June 14, 2023

Court Marshal Victim Hassan Askari Wrote Letters to General Qamar Bajwa


 

حسن عسکری: جنرل قمر باجوہ کو خط لکھنے والے کمپیوٹر انجینیئر ’جیل سے رہائی کے بعد گھر پہنچ گئے‘

پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت کور کمانڈرز کو خطوط لکھنے کے معاملے پر ایک فوجی عدالت سے پانچ سال قید بامشقت کی سزا پانے والے حسن عسکری، جو ریٹائرڈ میجر جنرل سید ظفر مہدی کے بیٹے ہیں، رہائی کے بعد گھر پہنچ گئے ہیں۔

بی بی سی کے رابطے کرنے پر حسن عسکری کے اہلخانہ نے اُن کی رہائی کے بعد گھر پہنچنے کی تصدیق کی ہے تاہم اس ضمن میں مزید کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔

یاد رہے کہ فوج کے اعلیٰ حکام کو خطوط لکھنے کے معاملے پر حسن عسکری کو 2 اکتوبر 2020 کو زیر حراست لیا گیا تھا اور ان پر ’بغاوت اور فوجی افسران کو اپنی کمانڈ کے خلاف اُکسانے‘ جیسے الزامات تھے۔ بعدازاں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کے نتیجے میں انھیں پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی اور ساہیوال جیل منتقل کر دیا گیا۔

اگرچہ حکام اور اہلخانہ کی جانب سے رہائی سے متعلق مزید معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں مگر گذشتہ ماہ حسن عسکری کے والد میجر ریٹائرڈ ظفر مہدی نے اپنے بیٹے کو ملڑی کے حوالے کرنے سے متعلق مجسٹریٹ کے فیصلے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کی درخواست پر اپیل واپس لے لی تھی۔

درخواست گزار کی وکیل ایمان مزاری نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان کے موکل اپنا کیس واپس لینا چاہتے ہیں جس کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل بینچ نے اس کیس کو نمٹا دیا تھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کی وکیل ایمان مزاری نے کہا ہے کہ سزا کے خلاف ملڑی کورٹ آف اپیلز میں کی گئی اپیل کے نتیجے میں حسن عسکری کی سزا کم کر دی گئی تھی۔

حسن عسکری کون ہیں اور ان کی گرفتاری کیسے عمل میں آئی تھی اس پر بی بی سی نے 20 مئی 2023 کو رپورٹ شائع کی تھی جو ذیل میں دوبارہ پڑھی جا سکتی ہے۔

ظاہر یہ کسی عام عدالت جیسا منظر تھا۔ 15 سے 20 فٹ کے کمرے میں ایک جانب جج اور ان کے سامنے ملزم اور مدعی اپنے اپنے وکلا کے ہمراہ موجود تھے۔ لیکن نا تو یہ مقدمہ عام تھا اور نا ہی عدالت۔

ایک میز کے پیچھے بیٹھے تین فوجی افسران میں سے ایک کا رینک لیفٹینینٹ کرنل جبکہ دو میجر رینک تھے۔ یہ تینوں اس عدالت کے جج تھے۔

ان کے سامنے ہی ایک میز کے پیچھے اسد جمال اپنے موکل کا دفاع کرنے کے لیے موجود تھے۔ اسد جمال کے قریب ہی مقدمے کے مدعی فوجی افسر اپنے وکیل کے ہمراہ براجمان تھے۔

اسد جمال نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ ہی دیر میں ان کے موکل کے خلاف گواہان پیش ہونا شروع ہوئے اور انھوں نے نوٹس لینا شروع کیے تاکہ جرح میں کام آ سکیں تو ان کو روک دیا گیا۔

یہ سماعت ایک عام شہری کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی تھی۔

اس مخصوص مقدمے کے اختتام پر اسد جمال کے موکل حسن عسکری کو پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنا کر ساہیوال کی ہائی سکیورٹی جیل بھیج دیا گیا۔

حال ہی میں نو مئی کے واقعات کے بعد عام شہریوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی بازگشت ہوئی تو حسن عسکری کا نام ایک ایسی مثال کے طور پر سامنے آیا جو فوجی عدالت سے سزا پا چکے ہیں۔

حسن عسکری پر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام لکھے جانے والے ایک خط، جس کی کاپی ججوں کے علاوہ مبینہ طور پر دیگر فوجی جرنیلوں کو بھی بھجوائی، کی وجہ سے پاکستانی فوج میں ’بغاوت اور فوجی افسران کو اپنی کمانڈ کے خلاف اُکسانے‘ کا الزام لگا۔

یہ وہ وقت تھا جب اس وقت کی حکمران جماعت تحریک انصاف سمیت تمام اہم سیاسی جماعتیں جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت کے معاملے پر ایک صفحے پر تھیں اورعمران خان اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات نے جنم نہیں لیا تھا۔

حسن عسکری کی قید کے دوران ہی ملک کے سیاسی حالات نے پلٹا کھایا۔ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور انھوں نے آرمی چیف جنرل باجوہ کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

جنرل باجوہ اپنی دوسری مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہو گئے اور عمران خان نے اقتدار سے دور ہونے کے بعد اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنا لیا۔

لیکن وہ کیا حالات تھے جن میں ایک سابق فوجی افسر کا بیٹا، جو آسٹریلیا میں پرسکون زندگی بسر کر رہا تھا، ایک ایسی ہائی سکیورٹی جیل میں پہنچ گیا جہاں صرف خطرناک مجرموں کو رکھا جاتا ہے؟

یہ وہ سوال تھا جس کے جواب کی تلاش میں بی بی سی نے حسن عسکری کے والدین سے بات چیت کی۔

حسن عسکری کون ہیں؟

پاکستان کی بری فوج سے میجر جنرل کے عہدے پر ریٹائر ہونے والے سید ظفر مہدی عسکری کی پہلی اولاد حسن عسکری نے پاکستان میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکہ کی سٹیٹ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے کمپیوٹر انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی۔

تاہم ان کے اہلخانہ کے مطابق حسن کمپیوٹرز سے زیادہ معاشیات، آئین اور انسانی حقوق میں دلچسپی رکھتے تھے۔

انھوں نے بیرونِ ملک سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان میں سی ایس ایس کا امتحان بھی دیا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے اور سنہ دو ہزار کے قریب اپنی بہن زہرا کے ہمراہ آسٹریلیا منتقل ہو گئے۔ تاہم کچھ ہی عرصے کے بعد وہ پاکستان لوٹ آئے۔

زہرا بتاتی ہیں کہ پاکستان واپسی پر حسن عسکری نے اپنی این جی او بھی کھولنے کی کوشش کی۔ ’وہ پاکستان میں اصلاحات کا خواہش مند تھا۔ اسے اپنے ملک سے بہت محبت تھی۔ وہ کہتا تھا کہ میں پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔‘

کچھ عرصہ پاکستان میں گزارنے کے بعد وہ ایک بار پھر آسٹریلیا چلے گئے۔ زہرا کہتی ہیں کہ ’حسن کو آسٹریلیا میں بھی پاکستان کا خیال رہتا تھا۔ وہ ہر وقت کہتا تھا کہ پاکستان کے لیے میں کیا کر سکتا ہوں۔‘

سنہ 2015 کے لگ بھگ حسن کی والدہ گردوں کے عارضے میں مبتلا ہوئیں تو وہ ان کا خیال رکھنے کے لیے ایک بار پھر پاکستان لوٹ آئے۔

پاکستان واپسی کے بعد انھوں نے اسلام آباد میں ایک نجی کمپنی میں نوکری شروع کی لیکن ان کی ملکی سیاست پر گہری نظر رہی۔

فوج کو خطوط لکھنے کا آغاز

حسن کے خاندان کے مطابق فوج کو براہ راست خطوط لکھنے کا سلسلہ انھوں نے 2018 میں شروع کیا تاہم یہ خطوط کس موضوع پر ہوتے تھے، اس سے حسن کا خاندان لاعلم تھا۔

حسن کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’اس نے ہمیں کبھی نہیں بتایا۔ یہ سب تو اس نے ہمیں اب بتایا ہے۔‘

زہرا کہتی ہیں کہ ’وہ براہ راست خط لکھتا تھا۔ اس کا سوشل میڈیا پر کوئی اکاوئنٹ نہیں تھا، اور نہ ہی کبھی اس نے اپنے خطوط کو کہیں چھپوایا۔‘

حسن کے خاندان کا دعوی ہے کہ ایسے ہی ایک خط کے جواب میں انھیں جی ایچ کیو بلایا بھی گیا۔

فوج کے ایڈجوٹینٹ جنرل کی طرف سے حسن عسکری کی فوج میں تحویل کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک جواب جمع کروایا گیا جس میں کہا گیا کہ حسن عسکری نے ’سنہ2017 سے بڑی تعداد میں خطوط اور کتابچے پاکستانی افسران کو لکھے تھے جس کا مقصد فوجی افسران کو اپنی قیادت کے خلاف بغاوت پر اُکسانا تھا۔‘

اس جواب میں کہا گیا کہ اس حوالے سے حسن عسکری کو ’بارہا متنبہ کیا گیا کہ وہ ایسی سرگرمیوں سے باز رہیں' لیکن اُنھوں نے 'فوجی افسران کو خطوط لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔‘

دروازہ ایسے بجنا شروع ہوا جیسے کوئی توڑ رہا ہو‘

دو اکتوبر، 2020 کی صبح چھ بجے کا وقت تھا جب ریٹائرڈ میجر جنرل سید ظفر مہدی عسکری ایک شور کی آواز سے اٹھ بیٹھے۔

