December 19, 2017

زندگی کے آخری لمحات میں اللہ پاک سے معافی


جہاز تیس ہزار فٹ کی بلندی پر محوِ پرواز تھا۔ پُرسکون، آرام دہ فلائٹ؛ بزنس کلاس کا بااخلاق اسٹاف اور ہر طرف خاموشی۔ مدھم روشنیوں میں ہر کوئی سونے کےلیے اپنی سیٹوں کو ایڈجسٹ کر رہا تھا۔
عبداللہ کی آنکھوں پر نیند طاری تھی، وہ بھی نیم غنودگی میں تھا کہ اچانک جہاز کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ لائٹس جل اٹھیں اور ایمرجنسی سائرن کی آواز سے جہاز گونج اُٹھا۔ پائلٹ نے اعلان کیا کہ جہاز کا ایک اِنجن فیل ہوگیا ہے اور دوسرے میں بھی کچھ خرابی معلوم ہوتی ہے۔ جہاز دس منٹ میں کریش لینڈنگ کرے گا۔ دعائیں مانگ لیجیے۔
مسافروں کی سانسیں اوپر کی اوپر، نیچے کی نیچے رہ گئیں۔ کسی کو موت سے پہلے مر جانے کی عکس بندی کرنی ہو تو یہ بہترین موقع تھا۔ فرطِ جذبات اور غصّے سے آگے والی سیٹ کے بزنس مین صاحب چیخنے لگے۔
’’کیا بےہودہ بات ہے، بکواس کرتے ہو، تمہیں معلوم نہیں میں کون ہوں، میرے اتنے بزنس…‘‘
ایئرہوسٹس نے بات کاٹی، ’’جناب چیخنے چلانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ تھوڑی دیر میں ہم سب میتوں میں بدل جائیں گے۔‘‘
’’میں آپ لوگوں کےلیے ایک آخری کام کرسکتی ہوں،‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے اندر کاک پٹ میں گئی اور ایک چھوٹا سا کالا ڈبہ لے آئی؛ کہنے لگی:
’’دیکھیے، یہ ڈبہ خصوصی ساخت کا ہے اور آگ یا دھماکے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اگر آپ سب لوگ اپنی فیملی یا بزنس پارٹنر یا بینکر کو کوئی آخری ہدایات لکھ کر دینا چاہتے ہیں تو جلدی سے لکھ کر اس ڈبے میں ڈال دیجیے۔ ملبے سے جب یہ نکلے گا تو آپ کے رشتے داروں تک آپ کے یہ آخری خطوط پہنچادیئے جائیں گے۔‘‘
یہ کہہ کر ایئر ہوسٹس نے تمام مسافروں کو قلم اور کاغذ تھمادیئے۔ ہر کوئی اپنی فیملی کو آخری خط لکھ رہا تھا۔ عبداللہ پہلے تو حیران ہوا کہ کوئی اپنے بینک، اِنشورنس ایجنٹ، بزنس پارٹنر یا محبوب سیاسی لیڈر کو خط کیوں نہیں لکھ رہا۔ مگر پھر اس نے سوچا کہ ابھی حیران ہونے کا وقت نہیں؛ اور جلدی سے اپنا خط شروع کیا۔
گھڑی پر وقت دیکھا، اِن تمام اعلانات و حیرانی میں دو منٹ گزر چکے تھے اور باقی بچے آٹھ۔، عبداللہ نے خط شروع کیا۔
’’میرے پیارے اللہ سائیں،
’’اب ملاقات کا وقت قریب ہے۔ ہماری دنیا میں رواج ہے کہ جب کوئی چھوٹا کسی بڑے سے ملنے جاتا ہے تو کوئی تحفہ، کوئی نذرانہ، کوئی ہدیہ ضرور لے جاتا ہے۔ آپ بڑے ہیں، بےنیاز ہیں۔ آپ کو کسی چیز کی کیا ضرورت۔ مگر میں بندے کی حیثیت سے کچھ تو پیش کروں۔ آج اپنی چالیس سالہ زندگی کو پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو کوئی بھی تو ایسی چیز نہیں جو آپ کو پیش کر سکوں۔ کوئی روزہ، کوئی نماز، کوئی عبادت، کوئی سجدہ، کچھ بھی اس قابل نہیں۔ ساری زندگی سوتے میں گزار دی۔ کوئی بارہ سال تو حقیقتاً سوتا ہی رہا۔ دس ایک سال پڑھنے میں گزار دیئے۔ آٹھ ایک سال روزی روٹی میں اور باقی چند فضول کاموں میں۔ آگے سے آگے بڑھنے کے شوق میں کبھی کوئی اتنا وقفہ بھی نہیں آیا کہ رک کر، پیچھے مڑ کر دیکھ سکوں کہ تیرے ساتھ کیا تعلق بنا؟ معاشرے کو سُدھارنے کے خبط میں اپنے آپ پر کام کرنا بھول گیا۔ نوافل روزوں کی تعداد، حج و عمرہ و ختمِ قرآن کی گنتی، اور اپنی بڑائیوں کے حساب کتاب میں عبادت نہ ہو سکی۔ Never give up (کبھی نہ ہار ماننے) کے زعم میں تیرے سامنے بھی سرینڈر نہ کیا۔ کبھی ہار تسلیم نہیں کی کہ اے اللہ! میں ہار گیا، نفس جیت گیا۔ تُو بچا لے۔
’’اللہ سائیں، یا ذوالجلالِ والاکرام، وہ لمحات جو تیرے ذکر میں کٹنے تھے وہ ٹی وی ڈراموں میں لگ گئے۔ جو تیری یاد و دعا میں لگنے تھے وہ ٹوئٹر، فیس بک اور لنکڈ اِن کی نذر ہوگئے۔ جو وقت قرآن پڑھنے اور سمجھنے میں لگنا تھا وہ گیم آف تھرونز (GoT) کھا گیا۔ اِس کے ساتھ تصویر، اُس کے ساتھ تصویر، اِس جگہ کا وزٹ، اُس جگہ کے قصّے، بس یہی کچھ کرتا رہا۔
’’اے اللہ، اے مالک، اِس وقت جہاز میں سوار لوگوں میں، میں بد ترین مخلوق ہوں۔ اگر تو یہ آفت کوئی عذاب ہے تو مجھے سو فیصد یقین ہے کہ میری وجہ سے آئی ہوگی۔ آج یہ سارے تیرے حضور اپنی عبادتیں لے کر آرہے ہیں۔ میرے پاس سوائے ندامتوں کے کچھ بھی نہیں۔
’’آج میں اپنے جرائم کا اقرار کرتا ہوں۔ سو فیصدی Plead Guilty
’’اے اللہ! میں نے شرک کیا۔ میں نے اپنی ذات کو بندگی اور تیرے بیچ رکھ دیا۔ میری اَنا، میرا غرور، میری ذات کا اِدّعا، میرے کارنامے، میرے ناولز، میرے قصّے، یہ سب شرک نہیں تو اور کیا ہے۔
’’نام تیرا لیتا رہا، محبتیں کسی اور سے کرتا رہا، ذکر تیرا دھیان کہیں اور۔ نماز تیری نظر کہیں اور، خیال تیرا فون کہیں اور، سامنے تُو اور chat کہیں اور۔
’’یااللہ، میں نے ملاوٹ کی۔ تیرے عشق میں، تیری بندگی میں اپنی ذات کی۔
’’میں نے ذخیرہ اندوزی کی کہ میرے گھر میں مہینوں کا اناج اِسٹور میں پڑا ہوتا تھا اور باہر لوگ بھوکے مرتے تھے۔
’’میں نے رشوت بھی لی۔ رشوت دی ہی اس لئے جاتی ہے کہ جو کام کرنے آئے ہو، جس کےلیے کرنے آئے ہو اس کو دھوکا دے کر کسی اور کا کردو۔ یہ میری تنخواہ رشوت ہی تو تھی جو دنیا دیتی رہی کہ تیرا کام نہ کروں۔ جس کےلیے بھیجا گیا وہ نہ کروں، باقی سب کروں۔
’’میں نے غرور کیا کہ میری ذات و اَنا کے بت کے سوشل میڈیا پر ہزاروں فالورز تھے۔
’’میں نے جھوٹ بولا اپنے آپ سے کہ سب اچھا ہے۔ لگے رہو، صحیح جا رہے ہو۔
’’میں نے سچ پہ آنکھیں بند کرلیں کہ روز آئینہ دیکھتا اور اپنے آپ سے نظریں چُرا لیتا۔
’’اللہ سائیں، میں مرنے سے پہلے مر گیا۔ جہاز گرنے سے پہلے ہی چاروں شانے چت ہو گیا۔
’’بے شک تیرا فضل کسی وجہ کا محتاج نہیں۔ بڑوں کی شان ہوتی ہے کہ جب کسی پر گرفت مکمل ہو جائے تو چھوڑ دیتے ہیں۔ میں اقرارِ جرم کرتا ہوں۔ تیری رحمت سے مکمل کوئی شئے نہیں۔ تیری جود و سخا سے باہر کوئی گناہ نہیں۔ تیرے فضل سے سِوا کوئی نافرمانی نہیں اور تیری پہنچ سے دور کوئی دعا نہیں۔ اے سمیع و بصیر اللہ! آخری منٹ بچا ہے، میں ایسا بے بس کہ کچھ بس میں نہیں، اِس بے بسی، اِضطراب، لاچاری و بے چارگی کے صدقے۔ مجھے بخش دے۔ مجھے بخش دے۔ مجھے بخش دے۔
’’میری پیاری بِلّو، اب چلتا ہوں۔ میرے چاروں بچوں کا خیال رکھنا۔ انہیں اچھا عبداللہ بنانا۔‘‘
’’سر! آر یو اوکے؟‘‘ ایئر ہوسٹس نے پسینے میں شرابور عبداللہ کو نیند سے جگایا۔ سب کچھ نارمل تھا اور عبداللہ خواب دیکھ رہا تھا۔
آئیے، ہم سب بھی آج اپنا آخری خط لکھتے ہیں کہ زندگی کا خط درست ہوسکے۔
تو اکیلا ہے بند ہے کمرہ
اب تو چہرہ اُتار کے رکھ دے

November 30, 2017

فاٹا کے لوگ ایف سی آر قانون کے تحت ظلم کی چکی میں پچھلے 70 سال سے پس رہے ہیں۔ توجہ کی ضرورت ہے۔





