December 30, 2019

Animal Shed Heating Technology|Reduce Mortality in Winter|جانوروں کا شیڈ...

< سردیوں میں جانور سردی کی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں اور مر بھی جاتے ہیں۔ جانوروں کے باڑے کو کیسے گرم رکھا جا سکتا ہے، صرف 35 روپے میں رات بھر کمرا گرم رہے گا۔ اسے گھر میں بطور ہیٹر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔>

December 23, 2019

DAJJAL , IMAM MEHDI A.S. & Hazrat ESSA A.S

دجال.....

دجال یہودیوں کی نسل سے ہوگا جس کا قد ٹھگنا ہو گا. دونوں پاؤں ٹیڑھے ہوں گے ۔ جسم پر بالوں کی بھر مار ہوگی۔ رنگ سرخ یا گندمی ہو گا۔ سر کے بال حبشیوں کی طرح ہوں گے۔ ناک چونچ کی طرح ہو گی۔ بائیں آنکھ سے کانا ہو گا۔ دائیں آنکھ میں انگور کے بقدر ناخنہ ہو گا۔ اس کے ماتھے پر ک، ا، ف، ر لکھا ہو گا جسے ہر مسلمان بآسانی پڑھ سکے گا۔

اس کی آنکھ سوئی ہوئی ہوگی مگر دل جاگتا رہے گا۔ شروع میں وہ ایمان واصلاح کا دعویٰ لے کر اٹھے گا، لیکن جیسے ہی تھوڑے بہت متبعین میسر ہوں گے وہ نبوت اور پھر خدائی کا دعویٰ کرے گا۔
اس کی سواری بھی اتنی بڑی ہو گی کہ اسکے دونوں کانوں کا درمیانی فاصلہ ہی چالیس گز کاہو گا. ایک قدم تاحد نگاہ مسافت کو طے کرلے گا۔

دجال پکا جھوٹا اور اعلی درجہ کا شعبدے باز ہو گا۔ اس کے پاس غلوں کے ڈھیر اور پانی کی نہریں ہو ں گی۔ زمین میں مدفون تمام خزانے باہر نکل کر شہد کی مکھیوں کی مانند اس کے ساتھ ہولیں گے۔
جو قبیلہ اس کی خدائی پر ایمان لائے گا، دجال اس پر بارش برسائے گا جس کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزیں ابل پڑیں گے اور درختوں پر پھل آجائیں گے۔

کچھ لوگوں سے آکر کہے گا کہ اگر میں تمہارے ماؤں اور باپوں کو زندہ کر دوں تو تم کیا میری خدائی کا اقرار کرو گے۔۔؟
لوگ اثبات میں جواب دیں گے۔
اب دجال کے شیطان ان لوگوں کے ماؤں اور باپوں کی شکل لے کر نمودار ہوں گے۔ نتیجتاً بہت سے افراد ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

اس کی رفتار آندھیوں سے زیادہ تیز اور بادلوں کی طرح رواں ہو گی۔ وہ کرشموں اور شعبدہ بازیوں کو لے کر دنیا کے ہر ہر چپہ کو روندے گا۔
تمام دشمنانِ اسلام اور دنیا بھر کے یہودی، امت مسلمہ کے بغض میں اس کی پشت پناہی کر رہے ہوں گے۔ وہ مکہ معظمہ میں گھسنا چاہے گا مگر فرشتوں کی پہرہ داری کی وجہ سے ادھر گھس نہ پائے گا۔ اس لئے نامراد وذلیل ہو کر واپس مدینہ منورہ کا رخ کرے گا۔

اس وقت مدینہ منورہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر فرشتوں کا پہرا ہو گا۔ لہذا یہاں پر بھی منہ کی کھانی پڑے گی۔
انہی دنوں مدینہ منورہ میں تین مرتبہ زلزلہ آئے گا۔ جس سے گھبرا کر بہت سارے بے دین شہر سے نکل کر بھاگ نکلیں گے۔ باہر نکلتے ہیں دجال انہیں لقمہ تر کی طرح نگل لے گا۔

آخر ایک بزرگ اس سے بحث و مناظرہ کے لئے نکلیں گے اور خاص اس کے لشکر میں پہنچ کر اس کی بابت دریافت کریں گے۔ لوگوں کو اس کی باتیں شاق گزریں گی۔ لہذا اس کے قتل کا فیصلہ کریں گے مگر چند افراد آڑے آکر یہ کہہ کر روک دیں گے کہ ہمارے خدا دجال (نعوذ بااللہ) کی اجازت کے بغیر اس کو قتل نہیں کیا جاسکتا ہے.

چنانچہ اس بزرگ کو دجال کے دربار میں حاضر کیا جائے گا. جہاں پہنچ کر یہ بزرگ چلا اٹھے گا : "میں نے پہچان لیا کہ تو ہی دجال ملعون ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تیرے ہی خروج کی خبر دی تھی۔"
دجال اس خبر کو سنتے ہی آپے سے باہر ہو جائے گا اوراس کو قتل کرنے کا فیصلہ کرے گا۔ درباری فوراً اس بزرگ کے دو ٹکڑے کر دیں گے۔

دجال اپنے حواریوں سے کہے گا کہ اب اگر میں اس کو دوبارہ زندہ کر دوں تو کیا تم کو میری خدائی کا پختہ یقین ہو جائے گا۔ یہ دجالی گروپ کہے گا کہ ہم تو پہلے ہی سے آپ کو خدا مانتے ہوئے آرہے ہیں، البتہ اس معجزہ سے ہمارے یقین میں اور اضافہ ہو جائے گا ۔

دجال اس بزرگ کے دونوں ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے زندہ کرنے کی کوشش کرے گا ادھر وہ بزرگ بوجہ حکم الہی کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے اب تو مجھے اور زیادہ یقین آ گیا ہے کہ تو ہی دجال ملعون ہے۔
وہ جھنجھلا کر دوبارہ انہیں ذبح کرنا چاہے گا لیکن اب اسکی قوت سلب کر لی جائے گی۔
دجال شرمندہ ہوکر انہیں اپنی جہنم میں جھونک دے گا لیکن یہ آگ ان کے لئے ٹھنڈی اور گلزار بن جائے گی۔

۔اس کے بعد وہ شام کا رخ کرے گا۔ لیکن دمشق پہنچنے سے پہلے ہی حضرت امام مہدی علیہ السلام وہاں آچکے ہوں گے۔

دجال دنیا میں صرف چالیس دن رہے گا۔ ایک دن ایک سال دوسرا دن ایک مہینہ اور تیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا۔ بقیہ معمول کے مطابق ہوں گے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام دمشق پہنچتے ہی زور وشور سے جنگ کی تیاری شروع کردیں گے لیکن صورتِ حال بظاہر دجال کے حق میں ہوگی۔ کیونکہ وہ اپنے مادی و افرادی طاقت کے بل پر پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا چکا ہو گا۔ اس لئے عسکری طاقت کے اعتبار سے تو اس کی شکست بظاہر مشکل نظر آ رہی ہو گی مگر اللہ کی تائید اور نصرت کا سب کو یقین ہو گا ۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام اور تمام مسلمان اسی امید کے ساتھ دمشق میں دجال کے ساتھ جنگ کی تیاریوں میں ہوں گے۔
تمام مسلمان نمازوں کی ادائیگی دمشق کی قدیم شہرہ آفاق مسجد میں جامع اموی میں ادا کرتے ہوں گے۔
ملی شیرازہ ،لشکر کی ترتیب اور یہودیوں کے خلاف صف بندی کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت امام مہدی علیہ السلام دمشق میں اس کو اپنی فوجی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں گے۔ اور اس وقت یہی مقام ان کا ہیڈ کواٹر ہو گا۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام ایک دن نماز پڑھانے کے لئے مصلے کی طرف بڑھیں گے تو عین اسی وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزو ل ہوگا۔

