گئیں۔ " اچھا بیٹا نہیں بتاؤں گی۔ پر آپ مجھے بتاؤ اصل بات کیا ھے۔ آپ لنچ کرتے کیوں نہیں۔"
"وہ میم سب بچے پھر مزاق اڑاتے ھیں۔ میں بس اچار پراٹھا ھی لیکر آتا ھوں تو سب مزاق اڑاتے ھیں۔ اس لیے نہیں کھاتا۔" اسد نے اب اصل وجہ بتائی اور ساتھ اپنی آنکھوں میں آنے والے ھلکے سے آنسو بھی صاف کیے۔ مس راحیلہ کا دل کیا کہ اسے اپنے گلے سے لگا کر پیار کریں۔ وہ اسکے سر پر ھاتھ پھیرتے ھوئے بولیں۔
" بیٹا آپ اپنی امّی سے بولا کریں وہ آپکو کچھ اور بنا دیا کریں۔ " مس راحیلہ نے بڑے پیار سے حل بتایا۔
"کلاس ون میں کہا تھا میم۔ کہ مجھے نہیں پراٹھا لیکر جانا۔ سب مذاق اڑاتے ھیں۔ " اسد نے معصومیت سے بتایا۔ "پھر" مس راحیلہ کو بھی اب تجسس ھونے لگا تھا۔ اسد نے ایک نظر انھیں دیکھا۔ پھر اسی طرح نظر جھکا کر بولنے لگا۔ " پھر میم۔ مجھے کچھ عرصے بعد میری آپی نے کہا کہ۔ وہ نائتھ کلاس میں جاتی ھیں۔ نائتھ اور ٹینتھ کے بعد وہ محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیں گی۔ پھر جیسا لنچ میں کہوں گا ویسا آپی بنا دیا کریں گی۔ مگر ابھی میں امّی سے کہوں کے بریڈ اور کباب یا نگٹس کھانے سے میرے پیٹ میں درد ھو جاتا ھے۔ اس لیے مجھے یہ نہ دیا کریں۔" اسد ابھی بول ھی رھا تھا کہ مس راحیلہ اس کی بات کاٹتے ھوئے بولیں۔ مگر آپ کی بہن نے ایسا کیوں کہا۔"
" کیونکہ جب سے امّی نے مجھے بریڈ سینڈوچ کباب وغیرہ لنچ میں دینے شروع کیے تھے۔ تب سے بابا رات کو دو کی بجائے تین بجے گھر آنا شروع ھو گئے تھے۔ میرے بابا ایک کلرک ھیں۔ وہ دن کو دفتر میں کام کرتے ھیں اور رات کو ٹیکسی چلاتے ھیں۔ تاکہ میری بیکن ھاؤس کی فیس اور باقی خرچہ کر سکیں۔ میرے ایک لنچ کے لیے وہ پورا ایک گھنٹہ لیٹ آنے لگ گئے تھے۔ حالانکہ اگلے دن سات بجے انھوں نے پھر اٹھنا ھوتا تھا دفتر جانے کے لیے۔اس لیے میری آپی نے کہا ایسے بابا بیمار ھو جائیں گے۔ تو میں امّی سے کہوں مجھے یہ لنچ نہ دیں۔ اور جب آپی میڑک کر لیں گی تو وہ ٹیوشن پڑھا کر میرے لنچ کے پیسے بنا لیا کریں گی۔ تو میں نے امّی سے وھی کہہ دیا۔ پہلے بھی بس میں ھی بیکن ھاؤس پڑھتا ھوں۔ میری بہنیں تو گورنمنٹ سکول میں پڑھتی ھیں۔ اور میرے لنچ کے لیے بابا کو نیند کی مزید قربانی دینی پڑھ رھی تھی جو مجھے اچھا نہیں لگا۔ تو میں کہہ دیا کہ مجھے یہ سب نہیں کھانا۔ " اسد نے آج اپنے اندر کی ساری باتیں کر ڈالیں۔
" تو کیا ابھی تک آپ کی آپی نے میڑک نہیں کیا۔" مس راحیلہ کو چھوٹے سے اسد کی بڑی باتوں میں دلچسپی پیدا ھو گئی تھی۔ اس لیے وہ مزید جاننے کی کوشش کر رھی تھیں۔
"میڑک تو اس نے پچھلے سال کر لیا تھا میم۔ اور پتا ھے اس نے بورڈ میں ٹاپ کیا تھا۔ اس نے بابا سے کہا کہ وہ اسے کنیٹ کالج میں داخلہ لینے دیں۔ کچھ تو سکالر شپ مل جائے گا۔ باقی وہ ٹیوشن پڑھا کے انتظام کر لے گی۔ بابا کو پریشان نہیں کرے گی۔ بابا اس کے بھی تو بابا ھیں نا۔ اور اس نے کیا بھی ٹاپ تھا۔ بابا نے اسکا کنیٹ کالج میں ایڈمیشن کرا دیا۔ اسے جب پہلی ٹیوشن فیس ملی تو اس نے کہا چلو اسد آج جو میرا بھائی کہے گا وہ سب لے کر آؤں گی اور وھی لنچ میں لے کر جائے گا میرا بھائی اسے اب پراٹھا اچار نہیں لے کر جانا پڑے گا۔ مگر میں نے آپی سے کہہ دیا۔ آپی قسم سے وہ بازار کی چیزوں سے واقعی ھی میرے پیٹ میں درد ھو جاتا تھا۔ ویسے بھی تو اب میں بڑی کلاس میں آگیا ھوں۔ اب تو کوئی میرا مذاق بھی نہیں اڑاتا۔ میں روز پراٹھا کھا کر آتا ھوں۔ میم پتا ھے میں نے ایسے کیوں کہا۔ کیونکہ میں نے اکثر آپی کو چھوٹی آپی کو بتاتے سنا تھا کہ کنیٹ کالج میں بہت امیر لڑکیاں پڑتی ھیں ان کے پاس بہت مہنگی چیزیں ھوتی ھیں۔ تو آپی ٹیوشن کے پیسوں سے اپنے لیے کچھ لے سکتی تھیں۔ لنچ تو اتنا ضروری نہیں تھا نا۔ تو میں نے آپی کو بھی منع کر دیا۔ ویسے بھی کلاس تھری تک تو عثمان میرا دوست تھا وہ میرے لیے اکثر الگ لنچ لے آتا تھا۔ اسکی ماما میرے لیے بہت مزے کا لنچ بنا کر دیتی تھیں۔ اسکے بابا کی اب پوسٹنگ کراچی ھو گئیں ھے۔ وہ لوگ اب وھاں چلے گئے ھیں۔ اس لیے مجھے ابھی کوئی نیا دوست نہیں ملا۔ ویسے میم اچھا ھوا وہ چلا گیا"۔ اسد کچھ اداسی سے بولا مگر مس راحیلہ کو اس کے آخری فقرے کی وجہ سمجھ نہیں آئی کے دوست کا جانا اچھا کیوں تھا۔ وہ پھر بولیں۔" اچھا کیوں ھوا۔ آپکا دوست آپکے ساتھ رھتا تو زیادہ اچھا نہیں تھا۔ " مس راحیلہ نے وضاحت سے پوچھا۔ اور اسد ایک ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔ " اس طرح سے تو بہت اچھا تھا میم وہ میرا بہت اچھا دوست تھا۔ مگر جب وہ میرے لیے لنچ لاتا تھا تب بھی کچھ بچے تنگ کرتے تھے۔ اوہ آج عثمان پھر اسد کے لیے لنچ لایا ھے۔ کھاؤ کھاؤ۔ ماں باپ غریب ھیں تو کیا ھوا دوست امیر ھیں نا۔ تو میرا دل دکھتا تھا۔ میں اکثر کھانا چھوڑ دیتا تھا مگر عثمان کے کہنے پر پھر کھا لیتا تھا۔ میرے امی بابا غریب نہیں ھیں میم۔ بس انکے پاس پیسے تھوڑے کم ھیں۔ میرے بابا کہتے ھیں انشا الله میرا اسد ڈاکڑ بنے گا اور اسکے پاس بہت پیسے ھوں گے اور انشا الله میں انکا خواب ضرور پورا کروں گا۔ بس اس لیے کبھی کبھی میرا دل کرتا تھا کہ عثمان کہیں چلا جائے تاکہ کوئی میرے امی بابا کو ایسے نہیں بولے۔" وہ چھوٹا سا بچہ اپنے ھر رشتے کے لیے اتنا حساس تھا یہ دیکھ کر مس راحیلہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ " مگر بیٹا آپ لنچ تو کرتے نہیں۔ آپکی امی یا آپی آپکا لنچ بکس چیک کرکے پوچھتی نہیں کے لنچ کیوں نہیں کیا۔ " مس راحیلہ بولیں۔ اسد ہلکا سا مسکرایا اور بولا۔ " میم میں نا اپنی وین میں لنچ کر لیتا ھوں۔ اس وین میں سب پراٹھا ھی لیکر جاتے ھیں۔ اس لیے کوئی میرا مذاق بھی نہیں اڑاتا اور امی کو پتا بھی نہیں چلتا کے میں نے سکول میں لنچ نہیں کیا۔ " اسد نے فخر سے بتایا۔ مس راحیلہ کو اسکی اس ادا پہ بہت ھی پیار آیا۔ اور ساتھ ھی بریک ختم ھونے کی بیل بج گئی۔ "چلو باقی باتیں پھر کبھی کریں گے۔" مس راحیلہ نے کہا اور اسد بھی جاکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ باقی دن نارمل کلاسز میں گزر گیا۔ مس راحیلہ اسد سے اسکی سوچ اور اسکی حساسیت سے بہت متاثر ھوئیں۔ وہ اس کے لیے کچھ کرنا چاھتی تھیں۔ اگر وہ خود اس کے لیے لنچ بنا کر لے جائیں۔ مگر اسے تو عثمان کا لنچ نہیں نہیں یہ ٹھیک نہیں ھے۔ وہ بہت سے خیالات اپنے ذھن میں بن رھی تھیں۔ پھر ایک طریقہ انکے ذھن میں آگیا۔