ایک دن قبل ہی حسن کی سالگرہ تھی۔ وہ 51 برس کے ہو چکے تھے۔

حسن کے والد نے بتایا کہ ’صبح کے چھ بجے کا وقت تھا۔ ہم سو رہے تھے۔ دروازہ ایسے بجنا شروع ہوا جیسے کوئی توڑ رہا ہو۔ ہمیں تو کوئی سمجھ نہیں آئی، ہم آنکھیں ملتے ہوئے باہر نکلے تو اتنی دیر میں وہ حسن کو باہر لے جا چکے تھے۔‘

میجر جنرل (ر) ظفر مہدی کے گھریلو ملازم عالم نے ہی دروازہ کھولا تو زہرا کے مطابق باہر15-20 گاڑیاں تھیں جن میں ’پولیس والے بھی تھے اور سول کپڑوں میں ملبوس اہلکار بھی۔ انھوں نے عالم سے بھی بدتمیزی کی، اسے دھکے دیے۔‘

زہرا کہتی ہیں کہ اہلکار پہلی منزل پر حسن کے کمرے میں گئے جہاں ’اس کے لکھے ہوئے خطوط موجود تھے۔ اس کا کمپیوٹر، پرنٹر فون۔۔۔جو کچھ ان کو ملا وہ لے گئے۔‘

تاہم دو اکتوبر کی اس صبح حسن کے گھر والوں کو علم نہیں تھا کہ انھیں کیوں لے جایا جا رہا ہے۔

حسن کے والد کہتے ہیں کہ ’میں تو ابھی سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہوا کیا ہے تو وہ لوگ جا بھی چکے تھے۔‘

اسی دن شام کو ان کے گھر کے دروازے پر ایک ایف آئی آر اور مجسٹریٹ کے حکم نامے کی کاپی پہنچی۔

اسلام آباد کے تھانہ شالیمار میں یہ ایف آئی آر ایک ہی دن قبل، یعنی یکم اکتوبر کو شام چار بجے درج ہوئی تھی۔ اس میں حسن عسکری کا مکمل پتہ دیتے ہوئے درخواست گزار نے شکایت کی تھی کہ انھوں نے مختلف ’فوجی افسران کو خطوط لکھ کر ڈیوٹی سے گمراہ کرنے اور آرمی چین آف کمانڈ کے خلاف مجموعی مزاحمت اور حکم عدولی پر اکسانے کے لیے نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی۔‘

ایف آئی آر کے مطابق درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ ’حسن عسکری کا یہ عمل فوج میں بغاوت کو جنم دینے کی کوشش تھی جس میں ریاست مخالف عناصر کی پشت پناہی نظر آتی ہے۔‘

اس درخواست پر اگلی ہی صبح حسن عسکری کو ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ اسی دن، یعنی دو اکتوبر کو ہی اسلام آباد کے جوڈیشل مجسٹریٹ میاں محمد اظہر ندیم نے پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے حسن عسکری کو فوجی حکام کے حوالے کرنے کے احکامات پر دستخط کر دیے۔

حسن عسکری کو کس قانون کے تحت فوج کے حوالے کیا گیا؟

حسن عسکری کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 131 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ تعزیرات پاکستان کی اس دفعہ کے تحت اگر کسی شخص پر آرمڈ فورسز کے کسی اہلکار کو بغاوت پر اُکسانے کا جرم ثابت ہو جائے تو اسے سزائے موت دی جا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ اس قانون کے تحت مجرم کو عمر قید یا دس سال قید اور جرمانے کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے۔

آرمی ایکٹ کے سیکشن 31 ڈی کے تحت صرف کوئی فوجی اہلکار یا افسر ایسے مقدمے میں ملوث پایا جائے تو اس کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے جبکہ سویلین یعنی عام شہری پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔

اس کے برعکس آرمی ایکٹ کی شق 2 ون ڈی کے تحت کسی بھی سویلین کا معاملہ 31 ڈی میں لا کر اس کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے پہلے اس سویلین کے خلاف کسی تھانے میں مقدمہ کے اندارج اور مجسٹریٹ کی اجازت ضروری ہے۔

’ہمیں ایک میس بلوایا گیا‘

حسن عسکری کے والد سید ظفر مہدی عسکری 1991 میں فوج سے میجر جنرل کے رینک پر ریٹائر ہوئے۔

جب ان کو علم ہوا کہ ان کا بیٹا فوج کی حراست میں ہے تو انھوں نے جی ایچ کیو میں افسران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اتنا فائدہ ضرور تھا کہ میں لوگوں سے مل سکتا تھا اور لوگ مجھ سے اچھے طریقے سے ملتے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جن افسران سے بھی وہ ملتے، ’وہ اس کیس سے دور رہنے کی کوشش کرتے تھے، وہ تو یہ بھی نہیں بتاتے تھے کہ ہمیں پتہ ہے۔ ہماری کوشش تھی کہ معاملہ حل ہو، ہم کسی سے لڑائی نہ کریں۔‘

ان کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو ماہ بعد حسن سے خاندان کی پہلی ملاقات ہو گئی۔ حسن کی بہن زہرا بھی تب تک پاکستان آ چکی تھیں۔

زہرا نے بتایا کہ ’ہمیں کہا گیا کہ آپ راولپنڈی کے ایک میس آ جائیں۔ تب ہمیں پتہ چلا کہ وہ زندہ ہے اور واقعی فوج کے پاس ہے۔‘

ان کے مطابق حسن دو ماہ کے دوران کمزور ہو چکا تھا۔ ’اس نے بتایا کہ اس کو پتہ نہیں کہ اس کو اس دوران کہاں رکھا گیا لیکن وہ جہاں بھی تھا، اسے تنہا قید رکھا گیا۔‘

’ہمیں اندازہ ہوا اس معاملے کو ایسے نہیں چھوڑیں گے‘

زہرا کے مطابق حسن نے اس ملاقات میں ان کو بتایا کہ ان کا لائی ڈیٹیکٹر سے تین بار ٹیسٹ لیا گیا۔

میجر جنرل ظفر مہدی بولے کہ ’تفتیش اسی نکتے پر تھی کہ یہ اکیلا تو کچھ نہیں کر سکتا، تو یہ کس کے ساتھ ہے۔‘

اس وقت تک حسن کے گھر والوں کو اور خود حسن کو بھی شاید یہ امید تھی کہ ان کو جلد ہی رہا کر دیا جائے گا جب تفتیش کاروں کو اس بات کا یقین ہو جائے گا کہ حسن کا کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں اور یہ خطوط انھوں نے صرف اپنے خیالات کے مطابق ایک انفرادی عمل کے طور پر لکھے تھے۔

لیکن یہ امید اس وقت ٹوٹی جب ان کو علم ہوا کہ حسن کا کیس اب فوج کی جیگ برانچ یعنی قانونی شعبے کو بھجوا دیا گیا ہے۔

زہرا کہتی ہیں کہ ’تب ہمیں اندازہ ہو گیا کہ یہ اس معاملے کو ایسے نہیں چھوڑیں گے۔‘

حسن کے خلاف کیا چارج شیٹ ہے، ہمیں کچھ بھی نہیں ملا‘

اسد جمال نے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی میں حسن عسکری کا دفاع کیا تھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل فوج کی اعلی ترین عدالت ہے جس کے پاس سخت سے سخت سزا دینے کا اختیار ہوتا ہے۔ وہ سزائے موت بھی ہو سکتی ہے اور عمر قید بھی۔‘

اسد جمال نے بتایا کہ حسن عکسری کے کورٹ مارشل کی دو درجن کے قریب سماعتیں ہوئیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس کارروائی کے دوران فوج کی قانونی برانچ، جیگ کا ایک افسر، عدالت کی رہنمائی کے لیے موجود ہوتا ہے جبکہ ملزم کے لیے فوج کی جانب سے ایک نمائندہ دیا جاتا ہے جو ملزم کو اس کے حقوق بتاتا ہے، اس کو کیا سہولیات مل سکتی ہیں اور ان کے مطالبات حکام تک پہنچانے کا کام کرتا ہے۔

اسد جمال کا کہنا ہے کہ ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں فوجی عدالت کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی قانون کو ایک طرف رکھ کر، یا معطل کر کے کارروائی تیز تر کر سکتے ہیں۔‘

اسد جمال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کورٹ مارشل کی کارروائی کے لیے جب وہ پہنچتے تو ان کو کمرہ عدالت کے قریب ایک کمرے میں پہنچایا جاتا جہاں حسن عسکری کو لایا جاتا۔

’اس کے چہرے پر کپڑا باندھا ہوتا اور اس کو ہتھکڑی لگی ہوتی۔ ایک عام انسان کے لیے یہ کافی تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے۔ مجھے نظر آتا تھا کہ حسن کتنی تکلیف میں ہے۔‘

اسد جمال کہتے ہیں کہ حسن کی سزا کے بارے میں وہ لاعلم تھے۔

’مجھے بتایا ہی نہیں۔ کسی کو بھی نہیں بتایا۔ صرف حسن کو بتایا کہ یہ سزا ہوئی ہے۔‘

اسد جمال کا کہنا تھا کہ ’عام حالات اور سول عدالتوں کی طرح فوجی عدالت میں کسی سولین کوعدالت سجا کر فیصلہ نہیں سنایا جاتا کیونکہ سولین شور مچا سکتے ہیں، کچھ کہہ سکتے ہیں۔‘

حسن کے والد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حسن کو ایک سادہ کاغذ پر یہ لکھا ہوا دکھایا گیا کہ پانچ سال قید بامشقت۔ ایک سادہ کاغذ تھا جس پر کسی کے دستخط بھی نہیں تھے۔‘