نماز سے فارغ ہو کر لوگ دجال کے مقابلے کے لئے نکلیں گے۔ دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر ایسا گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ کر اس کو قتل کر دیں گے اور حالت یہ ہوگی کہ شجر و ہجر آواز لگائیں گے کہ اے روح اللہ میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ دجال کے چیلوں میں سے کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے۔

پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب کو توڑیں گے یعنی صلیب پرستی ختم کریں گے۔
خنزیر کو قتل کر کے جنگ کا خاتمہ کریں گے اور اس کے بعد مال ودولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا اور لوگ ایسے دین دار ہو جائیں گے کہ ان کے نزدیک ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔

(مسلم، ابن ماجہ، ابوداود، ترمذی، طبرانی، حاکم، احمد)

اللّٰہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کا ایمان سلامت رکھے۔
آمین ثم آمین یارب العالمین

(یاد رہے کہ فتنہ دجال سے آگاہی تمام انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے جبکہ آج یہ سنت مٹ چکی ہے.

December 21, 2019

AAFIA SIDDIQUI CASE , AMERICA & GEN MUSHARRAF




عافیہ صدیقی سے متعلق کچھ حقائق 

عافیہ صدیقی ایک ماہر نیورالوجسٹ تھیں ۔ اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ امریکہ میں گزارا اور وہ امریکی شہریت رکھتی تھیں ۔ اس نے دو شادیاں کی ہیں جن میں پہلی شادی پسند کی تھی۔

امریکہ کا دعوی ہے کہ "انہیں القاعدہ سے تعلقات کے شبے میں پکڑا گیا ہے۔ خالد شیخ محمد نے دوران تفتیش انکا نام لیا تھا اور وہ القاعدہ کے لیے رقوم بھی منتقل کرتی تھیں۔ گرفتاری کے بعد قید کے دوران اسنے امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر ان پر فائرنگ کی ۔ جسکی وجہ سے انہیں سزا سنائی گئی۔ "
( یہ امریکی الزامات ہیں آپ نظر انداز کر سکتے ہیں)

آگے بڑھنے سے پہلے ایک سوال ۔۔

مشرف نے کب اور کہاں عافیہ صدیقی کو امریکہ کے ہاتھ بیچنے کا اعتراف کیا ہے؟

اس سوال کا جواب مجھے آج تک نہیں ملا۔

اب آتے ہیں اصل مضمون پر۔۔۔۔

یہ بات قطعاً جھوٹ ہے کہ عافیہ صدیقی ہی بگرام جیل کی قیدی نمبر 650 تھیں۔

معظم بیگ وہ شخص ہے جس کے بیان پر عافیہ کو قیدی نمبر 650 بنا دیا گیا۔
مگر معظم بیگ فروری 2002 میں بگرام جیل لایا گیا، اور پھر اسکے ایک سال بعد ٹھیک 2 فروری 2003 کو وہ بگرام سے گوانتاناموبے کی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔
جبکہ عافیہ اسکے دو مہینے بعد تک کراچی میں اپنی فیملی کے ساتھ موجود تھیں اور وہ یکم اپریل 2003 کو روپوش ہوئیں۔ جبکہ معظم بیگ جس قیدی عورت کے چیخنے کی آوازیں سننے کی بات کرتا تھا، وہ تو معظم بیگ سے بھی پہلے جیل میں موجود تھی۔
تو اب کوئی عقلمند یہ بتا سکتا ہے کہ پھر صدیقی فیملی، مس ریڈلی اور قوم کے دانشوران نے سالہا سال کی عافیہ کیس پر تحقیق کے بعد بھی عافیہ کو قیدی نمبر 650 کیوں بنا کر پیش کرتے رہے؟

درحقیقت عافیہ صدیقی کی امریکنز کے ہاتھوں گرفتاری 2008ء کے بعد ہوئی جس وقت مشرف کی حکومت ختم ہو چکی تھی۔ اس دوران یہ اپنے ماموں شمس الدین، مفتی ابولبابہ شاہ منصور اور مفتی رفیع عثمانی سمیت کئی لوگوں سے رابطے میں رہیں اور اسی دوران اس نے القاعدہ کے لیے حیاتیاتی ہتھیار بھی بنانےکی کوشش کی۔

22 مئی 2009 کو امت اخبار میں عافیہ کے سابق شوہر ڈاکٹر امجد کا طویل انٹرویو شائع ہوا ہے جس سے معلوم ہوا کہ عافیہ نے اپنی روپوشی کا ڈرامہ خود رچایا تھا۔ اس انٹرویو کے چیدہ چیدہ اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