اگلے روز بریک سے کچھ دیر پہلے گیٹ کیپر نے آکر کلاس کے دروازے پہ دستک دی اور کہا کہ "اسد زکاء کا لنچ آیا ھے"۔ اسد حیرانی و پریشانی سے اپنی جگہ سے اٹھ کر گیا اور لنچ بکس لے لیا۔ لنچ بہت مزے کا تھا وہ سارا کھا گیا۔ اس کے بعد یہ روز کا معمول بن گیا۔ روز بریک سے پہلے گیٹ کیپر آ کر لنچ دے جاتا اور وہ لنچ کھا لیتا۔ کلاس فور ، فائیو، سکس حتی کہ اسد زکاء نے میڑک کے پیپر دیے اور اپنی بہن کی طرح اس نے بھی بورڈ میں ٹاپ پوزیشن لی۔ اور سکول سے فخر سے نکلا۔ کلاس ٹین تک اسکا وہ لنچ بکس آتا رھا وہ بند نہیں ھوا۔
مس راحیلہ اس سکول سے ریٹائر ھو کر فارغ ھو گئیں۔ وہ اب تک سوچتی تھیں کہ اسد زکاء نے کبھی گیٹ کیپر سے پوچھا نہیں کہ اسے لنچ کون دیتا ھے۔ جبکہ انکا خیال تھا کہ اسد زکاء اسی دن جب جاکر گھر پوچھے گا کہ لنچ کس نے بھیجا اور اسے پتا چلے گا کہ گھر سے کسی نے نہیں بھیجا تو وہ شاید اگلے دن وہ لنچ لے ھی نہ یا گیٹ کیپر سے ضد کرے کہ بتائیں یہ لنچ بکس کس نے دیا ھے۔ مگر مس راحیلہ نے سوچا کہ جب یہ ھوگا تب دیکھیں گے لنچ بکس دینا تو شروع کروں۔ مگر اسد زکاء نے کبھی گیٹ کیپر سے یہ نہیں پوچھا بلکہ وہ روز چھٹی ٹائم وہ لنچ بکس گیٹ کیپر کو دے جاتا تھا۔ کبھی کبھی مس راحیلہ کو تجسس ھوتا تھا کہ وہ کیا سوچتا ھو گا۔ کہ یہ کون دیتا ھے۔ مگر وہ اب یہ کس سے پوچھتی۔ شروع کے دو تین سال تو اسد زکاء سکول آتا رھا ملتا بھی رھا۔ اسکا میڈیکل کالج میں ایڈمیشن ھو گیا ھے۔ یہ وہ انھیں خود بتا کر گیا تھا۔ مگر اسکے بعد وہ دوبارہ سکول نہیں آیا۔ مس راحیلہ اس کو یاد کرتی اور اس کے لیے دعا کر دیا کرتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" سر پلیز آپ جلدی سے چار لاکھ جمع کرا دیں تاکہ آپکی امّی کا آپریشن شروع ھو سکے۔ " نرس پچھلے آدھ گھنٹے میں یہ تیسری بار بول کر گئی تھی۔ مگر وہ دونوں کچھ نہیں کر پا رھے تھے۔ اپنی ساری جمع پونچھی اور ھر رشتے دار سے مدد مانگنے کے بعد بھی بس ڈھائی لاکھ کا بندوبست ھو سکا تھا۔ ڈیڑھ لاکھ ابھی بھی کم تھا۔ اور آپریشن تب شروع ھونا تھا جب چار لاکھ جمع ھو جاتے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور سوچتے دو کمپوڈرذ آئے اور انکی امی کو لے کر جانے لگے۔
" یہ کیا کر رھے ھیں آپ"۔ ان بہن بھائی کو سمجھ نہیں آئی کہ انکی امی کو کہاں لے کر جایا جا رھا ھے۔ "انکا آدھ گھنٹے میں آپریشن ھے۔ آپریشن تھیڑ لے کر جا رھے ھیں۔" ان میں سے ایک کمپوڈر بولا۔
"مگر ھم نے ابھی فیس جمع نہیں کرائی ۔ آپریشن کیسے ھو سکتا ھے" بھائی نے استفسار کیا۔
" انکی فیس جمع ھو گئی ھے۔" اسی کمپوڈر نے بے نیازی سے جواب دیا۔ اور وہ بہن بھائی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ " دیکھیں انکا نام راحیلہ امجد ھے۔ انکی فیس ابھی جمع نہیں ھوئیں۔ آپکو کوئی غلط فہمی ھوئی ھے"۔ اس بار بہن نے تفصیل سے بات بتائی۔
"جی راحیلہ امجد انکا بائی پاس ھے۔ کل یہ ایڈمیٹ ھوئیں تھیں۔ انھی کی فیس جمع ھوئیں ھے۔ مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ھوئیں۔ آپ پلیز جانے دیں ڈاکڑ صاحب خفا ھو گے۔ " اس کمپوڈر نے تفصیل سے ساری بات بتائی اور انھیں راستے سے ھٹاتے ھوئے انکی بیڈ کو آپریشن تھیڑ کی طرف لے کر جانے لگا۔ مس راحیلہ سو رھی تھیں۔ انھیں اس سب کی کوئی خبر نہ تھی۔
" سسڑ آپکے کمپوڈرز کو کوئی غلط فہمی ھوئی ھے۔ ھماری مدر کی فیس ابھی ھم جمع نہیں کرا سکے۔ تو آپریشن کیسے ھو سکتا ھے۔ " بھائی اس نرس کے پاس گیا جو پہلے تین دفع انکے پاس آئی تھی اور پوچھنے لگا۔ " جی انکی فیس تھوڑی دیر پہلے جمع ھو گئی ھے۔ آپ پریشان نہ ھوں۔" نرس نے اپنے پیپرز ٹھیک کرتے ھوئے بتایا۔
"لیکن کس نے کرائی۔" وہ دونوں حیران پریشان ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ نرس آپریشن تھیڑ کی طرف جانے لگی تو بہن نے اسے روک کر دوبارہ پوچھا۔
" پلیز بتائیں کس نے کرائی ھے۔" بہن اسکے آگے آ گئ۔
"جی ھمیں سختی سے منع کیا گیا ھے کہ کسی کو مت بتایا جائے۔ پلیز آپ مجھے جانے دیں"۔ نرس نے بہن کو ھاتھ سے پیچھے کیا اور آگے بڑھ گئ۔
اب وہ دونوں آپریشن تھیڑ کے باھر کھڑے تھے۔ انھیں فل حال اپنی امّی کے آپریشن کی زیادہ فکر تھی۔ فیس کس نے دی یہ تو بعد میں پتا لگ سکتا تھا۔ کچھ دیر بعد سرجن صاحب باھر آئے اور بتایا کہ ان کی مدر کا آپریشن کامیاب ھو گیا ھے۔ آج کا دن وہ under observation رھے گی پھر انھیں روم میں شفٹ کر دیں گے۔ ان دونوں نے الله کا شکر ادا کیا کہ آپریشن ٹھیک ھو گیا ھے۔ جتنے دن مس راحیلہ ھسپتال رھی انکے بیٹے نے ھر ممکن کوشش کر ڈالی یہ جاننے کی کہ انکی مدر کی فیس کس نے ادا کی ھے۔ مگر کچھ پتا نہ چل سکا۔ یہ بات اس نے مس راحیلہ کو بھی بتائی وہ بھی حیران تھی کہ کون ایسا ھے جو اتنا بڑا احسان بھی کر رھا ھے مگر سامنے بھی نہیں آ رھا۔ آج مس راحیلہ کو فارغ کردیا گیا تھا۔ ان کا بیٹا ھسپتال کے واجبات ادا کرنے گیا تو اسے پتا چلا کہ وہ پہلے ھی ادا ھو چکے ھیں اور جواب پہلے والا ھی تھا کہ نہیں بتا سکتے کس نے کیے ھیں۔ اس نے یہ بات جاکر مس راحیلہ کو بتائی وہ سب حیران پریشان تھے کہ وہ کون ھے۔ انھیں بالکل سمجھ نہیں آرھا تھا۔ خیر وہ سامان اٹھا کر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ انھیں اندازہ تھا کہ اتنے دنوں سے اصرار کر رھے ھیں کسی نے کچھ نہیں بتایا تو اب کیا بتائیں گے۔