خط میں کیا لکھا گیا تھا؟

حسن عسکری کو جس خط پر سزا دی گئی، وہ منظر عام پر نہیں آیا۔ آخر انھوں نے خط میں ایسا کیا لکھا کہ ایک فوجی قانون کے تحت ان کو پانچ سال قید بامشقت کی سزا دی گئی؟

حسن کی وکیل ایمان زینب مزاری سے جب میں نے سوال کیا کہ کیا ان کے پاس اس خط کی نقل موجود ہے تو انھوں نے کہا کہ اس خط کی کاپی کو بھی دکھایا نہیں جا سکتا۔ حسن کی بہن زہرا نے بھی یہی جواب دیا۔

تاہم ایمان زینب مزاری کے مطابق تقریباً 100 صفحات پر مشتمل اس خط میں حسن عسکری نے سیاست میں فوج کے عمل دخل اور آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کے ملک پر ممکنہ سیاسی اور معاشی مضمرات سے خبردار کیا تھا۔

میجر جنرل ظفر مہدی کہتے ہیں کہ ’ایک سویلین اگر آرمی چیف پر تنقید کرتا ہے، تو چیف کو کیسے ہضم ہو گا جو اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہیں کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ پوری حکومت چیف کی ماتحت ہوتی ہے۔ اور اس آدمی کو کوئی ایسے چیلنج کرے۔‘

’یہ ظلم ہوا۔ بس ہماری قسمت خراب تھی۔‘

’یہ سارا معاملہ پرسنل لینے کا ہے۔ اگر آپ پرسنل نہ ہوں تو آپ حالات اور حقائق کو دیکھتے ہیں، لیکن جب آپ پرسنل ہوتے ہیں تو آپ صرف وہ چیز دیکھتے ہیں جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ بس یہ کیس یہی ہے۔‘

’انھوں نے اسے پرسنل بنا لیا۔‘

زہرا کہتی ہیں کہ ’اس کے خلاف ہتک عزت کا کیس کر دیتے۔ لیکن یہ کہنا کہ اس نے فوجی افسران کو بغاوت پر اکسایا بالکل غلط الزام تھا۔

جیل میں ملاقات

حسن کے خاندان کو ابھی علم نہیں تھا کہ حسن کو سزا ہوئی ہے۔

زہرا بتاتی ہیں کہ ’ہم نے اپنے وکیل سے کہا کہ کیا ہم آخری کارروائی کا حصہ بن سکتے ہیں؟ جب وکیل نے فوجی حکام سے رابطہ کیا تو ان کو بتایا گیا کہ اب حسن گجرانوالہ میں نہیں ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کہاں ہے تو انھوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے۔‘

زہرا کہتی ہیں کہ ’ایک بار پھر جی ایچ کیو میں لوگوں کو فون کرنے کا سلسلہ شروع ہوا کہ پتہ کریں حسن کہاں ہے۔‘

’پھر ہمیں ایک افسر نے ایک نمبر دیا اور کہا کہ وہ ساہیوال جیل میں ہے۔‘

جیل میں حسن سے گھر والوں کی پہلی بار ملاقات دو ستمبر 2021 کو ہوئی۔ زہرا کہتی ہیں کہ ’حسن کو ایک سکرین کے پار بٹھایا گیا تھا۔ کورونا کی وجہ سے ایک پلاسٹک کی شیٹ بھی نصب تھی۔‘

’اس کو قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ وہ کافی بے چین تھا۔ اس نے ہمیں بات ہی نہیں کرنے دی اور اس نے کہا کہ دیکھو یہ میرے ساتھ غلط کر رہے ہیں۔ وہ جیسے اپنی بھڑاس نکال رہا تھا۔ اس نے کہا تم لوگوں کو یہ یہ اقدامات کرنے ہیں۔ لیکن اس نے کہا کہ میری فکر مت کروں۔ آپ لوگوں نے اس کے خلاف لڑنا ہے۔‘

’وہ آج تک یہی کہتا ہے کہ میری فکر مت کرو۔‘

عدالتی ریلیف میں ناکامی

مئی 2019 میں پاکستان فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو جاسوسی کا الزام ثابت ہونے پر 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔

تاہم فوجی عدالت نے ان کی پہلی اپیل پر سزا سات سال کم کر دی اور دوسری اپیل میں اُن کی سزا میں مزید تین سال کی کمی کر دی گئی۔ جنوری 2023 میں ان کو رہا کیا گیا تو جیل حکام کا کہنا تھا کہ بہتر کنڈکٹ کے باعث انھیں قید میں چھوٹ دی گئی۔

تاہم حسن عسکری کی قید کو تقریباً ڈھائی سال گزرنے کے باوجود ان کی ملٹری کورٹ میں اپیل پر اب تک صرف دو دن سماعت ہوئی ہے۔ ملتان میں ہونے والی اس سماعت پر حسن کی وکیل ایمان زینب کی اپنے موکل سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔

واضح رہے کہ فوجی قانون کے مطابق فوجی عدالت کی سزا کے خلاف صرف فوجی کورٹ آف اپیل ہی سزا میں کمی کا اختیار رکھتی ہے۔

حسن عسکری کے معاملے میں سول عدالتوں سے ریلیف کی تمام کوشیں اب تک ناکام رہی ہیں۔

حسن عسکری کے وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مجسٹریٹ کی جانب سے حسن عسکری کی فوجی حکام کو حوالگی غیر قانونی تھی۔ تاہم ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے اس درخواست کر مسترد کر دیا۔

اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی گئی جس پر فیصلہ رواں سال فروری میں محفوظ کیا گیا۔

حسن عسکری کی سزا کے بعد خاندان کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ سے یہ اپیل بھی کی گئی کہ بوڑھے والدین کی صحت کو مدںظر رکھتے ہوئے حسن کو اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کر دیا جائے۔

عدالت نے خاندان کو آئی جی جیل خانہ جات پنجاب سے رجوع کرنے کو کہا جنھوں نے اس درخواست کو مسترد کر دیا۔

آئی جی کے اس فیصلے کے خلاف حسن کا خاندان ایک بار پھر عدالت پہنچا۔

لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے جون 2022 میں حسن عسکری کو دو ہفتوں کے اندر اڈیالہ جیل منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے۔

جون 2022 میں جاری ہونے والے اس عدالتی حکم پر بھی اب تک عمل نہیں ہو سکا ہے اور حسن کے معمر والدین آج بھی اس انتظار میں ہیں کہ وہ کب اپنی بیٹے سے مل سکیں گے۔

حسن نے حال ہی میں اپنے خاندان کی نام ایک پیغام میں لکھا: ’ریاستی اداروں پر تمام تر منفی اثرات کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی کوشش جاری ہے چاہے اس کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔۔۔ ہماری غیر منصفانہ جدائی جاری رہے گی۔ ہمیں اس کو قبول کرنا ہو گا۔‘  

Source:

https://www.bbc.com/urdu/articles/c0kp29qk75do?at_bbc_team=editorial&at_link_type=web_link&at_format=image&at_link_id=6F37CAB6-0B32-11EE-836B-BF80FF7C7F44&at_link_origin=BBC_URDU&at_ptr_name=facebook_page&at_medium=social&at_campaign_type=owned&at_campaign=Social_Flow&fbclid=IwAR1Ttn6BokCFUflytPpRy6BJqZCpWYh_LKTf07adsEaEv30LIoAhglpbcok

How Student Organization APMS BECOME MQM متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم )کیسے بنی

اے پی ایم ایس او کا قیام، عروج اور زوال: ’داخلوں سے محروم‘ طلبا کراچی کے کنگ میکر کیسے بنے؟

’پیٹھ پر ڈرل مشین سے اے پی ایم ایس او لکھا ہوا تھا،‘ فوج سے بریگیڈیئر ریٹائر ہونے کے باوجود اُن کے لہجے میں آج بھی عجیب سا تاثر تھا۔

’پی ایس ایف بھی تو لکھا ہوا تھا، ویسی ہی ڈرل مشین سے،‘ سیاستدان نے نیم دلی سے جھجھکتے ہوئے جرح کی کوشش کی۔

’میرے تو ہاتھ اور کلائیاں مہندی اور چوڑیوں کو ترس گئے،‘ سابق طالبہ رہنما نے شکوہ کیا۔

ہ فوجی افسر، سیاستدان اورسابق طالبہ رہنما سب کے سب مجھے اُس ’آل پاکستان مہاجر سٹوڈینٹس آرگنائزیشن‘ (اے پی ایم ایس او) کے قیام، عروج اور زوال کی کہانی سُنا رہے تھے جو 11 جون 1978 کو قائم کی گئی تھی اور جس کا آج 43واں یومِ تاسیس منایا جا رہا ہے۔

یہ اُس طلبا تنظیم کی کہانی ہے جس نے اپنی ہی سرپرست اور پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن جانے والی مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو جنم دے کر نہ صرف سیاست میں نئی ریت ڈالی بلکہ ملک کا سیاسی منظر نامہ بھی بدل کر رکھ دیا۔

وہ طلبا تنظیم جس کے قریباً تمام ہی بانی اراکین سیاسی افق پر جگمگائے تو بڑی چمک دمک سے مگر الطاف حسین کے علاوہ کم و بیش تمام نامور بانی اراکین قتل بھی کر دیے گئے۔

یہ وہی اے پی ایم ایس او ہے جس کے ارکان بس اور منی بس کا کرایہ ادا کر کے ایوانوں تک پہنچے اور وفاقی و صوبائی وزرا یا سینیٹر بن کر پارلیمان کی عمارتوں سے باہر نکلے۔