1۔ عافیہ جنونی کیس ہے۔
2۔ عافیہ اگر جہادی تنظیموں کی ممبر نہیں تھیں، مگر پھر بھی عافیہ کے جہادی تنظیموں سے رابطے تھے، اور خالد شیخ گروپ سے بھی رابطے تھے، امریکہ میں بھی اور پاکستان میں بھی۔ نیو ہمپشائر میں گروپ کے ساتھ کیمپنگ کیا کرتیں جس کا مقصد جہاد کی تیاری تھا جس میں پانچ چھ بار وہ خود لے کر گئے۔ نیز انہوں نے نائٹ ویژن اسکوپ اور دو بلٹ پروف شکاری جیکٹس، سی فور دھماکہ خیز مواد بنانے کے مینوئل وغیرپ خریدے جس کی وجہ فطری دلچسپی اور شکار بتائی اور ان کی خرید و فروخت ممنوع نہیں تھی ملک سے باہر لے جانا ممنوع تھا۔
3۔ جب پہلی مرتبہ امریکی اداروں نے ان کا انٹرویو لیا تو عافیہ نے جان بوجھ کر ان ادارے والوں سے جھوٹ بولنا شروع کر دیا، حالانکہ تمام چیزں بینک سٹیٹمنٹ وغیرہ کے ذریعے ثابت تھیں اور ناقابل انکار تھیں (یعنی بلٹ پروف جیکٹیں اور نائٹ ویژن اسکوپ وغیرہ۔ جب ڈاکٹر امجد نے اس کی وجہ پوچھی تو عافیہ کہنے لگیں کہ کافروں کو انکے سوالات کے صحیح جوابات دینا جرم ہے اور ان سے جھوٹ بولنا جہاد۔ [پتا نہیں پھر وہ کافروں کے ملک امریکہ گئی ہی کیوں تھیں]
4۔عافیہ کے اس جھوٹ کے بعد ڈاکٹر امجد اور عافیہ امریکہ میں مشتبہ ہو گئے اور انہیں امریکا چھوڑ کر پاکستان شفٹ ہونا پڑا۔
5۔ پاکستان شفٹ ہونے کے بعد عافیہ نے ڈاکٹر امجد کو افغانستان میں جہاد پر جانے کے لیے لڑائی کی اور نہ جانے کی صورت میں طلاق کا مطالبہ کیا۔
6۔ دیوبند مکتبہ فکر کے مشہور عالم مفتی رفیع عثمانی نے عافیہ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر بات نہ بنی۔
7۔ بہرحال طلاق ہوئی۔ مگر ڈاکٹر امجد بچوں سے طلاق کے بعد سے لیکر اب تک نہیں مل سکے ہیں۔ وجہ اسکی عافیہ اور اسکی فیملی کا انکار ہے۔ یہ ایک باپ پر بہت بڑا ظلم ہے جو بنت حوا اور اسکے حواریوں کی جانب سے کیا گیا اور ابھی تک کیا جا رہا ہے۔
8۔ 2003 میں عافیہ نے خالد شیخ کے بھانجے عمار بلوچی سے دوسری شادی کر لی تھی، مگر اسکو خفیہ رکھا گیا، ورنہ قانونی طور پر بچے ڈاکٹر امجد کو مل جاتے۔
9۔ 2003 میں ہی خالد شیخ کو پکڑا گیا، اور وہاں سے چھاپے کے دوران ملنے والے کاغذات سے پتا چلا کہ عافیہ کا اس گروپ سے تعلق ہے اور یہ کہ وہ خالد شیخ کے بھانجے سے دوسری شادی کر چکی ہیں اور نکاح نامہ پر انکے دستخط ہیں۔ عمار بلوچی کے خاندان والوں نے بھی اسکی تصدیق کی، مگر صدیقی خاندان مستقل طور پر جھوٹ بولتا رہا کہ عافیہ نے دوسری شادی نہیں کی۔ بعد مین عافیہ نے عدالتی کاروائی کے دوران خود اس دوسری شادی کی تصدیق کی۔
10۔عافیہ خفیہ طور پر 5 دن کے لیے امریکہ گئیں اور وہاں پر خالد شیخ کے ساتھی ماجد خان کے لیے اپنے شوہر ڈاکٹر امجد کے کاغذات استعمال کرتے ہوئے ایک عدد پوسٹ بکس کو کرائے پر لے لیا۔ ڈاکٹر امجد کی تحریر کے مطابق انہیں اس پوسٹ باکس کا علم تھا نہ عافیہ کے اس 5 دن کے خفیہ دورے کا۔
11۔ سن 2003 میں خالد شیخ کے پکڑے جانے کے بعد عافیہ بہت خطرے میں آ گئی اور خالد شیخ کے گروہ اور عافیہ نے بہتر سمجھا کہ وہ روپوش ہو جائیں کیونکہ انکا تعلق خالد شیخ سے ثابت تھا اور پھر خالد شیخ کے بھانجے عمار بلوچ سے شادی کرنے کے بعد اور امریکہ میں غیر قانونی طور پر ماجد خان کے لیے پوسٹ بکس باکس لینے کے بعد یہ یقینی تھا کہ ایف بی آئی انکا پیچھا کرتی۔
12۔ چنانچہ ڈاکٹر عافیہ نے باقاعدہ طور پر اپنی روپوشی کا ڈرامہ کھیلا۔
روپوش تو عافیہ 31 مارچ سے کچھ دن پہلے ہی ہو چکی تھی، مگر پھر عافیہ نے اپنی فیملی کو فون کر کے بتایا کہ وہ باقاعدہ ساز و سامان باندھ کر کراچی سے اسلام آباد اپنے ماموں سمش الدین واجد صاحب کے پاس جا رہی ہیں۔
مگر پھر راستے میں روپوش ہو گئیں۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ انہیں اس روپوشی کا جواز بھی دینا تھا کیونکہ ڈاکٹر امجد بچوں سے ملنے کی خاطر عافیہ کے خلاف قانونی کاروائی کر رہے تھے۔ اس لیے اس روپوشی کا جواز یہ بنایا گیا کہ عافیہ کو ایجنسی کے لوگ ہی بچوں سمیت اغوا کر کے لے گئے ہیں۔
یوں عافیہ نہ صرف ڈاکٹر امجد سے بچ گئیں، بلکہ ان کے خاندان والے بھی ان سوالات سے بچ گئے کیونکہ اس دوران عافیہ کا نام گیارہ ستمبر کے حملوں کے حوالے سے سب سے زیادہ مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا۔
13۔ مگر ڈاکٹر امجد نے عافیہ کے غائب ہو جانے پر یقین نہیں کیا، اور خاندان کی درزن اور دو اور لوگوں نے اسکے بھی عافیہ کو کراچی میں دیکھا، اور داکٹر امجد لکھتے ہیں کہ انہوں نے ان لوگوں کو بطور گواہ عدالت میں بھی پیش کیا۔
14۔ لیڈی صحافی ریڈلی نے دعوی کیا عافیہ بگرام جیل میں قیدی نمبر 650 ہے۔ مگر مس ریڈلی نے یہاں چیٹنگ کی اور یہ بالکل صاف اور سیدھی سی بات تھی کی عافیہ قیدی نمبر 650 نہیں ہو سکتی کیونکہ معظم بیگ 2 فروری 2003 کو بگرام سے گوانتانا موبے منتقل ہو چکا تھا جبکہ عافیہ اسکے دو مہینے بعد 31 مارچ 2003 کو روپوش ہوئی۔
15 سب سے بڑا ثبوت: عافیہ کا 2008 میں اپنے ماموں شمس الدین واجد کے گھر نمودار ہونا ھے-
ڈاکٹر امجد لکھتے ہیں دو بڑے انگریزی اخبارات میں انہیں ایک دن شمس الدین واجد [عافیہ کے ماموں] کا بیان پڑھنے کو ملا جس سے انہیں شاک لگا۔ شمس الدین واجد کہتے ہیں کہ سن 2008 میں عافیہ ان کے گھر ایک دن اچانک نمودار ہوئی۔ اور تین دن تک رہی۔
ڈاکٹر امجد نے پھر بذات خود شمس الدین واجد صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے تفصیلات طلب کیں۔ شمس الدین واجد صاحب نے جواب میں انہیں باقاعدہ ای میل تحریر کی ہے جو کہ بطور ثبوت ڈاکٹر امجد کے پاس موجود ہے۔ شمس الدین واجد صاحب کے مطابق انہوں نے عافیہ کی ماں کو بھی وہاں پر بلایا اور انکی بھی عافیہ سے ملاقات ہوئی۔
مزید یہ کہ عافیہ نے کھل کر نہیں بتایا کہ وہ کن لوگوں کے ساتھ ہے، مگر اس دوران میں شمس الدین واجد صاحب کو عافیہ کی ناک پر سرجری محسوس ہوئی جو زخم کی وجہ سے تھی یا پھر شکل تبدیل کرنے کی غرض سے، بہرحال عافیہ پورے عرصے نقاب کا سہارا لیتی رہی اور کھل کر سامنے نہیں آئی۔
پھر عافیہ نے اپنے ماموں سے ضد شروع کر دی کہ وہ انہیں طالبان کے پاس افغانستان بھیج دیں کیونکہ طالبان کے پاس وہ محفوظ ہوں گی۔ مگر ماموں نے کہا کہ انکے 1999 کے بعد طالبان سے کوئی رابطے نہیں ہیں اور وہ اس سلسلے میں عافیہ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ اس پر عافیہ تیسرے دن وہاں سے غائب ہو گئی۔