سب سامان گاڑی میں رکھ کر گاڑی میں بیٹھتے ھوئے مس راحیلہ کی نظر ھسپتال کے اوپر لکھے ھوئے بڑے سے بورڈ پر پڑی اور وہ جیسے اپنی جگہ پر جامد ھو گئ ھوں۔ بورڈ پہ لکھا تھا ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکڑ اسد زکاء۔ یہ نام پڑتے ھی نجانے کتنے سال مس راحیلہ کے دماغ میں لمحے کا سفر طے کر گئے۔ انھوں نے اپنے بیٹے سے اصرار کیا کہ انھیں ڈاکڑ اسد زکاء سے ملنا ھے۔ انکا بیٹا انھیں واپس ھسپتال کے اندر لے گیا۔وھاں کچھ اصرار کے بعد نرس نے ڈاکڑ اسد زکاء سے بات کی۔ ڈاکڑ نے انھیں الگ کمرے میں بٹھانے کو کہا اور کہا کہ وہ تھوڑی دیر میں آتے ھیں۔ وہ تینوں ماں بیٹا اور بیٹی اس کمرے میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگے۔
تقریبًا پانچ منٹ گزرے ھوں گے کہ دروازہ کھلا ایک انتہائی شاندار شخصیت کا مالک شخص کمرے میں داخل ھوا۔ اور مس راحیلہ کے پاس آکر اس نے انتہائی ادب سے سلام کیا۔
" یہ کلاس فور میں میرے سٹوڈنٹ تھے۔ " مس راحیلہ نے اپنے بیٹا اور بیٹی کو فخریہ انداز میں بتایا۔
"بیٹا مجھ پہ اتنا بڑا احسان کر کے تم منظر سے غائب کیوں رھنا چاھتے تھے۔ " اس بار وہ ڈاکڑ اسد سے مخاطب تھیں۔ جو سر جھکائے انتہائی ادب سے کھڑا تھا۔
"میم پہلے تو آپ سب بیٹھیں آرام سے بات کرتے ھیں۔ اس نے مس راحیلہ کے بچوں کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ سب بیٹھ گئے۔ اور اب ڈاکڑ اسد نے بولنا شروع کیا۔
" پہلے تو آپکی امی نےمیرا تعارف نامکمل کرایا ھے۔ میں انکا کلاس فور کا وہ سٹوڈنٹ ھوں جسے یہ کلاس ٹین تک لنچ بکس بنا کر دیتی رھی ھیں۔ " ڈاکڑ اسد نے یہ بات کی تو مس راحیلہ حیرانگی سے اسکا منہ دیکھنے لگی۔ یعنی وہ جانتا تھا کہ وہ لنچ بکس مس راحیلہ بنا کر دیتی تھیں۔ وہ بے ساختہ بول پڑیں۔
" آپ جانتے تھے مگر کیسے"۔ وہ حیران پریشان اسکا منہ دیکھ رھی تھی۔ ڈاکڑ اسد ہلکا سا مسکرایا اور بولا
" میم کلاس ون میں میں نے لنچ کرنا چھوڑا تھا۔ کلاس ون سے لیکر آپکی کلاس تک کبھی کسی ٹیچر نے پوچھا ھی نہیں تھا کہ آپ لنچ کیوں نہیں کر رھے۔ اس دن آپ نے پوچھا اور اگلے دن لنچ آ گیا۔ میم بات یہ ھے کہ ھماری کلاس کے بچوں کو لوگ اور حالات بڑی جلدی سمجھ آ جاتے ھیں۔ اور میں بھی سمجھ گیا تھا۔ جب پہلے دن لنچ آیا تھا نا میم اس دن تو غضب کی بھوک لگی ھوئی تھی۔ اس دن تو رھا ھی نہیں گیا۔ پھر گھر ساری رات سوچتا رھا کہ آپکو کیسے منع کروں۔ پھر طے کیا کہ میں بڑا ھو کر آپکو سارے پیسے واپس کر دوں گا۔ جتنے پیسے آپ نے میرے لنچ پہ لگائے ھوں گئے۔ اور پتا ھے میم پہلے دن سے لیکر آخری دن تک کے لنچ کا حساب آج بھی میرے پاس لکھا ھوا ھے۔ نوے ھزار چھ سو اسی روپے۔ " وہ یہ رقم بول کر ایک بار مسکرایا اور پھر بولنے لگا۔ " آپ جو بھی لنچ میں دیتی تھیں بیکری سے گزرتے ھوئے اسکی قیمت پوچھ کر رف اندازہ لگایا کرتا تھا کہ اتنے کا ھو گا میرا لنچ اور گھر جا کر نوٹ کر لیتا تھا تاریخ کے ساتھ آج بھی وہ ڈائری میرے پاس ھے۔ مگر جوں جوں وقت گزرا تو احساس ھوا کہ شاید ساری دنیا کی دولت دے کر بھی میں اس لنچ کے پیسے نہ چکا پاؤں گا۔ کیونکہ اس لنچ کی قیمت نوے ھزار چھ سو اسی روپے نہیں بلکہ وہ خلوص تھا جس سے آپ وہ لنچ بنایا کرتی تھیں۔ بس اسکے بعد میں نے کبھی اس لنچ بکس کی قیمت چکانے کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا تھا۔ ھاں دعا کرتا تھا کبھی کوئی ایسا موقع آئے کہ میں بھی آپکے کسی کام آ سکوں۔ اور اپنے بچوں کو کہا ھوا ھے اگر آپکی کلاس میں کوئی ایسا بچہ ھو جو لنچ نہ لاتا ھو تو مجھے ضرور بتانا۔ اس دن جب آپکو دیکھا تو فوراً پہچان گیا۔ جب نرس نے بتایا کہ آپکی فیس جمع نہیں ھوئی تو لگا الله نے میری دعا سن لی۔ سامنے اس لیے نہیں آیا کہ آپ نے بھی تو گیٹ کیپر کو منع کیا تھا کہ مجھےکبھی نہ بتائے کہ کون لنچ بکس دیتا ھے۔" اب وہ مس راحیلہ کی طرف دیکھ کر مسکرا رھا تھا۔
مس راحیلہ اسکی ساری باتیں بہت گم ھو کر سن رھی تھیں۔ جب وہ چپ ھوا تو بڑی ٹھنڈی آہ بھر کر بولیں
" تو اس لیے تم چھٹی کے وقت وہ لنچ بکس گیٹ کیپر کو دے دیا کرتے تھے۔ " وہ کچھ سوچتے ھوئے بولیں۔ اور ڈاکڑ اسد زکاء نے انکی بات سن کر مسکرا کر سر جھکا دیا۔ مس راحیلہ اسے ڈھیروں دعائیں دے کر اپنے بیٹا بیٹی کے ساتھ چلیں گئیں۔ آج ڈاکڑ اسد زکاء بہت مطمئن محسوس کر رھا تھا۔
میری اس پوسٹ کا مقصد یہ ھے کہ اپنے بچوں کو شیئر کرنا سکھائیں۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی کلاس کے ایسے بچے کا مذاق اڑائیں جس کے پاس ان جیسا لنچ نہیں ھے وہ اس کے ساتھ شیئر کریں۔ ھمارے بڑے جب کہتے ھیں تو مجھے اور آپکو برا لگتا ھے۔ مگر یہ سچ ھے کہ جیسے جیسے ھمارے گھر بڑے ھو رھے ھیں ھمارے دل چھوٹے ھوتے جا رھے ھیں۔ قاسم علی شاہ صاحب کے ایک لیکچر میں مَیں نے سنا تھا کہ اپنے بچے کو ایکسڑا لنچ بکس دے کر تو دیکھو اسکی شخصیت میں کتنا نکھار آتا ھے۔ مجھے بھی یہی لگتا ھے جس دن ھمارے بچے لنچ شیئر کرنا سیکھ لیں گے۔ ھمارا ملک ترقی کرنے لگ جائے گا۔ کیونکہ ھمارا المیّہ ھی یہی ھے کہ ھم کسی دوسرے کو اپنے جیسا یا اپنے سے بہتر کھاتے نہیں دیکھ سکتے۔ پھر آگے نکلنے کی دوڑ میں ھم ایسا پڑتے ھیں کہ پھر ھمیں صحیح غلط کا فرق محسوس ھونا بند ھو جاتا ھے۔ اور احساس تب ھوتا ھے جب بہت دیر ھو چکی ھوتی ھے۔ تو اپنے بچے کو لنچ شیئر کرنا ضرور سکھائیں۔
دوسرا یہ کہ الله آپکی نیکی کا صلہ ضرور دیتا ھے جلد یا با دیر نیکی کا صلہ ضرور ملتا ھے۔ الله ھمارے لیے آسانیاں پیدا کرے اور ھمیں آسانیاں بانٹنے کی توفیق دے۔ امین

