January 25, 2023

Our Media Content & Cruelty on Womens : مارا میڈیا کانٹینٹ اور عورت پر ظلم

 

ہمارا میڈیا کانٹینٹ اور عورت پر ظلم۔ ۔ ۔
عورتوں کے ڈراموں کے لیے مخصوص چینل پر ڈرامہ چل رہا تھا، ایک خوبرو اداکارہ دلہن کے کپڑوں میں بیٹھی تھی، پاس ایک وجیہہ مرد اداکار محبت بھرے مکالمے بول رہا تھا۔
یکایک وہ چیخ کر رونے لگی، اسکو اپنا بچہ یاد آ گیا جو اسکی ماں نے اسکی دوسری شادی کرتے ہوئے گھر میں رکھ لیا تھا۔ ۔ ۔ وہ بھاگ کر باہر نکلتی ہے، نیا شوہر اسکو گاڑی میں بٹھا کر واپس آدھی رات کو میکے لے جاتا ہے، اور کچھ مزید جذباتی ڈائیلاگ بول کر وہاں سے بچے کو ساتھ لے آتے ہیں۔ اگلی صبح ناشتے کی میز پر رات والی دلہن نوالہ چباتے ہوئے پیار سے شوہر کی طرف دیکھتی ہے اور کہتی ہے، "آپ واقعی بہت مزیدار آملیٹ بناتے ہیں"۔
یہ ہے وہ خواب جو ہماری عورت کو میڈیا ایجوکیشن سے مل رہا ہے۔ اس خواب اور ہمارے معاشرے کی حقیقت میں کتنا فاصلہ ہے، وہ جاننے والے جانتے ہیں۔ جو گلی محلے اور گاؤں گوٹھ میں زندگی کو اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اس نوے سیکنڈز کے "فلمی منظر" میں پہلے بچے والی عورت کی دوسری شادی ایک پیسے والے، خوبرو، سمجھدار، حساس، اور سب سے بڑھ کر مخلص مرد سے ہو جاتی ہے جو شادی کی اگلی صبح اسکو اپنے ہاتھ سے کھانا بنا کر کھلاتا ہے۔
یہ ایک ایسا خواب ہے جو ہمارے جیسے سماج میں ابھی کوسوں دور ہے، اور اگر آپ مجھے کہنے کی اجازت دیں تو بتاؤں کے مغربی معاشرہ جو عورت کو برابری کی سطح پر دیکھنے اور لانے میں ایک صدی آگے ہے، وہاں بھی یہ خواب ہی ہے۔
ایک بچوں والی عورت کو اگلا مرد ملنا بھی دشوار ہوتا ہے، ایک مغربی معاشرے میں بھی۔ جہاں وہ ہر ویک اینڈ سج سنور کر بار یا کلب میں جا کر اپنی پسند ناپسند کا فیصلہ خود کر سکتی ہے۔ وہاں بھی اسکو مردوں کی اس لائن میں سے انتخاب کرنا پڑتا ہے جو "بیگیج والے رشتے" میں انٹرسٹڈ ہوں۔ جن کو بیگیج والی اصطلاح کا نہیں پتہ ، وہ مغربی معاشرے کی ڈیٹنگ فلاسفی نہیں سمجھ پائیں گے۔
مگر مختصراً یہ کہ عورت کی برابری والے اس معاشرے میں بھی بچہ فقط رسمی حد تک دونوں کی زمہ داری ہوتا ہے، نوے فیصد کیسوں میں صرف ماں ہی بچے کی زمہ دار اور گارڈین کہلاتی ہے۔ ایسی زمہ داری کو اس عورت کا (یا مرد کا) بیگیج خیال کیا جاتا ہے، جو اپنے لیے بہتر چاہنے والے معاشرے میں ایک برائی سمجھا جاتا ہے کہ ایک ایسی عورت سے تعلق رکھا جائے جو بچوں والی ہو۔
ہمارے معاشرے میں کبھی نوجوان لڑکوں کے گروپوں میں جھانک کر تو دیکھیے۔ خود دنیا بھر کی حرامزدگیاں کرتے لڑکے کو بھی گاؤں کی وہ الہڑ دوشیزہ چاہیے ہوتی ہے، جس کو کسی نے میلی آنکھ سے نہ دیکھا ہو۔ ہاں شہروں میں اب ڈیٹنگ اور گرل فرینڈز والی وبا کی وجہ سے بظاہر کچھ لڑکے یہ سمجھتے ہیں کہ عورت کا جسم اسکی اپنی مرضی ہوتا ہے، مگر اندر سے سب وہی پاکستانی مرد ہیں، جو شادی کے دو سال بعد بھی ڈیپریس رہتے ہیں کہ انکو لگتا ہے انکی بیوی سہاگ رات کو کنواری نہیں تھی۔
ہمارے ہی معاشرے کی دوسری تلخ حقیقت یہ ہے کہ طلاق یا بچوں والی عورت کی شادی کے لیے ایسے رشتے آتے ہیں جو ماں باپ چاہ کر بھی کڑوا گھونٹ نہیں بھر سکتے۔ کوئی کاروباری اور کھاتا پیتا ہوگا، تو دوسری یا تیسری شادی ہوگی، اور عمر کا دوہرا فرق ہوگا۔ کوئی ہم عمر ہوگا، تو بیروزگار، اور اکثر حالات میں نکما اور نکھٹو ہوگا، جسکی شادی ویسے ناممکن ہوگی۔ یہ دو نہ ہوں تو تیسرا ایسا گھرانہ ہوگا جن کو بہو کے نام پر ایک کام کرنے والی مشین چاہیے ہوگی، زیادہ تر کیسز میں پہلی شادی کے بچے نانا نانی ہی سنبھالتے ہیں۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہر لحاظ سے قابل لڑکیوں کی شادی ایک بھیانک عفریت بن چکا ہے، وہاں ایک بچے والی ماں کی ایسی شادی اور ایسے شوہر کا خؤاب دکھانے والا میڈیا معاشرے کی عورت کو کن نفسیاتی الجھنوں کا شکار کرتا ہے اسکا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔
ایسے ڈرامے دیکھنے والی لڑکی اپنے ذہن میں بیرونی دنیا میں ایک شہزادے کا جو تصور پال لیتی ہے، یا کم از کم اپنے ہونے والے شوہر سے جو توقعات باندھ لیتی ہے، حقیقت کو اسکے بالکل برعکس پا کر ہزار طرح کے ذہنی تکلیف و تشدد کا شکار ہوجاتی ہے۔ جس کا زیادہ حصہ اسکے شوہر سے نہیں، میڈیا کے ایسے خوابوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
محمود فیاض

 

January 22, 2023

HAMOODUR REHMAN COMMISSION REPORT , حمود الرحمن کمیشن رپورٹ

 

 

حمود الرحمن کمیشن نے صدر جنرل یحییٰ خان، پاک فوج کے 8 لیفٹیننٹ جنرلز اور 2 میجر جنرلز کے پبلک ٹرائل کی تجویز کی۔
1971 کی شکست کے بعد جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہوئی، چیف جسٹس حمود الرحمن کے زیر نگرانی ایک عدالتی انکوائری کمیشن بنایا گیا جس نے 1947 سے 1971 تک مشرقی پاکستان میں پاکستان کی سیاسی اور فوجی مداخلت کا جائزہ لیا۔
کمیشن کے ارکان میں چیف جسٹس سپریم کورٹ، 4 دیگر سینئر ججز اور ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل بطور فوجی مشیر شامل تھے۔
کمیشن 2 رپورٹس لے کر آیا۔
- پہلی/ابتدائی رپورٹ
- دوسری/ضمنی رپورٹ
رپورٹوں نے ظاہر کیا کہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی افواج کے ہتھیار ڈالنے کے لیے کس طرح سیاسی، انتظامی، فوجی اور اخلاقی ناکامیاں ذمہ دار تھیں۔
1972 میں پہلی رپورٹ چیف جسٹس نے ذوالفقار بھٹو کو پیش کی۔
یہ نظریہ ہے کہ یہ رپورٹ پاک فوج کی سیاست میں مداخلت پر بہت تنقیدی تھی۔
رپورٹ میں فوجی فزیکل پریکٹس، روایت، نصاب اور تربیتی ایجنڈے میں تبدیلی اور تنظیم نو کے لیے تجاویز پیش کی گئیں۔
پہلی رپورٹ میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہونے والے مظالم اور منظم قتل عام کو تسلیم کیا گیا...
...جس کے نتیجے میں سویلین بیوروکریٹس کے لیے پبلک ٹرائلز اور فوج کے سینئر اسٹاف افسران کے لیے فیلڈ کورٹ مارشل کی تجاویز سامنے آئیں۔
رپورٹ کی 12 کاپیاں بنی تھیں۔ ایک کاپی صدر کو دی گئی، باقی یا تو چوری ہوگئیں یا تباہ ہوگئیں.
پہلی رپورٹ کبھی شائع نہیں ہوئی۔
ذوالفقار بھٹو کا موقف تھا کہ پہلی رپورٹ کو "پاکستان کی [فوج کی] عزت بچانے" کے لیے خفیہ رکھا گیا تھا۔
ضمنی/2nd رپورٹ
1974 میں، کمیشن نے مزید معلومات کے ساتھ رپورٹ پیش کرنے کے لیے اپنی انکوائری دوبارہ کھولی اور ان جنگی قیدیوں کو ایک موقع فراہم کیا جنہیں ہندوستان اور بنگلہ دیش نے رہا کیا تھا اور دیگر جو وطن واپس بھیجے گئے تھے۔
رپورٹ کے مواد کو 5 ابواب میں تقسیم کیا گیا تھا۔
باب 1 - اخلاقی پہلو
باب 2 - پاکستانی فوج کے مبینہ مظالم
باب 3 - بعض سینئر آرمی کمانڈروں کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں
باب 4 - نتائج
باب 5 - تجاویز
پہلی اور ضمنی رپورٹ کے دونوں نتائج میں پاک فوج پر بے مطلب آتشزدگی، دانشوروں کے قتل، عصمت دری، فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی اجتماعی قبریں بنانے اور مشرقی پاکستان کے سویلین اہلکاروں اور فوجی افسران کے قتل کا الزام لگایا گیا ہے۔
فوجی جرنیلوں پر ’’قبل از وقت ہتھیار ڈالنے‘‘ کا الزام بھی لگایا گیا۔
کمیشن نے کہا کہ 1958 کے بعد حکومت چلانے میں فوج کی مسلسل شمولیت سینئر افسران کی بدعنوانی اور غیر موثر ہونے کی ایک وجہ تھی۔
یہ براہ راست رپورٹ سے لیا گیا ہے۔
"یہاں تک کہ ذمہ دار سروس افسران نے بھی ہم سے پہلے یہ دعوی کیا ہے کہ سیاست اور ریاستی معاملات میں اس طرح کی مداخلت کے نتیجے میں بدعنوانی، شراب اور عورتوں کی ہوس اور زمینوں اور مکانوں کی لالچ، بڑی تعداد میں اعلیٰ فوجی افسران،...
خاص طور پر اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد نہ صرف لڑنے کی اپنی قوت ارادی بلکہ پیشہ ورانہ قابلیت بھی کھو چکے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’مضبوط اور مناسب کارروائی نہ صرف سزا کے لیے قوم کے مطالبے کو پورا کرے گی جہاں اسکا جواز بنتا ہے بلکہ 1971 کی جنگ کے دوران...
...دکھائے جانے والے شرمناک طرز عمل کے دوبارہ نہ ہونے کو بھی یقینی بنائے گی‘‘
جنرل یحییٰ پر ایک شرابی اور عورت باز ہونے کا الزام لگایا گیا تھا، جنہوں نے ایک کارروائی کے دوران جب اس بارے میں پوچھا تو کہا کہ ’’یہ میرا قصور نہیں کہ ان خواتین کے شوہر انہیں میرے پاس لائے‘‘
رپورٹ کی تجاویز میں یہ شامل ہیں:
ایوب خان سے غیر قانونی طور پر اقتدار چھیننے کی مجرمانہ سازش میں
- یحییٰ خان کا عوامی مقدمہ
- لیفٹیننٹ جنرلز - گل حسن، عبدالحمید خان اور ایس ایس جی ایم پیزادہ کے پبلک ٹرائلز
- میجر جنرلز - خداداد خان اور اے او مٹھا کا عوامی ٹرائل
فرض سے جان بوجھ کر کوتاہی کرنے پر:
- ان لیفٹیننٹ جنرلز کے عوامی ٹرائلز - عامر عبداللہ خان نیازی، محمد جمشید، محمد رحیم خان، ارشاد احمد خان، بی ایم۔ مصطفی۔
- ان بریگیڈیئر جنرلز کا عوامی ٹرائل - G.M. باقر صدیقی، محمد حیات، محمد اسلم نیازی
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بریگیڈیئر اقبال رحمٰن شریف (گواہ نمبر 269) نے الزام لگایا کہ جنرل گل حسن مشرقی پاکستان میں فارمیشنز کے دورے کے دوران فوجیوں سے پوچھتے تھے کہ "تم نے کتنے بنگالیوں کو گولی ماری ہے۔"
رپورٹ میں اے ڈی سی ڈھاکہ کا تذکرہ کیا گیا ہے جس نے کہا تھا کہ "فوجی کارروائی کے بعد بنگالیوں کو ان کے اپنے ہی وطن میں اجنبی بنا دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ ان میں سے اعلیٰ ترین افراد کی جان، مال اور عزت بھی محفوظ نہیں رہی۔"
"لوگوں کو شک کی بنیاد پر ان کے گھروں سے اٹھا کر بنگلہ دیش بھیج دیا جاتا تھا، یہ اصطلاح سمری پھانسیوں کی وضاحت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔"
"مغربی پاک کے فوجی افسران مقامی زبان سے ناواقف اور بنگالی حساسیت سے نابلد تھے۔"
رپورٹ میں "جنگ کی اعلیٰ سمت" کے نام سے ایک سیکشن ہے جو تجویز کرتا ہے:
- 3 سروس ہیڈ کوارٹر وزارت دفاع کے ساتھ ایک جگہ پر واقع ہونا چاہئے۔
- کابینہ کی دفاعی کمیٹی کو دوبارہ فعال کیا جائے اور اس کے اجلاس باقاعدگی سے منعقد کیے جائیں۔
- جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی چیئرمین شپ کو ہر سروس میں ذاتی رینک سے قطع نظر ہر انٹر سروسز فورس میں گھمایا جانا تھا۔ مثال کے طور پر فوج، فضائیہ اور بحریہ کے درمیان۔
- وزیر دفاع، سیکرٹری دفاع، 3 سروس چیفس کے ساتھ وزرائے دفاع کی کمیٹی ہونی چاہیے،
مالیاتی مشیر برائے دفاع، ڈی جی سول ڈیفنس، ڈی جی ایمونیشن پروڈکشن، ڈی جی آف ڈیفنس پروکیورمنٹ، DG ISI، ڈیفنس سائنٹیفک ایڈوائزر، اور دیگر مرکزی سیکرٹریز کی ضرورت ہے
یہ ایک سویلین ہیوی کمیٹی بننی تھی لیکن پاکستان میں افسوسناک بات یہ ہے کہ سول عہدے بھی ریٹائرڈ افسران کے پاس ہیں
- مسلح افواج کی طرف سے ظاہر کی گئی کمزوری کی روشنی میں، ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جس پر سرپرائز معائنہ کرنے کا فرض ہو۔
اس رپورٹ میں کہا گیا کہ مسلح افواج کے ادارے میں سول بالادستی اور سول مداخلت اور نگرانی ضروری ہے۔
رپورٹ اکتوبر 1974 میں وزیر اعظم بھٹو کو پیش کی گئی۔ بھٹو نے اس رپورٹ کو خفیہ رکھا کیونکہ اس سے فوج کے حوصلے پست ہوں گے اور اس میں بدامنی پھیل سکتی ہے۔
1976 میں چیف جسٹس حمود الرحمن نے بھٹو سے پوچھا کہ رپورٹ کے بارے میں کیا کیا جا رہا ہے، بھٹو نے کہا: رپورٹ غائب ہے، یا تو گم ہو گئی، یا چوری ہو گئی، اور کہیں نہیں مل رہی۔
چیف جسٹس نے چیف آف آرمی سٹاف ضیاء الحق سے رپورٹ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اصل رپورٹ کہیں نہیں ملی۔
رپورٹ کی بنیاد پر کبھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی، رپورٹ کو خفیہ رکھا گیا اور اس وقت اس کی اشاعت کی اجازت نہیں دی گئی۔
2000 میں، اس جنگ کی رپورٹ کو بالآخر صدر مشرف نے پاکستان میں ڈی کلاسیفائی کر دیا۔
تاہم، یہ ضمنی رپورٹ تھی نہ کہ پہلی رپورٹ جو فوج پر اس سے بھی زیادہ تنقیدی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک میجر جنرل راؤ فرمان علی جن پر مشرقی پاکستان میں فوج کے مظالم اور قتل و غارت میں بڑے پیمانے پر ملوث ہونے کا الزام تھا، انہیں زبردستی ریٹائر کر دیا گیا لیکن بعد میں انہیں فوجی فاؤنڈیشن کا منیجنگ ڈائریکٹر مقرر کر دیا گیا۔