انتہائی معذرت کے ساتھ انتہائی معذرت کے ساتھ میں خود صوبائی تعصب اور لسانیت کے ھمیشہ خلاف رہا ہوں
اور شاید یہ فاٹا(علاقہ غیر) کے سلسلے میں آخری پوسٹ ہو
لیکن ایک جانب توجہ دلانا مقصود تھی
بلوچستان میں 5 پنجابی مزدور بے گناہ قتل ہوتے ہیں
تو پوری حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی آرٹیکلز لکھے جاتے ہیں بحث مباحثے ہوتے ہیں حکومتی رٹ چیلنج ہوجاتی ہے ۔
اور نئے ایکشن نئے منصوبے بنائے جاتے ہیں

لیکن فاٹا میں آئے روز ڈرون اٹیکس میں بچے اور معصوم مرتے ہیں (دس سال ہوگئے)
آئے روز عوام کے ساتھ ظلم وستم ہورہا
FCR کے قانون کی چکی میں پس رہے ہیں
مجرم اور معصوم کی تحقیق کیے بغیر ھر کسی کو جیل ڈالا جاتا ہے
لیکن کبھی آواز بلند نہیں ہوئی
آواز بلند ہوبھی کیسے
جب وہاں
میڈیا کے نمائندوں کے جانے پر پابندی ہے
وہاں انٹرنیٹ سوشل میڈیا کیبل ٹی وی یا موبائل سروس کا نام و نشان تک نہیں (دس سال ہوگئے اس بات کو)

آخر کیوں؟؟؟
کیوں کہ وہ علاقہ غیر ہے؟؟
کیونکہ وہ پاکستان کے باقاعدہ شہری نہیں؟
کیونکہ وہ دھشتگرد ہیں؟؟
کیونکہ وہ ان پڑھ یا جاھل ہیں؟؟
کیونکہ وہ کسی عدالت میں آواز بلند نہیں کرسکتے ؟؟؟

اگر فاٹا پرامن ہے تو پھر وہاں میڈیا کے نمائندوں کے جانے کی آزادی کیوں نہیں ؟؟
وہاں اب تک سوشل میڈیا کیمرہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندی کیوں عائد ہے ؟؟
کوئی اس سوال کا جواب دے سکتا تو دے دے
ورنہ یاد کر لیں
پاکستان میں ایک خطہ ایسا بھی ہے
جو "نوگو ایریا" ہے
جہاں اب تک برطانیہ کا عائد کردہ FCR لاگو ہے
جہاں پڑوس میں رہنے والی سیکیورٹی ایجنسی کو دھشتگرد کی خبر نہیں ہوتی لیکن 45 کلومیٹر اونچائی پر پرواز کرنے والے ڈرون کی بدولت ھزاروں کلومیٹر دور بیٹھے امریکیوں کو دھشتگردوں کی خبر ہوجاتی ہے
پھر کبھی باوجوڑ میں مدرسے کے معصوم بچے اپنی جانوں سے ھاتھ دھو بیٹھتے ہیں
تو کبھی گھروں میں کام کرتی خواتین نشانہ بن جاتی ہیں

لیکن کوئی پرسان حال نہیں
لے دے کے یہی بات رہ جاتی
کہ قبائلی بھی بلوچیوں کی طرح
برطانیہ اور سویزر لینڈ پناہ کے لیے درخواست دیں
اور وہاں انٹرنیشنل میڈیا پہ بیٹھ کر تمام ظلم و ستم بیان کریں
پھر

کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہوگا کہ یہ ناراض بھائی اور یہ باغی اور غدار ہیں کیونکہ ھم سارے آپشن تو آزما بیٹھے ہیں
اتنے ظلم کے بعداب اک یہی آپشن ہی بچتا ہے
توجہ نہیں دو گے تو یہ لاوا پھٹ جائے گا
60 سال نظراندازی کے اور دس سال ظلم و ستم کے
یہ اب کافی ہیں برداشت کا پیمانہ چیک کرنے کے لیے

مجھے کیا ہے میں تو آرام سے بیٹھا ہوا پنجاب میں
مجھے توسب کچھ مل رہا یہاں
لیکن جو لوگ وہاں موجود اور جو متاثرین ہیں اصل

وہ اب برداشت کی آخری حدود کو پہنچ چکے ہیں
اگر جلد سے جلد انکا پاکستان میں خیبرپختونخواہ پختونخوا کے ساتھ انضمام کرکے انہیں تعلیم صحت اور انصافجیسی بنیادی انسانی حقوق نہ دیے گئے
تو پھر
واپسی ناممکن ہو جائے گی

آخری بات فاٹا کے خیبرپختونخواہ میں انضمام یا خودمختاری کے حوالے سےکہ اگر فاٹا کو الگ صوبہ بنا دیا جائے تو کوئی فضل الرحمن صاحب سے پوچھے کہ
صوبے کا مرکز (دارالخلافہ)کدھر ہوگا کیونکہ یہ ایک لمبی پٹی ہے جو ضلع دیر سے ہوتی ہوئی بلوچستان ژوب تک جاتی ہے اور اس میں کوئی ایک شہر بھی ایسا نہیں جس کو مرکز بنا دیا جائے اب بھی فاٹا کے جتنے بڑے دفاتر محکمے ہیں وہ پشاور سے چلائے جاتے ہیں تو اگر صوبہ بنا کر پھر بھی ہمارا نظام پشاور سے چلے تو فائدہ کیا ہوا.؟

ایک بات یہ بھی اگر الگ صوبہ بنا تو یہی ظلم کے پسے عوام ایک بار پھر مختلف اختیارات کی تقسیم پہ ایک دوسرے کے دشمن ہوجائینگے اور حالات پھر سے اچھائی کی جگہ لڑائیوں اور بدنئیتی کی طرف جائیں گے
تو اس سے بہتر یہی ہے کہ فاٹا کو خیبر پختون خواہ میں ضم کیا جائے اور مرکز بھی پشاور ہی رہے پھر جس کو جو بھی ملے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا.
عبداللہ
فاٹا کے حوالے سے مزید معلومات جاننے کے لیے مہمند ایجنسی علاقہ غیر کے نوجوان Sheraz Khan Mmd شیراز خان مہمند کو ایڈ یا فالو کیجیے