October 15, 2019

BUSINESS IDEAS, BE A ENTREPRENEUR


کاروبار، کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے

میرا ایک چائنیز کولیگ تھا، جو مجھ سے کئی سال چھوٹا تھا، مگر اس کا ذہن بہت کاروباری تھا۔ میرے ساتھ اکثر بزنس آئیڈیاز پر ہی بات کرتا تھا۔ مجھے ہمیشہ کہتا: ’’مسٹر خان اپنا پیسہ ایسی چیزوں میں کبھی نہ لگانا جن پر آپ خرچہ کریں۔ مثلاً ’’اگر آپ رہنے کے لیے گھر بناتے ہیں، تو آپ کا سرمایہ آپ کو کبھی فائدہ نہیں دے گا۔ الٹا آپ اس پر لگائیں گے۔ اگر آپ گاڑی لیتے ہیں، تو تیل خرچہ، مرمتی خرچہ اور ڈیپریشن سے آپ کا نقصان ہوگا۔ سرمایہ ان چیزوں میں لگانا جن سے آپ کو ریونیو ملے۔‘‘ میرا ایک اَن پڑھ رشتہ دار تھا، اس کا ذہن بھی چائنیز کی طرح تھا۔ وہ بھی اکثر یہی باتیں کرتا۔ اس رشتے دار کو تو میں جانتا تھا کہ اس نے ناخواندگی کے باجود اچھا خاصا سرمایہ اکھٹا کیا تھا، البتہ چائنیز کے بارے میں اس کے چائنیز دوستوں سے پوچھا، تو معلوم ہوا کہ چائنیز شہر “Nanjing” میں اس کے دو ذاتی گھر ہیں۔ بیجنگ اور شنگھائی کے بعد اقتصادی لحاظ سے یہ تیسرا بڑا شہر ہے۔ یہاں دو ذاتی گھر معمولی بات نہیں۔
قارئین، چند روز قبل مائیکرو اکانومی پر میں نے لکھا تھا۔ زندگی میں کامیابی کا اصل راز ’’استقامت‘‘ ہے۔ کاروبار میں سرمایہ نہیں دیکھا جاتا۔ ایک مشہور و معروف کتاب لکھی گئی ہے “Seven Habbits of Most Successful people” اس میں کامیاب لوگوں کی سات صفات بیان کی گئی ہیں۔ ان سات عادات میں سب سے زیادہ جو مجھے پسند آئی، وہ یہ ہے کہ ’’کامیابی کا اصل زینہ اپنے جذبات کو منیج کرنا ہے۔ کوئی بھی کام شروع کیا جائے، تو اس میں ذہانت و سرمایے سے زیادہ جذبات کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً ’’آپ کے پاس بیس ہزار روپے ہیں۔ آپ نے عمران خان وِژن یا بل گیٹ وِژن کے عین مطابق مرغیوں اور انڈوں سے اپنے بزنس کی ابتدا کی۔ آپ تعلیم یافتہ ہیں۔ اس کام پر بہت سارے لوگ آپ کا مذاق اڑائیں گے۔ رشتہ دار، محلے دار اور کزنز آپ کی تحقیر کریں گے۔ اب یہاں جذبات کو منیج کرنے سے ہی آپ آگے بڑھ سکیں گے۔ جذبات کو منیج نہ کیا گیا تو شدید مایوسی اور فرسٹریشن ہوگی۔ اور نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلے گا۔ اگر صبر، برداشت اور استقامت سے کام لیا گیا، تو کاروبار میں وسعت ہوگی، کامیابی ہوگی۔

پوری دنیا میں نے نہیں دیکھی، البتہ پاکستانی اور عرب معاشرت کو کنگالا ہے۔ پاکستان ہو یا عربستان، دونوں خطوں میں سرکاری بابو کی اہمیت کاروباری شخصیت سے زیادہ ہوتی ہے۔ عرب دوست مجھے بتاتے کہ یہاں کوئی ریالوں میں ارب پتی کیوں نہ ہو، لڑکیاں اس کو اتنا توجہ نہیں دیتیں جتنا ڈیمانڈ رشتوں میں ایک سرکاری بابو کا ہوتا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ عربوں میں بے پناہ دولت کے باجود معاشی عدم مساوات ہے۔ بے پناہ دولت کے ہوتے ہوئے بھی وہاں کے معاشرے غربت سے نہ نکل سکے۔ پاکستان میں بھی یہی حال ہے۔ 2004ء میں ہماری یونیورسٹی کے وائس چانسلر امتیاز گیلانی کا ایک انٹرویو ایک قومی اخبار میں شائع ہوا۔ گیلانی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’دنیا کے بڑے شہروں میں تعلیم یافتہ لوگ کاروبار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جب کہ پاکستان میں بالخصوص پختونخوا میں کروڑ پتی بزنس مین کو چھوڑ کر لوگ ایک سرکاری بابو کو رشتے میں ترجیح دیں گے۔‘‘ شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت تعلیم یافتہ نوجوان شدید بے روزگاری کا شکار ہیں۔ یعنی تعلیم یافتہ نوجوان اس وقت معاشرے کے لیے “Asset” کی بجائے ایک “Liability” بنے ہیں۔
قارئین، مَیں نے یونیورسٹی میں پڑھنے والوں پر ایک چھوٹی سی تحقیق کی ہے۔ میں جس کسی سے بھی ملتا ہوں، ایک سوال پوچھتا ہوں کہ سچ سچ بتائیں، فارغ ہونے کے بعد آپ کے دماغ میں کیا آتا ہے؟ تقریبا ’’سو فیصد‘‘ سٹوڈنٹس کا ایک ہی ملتا جلتا جواب سننے کو ملتا ہے۔ ’’فارغ ہوتے ہی جاب ملے، اے سی والے آفس میں میرے دستخط سے کام ہوتا ہو۔ بڑی گاڑی ہو۔ اچھا گھر ہو۔ ساتھ میں کسی بڑے گھر کی حسینہ ہو۔ گپیں ہوں۔ مزے ہوں۔ آئس کریم اور کافی ہو، اور بس!‘‘

