November 16, 2018

عمران خان کی ٹیم پر بے جا تنقید کیوں!




سرفرازوہیں ٹھہریں گے تواستقامت اورصبرسے موجودہ طوفان میں کھڑے رہینگے۔اس لیے کہ جس بات کا ڈرتھا،خوف تھابلکہ کئی بزرجمہروں کویقین تھا،ملک اس حادثہ سے بچ گیاہے۔اقتصادی طورپرڈیفالٹ سے مکمل محفوظ۔ یہ عمران خان کی پہلی کامیابی ہے جواس نے خاموشی سے حاصل کی ہے اوراس پرزیادہ بحث بھی نہیں کرتا۔
پرانے کھلاڑیوں نے خاص منصوبہ بندی کے تحت ملک کوقرضوں میں گروی تورکھا ہی تھامگرمنصوبہ کچھ اور تھا۔ اس منصوبہ میں چندغیرملکی طاقتیں بھی شامل تھیں۔ بساط اس اَمرکی بچھائی گئی تھی کہ اگر پنتیس سال سے اس ملک کی شاہ رگوں سے خون پینے والے کامیاب ہوگئے تو فوری طورپرڈھول ڈھمکے کے شورمیں چپ کرکے حددرجہ سخت شرائط پرسخت قرض لے کرچندبڑے بڑے منصوبے جن میں سے ایک دو تو جاری بھی ہیں،انھیں کھلونابناکرعوام کا دل بہلایاجائے گا۔
لوگوں کودوبارہ بیوقوف بنایاجائے گا۔جیسے لاہور کی اورنج ٹرین اورشائدایک دواسی قبیل کے غیرسنجیدہ مہنگے ترین ترقیاتی اقدام۔ان منصوبوں میں ملک کی خیر مطلوب نہیں تھی۔پہلے بھی عرض کیاہے کہ انکواپنی جیت کا یقین تھا۔ہرادارے میں انھی کے پروردہ لوگ موجود تھے۔الیکشن میں ہارنابقول ان کے ممکن ہی نہیں تھا۔ مگر خدا کی مرضی بالکل مختلف تھی۔انتہائی بے ترتیبی سے الیکشن لڑتے ہوئے عمران خان کی جیت ہوگئی۔ ایک ایساکام، جوالیکشن سے چارپانچ ماہ قبل سوچابھی نہیں جاسکتا تھا۔
خیر یہ عوام کی مرضی تھی کہ ووٹ اسکوحددرجہ زیادہ پڑے۔آل شریف کے پیروں سے زمین نکل گئی۔یہی وہ وقت تھا جب پرانے کھلاڑیوں نے بوسیدہ کھیل کھیلا۔ دیر سے نتائج آنے کودھاندلی قراردیدیا۔حالانکہ پچھلے تمام الیکشنوں میں کبھی بھی کوئی نتیجہ وقت پرموصول نہیں ہوا۔ مسلم لیگ ن کے جیتے ہوئے کسی بھی الیکشن کے نتائج کومثال بناکر سامنے رکھ لیجیے۔دلیل سے عرض کرتا ہوں۔ چند سیاسی قوال حاصل کیے گئے۔قوالی کامصرع تھاکہ نادیدہ ہاتھ، پی ٹی آئی کی حکومت کولے کرآئے ہیں۔جب اسکابھی کوئی ثبوت نہ مل سکاتوپھردوتین ہفتوں کے لیے خاموشی چھاگئی کہ اب کیا کریں۔
چنانچہ ٹھیک دوماہ پہلے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت یہ بات پھیلانے کا عزم ہواکہ عمران خان کی ٹیم ناتجربہ کار،نااہل اورنکھٹوہے۔چند گروپ جن کو پیسے ملنے بندہوچکے تھے،انھیں سرمایہ بھی مہیا کیا گیا۔ دوماہ سے قیامت برپا کر دی گئی کہ ہائے ہائے،ملک بربادہوگیا۔تباہی مچ گئی۔ نااہل اورناتجربہ کارٹیم نے توملک کابیڑہ غرق کردیا۔
تحریک انصاف اس سازش کوموقعہ پرسمجھ نہ پائی۔اس کی ٹیم نے دوہفتے ضایع کردیے۔مگرجب معاملات کی سنجیدگی کا احساس ہواتوچوہدری فواد اور دیگر حضرات نے ترکی بہ ترکی جواب دیاجوجارحانہ بھی تھا تو بہت حدتک حقائق پر مبنی بھی۔ن لیگ کواس رویہ کی توقع نہیں تھی۔لہٰذااب انھوں نے روش تبدیل کرکے تحریک انصاف کے وزراء پر کیچڑاُچھالناشروع کردیا ہے۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ مگراگلے پندرہ بیس دن میں یہ معاملہ بھی ٹھنڈاپڑجائے گا۔