 

باتيں کتابوں کی ۔Copy From Facebook

January 13, 2023

Muscular Dystrophy (A Silent Killer) مسکولر ڈسٹرافی (ایک خاموش قاتل)

 

مسکولر ڈسٹرافی (ایک خاموش قاتل)

Muscular Dystrophy (A Silent Killer)
آپ کی عمر 2 سال سے 60 سال تک ہے۔ آپ بڑی پرفیکٹ زندگی جی رہے ہیں۔ یہ قاتل آپ کے اور میرے جسم میں بھی چھپا یا سویا ہو سکتا ہے۔ جو کسی بھی وقت جاگ سکتا ہے۔
مسکولر ڈسٹرافی جسے عام زبان میں پٹھوں کی بیماری کہا جاتا ہے۔ اسے ہمارے جینز میں چھپا ہوا قاتل سمجھا جاتا ہے۔ جو عمر کے کسی بھی حصے میں جاگ کر جسم کے چند حصوں یا پورے جسم میں تہس نہس مچا دیتا ہے۔ اور یہ قاتل ہستے کھیلتے زندگی کی بہاریں دیکھتے اپنے شکار کو موت کے منہ کے قریب لے جاتا ہے۔
مسکولر ڈسٹرافی پر آج میں انشاء اللہ تفصیل سے بات کروں گا۔ اور اس قاتل کی چالوں و حملوں سے بچنے کے طریقوں پر بات ہوگی۔ تحریر پڑھنے کے لیے جو کر رہے ہیں پلیز اسے ابھی چھوڑ دیجیے۔ یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے جسے آپ کو ضرور پڑھنا چاہیے۔
اس بیماری کی یوں تو 8 اقسام ہیں مگر تصویری پریزنٹیشن میں 6 اقسام ہیں۔ جو کہ عام ہیں۔ آپ نے تحریر پڑھتے ہوئے تصویر کو a سے شروع کرکے نیچے f کی طرف دیکھتے جانا ہے۔
آئیے اس خاموش قاتل کے تمام طریقہ واردات پر باری باری بات کرتے ہیں۔

اے۔ ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی

Duchene Muscular Dystrophy
مسکولر ڈسٹرافی کے مریضوں میں یہ سب سے کامن قسم ہے۔ یہ ایک جنیٹک یا موروثی بیماری ہے۔ اور جو سب سے چھوٹی عمر میں ہوتی ہے وہ یہی ہے ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی۔ یہ ہمیشہ لڑکوں کو ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کے اندر ماں اسکی کیرئیر ہوتی ہے۔ اور بیماری جب ظاہر ہوتی ہے تو پیدا ہونے والے لڑکوں میں ظاہر ہوتی ہے۔
اب اس میں ہوتا کیا ہے؟ بچہ بلکل ٹھیک پیدا ہوتا ہے۔ تمام مائل سٹون اپنی عمر کے باقی بچوں کی طرح پورے کرتا ہے۔ چلنا باتیں کرنا سب کچھ پرفیکٹ ہوتا ہے۔ جیسے ہی عمر 5 سال ہوتی تو قاتل اندر سے جاگ کر بچے کے پاؤں کی ایڑھی زمین سے اٹھا دیتا ہے۔ اور اپنے شکار پر ہلا بولنے کی پہلی نشانی اسے پنجوں پر چلانا شروع کرتا ہے۔ چند ہی ماہ بعد بچہ اپنا چھاتی یعنی سینہ باہر نکال کر چلنا شروع ہوتا ہے۔ جیسے پہلوان سینہ تان کر چلتے ہیں۔ اندر چھپا ہوا قاتل ہی سینہ تان کر ایڑھیاں اٹھا کر للکار رہا ہوتا ہے میں آگیا ہوں آؤ اب میرے مقابلے میں۔
والدین بچے کو ڈانٹ رہے ہوتے کہ یہ تم کیسے چل رہے ہو؟ ایڑھی نیچے لگاؤ سینہ پیچھے کرو۔ مگر بچہ ایسا کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اور والدین اسے بچے کی کوئی عادت سمجھ کر اگنور کر رہے ہوتے۔ اور بزدل قاتل اپنا وار بچے کے پٹھوں پر تیز سے تیز کرتا جا رہا ہوتا۔
پھر چند ماہ بعد کیا ہوتا ہے کہ بچہ پیراں بھار بیٹھا ہوا جب اٹھنے لگتا تو اس سے اٹھا ہی نہیں جاتا۔ پیچھے گر جاتا۔ یا اٹھے بھی تو گھنٹوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھتا ہے۔ اور دن بدن ٹانگیں کمزور ہوتی جاتیں۔ بظاہر تو ٹانگیں ٹھیک ہونگی مگر اندر موجود مسلز کمزور ہو کر بڑی تیزی سے ٹوٹ رہے ہوتے۔ کیونکہ والدین کو تو پتا ہی نہیں بچے کے اندر کونسی جنگ چھڑ چکی ہے۔ اور دشمن اپنے وار معصوم پر دن رات کیے جا رہا۔
اس گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھنے سے بیماری کی شناخت شروع ہوتی ہے۔ اسے گاور سائن کہتے ہیں۔ والدین اب جا کے بچے کو سیریس لیتے ہیں۔ بچے کی عمر 7 سے 8 سال ہو چکی ہوتی۔ یعنی 2 سے 3 سال مسلسل قاتل اپنا کام کرتا رہا اور والدین کو خبر ہی نہ ہوئی۔ اب کسی ماہر ڈاکٹر کے پاس جائیں تو وہ پہچان لیتا کہ یہ تو مسکولر ڈسٹرافی ہے۔ اکثریت آبادی کی رسائی ماہر ڈاکٹروں تک نہیں ہو پاتی وہ کسی عطائی، مالشیے ہڈی جوڑ والے جراح کے پاس جاتے جو اپنے ٹوٹکے لگا کر قاتل کو اپنا شکار نگلنے میں اور وقت فراہم کر دیتے۔ جب تک بیماری کی مکمل تشخیص ہوتی بچہ موت کے منہ میں پہنچ چکا ہوتا۔
بیٹھ کر اٹھنا مشکل ہوا۔ پھر سیڑھیاں چڑھنا مشکل ہوا۔ اب کندھوں کے جوڑ کمزور ہونا شروع ہوئے۔ اور بازوؤں کے اوپری حصے کام کرنا چھوڑنے لگتے ہیں۔ 10 سال کی عمر تک بازو کو کندھے سے حرکت دینا بہت مشکل اور کئی کیسز میں بلکل ناممکن ہوجاتا ہے۔ ٹانگیں اور بازو مکمل یا 90 فیصد مفلوج ہو چکے ہوتے۔
بچہ اب پانی نہیں پی سکتا۔ روٹی کا نوالہ نہیں توڑ سکتا۔ کنگھی نہیں کر سکتا۔ قمیض پہنتے ہوئے ہاتھ اوپر نہیں اٹھتا۔ یہ کمزوری دن بدن بڑھتی جاتی ہے۔ اور کچھ بچوں میں دل کے پٹھے بھی کمزور ہونا شروع ہوتے ہیں۔ قاتل اب خون پمپ کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرنے کی طرف اپنا وار کرتا ہے۔ اسے ہم کارڈیو مایو پیتھی کہتے ہیں۔ یہ اگر ہو جائے تو بچے کی زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
یہ ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی کا شکار بچے 10 سال تک کسی طرح چل لیتے ہیں۔ پھر وہیل چیئر یا چار پائی پر آجاتے ہیں۔ اور دوبارہ کبھی بھی کھڑے نہیں ہو سکتے یا چل نہیں سکتے۔ یا کسی سہارے سے چلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
خطرناک صورت حال کب بنتی ہے؟ بیماری نے حملہ کر دیا ہوا۔ اور بچے کو بخار ہوگیا۔ ابھی بیماری کا آغاز ہے اور بچے کو والدین لٹائے رکھتے ہیں۔ ساکت پڑے ہوئے بچے پر قاتل اپنا حملہ بہت تیز کر دیتا ہے اور مسلز بڑی تیزی سے ضائع ہونے لگتے۔ ان بچوں کو بخار میں ہر وقت کبھی بھی لیٹنے نہ دیں۔ پیراسیٹامول دے کر بچوں کو تھوڑا تھوڑا چلائیں۔ ایک دفعہ مسلز ضائع ہونے ٹوٹنے شروع ہوگئے آپ ان کو پھر روک نہیں سکتے۔ کمان سے تیر نکل جائے گا۔
نیم حکیم یا عطائی یا ہمارے گھر کے ہی بڑھے بوڑھے سیانے کہتے ہیں کہ بچے کو ورزش کروائیں۔ اس سے پٹھوں میں جان آئے گی۔ یہ سب سے بڑی غلطی ہے جو والدین کرتے اور پٹھے جو پہلے ہی کمزور ہورہے ہوتے وہ تباہ ہوجاتے۔ اتنی ورزش کریں کہ جوڑ جڑ نہ جائیں۔ ان میں تھوڑی حرکت رہے اور کوئی بھی چیز اٹھائے بغیر باڈی ویٹ پر ہی معمولی ورزش کریں۔ بچے کو تھکنا نہیں چاہیے۔ ان بیماری میں بچوں کے پٹھے کاغذ کی طرح ہو چکے ہوتے وہ بڑی جلدی ٹوٹ جاتے ہیں۔
ایک اور بلنڈر والدین یا ماجھے و نورے قسم پریکٹشنر ان بچوں کے ساتھ کیا مارتے ہیں۔ وہ یہ کہ بچہ جب ایڑھی اٹھاتا ہے تو وہ کسی عطائی، ہڈی جوڑ یا نئے نئے بنے آرتھوپیڈک یا جنرل سرجن کے پاس چلے جاتے۔ وہ اس کی وجہ سے بے خبر ایڑھی کو زمین پر لگانے کی کوشش کرتا۔ نہیں لگتی تو کئی ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی بچوں کے پاؤں کے آپریشن ہوئے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ اب اس بچے کا آپریشن کرنے والے عطائی یا سرٹیفائیڈ ڈاکٹر کا میرا بس چلے تو مرڈر کر دوں۔ والدین کو تو پتا ہی نہیں آپ لوگ ہی عقل کر لیا کریں۔ نہیں پتا کسی سے پوچھ ہی لو۔
ایڑھی اٹھتی پتا کیوں ہے؟
ٹانگوں، کولہوں اور کمر کے پٹھے سکڑ رہے ہوتے۔ اب جسم اپنے خود کار دفاعی نظام کے تحت ان پٹھوں کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے خود بخود پاؤں کی ایڑھی اٹھا کر ان پٹھوں کو Compensate کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ کہ والدین اس بچے کو بچا لیں۔ اس کی ٹانگوں کے پٹھوں کو ضائع ہونے سے بچا لیں۔ جب کسی بھی طرح ایڑھی زمین پر لگا دی جاتی تو پٹھے ٹوٹ کر ہمیشہ کے لیے ضائع ہوجاتے۔
پیٹ باہر نکل رہا ہوتا تو بیلٹ کبھی نہ لگائیں۔ اس سے پیرا سپائنل مسلز کمزور ہونا شروع ہو جائیں گے۔
ہم قاتل کے وار سے بچ کیسے سکتے ہیں؟
اسکا پوری دنیا میں کوئی علاج نہیں ہے۔ جو اسے بلکل ختم کر سکے۔ ہاں سٹیم سیل تھراپی شاید چند سالوں بعد اسکے علاج میں مددگار ہو مگر ابھی آج کے دن تک کوئی علاج نہیں ہے۔
پاکستان میں ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی کا شکار اکثریت بچے دیر سے تشخیص ہونے کے باعث ٹین ایج (13 سے 19) میں ہی فوت ہوجاتے ہیں۔ اگر شروع سے پتا چل جائے اور کوالٹی آف لائف بہتر کر دی جائے۔تو بچوں کی زندگی 30 سے 40 اور بہت کم کیسز میں 50 تک بھی جا سکتی ہے۔ ہمیں ان بچوں کے لیے ان کے لائف سٹائل اور اوور آل ماحول و سپورٹ سسٹم کو بدلنا ہوتا ہے۔ ان کو اٹھا کر چلانا نہیں ہوتا بلکہ وہیل چیئر پر ہی ان کو زندگی کا کوئی مقصد دینا ہوتا ہے۔ جو مقصد انکی عمر بڑھا دیتا ہے۔
ایک بات میری یاد رکھیں کہ ہم اپنی بھی اور ان مسکولر ڈسٹرافی والے بچوں کی کوالٹی آف لائف تو بہتر کر سکتے ہیں مگر کوانٹٹی آف لائف نہیں بڑھا سکتے۔ یہ ایک موٹا پرنسپل یاد رکھیں۔
مالش بلکل نہیں کرنی۔
کوئی بریس کوئی سپیشل جوتا نہ پہنائیں۔
کوئی سرجری نہیں کروانی۔
بچوں کو بیکری کی تمام اشیاء، چاول، کولڈ ڈرنکس، مصنوعی جوسز، بلکل نہیں دینے۔
بچوں کو بلکل بھی موٹا نہیں ہونے دینا۔
جیسا ہی بچہ موٹا ہوا سمجھیں وہ زندگی سے گیا۔
ان کو سکول بھیجنا ہے مگر جب تک آسانی سے جا سکیں۔
پڑھائی اور امتحانوں کا سٹریس نہیں دینا۔
خوش رکھنا ہے۔ ڈپریشن میں نہیں جانے دینا۔
بہت زیادہ ڈاکٹر نہیں بدلنے۔ اس کی کوئی دوا نہیں ہے بس لائف سٹائل بدلنا ہوتا۔
جتنی بار نئے نئے ڈاکٹروں کے پاس جائیں گے بچے میں سٹریس بڑھے گی کہ میں ٹھیک نہیں ہوسکتا۔
اس معذوری کو ڈے ون سے قبول کریں۔ اور بچے کو بھی اچھی طرح سمجھائیں کہ آپکی زندگی اب وہیل چیئر کے ساتھ گزرنی ہے۔
چلنے کا خواب معصوم آنکھوں کو نہ دیں جو پورا ہی نہیں ہونا۔ ادھورے یا پورے نہ ہو سکنے والے جاگتی آنکھوں سے دیکھے گئے خواب اکثر ہمیں بڑوں کو اندر سے توڑ دیتے ہیں۔یہ تو پھر معصوم بچے ہوتے۔
خود نہیں افورڈ کر سکتے کسی سے درخواست کرکے زیور مال مویشی بیچ کر ان بچوں کو بجلی سے چلنے والی جاپانی پاور وہیل چیئر لے کر دیں۔ جو پانچ دس سال نکال بھی جائے۔
بچوں کو وہ وہیل چیئر آپریٹ کرنا سکھائیں۔ اپنے گھر کا لیول باہر گلی یا سڑک کے لیول سے بس 6 انچ یا 1 فٹ اونچا رکھیں۔ اور ریمپ بنائیں۔ جب جی چاہے بچہ باہر جائے گھر آئے۔ اسے ایک کمرے گھر یا چارپائی پر محدود نہ کریں۔
کوشش کریں مسجد، مندر، چرچ، امام بارگاہ، گر دوارہ میں ریمپ بنوائیں۔ بچے کی وہیل چیئر کو مسجد میں بغیر کسی کے دھکا لگائے رسائی دیں۔ وضو کی جگہ سپیشل بنائیں کہ یہ بچہ مسجد میں وہیل چیئر پر بیٹھا ہی وضو کر سکے۔ وہ وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا ہی مسجد کے اندر چلا جائے۔ عبادت کرے اور کوئی اسے روکنے والا نہ ہو۔
خدا سے تعلق جتنا مضبوط ہوگا۔ زندگی میں کچھ کر گزرنے کی لگن اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ اور روحانی طاقتیں بھی کوالٹی آف لائف کو بہتر کر دیں گی۔
ان بچوں کو بولنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ یوٹیوب چینل بنا سکتے ہیں۔
وائس اوور آرٹسٹ بن سکتے ہیں۔
نیوز کاسٹر بن سکتے ہیں۔
وی لاگنگ کر سکتے ہیں۔
ان کی وہیل چیئر یا کرسی چارپائی عام روٹین سے کافی اونچی رکھیں۔ بیڈ صوفہ الغرض جس بھی چیز پر یہ سکول کالج یا آفس میں بیٹھتے ہیں وہ نیچے اینٹیں وغیرہ رکھ کے اونچا کر دیں۔ کہ اٹھنے میں بہت زور نہ لگے۔ اٹھنا چاہیں تو جیسے ہی پاؤں زمین پر لگیں یہ کھڑے ہوجائیں۔
ہر بار جب یہ ران کے پٹھوں پر زور دے کر اٹھتے ہیں۔۔تو وہ پٹھے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اور اٹھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہوئی ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے ان کے بیٹھنے کی جگہ ہی اونچی کر دیں۔ اٹھتے وقت بلکل زور نہ لگے۔
شادی کی طرف نہ ہی آئیں تو بہتر ہے۔ ڈاکٹر سے مشورہ کرکے بیماری کی شدت دیکھ کر شادی کا فیصلہ کیا بھی جا سکتا ہے۔
ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی کی میڈیکل تشخیص کے لیے سب سے کامن و عام ٹیسٹ ہے۔ cpk ۔ یہ ایک بلڈ ٹیسٹ ہے۔ جو کی مقدار ایورج سے ہزاروں گنا زیادہ ہوتی ہے۔ نارمل سی پی کے 150 کی رینج میں ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ EMG ہو سکتا ہے۔ مسل بیاپسی بھی ہو سکتی ہے۔