August 02, 2017

ASIF Zardari Corruption Details

آصف زرداری کی دولت اور اثاثوں کا منی ٹریل؟؟؟
عمران خان کی کرکٹ کی کمائی، بنی گالہ کے اکلوتے گھر اور انتہائی محنت سے بنائے گئے پاکستان کے سب سے بڑے کینسر ہسپتال کا حساب کتاب اور منی ٹریل تو حاصل کر لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن زرداری کا پیٹ پھاڑنے کا دعوی کرنے والے نواز شریف نے مندرجہ ذیل دولت کا حساب نہیں مانگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں؟؟؟
ڈیلی پاکستان نے اپنی 2005 کی رپورٹ میں لکھا کہ آصف علی زرداری اپنی 1800 ملین ڈالر کے اثاثوں کے ساتھ پاکستان کی دوسری امیر ترین شخصیت ہیں ۔ اس نے اس وقت بے پناہ دولت حاصل کی جب اسکی بیوی وزیراعظم پاکستان تھیں۔ تاہم کئی ذرائع زرادری کی اس حیثیت سے متفق نہیں اور ان کے مطابق آصف علی زرداری اس سے کئی گنا زیادہ مالدار ہیں ۔ مختلف حوالوں سے انکی دولت کے جو اعداوشمار دستیاب ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
90ء کی دہائی میں معمر قذافی کے بھٹو کو دئیے گئے بلینک چیک پر خاندان میں جھگڑا ہوا جس میں زرداری نے مبینہ طور پر شاہنواز بھٹو کو قتل کر دیا اور اس چیک کو کیش کر کے سینکڑوں میلن ڈالرز حاصل کیے۔
1998 میں بے نظیر بھٹو کے ایک سوئس اکاؤنٹ کا انکشاف ہوا جس میں اس وقت 8500 ملین ڈالر کی رقم تھی۔ سوئس بینکوں کے اصول کے مطاق وہ رقم اب تک دو بار دگنی ہو چکی ہوگی۔
2007 میں اس نے اپنے سوئس بینک اکاؤنٹس میں کچھ نا معلوم کمپنیوں سے 60 ملین ڈالر کی رقم وصول کی۔
دنیا بھر میں جو بینک اکاؤنٹس ہیں ان میں سے کچھ کے نام اور نمبر مندرجہ ذیل ہیں۔
یونین بینک آف سویزرلینڈ اکاؤنٹ نمبر ۔۔ 552.343, 257.556.60Q, 433.142.60V, 216.393.60T۔
سٹی بینک پرائویٹ لیمٹڈ سویزرلینڈ اکاؤنٹ نمبر ۔۔ 342034۔
سٹی بینک این اے دبئی ۔۔۔ اکاؤنٹ نمبر ۔ 818097۔
بارکلے بینک سوئس ۔۔۔ اکاؤنٹ نمبر ۔۔ 62290209۔
بارکلے بینک سوئس ۔۔ اکاؤنٹ نمبر ۔۔62274400۔
بینک لا ہینن پیرس ۔۔ اکاؤنٹ نمبر ۔۔00101953552۔
بینک ناٹنڈی پیرس ان جنیوا ۔۔ اکاؤنٹ نمبر ۔ 563.726.9۔
بارکلے بینک نائٹ برج برانچ ۔۔۔ اکاؤنٹ نمبر ۔۔90991473۔
بارکلے بینک کنگسٹن اینڈ چیلی برانچ ۔۔۔ اکاؤنٹ نمبر ۔ 20-47-34135۔
نیشنل ویسٹ منسٹر بینک ۔۔۔ اکاؤنٹ نمبر ۔۔ 9683230۔
.نیشنل ویسٹ منسٹر بینک بارکنگ برانچ ۔۔۔ اکاؤنٹ نمبر ۔ 28558999۔
ان کے علاوہ مندرجہ ذیل بینکوں میں بھی زرداری صاحب کے اکاؤنٹس موجود ہیں۔
Habib Bank پال مال برانچ ۔۔۔۔۔
Habib Bank AG, Moorgate, London EC2
National Westminster Bank, Edgware Road, London
Banque Financiei E Dela Citee, Credit Suisse
Habib Bank AG Zurich, Switzerland
Pictet Et Cie, Geneva
Credit Agricole, Paris
Credit Agridolf, Branch 11, Place Brevier, 76440, Forges Les Faux
Credit Agricole, Branch Haute – Normandie, 76230, Boise Chillaum
Swiss Bank Corporation
Chase Manhattan Bank Switzerland
American Express Bank Switzerland
Societe De Banque Swissee
Banque Centrade Ormard Burrus S A
Banque Pache S A
Banque Pictet & Cie
جائداد ۔۔۔۔
آصف زرداری نے لندن میں جائداد اپنے نام پر نہیں رکھی ہے لیکن مختلف آف شور کمپنیوں ، فرموں اور ٹرسٹس کا نام استعمال کرتے ہوئے مندرجہ ذیل جائیداد خرید رکھی ہے۔
لندن کی سرے کاؤنٹی میں راک وڈ کے علاقے میں 365 ایکڑ یا 2700 کنال پر محیط 20 بیڈ روم کا ایک عالی شان گھر جس کو سرے محل کہا جاتا ہے ۔ اسکی تزئین آرائیش 1996 میں مکمل ہوئی جب بے نظیر بھٹو کا دوسرا دور حکومت ختم ہوا ۔ پہلے وہ 8 سال تک اس جائداد کی ملکیت سے انکار کرتے رہے ۔ اس دوران اس گھر پر کام کے ذمے جو واجبات جمع ہو گئے تھے وہ کسی نے ادا نہیں کیے ۔ تب ان کمپنیوں نے اپنے واجبات کی وصولی کے لیے عدالت کے ذریعے گھر کو نیلام کرنے پر اصرار کیا۔ حکومت پاکستان نے اس گھر کی ملکیت کا دعوی کیا کیونکہ یہ یقین کیا جا رہا تھا کہ یہ محل کرپشن کی رقم سے خریدا گیا ہے ۔ تب آصف زرداری نے اس کی ملکیت تسلیم کی اور یہ کیس 2008 تک جاری رہا۔
اس گھر میں دو فارمز ، ملازمین کے لیے رہائش گاہ ، زیر زمین ایک شراب خانہ اور ایک انڈور سومنگ پول بھی ہے ۔ 1990 کی دہائی میں اس نے کراچی سے بحری جہاز کے ذریعے بے شمار سامان اس گھر کی تزئین و آرائش کے لیے بھیجا تھا ۔ اس گھر کے معاملے میں اس پر بے شمار الزامات لگے ۔ لیلا شہزادہ کی بیٹی نے دعوی کیا کہ آصف زرداری نے سرے محل کی تزئین و آرائیش کے لیے چوری کیا ہوا کروڑوں روپے کا آرٹ خریدا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ آصف زرداری کا وہاں پر ایک ہیلی پیڈ ، ایک 9 ھولز کا گولف کلب اور ایک چھوٹا سا پولو گراؤنڈ بھی بنا چکا ہے۔
برطانیہ میں انکی بقیہ جائداد کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں۔
فلیٹ نمبر 6،11 کوئنز گیٹ ٹیرس لندن ایس ڈبلیو 7
۔26 پیلس مینشنز ، ہیمرز سمتھ روڈ لندن ڈبلیو 14
۔27 پونٹ سٹریٹ لندن ، ایس ڈبلیو 1
۔20 ولٹن کریسنٹ لندن ، ایس ڈبلیو 1
۔ 23 لارڈ چانسلر واک ، کومبی ہل ، کنگسٹن ، سرے
دی مینشن ، وارن لین ، ویسٹ ہیمپسٹڈ ، لندن
کوئنز سٹیج ، ٹیرس لندن میں فلیٹ
ہیمر سمتھ روڈ ، ولٹن کریسنٹ ، کنگسٹن اور ہیمپسٹڈ میں ایک مکان
امریکہ میں آصف علی زرداری کی جائداد کی تفصیل منررجہ ذیل ہے
نیویارک میں مین ہٹن میں واقع بلئیر اپارٹمنٹس آصف زرداری کا ایک پورا فلور ہے جہاں دنیا کے امیر ترین افراد کا ایک ایک فلیٹ ہے۔ ۔ ان اپارٹمنٹس کا شمار دنیا کے دوسرے مہنگے ترین اپارٹمنٹس میں کیا جاتا ہے ۔
ٹیکساس میں ایک بڑا فارم ھاؤس
ویلنگٹن کلب ایسٹ ویسٹ پام بیچ
۔ 12165 ویسٹ فارسٹ ہلز ، فلوریڈا
ایسکیو فارم 13524 انڈیا ماؤنڈ ، ویسٹ پام بیچ
۔3220 سانتا باربرا ڈرائیو ، ویلنگٹن فلوریڈا
۔ 13254 پولو کلب روڈ ، ویسٹ پام بیچ، فلوریڈا
۔3000 نارتھ اوشن ڈرائیو ، سنگر آئسلینڈ ، فلوریڈا
۔ 525 ساؤتھ فلیگر ڈرائیو، ویسٹ پام بیچ فلوریڈا
ھاؤسٹن میں ایک ھالی ڈے ان ھوٹل آصف علی زرداری ، اقبال میمن اور صدرالدین ھشوانی کی مشترکہ ملکیت ہے ۔
بیلجیئم میں آصف علی زرداری کی جائداد کی تفصیل
۔12۔3 بولیورڈ ، ڈی نیپرٹ، 1000 ، برسلز ۔ برسلز میں موجود یہ بلڈنگ 4 دکانوں اور دو بہت بڑے پارٹمنٹس پر مشتمل ہے ۔
چوسی ، ڈی مونس، 1670 ، برسلز
آصف زرداری کی فرانس میں جائداد کی تفصیل
لا مینیور ڈی لا رینی بلانچ اور پراپرٹی کینس میں
فرانس میں نارمنڈے میں انک 16 ویں صدی کی طرز تعمیر کا شاہکار ایک انتہائی مہنگا گھر ہے۔ اپنی ایک مخصوص طرز تعمیر کی وجہ سے فرانس میں اسکا شمار مہنگے ترین گھروں میں ہوتا ہے جسکی قیمت اربوں روپے ہے۔
انکے علاوہ دبئی میں ایک عالیشان گھر اور بہت بڑی کمرشل جائیداد موجود ہے۔
کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں ان کے عالیشان محل نما گھر ہیں جنکو بلاول ہاؤس کہا جاتا ہے ۔ ان میں سے ایک گھر زرداری ھاؤس کہلاتا ہے۔
ان کے علاوہ پاکستان میں جائداد اور اثاثوں کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔
پلاٹ نمبڑ 21 فیز 8 ڈی ایچ اے کراچی
دہدالی وادی تالکا ٹنڈو اللہ یار میں زرعی زمین
ضلع حیدر آباد تالکا ڈہ ٹوکی میں 65.15 ایکڑ کی زمین
نواب شاہ کے تعلقہ ڈہ 76 نصرت میں 827.14 کی ذرعی زمین
نواز شاہ کے اسی علاقے میں 293.18 ایکڑ کی زمین
رہائشی مکان پلاٹ نمبر 3، بلاک نمبر بی 1 ، سٹی سروے نمبر 2268 وارڈ اے نواب شاہ
ھما ھائٹس آصف اپارٹمنٹس 133 ڈپو لائنز کمسرئیت روڈ کراچی
ٹریڈ ٹاؤر بلڈنگ 3 سی ایل وی عبداللہ ہارون روڈ کراچی
ضلع نواب شاہ ڈہ 42 داد تعلقہ میں ذرعی زمین
ضلع نواب شاہ ڈہ 51 داد تعلقہ میں ذرعی زمین
نواب شاہ میں ھاؤسنگ سوسائیٹی لیمٹڈ کے نزدیک پلاٹ نمبر 3 اور 4 رہائشی پلاٹس
کافٹ شیراز سی ایس نمبر 2231-2 اور 2231۔3 نواب شاہ
ضلع نواب شاہ میں ڈہ 23 ڈہ تعلقہ میں زرعی زمین
نصرت تعلقہ ڈہ 72 اے نواب شاہ میں ذرعی زمین
نصرت تعلقہ 76 نواب شاہ میں ذرعی زمین
پلاٹ نمبر اے 136 سروے نمبر 2346 وارڈ اے گورنمنٹ ایمپلائیز کواپریٹیو ھاؤسنگ سوسائٹی لیمٹڈ نواب شاہ
ڈہ جریوں تلقہ ٹنڈو اللہ یار ضلع حیدر آباد میں 6 مقامات پر بہت بڑی ذرعی زمین جسکا کل رقبہ ہزاروں ایکڑ پر محیط ہے۔
ڈہ دغی تعلقہ ٹنڈو محمد خان میں ذرعی زمین
ڈہ رہوکی ،تعلقہ حیدر آباد میں ذرعی زمین
ڈہ چارو تعلقہ بدین میں جائداد
ڈہ دالی وادی تعلقہ حیدر آباد میں ذرعی زمین
پانچ ایکڑ پرائم لینڈ ڈی جی کے ڈی اے نے 1995/96 میں الاٹ کروائی۔
سملی ڈیم کے نزدیک 4000 کنال زمین
ھاکس بے میں 80 ایکڑ زمین
میجر گلداری " کے پی ٹی لینڈ " میں 13 ایکڑ زمین
کلفٹن جی سی آئی میں ایک ایکڑ کا پلاٹ
سٹیٹ لائف انٹرنیشل سنٹر صدر کے قریب ایک ایکڑ زمین
ایف ای بی سی ایس جسکی مالیت 40 لاکھ روپے ہے ۔۔۔۔
کاروبار
آصف زرداری مندرجہ ذیل کارخانوں میں حصہ دار ہیں
سرکنڈ شوگر مل نواب شاہ
انصاری شوگر مل
ملز حیدر آباد
مرزا شوگر مل بدین
پنگوریو شوگر ملز بدین
بچانی شوگر ملز سانگھڑ
پاکستان سے باہر جن کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی ہے
۔1۔ بومر فائنینس انک برٹس ورجن آئسلینڈ
۔ 2 ۔ میریز سٹون سیکیورٹی انک برٹش ورجن آئسلینڈ
۔ 3 ۔ مارلٹن بزنس ایس اے برٹش ورجن آئسلینڈ
۔ 4 ۔ کیپریکون ٹریڈنگ ایس اے برٹش ورجن آئدلینڈ
۔ 5 ۔ فیگریٹآ کنسلٹنگ انک برٹش ورجن آئسلینڈ
۔ 6 ۔ مارول ایسوسی ایٹڈ انک برٹش ورجن آئسلینڈ
۔ 7 ۔ پان بری فائنینس لیمٹڈ برٹش ورجن آئسلینڈ
۔ 8 ۔ آکسٹن ٹریڈنگ لیمٹڈ برٹش ورجن آئسلینڈ
۔ 9 ۔ برن سلن انوسٹ اسی اے برٹش ورجن آئسلینڈ
۔ 10 ۔ چیمیٹک ھولڈنگ ایس اے برٹش ورجن آئسلینڈ
۔ 11۔ یالکنز ھولڈنگ ایس اے برٹش ورجن آئسلینڈ
۔ 12 ۔ منسٹر انوسٹ لیمٹڈ برٹش ورجن آئسلینڈ
۔ 13 ۔ سلور نیٹ انوسٹمنٹ انک برٹش ورجن آئسلینڈ
۔ 14 ۔ ٹیکولن انوسٹمنٹ لیمٹڈ برٹش ورجن آئسلینڈ
۔ 15۔ مارلکورڈن انوسٹ ایس اے برٹش ورجن آئسلینڈ
۔ 16 ۔ ڈستن ٹریڈنگ انک برٹش ورجن آئسلینڈ
۔ 17 ۔ ری کنسٹڑکشن اینڈ ڈیولپمنٹ فائنینس انک برٹش ورجن آئسلینڈ
۔ 18 ۔ناسم الیگزینڈر انک
۔ 19 ۔ ویسٹ منسٹر سیکویریٹز انک
۔ 20 ۔ لیپٹ ورتھ انوسٹمنٹ انک 202 ، سینٹ مارٹن ڈرائیو، ویسٹ جیکسن ویلی
۔ 21 ۔ انٹرا فوڈز انک 3376 ، لومرل گرو ، جیکشن ویلی فلوریڈا
۔ 22 ۔ ڈئنیٹل ٹریڈنگ کو ، فلوریڈا
۔ 23 ۔ اے ایس رئیلیٹی انک ، پام بیچ گارڈنز فلوریڈا
۔ 24 ۔ بون وئیج ٹریول کنسلٹنسی انک ، فلوریڈا
ایک بمبینو سینما سے آصف زرداری نے اتنی ساری دولت کیسے بنا لی؟؟
پاکستان میں منافقت کے شہنشاہ مولانا فضل الرحمن صاحب نے کچھ دن پہلے آصف زرداری کو نواز شریف سے بڑا چور قرار دیا۔ لیکن اس کے اثاثوں کا منی ٹریل اور حساب کتاب نہیں مانگا۔
ہاں یاد آیا مولانا تو نواز شریف کے علاوہ زرداری کے بھی اتحادی ہیں۔۔  :)
عمران خان کی ایک ملین ڈالر کی دولت کی تفصیلات حاصل کرنے میں وزیراعظم پاکستان نے نہ صرف کروڑوں روپے خرچ کر دیئے بلکہ اپنی پوری کابینہ کے ساتھ ملکر ایک سال کا قیمتی وقت بھی ضائع کیا۔
زرداری کے 26000 ملین ڈالر کیوں نظر انداز کر دئیے؟؟