اس سوچ نے ہمارے نوجوانوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ صرف ہمارے معاشرے کا نہیں تمام دنیا کے مسلمان شدید تنزلی کا شکار ہیں۔ تن آسانی اتنی کہ الفاظ نہیں۔ اکتوبر 2011ء کی بات ہے، میں اپنے جاب سائڈ جا رہا تھا۔ منی بس میں بیٹھا تھا۔ پلانٹ بڑا تھا۔ اپنے آفس پہنچنے کے لیے پلانٹ کے اندر کمپنی کی منی بس میں جانا ہوتا۔ ڈرائیور نے ایک سٹاپ پر گاڑی روکی، مگر ایک سعودی اس کی منتیں کرنے لگ گیا۔ میں نے سوچا کوئی بڑا مسئلہ ہوا، مگر جب توجہ دی تو وہ ڈرائیور سے ریکوسٹ پر ریکوسٹ کر رہا تھا کہ اسے آفس تک گاڑی میں لے جائیں۔ وہ بالکل صحت مند اور ہٹا کٹا تھا، مگر اسے گرمی لگ رہی تھی۔ اس کا آفس سٹاپ سے صرف دس میٹر کے فاصلے پر تھا۔ مَیں اس وقت کوئی مبالغہ آرائی نہیں کر رہا۔ بحیثیت اُمہ ہم گدھ بن چکے ہیں۔ تن آسانی نے ہمیں مفلوج کر رکھا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے حالات نہیں بدل رہے بلکہ روزافزوں تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔
برسبیلِ تذکرہ، کل ایک آرٹیکل پڑھ رہا تھا کہ پوری دنیا کی معیشت اس وقت یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔ اسرائیل کی آبادی 60 لاکھ ہے اور بہت ہی کم رقبہ، مگر وہ دنیا پر راج کر رہے ہیں۔ یہودی پیدائش کے ساتھ ہی بچوں کا ذہن کاروباری بناتے ہیں۔ سکولوں کالجوں میں یہی سکھاتے ہیں جب کہ مسلم معاشرے میں ’’سرکاری گدھ‘‘ بنانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ وائٹ کالر جاب سے کبھی معاشرے یا ریاستیں اوپر نہیں اٹھتے۔ کبھی ’’سرکاری گدھ گری‘‘ سے خاندان یا ریاستیں خود کفیل نہیں ہوتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے کاروبار کی اہمیت کو کس قدر خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے کہ ’’رزق کے دس میں سے نو حصے کاروبار میں ہیں۔‘‘ کاروبار کی اس سے زیادہ خوبصورتی کیا ہوگی، کہ اس میں بندے کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے، نیچے نہیں۔

پشاور میں یونیورسٹی روڈ پر ایک مشہور و معروف ریسٹورنٹ ہے جسے ہم ’’چیف برگرز‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کا مالک اس وقت ارب پتی ہے اور اس کے ارب پتی ہونے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے ’’چیف برگرز۔‘‘ دو تین عشرے پہلے چیف برگرز کا مالک یہاں ایک تھال میں برگرز بیچتا تھا، مگر جس طرح شروع میں بات کی کہ کامیاب لوگ وہ ہیں جو اپنے جذبات کو منیج کریں اور اپنے شروع کردہ کام میں، پراجیکٹ میں صبر و برداشت اور استقامت سے کام لیں۔ کتنے لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا ہوگا۔ شائد کسی نے رشتہ دینے سے بھی اس وجہ سے انکار کیا ہو کہ وہ تھال میں یا ریڑھی میں سامان بیچتا ہے۔
ہمارا ایک عزیز تھا۔ اس کی بنوں سٹی میں مارکیٹ تھی۔ ایک روز اس کے پاس ایک سادہ بندہ آیا۔ پوچھا کہ مارکیٹ خریدنی ہے۔ کتنے میں بیچوگے؟ اس نے ویسے ہی ٹرخانے کے لیے قیمت تھوڑی زیادہ بتائی۔ بندے نے جواباً کہا کہ ’’اُو کے‘‘ میں مشورہ کرتا ہوں، مجھے قبول ہے۔ اس نے خریدنے والے سے پوچھا کہ کیا کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ لکی گیٹ میں ’’بنوں والا میٹ‘‘ بیچتا ہوں۔ بنوں شہر میں جو پلاو بیچنے والے ہیں ان کی بڑے بڑے ٹینکرز اور بسیں چلتی ہیں۔ بنوں ٹاؤن شپ اور حیات آباد میں ان کے بنگلے ہیں جب کہ پی ایچ ڈی سکالرز سکوٹرز پر گھوم رہے ہیں اور ساری زندگی گزار کے ایک گھر نہیں بنا سکتے۔
پرسوں انجینئرنگ یونیورسٹی پشاور میں ایک ورکشاپ تھی، اس میں لیکچر دینے والے پروفیسر نے بتایا کہ وہ 21 گریڈ میں یو ای ٹی سے ریٹائر ہوئے۔ ساری زندگی کی جمع پونجی اور چارسدہ میں اپنی ساری جائیداد بیچ کر حیات آباد کے ایک کونے کھدرے میں ایک پرانا گھر بمشکل خریدا۔ اب کوئی کہے گا کہ حیات آباد میں تو زیادہ تر گھر پٹواریوں، سی اینڈ ڈبلیو یا ایگریشن میں کام کرنے والے معمولی ملازمین یا ڈپلومہ ہولڈرز کے ہیں، یا ایس ایچ اوز کے ہیں، تو جناب! یہی المیہ ہے۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ معولی تنخواہوں کے ہوتے ہوئے تم لوگ کیسے کروڑوں کے گھر کے مالک بنے؟ ضرور فرائضِ منصبی کا غلط فائدہ اٹھایا ہوگا، اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کیا ہوگا۔
نشست کا حاصل یہ ہے کہ افراد، خاندان اور قومیں کاروباری سرگرمیوں سے ترقی پاتی ہیں۔ نسل درنسل ترقی دیکھنی ہو، تو معاشی گدھ بننے کی بجائے معاشی شاہین پیدا کرنا ہوں گے۔ معاشرے کو اسلام کے احکامات کی روشنی میں کاروبار کی طرف لانا ہوگا۔ اس سے سود سمیت معاشی بگاڑ کے کئی پہلوؤں کو سیدھا کیا جا سکتا ہے۔ اللہ ہمیں توفیق دے،