بی۔ بیکر مسکولر ڈسٹرافی

Becker's Muscular Dystrophy
ڈوشین 4 سے 5 سال میں ظاہر ہوتی۔ جبکہ بیکر 15 سے 19 سال تک ظاہر ہوتی ہے۔ ابتدائی علامتیں ڈوشین جیسی ہی ہونگی۔ اکثر بچوں میں ڈوشین کی طرح ایڑھی نہیں بھی اٹھتی۔ مگر پیٹ اور سینہ باہر کو نکلنے لگتا ہے۔ بیٹھ کر اٹھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ چلتے چلتے گر سکتا ہے۔ یا سٹیبل نہیں رہتا لڑ کھڑانے لگتا ہے۔ ٹانگوں میں جان نہیں رہتی۔
بی والی تصویر زرا دیکھیں۔ کندھے اور ہاتھ کام کرنا چھوڑنے لگتے ہیں۔ بازو اوپر نہیں اٹھتے۔ علامتیں ڈوشین والی ہی ہیں مگر عمر کا فرق ہے۔ اس میں قاتل 4 سال میں جاگا اور یہاں 15 سے 19 سال تک چھپا رہا۔
بیماری کے آغاز میں تشخیص ہو جائے تو یہ بچہ اگلے دس سال تک چل سکتا ہے۔ کہ اسے سپورٹ دی جائے۔ یہ چیز بھی ختم نہیں ہونی۔ بس ہم نے مریض کی کوالٹی آف لائف ہو بہتر کرنا اور لائف سٹائل کو مکمل بدلنا ہے۔ 30 سے 32 سال کی عمر تک ہر قسم کی سپورٹ کے باوجود یہ بچے بھی بلا آخر وہیل چیئر پر آجاتے ہیں۔
ان بچوں کے لیے بھی وہ سب احتیاطی تدابیر اور لائف سٹائل میں تبدیلیاں ہیں جو اوپر ڈوشین میں لکھی ہیں۔ موٹے نہ ہوں۔ بہت ورزش نہ کریں۔ خود کو تکلیف دے کر چلیں نہیں۔ علاج کے پیچھے شہر شہر بستی بستی ناں بھاگیں۔ بریس، بیلٹ نہ لگائیں۔ سرجری نہ کروائیں۔ ان کی وہیل چیئر یا کرسی چارپائی اونچی رکھیں۔ بیڈ صوفہ الغرض جس بھی چیز پر یہ سکول کالج یا آفس میں بیٹھتے ہیں وہ نیچے اینٹیں وغیرہ رکھ کے اونچا کر دیں۔ کہ اٹھنے میں بہت زور نہ لگے۔ اٹھنا چاہیں تو جیسے ہی پاؤں زمین پر لگیں یہ کھڑے ہوجائیں۔
الیکٹرک ٹرائی سائیکل لیں جس پر جہاں مرضی جائیں۔ 150 ہزار کی اچھی الیکٹرک ٹرائی سائیکل آجاتی جو ڈوشین اور بیکر دونوں کے لیے بہترین ہے۔
تین پہیوں والی موٹر سائیکل ان کے لیے نہیں ہے۔ اس سے گر سکتے ہیں۔ وہ پولیو والے افراد کے لیے ٹھیک ہے۔ ان کا اوپری دھڑ بڑا مضبوط ہوتا ہے۔ جبکہ ان کا اوپری دھڑ بہت کمزور ہوتا۔ ہینڈل نہیں سنبھال سکتے۔
اس میں ہو سکتا ہے۔ ٹیسٹ کروانے پر سی پی کے cpk زیادہ نہ ہو۔ اس میں صرف ای ایم جی کروا کے یا کلینکل کو رلیشن کرکے معلوم کر سکتے ہیں۔ یا مسل بیاپسی بھی ہو سکتی ہے۔ تشخیص کے بعد لائف سٹائل کو بدلنا ہے علاج پر وقت ضائع نہیں کرنا۔ میں بار بار یہ کہہ رہا ہوں۔

سی۔ لمب گرڈل مسکولر ڈسٹرافی

Limb Girdle Muscular Dystrophy
اچھا یہ والی قسم ایسی ہے جو 2 سال سے لیکر 40 سال تک کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے۔ علامات سب وہی ہونگی۔ اس میں جو مسلز کمزور ہونگے وہ
hip and shoulder areas (limb-girdle area)
پر ہونگے۔ علامات وہی ہونگی۔ احتیاط بھی سب وہی ہے۔
مگر اس قسم میں بیماری کا حملہ 40 سال کی عمر تک ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے قاتل بلکل خاموش سویا ہوا ہے۔ آپ بڑی آئیڈیل و صحت مند زندگی جی رہے ہیں۔

ڈی۔ فیشیو سکیپولو ہیومرل ڈسٹرافی

facioscapulohumeral muscular dystrophy
یعنی چہرہ کندھا دونوں اس میں متاثر ہوتے ہیں۔ ڈی والی فوٹو دیکھیں۔ اس میں چہرے کی ساخت یا سائز ایک یا دونوں سائیڈوں سے سکڑ جاتا ہے۔ کندھے اور بازو بہت کمزور ہو جاتے ہیں۔ بیماری کی قسم 20 سال سے لیکر 50 سال تک کسی بھی وقت حملہ آور ہو سکتی ہے۔۔عموما چالیس کے بعد اس کا ایج آف آن سیٹ دیکھا گیا ہے۔
اس میں عموماً ٹانگیں بہت کم انوالو ہوتی ہیں۔
جس مرضی عمر میں سویا ہوا قاتل جاگ جائے احتیاط و لائف سٹائل سب وہی ہیں جو اوپر آپ پڑھ کے آئے۔
ای۔ ڈسٹل مسکولر ڈسٹرافی
Distal Muscular Dystrophy
یہ بیماری بھی عمر کے کسی حصے میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ عموماً یہ 40 سے 60 سال کی عمر میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس میں آپ فوٹو میں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ڈسٹل پارٹس آف باڈی۔ یعنی سنٹر سے دور دراز کے علاقے متاثر ہوتے ہیں۔ بازوں کے کہنیوں سے نچلے حصے اور ٹانگوں کے گھٹنے سے نچلے حصے۔
اس میں بھی علامات اور باقی سب باتیں وہی ہونگی جو ڈوشین میں ہیں۔

ایف۔ اکولو فرینجئیل مسکولر ڈسٹرافی

Oculopharyngeal Muscular Dystrophy
یہ بھی مسکولر ڈسٹرافی کی ایک رئیر فارم ہے۔ جو عموماً 40 سے 60 سال کی عمر میں اس سے متاثرہ مردوں و عورتوں دونوں میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ اس میں آنکھوں اور گلے کے مسلز کمزور ہونا شروع ہوتے۔ اور آنکھوں کی شیپ بدل دیتے۔ ہمارے بھنویں نیچے لٹک جاتے ہیں۔ اور گے کی اسکن بھی ڈی سیپ ہو جاتی ہے۔ اس مریض کو دیکھنے و کھانے میں مسئلہ پیش آتا ہے۔ کوئی سچ ایز علاج نہیں ہے۔ بس لائف سٹائل بدلنا ہے۔
اب ساری کہانی کا کرکس نکالوں تو دو باتیں کہوں گا۔
1. لانگ لائف ری ہیبلی ٹیشن پراسس ہوگا۔ اسے لائف ٹائم بھی کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ کوئی ایک ہی اچھا ری ہیبلی ٹیشن سپیشلسٹ چن لیں۔ جس سے آن لائن ہی رابطے میں رہیں۔ اور زندگی گزرنے کے ساتھ پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے اس سے راہنمائی لیتے رہیں۔ ایڈوانس ممالک میں ایسے بچوں کے ساتھ کام کرنے والے ری ہیبلی ٹیشن سپیشلسٹ سالانہ فیس لیتے ہیں۔ اور فون کال پر دستیاب ہوتے ہیں۔ میں خود پرائیویٹلی یہ سروس فراہم کرتا ہوں۔
ابھی میرے پاس دو بچے ہیں جن کے والدین کو میں بڑی جد و جہد کے بعد علاج کی نفسیات سے نکال کر ری ہیبلی ٹیشن میں لا چکا ہوں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ان بچوں کا ڈائٹ پلان، تعلقات، تعلیم، جاب، لائف سٹائل، زندگی کے بڑے فیصلے سب کچھ ماہرین کی سپر ویژن میں ہوتا ہے۔
آپ ایک دو بار مجھ سے فون پر بات کر سکتے ہیں۔
مجھے مل کر مشورہ کر سکتے ہیں۔ یہ سروس ساری عمر ساتھ چلنے والی کنڈیشنز مسکولر ڈسٹرافی، سیری برل پالسی اور ڈاؤن سنڈروم بچوں کے لیے بلکل فری یے۔
اور یہاں کیا ہوتا؟ جیڑھی رات قبر ویچ اے او باہر نئیں
جنھے لایا گلیں میں اوہندے نال چلی
جیہڑا رب بیماری لا سکدا اے او کٹ وی تے سکدا اے ( اور اسی لاحاصل امید کے چکر میں علاج کے پیچھے شہر شہر جا جا کر بچے کی باقی ماندہ صلاحیتوں پر اچھے بھلے سمجھدار والدین پانی پھیر دیتے ہیں)
2. ان بچوں کے لیے گھر میں سکول کالج مسجد آفس ہر جگہ بدلاؤ کرنے ہیں۔ انہیں بے مقصد زندگی نہیں گزارنے دینی۔ جہاں بھی بچے کے ساتھ مسکولر ڈسٹرافی جڑ جائے۔ اس کے والدین نہیں کر سکتے تو کمیونٹی کے دیگر افراد مل کر اس بچے کی رسائی ہر ممکن جگہ تک یقینی بنائیں۔ پارک میں اس کی رسائی کے لیے پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی پارک و گراؤنڈز کی راہداری اور گیٹ کھلا کرنے کا قانون طور پر پابند ہے۔ تمام بنک ریمپ بنانے کے پابند ہیں۔ مگر جیسے ریمپ بنکوں میں بنے ہوتے وہ بلکل بھی ٹھیک نہیں ہوتے۔ خانہ پری ہوتی یے وہ بس۔ پلازوں میں دفاتر میں ریمپس بنائے جائیں اور ان لوگوں کو وہیل چیئر سمیت ہر جگہ رسائی ملے۔
خطیب احمد
سینئر سپیشل ایجوکیشن ٹیچر
گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سنٹر نوشہرہ ورکاں
ضلع گوجرانولہ

 

January 12, 2023

میں نے بیوی کے کہنے پر اپنی بہن کو طلاق دلوا دی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میرا نام شایان ہے۔ اور میں اپنے خاندان کا اکلو تاوارث ہوں ۔ جس کی پیدائش پر گھی کے چراغ جلانے گئے ۔ کیوں کہ میری پیدائش پانچ سال بعد ہوئی تھی میرے ماں باپ میری پیدائش پر بہت ہی زیادہ خوش تھے ۔ میرے خاندان کو وارث مل گیا تھا۔ اس لیے سب مجھے بہت پیار کرتے تھے . میرے لاڈ پیار میں کوئی کمی نہ چھوڑی گئی تھی۔ میں نے جس چیز کی خواہش کی وہ مجھے مل کر رہی۔ میں پانچ سال کا تھا۔ جب ماں نے میری تنہائی دور کرنے کے لیے خالہ کی بیٹی گود لے لی۔ میں اپنی بہن سے بہت پیار کرتا تھا۔ اس کی بھی ایہاں اور اہا میں جان بستی تھی۔ کوئی دیکھ کر کہہ نہیں سکتا تھا کہ وہ اماں لہا کی سکی اولاد نہیں ۔ اس کا نام سکینہ تھا ۔ سکینہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی۔ اسی وجہ سے میں نے ضد کر کے اسے کالج بھیجا۔ کیونکہ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو پڑھانے کی اجازت نہ تھی۔ میں پڑھائی میں اچھا نہیں تھا۔ اس لیے سکینہ میرے برابر میری کلاس میں آگئی۔ ہم دونوں بہن بھائی

اکٹھے کالج جاتے تھے۔ انٹر کرنے کے بعد اماں اور ابا نے اسے گھر بیٹھالیا۔

کہ اب گھر بیٹھ کر پڑھو میرے کچھ دوستوں کو سکالر شپ پر باہر جا کر پڑھنے کا موقع ملا تو میں نے اپنے باپ کو راضی کیا۔ کہ چاہے جتنی بھی نہیں ہو مجھے بھی باہر کے ملک جا کر پڑھنا ہے۔ میرے بابا جان اور ماں مجھے اتنی دور تو نہیں بھیجنا چاہتے تھے ۔ مگر پھر بھی میری ضد کے آگے ہار گئے ۔ یوں اٹھارہ سال کی عمر میں میں نے امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ مجھے وہاں پڑھتے ہوئے ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک حادثے میں ابا کا انتقال ہو گیا۔ مجھے ابا کے آخری دیدار کا موقع نہ مل سکا، کیونکہ فلائٹ نہ مل سکی۔ میں تیسرے دن پہنچا تھا۔ سارے رشتے دار جائیداد کے بٹوارے کی بات کر رہے تھے۔ جب میری ماں نے اندر سے سب کو یہ کہہ کر چپ کروا دیا۔ کہ شایان اب اس ساری جائیداد کا مالک ہو گا۔ میں حصہ بھی اپنے بیٹے کے نام کر دوں گی ۔ ہمارے ہاں بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔ بلکہ ان کے اونچے خاندان میں شادی کر کے بہت بھر بھر کے جویز دے دیا جاتا تھا۔ مجھے دولت سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ دولت باپ کا نم البدل تو نہیں ہو سکتی نا میں تھوڑے دن رہ کر واپس چلا آیا تھا۔ پڑھائی میں پہلے دن نہیں لگتا تھا۔

اور بابا کے انتقال کی وجہ سے میں پڑھ ہی نہ سکا اور فیل ہو گیا اور میرا غم بہت بڑا تھا۔ میں سارا دن آوارہ گردی کرتا رہتا۔ مستقبل کے جیسی کوئی فکر ہی نہ تھی۔ میں نے وہاں کچھ سال گزار لیئے۔ جب اماں جان نے مجھے فون کر کے حکم سنایا تھا۔ کہ جلد از جلد پاکستان آنے کی تیاری کرو۔ کیونکہ بہن کی شادی طے کرنی ہے۔ اپنی بہن کی شادی کی خبر سن کر ہی میں بہت خوش ہو گیا تھا۔ فورا واپسی کی فلائٹ پکڑی اور حویلی پہنچ گیا سکینہ کا رشتہ خاندان میں ہی طے ہو گیا تھا۔ اور ماں نے اس کے لیے ایسا شاندار جیز بنایا تھا۔ کہ سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھی۔ سکینہ بھی بہت خوش لگ رہی تھی۔ مہندی کی رات میں بھاگ بھاگ کر سارے کام کر رہا تھا۔ جب سکینہ کے ساتھ بیٹھی خوبصورت لڑکی پر میری نظر پڑی وہ بہت حسین تھی۔ اتنی خوبصورت کہ ہر لڑکا اس کو دیکھے جارہا تھا۔ میری نظر بار بار اسے بٹنے کا ہم ہی نہیں لے رہی تھی۔ مجھے پہلی نظر میں وہ اچھی لگی اور محبت ہو گئی ۔ پھر باقی سارا وقت میں اسے دیکھتا ہی رہا۔ وہ میری بہن کی سہیلی تھی ۔ مہندی کے بعد جب سب لوگ گھروں کو چلے گئے۔ تو میں نے بہن سے پوچھا۔ وہ پہلے غرارے اور لال دوپٹے والی لڑکی تمہاری سکی ہے۔

بہن کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ماں نے منہ بنا کر کہا تو بہ توبہ وہ کیوں سکینہ کی سہیلی ہو گی بھلا، تماری بہن ایسی لڑکیوں سے دوستی نہیں کرتی۔ وہ تو پڑوسن ہے ہماری . میں یہ سن کر حیران ہو گیا کہ ایسی لڑکی سے کیا مراد . اماں سے بات کی تو کہنے لگی اس کی تین شادیاں ہو چکی ہیں اور تینوں ہی شادیوں میں شادی کی رات ہی اسے طلاق ہو جاتی رہی ہے ۔ اتنی طلاقیں لے چکی ہے۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا اسے طلاق کیوں ہوئی کہاں ؟ اماں بتانے لگی کہ وہ لڑکی شادی کی رات ہی لڑکے پر ایسی شرط رکھتی تھی کہ وہ مجبور ہو کر طلاق دے دیتا. کیونکہ وہ اس کی شرط پوری نہیں کر سکتا تھا. مجھے یہ ساری بات سن کر بہت حیرانگی ہوئی۔ کیونکہ چہرے سے وہ بالکل ایسی نہیں لگتی تھی کہ اس کے تین شادیاں ہو چکی ہیں۔ یہ سوچ بھی مجھے الجھن میں ڈال رہی تھی۔ کہ آخر وہ لڑ کی ایسی کیا خاص شرط رکھتی ہو گی جو کسی بھی مرد کے لیے اتنی ناقابل قبول ہو گی کہ وہ اسے طلاق ہی دے دیے۔ ساری رات میں اس کے بارے میں سوچتا رہا. وہ لڑکی میرے دماغ سے کل ہی نہیں رہی تھی۔