گمان غالب ہے کہ ان کو امریکنز نے افغانستان میں ہی گرفتار کیا تھا جہاں وہ جانے کے لے بےتاب تھیں۔

--------------------------------------------------
حقیقت یہ ھے کہ عافیہ نے یہ کھیل امریکی گرفت اور سابقہ خاوند کو بچوں سے دور رکھنے کیلئے کھیلا اور وہ اس پورے عرصے کے دوران خالد شیخ کے گروہ یا کسی اور جہادی گروہ کی مدد سے روپوش رہی، اور اسی گروہ کے لوگ عافیہ کے گھر والوں کو اس عرصے میں فون کر کے عافیہ کی خیریت کی خبر دیتے رہے۔
نیز واجد شمس الدین کی گواہی کے مطابق جس عافیہ سے سن 2008 میں ملے تھے، وہ اپنے پورے ہوش و حواس تھی۔ جبکہ بگرام کی قیدی 650 اپنے ہوش و حواس کھو چکی تھی۔ اس حقیقت کے بعد قیدی نمبر 650 کی حقیقت بالکل واضح ہو چکی تھی مگر افسوس کہ یہ فوج دشمنی ھے کہ جس کی وجہ سے یہ لوگ ابھی تک قیدی نمبر 650 کا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے اپنے ہی ادارے پر تہمتیں لگائے جا رہے ہیں۔
"عافیہ کے بچے تمام عرصے عافیہ کے پاس تھے":-
عافیہ کے ساتھ اسکا بیٹا احمد موجود تھا جس کے متعلق پکڑے جانے پر عافیہ نے جھوٹ بولا تھا کہ احمد اسکا بیٹا نہیں بلکہ احمد مر چکا ہے اور تمام عرصے وہ احمد کو علی حسن بتلاتی رہی۔ مگر ڈی این اے ٹیسٹ سے تصدیق ہو گئی کہ وہ احمد ہی ہے۔ نیز احمد اپنی ماں کو عافیہ کے نام سے نہیں جانتا تھا، بلکہ صالحہ کے نام سے جانتا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ عافیہ اس پورے عرصے کے دوران اپنی آئڈنٹیٹی تبدیل کر کے صالحہ کے نام سے روپوشی کی زندگی گذارتی رہی-!

تو اب سچ کو بے نقاب ہو جانا چاہیے۔ اگر مشرف پر قوم کی بیٹی بیچنے کا الزام ہے تو اس کو سزا ہو جائے، لیکن اگر یہ فقط تہمت ہے تو اس میڈیا پر ایک آدم کے بیٹے پر یہ مسلسل اور نہ ختم ہونے والی تہمت کے دہرانے پر جتنی بھی لعنت کی جائے وہ کم ہو گی۔

کیا یہ کہنا درست نہیں کہ عافیہ کیس میری قوم کی جذبات میں آ کر اندھا ہو جانے کی بدترین مثال ہے کہ جہاں قوم کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور اُسے جذبات میں کچھ نظر نہیں آ رہا ہوتا۔

اس لنک میں عافیہ صدیقی کیس میں وکلاء کے بیانات اور عافیہ صدیقیکے متعلق تفصیل درج ہے۔

Education Urdu Language, and Moral Values decreasing

اُردو   زبان  ، ہمارے بچے اور تعلیمی اداروں کا کردار
کہنے کو تو بحیثیت پاکستانی ہماری قومی زبان اردو ہے۔یہاں لاکھوں ایسے بھی ہوں گے جن کی مادری زبان بھی اردو ہے۔ کراچی اردو بولنے والوں کے اعتبار سے بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ لیکن ایک المیہ ہے۔ اب اردو بولنے والوں کے بچے اردو پڑھتے بڑی دشواری سے ہیں۔ گرامر کی تو بات ہی نہیں کرتا ، اردو املاء تک لکھ نہیں سکتے۔ اگر یقین نہیں آ رہا تو اپنے گھر کے کسی بچے کو بلائیں ، اردو کی کوئی کتاب، اخبار یا میگزین اٹھائیں اور انہیں پڑھنے کو بولیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گاکہ ہمارے بچوں کے اردو پڑھنے لکھنے کی قابلیت کس قدر ہے۔ اپنے نونہالوں کی یہ حالت دیکھ کر آپ سوچیں گے کہ ایسا کیوں ہے۔ یہ ہر کلاس میں تو بڑے اعلیٰ نمبروں سے امتحان پاس کرتے ہے۔ ہمیشہ اے ون اور اے گریڈ لے کر آتا ہے۔

اس صورتحال کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہم انگریزی سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اتنے متاثر کے ہمارے بچے ماہانہ ہزاروں روپے فیس دے کر انگلش میڈیم اسکول میں ہی پڑھیں گے۔ اب انگلش ان کو آئے نہ آئے ان کا نصیب ، لیکن انگلش میڈیم اسکولز کے باعث ہمارے بچے اردو سے نابلد ہو چکے ہیں۔ صورتحال یہی رہی تو اگلی نسل کو اردو سکھانے کے لیے ہمیں ہر شہر میں اردو لینگویج سینٹر کھولنے پڑیں گے۔ میں نے اردو کی بات اس لیے کی ہے کہ یہ ہماری عام بول چال کی زبان ہے۔ اگر باقی مضامین کی صورتحال دیکھی جائے تو وہ بھی آپ کو ابتر ہی نظر آئے گی۔ ایک اور تجربہ کریں، کسی اسکول یا کالج میں جائیں۔ وہاں زیرتعلیم بچوں سے سوال کریں کہ آپ پڑھ کر کیا بنیں گے۔؟ جواب میں آپ کو ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان،سیاست دان،صحافی،مینیجر، آپ کو یہ سب بننے والے ملیں گے۔ لیکن کوئی کہ دے کہ میں استاد بنوں گا۔ ایسا شاذونادر ہی ہو سکتا ہے۔

پھر آپ مختلف اسکولز کے مالکان کے پاس جائیں۔ ان سے پوچھیں کہ آپ نے یہ اسکول کیوں کھولا ہے۔ ممکن ہے وہ اپنے آپ کو فروغ تعلیم کے لیے فکر مند ظاہر کرے۔ لیکن آپ اگر دوچار باتیں ہی ان سے کر لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ اسکول کھولنے کے پیچھے سب سے بڑا مقصد پیسہ کمانا ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ ہر گلی میں کھلے ہوئے دس بارہ پرائیوٹ اسکولز کے نام کتنے بڑے ہیں اور وہاں کا معیار تعلیم کیسا ہے۔ وہاں پڑھانے والے تدریس اور بچوں کی نفسیات کا تجربہ کتنا رکھتے ہیں؟۔ ان اسکولوں میں تدریس جیسا اہم فریضہ انجام کون دے رہا ہے۔ وہ نوجوان جنہوں نے تعلیم تو حاصل کر لی ہے مگر انہیں کہیں ملازمت نہیں مل رہی۔ تو جب تک کہیں اور ملازمت نہ مل جائے اتنے دنوں تک ٹیچنگ کر کے ٹائم پاس کر رہے ہیں۔ یا وہ لڑکیاں جو تعلیم مکمل کر چکی ہیں اور ابھی تک ان کی شادیاں نہیں ہوئیں وہ اس دورانیے میں کسی اسکول میں پڑھانے چلی جاتی ہیں۔