آمین یا رب العالمین

تحریر:انجینئر انتظار خان

October 09, 2019

جسمانی قوت بڑھانے کا قدرتی ذریعہ کالے بھنے چنے



جسمانی قوت بڑھانے کا قدرتی ذریعہ کالے بھنے چنے۔۔۔۔
پروٹین ،فائبر،کیلشیم اور آئرن سے بھرپورکالے چنے صحت کے اعتبار سے بڑی اہمیت کے حامل جانے جاتے ہیں۔ذائقہ میں بہترین اور جسمانی قوت اور توانائی کاذریعہ ہیں۔کالے چنے کی خوبیاں تو بے شمار ہیں لیکن چند اہم خوبیاں ہیں جنھیں جان کر آپ اپنی روزمرہ خوراک میں بھنے چنے کااستعمال ضرور شروع کردیں گے۔
💫قوت مدافعت میں اضافہ
بھنے کالے چنے جسمانی قوت بڑھانے کے ساتھ ساتھ قوت مدافعت میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔اگر آپ چاہیں تو انکے چھوٹے چھوٹے پیکٹ بناکر ان میں منقہ یاکشمش ملاکر رکھ سکتے ہیں۔اسکے باقاعدگی سے استعمال کے بعد آپکو ڈاکٹر کے پا س جانے کی ضرورت شایدنہ پڑے۔
💫کولیسٹرول گھٹاتاہے
کولیسٹرول کم کرنے کے لئے اگر آپ بھنے کالے چنے کاباقاعدگی سے استعمال کریں تو کولیسٹرول کے مسئلے کو آپ آسانی سے حل کرسکتے ہیں ۔اسمیں موجود غذائی اجزاء فطری انداز میں کولیسٹرول کو کنٹرول رکھتے ہیں۔
💫۔ذیابیطس میں مفید
ذیابیطس کے مریض آسانی سے بھنے چنے کااستعمال کرسکتے ہیں کیونکہ اس میں گلیسیمک انڈکس کم ہوتاہے۔اسکے استعمال سے خون میں شکر کی مقدار میں توازن رہتاہے۔اور انرجی میں بھی کمی نہیں آتی۔
💫۔وزن کم کرتاہے
اگر آپ شام چار بجے ایک مٹھی چنے کا استعمال روزانہ کریں تو کولیسٹرول کم کرنے کے ساتھ ساتھ وزن میں بھی بغیر کسی نقصان کے نمایاں کمی کرسکتے ہیں۔اسمیں موجود پروٹین اور آئرن موٹاپا کم کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے ہونے والی کمزوری سے بھی بچاتاہے۔یعنی یہ جسمانی قوت بڑھاتے ہیں لیکن وزن نہیں۔
💫آنتوں کی صحت
بھنے چنے کااستعمال آنتوں کی صحت کو برقرار رکھ کر انھیں کمزور ہونے سے بچاتاہے۔آنتوں میں موجود بیکٹیریا کے خاتمے کے لئے مفید ہے اوراس میں موجود فائبر قبض اور دیگر نظام ہضم کے مسائل کی روک تھام کرتاہے۔
💫۔خواتین کی صحت
خواتین اگر بھنے چنے کااستعمال کریں تو اپنی روزمرہ کی تکالیف سے نجات حاصل کرسکتی ہیں اور جسمانی قوت میں بھی اضافہ کر سکتی ہیں۔خواتین کے پوشیدہ امراض سے نجات،وزن میں کمی اور انکی قوت مدافعت میں اضافے کے لئے بھنے چنے کا استعمال بہترین ہے۔
💫بچوں کی نشوونما
بھنے چنے کا استعمال نہ صرف بڑوں بلکہ بچوں کے لئے بھی بہت نفع بخش ہے۔اگر آپ اپنے بچے کی جسمانی قوت بڑھانا اور اسے بیماریوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں توبچوں کو اس میں کشمش اور مصری وغیرہ ملاکر کھلاسکتے ہیں۔
💫۔کھانسی سے نجات
کھانسی کی صورت میں بھنے چنے کااستعمال بہترین ہے۔کھانسی کے لئے بھنے کالے چنے دو چمچ،مصری ایک چمچ،کالی مرچ اور سفید مرچ آدھاآدھا چمچ لے کر پیس کر رکھ لیں۔صبح ناشتے اور رات کھانے سے دو گھنٹے پہلے کھالیں۔کھانسی ٹھیک ہوجائے گی ان شاءاللّٰہ


غذائیت کے اعتبار سے کالے چنو ں میں وہ اجز اء وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں جو مہنگی غذاؤں میں مو جو د ہو تے ہیں۔ مثلاً مچھلی، گو شت، فروٹ اور دو دھ وغیرہ کا لے چنوں میں پروٹین بیس فیصد،آئر ن سو لہ فیصد،فو لک ایسڈ چھ فیصد، کیلشیم پانچ فیصداور کاربو ہائیڈریٹس کی مقدار ستائیس فیصد ہے۔اس کے علاوہ اس میں وٹامن اے اور سی بھی پائے جاتے ہیں۔ چنا ایک ریشے دار خو راک ہے۔
کالے چنے کھانے سے جسم کو فور ی طاقت ملتی ہے۔
اس میں مو جو د فائبر معدے میں ایک جیل جیسا ما دہ پیدا کر تے ہیں جو قبض کو فوری دور کر تا ہے۔
معدے کی تمام تکالیف کے لیے کالے چنے فائدہ مند ہیں۔
ان میں کو لیسٹرول اور چکنائی کی مقدار زیرو ہو تی ہے۔
خشک ہو نے کی وجہ سے کو لیسٹرول کی مقدار کو جذ ب کر کے کم کر تے ہیں۔
ان میں شو گر کی مقدار زیرو ہو تی ہے۔یہ خو ن میں شو گر کی مقدار کو کنٹرول کر تے ہیں۔
اینیمیا یعنی خو ن کی کمی کے مریضوں کے لیے کسی دوا سے کم نہیں کیو نکہ اس میں وافر مقدار میں پایا جانے والا فو لا د اور فو لک ایسڈ خو ن کے سرخ ذرات کو پیدا کر تا ہے۔
سردیو ں میں نزلے کے مر یضوں کے لیے اکسیر ہے۔ کیو نکہ خشک ہو نے کی وجہ سے نمی اور فا سد مادوں کو اپنے اندر جذ ب کر تے ہیں۔نزلہ زکام کی صور ت میں چنے کا جو شاندہ مفید ہے۔
بھیگے ہو ئے چنے کھانے سے طاقت اور منی میں اضا فہ ہو تا ہے۔
کالے چنے کھانے سے بھرپور نیند آتی ہے۔
بالوں کی مضبوطی کے لیے ان کا استعمال اکسیر ہے ۔
اس میں پایا جانے والا کیلشیم ہڈیو ں کی بناوٹ اور مضبو طی میں اہم کر دار ادا کر تا ہے۔
پھو ڑا اور پھنسیو ں اور کو ڑھ کی بیماریا ں دور کر تے ہیں۔
اگر کسی کو جریا ن کا مسئلہ ہے تو ۲۰۰ کالے چنے ڈیڑ ھ تو لا تر پہلا کے ساتھ بارہ تو لہ پانی میں چوبیس گھنٹے کے لیے بھگو کر رکھیں۔ جب پھول جائیں تو ایک ایک چبا کر کھا لیں۔ ایسا کر نے سے اکیس دنوں میں دھات کا پتلا پن، احتلام اور سرعت انزال میں مفید ہے۔
دل کی خشکی اور گر می کو مٹانے کے لیے بھیگے ہوئے چنے امرت کا کام دیتے ہیں۔
پیشا ب کی جلن کو دور کر تے ہیں۔
سانس کے مریضوں کے لیے بہترین دو ا ہے سانس کے مر یض اس کا استعمال خالی پیٹ کر یں۔
مو ٹاپے کے لیے مفید ہے۔ کالے چنے کھا کر چو نکہ پیا س زیادہ لگتی ہے۔ اس لیے اس سے بھو ک کی شدت کا احساس نہیں ہو تا
جسم کی گر می کے لیے کالے چنوں کا استعمال بے حد مفید ہے۔ اس کے بعد پیا جانے والا پانی جب پیشاب کے رستے خارج ہو تا ہے تو جسم کی گر می کو بھی ساتھ نکالتا ہے۔
چھاتی کے کینسر میں مفید ہیں۔
لیکو ریا میں مفید ہیں۔
ہارمو نز کے مسائل کے حل میں مد د دیتے ہیں۔نیز کمر درد کے لیے انتہائی فا ئدہ مند ہیں۔

October 08, 2019

PAKISTAN ARMY BUDGET & LIBERLS




ٹیکس خور فوج
پہلے پوری تحریر پڑھ لیں پھر اپنی رائے دیں، شکریہ
ہمارے ٹیکسوں پر پلتی فوج،
ہمارے ٹیکسوں سے لی گئی بندوقیں،
ہمارے ٹیکسوں سے تنخواہ لیتی فوج،
ہمارے ٹیکس سے ہی ہمارے ٹیکسوں سے ہی وغیرہ وغیرہ۔
یہ گردان عام سنی ہوگی آپ نے مگر حساب نہیں کیا ہوگا۔ چنانچہ آج میں نے سوچا آپ احباب کے سامنے افواج کی ٹیکس خوری کا بھانڈہ پھوڑ ہی دوں۔