وزیراطلاعات کاعہدہ حددرجہ مشکل ہے۔ اگر دیکھا جائے توہروزیراطلاعات بھنورکی آنکھ میں زندگی گزارتا ہے۔فوادچوہدری کے ساتھ بالکل یہی ہورہاہے۔میری دانست میں وہ اپناکام سنجیدگی سے کررہاہے۔معاملات کو ان کے حقیقی تناظرمیں بیان کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ دو مثالیں لے لیجیے۔
وزیراطلاعات کایہ کہناکہ بڑے بھائی یعنی نوازشریف کی بے قاعدگیوں کی تحقیقات کے لیے پی اے سی کمیٹی کی صدارت چھوٹے بھائی یعنی شہباز شریف کو نہیں دی جاسکتی۔یہ اُصولی طورپرحددرجہ درست بات ہے۔پوری دنیامیں ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ سیاسی نظام میں ایک فردکی مالی بدعنوانی کواُسی خاندان کاایک فرد پرکھے۔لازم ہے کہ اسکارویہ حددرجہ جانبدارانہ ہوگا۔ اس اُصول کے تحت فواد چوہدری ٹھیک کہہ رہاہے۔ اس معاملے میں پی ٹی آئی کی پالیسی مکمل طورپردرست ہے۔
دوسری مثال، فوادچوہدری کایہ کہناکہ اگرنیب،آل شریف کے خلاف تحقیقات کرناختم کردے توقومی اورپنجاب کی صوبائی اسمبلی میں ہنگامہ ختم ہوجائے گا۔یہ بات بھی بالکل درست ہے۔آج اگر شہباز شریف اوربڑے بھائی کواین آراومل جائے۔ان کے خلاف تحقیقات روک دی جائیں۔ نیب برادرخوردکوچھوڑدے تو جمہوریت کے لیے ہرخطرہ ختم ہوجائے گا۔نکتہ ہی یہی ہے۔اگرعمران خان ،آل شریف کے معاشی جرائم سے صرفِ نظرکرلے،توسارامعاملہ ٹھیک ہوجائے گا۔مگرعمران این آراو ہونے نہیں دے رہا۔
اصل تکلیف بھی یہی ہے۔سامنے فواد چوہدری ہے کیونکہ بہرحال حکومت کانقطہِ نظراسی نے بیان کرنا ہے۔ لہذ اپرانے تمام کھلاڑی،فوادچوہدری کے خلاف کمال واویلا فرمارہے ہیں۔پرانے سیاسی کھلاڑی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی ٹیم بچوں پرمشتمل ہے۔یہ تو ناتجربہ کارہے۔یہ توکام کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ یہ منصوبہ بندی مکمل طورپرجاری وساری ہے۔ پر اب یہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ رہی ہے۔ پرانے سیاسی گرگوں کو معلوم ہوچکاہے کہ وہ موجودہ حکومت کوگرانھیں سکتے۔
چلیے،تھوڑی دیرکے لیے عمران خان کی ٹیم کاسرسری ساجائزہ لے لیتے ہیں۔اس کے ارکان پر طائرانہ نظرڈال لیتے ہیں۔شاہ محمودقریشی سے بہتر وزیرخارجہ پچھلے دس پندرہ سال سے نہیں آیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت میں اس کی بہترکارکردگی سے گھبراکر”گرو”نے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔مگرشاہ محمود،پیپلزپارٹی ہی چھوڑگیا۔ اس کا تمسخر اُڑایاگیا۔”گرو”نے کہاکہ وہ کبھی سیاست میں واپس نہیں آئیگا۔توقعات کے برعکس شاہ محمود قریشی دوبارہ الیکشن جیت گیا۔شاہ محمودسفارتی سطح پر حد درجہ فعال انسان ہے۔