میں اس پر دل و جان سے فدا ہو چکا تھا۔ اگلے دن ہارات تھی اور وہ کل سے بھی بڑھ کر حسین اور پیاری لگ رہی تھی۔ میری تو نظریں ہی اس پر سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ اس نے بھی شاید یہ محسوس کر لیا تھا۔ اس لیے کچھ ہی دیر بعد ہی وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ ویسے والے دن میں سارا وقت اس کے پیچھے یچھے گتا رہا۔ آخر کچھ دنوں بعد میں نے اس سے اپنی محبت کا اظہار کر ہی دیا۔ اور کہا کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں . وہ بولی میرا نام سونیا ہے۔ اور میری چار تین ہو چکی ہیں۔ میں اپنے شوہر کے سامنے ایک شرط رکھتی تھی۔ اگر وہ اس شرط کو پورا کر پائے گا۔ جب بھی مجھے ہاتھ لگا سکے گا۔ ورنہ اسے مجھے طلاق دینی ہوگی۔ مگر کوئی بھی میری شرط پوری نہ کر سکا۔ اور شادی کی رات ہی مجھے طلاق لے کر آنا پڑا۔ میں نے بے صبری سے کہا میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تمہاری ہر شرط کو پورا کرنے کو تیار ہوں . تم بس ہاں کرو کہنے لگی ٹھیک ہے تم اپنی ماں اور بہن کو لے کر رشتہ لینے آجاؤ میں تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ بہن کی شادی کے کچھ مہینوں بعد ہی، میں نے اپنی شادی کا بھی ذکر چھیٹر دیا۔ اماں کو جب معلوم ہوا کہ میں سونیا سے شادی کرنے کا خواہش مند ہو

تو انہوں نے خوب ہنگامہ مچایا اور خوب باتیں بھی سنائی مگر میرے سر پر تو عشق کا بھوت سوار ہو چکا تھا۔ مجبورا اماں کو مانا پڑا. اور ہماری شادی طے ہو گئی ۔ شادی سے ایک دن پہلے طرح طرح کے خیال میرے ذہن میں آرہے تھے۔ کہ وہ مجھ سے کیا مانگے گی۔ کیا شرط رکھے گی۔ شاید وہ میری جائیداد کا مطالبہ کرے۔ میں نے سوچاوہ جس چیز کا بھی مطالبہ کرے گی میں اسے دوں گا۔ آخر مجھے اس سے بہت عشق ہے ۔ شادی کا دن آپہنچا مجھ سمیت سب کی سانس سوکھے ہوئے تھی پورا محلہ سرگوشیاں کر رہا تھا۔ سونیا آج کی رات اس دولہے پر کیا شرط رکھے گی۔ اس ساری صورتحال میں صرف میری اماں کو تسلی تھی۔ کہ سونیا آج رات پانچویں طلاق لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کے گھر سے چلی جائے گی ۔ مگر میں نے عزم کیا تھا کہ اگر وہ میری جان بھی مانگے گی تو میں دے دوں گا۔ مگر خود سے وعدہ کیا تھا کہ کسی صورت طلاق نہیں دوں گا ۔ شادی ہوئی اور وہ میرے گھر میں میرے کمرے میں آگئی۔ میں بہت خوش تھا۔ میں اسکا گھونگھٹ اٹھانے ہی

لگا تھا کہ وہ پہلے ہی کہنے لگی پہلے میری شرط سن لو اگر پوری کرنے کا وعدہ کرو گے

تب ہی گھونگھٹ اٹھاؤں گی۔ میں نے کہا تم اپنی شرط بتاؤ میں ہر شرط پوری کرنے کو تیار ہوں کہنے لگی سوچ لو ایسی شرط شاید تم پوری نہ کر سکو میں نے کہا جو بھی شرط ہے میں پوری کروں گا اور ہر حال میں کروں گا تم بس شرط بتاؤ میرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے جو شرط بتائی وہ سن کر میرے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے سر پر قیامت ٹوٹ گئی ہو . میں ایسا کرنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اپنی بہن سکینہ کو طلاق دلواؤ گے. تب ہی میں تمہارے ساتھ رہ پاؤں کی ورنہ مجھے ابھی طلاق دو۔ میں نے اس کے پیر پکڑ لیے اور کہا یہ شرط واپس لے لو کچھ اور شرط رکھ لو۔ اتنی کڑی شرط میں پوری نہیں کر سکتا. ایک بھائی اپنی بہن کا گھر کیسے برباد کر سکتا ہے۔ وہ گھو گھٹ اٹھا کر کہنے لگی اگر میری شرط قبول نہیں تو میں اس شرط میں تھوڑی سی نرمی کر سکتی ہوں . وہ اس طرح کہ تم تھوڑا وقت لے لو سوچ سمجھ کر سمجھداری فیصلہ کر لو میں اپنی شرط بدل نہیں سکتی۔ وہ آخر ایسی شرط کیوں رکھ رہی تھی ؟ میں سمجھنے سے قاصر تھا۔ میری جان مانگ لیتی, دولت مانگ لیتی ۔ مگر وہ تو میری بہن کے گھر کی تباہی مانگ

رہی تھی۔

کہیں اس کی میری بہن سے کوئی پرانی دشمنی تو نہیں جس کا بدلہ وہ اس طرح لینا چاہتی ہو . میں نے کچھ سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا کہ مجھے اس بات کی تہہ میں جانا چاہیے کہ آخر اسے میری بہن سے مسئلہ کیا ہے ؟ میں نے کہا مجھے دو ہفتے دو مگر میری بھی ایک شرط ہے کہ دو ہفتے تک میری بہن اور بہنوئی یہاں ہمارے گھر ہی رہیں گے ۔ میری شرط سن کر وہ تھوڑا پریشان ہوئی مگر پھر کہنے لگی ٹھیک ہے ۔ مگر صرف دو ہفتے ۔ اس کے بعد تم اپنی بہن کو طلاق دلواؤ گے. میرے دل میں شک پید اہو گیا تھا کہ آخر میری بیوی کا کیا فائدہ ہوتا۔ اگر میری بہن کو طلاق ہو جاتی تو صرف یہی معلوم کرنے کے لیے میں نے دو ہفتے مانگے۔ ورنہ اس کی شرط واقعی ایسی تھی کہ میں اس سے پورا نہیں کر سکتا تھا۔ میں صوفے پر جا کر لیٹ گیا۔ اگلی صبح میرا ولیمہ تھا۔ میں نے بہن اور بہنوئی کو کہا کہ کچھ دن نہیں رہ لو پھر چلے جانا میری بہن تور کئے پر آمادہ نہیں تھی۔ مگر بہنوئی مان گیا میں دیکھ رہا تھا کہ میری بیوی مسلسل میری بہن اور بہنوئی کو گھورے جارہی ہے۔ اس کے بر عکس میری بہن اس کے ناز اٹھاتے نہیں تھک رہی تھی۔ میں بہت مجبور ہو گیا تھا۔ ایک طرف میری محبت تھی۔

تو دوسری طرف میری بہن میری بیوی آج رات بھی اپنی شرط پر قائم رہی تھی۔ میں صوفے پر جا کر سو گیا۔ اچانک آدھی رات کو میری آنکھ کھلی تو ایسا محسوس ہوا جیسے میری بیوی باہر سے آئی ہے۔ دروازہ کھلنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ مجھے اٹھتے دیکھ کر کہنے لگی میں پانی پینے گئی تھی۔ کوئی اور موقع ہو تا تو اس وقت اسے باہر سے آتے دیکھ کر میں اس کی وضاحت پر یقین کر لیتا مگر جب اب تو شک ہی کیا جاسکتا تھا۔ میں فورا اپنی بہن کے کمرے کی طرف بھاگا۔ کہیں اس نے غصے میں میری بہن کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیا ہو۔ بہنوئی مجھے دروازے پر ہی ٹہلتا ہوا نظر آیا۔ تو میں حیران ہوا رات کے دو بیچ رہے تھے۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگا نیند نہیں آرہی ہے ۔ میں واپس کمرے میں آگیا. میری بیوی جب تک سو چکی تھی۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا. وہ بہت معصوم نظر آرہی تھی۔ اس کو دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ وہ اتنی سفاک ہو سکتی ہے۔ کہ اپنے جیسی کسی عورت کا گھر اجاڑ دے۔ ایک پل کے لیے مجھے لگا کہ کہیں کوئی اور بات تو نہیں مگر اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ اگلے دو دن معمول کے مطابق گزرے۔ وہ کمرے میں ہی رہی تھی۔ میری بہن البتہ حیران ضرور تھی کہ میں نے اسے کیوں روکا ہوا ہے یہاں پوچھ رہی تھی مگر میں کیا بتاتا کہ میں کرنا کیا چاہ رہا ہوں . میں نے کہا ویسے ہی بس کچھ دن میرے پاس رہو بہن کے سوال کا جواب دیتے دیتے میں چونکا.

مجھے اس کے سر پر چوٹ کا نشان نظر آیا۔ میرا ذہن فورا میری بیوی کی طرف چلا گیا۔ کہیں اس نے تو اپنی نفرت میں کچھ کیا تو نہیں تھا۔ میں نے پوچھا سکینہ یہ چوٹ کیسے لگی تمہیں ؟ کسی نے ملا ہے۔ نہیں ایسا ایسا تو کچھ نہیں ہے ؟ سکینہ نے جواب دیا اور بولی رات اندھیرے میں اٹھی تھی تو سر الماری سے ٹکرا گیا۔ اور مجھے بھلا کون مارے گا؟ میں چپ ہو گیا. اسی شام میں باہر سے گھر آیا تو لون میں سونیا اور سکینہ بہت ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔ ایسے جیسے کی دوستیں ہوں. میں اندر ہی اندر بہت خوش ہوا کہ چلو میری بیوی کی سکینہ سے دوستی ہو گئی ہے۔ اب وہ اپنی شرط سے باز آجائے گی مگر وہ اپنی شرط پر قائم تھی۔ کہنے لگی سکینہ کی طلاق تو ہر صورت ہو کے رہے گی۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ میں نے غصے میں گلدان نیچے زمین پر پھینکا اور خود باہر چلا گیا۔ رات کے دس بجے میری واپسی ہوئی ۔ تو سکینہ کے کمرے کی طرف پہلے چلا گیا۔ تاکہ اس کی خیریت دریافت کر لو کمرے سے بہنوئی کے بولنے کی آواز آرہی تھی۔ وہ میری بہن پر خصہ ہو رہا تھا۔ اور چیزیں پھینک رہا تھا. مجھے سمجھ آگیا کہ ضرور میری بیوی نہیں کچھ الٹا سیدھا کیا ہو گا۔ میرے بہنوئی کو بتایا ہو گا۔ کیونکہ اس کی آج کل میری بہنوئی کے ساتھ بہت بات چیت چل رہی تھی۔ ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ اور ابھی تک میں کچھ بھی معلوم نہیں کر پایا تھا۔

اس کی سکینہ سے کوئی دشمنی مجھے نظر نہیں آئی تھی۔ میری ماں تو میری طلاق سے مایوس ہو کر اپنے کمرے کی ہو کر رہ گئی تھی۔ اس دن میں کام سے تھوڑا جلدی کسی کو بھی بتائے بغیر گھر آگیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میری بیوی میرے بہنوئی کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس رہی ہے۔ مجھے بہت غصہ آیا. کیونکہ ہمارے خاندان میں رواج نہیں تھا۔ کہ اس طرح فری ہو کر مردوں سے بات کی جائے. مجھے دیکھ کر بہنوئی تو گھبرا گیا. اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ مگر وہ پر سکون انداز میں بیٹھی رہی ۔ تمہارا بہنوئی خود یہاں میرے پاس آیا تھا. میں نے نہیں بلایا تھا۔ اس لیے کچھ بھی کہنے سے پہلے اپنی شرط یا دور کھو چھ دن رہ گئے ہیں ۔ یا تو اپنی بہن کے طلاق کے پیپر بنواؤ ۔ اس سے پہلے میں اسے کچھ کہتا۔ سکینہ کی آواز سے پورا گھر لرز اٹھا، مجھ سے پہلے سونیا بھاگ کر اندر کئی سکینہ سیڑھیوں سے گر گئی تھی اور اس کا بہت خون بہہ گیا تھا۔ ڈاکٹر نے فوری طور پر بلڈ گروپ کا انتظام کرنے کو کہا. تو میری بیوی نے آگے بڑھ کر کہا۔ ڈاکٹر صاحب جو بلڈ گروپ میری نند کا ہے وہی میرا بھی ہے۔ آپ میرا خون لے لیں. جتنا چاہے اسے ڈاکٹر اپنے ساتھ لے گئے۔ میں تو پکا بکا ہی رہ گیا تھا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ سکینہ کی طلاق کروانے پر بند تھی۔ اور ابھی اسے اپنا خون دے رہی تھی۔ یہ سب ماجرا میری سمجھ سے باہر تھا. کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں تو اپنی ہی بیوی کو ابھی تک سمجھ نہیں پایا تھا۔

اور اس ایک دن میں میری بیوی نے میری بہن کا سگی بہنوں سے بھی بڑھ کر خیال رکھا تھا ۔ مجھے لگا کہ اب وہ اپنی شرط سے دیکھو ہٹ گئی ہو گی۔ اس کا دل نرم ہو گیا ہو گا ۔ مگر جب گھر گئے تو اس کی پھر وہی رٹ تھی۔ سکینہ کو طلاق دلواؤ۔ میں جب وجہ پوچھتا تو کہتی خود معلوم کرو۔ اور کبھی کہتی کوئی وجہ نہیں ہے۔ وہ عجیب تھی مجھے اس کی باتوں کی اور حرکتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ ایک طرف بہن کا اتنا خیال اور دوسری طرف اس کے گھر توڑنے کی بات جب کہ میری بہن اپنی شادی شدہ زندگی میں بہت خوش تھی۔ بس اس کی میرے بہنوئی کے ساتھ بڑھتی ملاقاتیں مجھے اچھی نہیں لگتی تھی۔ یوں ہی تیرہ دن گزر گئے۔ روز میری بیوی اپنی شرط مجھے یاد دلا دیتی ۔ اور میں سن کر چپ رہتا۔ آخری رات آگئی۔ میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ مجھے کیا کرتا ہے۔ یہ بچی تھا کہ کسی بھی صورت سکینہ کا گھر برباد نہیں کر سکتا تھا۔ مگر سونیا کو بھی کھونے کا ڈر تھا۔ ماہی نے کئی بار مجھ سے میری پریشانی کی وجہ پوچھی تھی ۔ مگر میں ٹال دیتا تھا۔ آخر جب کوئی فیصلہ نہ ہو پایا۔ تو میں صوفے سے اٹھ گیا۔ تاکہ سارا کچھ اپنی ماں کو بتا کر مشورہ لے سکوں. جیسے ہی میں صوفے سے اٹھ کر کھڑا ہوا تو دنگ رہ گیا۔ کیونکہ میری بیوی تو کمرے میں تھی ہی نہیں کہیں وہ رات کے اس پہر بہنوئی سے ملنے تو نہیں چلی گئی تھی۔ اس خیال کے آتے ہی میں کمرے سے باہر بھاگا۔ بہن کے کمرے سے شور کی آواز آئی. تو میں نے بغیر سوچے سمجھے دروازہ کھول دیا

اندر کا منظر دیکھ کر میرے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔ میرا بہنوئی ہاتھ میں پیٹ پکڑے سکینہ کو بری طرح سے پیٹ رہا تھا۔ اور سونیا بھی وہیں موجود تھی ۔ اور شاید اس کے کہنے پر یہ سب ہو رہا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر بہنوئی کو دھکا دے کر پیچھے کیا۔ اپنی بہن کو گلے سے لگایا جو رو رہی تھی۔ اتنی دیر میں اماں بھی آگئی۔ اماں نے پوچھا یہاں کیا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا ایں آپ کو بہت شوق تھا نا میری طلاق کا آپ خوش ہو جائیں۔ کل آپ کے دونوں بچوں کی طلاق ہو جانے گی سکینہ کہنے لگی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بھائی؟ میں نے کہا تمہارا شوہر تم پر سونیا کی وجہ سے ہاتھ اٹھا رہا تھا۔ میری بیوی اور تمہارا شوہر آپس میں ملے ہوئے ہیں ۔ یہ دونوں ان کو میں کتنے دنوں سے دیکھ رہا تھا گپ شپ کرتے ہیں۔ اور راتوں کو ملتے ہیں ۔ مگر میں نظر انداز کر چار ہا مگر آج نہیں یہ تمہارے شوہر کو پھنسار ہی ہے۔ اور اس سے پہلے میں بات مکمل کر پاتا۔ سکینہ کہنے لگی سونیا نے شادی کی رات جو بھی کیا آپ سے وہ سب میرے لیے کہا تھا۔ میں نے اسے بہت منع کیا تھا مگر وہ نہیں مانی میری اور سکینہ کی دوستی بہت پرانی تھی مگر اماں کے ڈر کی وجہ سے میں نے کبھی انہیں بتایا نہیں سونیا کی شادی ہوئی تو پتہ چلا کہ لڑکے نے اسے بدلہ لینے کے لیے شادی کی ہے ۔ اس نے پہلی ہی رات سونیا کو طلاق دے دی۔ کیونکہ ایک وقت سونیا نے اس لڑکے کو شادی سے انکار کیا تھا۔ اس لڑکے نے بھر پور کوشش کی کہ سونیا کی زندگی ہمیشہ کے لیے برباد ہو جائے .