July 27, 2017

Girls Marriage Delay 7 Reasons in Pakistan



#لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کا بڑھتا ہوا خطرناک رجحان ایک لمحۂ فکریہ ہے.  

آ ج سے تقریباً پندرہ سال پہلے معاشرے کا جو رجحان تھا،اس کے مطابق جس لڑکی کی شادی پچیس سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی،تو ایسی شادی کو بروقت گردانا جاتا۔پچیس کی عمر کا ہندسہ عبور کرنے کا یہ مطلب لیا جاتا کہ لڑکی کے رشتہ میں دیر ہوگئی ہے۔

اس سے پہلے کا معلوم نہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ دیری کا یہ پیمانہ تین چار سال پہلے تصور کیا جاتا ہو۔
پھر سات آٹھ سال پہلے یہ صورتحال ہوئی کہ تیس سال کی عمر سے پہلے پہلے لڑکی کی شادی بروقت قرار دیے جانے لگی۔
یعنی محض سات آٹھ سال میں پانچ سال کا فرق آگیا۔

اب بھی ایسے معاملات ہیں کہ اکثر گھروں میں لڑکیوں کی عمریں تیس سے چالیس کے درمیان ہوچکی ہیں لیکن رشتہ ندارد۔

یہ رشتہ میں دیری کا رجحان ہمارے معاشرے میں ایسی خاموش دراڑیں ڈال رہا ہے جو معاشرتی ڈھانچے کے زمین بوس ہونے کا پیش خیمہ ہیں۔لیکن حیف کہ اس کاعملی ادراک معاشرے کے چند لوگوں کو بھی نہیں۔

آئیں!اس دیری کی وجوہات کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
#پہلی وجہ:
لڑکوں کا تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جانا اور لڑکیوں کا اس میدان میں آگے نکل جانا ہے،پچھلے کئی سالوں کے بورڈ امتحانات کے نتائج اس بات کے شاہد ہیں،اس کی وجہ سے تعلیم کے لحاظ سے ہم پلہ رشتہ ملنا انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔شہروں میں کچھ سالوں سے لڑکیوں میں بڑھتے ہوئے پی ایچ ڈی کے رجحان نے اس کو اور مشکل بنا دیا ہے۔

#دوسری وجہ:
اچھی تعلیم حاصل ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کو روزگار کے مواقع نسبتاً آسانی سے مل جاتے ہیں۔
اس کے دو اثرات سامنے آئے ہیں۔ایک:والدین کا ان لڑکیوں پر مالی انحصار کرنا شروع ہوجانا،دو:نوکریوں کے لحاظ سے ہم پلہ رشتے نہ ملنا۔
#تیسری وجہ:
کچھ والدین کا اس معاملہ میں بالکل ہل جل نہ کرنا ہے۔لڑکیوں کی عمریں اٹھائیس اٹھائیس سال ہوجاتی ہیں لیکن انھیں کم عمر ہی تصور کیا جاتا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ اٹھارہ بیس کی عمر میں مائیں رشتوں کی تلاش میں سرگرداں ہوجایا کرتی تھیں۔

#چوتھی وجہ:
جس لڑکی کی عمر تیس سال سے اوپر ہوجاتی ہے اس کے لئے عمر کے لحاظ سے رشتے مشکل ہوجاتے ہیں کیونکہ اکثر لڑکے والے کم عمر لڑکی کی تلاش میں ہوتے ہیں۔

#پانچویں وجہ:لڑکے والوں کے حد درجہ نخرے ہیں۔اول تو کوئی لڑکی، لڑکے کی ماں بہن کوبھاتی نہیں،فقط کھانے پینے سے لطف اندوز ہونا ہی شایدمقصد ہوتا ہے۔اگر کوئی لڑکی پسند آبھی جائے تو پھر فرمائشوں اور رسوم و رواج کے نام پر لڑکی والوں کا مکمل استحصال کیا جاتا ہے۔ہمارے ایک ایسے دوست ہیں جن کے گھر والوں نے بیاسی جگہ ان کا رشتہ دیکھا،پھر ایک جگہ ہاں کی،کچھ عرصہ بعد وہاں سے رشتہ توڑنے لگے تو ان دوست نے انکار کردیا کہ میں مزید تماشا نہیں دیکھ سکتا۔

#چھٹی وجہ:
شہروں میں ایک عجیب وجہ سامنے آئی ہے؛لڑکی کے والدین لڑکے میں وہ تمام کامیابیاں دیکھنا چاہتے ہیں جو پچاس سال کی عمر میں حاصل ہوتی ہیں۔مکان اپنا ہو،گاڑی پاس ہو،تنخواہ کم از کم اتنی ہووغیرہ وغیرہ۔میں اپنے ایک انجینئر دوست کا رشتہ کروا نے کی کوشش میں تھا؛لڑکا لائق فائق،خوش شکل،نوکری اچھی،لڑکی کی ماں کو بہت پسند تھا،لڑکے والے بھی راضی تھے لیکن اچانک لڑکی کے والدین نے انکار کردیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ لڑکے کے پاس اپنامکان نہیں،وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔اب ایسے رویوں کا کیا کیا جائے؟کیا یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف نہیں؟

#ساتویں وجہ:
خاندانوں کے اندر ایک عجیب و غریب وجہ دیکھنے میں آرہی ہے۔ہر ماں اپنی بیٹی کا رشتہ خاندان میں بخوشی کرنے پر راضی ہے لیکن جب اپنے بیٹے کا معاملہ آتا ہے تو خاندان کی سب لڑکیوں پر ناک بھوں چڑھا لیا جاتا ہے اور بڑے طمطراق اور فخر سے خاندان سے باہر کی لڑکی لائی جاتی ہے۔

# آٹھویں وجہ سید اور غیر سید کا فرق.  
اس کے علاوہ مزید وجوہات بھی ہونگی۔وجوہات جو بھی ہوں لیکن یاد رہے کہ اس سے ہمارا معاشرتی نظام درہم برہم ہورہا ہے اورہماری نوجوان نسل بروقت شادی نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا کی پھیلائی ہوئی بے حیائی کا بآسانی شکار ہورہی ہے۔اور جو محفوظ ہے وہ اپنے ساتھ ایک خاموش نفسیاتی جنگ کا شکار ہے۔
مغرب تو اس طرز سے اپنے آپ کوبرباد کرچکا اور ان کی آبادی اب ریورس گیئر میں چل رہی ہے لیکن ہم جانتے بوجھتے خود اس گڑھے میں گر رہے ہیں اور وہ بھی ہنستے مسکراتے۔
اور ہم سب اس اجتماعی خرابی اور زوال کے ذمہ دار ہیں۔صد افسوس!کشتی ڈوب رہی ہے اور کشتی کے ملاح اور مسافر بے نیاز۔
ؔحیراں ہوں،دل کو روؤں کہ پِیٹوں جگر کو مَیں