گلی گلی کھلے پرائیویٹ اسکولز میں اساتذہ کو تین ہزار سے سات ہزار اور اگر کوئی بڑے نام والا اسکول ہو گا تو وہ دس یا بارہ ہزار تنخواہ دے رہا ہے۔ اس صورتحال میں آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسکول کھولنے والے اور پڑھانے والے تعلیم اور حصول تعلیم والوں کے ساتھ کتنے مخلص ہوں گے اور کتنی محنت سے وہ تدریس کا فریضہ انجام دیتے ہوں گے۔ نہ تدریس کا کوئی تجربہ اور نہ کوئی تربیت!ایسے میں ہماری نسلیں کیا پڑھ اور سیکھ رہی ہیں؟ ایسے میں جب امتحانات ہوتے ہیں تو پرائیوٹ اسکولز میں پرچے انتہائی آسان بنائے جاتے ہیں۔ پھر بھی کوئی ان کو پاس نہ کر سکے تو اضافی نمبر دے کر پاس کیا جاتا ہے۔ چاہے بچے کو کچھ پڑھنا لکھنا آئے نہ آئے۔ ہم بھی رزلٹ کارڈ دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں۔ کبھی بھی یہ نہیں چیک کرتے کہ ہمارا بچہ لکھ پڑھ کیسا رہا ہے۔ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اور رہے سرکاری تعلیمی ادارے تو ان کی صورتحال پہلے سے ہی بہت ابتر ہے۔ کسی ایک اسکول یا ادارے کا نام کیوں لیں۔ محکمہ تعلیم سندھ کو ہی دیکھ لیں۔

کراچی کے ساڑھے سات ہزار اساتذہ انصاف کے لیے دھکے کھانے پر مجبورہیں تاحال ان کے مستقبل کا فیصلہ نہ ہو سکا۔ دو سال سے مختلف اسکولوں میں تعینات اساتذہ کے بارے میں ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ ان کو ملازمت پر رکھنا ہے یا ان کی ملازمت ختم کرنی ہے۔ سندھ حکومت نے بھرتیاں جعلی قرار دے کر تنخواہیں دینے سے انکاری ہے۔ اورہزاروں اساتذہ سیاسی اختلافات کے بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔ کل اسی کیس کے ایک متاثرہ دوست کا پیغام ملا کہ بھائی دعا کرو ہمارے حق میں جلد فیصلہ ہو جائے اور ہمیں ہماری رکی ہوئی تنخواہیں مل جائیں۔ کیوں کہ گھر کا خرچ اور بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے جن لوگوں سے تخواہ ملنے کی امید پر قرض لے کر گزارا کر رہے تھے۔ اب وہ بھی قرض کی واپسی کا تقاضا کرنے لگ گئے ہیں۔ ایسے میں یہ اساتذہ تعلیم کی فکر کریں گے یا اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لیے دوڑ دھوپ کریں گے۔

آپ اپنے اردگر نظر دوڑائیں ،ہمیں پڑھے لکھے افراد تو بہت زیادہ ملیں گے۔ لیکن مہذب بہت کم،نہ بات کرنے کی تمیز، نہ اٹھنے بیٹھنے کی۔ بات کریں گے تو ایک جملے میں کئی گالیاں ہوں گی۔ روڈ پر چلیں گے تو کوئی ضابطہ نہیں ہو گا۔ نہ اساتذہ کا ادب نہ والدین کا احترام، یہ اسی وجہ سے ہو رہا کہ ہم نے تعلیم پر توجہ دینا چھوڑ دی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ بہترین نمبر لے، اچھے گریڈ میں پاس ہو کر کوئی ڈگری حاصل کرے اور پھرکوئی اچھی سے نوکری کر لے۔ ہم خالصتاً کاروباری ذہن رکھ کر اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے پیسہ خرچ کر رہے ہیں کہ آج اس کو فلاں تعلیم دلوانے پر اتنے خرچ کریں گے اور کل یہ اتنے کما کر دے دے گا۔ ہمیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ یہ تعلیم اس بچے کی کوئی تربیت بھی کر رہی ہے یا نہیں۔

December 18, 2019

FIRQA PRASTI IN ISLAM, ALLAH PAK NEY FRIQEY BNANAY SE MANA KIYA HY.