اس کے مسلسل مربوط دوروں سے پاکستان کا نقطہِ نظروضاحت سے دنیاکے سامنے آرہاہے۔ہمارے دوستوں کے دل وسیج رہے ہیں۔ملتان اورتحریک انصاف کی اندرونی سیاست میں شاہ محمودکاکیارول ہے،اس پر دورائے ہوسکتی ہیں۔مگرسفارتی سطح پروہ حددرجہ کامیاب ہے۔کم ازکم، سرتاج عزیزاورفاطی سے ہزاروں نوری سال بہتر۔ خاموشی سے اپناکام کررہاہے ۔چلیے،اسے بھی چھوڑ دیجیے۔ کیا اَسد عمر وزارت خزانہ اسحاق ڈار سے بہترنہیں چلا رہا۔بالکل چلا رہا ہے۔مشکل ترین صورتحال میں اَسد عمر، نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایاہے۔ورنہ امریکی ڈالر دو سو روپے سے بھی بڑھ چکاہوتا۔مہنگائی کا بڑھنا تو کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔ اگر پاکستان اقتصادی طورپر دیوالیہ ہو جاتا، تو کھانے پینے کی اشیاء کم ازکم دوسے تین ہزار گنا بڑھ جاتیں۔
پیٹرول کی قیمت کیاہوتی؟سوچتے ہوئے بھی خوف آتاہے۔یہ بات بھی درست ہے کہ چند اقتصادی فیصلے غیرمقبول ہوئے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ مجبوری میں کیا گیا۔صرف اورصرف دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے۔ یہ بھی درست ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی بڑھی ہے۔مگربتائیے جس ملک میں کوئی امیرآدمی ٹیکس دینے کے لیے تیارنہیں۔طاقتورطبقہ ایف بی آرکواپنی جیب میں ڈال کررکھتاہے۔وہاں ان ڈائریکٹ ٹیکس کے علاوہ دوسراراستہ کون سارہ جاتاہے۔
قوی یقین ہے کہ چھ ماہ کے اندر اندر، مہنگائی کم ہوجائیگی۔اَسدعمراس وقت اپنی بساط سے بڑھ کرمحنت کررہاہے۔آئی ایم ایف کی کڑی شرائط بھی تسلیم نہیں کررہا۔کیایہ سب کچھ اسحاق ڈار صاحب کررہے تھے۔ دل پرہاتھ رکھ کر بتائیے۔ کیا پاکستان میں کسی کوبھی معلوم تھا کہ اسحاق ڈار،کس دھڑلے سے ملک کی معیشت کو برباد کررہاہے۔گروی رکھ رہاہے۔ پیسہ بنارہا ہے۔ اَسد عمر کا مقابلہ اسحاق ڈار سے کرنا غیرمناسب ہے۔ اَسدعمرکے کردار پرکرپشن کاکوئی داغ نہیں ہے۔ یہ بذات خودایک محترم بات ہے۔
آگے بڑھیے۔کیاشفقت محمودکام نہیں کررہا۔ وزارت داخلہ کاوزیرمملکت فعال نہیں ہے۔صرف اور صرف میرٹ پربات کیجیے۔عمران خان اپنی ٹیم کے ساتھ میدان میں جم کرکھڑاہوچکاہے۔لازم ہے،چندکھلاڑی دوسروں سے بہترہونگے۔آہستہ آہستہ کام نہ کرنے والے،ٹیم سے باہر ہوجائینگے۔ کیا وزراء کی کارکردگی پر پہلے کبھی بھی کڑی نظررکھی گئی تھی۔بڑے میاں صاحب تو وزراء سے ملناتک پسند نہیں کرتے تھے۔ان کی کارکردگی کا جائزہ کیسے لیتے۔ ان کے مصاحبین کسی کے متعلق جوکچھ بھی فرما دیتے۔میاں صاحب اسی انفارمیشن کی بنیاد پر اپنا رویہ ترتیب دیتے تھے۔ ویسے ایک ایساشخص جوقومی اسمبلی میں جانااپنی توہین سمجھتا تھا،جوسینٹ کوجوتے کی نوک پر رکھتاتھا،جووزراء سے دور رہتا تھا۔ جسکو ملنے کے لیے ایم این اے سفارشیں کرواتے تھے۔