ابھی بھی وقت نکلا نہیں ہے ۔ اس کشتی کو بچایا جا سکتا ہے ۔۔۔ 

سوچئے گا ضرور

July 13, 2017

ALLAH PER TAWAKAL KA ANOKHA WAQIA






اللہ پر توکل کا انوکھا واقعہ
 
میں ان دنوں جوہر شادی ہال (J complex) کے اندر کو یوٹرن مارتی ہوئی سڑک کے اُس طرف اک فلیٹ میِں رہتا تھا. اس پوش کالونی کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک کے کنارے کنارے ہوٹل، جوس کارنر، فروٹ کارنر بھی چلتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ اک چوک ''اللہ ہو گول چکر'' آجاتا ہے. وہ زیرو پوائنٹ جیسا ہے، اس لیے گول چکر کہتے ہیں. اس چوک کے دائیں طرف اک نکڑ تھی جس پر اک ریڑھی کھڑی ہوتی تھی، رمضان کے دن تھے، شام کو طہرین بھائی ابوبکر بھائی کے کہنے پہ فروٹ خریدنے نکل کھڑا ہوتا تھا. مجھے وہ اس دوراہے پہ دور سے ہی اس ریڑھی پہ رکھے تروتازہ اور اچھی رنگ و بو کے پھلوں کی طرف جیسے کسی ندیدہ قوت نے گریبان سے پکڑ کر کھینچا ہو. میں آس پاس کی تمام ریڑھیوں اور کان پڑتی سیب اتنے روپے کلو، کتنے روپے کلو، جتنے روپے کلو، سب کے سب نظر انداز کرتا ہوا اس آخری اور نکڑ پہ ذرہ ہٹ کے لگی ریڑھی کو جا پہنچا. اک  نگاہ  پھلوں پہ ڈالی اور ماتھے پہ شکن نے آ لیا کہ یہ فروٹ والا چاچا کدھر ہے؟ ادھر اُدھر دیکھا کوئی نہیِں تھا، جی عجیب سا ہونے لگے کہ میرا جی نہ کرے، یہاں سے کسی اور طرف سے کچھ خریدوں. رمضان کی اس نقاہت و سستی کی کیفیت میں ہر کسی کو جلدی ہوتی ہے، اس شش و پنج میں اک گیارہ بارہ سال کا بچہ گزرا، مجھے دیکھ کر ٹھٹھکا اور کہنے لگا، فروٹ لینا؟ میں نے سر اوپر نیچے مارا، ہاں، وہ چہکا، تو لے لو، چاچا ریڑھی پہ نہیں آتا، میں نے کہا کیا مطلب؟ پھر اس نے اشارہ کیا، یہ دیکھو بورڈ لکھا ہوا ہے. میں نے گھوم کے آگے آکر دیکھا، تو واقعی اک چھوٹا سا بورڈ ریڑھی کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پہ اک موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا،
''گھر میں کوئی نہیں، میری اسی سال کی ماں فالج زدہ ہے، مجھے ہر آدھے گھنٹے میں تین مرتبہ خوراک اور اتنے ہی مرتبہ اسے حاجت کرانی پڑتی ہے، اگر آپ کو جلدی نہیں ہے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول کر اس ریگزین گتے کے نیچے پیسے رکھ دیجیے، اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، میری طرف سے اٹھا لینا اجازت ہے. وللہ خیرالرازقین!
بچہ جا چکا تھا، اور میں بھونچکا کھڑا ریڑھی اور اس نوٹ کو تک رہا تھا. ادھر اُدھر دیکھا، تھوک نگلی، پیسے نکالے، دو کلو سیب تولے، درجن کیلے الگ کیے، شاپر میں ڈالے، پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی، پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کونے کو اٹھایا، وہاں سو پچاس دس کی نقدی پڑی تھی، اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا، ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی متوجہ ہو، اور شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آگیا. واپس پہنچتے ہی اتاولے بچے کی طرح طہرین بھائی سے سارا ماجرا کہہ مارا، طہرین بھائی خود للعجب سے ہوگئے، کہ عجب آزاد آدمی، اتنا بھی توکل نہیں کر؟ پھر ماں کی بات پر وہ خود بھی آبدیدہ سے ہو رہے، کہنے لگے وہ ریڑھی واپس لینے تو آتا ہوگا، میں نے کہا ہاں آتا تو ہوگا، افطار کے بعد ہم نے کک لگائی اور طہرین بھائی کے ساتھ وہیں جا پہنچے. دیکھا اک باریش بندہ، آدھی داڑھی سفید ہے، ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا ہے، کہ ہم اس کے سر پر تھے. اس نے سر اٹھا کر دیکھا، مسکرا کر بولا صاحب ''پھل ختم ہوگیا ہے، باقی پیسے بچے ہیں، وہ چاہیں تو لے لو. یہ اس کی ظرافت تھی یا شرافت، پھر بڑے التفات سے لگا مسکرانے اور اس کے دیکھنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جیسے ابھی ہم کہیں گے، ہاں! اک کلو پیسے دے دو اور وہ جھٹ سے نکال کر پکڑا دے گا. طہرین بھائی مجھے دیکھیں میں طہیرین بھائی کو اور کبھی ہم دونوں مل کر اس درویش کو. نام پوچھا تو کہنے لگا، خادم حسین نام ہے، اس نوٹ کی طرف اشارہ کیا تو، وہ مسکرانے لگا. لگتا ہے آپ میرے ساتھ گپ شپ کے موڈ میں ہیں، پھر وہ ہنسا، پوچھا چائے پیئں گے؟ لیکن میرے پاس وقت کم ہے، اور پھر ہم سامنے ڈھابے پہ بیٹھے تھے.
چائے آئی، کہنے لگا تین سال سے اماں بستر پہ ہے، کچھ نفسیاتی سی بھی ہوگئی ہے، اور اب تو مفلوج بھی ہوگئی ہے، میرا آگے پیچھے کوئی نہیں، بال بچہ بھی نہیں ہے، بیوی مر گئی ہے، کُل بچا کے اماں اور اماں کے پاس میں ہوں. میں نے اک دن اماں سے کہا، اماں تیری تیمار داری کا تو بڑا جی کرتا ہے. میں نے کان کی لو پکڑ کر قسم لی، پر ہاتھ جیب دسترس میں بھی کچھ نہ ہے کہ تری شایان ترے طعام اور رہن سہن کا بندوبست بھی کروں، ہے کہ نہیں؟ ، تو مجھے کمرے سے بھی ہلنے نہیں دیتی، کہتی ہے تو جاتا ہے تو جی گھبراتا ہے، تو ہی کہہ کیا کروں؟ اب کیا غیب سے اترے گا بھاجی روٹی؟ نہ میں بنی اسرائیل کا جنا ہوں نہ تو کچھ موسیٰ کی ماں ہے، کیا کروں؟ چل بتا، میں نے پاؤں دابتے ہوئے نرمی اور اس لجاجت سے کہا جیسے ایسا کہنے سے واقعی وہ ان پڑھ ضعیف کچھ جاودانی سی بکھیر دے گی. ہانپتی کانپتی ہوئی اٹھی، میں نے جھٹ سے تکیہ اونچا کر کے اس کی ٹیک لگوائی، اور وہ ریشے دار گردن سے چچرتی آواز میں دونوں ہاتھوں کا پیالا بنا کر، اس نے خدا جانے کائنات کے رب سے کیا بات کری، ہاتھ گرا کر کہنے لگی، تو ریڑھی وہی چھوڑ آیا کر، تیرا رزق تجھے اسی کمرے میں بیٹھ کر ملے گا، میں نے کہا کیا بات کرتی ہے اماں؟ وہاں چھوڑ آؤں تو اچکا سو چوری کے دور دورے ہیں، کون لحاظ کرے گا؟ بنا مالک کے کون آئے گا؟ کہنے لگی تو فجر کو چھوڑ کر آیا بس، زیادہ بک بک نیئں کر، شام کو خالی لے آیا کر، تیرا روپیہ جو گیا تو اللہ سے پائی پائی میں خالدہ ثریا وصول دوں گی. ڈھائی سال ہوگئے ہیں بھائی، صبح ریڑھی لگا جاتا ہوں. شام کو لے جاتا ہوں، لوگ پیسے رکھ جاتے پھل لے جاتے، دھیلا اوپر نیچے نہیں ہوتا، بلکہ کچھ تو زیادہ رکھ جاتے، اکثر تخمینہ نفع لاگت سے تین چار سو اوپر ہی جا نکلتا، کبھی کوئی اماں کے لیے پھول رکھ جاتا ہے، کوئی پڑھی لکھی بچی پرسوں پلاؤ بنا کر رکھ گئی، نوٹ لکھ گئی "اماں کے لیے"،. اک ڈاکٹر کا گزر ہوا، وہ اپنا کارڈ چھوڑ گیا. پشت پہ لکھ گیا. "انکل اماں کی طبیعت نہ سنبھلے تو مجھے فون کرنا، میں گھر سے پک کر لوں گا" 
کسی حاجی صاحب کا گزر ہوا تو عجوہ کجھور کا پیکٹ چھوڑ گیا، کوئی جوڑا شاپنگ کرکے گزرا تو فروٹ لیتے ہوئے اماں کے لیے سوٹ رکھ گیا، روزانہ ایسا کچھ نہ کچھ میرے رزق کے ساتھ موجود ہوتا ہے، نہ اماں ہلنے دیتی ہے نہ اللہ رکنے دیتا ہے. اماں تو کہتی تیرا پھل جو ہے نا، اللہ خود نیچے اتر آتا ہے، وہ بیچ باچ جاتا ہے، بھائی اک تو رازق، اوپر سے ریٹلر بھی، اللہ اللہ!
اس نے کان لو کی چٍٹی پکڑی، چائے ختم ہوئی تو کہنے لگا اجازت اب، اماں خفا ہوگی، بھنیچ کے گلو گیر ہوئے. میں تو کچھ اندر سے تربتر ہونے لگا. بمشکل ضبط کیا، ڈھیروں دعائیں دیتا ہوا ریڑھی کھینچ کر چلتا بنا. میرا بہت جی تھا کہ میں اس چہیتے ''خادم'' کی ماں کو جا ملوں اور کچھ دعا کرواؤں، پر میری ہمت نیئں پڑی جیسے زبان لقوہ مار گئی ہو. ...