مگر یہ کہانی بھی بہت دلچسپ ہے کہ ملک کے تعلیمی اداروں میں داخلوں تک سے بھی ’محروم‘ رکھے جانے والے یہ طالبعلم اقتدار کی غلام گردشوں کے ’بادشاہ گر‘ کیسے بن گئے؟

ایک زمانے میں جو طلبا اتنے مجبور تھے کہ اپنے تعلیمی اخراجات تک برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ اتنے بااختیار کیسے ہو گئے کہ پاکستان کی وفاقی و صوبائی حکومتیں اُن کی مرضی سے قائم یا گرائی جانے لگیں؟

سوال یہ بھی ہے کہ مقبولیت و کامیابی کی فقیدالمثال داستانیں رقم کر دینے والی یہ طلبا تنظیم مبینہ قتل و غارت اور جبر و تشدد میں کیسے ملوث ہو گئی؟

یہ کہانی اسی جائزے کی کوشش میں لکھی گئی اور اُن ہی افراد کی گفتگو، رائے اور تاثرات کے ذریعے آپ تک پہنچائی جا رہی ہے جنھیں اپنی رہائش گاہوں سے اسمبلی تک جانے کا راستہ بھی نہیں معلوم تھا مگر جنھوں نے ملک پر حکمرانی کرنے والی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو غریب یا متوسط سمجھی جانے والی آبادیوں میں قائم اپنی گھروں تک چل کر آنے پر مجبور کر دیا۔

محرومی کا احساس اور سیاسی ماحول

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹّو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت 14 اگست 1973 کو قائم ہوئی تھی۔

صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ذوالفقار بھٹو نے ملک میں کوٹہ سسٹم متعارف کروایا جس کے تحت اہلِ کراچی کو میرٹ یا قابلیت کی بجائے کوٹے پر ملازمت اور تعلیمی اداروں میں داخلوں وغیرہ میں حصہ ملتا تھا۔

سرکاری ملازمت اور تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے قابلیت کی بجائے رہائشی علاقے کو فوقیت دی جاتی تھی۔

کوٹہ سسٹم کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ کراچی یا سندھ کے شہری علاقوں میں چونکہ تعلیم یافتہ اور زیادہ قابل آبادی رہتی ہے اس لیے تمام داخلے یا ملازمتیں کراچی یا سندھ کی شہری آبادی والوں میں ’بٹ‘ جاتی ہیں اور ملک کے دیگر علاقوں کے لوگ محروم رہ جاتے ہیں۔

سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد اُردو بولنے والے موجودہ انڈیا کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تو اُن کی اکثریت بھی صوبہ سندھ کی شہری علاقوں میں سکونت پذیر ہوئی۔

یہ اردو بولنے والی آبادی پاکستان میں مختلف دائیں اور بائیں بازور کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی حامی رہی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے قیام کے لگ بھگ چار سال بعد یعنی پانچ جولائی 1977 کی شب جنرل ضیاالحق نے حکومت کا تختہ الٹ کر پاکستان کی تاریخ کا تیسرا مارشل لا نافذ کر دیا۔

اس فوجی بغاوت کو سیاسی قوتوں اور سماجی حلقوں کی جانب سے شدید مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

بھٹو کے نافذ کردہ کوٹہ سسٹم کے شدید مخالف اختر رضوی اور رئیس امروہوی جیسے ممتاز افراد بھی سندھ کی اُردو بولنے والی شہری آبادی سے تعلق رکھتے تھے۔ اختر رضوی اور رئیس امروہوی کی طرح اس شہری آبادی کے ایک بڑے حصے کا خیال تھا کہ کوٹہ سسٹم جیسی ناانصافیاں اس لیے ہوتی ہیں کہ سندھ کی اُردو بولنے والی آبادی کی اپنی کوئی سیاسی نمائندگی نہیں ہے۔

تب اختر رضوی اور رئیس امروہوی جیسے ممتاز شہریوں نے ہی دراصل کراچی کے نوجوانوں کو اپنی سیاسی نمائندہ سیاسی تنظیم بنانے کا خیال پیش کیا اور تنظیم سازی کا ایندھن (یعنی سیاسی مواد اور تربیت) فراہم کرنے میں سب سے زیادہ اہم کردار بھی ان دونوں نے ہی ادا کیا۔

17 ستمبر 1953 کو کراچی میں پیدا ہونے والے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے کمپری ہینسیو ہائی سکول عزیز آباد سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1974 میں میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ملنے پر اسلامیہ سائنس کالج سے مائیکرو بیالوجی میں بی ایس سی کیا۔ جس کے بعد انھوں نے کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ فارمیسی میں داخلہ لے لیا۔

یہاں وہ پہلے طلبا تنظیم ’نیشنل سٹوڈینٹس ایکشن کمیٹی‘ کے جنرل سیکریٹری اور پھر صدر رہے۔

کوٹہ سسٹم کی وجہ سے پائی جانے والی شدید بے چینی، احساس محرومی، مایوسی اور رئیس امروہوی اور اختر رضوی جیسے بزرگ اہل دانش کی رہنمائی نے الطاف حسین اور اُن کے ساتھیوں میں طلبا کی تنظیم آل پاکستان مہاجر سٹوڈینٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) کی داغ بیل ڈالنے کا جذبہ بیدار کیا۔

اے پی ایم ایس او کا قیام

الآخر 11 جون 1978 کو الطاف حسین نے اپنے ساتھیوں عظیم احمد طارق، عمران فاروق، سلیم شہزاد، طارق جاوید، طارق مہاجر، ایس ایم طارق وغیرہ کے ساتھ اے پی ایم ایس او کی بنیاد رکھی۔

موجودہ رکن قومی اسمبلی اور کم از دو مرتبہ پاکستان کے وفاقی وزیر رہنے والے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اب ایم کیو ایم بہادر آباد (یا ایم کیو ایم پاکستان) کے سربراہ ہیں۔

خالد مقبول صدیقی زمانہ طالبعلمی میں سندھ میڈیکل کالج کے طالبعلم تھے۔

خالد مقبول آٹھ ستمبر 1989 کو اے پی ایم ایس او کے پانچویں مرکزی چیئرمین مقرر ہوئے اور 11 جون 1997 تک اس عہدے پر برقرار رہے۔

خالد مقبول بتاتے ہیں کہ اُس زمانے میں کراچی کی طلبا سیاست ’سرخ‘ (یعنی بائیں بازو کے حامیوں پر مشتمل ترقی پسند) اور ’سبز‘ (یعنی دائیں بازو کے خیالات رکھنے اسلام پسند) حلقوں میں تقسیم تھی۔

ابتدائی کئی برسوں تک الطاف حسین اور اُن کی نومولود تنظیم کو تعلیمی اداروں میں ’سبز‘ حلقے کی شدید بلکہ کئی واقعات میں متشدد مخالفت کا بھی سامنا رہا۔

الطاف حسین اس دوران کئی بار براہ راست تشدد کا نشانہ بھی بنے جس کا ذمہ دار وہ اور اُن کے ساتھی مخالفین کو ٹھہراتے رہے۔

کئی بار انھیں، اُن کی تنظیم اور اس کے اراکین کو تعلیمی اداروں سے زبردستی بیدخل بھی کیا جاتا رہا۔

ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی کے پہلے میئر اور پھر ایک وقت میں پارٹی کے سب سے سینیئر رہنما سمجھے جانے والے ڈاکٹر فاروق ستار بتاتے ہیں کہ ’تین فروری 1981 تک مخالفین کے سکواڈ نے یونیورسٹی سمیت قریباً تمام تعلیمی اداروں میں ہمارا داخلہ بند کر دیا تھا۔‘

’تعلیمی اداروں میں داخلہ بند ہونے کے دو دن بعد یعنی 5 فروری کو الطاف بھائی نے فیڈرل بی ایریا میں طارق مہاجر کے گھر ہونے والے اجلاس میں کہا کہ ہم مخالفین کا مقابلہ نہیں کر سکتے، اُن کے پیچھے جنرل ضیا الحق ہیں جن کے ساتھ ریاست کی طاقت ہے۔‘

فاروق ستار بتاتے ہیں کہ اس اجلاس میں یہ بات زیر غور آئی کہ اے پی ایم ایس او کو یہیں اسی اجلاس میں ختم کر دیتے ہیں اور الطاف حسین کے الفاظ تھے کہ ’میں تشدد کی سیاست میں نہیں جا سکتا، کیونکہ ہمارے تو سارے کارکنان اور رہنما مارے جائیں گے۔‘

مگر اجلاس کے شرکا کے جذباتی تبادلہ خیال کے بعد اے پی ایم ایس او کو شہری علاقوں میں لے جانے کا فیصلہ ہوا جس کے بعد سب سے پہلا یونٹ آفاق احمدنے لانڈھی میں بنایا (یاد رہے کہ یہی آفاق احمد آگے چل کر الطاف حسین کے سب سے بڑے مخالف اور ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ بنے۔)

فاروق ستار کے مطابق دوسرا یونٹ خود انھوں (فاروق ستار) نے پی آئی بی کالونی میں اور تیسرا متین یوسف (سابق ڈپٹی میئر کراچی) نے عثمان آباد اولڈ سٹی ایریا میں بنایا۔

چوتھا یونٹ عامر خان (موجودہ رہنما ایم کیو ایم بہادر آباد) نے لیاقت آباد نمبر چار کی فرنیچر مارکیٹ میں بنایا (اور بعد ازاں عامر خان، آفاق احمد کے ساتھ حقیقی بنانے والے دوسرے بڑے رہنما بنے۔)