چھوٹی سی الجھن ہے !
ایک محفل میں ایک حضرت نے میری ایک بات پر سوال کیا کہ
"آپ کا مسلک کیا ہے؟"
میں نے جواب دیا "کچھ نہیں"۔
کہنے لگے "پھر بھی"۔
میں نے کہا "الحمدللہ میں مسلمان ہوں اور یہ نام خدا کا دیا ہوا ہے۔
طنزیہ فرمانے لگے کہ "کہیں بھی جانا ہو، بندے کا کوئی ایک راستہ ہوتا ہے۔"
ادب سے عرض کی، "حضور میں پکی سڑک پر چلنا پسند کرتا ہوں، پگڈنڈیاں چھوڑ دیتا ہوں۔"
اور یہ صرف ایک دفعہ کی بات نہیں، اکثر لوگ اچھے بھلے سمجھدار اور پڑھے لکھے بھی یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کہ دوسرا کسی مسلک کی پیروی نہیں کرتا۔
تو میری ایک چھوٹی سی الجھن ہے، آپ مدد کر دیجئے۔ خطبہ حجۃالوداع اورتاریخی موقعے کا ذکر تو آپ سب نے یقینا” پڑھا ہوگا۔ کوئی لاکھ سوا لاکھ کا مجمع تھا۔ کوئی مجھے بتائے گا کہ اس وقت موجود صحابہ اور نو مسلم شیعہ تھے یا سنی؟
میں جاننا چاہتا ہوں کہ
1703 سے پہلے جب عبدالوہاب نجدی،
1856 سے پہلے احمد رضا خان بریلوی،
1866 سے پہلے دارلعلوم دیوبند،
لگ بھگ300 سال پہلے جب اہل حدیث اور سلفی تحریک جب وجود نہیں رکھتے تھے
تو عام سادہ مسلمانوں کو کیا کہا جاتا تھا اور کیا ان سب تحریکوں، مدرسوں اور شخصیات نے خود یا اپنے ماننے والوں کی وجہ سے ایک مسلک اور فرقوں کا روپ نہیں دھارا ؟
کیا ان سب نے مسلمانوں کو تقسیم کیا یا متحد کیا؟
رنگ، نسل، زبان، علاقے اور برادری کی تقسیم کیا ابھی مسلمانوں کے لئے ناکافی تھی کہ مذہب کے اندر فرقے متعارف کروائے گئے؟
کیا ہمارے قابل احترام اساتذہ، جن کو ہم آئمہ کرام کہتے ہیں، کیا ہم کو کبھی اپنی پوری زندگیوں میں ایک بار بھی حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، اور جعفریہ میں بٹنے کا درس دے کر گئے؟
تصوف کے نام پر جو سلسلے بنائے گئے اور راستے جدا کئے گئے ان کی تفصیل الگ ہے۔
میری یہ بھی رہنمائی کوئی فرما دے کہ اگر یہ محض فقہی، فکری اور علمی مسالک ہیں تو مسجدیں کیوں الگ ہیں؟
ڈاڑھی کا سائز، ٹوپی کا سٹائل، عمامے کا رنگ، جھنڈے کی شبیہ، نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ، اور مدرسے کا سلیبس کیوں الگ ہے؟
تقسیم اتنی خوفناک ہے کہ عقائد، رسومات، تہوار، بچے اوربچیوں کے نام، زمانے کے امام، حتی کہ صحابہ کرام تک بانٹ رکھے ہیں۔ یہاں شہہ دماغوں نے کالا، سفید، نارنجی، ہرا ،پیلا اور بھورا سب رنگ اپنے ساتھ مخصوص کر رکھے ہیں۔ سارا زور اس بات پر کیوں ہے کہ کوئی ہمیں جس ‘حالت‘میں بھی دیکھے پہچان جائے کہ ہم ‘الگ‘ ہیں اور فلانے ہیں۔ جناب والا مجھ کم علم اور کم عقل کو یہ بھی سمجھا دیں کہ مدرسوں، فتووں کی کتابوں اور لوگوں کی باتوں سے نکلا ہوا مسلک اور فرقہ موروثی کیسے ہو تا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ بھی کسی ملٹی نیشنل پراڈکٹ کی طرح لیبل لگا کر آتا ہے کہ ان کے سامنے ماڈرن کارپوریٹ کلچر، مارکیٹنگ اور برانڈنگ تو ابھی کل کی بات لگتی ہے۔
آج کے مقابلے میں تو اچھے دور تھے شائد وہ جب مناظرے اور چیلنج کیے جاتے تھے۔ اول اول بحث مباحثہ ہی تھا لیکن پھر بات آگے بڑھتی گئی۔ پہلے تو محض ایک دوسرے کو لعنت ملامت اور تبرے بھیج کر کام چلا لیا جاتا تھا، پھر کفر کے فتوے مارکیٹ میں آئے۔ بات جنت اور دوزخ کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے تک چلی گئی۔ پھر چند "جدت پسندوں" نے سیدھا وہاں تک پہنچانے کا کام بھی اپنے ذمہ بہ احسن و خوبی لے لیا۔ ٹیکنالوجی نے ترقی کی اور یہ "سائینسدان" گروہ در گروہ لوگوں جنت بلکہ اپنی طرف سے دوزخ کو روانہ کرنے لگے۔ میرے رسول ہادی و برحق نے تو منع کرنے کے لئے اور ہماری پستی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بنی اسرائیل سے تقابلے میں ہمارے 73 فرقے کہے، ہم نے اس حدیث سے اپنے فرقے کے صحیح اور جنتی ہونے کا جواز گھڑ لیا، اور باقی سب کو ٹھکانے لگا دیا۔ اب ہوتے تو پتہ نہیں کیا کہتے،
لیکن نصف صدی پہلے ابن انشاء نے لکھا تھا،
"دائروں کی کئی اقسام ہیں۔ ایک دائرہ اسلام کا بھی ہے ۔ پہلے اس میں لوگوں کو داخل کیا جاتا تھا ۔ اب عرصہ ہوا داخلہ بند ہے صرف خارج کیا جاتا ہے ".
خدا نے تو کہا "اُن لوگوں میں سے نہ ہونا جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور فرقے فرقے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اُن کے پاس ہے" (سورہ الروم)۔
اور خدا یہ بھی تو کہتا ہے کہ "جن لوگوں نے دین کو فرقے کر دیا اور گروہوں میں بٹ گئے،(اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دو تمہارا ان سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا" (سورہ الانعام)۔
یہ آیت بھی تو سب کو یاد ہی ہوگی کہ "سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور تفرقے میں نہ پڑنا" (سورہ آل عمران)۔
اور کیا خدا نے اپنے تقسیم کو اپنے عذاب سے تشبیہ نہیں دی؟ جب فرمایا کہ "کہہ دو کہ وہ قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے یا تمہیں فرقہ فرقہ کردے اور ایک کو دوسرے (سے لڑا کر آپس) کی لڑائی کا مزہ چکھادے۔ دیکھو ہم اپنی آیتوں کو کس کس طرح بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں" (سورہ الانعام)۔
جو دین فرق مٹانے اور ایک لڑی میں پرونے آیا تھا،اس کو ہم نے بالکل الٹ بنا کر خانوں میں رکھ دیا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کوئی بھی فارم پر کرتے ہوئے جب میں مسلک کا خانے خالی چھوڑتا ہوں تو دوسرے کو اعتراض کیوں ہوتا ہے۔ جب کوئی تعارف کرواتا ہے تو اس کو صرف الحمدللہ میں مسلمان ہوں کہنے پر شرمندگی کیوں ہوتی ہے۔
کیا ہماری نظروں سے یہ آیت نہیں گزری کہ "اس (اﷲ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسولِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوع انسان پر گواہ ہو جاؤ’’۔ (سورہ الحج)۔
معاذاللہ،نعوذ باللہ ہم اور ہمارے تکبر کیا اتنے بڑے ہیں کہ ہم کو اسلام اور اللہ کے بیان میں کوئی کمی لگتی ہے اور ہم اللہ کے دیئے ہوئے نام یعنی صرف مسلم j ساتھ شیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی، سلفی، اہل حدیث یا بریلوی لگا کر پورا کرتے ہیں۔ ہم نے سب امامین کو زمانے کا استاد تسلیم کیوں نہیں کیا؟
اگر ایک ہی مسلے پر سپیشلسٹ ڈاکٹرز کا پینل اختلاف رائے کا اظہار کرتا ہے، اگر ایک ہی کیس میں سپریم کورٹ کے ججز اختلافی نوٹ لکھتے ہیں اور اگر ہی مظہر کائنات پر سائنسدان متنوع نظریات پیش کر سکتے ہیں تو ہم کبھی طب،قانون اور سائنس اور اس کے ماہرین پر انگلی نہیں اٹھاتے، ان کے پیچھے مسالک قائم نہیں کرتے اور ان کےمشترکہ نقائص نہیں نکالتے۔ بلکہ ایک طالب علم کی حیثیت سے سب کو مان کر اور پڑھ کر اپنے علم کی بنیاد رکھتے ہیں۔ تو پھر ہمیں کس چیز نے کاٹا ہے کہ ہم در بدر، رنگ برنگی دکانوں پر پھرتے ہیں اور اصل تو دور کی بات،کیوں نقل کے دھوکے میں خالی رنگین پیکنگ اٹھائے لئے پھرتے ہیں!