کاپی پیسٹ  فرام  "منصوبہ " واٹس اپ گروپ
ایک مراسلہ 👆

July 09, 2017

Why Businees Flops ? 50 Reasons to aviod Business Failure



ناکام بزنس مین کی 50 نشانیاں .. 📍 💺   🎭    🎯

* دنیا میں ہر 10 میں سے 8 بزنس اپنی شروعات کے پہلے 18 مہینوں کے اندر ہی فلاپ ہو جاتے ہیں۔
* سمال بزنس کی ناکامی کی یہ شرح براہِ راست ملکی معشت پر اثرانداز ہوتی ہے۔
* پاکستان میں Start-ups کی ناکامی کی شرح 90% ہے۔
* یعنی 10 میں سے 9 بزنس ناکامی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
* سمال بزنس ایڈمنسٹریشن (SBA) کی رپورٹ کیمطابق 66%  بزنس محض دو سال تک ہی سروائیو کر پاتے ہیں۔
* باقی 24% اگلے پانچ سال کے اندر ناکام ہو جاتے ہیں۔

📌اگر آپ ایک ناکام بزنس مین ہیں تو کیا آپ نے کبھی ناکامی کی وجوہات کا تجزیہ کیا ہے؟
📌 کیا ان وجوہات کو دور کر کے آپ ایک کامیاب بزنس مین بن سکتے ہیں؟

سمال بزنس میں ناکامی کی صورت میں ہماری معیشت ہر سال عربوں روپے کے خسارے کا بوجھ اٹھاتی ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی معیشت جہاں اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے اس بار کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ 

 📌میں نے  بزنس میں ناکامی کی وجوہات ایک چیک لسٹ کی صورت میں مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ان 50 خامیوں کو دور کیے بنا آپ کبھی ایک کامیاب بزنس مین نہیں بن سکتے۔

بزنس کیا ہے؟

آکسفورڈ ڈکشنری کیمطابق

“A person146s regular occupation, profession, or trade”

افراد کے بکھرے ہوئے ہجوم اور کوششوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے ان کوششوں کو ایک مثبت ،کارآمد اور منافع بخش ڈائریکشن فراہم کرنا اصل میں بزنس کہلاتا ہے۔ بزنس ایک شخص کو کئی پہلوؤں سے معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد بناتا ہے۔زیرِ نظر آرٹیکل میں ہم نے ان چند پہلوؤ ں کی نشاندہی کی کوشش کی ہے جو ایک بزنس مین کی ناکامی کا سبب بنتی ہیں۔امید ہے ہماری یہ کوشش معاشرے کے ایک اہم طبقے کے لئے مفید ثابت ہوگی۔

1: مقاصد کا تعین نہ کرنا

واضح مقاصد کا تعین نہ کرنا ایک ناکام بزنس مین کی سب سے پہلی کوتاہی ہے۔اگر آپ کی منزل ہی طے نہیں تو محض چلتے رہنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ایک کامیاب بزنس مین کا ذہن واضح مقاصد کا تعین کرنا جانتا ہے۔آپ کو کیا کرنا ہے؟ اور کیوں کرنا ہے؟صرف پیسہ کمانے کے علاوہ آپ کے بزنس کے اور کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟یہ وہ چند سوال ہیں جن کا مثبت اور واضح جواب نہ صرف مقاصد کے تعین کے لئے اہم ہے بلکہ ان کے حصول کے لئے ایک بہتر لائحہ عمل ترتیب دینے میں بھی نہایت سود مند ہے۔

2: وسیع سوچ کا فقدان

ایک ناکام بزنس مین محدود سوچ کا حامل ایسا فرد ہوتا ہے جس کی سوچ ایک مخصوص دائرہ کار میں ہی گردش کرتی ہے۔وہ اپنے بزنس کو وسعت دینے کے لئے نئے ذرائع کی کھوج اور ان کے حصول میں ناکام رہتا ہے۔جبکہ ایک وسیع سوچ نئے سے نئے مواقع تلاش کرتی ہے۔ایک کامیاب بزنس مین کی یہی وسیع سوچ کاروباری وسعت کو جنم دیتی ہے۔

3: خود انحصاری Independent Nature

خود پر انحصار کرنا ایک کامیاب بزنس کی طرف اہم قدم ہے۔ایک ناکام بزنسمین میں خود اپنی کوششوں اور اپنے وسائل پر انحصار کرنے کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔یہ کمی اسے بے اطمینانی کا شکار بنائے رکھتی ہے اور وہ تمام اہم مسائل کے حل کے لئے دوسروں سے رجوع کرتا ہے۔یہ خامی بہت جلد ناکامی سے دوچار کر دیتی ہے۔

4: پرکھنے کی صلاحیت

ایک ناکام بزنس مین کی حالات و معاملات کو پرکھنے اوروقت کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت مفقود ہوتی ہے۔Judgement کی یہ صلاحیت عقل و شعور پر منحصر ہوتی ہے جسمیں کمی کی بنا پر وہ بار بار نقصان سے دوچار ہوتا ہے۔

5: ضرورت سے زیادہ پرامیدی

حالات و واقعات سے ہمیشہ بہتری کی امید رکھناایک عام آدمی کے لئے تو فائدہ مند ہو سکتا ہے مگر ایک بزنس مین کے لئے نہیں۔یاد رکھیں سب کچھ ویسا نہیں ہوتا جیسا آپ چاہتے ہیں۔خاص طور پر بزنس میں جہاں ہر قدم پر بدلتے حا لات ایک بزنس مین کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ایک کامیاب بزنس مین اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین کی پالیسیوں کی بنیادحقائق کے ادراک کی بجائے پرامیدی و خوش فہمی پر رکھی ہوتی ہے۔یہی ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی اور خوش امیدی خسارے کا سبب بنتی ہے۔

6:  پروفیشنل ازم کی کمی

ایک بیوقوف اور بے ہنر بزنس مین کے اندر پروفیشنل ازم کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔یہ پروفیشنل ازم مہارت اور تجربے سے پیدا ہوتی ہے۔چونکہ ایک ناکام بزنس مین میں ان دونوں چیزوں کی کمی ہوتی ہے اور اسی کمی کا اظہار وہ بزنس لائف میں کئی اہم موقع پر کر کے کامیابی کے اکثرمواقع ضائع کر لیتا ہے۔

7: لیڈ ٹائم مینجمنٹ Lead-time management

وہ Gap جوکنزیومر کے آرڈر سے لیکر مطلوبہ پروڈکٹ یا سروس کی ڈلیوری پر محیط ہوتا ہے کسی بزنس یا کمپنی کا لیڈ ٹائم کہلاتا ہے۔

Lead Time Reduction کسی بزنس یا کمپنی کی کامیابی کا نہایت اہم نقطہ ہے۔ایک ناکام بزنس مین اس نقطہ پر کبھی فوکس نہیں کرتا۔جو ایک بزنس مین کی غیرذمہ داری کی علامت ہے۔

8: عوامی رجحان سے ناواقفیت

ایک کامیاب بزنس مین ہمیشہ جدید اور بدلتے ہوئے عوامی رجحانات سے باخبر رہتا ہے اور ان کو مدِنظر رکھ کر اقدامات کرتا ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین بدلتے ماحول اور جدید رجحانات سے ناواقفیت کی بنا پر محض اپنی سوچ کے مطابق فیصلے کرتا ہے

9: مستقل مزاجی کا فقدان

مستقل مزاجی کسی بھی معاملے میں کامیابی کی اہم سیڑھی ہے ۔ ایک ناکام بزنس مین کے اندرمستقل مزاجی کا سخت فقدان پایا جاتا ہے۔ محض وقتی اور چھوٹی چھوٹی ناکامیوں سے مایوس ہو کر وہ اپنی حکمتِ عملی اور فیصلے بدلتا رہتا ہے اور کبھی ایک مستقل سوچ پر قائم نہیں رہتا۔

10: اجنبیوں کو ویلکم کریں

اجنبیوں کو خوش آمدید کہنا اور ان سے اچھے تعلقات قائم کرنا ایک بزنس مین کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔اس سے بزنس کے نئے زاویوں اور رجحانات کا پتہ چلتا ہے۔مگر ایک ناکام بزنس مین اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔بلکہ وہ ایک قسم کے Fear of unknownمیں مبتلا ہوتا ہے۔

11: مارکیٹ سے ناواقفیت

پروڈکٹ ایویلیوایشن،کسٹمر وائس،ریسورسز اینڈ فائینینسنگ وغیرہ مارکیٹ کے اہم پہلو ہیں۔ایک ناکام بزنس مین کبھی مارکیٹ سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوتا۔یہ ادھوری واقفیت اس کی ناکامی کا بڑا سبب ہوتی ہے۔

12: غیر منصفانہ لین دین Unfair Dealings

Unfair Dealingیا دیانتداری کی عدم موجودگی بزنس مین کی ناکامی کا نہایت افسوسناک پہلو ہے۔بزنس کی یہ تیکنیک وقتی طور پر تو فائدہ مند ہو سکتی ہے مگر ایک دیر پا کامیابی کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ایک ناکام بزنس مین اپنی بددیانتی کی بدولت مارکیٹ میں ایک معیاری ساکھ نہیں بنا پاتا اور با لآخر ناکامی سے دو چار ہو جاتا ہے۔

13: لوکیشن Location

کسی بزنس کی کامیابی بہت حد تک ایک اچھی لوکیشن کے انتخاب پر بھی انحصار کرتی ہے۔ ایک کامیاب بزنس مین ایک بہترین لوکیشن کا انتخاب کر نا اور اس کے مطابق ایک بہتر فریم ورک تشکیل دینا جانتا ہے۔ جبکہ ایک مناسب لوکیشن کا اندازہ نہ کر پاناایک ناکام بزنس مین کی اہم خاصیت ہوتی ہے۔اسی خاصیت کی بنا پر وہ بعض اوقات ترقی کے اہم مواقع گنوا بیٹھتا ہے۔

14: نا ا ہل انتظامیہ Lack of Management

ایک ناکام بزنس مین کے اندر مینجمینٹ کی صلاحیت ناپید ہوتی ہے۔وہ ایک مناسب بزنس سٹریٹیجی مرتب کرنے اور اس پر عمل درآمد میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔اپنے ماتحت لوگوں کی کارکردگی کے حوالے سے وہ ایک پروپر شیڈول وضع کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ یہ Mismanagement بزنس مین کی نااہلی کا ثبوت اور اس کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہوتی ہے۔