فاروق ستار بتاتے ہیں کہ سنہ 1983 میں الطاف حسین اپنے بھائیوں کی جانب سے بلائے جانے پر امریکہ چلے گئے۔

خالد مقبول کے مطابق ’الطاف حسین تو مایوس ہو کر ملک سے چلے گئے تھے اور پھر عظیم بھائی (عظیم احمد طارق ایم کیو ایم کے چیئرمین جنھیں یکم مئی 1993 کو قتل کر دیا گیا) نے اے پی ایم ایس او کو دوبارہ جمع کیا۔‘

مارچ 1984 کو جب اے پی ایم ایس او کی قیادت نے مہاجر قومی موومنٹ یعنی ایم کیو ایم بنانے کا اعلان کیا تو الطاف حسین ملک میں موجود نہیں تھے۔

فاروق ستار نے بتایا کہ ’عظیم احمد طارق، سلیم شہزاد ، طارق جاوید اور الطاف بھائی کی ٹیم کے سب لوگ کام کرتے رہے اور الطاف بھائی (بیرون ملک ہونے کے باوجود) عظیم طارق سے رابطے میں تھے۔‘

اے پی ایم ایس او کی ابتدائی کامیابی

15 اپریل 1985 کو جنرل ضیا کی حکومت کو مارشل لا کی سب سے زیادہ مزاحمت کرنے والے صوبہ سندھ میں زبردست سیاسی حمایت حاصل کرنے کا شاندار موقع تب ملا جب کراچی کے وسطی علاقے ناظم آباد کی چورنگی پر ٹریفک کے ایک حادثے میں سرسید گرلز کالج کی ایک طالبہ (بشریٰ زیدی) کی جان چلی گئی۔

طالبہ کی ہلاکت پر شروع ہونے والا احتجاج شام تک لسانی رنگ اختیار کر گیا اور اُردو بولنے والے شہریوں کا احتجاج پبلک ٹرانسپورٹ کے (زیادہ تر) پشتون مالکان کے خلاف محاذ کی صورت میں ڈھل گیا۔

طالبہ کی ہلاکت نے کوٹہ سسٹم اور شہری آبادی کی محرومیوں کی پہلے ہی سے موجود دیگر وجوہات کی وجہ جاری لسانی کشیدگی میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔

تب ’مہاجر نعرے‘ کو وہ سیاسی مقبولیت ملنے لگی جس کی توقع نہ تو خود اے پی ایم ایس او کو تھی اور نہ مخالفین کو۔

اسی اثنا میں الطاف حسین امریکہ سے واپس آ گئے۔

فاروق ستار نے بعض تجزیہ نگاروں کی یہ رائے تو یکسر مسترد کر دی کہ ایم کیو ایم کو مارشل لا نے پیپلز پارٹی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے بنایا۔

فاروق ستار نے انتہائی کھلے دل سے تسلیم کیا کہ ’بنایا جنرل ضیا نے نہیں تھا مگر مارشل لا کے دور میں اگر ہم پروان چڑھ رہے ہیں اور ہمارا سیاسی سفر جاری ہے تو یہ کھلی غمازی ہے کہ ساری توپوں کا رخ پیپلز پارٹی کی جانب ہے۔‘

’وہاں پانچ لوگ جمع ہو جائیں تو دفعہ 144 لگ جائے گی اور ہم علاقوں میں کارنر میٹنگز کر رہے ہیں مگر کچھ نہیں ہو رہا۔‘

فاروق ستّارنے تسلیم کیا کہ ’سپیس دی گئی۔۔۔ روم دیا گیا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’پوسٹر لگانے کے جرم میں پارٹی کی تاریخ کی پہلی گرفتاری بھی میری ہوئی، میں اور ڈاکٹر عمران فاروق (اے پی ایم ایس او رہنما اور ایم کیو ایم کے جنرل سیکریٹری جنھیں 16 ستمبر 2010 کو لندن میں قتل کیا گیا) گرفتار ہوئے اور بدر اقبال (سابق جوائنٹ سیکریٹری ایم کیو ایم جو بعد ازاں قتل کر دیے گئے) اور اسحق خان شیروانی (سابق چیئرمین اے پی ایم ایس او) گرفتار ہوئے۔‘

’مگر ہم دو دن بعد ضمانت پر رہا ہو کر آ گئے۔ ہم سے بھی صرف یہی جاننے کی کوشش کی گئی کہ پیپلز سٹوڈینٹس فیڈریشن (ذوالفقار بھٹّو کی پیپلز پارٹی کی طلبہ تنظیم) سے تو تعلق نہیں۔‘

مگر خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار کی اس رائے سے متفق نہیں کہ الطاف حسین یا اُن کے ساتھیوں کی تنظیم کو جنرل ضیا کی حمایت حاصل رہی۔

’اگر ایسا ہوتا تو پھر پنجابی پختون اتحاد نامی تنظیم بھی تو بنائی گئی، ریاستی سرپرستی تو اس تنظیم کی نظر آئی! جبر کے دور میں اور جبر کی گود میں پیدا ہونے میں بڑا واضح فرق ہے۔‘

’جن حالات کو ایم کیو ایم یا اے پی ایم ایس او کی پیداوار سمجھا جاتا ہے دراصل ایم کیو ایم یا اے پی ایم ایس او اُن حالات کی پیداوار ہیں۔‘ خالد مقبول صدیقی نے وضاحت کی۔

خالد مقبول نے کہا کہ ’جب ہر شعبہ زندگی میں سندھ کے شہری علاقوں میں آباد مہاجروں سے تفریق برتی جانے لگی اور کوٹہ سسٹم کی وجہ سے مہاجر طلبا کا تعلیمی و معاشی استحصال زور پکڑنے لگا تو مہاجر آبادی خصوصاً طلبا میں بے چینی اور مایوسی بڑھنے لگی۔‘

’نہ تعلیمی اداروں میں داخلہ ملتا تھا نہ سرکاری اداروں میں ملازمت۔‘

خالد بتاتے ہیں کہ ’ستم بالائے ستم یہ ہونے لگا کہ اندرون سندھ کے تعلیمی اداروں میں اگر ان مہاجر طلبا کو بمشکل تمام داخلہ مل بھی جاتا تھا تو جب یہ وہاں پہنچتے تھے تو ان سے نفرت پر مبنی سلوک کیا جاتا تھا اور پھر تعلیمی و معاشی استحصال نے جسمانی تشدّد کی شکل اختیار کر لی تھی۔‘

’مہاجر طلبا کی اسناد چھین کر پھاڑ دی جاتی تھیں۔ انھیں زد و کوب کیا جاتا تھا، اس نے معاملات کو بگاڑ کر رکھ دیا۔‘

ایک اور سابق رکن پارلیمان نے، جو خود بھی اے پی ایم ایس او کے صف اول کے رہنما اور مرکزی کابینہ کے رکن رہے، نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ’میرے زمانے تک اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے طلبا کا 40 فیصد نمبر حاصل کرنے پر بھی کراچی کے داؤد انجینیئرنگ کالج میں داخلہ ہو جاتا تھا جبکہ میرا اپنا داخلہ تو 70 فیصد نمبر حاصل کرنے کے باوجود نہیں ہو سکا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پھر جب ملازمت کا موقع آتا تھا تو مہران انجینیئرنگ کالج کا ایک واجبی سی قابلیت رکھنے والا، جسے آپ انگوٹھا چھاپ ہی کی سطح پر سمجھ لیں، تو بھرتی ہوجاتا تھا مگر ہم 70 اور 80 فیصد نمبر لینے والے شہری علاقوں کے طلبا منھ دیکھتے رہ جاتے تھے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ اُس وقت سندھ کے تعلیمی اداروں میں داخل ہوتے ہی سندھی طالبعلم اُردو بولنےوالوں کو چند مخصوص الفاظ ادا کرنے کو کہتے تاکہ شناخت ہو سکے۔

’وہ آپ سے کہتے کہ یہ الفاظ کہو ’ڈحڈھر‘ یا پھر ’ڈھاڈھو‘ یا ’ڈینگو واہ‘ یا پھر ’یائیں‘ (یہ وہ مخصوص الفاظ ہیں جو مخصوص لہجے اور تلفُّظ کے ساتھ صرف سندھی النسل افراد ہی ادا کر سکتے ہیں)۔‘

’جب مہاجر طلبا انھیں ادا نہیں کر سکتے تھے تو پتہ چل جاتا تھا کہ وہ سندھی النسل نہیں ہیں اور پھر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور یہ سب باقاعدہ منصوبہ بندی سے ادارہ جاتی (انسٹیٹیوشنل) انداز سے ہوتا تھا۔‘

اپنے ساتھی کے موقف کی تصدیق کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ’جو اُردو بولنے والے اندرون سندھ رہتے تھے اُن میں یہ احساس پیدا ہو چکا تھا کہ اُن سے مہاجر ہونے (یا سندھی نہ ہونے) کی بنیاد پر تفریق برتی جا رہی ہے اور یہی تفریق و محرومی اے پی ایم ایس او کے قیام کی بنیاد بنی۔‘

اے پی ایم ایس او کی بےمثال مقبولیت

اس ماحول میں الطاف حسین کو مخالفین کی جانب سے بزور جامعہ کراچی سے نکال دیا گیا اور یہی وہ وقت تھا جب اُردو بولنے والے افراد کی آبادیوں میں اے پی ایم ایس او (یا مہاجر سیاست) کا جادو سر چڑھ کر بولنا شروع ہوا۔

مہاجر آبادیوں اور اردو بولنے کی اکثریت رکھنے والوں کے علاقوں اور محلوں کی سطح پر کارنر میٹنگز، علاقائی جلسوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔

مختلف محلوں سے اٹھنے والے یہ جذبات اور اثرات تعلیمی اداروں میں بھی نمایاں ہونے لگے۔

شہر کے کم و بیش ہر محلے کی طرح ہر تعلیمی ادارے میں بھی اے پی ایم ایس او کی پذیرائی اور مقبولیت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ طلبا جوق در جوق اے پی ایم ایس او میں شمولیت اختیار کرنے لگے۔

اُردو بولنے والی برادری میں الطاف حسین، ایم کیو ایم اور اے پی ایم ایس او کی حمایت 'جنون' کی شکل اختیار کرنے لگی۔

’یہاں تک ہوا کہ مجھے تو میرے والد نے کہا کہ اب تمہارا داخلہ کراچی یونیورسٹی میں ہو گیا ہے، اب وہاں جا کر اے پی ایم ایس او میں شامل ہو جانا۔ میرا تو کوئی رجحان ہی نہیں تھا سیاست کی جانب، میں تو کھیلوں (سپورٹس) میں دلچسپی رکھتی تھی۔ ایتھلیٹ تھی بہت اچھی۔‘ سابقہ طلبہ رہنما نائلہ لطیف نے مجھے اپنی کہانی سُنانی شروع کی۔

سابق رُکن سندھ اسمبلی نائلہ لطیف آٹھ ستمبر 1989 کو خالد مقبول صدیقی کی کابینہ میں اے پی ایم ایس او کی مرکزی جوائنٹ سیکریٹری مقرر ہوئیں تھیں۔

دیکھنے والوں نے ایسا وقت بھی دیکھا جب نائلہ لطیف کو ملک کی سب سے طاقتور اور مؤثر طالبہ رہنما سمجھا جاتا تھا۔

شہر کے ہر تعلیمی ادارے میں انھیں ’باجی‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا اور اُس دور میں جب طلبا سیاست اسلحے، زور زبردستی، غنڈہ گردی اور تشدّد کے الزامات کی دلدل میں دھنسی دکھائی دیتی تھی، کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ ’نائلہ باجی‘ کے سامنے آواز بھی اونچی کر سکے۔

نائلہ بتاتی ہیں کہ ’میں تو سیاست سے واقف تھی اور نہ دلچسپی رکھتی تھی، نہ ہی کوئی رجحان تھا میرا اس طرف۔ مگر جو ماحول شہر میں بن گیا تھا اُس میں شہری سندھ کی اردو بولنے والی مہاجر آبادی اپنے خلاف جاری سیاسی، معاشی، سماجی اور تعلیمی ناانصافیوں اور استحصال کے ردعمل میں اتنی شدّت اختیار کر چکی تھی کہ خود اپنی آئندہ نسلوں کے نمائندوں یعنی نوجوانوں کو متحرّک کر رہی تھی۔ جیسا کہ میرے والد نے کِیا۔‘

’میرے والد بھی ایک کٹر مہاجر سوچ اپنا چکے تھے اور میرے گھر میں ہر وقت یہی باتیں ہوتی تھیں یعنی شہر کے سیاسی ماحول کی، مہاجروں کے ساتھ ناانصافی کی، استحصال کی۔ مگر تب تک بھی مَیں ان خیالات کی صرف اس حد تک حامی تھی کہ دس روپے کا چندہ ضرور دیا کرتی تھی اور یہی میری سیاسی زندگی کے آغاز کی بنیاد بن گئی۔‘

نائلہ بتاتی ہیں کہ ’ہوا یہ کہ اُس وقت امین الحق (پاکستان کے موجودہ وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن) اے پی ایم ایس او کے لیے یونیورسٹی میں چندہ مانگا کرتے تھے۔ میں انھیں چندہ دیتی تھی اور جب انھوں نے مجھے تنظیم (اے پی ایم ایس او) میں شمولیت کی دعوت دی تو میں نے سوچا کہ ہمارے تو والدین خود مجھے اس شمولیت کے لیے ترغیب دیتے ہیں تو وہ بھی خوش ہو جائیں گے اور خیالات بھی گھر کے ماحول کی وجہ سے سیاسی ہوتے جا رہے تھے، تو میں بھی شامل ہو گئی۔‘

’جب مجھے کراچی یونیورسٹی کی کابینہ کا رکن مقرر کیے جانے کا اعلان ہوا تو میری بڑی بہن اور چھوٹے بھائی بھی جامعہ کے طالبعلم تھے اور وہیں موجود تھے۔ وہ تو مجھے جوائنٹ سیکرٹری بنائے جانے پر حیران رہ گئے۔‘

نائلہ لطیف نے بتایا کہ خالد مقبول صدیقی سے پہلے اسحق خان شیروانی اے پی ایم ایس او کے چئیرمین مقرر ہوئے تو امین الحق نے الطاف حسین سے میرا تذکرہ کیا اور پھر مجھے مرکزی جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے کی پیشکش ہوئی۔

’مجھے تو تنظیم کے مرکز کا بھی نہیں پتہ تھا۔ بتایا گیا کہ مرکز الکرم سکوائر (لیاقت آباد) میں ہے۔ مجھے تو اپنے گھر سے الکرم اسکوائر جانے کا راستہ تک نہیں معلوم تھا۔ مگر ساتھی رہنمائی کرتے رہے اور رفتہ رفتہ میری تنظیمی وابستگی اس حد تک بڑھ گئی کہ مجھے تو اپنی ذات اور ذاتی زندگی تک کا ہوش نہیں رہا۔‘

’دن رات بس تنظیم اور اُس کا کام۔ بے انتہا مقبول ہوتی تنظیم کے سلسلے میں ہر روز کسی نہ کسی تعلیمی ادارے میں کوئی نہ کوئی سرگرمی ہوتی اور میں اس میں شرکت کرتی۔ میری ہم عمر طالبات ساتھی اور دوست سہیلیاں اپنے دیگر شوق بھی پورے کرتی تھیں عید بقرعید جیسے تہواروں پر لڑکیاں چوڑیاں اور مہندی کے شوق میں ہوتی تھیں اور ہم تنظیم کا کام کرتے رہتے تھے، میری تو کلائیاں چوڑیوں اور مہندی کو ترس گئیں۔‘

مگر 1989 تک مَیں نے کراچی کے ہر گرلز کالج میں اے پی ایم ایس او کی کابینہ بنا دی تھی۔ سوائے ایک سینٹ جوزف کالج اور علامہ اقبال کالج کے۔ اُس زمانے میں علامہ اقبال کالج میں پنجابی طلبا کی اکثریت تھی تو ہمیں اے پی ایم ایس او کا کام کرنے میں بہت دشواری ہوتی تھی۔‘

’پھر میں نے اے پی ایم ایس کا شعبہ طالبات قائم کیا جس کی نگران شازیہ عابد مقرر ہوئیں اور کہکشاں حیدر (جو اس وقت ایم کیو ایم لندن کی رہنما ہیں) بھی اپوا کالج میں کمیٹی کی رکن تھیں۔‘

نائلہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے جب (سیاسی اتحاد) کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز (سی او پی) کا جلسہ ہوا تو مجھ سے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عمران فاروق نے پوچھا کتنی طالبات آ جائیں گی؟ جب میں نے کہا پانچ ہزار تو اُن کی چیخ نکل گئی، سناٹے میں آ گئے، منھ کھلے کا کھلا رہ گیا۔‘

جیو نیوز سے وابستہ صحافی مظہر عباس بھی بتاتے ہیں کہ پذیرائی تو اتنی ملی کے دوسروں کو تو کیا خود الطاف حسین اور ایم کیو ایم یا اے پی ایم ایس او کو بھی اس کی توقع نہیں تھی۔

انیس قائم خانی پاکستان میں 2013 تک ایم کیو ایم کی تنظیم کے سب سے اعلیٰ رہنما تھے اور پاکستان میں الطاف حسین کے بعد ’نمبر ون‘ کی پوزیشن پر فائز تھے۔

انیس قائم خانی نے بتایا کہ وہ بھی کوٹہ سسٹم جیسے مسائل کی بنیاد پر 1985 میں تمظیم کے رکن بنے تھے۔

اے پی ایم ایس او اور سیاسی ماحول

اب ایک جانب اے پی ایم ایس او اور ایم کیو ایم فقیدالمثال مقبولیت حاصل کر رہی تھیں اور دوسری جانب تواتر سے سیاسی پیشرفت اور پرتشدد واقعات رونما ہو رہے تھے۔

اسی اثنا میں بانی پاکستان کے مزار پر ایک مظاہرہ ہوا جہاں پاکستان کا قومی پرچم (جھنڈا) جلانے کے الزام میں الطاف حسین کو گرفتار کیا گیا اور انھیں فوجی عدالت سے نو ماہ قید کی سزا سنائی گئی اور وہ جیل بھیج دیے گئے۔

آنے والے برسوں میں جب شہری سندھ میں لسانی سیاست شروع ہوئی اور ایم کیو ایم اور اُس کے سیاسی مخالفین کو زبردست نقصانات اور فوائد دونوں کا اندازہ ہوا تو پھر ’علاقہ گیری‘ (یا ٹرف وار) کا آغاز ہوا۔

اے پی ایم ایس او اور ایم کیو ایم کے ایک سابق رہنما نے بنام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ پھر ایم کیو ایم میں یہ سوچ آئی کہ اگر ہمیں مخالفین کی عسکری طاقت کا مقابلہ کرنا ہے تو خود ہمارے پاس بھی ’اپنا ایک عسکری بازو‘ ہونا چاہیے۔