اس لیے دوسری تیسری اور چوتھی شادی پر اسے دو لے کو شادی کی رات ہی جان بوجھ کر بھڑکا دیا، اور بیماری طلاقیں لے کر گھر بیٹھ گئی۔ لوگوں کی نظروں میں اپنی بیٹی کا تاثر اچھا بنانے کے لیے اس کی امی نے مشہور کر دیا کہ میری بیٹی شادی کی رات شرط رکھتی ہے جو دولہا پوری نہیں کر پاتے۔ پھر میری شادی پر تم نے سونیا کو پسند کیا میں نے اسے بتایا تو اس نے منع کر دیا کیونکہ وہ کسی اور تجربے کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہتی تھی میری شادی ہو گئی۔ مگر اماں نے بہت غلط انسان سے میری شادی کروادی تھی۔ اس شخص نے میرا جینا مشکل کر دیا تھا۔ بات بات پر طعنے کہ تم جائیداد میں حصہ نہیں لائی۔ مجھے پر ہاتھ اٹھاتا تھا۔ میں یہ بات کسی کو بھی نہیں بتا سکتی تھی ایک دن سونیا گھر آئی تو اس نے مجھے مار کھاتے دیکھ لیا۔ اس نے کہا طلاق لے لو مگر میں اپنی روایتوں، رسم و رواج کو جانتی تھی کہ بیٹی کا اب سرال سے جنازہ ہی اٹھے ۔ اس لیے میں نے اپنی قسمت کو قبول کر لیا۔ مگر سونیا نے کہا میں تمہیں اس وحشی انسان سے طلاق دلوا کر رہوں گی۔ اس نے شادی کی رات تم سے میری طلاق والی شرط اس لیے رکھی تھی ۔ تاکہ تم اپنی بہن کے حوالے سے تھوڑا محتاط ہو جاؤ.

اس نے جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کیے تاکہ میں اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رک جاؤں ۔ تاکہ تم اپنی آنکھوں سے اپنے بہنوئی کی حرکتیں دیکھ سکو، میرا شوہر عیاش فطرت کا ہے۔ خوبصورت لڑکیوں کے آگے پیچھے پھیرنا اس کا پسندیدہ کام ہے۔ سونیا کو دیکھ کر بھی اس کی رال ٹپک گئی۔ اس دن میں نے اس سے کہا کہ میری بھائی کو تو چھوڑ دو مگر اس نے غصے میں سیڑھیوں سے نیچے مجھے دھکا دے دیا۔ ابھی بھی یہ مجھے کیوں مار رہا ہے ؟ میں سمجھ نہیں پارہی تھی کہ سونیا مجھے بچانے آگئی۔ اور اسے روکنے کی کوشش کر رہی تھی جب ہی تم آگئے۔ سونیا معصوم ہے اس نے جو کیا میرے لیے کیا۔ تاکہ تم دیکھ سکو کہ میری زندگی کیسے جاری ہے۔ میں یہ کہانی سن کر شرمندہ سا نظریں جھکا کر رہ گیا۔ بھائیوں کو اتنا بھی لاپر واہ نہیں ہونا چاہیے کہ بہنوں کے ساتھ جو مرضی ہو تا ہے۔ انہیں پو بھی نہ چلے۔ سونیا کہنے لگی میں بس سکینہ کی وجہ سے اسے ہنس کر بات کر لیتی تھی۔ اگر ایسا نہ کرتی تو وہ میری وجہ سے سکینہ کو طعنے دیتا اور مارتا. میں نے اپنے ذاتی فائدے کے لیے وہ شرط نہیں رکھی تھی۔ صرف یہ چاہتی تھی کہ تم اس بہانے اپنی بہن کے حال پر ہی تھوڑا دھیان دیتے۔ میرا بہنوئی غصے سے بولا سارا قصور تمہارا ہے ساری دولت اور جائیداد اپنے نام لگوا کر اپنی بہن کو خالی ہاتھ بھیج دیا۔ ایسی صورت کی کون عزت کرے کا ہم نے اپنے بہنوئی کو اس وقت اسے دھکے دے کر نکال دیا۔

السطلی جاری تھی ۔ جو بیٹی کو پاتے وقت مرتے دم تک وہیں رہنے کو کہتے ہیں۔ بیٹیوں کو ان کا جائز حق نہ دے کر ہم خود ان کی عزت اور وقار میں کمی کرتے ہیں۔ میں نے سونیا سے معافی مانگی کہ میں اسے غلط سمجھتا رہا۔ اس کی شرط بھی پوری ہو گئی تھی۔ میری بہن کو میں نے طلاق دلوادی تھی۔ دوبارہ اس کی بہت اچھی جگہ شادی کروادی ۔ اور جائیداد میں سے بھی حصہ دیا۔ آج بارہ سال گزرنے کے بعد ہم دونوں بہن بھائی صاحب اولاد ہیں۔ اور بہت خوش ہیں۔ اپنی کہانی کے ذریعے بس یہی کہنا چاہوں کا بیٹیوں کے گھر آتے جاتے رہا کریں اور ان کے تمام حالات سے خبر دار رہیں اور مشکل وقت میں بہن بیٹیوں کو سہارا دیں

 

January 06, 2023

میں ڈاکٹر تھی جب بھائی اور بھابھی نے الزام لگا کر گھر سے نکال دیا

 میں ڈاکٹر تھی جب بھائی اور بھابھی نے الزام لگا کر گھر سے نکال دیا اور میں نے اپنی ٹرانسفر گھر سے دور پہاڑی علاقے میں کرالیا اور جس ہسپتال میں تھی وہاں کے بارے میں مشہور تھا۔ یہاں جنات کا بسیرا ہے اور رات کی ڈیوٹی کوئی نہ دیتا مجھے جنات پر یقین نہ تھا اور رات کی ڈیوٹی دینے لگی ایک رات آپریشن تھیڑ سے کچھ عجیب آوازیں سنائی دیں اور بھاگ کر جیسے ہی وہاں گئی تو پاوں تلے سے زمین نکل گئی کیونکہ وہاں تو میرا … مریم اپنے روم میں بیٹھی رو رہی تھی۔ آج اس کو والدین کی بہت یاد آرہی تھی۔ آج اس کی برتھ ڈے تھی اور بھائی کو والدین کی بہت یاد آرہی تھی۔ آج اس کی برتھ ڈے تھی اور بھائی بھا بھی نے اسے جھوٹے منہ بھی وش نہیں کیا تھا۔ وہ روتے ہوئے اپنے موم ڈیڈ کو یاد کرنے لگی کہ آپ اسے اس بھری دنیا میں اکیلا چھوڑ کر کیوں چلے کئے ہیں۔

وہ اب کس کے سہارے جیے۔ کسی کو اس کی خوشی یا غم سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ روتے ہوئے گزارا ہوا وقت یاد کرنے لگی۔ جب اس کے والدین زندہ تھے۔ ایک ماہ پہلے ہی اُس کے ڈیڈ اس کی برتھ ڈے کی تیاریاں شروع کر دیتے۔ اس کی اپنی پورے خاندان کو ایک گرینڈ پارٹی دی۔ جو عرصے تک لوگوں کو یاد رہی۔ جوں جوں وہ بڑی ہوتی گئی۔ دادا اور باپ کا لاڈ پیار انتہا کو چھونے لگا۔ مریم کی دادی پوتے پر جان چھڑکتی۔ مریم کو زیادہ نہ پوچھتی کہ یہ تو پر ایا مال ہے دوسروں کے گھر چلی جائے گی۔ مریم کی ماں بہت اچھی رحم دل عورت تھی وہ غریبوں کی بہت ہمدرد تھی۔ ملازموں سے بھی نرمی سے پیش آتی اور گاہے بگاہے ان کی مدد امداد کرتی رہتی۔ وہ مریم کو بھی ایسی ہی تعلیم دیتی۔ جبکہ باپ دادا اس کے برعکس تھے۔ وہ تو گھر کے ملازموں سے فالتو بات کرنا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔

ایسے ہی وہ پوتے کو سکھا رہے تھے۔ جبکہ مریم اپنی ماں کی طرح دل میں رحم کا جزبہ اور خوف خدا رکھتی تھی۔ مریم کی ماں بیٹے پر تو نہ چلتی تھی کیونکہ وہ اپنی دادی کا بہت لاڈلا تھا۔ وہ اس کے بگڑے پن پر بھی فخر کرتی تھیں کہ امیروں کے بچے اور غریبوں کے بچوں میں یہی تو فرق ہے دادی کا کہنا تھا کہ جب اللہ تعالی نے اتنی دولت دی ہے تو اس سے زیادہ فائدہ کیوں نہ اٹھا ئیں بچے کو غریبوں کے بچوں کی طرح پیسے کے لیے ترساتے رہیں۔ وہ اپنے پاس سے اسے کھلی پاکٹ منی دے دیتی تھیں۔ مریم کی ماں اگر ٹوکتی تو اسے جھڑک کر کہتیں کہ بہو تم حالا نکہ سونے کا پیچ لے کر پیدا ہوئی ہو پر تمہارے اندر امیروں والی کوئی بات نظر نہیں آتی۔ تم بچپن سے نہ جانتی ہوتی تو مجھتی کہ شاید تم نئی نئی امیر ہوئی ہو تو تمہیں امیروں والے طور طریقے نہیں آتے۔ مگر حیرت ہوتی ہے تمہاری تربیت پر ۔ ایسے کی گئی ہے جیسے کسی غریب لڑکی کو بچت کے طریقے سکھائے جاتے

ہیں۔

مریم کی دادی کہتی، میں اتنی بوڑھی ہو کر بھی ابھی تک زیور کپڑے کی شوقین ہوں اور ایک تم ہو کہ کسی چیز کا شوق ہی نہیں رکھتی تھی۔ ارے اللہ تعالی نے جب اتنا دیا ہے تو عیش کر و مریم کی ماں جواب دیتی، ماما اپنی ضروریات سے بڑھ کر سامان جمع کریں گے تو اس کی پوچھ ہو گی اور وہ سارا فالتو سامان سر پر اٹھا کر کھڑا ہونا پڑے گا۔ مریم ماں کی نصیحت سنتی تو اس کو اپنی آخرت کی فکر لگ جاتی، مگر پھر دادا، باپ اسے انا پر وٹوکول دیتے کہ وہ مجبور ہو جاتی۔ مریم کو اسکول کالج صبح اس کے ڈیڈ خود چھوڑ کر آئے کہ میں بیٹی کا رسک نہیں لے سکتا۔ واپسی پر اس کی موم کے ساتھ بوڑھا خاندانی ڈرائیور ساتھ جاتا۔ مریم کے ڈیڈ اسے ڈرائیونگ نہیں سیکھنے دیتے تھے۔ مارکیٹ اکیلے کبھی نہ جانے دیتے۔ اس کی موم کو سختی سے ہدایت تھی کہ ساتھ جاتا ہے۔ مریم اپنی ماں کی طرح سادہ لڑکی تھی۔

وہ پارلر اپنی ماں کی طرح جانے کی شوقین نہ تھی مگر دادی ہفتے میں دو بار جاتی اور اسے بھی زبر دستی ساتھ لے کر جاتی۔ مریم کو زبر دستی دادی مجبور کرتی تو اسے بھی مجبوراً کچھ نہ کچھ کروانا پڑتا۔ مریم کی ماں بھی ایک خوشحال گھرانے سے تھی. مریم کی نانی بہت نیک اور پر ہیز گار تھی۔ مریم کی ماں کی شادی جب مریم کے باپ سے ہوئی تو ساس بہت ماڈرن خیالات کی تھی۔ اس کی ساس کے آگے نہ چلتی۔ ویسے اسے ساس تنگ نہ کرتی، مگر اس کی سادگی سے اسے مسئلہ رہتا۔ ساس اسے پینڈو کہہ کر مزاق اڑاتی۔ مریم کی ماں ایک کان سے سنتی دوسرے سے اڑا دیتی۔ اس نے اپنی ڈگر نہیں بدلی۔ مریم کی ماں نے شوہر کو صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ آپ کی ماما جو مرضی کریں مگر مجھے ان فضول فیشن کے لیے مجبور نہ کریں۔ شوہر نے کہا کہ مجھے تم سے یا تمہارے طور اطوار سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

تمہاری سادگی ہی مجھے پسند آئی تھی۔ مریم کی ماں کی بیک سٹر ونگ تھی۔ اس لیے اس پر ساس زور زبردستی نہیں کر سکتی تھی۔ دادی نے پہلے پوتے پر جان چھڑکتی تھی اور ہوتی کو اتنی لفٹ نہیں کراتی تھی۔ جوں جوں مریم بڑی ہوتی گئی وہ بہت خوبصورت کی بچی لگتی۔ ہر کوئی اسے پیار کرتا۔ وہ باتیں بھی بہت پیاری اور سمجھداری کی کرتی۔ دادی کا بھی دل پگھل گیا اور دادی نے اس سے دوستی بنالی۔ اب وہ ہر جگہ اسے ساتھ لے جائیں۔ مریم کو ماں سادگی اپنانے کا کہتی۔ اور دادی ماڈرن بنے کا۔ آخر دادی بزرگی کی اہمیت کی وجہ سے جیت جاتی۔ بہو ان کے ساس کے رتبے کی وجہ سے ہار مان لیتی۔ لیکن خفیہ خفیہ اس کے کانوں میں اچھی باتیں ڈالتی رہتی۔ مریم پڑھائی میں بہت اچھی پوزیشن لیتی۔ بھائی بھی

زہن تھا۔

مریم کے باپ کو جب بھی فرصت ملتی وہ بچوں کی پڑھائی کی جانچ پڑتال ضرور کرتا۔ اچھے سے اچھا ٹیوٹر گھر میں بچوں کو پڑھانے کے لیے لگاتا۔ پھر ان پر نظر بھی رکھتا۔ اس کی زندگی بہت مصروف تھی۔ مگر اپنی فیملی کے لیے خاص طور پر بچوں کے لیے وقت ضرور نکالتا۔ وہ کہتا کہ اتنی دولت کمانے میں مگن رہو اور اپنی فیملی کے ساتھ لائف انجوائے نہ کرو۔ ان کو اپنے سامنے بڑا ہوتے نہ دیکھو تو کیا فائدہ۔ وہ اکثر سکول میں بھی چکر لگاتے رہتے اور اپنی بیوی کو بھی سکول بر ویک بھیجتے تاکہ بچوں کی سرگرمیوں کی خبر رہے۔ وہ کہئے کہ جو والدین ٹیچر ز کے پاس زیادہ جا کر ان کے بارے میں پوچھتے ہیں تو ٹیچر ز بھی پھر ان بچوں پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ مریم کی ماں اتنا جانتی تھی کہ سب ٹیچرز اسے پہچاننے لگی تھیں کہ یہ مریم کی ماں ہیں۔

مریم کی ماں کی گفتار بھی اچھی اور بہت گریس فل پر سنیلٹی کی مالک تھی۔ ٹیچرز اس سے ملکر خوش ہو تیں۔ مریم کی ماں کو ساس پینڈو کہتی ۔ اپنے جیسی ماڈرن ایج فیلوز بوڑھیوں سے اسے ملواتے ہوئے شرم آتی۔ کیونکہ ان کی بیویں بہت ماڈرن لباس میں ملبوس ہوتیں مگر مریم کی ماں کی سارے خاندان میں عزت تھی سب اس کی تعریف کرتے۔ مریم کی دادی کبھی حیرت سے سوچتی کہ ان کی اپنی سہیلیاں بھی مریم کی ماں کی تعریف کرتیں تھیں کہ تم بہت لکی ہو جو ایسی بہو ملی ہے۔ مریم نے ڈاکٹر بنے کی خواہش ظاہر کی۔ ماں نے بہت تعریف کی اور حوصلہ بڑھایا۔ دادی نے قیامت مچادی کہ ہمیں کس چیز کی کمی ہے کہ بچی کو ایسے شعبے سے منسلک کر دیں جس میں دن رات لوگوں کی ایک آیا کی طرح خدمت کرنی پڑے۔ ہر وقت چیر پھاڑ کرتی رہے۔ ڈاکٹر میں اور قصائی میں مجھے کوئی فرق نہیں لگتا۔