15: کسٹمر کا اطمینان Customer Satisfaction

ایک بہتر کسٹمر سروس کی فراہمی ایک بہتر کیش فلو کا سبب بنتی ہے اور ایک اچھا کیش فلو ہی ایک کامیاب بزنس کی بنیاد بنتا ہے۔ایک ناکام بزنس مین کی محدود سوچ صرف ارننگ تک ہی محدود ہوتی ہے جبکہ پروڈکٹس یا سروسز کا بہتر معیار جو ایک اچھی ارننگ کی ضمانت ہے اس کے لئے قابلِ ترجیح نہیں ہوتا۔

16: ادھوری بزنس پلاننگ

کسی بزنس میں کامیابی ایک معقول اور Long-term planning کا تقا ضا کرتی ہے۔ایک بیوقوف بزنس مین چونکہ دور اندیشی کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے اس لئے وہ ایک دیر پا اور جامع حکمتِ عملی تشکیل دینے میں ناکام رہتا ہے۔یہی ناقص پلاننگ کسی نا کسی مرحلے پر ناکامی کی صورت میں سامنے آتی ہے۔

17: ترقی پسند سوچ کا فقدان

ترقی پسند سوچ کا فقدان ایک ناکام بزنس مین کی اہم نشانی ہے۔اپنی محدود سوچ یا ناکامی کے خوف کی بنا پر وہ کبھی اپنے بزنس کے ایک مخصوص حدود اربع کو کراس کرنے کی کوشش نہیں کرتا جبکہ 21ویں صدی کے تیزی سے بدلتے ہوئے رجحانات ایک جدید اور ترقی پسند سوچ کا تقاضا کرتے ہیں۔

18: مالی ریسورسز کی کمی

ایکStart-upکے لئے مالی سپورٹ جسم میں روح کی حثییت رکھتی ہے۔بزنس کی شروعات اس لحاظ سے نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔تاہم ایسے ہر مرحلے میں کچھ ریسورسز ایسے ضرور موجود رہتے ہیں جو fundingکے حوالے سے بہترین وسیلہ بن سکتے ہیں۔ایک کامیاب بزنس مین نشیب و فراز کے ان مراحل میں با آسانی ایسے ذرئع کھوجنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین میں یہ صلاحیت مفقود ہوتی ہے۔

19: محنت و لگن کا فقدان

محنت ولگن کی کمی ایک ناکام بزنس مین کی وہ خاصیت ہے جو اسے کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہونے دیتی۔بزنس ایک ذمہ داری کا نام ہے جس کو احسن طریقے سے نبھانا ایک کامیاب بزنس مین کی پہچان ہے۔مگر ایک ناکام بزنس مین اپنے ان فرائض سے غفلت کا مرتکب ہوتا ہے۔

20: ٹائم مینجمنٹ Time Management

ناقص Time Management کے سبب ایک ناکام بزنس مین ہمیشہ وقت کی قلت کا شکار رہتا ہے۔حالات و معاملات کو ڈیل کرتے وقت وہ اس بات کا تعین نہیں کر پاتا کہ کون سی چیز زیادہ وقت اور توجہ کی متقاضی ہے۔اس کا بہت سا وقت جو نہایت اہم اور ضروری معاملات پر خرچ ہونا چاہیے تھا غیر اہم معاملات کی نظر ہو جاتا ہے۔

21: غیر سنجیدہ رویہ

عقل و شعور کی کمی غیر سنجیدہ رویے کو جنم دیتی ہے۔بعض اوقات حد سے زیادہ خود اعتمادی بھی اس رویے کا سبب بنتی ہے۔بزنس جیسے اہم معاملے میں غیر سنجیدہ رویہ کامیابی کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ایک ناکام بزنس مین تمام معاملات میں ایسے ہی غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کرتا ہے۔

22: نئے مواقع کی تلاش

نئے مواقع کی تلاش کسی بزنس کی کامیابی کے لئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ایک ناکام بزنس مین نئے مواقع کی تلاش اور ان کی پہچان کی صلاحیت نہیں رکھتا۔بزنس مین کا یہ رویہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی بزنس ایکٹیویٹی کا دائرہ کارتنگ کرتا چلا جاتا ہے۔

23: تخلیقی سوچ کی کمی

ایک تخلیقی سوچ بزنس کی روایتی حد بندیوں سے نکل کر نئی تیکنیکس وضع کر سکتی ہے۔سٹیو جوبز نے کہا تھا’جدت ہی وہ خوبی ہے جو ایکLeader اور ایک Followerمیں فرق واضح کرتی ہے۔یاد رکھیے بزنس کی کامیابی آپ کی ڈگریوں یا تعلیم پر نہیں بلکہ آپ کی ذہانت و مہارت پر انحصار کرتی ہے۔بِل گیٹس کہتا ہے’میں کسی یونیورسٹی کا پوزیشن ہولڈر نہیں ہوں لیکن یونیورسٹیوں کے کئی پوزیشن ہولڈرز میرے ملازمین میں شامل ہیں‘۔

24: ریسرچ اور نالج کا فقدان Lack of Research and knowledge

ایک ناکام بزنس میں مارکیٹ ریسرچ اور نالج کو کبھی اہمیت نہیں دیتا۔وہ نئے رجحانات سے بے خبر رہتا ہے۔مارکیٹ میں متعارف کرائے جانیوالی جدید پروڈکٹس اور سروسز ایک بزنس مین کے لئے نئی راہیں کھولتی ہیں۔مگر ایک ناکام بزنس مین اپنی غیر تحقیقی سوچ کی بنا پر ان امکانات سے بے خبر رہتا ہے۔

25: سماجی تعلقات Social Contacts

معاشرتی و سماجی کونٹیکٹ کسی بزنس کی کامیابی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک ناکام بزنس مین Social Contactsکی اہمیت سے ناواقف ہوتا ہے۔اس کے معاشرتی و سماجی روابط محدود ہوتے ہیں۔اپنی اسی کمی کی وجہ سے وہ اپنے بزنس کو ایک وسیع پلیٹ فارم مہیا نہیں کر پاتا۔

26: ’انا پرستی‘ آپ کی کامیابی کی دشمن

انا پرستی ایک ناکام بزنس مین کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔یہ اس کے پبلک ریلشنز کو براہِ راست متاثر کرتی ہے۔ اور اس کے تعلقات کو محدود کر دیتی ہے جبکہ ایک کامیاب بزنس مین نہایت ملنسار اور سوشل ہوتا ہے۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ اس کے اچھے مراسم قائم ہوتے ہیں جوبزنس کے ایک وسیع نیٹ ورک کے قیام میں مددگار ہو سکتے ہیں۔

27: سٹینڈرڈائزیشن Standardization

پروڈکٹس یا سروسز کی تیاری و فراہمی میں جدید اور سٹینڈرڈ تیکنیکس کا استعمال Standardization کہلاتا ہے۔ پروڈکٹس کی یہ سٹینڈرڈائزیشن ہی کسی بزنس یا کمپنی کو مقابلے کی دوڑ میں شامل کرتی ہے۔ ایک ناکام بزنس مین ایسی کسی تیکنیک کے استعمال اورایپلیکیشن کی ضرورت محسوس نہیں کرتاجس کے نتیجے میں اس کے بزنس یا کمپنی کا معیار گرتا چلا جاتا ہے۔

28: ادھوری سیل سٹرٹیجی Imperfect Sales Strategy

سیل سٹریٹیجی کسی کمپنی کی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے اور تمام تر پروفٹ کا دار ومدار اسی پالیسی ہر ہوتا ہے۔ایک ناکام بزنس مین مارکیٹ،کسٹمرز اور لوکیشن کی مناسبت سے ایک بہتر سیلز پالیسی تشکیل دینے میں بیوقوفی اور نا تجربہ کاری کا مظاہرہ کرتا ہے۔

29: ان ٹارگٹڈ اپروچ ٹو کسٹمر Untargeted Approach to Customers

پوٹینشل کسٹمرز تک رسائی بزنس مین کی اہم کامیابی ہوتی ہے۔ایک ناکام بزنس مین اپنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے سیلز اور پروموشن کے اہم مواقع ضائع کر بیٹھتا ہے

30: کوالٹی آف سروس Quality of Service

پروڈکٹس اور سروسز کی بہتر کوالٹی بزنس میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ناکام بزنس مین معیاری کوالٹی جیسے اہم معاملے کو نظرانداز کیے رکھتا ہے۔اور یہ غفلت بالآخر اس کی ناکامی پر منتج ہوتی ہے۔

31: لیڈرشپ کا فقدان

کامیاب بزنس مین اصل میں ایک اچھا لیڈر ہوتا ہے جو اپنے بزنس اور اپنے ماتحت کام کرنے والے افراد کی درست رہنمائی کی صلاحیت رکھتا ہے۔وہ حالات و معاملات کی درست سمت کا تعین کر سکتا ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین کے اندر لیڈرشپ کی یہ صلاحیت سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی۔

32: سپلائی چین Supply Chain

سپلائر سے کسٹمر تک کسی پروڈکٹ یا سروس کی منتقیلی ایک آرگنائزڈ سسٹم کا تقاضا کرتی ہے جسکی عدم موجودگی سے تجارتی نظام بدنظمی کا شکار ہو جاتا ہے اور یہی بدنظمی با لآخر خسارے کا سبب بنتی ہے۔ایک ناکام بزنس مین اس پہلو کی طرف سے بھی لاپروائی کا مظاہرہ کرتا ہے۔یا پھر اس میں اس کی صلاحیت یہ موجود نہیں ہوتی۔

33: سورس آف انفارمیشن کی عدم موجودگی

مارکیٹ کے مسائل،کسٹمر ٹرینڈزاوردوسری کمپنیوں کے رجحانات اور طریقہ کار کے بارے میں معلومات ایک بزنس مین کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔یہ معلومات کئی طرح کے مسائل کی شناخت اور نئے مواقع کی تلاش میں مددگار ہوتی ہیں۔ایک ناکام بزنس مین کو معلومات کے ذرائع کی اہمیت کا اندازاہ نہیں ہوتا اور نہ وہ اس کے مناسب انتظام کی کوشش کرتا ہے۔