اسی دوران شہر میں لسانی تفریق اور نسلی منافرت پر مبنی کئی بڑے واقعات رونما ہوئے جن میں ’منشیات فروشوں کے خلاف‘ سہراب گوٹھ کے علاقے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ’آپریشن کلین‘ یا پھر علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی میں فائرنگ سے درجنوں افراد کی ہلاکت جیسے بڑے اور سیاسی طور پر انتہائی اہم سمجھے جانے والے واقعات شامل رہے۔

ایسے کئی سانحوں کے بعد پشتون اور مہاجر آبادیوں میں شدید لسّانی کشیدگی پھیل گئی جس کا زبردست فائدہ الطاف حسین اور اُن کی تنظیموں یعنی اے پی ایم ایس او اور ایم کیو ایم کو کسی نہ کسی صورت ہوتا رہا۔

ڈر اور خوف کی یہ فضا مہاجر نعرے کی مزید مقبولیت کا سبب بنی اور اے پی ایم ایس او اور ایم کیو ایم دونوں ہی کو مضبوط تر کرتی چلی گئی۔

خالد مقبول کہتے ہیں ’ہماری مقبولیت میں مہاجر نعرے کا کردار ہے جس نے اپنی جگہ خود بنائی مگر ایک کردار بجتے ہوئے کھمبوں کا بھی ہے۔( خالد مقبول نے 1980 کی دہائی میں پرتشدّد واقعات کے دوران مہاجر آبادیوں میں حملے کا خدشہ ظاہر کرنے یا اطلاع دینے کے لیے بجائے جانے والے کھمبوں کی جانب اشارہ کیا۔)‘

’قوموں کو قوم بنانے میں مشترکہ مفادات یا مشترکہ خطرات و خدشات بھی اہم ہوتے ہیں،‘ خالد مقبول نے کہا۔

اپنے عسکری بازو کی ضرورت محسوس ہوتے ہی اے پی ایم ایس او اور ایم کیو ایم میں شامل ہونے والے عناصر میں متشدد سوچ رکھنے والے حلقے کو غلبہ حاصل ہوا۔

جنرل ضیا کے زمانے میں صرف بلدیاتی انتخابات ہوتے تھے تو اُردو بولنے والی آبادی کراچی کی سیاسی نمائندگی سے محروم بھی تھی۔

اب عام لوگوں کو اے پی ایم ایس او اور ایم کیو ایم کے ذریعے اپنی سیاسی نمائندگی کی امید بھی نظر آنے لگی۔

ایم کیو ایم نے اس ماحول کا فائدہ اٹھایا اور آٹھ اگست 1986 کو کراچی کے نشتر پارک میں جلسہ منعقد کیا جہاں اُردو بولنے والوں کو شعلہ بیانی پر قدرت رکھنے والے الطاف حسین میں اپنا ایک جارح اور زبردست ترجمان دکھائی دینے لگا۔

جیو نیوز سے وابستہ سینیئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’نشتر پارک جلسے کی کامیابی نے ہی اُن کے لیے 1987 کے بلدیاتی انتخابات میں اے پی ایم ایس او کی کامیابی کی راہ ہموار کی۔‘

خالد مقبول نے کہا کہ ’اپریل 1987 میں ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم کبھی بھی انتخابی (پارلیمانی) سیاست میں نہیں جائیں گے مگر ہماری مقبولیت سے خوفزدہ جنرل ضیا حکومت نے ہمارے خلاف آپریشن کر دیا تو ہمیں مجبوراً بلدیاتی انتخابات میں شرکت کرنا پڑی۔‘

’اس وقت اے پی ایم ایس او کی حالت یہ تھی کہ ہم سب یا تو ناتجربہ کار تھے یا پھر کم عمر تو ہمارے پاس تو انتخابی امیدوار کی پہلی شرط یعنی کم از کم عمر 25 سال ہونے والے امیدوار ہی نہیں تھے۔‘

 

 https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57433211?at_campaign=Social_Flow&at_bbc_team=editorial&at_link_id=BE7CF03E-0816-11EE-8FAF-A54F3AE5AB7B&at_link_origin=BBC_URDU&at_format=link&at_medium=social&at_ptr_name=facebook_page&at_link_type=web_link&at_campaign_type=owned&fbclid=IwAR19wcdUxcWCCpkaRhL9JlcoElEOCl94kpjlIQc_phSuLQQVOcXwEptZSuk

June 13, 2023

BROWN RICE IS VERY BENEFICIAL THAN WHITE RICE

   لوجی نوی گل سن لو
           بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ چاول جب چھلکے میں نکالا جاتا ہے تو یہ براؤن ہوتا ہے. پھر چھلکا اتارنے کے بعد اسے ایک عمل میں سے گذارا جاتا ہے جسے رائس پولیشنگ rice polishing کہتے ہیں. اس عمل میں چاول کے باہری طرف  موجود باریک جھلی نما براؤن غلاف اتار دیا جاتا ہے. اور یہ سفید چاول وجود میں آتا ہے جسے ہم سب جانتے ہیں یا بصد شوق کھاتے ہیں.

      اگر پالش کے بغیر براؤن چاول کی غذائیت کا جائزہ لیں تو اس میں میگنیشیم، سیلینیم، پوٹاشیم، کیلشیم آئرن ،پروٹینز، فیٹس ،وٹامنز خاص طور پر وٹامن بی، فائبر اور اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں. جبکہ پالش کرنے کے بعد تقریباً تمام پروٹین، تمام فیٹ، سارے وٹامنز اور تین چوتھائی منرلز ضائع ہوجاتے ہیں. غیر پالش شدہ چاول چاول دنیا میں اوٹ کے بعد سب سے زیادہ غذائیت والا غلہ ہے

      جبکہ دوسری طرف پالش شدہ چاول کو غذائی ماہرین اور امریکی ادارہ FDA غلہ ہی تسلیم نہیں کرتے. اس میں صرف میدہ اور قلیل مقدار میں منرلز ہوتے ہیں. ایک لاکھ تیس ہزار لوگوں پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق سفید چاول ذیابیطس کی بیماری کی بڑی وجہ ہیں.

      اب سوال یہ ہے کہ اگر چاولوں کو پالش کرنا اتنا ہی احمقانہ فعل ہے تو اس کی ابتدا کیسے ہوئی. تو جناب جان لیں دنیا بھر میں چاولوں سے بنائی گئی شراب کو ایک خاص مرتبہ حاصل ہے. جاپان کے لوگ چاولوں سے شراب کشید کرنے کے ماہر ہیں اسے وہاں sake سیک کہتے ہیں. سیک کی تیاری کے لیے چاول کا نشاستہ چاہیے ہوتا ہے. پرانے وقتوں میں جب چاول پالش نہیں کئے جاتے تھے تو اس کی باہری براؤن پرت سیک کی تیاری میں رکاوٹ کا باعث بنتی تھی.
 
     تب چاولوں کو خشک یا بھگو کر تھیلوں میں ڈال کر آپس میں رگڑتے تھے تاکہ وہ پالش ہوجائیں. یہ بہت مشقت طلب کام تھا.  انیسویں صدی کے وسط میں جب مشینوں کا چلن عام ہورہا تھا تو سیک بنانے والے بھی چاول پالش کرنے والی مشین کی جستجو میں لگے تھے. ایسے میں سال 1860 کے اس پاس شاید پہلی پالشنگ مشین بنائی گئی تھی.  پالش شدہ چاولوں کی شکل اور ذائقہ لوگوں کو بھاگیا اور بنا اس کی غذائیت کی طرف دھیان دیئے عوام کی اکثریت اسی کی دلداہ ہوگئی. آج عالم یہ ہے کہ بصد خواہش و سعی بازار سے براؤن چاول نہیں ملتے.

      ہمارا بس چلے تو بہت سے دیگر غذائی جرموں کے ساتھ چاولوں کو پالش کرنا اور گنے کے رس سے شکر یا گڑ کی بجائے چینی کشید کرنے پر مکمل پابندی عائد کردیں.