مریم کے باپ نے بھی بہت احتجاج کیا مگر اس بار مریم کی ماں سب کے آگے ڈٹ گئی کہ وہ بیٹی کی خواہش ضرور پوری کرے گی۔ وہ ایک مقدس پیشے کو اپنانا چاہتی ہے۔ دکھی انسانوں کی خدمت کرنا چاہتی ہے۔ جب مریم کے باپ نے دیکھا کہ دونوں ماں بیٹی اب پیچھے نہیں ہٹ رہی ہیں تو انہوں نے کچھ شرائط رکھ دیں کہ مانو تو تب تمہیں میڈیکل کالج میں داخلہ دلوادوں گا۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا شرائط ہیں؟ مریم کے باپ نے کہا کہ ڈاکٹری کرنے کے بعد کوئی نوکری نہیں کرے گی۔ اس کو اگر بہت شوق ہوا تو میں اس کے لیے ایک شاندار ہاسپٹل بنوادوں گا۔ جہاں یہ صرف چکر وغیرہ لگائے جایا کرے گی وہاں خود کوئی کام نہیں کرے گی۔ مریم اور اس کی ماں نے ساری شرطیں مان لیں۔ باپ مریم کو چھوڑ نے خود جاتا کبھی اسے ملک سے باہر بزنس ٹور پر جانا ہو تو ہمیشہ بیوی اور بیٹی کو ساتھ لے کر جاتا۔ اگر کبھی مریم کی شادی کی بات آتی تو مریم کا باپ تڑپ کر بیوی سے کہتا، اوپر خدا ہے نیچے میری بیٹی ، دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے تو بھی اپنی بیٹی کو اپنے سے جدا نہیں کرو گا۔

اس کی شادی نہیں کروں گا۔ یہ میرے اپنے جگر کا ٹکڑا دوسروں کو کیسے دے دوں، نہ جانے وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کریں۔ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مریم کی ماں غصے سے کہتی، کیسے اس کی شادی نہیں کریں گے۔ آپ بھی تو کسی کی بیٹی لے کر آئے ہیں نا۔ میں بھی تو کسی کی بیٹی تھی۔ وہ تب بھی یہی کہتا۔ میں تو اپنی زندگی میں اس کی شادی کرنے والا نہیں ہوں۔ چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے۔ مریم ان کی بحث بڑے شوق سے سنتی اور اپنے باپ کے گلے میں بائیں ڈال کر کہتی ، ڈیڈ میں کبھی شادی نہیں کروں گیا اور کبھی آپ کو چھوڑ کر نہیں جاوں گی۔ میں خود بھی بھلا آپ کے بغیر کیسے رہ سکتی ہوں۔ ماں غصے سے چل پڑتی۔ مریم کے دادا کی طبیعت کافی دنوں سے خراب تھی۔ وہ ہاسپٹل نہیں جانا چاہتے تھے۔ مریم کے والد گھر میں ہی ڈاکٹر کو بلا کر دکھا رہے تھے۔ مگر ان کی طبیعت سنبھلنے کی بجائے اور بگڑتی جارہی تھی۔

ایک دن ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی۔ ملازم نے آکر بتایا کہ وہ بے ہوش ہو گئے ہیں فورا مریم کے باپ نے ایمبولینس کو فون کر دیا۔ مریم رونے لگی۔ باپ مریم کو گلے لگا کر تسلی دینے لگا۔ جب انہیں ہاسپٹل لے جایا گیا تو کافی دیر ڈاکٹر زان کی جانچ پڑتال کرتے رہے مگر وہ مرچکے تھے۔ مریم کی زندگی کا یہ پہلا المیہ تھا۔ مریم کی بری حالت تھی۔ باپ نے اسے بہت زیادہ وقت دیا۔ اپنے ہاتھوں سے زبر دستی کھلاتا پلاتا ۔ مریم کی ماں نے مریم کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تم اپنے ناز نخرے باپ سے اٹھوار ہی ہے۔ کیا تم نے سوچا ہے کہ انہوں نے بھی اپنا سگا باپ کھویا ہے۔ تمہیں ان کی دلجوئی کرنی چاہیے ، ان کو زبر دستی کھلانا پلانا چاہیے۔ ان کا خیال رکھنا چاہیے ان کی دیکھ بھال کرنی چاہیے میں زبر دستی ان کو تھوڑا بہت کھلائی پلائی ہوں مگر انہیں اپنے سے زیادہ تمہاری فکر لگی رہتی ہے۔

مریم کا باپ اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ بیٹی کی دلجوئی کے لیے انہیں ورلڈ ٹور پر گھمانے پھرانے لے گیا۔ مریم نے خوب شائنگ کی ماں کے احساس دلانے پر مریم کو احساس ہو چکا تھا کہ باپ کا خیال بھی رکھنا چاہیے ۔ مریم نے نوٹ کیا کہ اس کے ڈیڈ کمزور ہو کئے ہیں اس نے تو کبھی دھیان ہی نہ دیا۔ مریم نے دل میں سوچا کہ وہ ڈاکٹر انکل کو جا کر بتائے گی کہ ڈیڈ کے مکمل ٹیسٹ کریں۔ وہ کھاپی بھی کم کر رہے تھے۔ چلنے میں بھی سستی کر رہے تھے ۔ مریم کی ڈاکٹری کی ڈگری مکمل ہو چکی تھی۔ ہاوس جاب بھی ہو چکا تھا۔ اس کے پیٹ نے کہا تھا کہ وہ اسے بڑے پیمانے پر سیلیبریٹ کریں گے مگر دادا کی فوتگی کی وجہ سے سب کچھ مانند پر گیا۔ مریم کا بھائی دادی کا پھٹو بنا رہتا تھا۔ وہ بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد باپ کا بزنس سنبھالنے لگا تھا۔ گھر میں اس کی شادی کے چرچے ہونے لگے تھے ۔

دادی اسے ہمیشہ کہتی۔ کہ میں تیری شادی کسی ہائی سوسائٹی کی کسی ماڈرن فیملی سے کراؤں گی۔ ماں نے اپنے جیسی پینڈو سے کروا دینی ہے پھر ساری زندگی کسی سے ملواتے ہوئے بھی شرمندگی اور بچے بھی پینڈو۔ اگر میں نہ ہوتی تو تم لوگ بھی پینڈو بنے ہوتے۔ دادی نے مریم کے بھائی کی علیک سلیک اپنی ماڈرن دوست کی ماڈرن پوتی سے کروادی۔ اور ان کا خفیہ نکاح بھی کروا کر وہ گھر لے آیا۔ باپ کو مریم واپس آکر مکمل ٹیسٹ کر وار ہی تھی۔ جب بیٹا بیوی کو گھر لے آیا تو باپ کے ساتھ ماں بھی شاک رہ گئی ، مگر دادی نے ان کو اچھی طرح و یلکم کیا کہ اب وہ اس گھر کی عزت ہے۔ دادی نے لڑکی والوں کو بلایا، انہوں نے ناراض ہونے کا ڈرامہ کیا لیکن اصل میں وہ ساتھ دادی کے اس شادی کرانے میں ملے ہوئے تھے۔ دادی نے حکم دے دیا کہ اب جو ہونا تھا ہو چکا اب اس کا بھی اس گھر پر اتنا ہی حق ہے۔

۔ دادی نے ولیمہ اناؤنس کر دیا۔ تین دن بعد ہوٹل میں ولیمہ کر دیا گیا اور سارے خاندان کو بلایا گیا سب دولہن کے بے ہودہ فیشن پر باتیں بنا رہے تھے۔ مریم بھی بجھی بجھی سی تھی۔ اس نے بھائی کی شادی کے کئی خواب دیکھ رکھے تھے۔ ہر وقت لڑکیاں نوٹ کرتی رہتی اور اپنی ماں سے مشورہ کرتی رہتی۔ مگر خاندان بھر میں ان کو کوئی لڑکی پسند نہ آئی مریم کی ماں کو مبارک باد دینے کے ساتھ بہو پر تنقید بھی کر رہے تھے اور وہ اداسی سے مسکرا دیتی۔ مریم کا بھائی ولیمے کے اگلے دن دادی کے کہنے پر  ہنی مون پر باہر ملک جارہے تھے . مریم نے بھائی سے کہا کہ کل ڈیڈ کی رپورٹس آنی  ہیں تم کچھ دن رک جاؤ۔ ڈیڈ بیمار ہیں۔ اس کی بیوی گرج کر بولی، کیا ہو گیا ہے ہلکی پھلکی طبیعت خراب ہے۔ ہم ڈاکٹر تھوڑی ہیں جو ان کا علاج کریں گے وہ ٹھیک تو ڈاکٹر سے ہوں گے۔ ہم کو نسا ہمیشہ کے لیے جارہے ہیں مریم کا بھائی بیوی کے ڈانٹنے  پر کہ چلو فلائیٹ مس ہو جائے گی دیر ہو رہی ہے۔

خاموشی سے بیوی کے پیچھے چل پڑا۔ باپ کی جب رپورٹ آئی تو کینسر کی لاسٹ اسٹیج تھی۔ مریم رپورٹ پڑھ کر بے ہوش ہو گئی۔ مریم کے باپ کو ڈاکٹر دوست نے تسلی دیتے ہوئے بتا دیا تھا کہ یہ مسئلہ ہو سکتا ہے۔ سنکر وہ جھٹ سے بولا تھا کہ میری بیٹی کا کیا ہو گا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ یہ تو اللہ تعالی ہی جانتے ہیں کہ کیا ہو گا تم فکر نہ کرو اللہ تعالی بہتر کریں گے ۔ ماں نے بڑی مشکل سے اسے ہوش میں لایا۔ خود ماں کی حالت بھی دیدنی تھی ۔ مگر وہ اسے سمجھارہی تھی کہ تم اپنے ڈیڈ کو حوصلہ دو وہ اپنے باپ کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ ماں اور دادی بھی ر و ر ہی تھیں۔ بیٹے کا اس وقت اتفاق سے فون آگیا جب اس نے سنا تو بولا، ہم آج ہی نکل رہے ہیں۔ ان کے آنے میں ابھی دو دن باقی تھے۔ بیوی وہ دو دن بھی ادھر رہنا چاہتی تھی پھر دادی کے بلانے پر اسے آنا پڑا۔

ڈیڈ میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گی۔ میں آپ کو علاج کے لیے باہر ملک لے کر جاؤں گی۔ کافی دن مریم بوکھلای بوکھلائی پھرتی رہی۔ اپنے ڈیڈ کو وقت پر دوائی دیتی۔ ان کو پر ہیزی کھانے اپنے ہاتھوں سے کھلاتی۔ ان کے ساتھ لان میں کھیلتی۔ ہر طرح سے وہ باپ کا دل بہلائی۔ بھائی نے باپ کی ہدایات پر آفس کے سارے اسرار ورموز سمجھ لیے تھے کہ کس کو کب پے منٹ کرنی ہے کس کو کب دینی ہے۔ اس کام میں اس کی بیوی بھی اس کی ہیلپ کر رہی تھی۔ وہ بھی ساتھ آفس جاتی اور اس سے زیادہ اس کی بیوی نے معاملات سنبھال لیے تھے۔ مریم کو کچھ ہوش نہ تھا۔ اس کے ڈیڈا سے تسلی دیتے کہ میری شہزادی تم اپنا خیال بھی خود رکھنے کی آپ عادت ڈال لو۔ پھر دونوں رونے لگے۔ باپ کی صحت دن بدن گرتی جارہی تھی وہ ہاسپٹل ایڈمٹ نہیں ہونا چاہتے تھے۔

کہتے تھے کہ میں آخری وقت اپنے گھر گزارنا چاہتا ہوں۔ مریم کی دادی بھی اداس تھی مگر پھر بھی وہ اپنے وقت پر کھاتی پیتیں۔ سارے کام اسی روٹین میں کرتی۔ دینے کا آکر کھڑے کھڑے حال احوال پوچھتی اور اپنے کمرے میں جا کر اپنی روٹین کے مطابق ٹی وی دیکھئے لگ جائیں ملازم باتیں بناتے کہ کیسی ماں ہیں بیٹے کی فکر ہی نہیں ہے۔ مریم بھی دادی کے رویے پر حیران ہوتی۔ مریم کی ماں شوہر کے صدقے خیرات دینے میں مصروف رہتی۔ دعائیں پڑھ کر پانی دم کرتی اور ان کو ہر وقت پلاتی رہتی۔ رورو کر نماز میں شوہر کے لیے دعائیں کرتی۔ جب تبھی پاس بیٹھتی اس کے آنسو نہ تھمتے۔ کبھی بیٹی کو نصیحتیں کرتی کہ میرے بعد ایسے کرنا ویسے کرنا۔ حوصلے میں رہنا۔ اپنے آپ کو خود ہی سہارا دینا ۔ اب تم نے اپنا آپ خود سنبھالنا ہے اور اپنا سارا خود بنتا ہے۔ اللہ تعالی کے سوا اب تمہارا کوئی سہارا نہیں مشکل وقت میں گھبرانا نہیں

بھائی بھی اب شادی شدہ ہو گیا ہے۔ دادی بھی اب بوڑھی ہیں۔ ان کی بھی دیکھ بھال اب تم نے کرنی ہے۔ وہ اکتائے ہوئے لہجے میں کہتی موم آپ پر وقت کیوں ایسی باتیں کرتی رہتی ہیں۔ آپ ہیں نامیرے ساتھ پھر مجھے کسی کی کیا ضرورت ہے بھلا۔ وہ نظریں جھکا کر بولی، میں بھی کیا پتا تمہارے ساتھ نہ رہوں۔ مریم نے گھور کر انہیں دیکھا اور گلے لگا کر چومتے ہوئے کہا کہ اللہ نہ کرے۔ سارا خاندان مریم کے باپ کو دیکھنے آرہا تھا۔ مریم کا باپ سب کو شکایت لگاتا کہ میری بیوی پاگل ہو رہی ہے۔ اس کو کوئی سمجھائے کہ یہ بیمار پڑ گئی تو ہم سب کا کیا ہو گا۔ اپنا خیال بھی رکھا کرے کچھ آرام بھی کر لیا کرے۔ وہ کہتی آرام کا وقت نہیں ہے۔ مریم کی ماں نے ایک پیکٹ اس کو دکھاتے ہوئے کہا کہ اسے میں تمہارے تکیے میں ڈال رہی ہوں کسی کو بتانا مت۔ وہ لا پروائی سے بولی، او کے موم رات کو ماں سوئی صبح ہو گئی وہ اٹھی ہی نہیں۔

ملازمہ نے بتایا کہ بیگم صاحبہ بے ہوش لگ رہی ہیں۔ بیٹے نے ڈاکٹر کو فون کیا اور ساتھ ہی ایمبولینس منگوالی۔ مریم رو رو کر ماں کو جھنجھوڑ رہی تھی، افرا تفری مچ گئی تھی۔ ڈاکٹر نے کنفرم کر دیا کہ یہ دو گھنٹے پہلے فوت ہو چکی ہیں۔ پھر بھی آپ انہیں ہاسپتال لے جا کر کنفرم کر لیں۔ جب ہاسپٹل لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے اچھی طرح چیک کرنے کے بعد ان کو مردہ قرار دے دیا۔ مریم بار بار بے ہوش ہو رہی تھی رشتے دار عورتیں اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ مریم کے باپ کی حالت خراب ہو رہی تھی اسے ہاسپٹل لے کئے ابھی بیوی کا جنازہ پڑا ہوا تھا کہ وہ بھی اس دنیا کو چھوڑ کے ایک ساتھ دو جنازے پڑے ہوئے تھے۔ مریم رو رو کر کبھی باپ کی چار پائی پر جا کر روتی کبھی ماں کی ۔ وہ بھائی کے گلے لگی وہ بھی رو رہا تھا۔ دادی کرسی ڈالے بین کر رہی تھی۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔

جب ان دونوں کے جنازے ایک ساتھ اٹھائے گئے تو مریم نے رورو کر فریاد کی کہ ان کو میں جانے نہ دوں گی۔ چار پائی پکڑ لیتی۔ بڑی مشکل سے اسے ہٹایا گیا۔ تو وہ بے ہوش ہو گئی۔ رشتے دار اسے ہاسپٹل لے کئے۔ ادھر اس کو ڈرپ لگادی گئی اور جب ہوش میں آئی پھر روتی چیخی ڈاکٹر انکل نے اس کی بہت دیکھ بھال کی۔ نرس ایک دیکھ بھال کے لیے مقرر کر دی۔ دو تین دن وہ ہاسپٹل میں رہی۔ دوسرے دن بہو نے قُل  کروا کر سب رشتے داروں کو کہہ دیا کہ آپ لوگ بھی مصروف ہیں اور ہم لوگ بھی اس لیے چالیسواں آج ہی ہو گا۔ رشتے دار بھی سب چلے گئے۔ بھائی ڈاکٹر سے فون کر کے بہن کا حال پوچھ لیتا۔ ادھر وہ بہت مصروف تھا۔ کبھی روتا تو دادی تسلی دیتی۔ بیوی تو اسے کاموں میں لگائی رکھتی۔ ڈاکٹر انکل اسے اپنے گھر لے کئے کہ ابھی تم گھر نہ جاو تمہارا غم کا زخم ابھی تازہ ہے۔