34: لائسنسز Licensing

پروڈکٹ،سروس یا اپنے بزنس آئیڈیاز کی Licensing ایک انتہائی اہم امر ہے جو کئی طرح کے مسائل سے بچاتا ہے۔ایک ناکام بزنس3 مین اپنی کم علمی یا محض سستی کی وجہ سے اس امر میں غفلت برتتا ہے۔جبکہ ایک کامیاب بزنسمین ایسے تمام اصول و قوانین پر عمل پیرا ہوتا ہے۔

35: سیلف ایجوکیشن

سیلف ایجوکیشن ایک بزنس مین کے لئے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔بزنس میگیزینز اور آن لائن بزنس ٹریننگ پروگرامز بزنس کے نئے رجحانات اور تیکنیکس سے آگاہ کرتے ہیں۔مگر ایک ناکام بزنس مین اپنی سیلف ایجوکیشن کا کوئی پلان تشکیل نہیں دیتا۔یہ لاعلمی اسے بزنس کی دنیا میں پیچھے دھکیلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

36: اپنے مشن سے وابستگی

کمپنی یا بزنس کے لئے ایک پراثر حکمتِ عملی ترتیب دینے کے لئے بزنس مین کے ذہن میں ایک واضح مشن ہونا ضروری ہے۔یہ مشن ایک گائیڈلائن کا کام کرتا ہے۔ایک ناکام بزنس مین کو اول تو مشن کا ادراک ہی نہیں ہوتا اور ہو بھی تو وہ اپنے مشن سے وابستگی کو اہمیت نہیں دیتا۔

37: کاروباری حریفوں کا تجزیہ Competitors Analysis

بزنس کے میدان میں اپنے مدِمقابِل بزنس مینوں کی پروڈکٹس اور سروسز کے معیار اور ان کی بزنس کی تیکنیکس کے بارے میں معلومات نہایت اہمیت رکھتی ہے۔مقابلے کی اس دوڑ میں ایک بزنس مین کی خامی دوسرے کی خوبی بن جاتی ہے۔ایک ناکم بزنس مین اس امر میں بھی کوتاہی برتتا ہے اور دوسرں کی نسبت خسارے میں رہتا ہے۔

38: ترجیحات کا تعین

یاد رکھیے کچھ چیزیں ارجنٹ ہوتی ہیں جبکہ کچھ اِمپورٹینٹ ہوتی ہیں۔ایک کامیاب بزنس مین ان دونوں میں فرق کرنا بخوبی جانتا ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کرپاتاکہ کونسا معاملہ فوری توجہ کا متقاضی ہے ۔اس ناسمجھی کی وجہ سے بہت سے ضروری اور فوری حل طلب مسائل غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

39: ناقص یادداشت

بزنس میں کامیابی ایک بہترین یادداشت کا تقاضا کرتی ہے۔ایک کامیاب بزنس مین اچھے حافظے کا مالک ہوتا ہے اور نہایت باریک نقاط کو بھی ذہن نشیں رکھتا ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین اچھی یاد داشت کا مالک نہیں ہوتا۔اسی خامی کی وجہ سے بہت سی چھوٹی چھوٹی اہم چیزیں اگنور ہو جاتی ہیں۔

40: حساب کتاب میں لاپرواہی Deficient Accounting

حساب کتاب جیسے اہم معاملے میں بھی ایک ناکام بزنس مین لاپروائی اور بے دھیانی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ایسی کمپنی کا اکاؤنٹینگ سیکشن غفلت کا شکار ہوتا ہے۔ اس غفلت کا براہِ راست اثر کمپنی کے بجٹ پر پڑتا ہے۔

41: موقع شناسی

ایک کامیاب بزنس مین کی سب سے اہم خوبی موقع شناسی ہوتی ہے وہ مشکلات کے ہجوم میں بھی ایک سنہری موقعے کی پہچان کی صلاحت رکھتا ہے جبکہ ایک ناکام بزنس مین اپنی اس ناشناسی کی وجہ سے کئی اہم مواقع گنوا بیٹھتا ہے۔

42: تفریح کے لئے وقت نہ نکالنا

اکثر ناکام بزنس مینوں کے پاس تفریح کے لئے بھی وقت نہیں ہوتا۔مسلسل کام ذہنی تھکاوٹ کا باعث بنتا ہے اور کارکردگی کو متاثر کرتا ہے ۔کامیاب بزنس مین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین مسلسل کام کر کے ذہنی تھکاوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔

43: بچت کی بہتر تیکنیکس سے ناواقفیت

ایک بزنس مین کے لئے خریداری نہیں بلکہ خریداری کا طریقہ کار زیادہ اہم ہوتا ہے۔ایک کامیاب بزنس مین ہمیشہ نقد اخراجات سے گریز کرتا ہے۔وہ بارٹر سسٹم کو اپناتا ہے اور اشیاء کے بدلے اشیاء کے لین دین کو اہمیت دیتا ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین بچت کے طور طریقے اپنانے کی کوشش نہیں کرتا اور غیر ضروری اخراجات کی روک تھام کے لئے اقدامات نہیں کرتا ۔یہ روش اسے بہت جلد مالی بحران کا شکار بنا دیتی ہے۔

44: پبلک مینیجمنٹ سکِلز

بزنس اصل میں کئی افراد کی کوششوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے اور ان کی مشترکہ کوششوں سے ایک مفید نتیجہ برآمد کرنے کا نام ہے۔ایک کامیاب بزنس مین کے اندر لوگوں کی ایک بھیڑ کو ایک آرگنائزڈ گروپ میں تبدیل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین پبلک مینجمینٹ کے اس ہنر سے نا آشنا ہوتا ہے۔

45: سٹاف کا انتخاب Policy Staff Hiring

کمپنی کے کلچر،انوائرنمنٹ اور ڈیمانڈ کے مطابق معقول اور قابل افراد کا انتخاب ایک اہم امر ہے۔ایک ناکام بزنس مین کسی فرد کو ہائر کرتے وقت اس کی خوبیوں، خامیوں اور اس کے اندر موجود پوٹینشل کا صیح اندازہ نہیں کر پاتا۔یہ ناموزوں ہائرنگ بزنس پر اثر انداز ہوتی ہے۔

46: سٹاف ٹرینگ Staff Training

کسی کمپنی یا آرگنائزیشن کی انویسٹمنٹ کا ایک بڑا حصہ سٹاف پر خرچ ہوتا ہے ۔لہٰذا سٹاف کی ہائرنگ اور ٹریننگ کے مناسب انتظامات بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔کامیاب بزنس مین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے کہاایک قابل مگر ناتجربہ کار شخص کو ایک بہتر ماحول اور ٹریننگ فراہم کر کے ایک بہتر آؤٹ پٹ لیا جا سکتا ہے۔ایک ناکام بزنس مین ان اہم عوامل کا ادراک نہیں رکھتا۔

47: آفس کے بے حساب اخراجات

آفس کے اخراجات نہایت توجہ طلب اور ضروری عوامل میں شامل ہیں ۔ایک ناکام بزنس مین کو نہ تو ان اخراجات کا صیح اندازہ ہوتا ہے اور نہ وہ ان کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اسطرح بہت سے چھوٹے چھوٹے مگر غیر ضروری اخراجات بجٹ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

48: ضرورت سے زیادہ  خود اعتمادی Over Confidence

ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کسی بھی امر میں ناکامی کا سبب بن سکتی ہے۔ایک ناکام بزنس مین Over Confidenceکا شکار ہوتا ہے۔وہ حالات کو مدِنظر رکھنے کی بجائے اپنی سوچ کو مدِ نظر رکھ کر فیصلے کرتا ہے جو نقصان کا باعث بنتے ہیں۔

49: بزنس نیٹ ورک کا قیام

ایک مناسب بجٹ کے اندررہتے ہوئے اپنے بزنس کو مارکیٹ کرنا ایک کامیاب بزنس مین کا سب سے بڑا ہنر ہے جس کوبروئے کار لا کروہ ایک بہتر اور منافع بخش بزنس نیٹ ورک کی تشکیل کرتا ہے۔ایک ناکام بزنس مین کارآمد اور مفید نیٹ ورک کے قیام میں ناکام رہتا ہے اور اس کا بہت سا بزنس پوٹینشل غیر نتیجہ خیز سرگرمیوں میں ضائع ہو جاتا ہے۔

50: جدید ذرائع سے ناواقفیت

ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے اس دور میں بزنس کو وسعت دینے اور زیادہ منافع بخش ذرائع کی تلاش کے لئے جدید طریقہ کار کو اپنانا ایک کامیاب بزنس مین کی نشانی ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین بزنس کے روایتی طور طریقوں کا پابند بنا رہتا ہے اور اپنے نیٹ ورک کے پھیلاؤ کے لئے آسان اور تیز ترین ذرائع کو استعمال میں نہیں لاتا۔

گروپس کی دیگر حضرات کئ  پوسٹ کا بغور مشاہدہ کرتے ہوے شاید پہلے خوداعتادی کی کمی, اپنے اندر رچی بسی ناکامیوں کی وجوہات اور بزنس سکلز پہ نظر ثانی اور اسکے پریکٹیکل انلیلسز کی ضرورت ہے. وگرنہ ایڈیا شاید اپنے مقاصد پورے نہ کر سکیں.  
جزاکم اللہ خیرا کثیرا 
  تحریر: مرسل حمید

April 04, 2017

South Korean President Sent to Jailed on Corruption






SEOUL, South Korea (AP) — Thousands of supporters of arrested former President Park Geun-hye were expected to gather in South Korea’s capital on Saturday to call for her release.
Seoul police planned to deploy more than 10,000 officers to monitor the rally near City Hall amid concerns of clashes. Opponents and supporters of Park have divided the streets of Seoul in recent months with passionate rallies.
Park was jailed Friday over allegations that she colluded with a confidante to extort money from businesses, take bribes and allow the friend to unlawfully interfere with state affairs.
Dozens of her supporters rallied outside the detention center Friday, some of them crying and bowing toward the facility while vowing to “protect” her.
Three people died amid violent clashes between Park’s supporters and police on March 10 after the Constitutional Court decided to remove her from office.
Park’s presidential powers were suspended after lawmakers impeached her in December, following weeks of massive demonstrations by millions of people calling for her ouster.



Total Pageviews