                    (  ابن فاضل )
#ابن_فاضل
#Ibn_e_fazil

حسد کیا ہے کس طرح حاسد اپنے آپ کو تباہ کرتا ہے

 
حاسد کے سر سے اللہ اپنا ہاتھ اٹھا لیتا ہے۔

اللہ حاسد کا پردہ کبھی نہیں رکھتا حاسد کا حسد ظاہر ہو جاتا ہے۔
حاسد لاکھ کوشش کر کے بھی حسد کو چھپا نہیں سکتا یا تو اسے حسد ختم کرنا پڑے گا یا پھر حسد ظاہر ہو گا حسد کو چھپایا نہیں جا سکتا یہ شکل سے ٹپکتا ہے۔
آپ نوٹ کر کے دیکھ لیں حاسد کے چہرے پہ حسد رقم ہوتا ہے۔
اس کو پڑھنے کے لیے فیس ریڈنگ کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
حاسد کا چہرہ ہمیشہ بجھا ہوا ہوتا ہے ایک کلونس ایک نحوست ہمیشہ طاری رہتی ہے۔
رنگت کتنی بھی سفید ہو چہرہ کبھی روشن نہیں ھوگا بلکہ ایک سیاہی ہوگی۔
حاسد کبھی آنکھ ملا کے بات نہیں کرئے گا نظریں چرائے گا.
حاسد کی شخصیت میں اضطراب ہو گا یہ ٹک کے ایک جگہ نا بیٹھ سکتا ہے نا کھڑا ہو سکتا ہے نہ ایک جگہ قیام کر سکتا ہے اس کی شخصیت میں بے چینی ہو گی۔ یہ کھڑا ہوا بھی ہلتا رہے گا بیٹھا ہوا بھی پہلو بدلتا رہے گا۔
حاسد کبھی تنہائی پسند نہیں ہوتا تنہائی اس کو کاٹتی ہے یہ در در پھرتا ہے۔
حاسد دہری آگ میں جلتا ہے اور حاسد بے ہدایت ہوتا ہے۔
اپنے آپ کو حسد سے بچائیں یہ نہیں کہ ہمیں کبھی بھی کسی کی کامیابی،خوبصورتی، خوش بختی متاثر نہیں کرتی جب بھی دل میں منفی خیالات آئیں شروع میں ہی اس عادت کو پختہ کریں کہ لوگوں کی کامیابی پہ انکو گلے لگا کے مبارکباد دیں، تالی بجائیں، سلیوٹ کریں، تعریف کریں اوردعا دیں۔
یقین مانیں دعا اتنی بڑی طاقت ہے کہ جب ھم کسی کے لیے دعا کرتے ہیں تو ہمارے دل سے تمام منفیت جیسے دھل جاتی ہے اس کی طرف سے دل گداز ہوتا ہے نرم ہوتا ہے اور اپنے دل کو راحت اور خوشی ملتی ہے۔
بد دعا دینا دل کو سخت کرتا ہے دل میں منفیت کو خوراک ملتی ہے اور وہ پنپنے لگتی ہے۔ منفیت پھلتے پھولتے ہمارے دل کے سکون، اطمینان اور ہماری خوشیوں کو کھا جاتی ہے۔
ہمیں اپنے جذبات پہ پہلے دن سے بند باندھنے ہیں ورنہ منفیت ایسا ریلا ہے جو بہت جلد ہمیں بہا کے تباہی کے دہانے پی لے جاتا ہے اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا۔
اپنے بچوں کو بچپن سے دعا دینا سیکھائیں۔
سڑک پہ جاتے کسی کی اچھی گاڑی دیکھیں یا کسی کا شاندار گھر تو با آواز بلند دعا کریں اللہ اسکو خوشیوں میں برتنا نصیب کر۔
کسی کا بچہ دیکھیں تو اس کے اچھے نصیب کی دعا کریں۔
کسی کی کامیابی کا سنیں تو مبارک باد دیں خوشی کا اظہار ریں۔
منفی خیال آ بھی جائیں تب بھی انہیں مثبت راستہ دکھلائیں۔
اللہ ہم سب کو حاسدوں سے ، ان کے شر سے اور خود کو حسد میں مبتلا ہونے سے اپنی امان میں رکھے۔
آمین ثم آمین یارب
جـͣوͥیͬــͥــͣرᷱیـᷧــᷯـــہ ســاجͩــͥـᷯــⷶــ᩺ــد
3 اگست 2022
نشر مکرر
13 جون 2023

June 09, 2023

Govt. of Pakistan Traying to Fix Imran Khan as Zulfiqar Ali Bhutto

 
ایک اور بھٹو نہیں چاہیے

نواب محمد احمد خان قصوری پیپلزپارٹی کا ایک انقلابی ایم این اے تھا جو بھٹو کے انقلابی منشور سے متاثر ہو کر اس کے ساتھ شامل ہوا۔ لیکن ایسے لوگ جلد ہی مایوس ہوجاتے ہیں اور قصوری کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کے جلد ہی بھٹو کے ساتھ اختلافات ہوگئے اور وہ غالباً اسمبلی کا واحد ایم این اے تھا جس نے 73 کے آئین کے مجوزے پر دستخط سے انکار کردیا تھا۔ قصوری پیپلزپارٹی کا وہ واحد رکن اسمبلی تھا جو اسمبلی میں کھڑا ہو کر بھٹو کی پالیسیوں پر تنقید کیا کرتا تھا۔ بھٹو نے اسے ان ڈائریکٹ طریقے سے وارننگ دی، پنجاب کے وزیراعلی معراج خالد کے زریعے اسے سمجھانے کی بھی کوشش کی لیکن وہ باز نہ آیا۔
پھر 1974 میں ایک رات وہ اپنے نوجوان بیٹے احمد رضا قصوری کے ساتھ رات کو ایک شادی کی تقریب سے واپس آرہا تھا کہ شادمان گول چکر کے قریب دو گاڑیوں مین سوار لوگوں نے اس پر گولیاں برسا دیں۔ اس کے بیٹے نے گاڑی چلا کر اسے ہسپتال لے جانے کی کوشش کی لیکن وہ جانبر نہ ہوسکا۔
نواب قصوری کا بیٹا احمد رضا قصوری وہاں سے سیدھا وقوعے کے علاقے پہنچا اور اچھرہ تھانہ میں اپنے باپ کے قتل کی ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کی۔ جب تھانیدار نے اس سے ملزم کو نامزد کرنے کو کہا تو احمد رضا قصوری نے وزیراعظم بھٹو کا نام لے دیا۔ تھانیدار کی ٹانگیں کانپن لگیں اور اس نے فوراً اپنے افسر سے رابطہ کرکے مشورہ مانگا۔ افسر نے آئی جی پولیس کو کال کی، آئی جی نے گورنرپنجاب مصطفی کھر سے رابطہ کیا اور کھر نے سیدھے وزیراعظم بھٹو کو کال ملا کر مشورہ مانگا۔ بھٹو اس وقت اقتدار کی مضبوط کشتی میں سوار تھا، نواب قصوری کے قتل کے سیاسی اثرات زائل کرنے کی خاطر اور کچھ اوور کانفیڈنٹ ہونے کی وجہ سے اس نے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے کھر سے کہا کہ اسے میرے خلاف ایف آئی آر کاٹنے دو، اس سے معاملہ جلد ٹھنڈا ہوجائے گا اور قصوری خاندان زیادہ شور بھی نہیں مچا پائے گا۔
تھوڑی دیر بعد تھانیدار کو گرین سگنل مل گیا اور اس نے وزیراعظم بھٹو کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی۔ اس کے 3 سال بعد جنرل ضیا نے بھٹو کا تختہ الٹ کو اقتدار سنبھال لیا لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ بھٹو کے خلاف کرپشن یا بے قاعدگی کا کوئی ثبوت موجود نہ تھا، بھٹو نے نہ تو کبھی پلاٹس کی سیاست کی اور نہ ہی اپنے لئے قرضے معاف کروائے اور نہ کبھی کوئی آفشور کمنی بنا کر منی لانڈرنگ کی۔
آجا کے جنرل ضیا کے پاس اچھرہ تھانے کی وہ ایف آئی آر ہی ہاتھ آئی، جو کہ داخل دفتر ہوچکی تھی۔ اس ایف آئی آر کو صاف کرکے دوبارہ نکالا گیا اور پھر یہ ایف آئی آر بھٹو کو پھانسی کے تختے تک لے گئی۔
آج پھر سے وہی کھیل جاری ہے ۔ عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد ان پہ ڈیڑھ سو سے زائد مقدمات درج ہو چکے ہیں لیکن کہیں بھی ان کے خلاف کرپشن ، اختیارات کا ناجائز استعمال یا کوئی ہیرا پھیری نہیں پائی گئی۔ ایک سال کی مسلسل کوششوں کے باجود عمران خان جیسے صادق و امین لیڈر کے خلاف کچھ بھی نہیں نکلا ۔ سیاسی مقدمات میں پیشیاں تو جاری ہیں لیکن کوئی ایک بھی ایسا کیس نہیں بنایا جا سکے جسکے تحت عمران خان کو اندر رکھا جا سکے۔ تھک ہار کر اسٹبلشمنٹ نے وہی کھیل رچا ہے جو بھٹو کے خلاف رچا گیا تھا ۔ عمران خان کے خلاف پوری زندگی میں کوئی مقدمہ درج نہیں تھا لہذا اس بار گیم پلان خود تیار کیا گیا۔ کوئٹہ کے ایک وکیل عبدالرزاق شر نے ان کے حکم پہ بلوچستان ہائیکورٹ میں عمران خان کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی پٹیشن دائر کی جس کی دو سماعتیں ہو چکی ہیں ۔ پلان کے تحت اس وکیل کو ایئرپورٹ روڈ پہ قتل کر دیا گیا۔ پھر نام نہاد وزیر اعظم کے معاون خصوصی عطاء تارڑ نے پریس کانفرنس کی اور فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو قاتل قرار دیا اور عمران خان کے خلاف اس قتل کا مقدمہ درج کرنے کا کہا ۔ اس کے بعد اس وکیل کے بیٹے نے عمران خان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروا دیا۔ جس عدالتی سسٹم میں شہید ارشد شریف کی والدہ اور عمران خان کو اپنے اوپر ہوئے قاتلانہ حملے میں میجر جنرل فیصل نصیر کو نامزد کر کے مقدمہ درج کرنے کی اجازت نہیں ، وہی سسٹم ایک شہری کو سابق وزیر اعظم کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے مقدمہ درج کرنے کی سہولت دیتا ہے۔ یہ انتہائی گھسا پٹا سکرپٹ ہے جس کے تحت عمران خان کو عمر قید یا سزائے موت کی جانب دھکیلنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ اسٹبلشمنٹ آج بھی انھی پرانے ہتھکنڈوں سے مقبول لیڈروں کی گردن میں شکنجہ کسنے میں لگی ہے لیکن اس عرصہ میں بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں۔ سوشل میڈیا اور اوورسیز پاکستانیوں کے ذریعے اس ناپاک منصوبے کو بھی ان کی بدترین ناکامی کی جانب دھکیلنا ہو گا ۔ یہ اپنی جاہلیت کے تحت ایسے سنگین اقدامات کی جانب بڑھ رہے ہیں!!! بقلم خود بابا کوڈا

 

Total Pageviews