پہلے پہل تو یہ رٹ بھی لگائی گئی تھی کہ فوج 70 سے 80 پرسنٹ بجٹ کھا جاتی ہے ملک کا۔ خیر جب اِس چول کے جواب میں ان دانشور حضرات کو فگرز نکال کر دکھائے گئے تو بوتھا شریف بند ہو گیا۔ کیونکہ لیٹسٹ بجٹ میں تمام تر انکریمنٹ لگنے کے بعد بھی ٹوٹل کا 18 پرسنٹ تھا جو دفاعی بجٹ کے لیے مختص کیا گیا۔ چلیں اِسی کو لے کر چلتے ہیں کہ اِن 18 پرسنٹ سے فوج کیا کیا گُلچھرے اڑاتی ہے۔
8 لاکھ فوج کی نقل و حرکت کے لیے گاڑیاں اِن 18 پرسنٹ میں،
ہزاروں گاڑیوں کا فیول اِن 18 پرسنٹ میں،
ہزاروں گاڑیوں کی مینٹینس/ریپئرنگ ان 18 پرسنٹ میں،
میڈیکل اِن 18 پرسنٹ میں،
ادویات اِن 18 پرسنٹ میں،
مشینری اِن 18 پرسنٹ میں،
میزائل اِن 18 پرسنٹ میں،
راکٹ اِن 18 پرسنٹ میں،
تمام قسم کے بم اِن 18 پرسنٹ میں،
بندوقیں اِن 18 پرسنٹ میں،
گولیاں بھی اِن 18 تک پرسنٹ میں،
ٹینک اِن 18 پرسنٹ میں،
توپیں اِن 18 پرسنٹ میں،
مارٹر اِن 18 پرسنٹ میں،
رہائشیں اِن 18 پرسنٹ میں،
8 لاکھ فوج کا کھانا پینا اِن 18 پرسنٹ میں،
8 لاکھ فوج کی رہائش اِن 18 پرسنٹ میں،
8 لاکھ فوج کے یونیفارم بھی اِن 18 پرسنٹ میں،
بیرکوں/کیمپوں کی تعمیر و مرمت اِن 18 پرسنٹ میں،
فوجی دفتروں کی کرسی سے لے کر تمام فرنیچر تک اِن 18 پرسنٹ میں،
اِسٹیشنری کا ایک ایک سامان بھی اِن 18 پرسنٹ میں،
تمام تر فوجی جوانوں کی زمینی، ہوائی اور بحری ٹریننگ اِن 18 پرسنٹ میں،
موبائل اور فیلڈ فون سے لے کر واکی ٹاکی تک تمام کی تمام کمیونیکیشن اِن 18 پرسنٹ میں،
کمپیوٹرز، لیپ ٹاپز وغیرہ اِن 18 پرسنٹ میں
فائیٹر جیٹ، گن شپ ہیلی کاپٹر بھی اِن 18 پرسنٹ میں
بحری جہاز بھی اِن 18 پرسنٹ میں
اور اِن سب کا فیول بھی اِن 18 پرسنٹ میں
فوجی بیسز، رن وے، ہیڈ کوارٹرز تمام تر اِنفراسٹریکچر اِن 18 پرسنٹ میں
انٹیلیجنس کے لیے تمام سیٹ اپ بھی اِن 18 پرسنٹ میں
ایجنسیز کا تمام خرچہ بھی اِن 18 پرسنٹ میں
بیرونِ ملکی کورسز بھی شامل اِن 18 پرسنٹ میں
8 لاکھ فوجیوں کی تنخواہیں وغیرہ بھی اِن 18 پرسنٹ میں۔
اچھا زرا اور سنیئے، یہ تو بخدا کچھ بھی نہیں، یہ وہ تھا جو بچہ بچہ جانتا ہے، یہ تو وہ تھا جو ایک ایک سویلین جانتا ہے، فوج کے خرچے دفاع کے خرچے کیا ہیں، ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کیسے ہوتی ہم کیا جانیں، تم کیا جانو۔ دو ٹکے کے فیسبکی دانشوڑ جسے فوجی ٹریننگ کے دوران تیس سیکنڈ میں ضائع ہو جانے والے پیراشوٹ کی قیمت تک نہیں معلوم تم کیا جانو گے، وطنِ عزیز کی حفاظت پر آنے والے خرچ کو ایٹمی اثاثوں کی حفاظت پر آنے والے خرچ کو۔
بات کرتے ہیں کام کی، سروس کی، کہ فوج کیا کرتی ہے؟
فوج بارڈر پر کھڑی،
فوج سمندر میں اُتری،
فوج فضا میں بُلند،
فوج سیاچن کی بلند وبالا چوٹیوں پر،
فوج سبی کی تپتی ہوئی دھوپ میں،
دہشتگردوں کے خلاف جانیں گنواتی یہ فوج،
انڈیا، امریکہ، اسرائیل کے خلاف محاذ آراء یہ فوج،
عالمی صیہونی طاقتوں کے نشانے پر یہ فوج،
سر زمین پاک کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کرتی یہ فوج،
جن سیاستدانوں کے تم تلوے چاٹتے اِن کی محافظ یہ فوج،
آپریشن ضرب عضب میں جانیں دیتی یہ فوج،
آپریشن راہِ نجات میں قربان ہوتی یہ فوج،
آپریشن خیبر ون، ٹو، تھری، فور پر لڑتی یہ فوج،
آپریشن رد الفساد میں جان دیتی یہ فوج،
زلزلے میں فوج،
سیلاب میں فوج،
بارشوں میں فوج،
طوفان میں فوج،
حادثات میں فوج،
الیکشن میں فوج،
مردم شماری میں فوج،
ریسکیو میں فوج،
پھر بھی تم بکواس کرتے ہو فوجی پر،
اِس فوجی پرجو اپنی خوشیاں قربان کرتا ہے۔
اِس فوجی پر جو ہر عید، شب برات میں سرحد پر کھڑا ہوتا ہے۔
اس فوجی پر جس کو اپنی شادی کے لیے بھی تین چھٹیاں ملتیں ہیں۔
اس فوجی پر جس کی منکوحہ رُخصت ہونے سے پہلے اکثر بیوہ ہو جاتی ہے۔
اس فوجی پر جو تمہارے بچوں کی حفاظت کے لیئے 6، 6 مہینے اپنے بچے کا چہرہ نہیں دیکھتا۔
تم بکواس کرتے ہو ان فوجیوں پر جنھوں نے اپنا پیٹ کاٹ کے ایک ایک دن کی تنخواہ اِس پاک سر زمین کے نام کی، کہ کل کو ہم سب کے بچے پیاسے نہ مریں۔ یہ سب اور بہت کچھ کرتی ہے فوج تمھارے ٹیکسوں سے۔ جو میں شائید ٹھیک سے بتا نہ سکوں، گنوا نہ سکوں۔
یہ ہے فوج جس پر تم بھونکتے ہو، کیونکہ تمھیں اِس بھونکنے پر ہڈی ڈالی جاتی ہے اور سن لو انسان نما کتوں مجھ سمیت ہر غیرت مند پاکستانی کی للکار سن لو ہماری کھلی جنگ ہے تم تمام سے جو بکواس کرتے ہیں دینِ حق پر، وطنِ عزیز پر اور اِس پاک سر زمین کے بہادر سپوتوں یعنی افواجِ پاکستان پر اور ہاں یہ 18 پرسنٹ دے کر احسان نہیں کر رہے تم، یہ ایسے ہی جیسے باقی کے 82 پرسنٹ دے کر تم احسان نہیں کر رہے۔ ذرا مانگو ناں اُن 82 پرسنٹ کا حساب، وہ بھی تو تمھارے ہی ٹیکسز کے پیسے ہیں۔
یہ وہ 82 پرسنٹ ہیں جو تم سیاستدانوں کو دیتے ہو۔
جن کے بدلے وہ تمھارے بچوں کو گاڑیوں تلے روند جاتے۔ جن کے بدلے وہ تمھاری زمینوں پر قبضے کر لیتے ہیں، جن کے بدلے وہ تم میں سے کئی کی بہن، بیٹیوں کی عزتوں کو نوچ لیتے ہیں۔ جن 82 پرسنٹ سے وہ کئی کنالوں کے بنگلوں میں اپنی نسلوں کو عیش کرواتے۔ جن کے بدلے وہ سالوں پوری دنیا میں عیاشیاں کرتے۔ جس 82 پرسنٹ سے اربوں کھربوں کی جائیدادیں بناتے ہیں۔ اور تو تم لیٹ جاتے ہو اُن کے سامنے اپنی تشریف رگڑتے ہو وہ تمھیں کتے کی طرح ذلیل کرتے ہیں اور تم سب پھر بھی جئے جئے کے نعرے لگاتے ہو۔ تمہارا بس نہیں چلتا کہ اپنے گلے میں پٹہ ڈال کر اِن سیاستدانوں کے پیچھے پیچھے دُم ہلاتے پھرو۔
تم حساب لو ناں ان 82 پرسنٹ کا بھی جو تم بیوروکریٹس کو دیتے ہو۔ جو تمھاری زمینوں میں کروڑوں کا غبن کرتے ہیں، جو تحصیلدار سارا سارا دن آفس میں بٹھا کے ذلیل کرتے ہیں، جو کلرک دفتروں میں تم سے ہزاروں کی رشوت لیتے ہیں، وہاں کیوں نہیں یاد آتا تمھیں ٹیکس، وہاں کیوں کتے کی طرح زبان نکلی ہوئی ہوتی ہے تمھاری۔
تم حساب لو ناں اِن 82 پرسنٹ کا جو ڈاکٹروں کو دیتے ہو۔
اُس ڈاکٹر کو جس کے تم پاؤں پڑتے ہو کہ آخری سانسوں پر اٹکے تمہارے بچے کو دیکھ لے اور وہ ٹھوکر مار کے کہتا میرے کلینک پر لے آؤ وہاں دیکھوں گا۔
تم حساب لو نہ اُن 82 پرسنٹ کا جو تم دیتے ہو پولیس والوں کو۔
اُن میں وہ پولیس والے بھی ہوتے ہیں جو تم پر ناجائز مقدمات بناتے ہیں، جو تمھارے بوڑھے باپ کو گھر سے اُٹھا کے لے جاتے ہیں، جو جھوٹے کیس بنا کے تشدد کرتے ہیں جو لاکھوں کی رشوت لے کر بھی سالوں تک ذلیل کرتے ہیں۔ وہاں تو تمھاری صاب جی صاب جی بند نہیں ہوتی۔ اُن کے سامنے تو رالیں ٹپکا رہے ہوتے ہو۔ اُن کے سامنے تو جی حضوری ایسے کرتے ہو کہ جیسے اُنھیں باپ بنا لیا ہو۔ ذرا کرو نہ یہاں بھی بات ٹیکسز کی۔۔۔!!
(پولیس کا پورا محکمہ بُرا نہیں ہمارا ٹارگٹ صرف گندے انڈے ہیں)
چلیں چھوڑیں بات جو نکلے گی تو دُور تلک جائے گی۔
ختم کرتا ہوں مگر جاتے جاتے یہ بتا دوں کہ تم جن 18 پرسنٹ پر اُچھلتے رہتے ہو وہ جنرل باجوہ کو نہیں دیتے، کہ لو باجوہ صاحب بانٹ دیں۔ وہ بھی تم انہی سیاستدانوں کو دیتے ہو جن کے دن رات تلوے چاٹتے ہو، وزارتِ دفاع کو دیتے ہو، انہی سیاستدانوں کو جنہیں باقی کے 82 پرسنٹ دیتے ہو۔
لیکن اب بس، اب تمھاری بکواسیات سننے والا کوئی نہیں کیونکہ یہ عوام پہچان چکی ہے اپنے محسنوں کو، اپنے محافظوں کو، افواجِ پاکستان کو اور اُن کے اندر مؤجزن پاک سرزمین کی محبت کو۔
پاکستان زندہ باد 🇵🇰
افواجِ پاکستان ہمیشہ پائندہ باد