گھر میں جاؤ گی والدین نظر نہیں آئیں گے تو پھر طبیعت بگڑ جائے گی۔ ڈاکٹر انکل اس کے ڈیڈ کے دوست تھے۔ ان کی بیوی اور وہ اکیلے رہتے تھے۔ ان کے بچے باہر ملکوں میں شادیاں کر کے رہتے تھے۔ ڈاکٹر انکل کی بیوی نے مریم کو بہت سہارا دیا۔ اس کو کافی حد تک بہلا لیا۔ وہ جب گھر گئی تو دادی سے ملکر بہت روئی بھائی نے پیار سے تسلی دی اور چپ کرایا۔ اس کی بیوی نے منہ بنا کر کہا کہ یہ کیا مصیبت ہے کیا گھر میں ہر وقت ماتم والا ماحول رہے گا۔ اسے نہیں روتا ہو تو اکیلے کمرے میں جا کر رولے، گھر کا ماحول خراب نہ کرے۔ میری طبیعت پہلے ہی خراب ہے پر پریسینی ہے۔ دادی ایک دن مریم سے بولی بیٹی تو کسی ہوسپٹل چلی جا۔ ادھر یہ تیری بھا بھی تجھے کھل کر سانس بھی نہیں لینے دے میں کوستی ہوں اس وقت کو جب اس منحوس کو بیاہ کر لائی۔ بھابھی نے اتفاق سے سن لیا اور بھائی نے بھی چند آخری الفاظ سن لیے کہ دونوں کی بھابھی نے وہ بے عزتی کی ساتھ مریم کا بھائی بھی بولنے لگا اور ناراض ہو کر چلا گیا۔

مریم کے ساتھ بھا بھی اور بھائی بر اسلوک کرنے لگے۔ دادی بیمار رہنے لگی۔ مریم نے ڈاکٹر انکل کو فون کر کے بتایا کہ دادی بیمار ہیں۔ وہ انہیں ایمبولینس بلا کر ہاسپٹل لے کئے۔ بھا بھی نے مریم کو بہت زلیل کیا کہ ہمیں سب کے سامنے ذلیل کروانا چاہتی ہو کہ لوگوں کو بلاتی پھرتی ہو ۔ مریم نے دبے لفظوں میں کہا کہ بھائی کو بتایا تو تھا۔ یہ سنتے ہی بھا بھی نے رکھ کر اس کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارا کہ وہ دور جا گری۔ مریم بمشکل اٹھ کر غمزدہ قدموں سے چلتی اپنے کمرے میں گئی اور جا کر نڈھال سی ہو رونے لگی۔ اپنے ڈیڈ کو یاد کر کے فریاد کرنے لگی کہ آپ کی لاڈلی کو کبھی پھول بھی نہیں مارا تھا آج دنیا اسے کس طرح مار رہی ہے۔ بھا بھی کمرے میں آکر چلانے لگی یہ مظلومیت کا ڈرامہ کب تک کرتی رہو گی۔ جینا حرام کیا ہوا ہے۔ رورو کر منحوست پھیلا رکھی ہے۔ نہ خود خوش رہتی ہو نہ ہمیں رہنے دیتی ہو۔

سب کے والدین مرتے ہیں کیا وہ اسی طرح ہر وقت گھر میں سوگ پھلائی رکھتے ہیں۔ نارمل ہو جاو اور نہ مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا پہلے ہی میری طبیعت سخت خراب ہے۔ اس کو بالوں سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے بولی۔ خبر دار جو بھائی یا کسی اور کو بتانے کی کوشش کی۔ وہ درد سے چلائی کیونکہ بھابھی نے اس کے بالوں کو زور سے کھینچا ہوا تھا۔ وہ تڑپتے ہوئے بولی، نہیں بتاوں گی۔ تھوڑی دیر بعد دادی کے مرنے کی خبر آگئی سارے رشتے دار جمع ہونا شروع ہو گئے ۔ مریم  بے آواز   رو رہی تھی۔ سب نے مریم کو تسلی دینا شروع کی اور بہت افسوس کرنے لگے کہ باپ کی لاڈلی آج دادی کو بھی کھو بیٹھی ہے ۔ جب جنازہ اٹھانے لگے تو مریم نے چار پائی پکڑ کر دہائی دی کہ میں اپنی دادی کو نہیں جانے دوں گی۔ بھا بھی قریب آی اور اسے پکڑ کر بناوٹی پیار سے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی، میری جان یہ سب تو ابھی واپس چلے جائیں گے تو ہم ہیں نا تمہارے اپنے ۔ میں بھائی تمہارے بغیر کھانا

نہیں کھاتے

بس مت رو صبر کر آمیں تجھے کمرے میں لٹا دوں تو آرام کر ۔ پھر ملازمہ سے بولی۔ دودھ کا گلاس گرم کر کے لاو۔ ساتھ کچھ بسکٹ وغیرہ بھی لے آو۔ سب کے سامنے اسے بسکٹ اور دودھ کا گلاس پلا کر نیند کی گولی کھلا دی کہ ویسے ہی رات بھر رورو کر تنگ کرے گی یہ نہ ہو کہ بھائی بھی پگھل جائے ۔ ڈاکٹر انکل کی بیوی نے اسے کہا کہ چلو آج ہمارے گھر چلو. بھا بھی جھٹ بولی، انکل ہم ہیں نا اس کا خیال رکھنے کے لیے۔ مریم نے بھی ڈر کر جانے سے انکار کر دیا۔ مگر انکل نہ مانے اور بولے، پہلے بھی رہی تھی تو کافی بہل گئی تھی۔ زبردستی وہ لوگ لے کئے اور مریم نیند کی گولی کھا کر نڈھال سی تھی جاتے ہی سو گی۔ ڈاکٹر انکل نے روتے ہوئے بیوی سے کہا، یہ میرے دوست کی بہت لاڈلی تھی۔ آج اس کے لاڈ اٹھائے والا کوئی بھی نہیں رہا۔ چند دن وہ ادھر رہی تو بہتر ہو گئی۔ ڈاکٹر انکل نے کہا کہ تم جاب کر لو تا کہ تمہارا دل بہلا رہے بھائی اسے بیوی کے کہنے

پر لینے آگیا۔

ڈاکٹر انکل نے کہا کہ جب بھی جاب کی ویکینسی آئی میں اس کو بتادوں گا بہتر ہے جاب کر لے تاکہ دل بہلا رہے۔ جب تک کوئی اچھار شتہ نہیں ملتا۔ گھر میں سب کی یادیں اس کو رلاتی رہیں گی۔ بھائی اسے دیکھ کر اسے گلے لگا کر بولا چلو اپنے گھر تمہاری بھا بھی شدت سے تمہاری راہ تک رہی ہیں۔ وہ کچھ خوفزدہ سی ہو گئی پھر سوچا، ایسے ڈر ڈر کر کب تک جیے گی۔ وہ بھائی کے ساتھ جب گھر پہنچی تو بھا بھی بڑے جوش سے گلے لگا کر ملی۔ مگر وہ نارمل رہی۔ بھائی سامنے ہوتا تو  بھابھی مریم کو کھانے پینے کا خوب پوچھتی۔ ویسے اس کو کھانے کا نہ پوچھتی۔ وہ بریڈ وغیرہ ہی کھا کر نمکو چیپس پر گزارہ کرتی۔ بھا بھی نے اس کو پاکٹ منی کبھی نہ دیا وہی رقم تھی جو اس کے پاس پڑی تھی۔ اس نے دیکھا بھا بھی نے اس کے کمرے میں خفیہ کیمرہ لگا دیا ہے۔ وہ محتاط ہو گی۔ ماں کے دیے ہوئے تھیلے کا خیال آتا مگر وہ کیسے کھولتی۔ اس نے ڈاکٹر انکل کو میسج کر کے تکیے کے بارے میں اور بھا بھی کے بارے میں سب بتادیا۔

بھا بھی اس کے کمرے میں آئی اور موبائل چیک کر کے کہنے لگی۔ مریم نے سب میسنجر ڈیلیٹ کر کر دیے تھے۔ بھا بھی موبائل پکڑا کر مطمئن ہو گئی۔ پھر تسلی سے بیٹھ کر پوچھنے لگی کہ تمہاری ماں کے زیورات وغیرہ کدھر ہیں۔ میں ہر جگہ ڈھونڈ چکی ہوں۔ مگر نہیں ملے۔ اس نے جواب دیا، مجھے کیا پتا، مجھے تو ویسے بھی ان چیزوں میں انٹرسٹ نہیں تھا۔ وہ بولی، چلو وہ بعد کا معاملہ ہے۔ تمہیں بتانا تھا کہ میں نے اپنے بھائی کے ساتھ تمہارا رشتہ طے کر دیا ہے۔ وہ ہکا بکا دیکھنے لگی۔ بھا بھی بولی۔ کوئی احتجاج مت کرنا، فائدہ کچھ نہ ہو گا۔ وہ یکدم بولی، میں کیوں احتجاج کروں گی آپ کا بھائی مجھے ویسے بھی پسند تھا مگر شرم سے بتا نہیں سکی۔ آپ نے تو میرے دل کی مراد پوری کر دی۔ وہ حیرت سے بولی، سچ کہہ رہی ہو۔ مریم جھٹ بولی، شادی کا سوٹ میں ریڈ پہنوں گی کیونکہ دولہن ریڈ کلر میں ہی اچھی لگتی ہے۔ وہ خوش ہو کر بولی ٹھیک ہے میری جان۔

دوسرے دن اس کے گھر والے آئے اور اسے انگوٹھی پہنا کئے۔ لڑکا ابھی باہر سے آنا تھا۔ اس نے ڈاکٹر انکل کو سب بتادیا اور وہاں سے نکلنے کا کہا۔ وہ آگے دن بیوی کے ساتھ مٹھائی وغیرہ لے کر آئے کہ مریم کی منگنی کی ہے۔ ہمیں نہیں پوچھا۔ اب شادی میں کوئی بھی ہیلپ کی ضرورت ہو تو بلا جھجک کہنا۔ مریم سے بولے، بیٹا چلو ایک دن ہمارے ساتھ چلو ہم تمہیں بازار سے تمہاری پسند کا گفٹ لے کر دینا چاہتے ہیں۔ وہ بولی، انکل اس کی کیا ضرورت ہے۔ وہ رندھی ہوئی آواز میں بولے، تم ہماری بہت لاڈلی ہو جیسے باپ کی تھی۔ اب انکار مت کرنا۔ وہ آہ بھر کر بولی، ٹھیک ہے۔ ان کی بیوی بولی، ایک تجویز ہے اگر اسے ہم اپنے گھر سے رخصت کریں تو کیسا ہے۔ بھابھی نے منع کیا تو ڈاکٹر صاحب کی بیوی مریم کے بھائی سے بولی، ادھر رہے گی تو شادی ہونے تک اسے سب کی یاد ستاتی رہے گی۔ آپ نے شاپنگ پر لے جاتا ہو تو ادھر سے ہی لے جائیں اور ادھر ہی چھوڑ دیا کرتا۔

بھا بھی بولی نہیں ایک دن کے لیے ہی کافی ہے۔ مریم بولی ، ڈاکٹر انکل پلیز مجھے ادھر ہی رہنے دیں۔ میں بس ایک دن کے لیے آپ کے ساتھ چلوں گی۔ وہ بولے ٹھیک ہے بیٹا جیسی تمہاری رضی بھا بھی چائے کے لیے کچن میں گئی تو مریم نے جلدی سے بیگ میں چند کپڑے اور اپنے ضروی کاغذات ڈالے اور تکیہ بھی اٹھا کر بولی چلیں انکل۔ وہ بولے بیٹا یہ تکیہ کس لیے۔ وہ بولی، جاتی ہے کل واپس لے آوں گی۔ وہ ہنس کر بولے ٹھیک ہے گاڑی میں سامان رکھواد و۔ بھا بھی ملازمہ کے ساتھ چائے لے آئی مریم نے سامان رکھوا کر گاڑی لاک کر کے چابی انکل کو دے دی۔ چائے پی کر وہ لوگ گھر پہنچے تو اگلے دن ہی اسے نوکری مل گئی۔ اور اسی دن ڈاکٹر صاحب کی بیوی کو باہر ملک جانا پڑ گیا ان کی بیٹی کی پریگنینسی شروع تھی۔ اس کی طبیعت خراب تھی۔ مریم نے تکیہ کھول کر تھیلا نکالا تو اس میں اس کی ماں کے زیورات تھے۔

اس نے ڈاکٹر انکل کی مدد سے وہ بینک میں رکھوا دیے۔ بھائی اگلے دن لینے آیا تو مریم نے بھابھی کے ظلم کی داستان سنائی اور شادی سے انکار کر دیا۔ بھائی بہت حیران ہوا۔ مریم نے کہا کہ اس نے ادھر نوکری کر لی ہے۔ بھائی جب گھر پہنچا تو بیوی کو غصے سے سب بات بتائی وہ دھاڑیں مار مار کر مکاری سے رونے لگی کہ اگر وہ شادی نہیں کرنی تھی تو ایسے بد نام تو نہ کرتی جھوٹے الزامات تو نہ لگائی۔ وہ اپنے والدین کی جھوٹی قسمیں کھانے لگ پڑی۔ پھر اس نے مریم پر الزام لگا دیا کہ اس کا ڈاکٹر انکل سے چکر چل رہا ہے۔ ان کی بیوی بھی موجود نہیں پھر بھی وہ ادھر رو رہی ہے۔ بھائی نے اس سے مرنا جینا ختم کر لیا۔ مریم نے تنگ آکر اپنی ٹرانسفر پہاڑی علاقے میں کروالی۔ وہاں گاوں کے لوگوں سے سنا کہ اس ہاسپٹل میں رات کی ڈیوٹی کوئی نہیں دیتا کیونکہ وہاں جنات کا بسیرا ہے۔ مریم نے کہا۔ انسانوں سے بڑھ کر تنگ کرنے والے نہیں ہوں گے۔ اس نے بغیر ڈرے ادھر ڈیوٹی دینی شروع کر دی کچھ بھی ایسا نہ ہوا۔ وہاں کا بڑا ڈاکٹر اسے پسند کرنے لگا۔

اس نے اسے پر پوز کیا تو مریم نے سوچا کہ وہ ویسے بھی اچھے انسان ہیں اس کا بہت خیال رکھتے ہیں اگر میں ان سے شادی کروں گی تو ڈاکٹر انکل کا الزام مجھ سے اتر جائے گا۔ اس نے اقرار کیا تو ڈاکٹر صاحب نے بہت خوشی میں کہا کہ میری فیملی چند دنوں تک آے گی انہوں نے بھی آپ کو بہت پسند کیا ہے اور میرے والدین اور بہن بھائی سب اس رشتے سے بہت خوش ہیں۔ مریم نے ڈاکٹر انکل کو اس رشتے کا بتایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور مبارک باد دی۔ مریم آپریشن تھیٹر گئی تو اندر سے کچھ عجیب سی آوازیں آرہی تھیں جب وہ اندر پہنچی تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گی وہاں تو اس کا بھائی کھڑا تھا. وہ مریم سے معافی مانگنے لگا کہ مجھے ڈاکٹر انکل سے اس رشتے کا پتا چلا ہے. مجھے معاف کر دو۔ میں نے تمہیں بیوی کی باتوں میں آکر غلط سمجھا۔ مریم نے بھا بھی کا پوچھا تو وہ نفرت سے بولا ، وہ لالچی عورت تھی میر اسب کچھ ہتھیانا چاہتی تھی۔

جب میں نے دینے سے انکار کیا تو طلاق مانگنے لگی اور میں نے بھی دے دی۔ وہ گھر کی تو والدین کے ایکسیڈنٹ کا سنادونوں فوت ہو کئے اب بھائی بھا بھی کی آیا بنی ہے۔ اور بچہ پہلے ہی اس نے ابارشن کروالیا تھا۔ مجھے وہ بھی غصہ تھا۔ پھر میں نے ایک غریب اور شریف لڑکی سے نکاح کر لیا ہے جو میرے آفس میں کام کرتی تھی۔ اب تم گھر چلو وہ بہت اچھی ہے تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ میں تمہیں اپنے گھر سے عزت سے دھوم دھام سے رخصت کروں گا اور جتنا جائیداد میں حصہ بنتا ہے وہ بھی دوں ۔ گا۔ مریم بھاگ کر بھائی کے گلے لگ گئی دونوں رونے لگے۔ ڈاکٹر سہیل نے دونوں کو تسلی دی۔ مریم گھر واپس آئی تو دیکھا جو لڑکی اس کی بھا بھی تھی وہ اس کی کلاس فیلو تھی۔ ان کی دوستی تو نہ تھی مگر وہ اسے جانتی تھی کہ وہ اچھی لڑکی تھی۔ مریم اسے ملکر بہت خوش ہوئی۔ اس نے بتایا کہ اس کے فادر کا بزنس فلاپ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ آگے نہ بڑھ سکی۔

بھا بھی اس کا بہت خیال رکھتی۔

مریم اپنے روم میں آکر شدت سے روئی۔ موم ڈیٹ کو سارے گھر میں آوازیں دیتی اور روتی رہی۔ دادی کے کمرے میں جا کر بھی روتی رہی بھا بھی اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتی۔ اس کے کھانے پینے کا خیال رکھتی۔ مریم کی شادی کی بھائی نے تیاریاں زور و شور سے کر رکھی تھیں۔ جائیداد میں سے شرعی حصہ بھی بہن کے نام کر دیا تھا۔ ڈاکٹر انکل کی بیوی بھی آچکی تھی اور مریم کے پاس ماں بن کر رہ رہی تھی۔ ڈاکٹر انکل مریم کے بھائی کی شادی میں پوری مدد کر رہے تھے۔ مریم کے سسرال والے اسے منگنی کی انگوٹھی پہنا گے تھے۔ وہ سب بھی بہت اچھے تھے۔ ان کو بھی مریم بہت پسند آئی تھی۔ کیونکہ ان کا بیٹا کسی سے بھی شادی پر راضی نہ تھا، گھر والوں نے شکر کیا تھا کہ ایک تو وہ شادی پر راضی ہوا دوسرا مریم اچھی لڑکی ڈھونڈی۔ شادی والے دن مریم بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ سب اس کے دولہے کی بھی تعریف کر رہے