December 15, 2019

HEPATITES , Indications, Suggestions to Save yourself



مریض کمزور حالت میں کمرے میں داخل ہوا۔ چلنا پھرنا دوبھر ہو رہا تھا، چہرے پہ پیلاہٹ نمایاں تھی، آنکھیں پیلی زرد تھیں۔ پوچھنے پہ بتایا کہ کئی دنوں سے یہ حالت ہے۔ بھوک بالکل نہیں لگتی۔ اکثر قے آ جاتی ہے اور کچھ کھانے کو دل نہیں کرتا۔ ایسا یرقان یا ہیپاٹائٹس میں ہوتا ہے۔ ’’یرقان‘‘ یا ہیپاٹائٹس میں جلد، آنکھوں کے سفید حصے اور جسم میں موجود مختلف جھلیوں وغیرہ کا رنگ پیلا زرد ہو جاتا ہے۔ مریض کو ایک نظر دیکھنے سے زبردست پیلاہٹ کا تاثر ملتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ خون میں ایک کیمیائی مادہ بلی روبین Bilirubin کی زیادتی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے یرقان کو پیلیا کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ یرقان کی مختلف اقسام اے، بی، سی، ڈی اور ای ہیں۔ یہ بیماری ایک وائرس کی مختلف قسموں سے ہوتی ہے جنہیں وائرس D,C,B,A اور E کے نام دئیے گئے ہیں۔ وائرس کی بی اور سی اقسام سے ہونے والی بیماری زیادہ خطرناک اور عام ہے۔ وائرس A، D اور E زیادہ خطرناک نہیں۔ مریض چند دنوں میں خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔
وجوہات اور پھیلاؤ: حفظان صحت کے اصولوں سے لاعلمی، پانی اور سیوریج کے ناقص انتظام، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، انتقال خون کے لیے مناسب ٹیسٹوں کے فقدان کی وجہ سے جگر کی بیماری ہوتی اور پھیلتی ہے۔ بیماری کا جراثیم مریض کے فضلہ کے راستے خارج ہو کر پانی میں شامل ہو کر صحت مند لوگوں میں بیماری پھیلا سکتا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی انسان کے خون سے صحت مند لوگوں تک پہنچتا ہے۔ اگر وائرس سے متاثر کسی شخص کا خون صحت مند آدمی کو لگا دیا جائے تو اس کو یہ بیماری لگنے کا امکان ہوتا ہے۔ متاثرہ آدمی کا خون لگنے یا کوئی بھی ایسا ذریعہ جس سے معمولی یا بہت تھوڑی مقدار میں خون میڈیکل آلات، مثلاً قینچی، سرنج وغیرہ کے ذریعے بھی بیماری کا وائرس خون میں شامل ہو سکتا ہے۔ مریض کی جسمانی رطوبت سے بھی بیماری پھیل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مریض کے زیر استعمال اشیاء استعمال کرنے سے بھی بیماری لگ سکتی ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کا وائرس قربت کے تعلقات اور جنسی اختلاط میں بھی ایک ساتھی سے دوسرے کو لگ سکتا ہے۔
علامات: ہیپاٹائٹس یا یرقان کی بیماری کی تمام اقسام کی علامات تقریباً ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ابتدائی طور پر ہلکا بخار، منہ کا ذائقہ تبدیل ہونا، بھوک نہ لگنا اور پیٹ میں ہلکا درد ہونا ہے۔ تین چار دن بعد بخار کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ آنکھوں کا رنگ پیلا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پیشاب گہرا پیلا اور زرد ہو جاتا ہے۔ بھوک بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ بار بار متلی اور قے ہوتی ہے۔ جگر اور تلی دونوں بڑھ جاتے ہیں اور بعض مریضوں کے گلے کے غدود بھی بڑھ جاتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد یہ علامات ختم ہونا شروع ہو تی ہیں مگر پیلاہٹ ہفتہ سے دس دنوں تک برقرار رہتی ہے۔ اس دوران مریض بہت کمزوری محسوس کرتا ہے۔ اس وجہ سے مریض کو زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
تشخیص: اگر کسی میں اوپر دی گئی علامات ظاہر ہو ں تو ضروری ہے کہ فوراً ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے۔ بیماری کی تشخیص خون کا ٹیسٹ کروا کے کی جاتی ہے جس میں جگر کے افعال اور خون میں بلوروبین وغیرہ کی مقدار کو چیک کیا جاتا ہے۔
علاج اور احتیاط: یرقان ایک متعدی اور خطرناک مرض ہے جو وائرس سے ہوتا ہے۔ اس کے علاج میں سب سے اہم بات مکمل احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا ہے تاکہ ایک تو بیماری زیادہ خطرناک صورت حال اختیار نہ کرے، دوسرے یہ صحت مند لوگوں تک نہ پہنچ جائے۔ یرقان کے علاج میں مندرجہ ذیل اہم امور کو یاد رکھیں۔
-1 آرام: ہیپاٹائٹس یا یرقان کی بیماری میں آرام کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ مریض کو کھلے ہوا دار کمرے میں رکھا جائے۔ زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کا موقع دیا جائے۔ طبیعت اجازت دے تو تھوڑا بہت چلا بھی جا سکتا ہے لیکن زیادہ چلنے پھرنے سے مریض بہت جلد تھکن کا شکار ہو سکتا ہے جس سے بیمار جگر پر مزید بوجھ پڑ سکتا ہے۔
-2 غذا: یرقان کی بیماری میں مریض کو بھوک کم لگتی ہے۔ اس دوران زیادہ ثقیل اور مرغن غذائیں تو ویسے بھی کھانے کو بالکل دل نہیں کرتا۔ یرقان کی بیماری میں پروٹین غذا سے بالکل پرہیز کرنا چاہیے۔ مریض کو سبزیاں ابال کر بغیر گھی کے کھانی چاہئیں کیونکہ زیادہ گھی کا استعمال بھی خطرناک ہوسکتا ہے۔ اس حالت میں پینے والی اشیاء مثلاً فریش جوس، کچی لسی، گلیکسوز ڈی وغیرہ زیادہ استعمال کریں۔ سبزیاں ابال کرلیں۔ سبز پتوں والی اور تازہ سبزیاں اور پھل بکثرت لیں۔
-3 دواؤں کا استعمال: یرقان کی بیماری میں دواؤں کے استعمال سے مناسب حد تک پرہیز کرنا چاہیے۔ مختلف دوائیں معدے سے جگر تک پہنچتی ہیں اور جگر ہی انہیں قابل استعمال بناتا ہے۔ اس لیے اس بات کو ذہن نشین رکھیں کہ یرقان میں دوائیں کھانے سے جگر پر غیر ضروری بوجھ پڑے گا کیونکہ وہ تو پہلے ہی زخمی (بیمار) ہوتا ہے۔ اگر ضروری ہو تو ڈاکٹر کے مشورے سے دوا لیں۔