October 07, 2019

FAZAL U REHMAN DHARNA IN ISLAMABAD FOR ISLAM OR KURSI




مولانا صاحب ! عرض گزارش یہ ہے ! (حصہ اول )
کیا میں کچھ سوالات پوچھنے کی جرات کرسکتا ہوں , کیوں کہ فتوے داغنا آپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے...
میں مذہبی معاملات سے شروع کرتا ہوں کیوں کہ آپ کا سب سے بڑا کارڈ مذہب کو استعمال کرنا ہے ... پھر دوسرے معاملات کی طرف آوں گا ...
(1) آپ کو عمران خان سے کونسی باتوں پر اختلاف ہے ؟
اگر آپ کا اختلاف یہودی ایجنٹ ہونے پر ہے تو آپ کئی سالوں سے کہ رہے ہیں کہ میرے پاس ثبوت ہیں تو وہ ثبوت دکھائے . بغیر ثبوت دکھائے آپ کسی پر یہودی ایجنٹ کا فتوی کیسے لگا سکتے ہے .
(2)آپ نے یہودی ایجنٹ ہونے کے ثبوت اب تک کیوں چھپائے ہیں؟
شریعت کے روں سے اگر عمران خان یہودی ایجنٹ ہیں اور آپ نے وہ ثبوت چھپا رکھے ہیں, پھر تو آپ پوری امت مسلمہ کا مجرم ہیں. کیوں کہ ٹھوس ثبوت ہونے کے باوجود آپ اسے قوم سے چھپا رہے ہیں...
اور اگر آپ صرف امکان کے حد تک کہ رہے ہیں یا شک ہیں تو پھر تو آپ شریعت کے روں سے سب سے بڑے مجرم ہیں جو صرف شک یا امکان کے بنیاد پر آپ اس پر فتوی داغ رہے ہیں.
(3) آپ کسی واقعے کو لے کر عمران خان پر یہودی ایجنٹ ہونے کا فتوی داغ رہے ہیں؟
اگر کسی واقعے کو لے کر آپ یہودی ایجنٹ ہونے کا فتوی داغ رہے ہیں مثلا میاں عاطف کو لے لیں...
تو جناب عرض یہ ہے کہ عمران خان نے اسے صرف مشیر بنایا تھا اور مشیر صرف مشورہ دے سکتا ہے کام نہیں کروا سکتا...
اور ان کے نظر میں اقتصادی مشیر کے طور پر ٹھیک تھا , لیکن آپ نے اسے مسترد کیا اور انہوں نے اسے ہٹادیا .. بات ختم....
اس کے علاوہ آپ کے پاس کوئی پروپیگنڈہ کرنے کی بات نہیں...
(4) عمران خان قادیانی ایجنٹ ہے ؟
اس بابت عمران خان خود ان کی جماعت کئی دفعہ وضاحت دے چکے ہیں, خود کہ چکے ہیں کہ میں سنی مسلمان ہوں بلکہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ببانگ دہل اس کا نا صرف اقرار کرچکے ہیں بلکہ پورے مغرب کو اس سلسلے میں للکار چکے ہیں..
جامعہ حقانیہ آچکے ہیں وہاں سے باقاعدہ تحریری طور پر وضاحت لکھ چکے ہیں ..
اس کے بعد اور کونسا سرٹیفکیٹ اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے ضروری ہیں ؟
دین اسلام تو اتنا ہی آدمی کو مکلف کرتا ہے , اس سے زیادہ نہیں...
یا آپ مولانا صاحب دلوں کی حال سے واقف ہیں تو بتائے تاکہ آپ کی ایمان کی تصحیح کی جائے ....
لیکن اگر اس کے باوجود آپ قادیانی ہونے کا فتوی داغنا دین سمجھتے ہیں تو پھر آپ دین سے نا واقف ہیں...
(5) آسیہ مسیح کو رہا کردیا ؟
آسیہ مسیح کو عدالت نے بری کردیا ہے جس کا آخرت اور دنیا کے اعتبار سے ذمہ دار عدالت ہیں عمران خان نہیں.
آسیہ مسیح کو عدالت نے ثبوتوں کے ناکافی ہونے کے بنا پر رہا کردیا ہیں, اگر مولانا صاحب آپ کو اس کیس کی اتنی فکر ہوتی تو آپ عدالت میں اسے چیلنج کرتے , دوبارہ اس پر تحقیقات کا مطالبہ کرتے.
کیا آپ نے اس کیس میں ذرا برابر بھی کردار ادا کیا ہے ؟ کسی وکیل کا خرچہ ادا کیا ہے ؟
اگر جواب نفی میں ہے جیسا کہ ظاہر ہے تو پھر آپ کے مذہبی جماعت کا فائدہ کیا ہے ؟.....


Total Pageviews