تھے

 

January 04, 2023

تھوک: Saliva or Spit

 

 

تھوک: Saliva or Spit
آج تھوک کی افادیت پر بات کرتے ہیں😄.
تھوک وہ گمنام ہیرو ہے جس کا کوئی بھی تذکرہ کرنا پسند نہیں کرتا بلکہ نام سنتے ہی تھو تھو کرنا شروع کردیتے ہیں 😂 لیکن سب سے پہلے سب کے کام تھوک ہی آتا ہے!
تھوک کیا ہوتا ہے؟
تھوک دراصل پانی ہی ہے۔ یہ 98-99% فیصد تک پانی ہوتا ہے جبکہ باقی 1سے 2 فیصد مقدار کھانا ہضم کرنے والے انزائیمز, یورک ایسڈ، الیکٹرولائیٹس، اور پروٹین کی ہوتی ہے۔
تھوک کہاں سے آتا ہے؟
ہمارے منہ میں جبڑے کی پچھلی جانب، جبڑے کے نیچے اور زبان کے نیچے تھوک کے تین گلینڈز موجود ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ منہ میں تھوک کے تین جگہ پائیپ فٹ ہیں۔ جبڑے کے پیچھے پائیپ ( گلینڈ ) کو parotid gland, جبڑے کے نیچے submandibular gland , اور زبان کے نیچے گلینڈ کو sublingual gland کہتے ہیں۔ 2020 میں ہماری گالوں کے اندر گلینڈز کا ایک جوڑا بھی دریافت ہوا ہے جس پر پہلے کسی کی نظر نہیں پڑی انہیں Tubarial گلینڈز کہتے ہیں اور ان کے بارے میں بھی ڈاکٹروں میں بحث جاری ہے کہ آیا یہ بھی تھوک بنانے والے گلینڈز ہیں کہ نہیں۔یہ تمام گلینڈز خاص قسم کے کروڑوں سیلز سے مل کر بنے ہیں جنہیں acini کہتے ہیں اور یہی سب سیلز مل کر تھوک بنانے کا کاروبار کرتے ہیں۔
تھوک کی کتنی اقسام ہیں؟
تھوک کی پانچ اقسام ہیں جو دراصل پانچ ادوار ہیں جن میں تھوک کے اندر پائے جانے والے اجزا جسم کی ضرورت کے مطابق مختلف ہوسکتے ہیں۔
1 پہلی قسم Cephalic:
یہ مشہور قسم ہے جو اپنا پسندیدہ کھانا دیکھنے یا سوچنے پر پیدا ہوتی ہے۔ جسے منہ میں پانی بھر آنا بھی کہتے ہیں۔
2 دوسری قسم Buccal:
تھوک کی یہ شکل کھانا کھاتے وقت پیدا ہوتی رہتی ہے۔
3 تھوک کی تیسری قسم Esophageal:
جیسے ہی کھانا منہ سے آگے نکل کر حلق سے ہوتا ہوا خوراک کی نالی Esophagus میں پہنچتا ہے تو منہ میں یہ تھوک پیدا ہوتا ہے۔
4 تھوک کی چوتھی قسم Gastric:
جب معدے میں گڑ بڑ ہو اور الٹی ہونے کا خدشہ ہو تو تھوک کی یہ قسم پیدا ہوتی ہے۔
5 تھوک کی پانچویں قسم intestinal:
جب خوراک ٹھیک طرح ہضم نہ ہو اور آنتوں میں پہنچ جائے تو تھوک کی ایسی قسم منہ میں بنتی ہے۔
تھوک کے متعلق کچھ دلچسپ باتیں:
* ہمارے منہ میں ہر روز تقریباً ایک سے دو لیٹر تھوک پیدا ہوتا ہے۔
* تھوک دن کے بعد اور شام تک سب سے زیادہ پیدا ہوتا ہے جبکہ رات کے وقت اسکی پیداوار کم ہوتی ہے۔
* عورتوں کی نسبت مردوں کے منہ میں تھوک زیادہ پیدا ہوتا ہے۔
*ننھے بچوں کے منہ سے رسنے والا پانی (پنجابی میں لیلیں) دراصل انکے دانت نکلنے کے مراحل کے دوران پیدا ہوتا رہتا ہے تاکہ مسوڑے سوجن، درد اور انفیکشن سے محفوظ رہیں۔ اس پانی کو Drool کہتے ہیں۔ البتہ کسی بڑے میں یہ بکثرت نکلنے لگے تو کسی انفیکشن کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے۔
تھوک کے فائدے:
* تھوک کے بیشمار فائدے ہیں 😁. نقلی دانتوں کی بتیسی کا ایک جوڑا کسی دانتوں کی دوکان سے اٹھائیں (پیسے دے کر) اور ان کو آپس میں رگڑتے جائیں۔ کیا ہوگا؟ جی ہاں خراشیں پڑ جائیں گی، ہلکے ہلکے ٹوٹ بھی جائیں گے ۔ لیکن ہمارے منہ میں ہم ہر روز کھاتے پیتے اور کسی رشتے دار کو دیکھتے دانت پیستے ہیں تو یہ سچ میں کیوں نہیں پسے جاتے؟
دراصل تھوک یہاں بطور موبل آئل یعنی Lubricant کام کرتا ہے۔ دانتوں کو تر رکھ کر رگڑ سے بچاتا ہے۔ دوسرا کام یہ کرتا ہے کہ اس میں موجود مختلف نمکیات دانتوں کے بیرونی سخت خول جسے enamel کہتے ہیں اس کو ضروری معدنیات مہیا کرکے مضبوط کرتا ہے۔
*تیز تیزاب والے کھانے مثلاً لیمن ، اورنج, سوڈا وغیرہ دانتوں کے بیرونی خول میں سوراخ کرسکتے ہیں۔ انہیں گلا سکتے ہیں۔ لیکن عین اسی لمحے تھوک اس تیزاب میں شامل ہوکر اس کو "نیوٹرل" کر دیتا ہے۔ اس طرح دانت محفوظ رہتے ہیں۔
*میٹھا بھی دانتوں کا سخت دشمن ہے میٹھا جو دانتوں میں آگے پیچھے تھوڑا بہت پھنس جاتا ہے وہاں بیکٹیریا حملہ کرکے تیزاب پیدا کرتے ہیں اور دانتوں میں کیویٹی یعنی کھوڑ پڑجاتے ہیں لیکن تھوک باقاعدہ اس میٹھے کو اتارتا رہتا ہے، تیزاب کو نیوٹرل کرتا رہتا ہے اور بیکٹیریاز کو بھی مارتا رہتا ہے۔ مطلب کہ یہ قدرتی دوائی ہے جو آپ کے دانتوں کے لئیے منہ میں رکھ دی گئی ہے۔ ( ہاں لیکن اگر آپ میٹھے پر ہتھ ہولا نہ رکھیں تو پھر تھوک کا کوئی قصور نہیں تین ہی پائپ فٹ ہیں ہزار نہیں 😄)
*دانت تو محفوظ کرلئیے اب آجائیں مسوڑوں کی جانب۔ تھوک مسوڑوں کی بھی جان ہے بلکہ مسوڑوں کی بقا تھوک میں ہے۔ تھوک میں لائیزو زائم، پیپٹائیڈز، اور کچھ پروٹین ہوتے ہیں جو مسوڑوں پر حملہ ہونے والے بیکٹیریاز کی کھال ادھیڑ دیتے ہیں ( سچ میں کھال)۔
*نظام انہضام میں پہلا کام تھوک کا ہے۔ اور یہی بات اوپر لکھی گئی کہ سب سے پہلے سب کے کام تھوک ہی آتا ہے 😁.
جب ہم کسی شے کا نوالہ لیتے ہیں تو تھوک منہ میں پھیلنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح خوراک کے زرات لے کر زبان پر پھیلادیتا ہے تاکہ زبان پر موجود ذائقے کے سیلز اس ذائقے کو پہچان کر دماغ تک پہنچائیں۔ بنا تھوک کے زبان کا کام بھی سخت مشکل ہوجائے گا۔ اب تھوک کا اگلا کام کھانے کو انتہائی نرم کچے آٹے جیسا گوندھنا ہے تاکہ حلق سے باآسانی پیٹ کی جانب سفر شروع کرے۔ اسی لئیے سیانے کہتے کہ کھانے کو خوب چبا چبا کر کھائو۔ تھوک میں موجود قدرتی کیمیکلز بہت سارے پیچیدہ غذائی زرات مثلاً سٹارچ اور Fats کو منہ سے ہی ہضم کرنا شروع کردیتےہیں۔ روٹی چاول نو ڈلز میں کافی سٹارچ ہوتا ہے بنا تھوک کے ان کا انہضام بڑا مشکل ہوتا۔
* تھوک کسی زخم پر لگانے کے قصے سنے دیکھے ہیں۔ دراصل یہ بات درست ہے! تھوک میں زخموں کو مرہم کرنے والے وائیٹ سیلز نیوٹرو فلز موجود ہیں جو زخم بھرنے کی رفتار کو تیز کرتے ہیں۔ اسی لئیے آپ نے اکثر جانوروں کو اپنے زخم چاٹتے دیکھا ہے (حیرت ہے انہیں یہ فوائد کیسے پتہ)۔ اس کے علاوہ تھوک میں موجود لائیزوزائم زخموں میں موجود بیکٹیریاز مار کر زخم صاف کردیتا ہے۔
تھوک کے نقصانات -/+18 دونوں😄:
*جنسی تعلقات میں تھوک کا استعمال انتہائی نقصان دہ ہے۔ تھوک کسی بھی لحاظ سے بطور Lubricant استعمال کرنا مخالف پارٹنر میں مختلف انفیکشن پیدا کرسکتا ہے (e.g vaginal yeast infection). اس کے علاوہ بہت ساری گلے اور منہ کی جنسی بیماریاں مثلاًHerpes تھوک کے ذریعے مخالف کے خاص حصوں میں منتقل ہوسکتی ہیں۔
*بوسہ لینے میں بھی تھوک کے زریعے جراثیم پھیلتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 10 منٹ کے بوسے میں تقریباً 60 ملین جراثیم ایک دوسرے میں ٹرانسفر ہوتے ہیں۔ لیکن میاں بیوی اس کے خطرات سے محفوظ ہیں کیونکہ دونوں کے جراثیم ایک جیسے ہوجاتے۔مسئلہ غیر ازدواجی جنسی تعلقات اور دھوکہ دہی میں ہوتا ہے۔
*بہت سارے پالتو جانور خصوصاً کتے انسانی زخم چاٹتے ہیں۔ انہیں اس سے دور رکھیں۔ امریکہ میں کئی ایسے کیسز ہوئے جہاں لوگوں کو اپنے بازو ٹانگ وغیرہ کتے کے چاٹنے کی وجہ سے کٹوانے پڑگئے کیونکہ خطرناک بیکٹیریا تھوک کے ذریعے انکے زخموں پر منتقل ہوئے۔ انسانی تھوک بھی زخم پر نہیں استعمال کرنا چاہئیے کیونکہ اس سے بیکٹیریا پھیلنے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
*تھوک بکتا بھی ہے، جی ہاں سائوتھ افریقہ میں بڑھتی بیروزگاری کے سبب ٹی بی والے تھوک کی غیر قانونی منڈی لگتی ہے جہاں اچھے بھلے بیروزگار لوگ خرید کر لے کر جاتے ہیں اور اپنے آپکو یہ بیماری لگاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ٹی بی والوں کو ماہانہ حکومت خرچہ دیتی ہے۔ شاید اسی لئیے سائوتھ افریقہ ٹی بی کی بیماری میں ٹاپ پر ہے۔
* بہت سارے وائرس اور جراثیم مثلاً ہیپاٹائیٹس, ہرپیس، ایبولا زکا، تھوک کے ذریعے ایک دوسرے میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر بندے کے منہ میں یہ وائرس ہیں 😆 بلکہ جو شخص کسی گندی جگہ سے ان کا متاثر ہوا ہو۔ اس لئیے ایسے مریضوں سے ملتے وقت ماسک لازمی پہنیں۔
منہ میں تھوک کی کمی کے اثرات:
منہ میں تھوک کی کمی کے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں۔ تھوک میں کمی سے بہت سارے جراثیموں کو حملہ کرنے کا موقع ملے گا، منہ میں متعدد زخم ہوتے رہیں گے، مسوڑوں پر بیکٹیریا آکر حملہ کرتے رہیں گے جس سے مسوڑوں میں زخم بھی ہونگے منہ میں بدبو بھی پیدا ہوگی، گلے کے، معدے کے مسائل جنم لیں گے اور سب سے بڑی بات آپ کے دانتوں کی تباہی شروع ہوجائے گی۔
تھوک میں کمی کی بڑی وجہ سٹریس ہے۔ سٹریس میں ہمارے تھوک کے گلینڈز ٹھیک طرح کام نہیں کرتے۔ خوف میں بھی ہمارا منہ خشک ہوجاتا ہے۔ دراصل انسان 60 فیصد پانی پر مشتمل ہے اور دماغ اس پانی کو مختلف عضو کے ذریعے آگے پیچھے کرتا رہتا ہے اب چونکہ خوف میں جسم کا درجہ حرارت بڑھتا ہے تو نتیجتاً جسم پسینہ خارج کرتا ہے تاکہ جسم کے درجہ حرارت میں بیلنس ہو. پانی پسینے میں چلا جائے گا تو گلینڈز کو کم ملے گاجس سے تھوک میں واضح کمی ہوگی اسی لئیے خوف پریشانی میں گلا خشک ہوجاتا ہے۔ (پکڑے جائیں تو پھر بھی تھوک نہیں بنتا 😅)
تھوک میں کمی کو کیسے پورا کیا جائے۔
تھوک میں کمی کو Dry Mouthکہتے ہیں اور ڈاکٹرز ادوایات سے بھی اس کا علاج کرتے ہیں جبکہ سب سے بہتر حل پانی کا باقاعدہ استعمال ہے تاکہ جسم میں وافر مقدار میں پانی موجود ہو۔ اس لئیے خوف یا سٹریس میں خوب پانی پئیں۔
شوگر فری ببل گم اور ٹافیاں بھی ملتی ہیں جن میں Xylitol شوگر موجود ہوتی ہے۔ یہ کیمیکل تھوک کے گلینڈز کوایکٹو کرتا ہے۔ اس لئیے تھوک کی کمی کے شکار لوگ، ( جن کی زبان بھی سفید ہوجاتی ہے) اس ببل گم کا استعمال کریں۔ یہ گم بچوں کے دانتوں کے لئیے بھی مفید ہے۔
میڈیکل سٹور سے Dry Mouth والے مائوتھ واش کا استعمال بھی بہتر ہے۔ سگریٹ نوشی شراب نوشی، چائے سو ڈا کا زیادہ استعمال بھی تھوک کی کمی کا باعث بنتا ہے۔
تھوک کی کمی سے بہت سارے غزائی اجزا ٹھیک طرح ہضم نہیں ہوپائیں گے نتیجتاً معدے کی سختی آجائے گے۔ کھانا دیر سے ہضم ہوگا۔ گیس اور قبض کی شکایت ہوگی۔
بہت ساری ادوایات بھی تھوک کو خشک کرتی ہیں۔ منہ کی بدبو تھوک کا جمنا ہونٹوں کے اطراف میں کٹ سب تھوک کے مسئلے ہیں۔ زیادہ پانی پئیں، شوگر فری چیونگم چبائیں اور منہ بند کرکے سویا کریں😄.
منہ میں تھوک کی زیادتی:
حمل کے دوران اکثر خواتین کو ہوجاتی ہے، کسی زہریلے مادے مثلاً مرکری کے سامنے آنے سے بھی یہ مسئلہ ہوتا ہے، گلے کے انفیکشن ٹانسلز اور الرجی وغیرہ بھی تھوک میں زیادتی کرتے ہیں جو کافی الجھن پیدا کرتا ہے۔ لیکن کچھ خاص گھبرانے کی بات نہیں وقت سے ٹھیک ہوجاتا ہے۔ اگر نہ ہو پھر ڈاکٹرز خشک کرنا جانتے ہیں۔ 😆.
دنیا میں سب سے دور تھوک پھینکنے کا ریکارڈ امریکہ کے ایلکس پنا نے بنایا جنہوں نے اپنا تھوک 22 فٹ دور پھینکا۔
دل تو چاہ رہا تھوک پر مذید لکھوں لیکن اپنا گلا خشک ہوگیا 😛.
خوش رہنا بہت ساری بیماریوں کی شفا ہے۔ خوش رہنا سیکھیں!
تحریر: عظیم لطیف

 

Total Pageviews