احتیاطی تدابیر: -1ہیپاٹائٹس بی کا تدارک اس کے حفاظتی ٹیکوں (ویکسین) کے کورس سے ممکن ہے۔ جو لوگ ہسپتال، کسی لیبارٹری، بلڈ بینک وغیرہ میں کام کرتے ہوں، انہیں چاہیے کہ یہ ویکسین ضرور لگوا لیں۔ -2جب کسی کو یرقان کی بیماری ہو جائے تو اسے علیحدہ کمرے میں رکھیں۔ صحت مند لوگ اس کی زیر استعمال اشیاء استعمال نہ کریں۔ مریض کی جملہ رطوبتیں جن میں پیشاب، پاخانہ، لعاب دہن وغیرہ شامل ہیں کو صحیح طور پر ٹھکانے لگایا جائے۔ مریض کی زیر استعمال چیزوں کو چھونے سے پہلے اور اس کے بعد ہاتھ اچھی طرح صابن سے صاف کریں اور ان کو استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔ -3یرقان کے مریض کو قربت کے تعلقات مثلاً جسمانی اختلاط سے پرہیز کرنا چاہیے۔ -4اگر گھر میں کسی کو مرض ہو جائے تو تمام صحت مند لوگوں کو چاہیے کہ اگر ممکن ہو سکتے تو ہیپاٹائٹس کی ویکسین لگوا لیں جس سے بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔ -5گھر اور اردگرد کی صفائی کے حالات اور سیوریج کے انتظام کو بہتر بنایا جائے۔ -6بیماری کی وبا کی صورت میں پانی ابال کر استعمال کریں۔ -7اگر کبھی کسی مریض کو خون لگوانا ہو تو اس بات کی تسلی کر لیں کہ اس خون کا ہیپاٹائٹس بی یا دوسری بیماریوں کے جراثیم کی موجودگی کے لیے ٹیسٹ کیا گیا ہے کہ نہیں۔ -8کھانے پینے کی اشیاء کو ڈھانک کر رکھیں۔ حجام کی دکانوں پر کم سے کم جائیں کیونکہ حجام کے استرے، قینچیوں وغیرہ سے کٹ لگنے سے بھی بیمار آدمی سے بیماری کے جراثیم صحت مند لوگوں میں پہنچ سکتے ہیں۔
ہیپاٹائٹس ’’سی‘‘ کی بیماری علاج اور احتیاط: اس میں کوئی کلام نہیں کہ ہیپاٹائٹس سی ایک خطرناک مرض ہے لیکن بیمار ہونے کی صورت میں پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں۔ پاکستان میں لاکھوں لوگ اس بیماری سے متاثر ہیں۔ ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ لوگ نارمل زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ زیادہ تر لوگوں میں ہیپاٹائٹس سی کا وائرس کوئی زیادہ مسئلہ نہیں کرتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ بیماری کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے اور ہمت سے اس سے نبرد آزما ہونا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ بیماری کا وائرس ہوتے ہی نام نہاد حکیموں اور ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں پہلے تو خوب ڈراتے ہیں اور اس کے بعد علاج کے نام پر نت نئے ڈرامے کرتے ہیں۔ کوئی سفوف دیتا ہے اور کوئی جعلی قسم کے ٹیکے اور اکیسراعظم۔ جو رہی سہی کسر چھوڑ کر ’’بیمار جگر‘‘ کو اور بھی بیمار کرنے کا سبب بنتے ہیں اور یوں بیماری اپنی پوری تباہ کاریوں کے ساتھ بندہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور مریض کی تکالیف میں کئی گناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ان تمام شعبدہ بازیوں سے بچا جائے۔ مستند ڈاکٹر سے مشورہ کریں اور غلط لوگوں کے ہتھے نہ چڑھیں۔ ہیپاٹائٹس سی کے تمام مریضوں کی رہنمائی کے لیے مندرجہ ذیل گائیڈ لائن دی جا رہی ہیں جس پر عمل کر کے وہ اپنی زندگی نارمل طریقے سے گزار سکتے ہیں۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ بیماری ہونے کی صورت میں کسی قسم کی پریشانی یا گھبراہٹ کا شکار نہ ہوں۔ اس کو صرف ایک عام بیماری سمجھیں۔ بیماری کے ساتھ لڑنے کا عزم صمیم کر لیں اور زندگی کے معمولات میں کسی قسم کی کمی نہ کریں۔ ہیپاٹائٹس سی کے ٹیسٹ یعنی پی سی آر جینو ٹائپنگ اور جگر کے ٹیسٹ، الٹرا ساؤنڈ وغیرہ کسی مستند لیب سے کروائیں۔ یاد رہے کہ ہیپاٹائٹس سی متعدی مرض نہیں۔ اس لیے آپس میں میل جو، اکٹھے کھانا کھانے اور ایک ساتھ رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہیپاٹائٹس سی پھیلنے کا بڑا ذریعہ انتقال خون ہے۔ متاثرہ سرنج سے بھی پھیل سکتا ہے۔
اس لیے انجکشن ہمیشہ نئی سرنج سے لگوایا جائے۔ اس کے علاوہ متاثرہ شخص سے اپنا شیونگ کا سامان، ٹوتھ برش، پیسٹ وغیرہ علیحدہ رکھنا رکھنا چاہیے کیونکہ کسی قسم کی خراش یا زخم سے بھی وائرس صحت مند آدمی کو لگ سکتا ہے۔ ژمریض کو ہر ماہ جگر کے افعال کے ٹیسٹ (خصوصاً ALT) کروانا چاہیے۔ ژانٹر فیرون کے انجکشن لگوانے سے بیماری دور ہونے کے 70 فیصد سے زیادہ امکان ہیں۔ ان ٹیکوں کے تھوڑے بہت مضر اثرات ہوتے ہیں۔ جن سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں لیکن ٹیکوں کے انتخاب میں ضروری ہے کہ کم قیمت کے مقامی ٹیکے استعمال کی جائیں۔ آج کل کئی برانڈ موجود ہیں اور 5-4 ہزار روپے ماہانہ خرچ میں ٹیکے اور کیپسول مل جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس سی کی بیماری کو کنٹرول کرنے اور جگر کے افعال کو بہتر بنانے کے لیے مندرجہ ذیل گھریلو نسخے بھی کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔ تازہ مولی پتوں سمیت یا اس کا رس نکال کر روزانہ استعمال کریں۔ صبح ناشتے میں ملٹھی اور سونف کا باقاعدہ استعمال کریں۔
مولی، ملٹھی، سونف، دار چینی اور گلوکوز کا محلول بنا کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یمنٰی طبی فلاحی مرکز پر کئی مریضوں میں محلول استعمال کیا گیا۔ اس سے نہ صرف ان کے جگر کے افعال درست ہوئے بلکہ کچھ میں ہیپاٹائٹس سی کے مرض کا خاتمہ بھی ہوا۔ ہیپاکول سیرپ، گولیاں اور شربت پپیتہ کا استعمال ضروری ہے۔ ہیپاکول سے جگر کے نہ صرف افعال درست ہوتے ہیں۔ جسم میں قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے۔ وائرس کمزور ہو کر مزید نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہتا۔ شربت پپیتہ کے باقاعدہ استعمال سے خون میں پلیٹلٹس کی تعداد جو ہیپاٹائٹس سی میں کم ہو جاتی ہے، نارمل ہو جاتی ہے۔
تحریر: بابا جی 

Total Pageviews