کیا واقعی اسکاموازنہ موجودہ وزیراعظم سے ہوناچاہیے جوہرہفتہ کابینہ کی میٹنگ بلاتا ہے۔مشاورت کرتا ہے۔ درست فیصلے کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اداروں کے ساتھ توازن رکھنے کی عملی پالیسی اپناتا ہے۔کیاواقعی عمران خان پرتنقید کرنی چاہیے کہ وہ تین ماہ میں کابینہ کے درجنوں اجلاس کیوں بلاچکا ہے۔یہ بھی کامل بات ہے کہ اس کے سارے فیصلے درست نہیں ہیں۔لیکن کون سی حکومت ہے۔ جسکے سو فیصدفیصلے درست ہوں۔ہاں،ایک اور چیز پر بھی توجہ دیجیے۔اس حکومت میں کرپشن کاایک بھی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔
عمران خان،ایک ہیڈ ماسٹر کی طرح سختی کررہا ہے۔ کسی وزیرکی جرات نہیں کہ مالیاتی بے ضابطگی کرے۔آل شریف کوخوف ہی یہ ہے کہ اگرعمران خان پانچ سال حکومت کر گیا تو پھر انکاکیابنے گا۔اگرملک کی اقتصادی صورتحال درست ہوگئی توپھران کے اخباروں کی حدتک ترقیاتی کرشموں پرکون یقین کریگا۔قرائن تویہی ہیں کہ عمران خان کام بھی کرتارہیگااورپانچ سال بھی پورے کریگا۔ باقی غیب کاعلم توصرف خداکے پاس ہے۔

November 10, 2018

Amazing Response On Supreme Court's Asia Bibi Case Decision Mufti Rafi Usmani's



کراچی (اسٹاف ر پو ر ٹر) مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے قوم کے نام ایک کھلے خط میں کہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کی نظر ثانی کے بغیر آسیہ مسیح کو ملک سے باہر بھیج دیا گیا تو کچھ نہیں پتہ کہا پاکستان میں کتنابڑا طوفان اُٹھے گا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے وطن کے حالات ایسے ہیں کہ ایک مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ دوسرامسئلہ آجاتا ہے، توہین رسالت کا مسئلہ اس وقت طوفان بن کر اُٹھا ہے اور اس میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی عظمت، انکی محبت، ان سے عقیدت،ان سے مومنین کا عشق، تو ایسی چیز ہے کہ اس کو بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، ہم میں سے کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہو گاجو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس،آپ کی ناموس کواپنی جان سے زیادہ عزیز نہ سمجھتا ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جو میں نے ابھی پڑھایہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی مومن نہیں ہو گا، اس کا ایمان کامل نہیں ہو گا یہاں تک کہ میں اس کےنزدیک تمام لوگوں سے زیادہ افضل ہو جاؤں،حتی کہ اپنی اولاد سے، اور اپنے ماں باپ سے، اور تمام انسانوں سے زیادہ عزیز ہو جاؤں۔چنانچہ ہر مومن اپنے لئے اسی اعزاز سمجھتا ہے کہ اسکے ماں باپ،بہن بھائی، بیوی بچے، دوست احباب سب ناموس رسالت پر قربان ہو جائیں، ابھی جو فیصلہ آیا، اس سے لوگوں کے دل دکھے ہوئے ہیں، ہمارا بھی دل دکھاہوا ہے، زخمی ہے،جس سے یہ مسئلہ اُٹھا ہے اس مسئلہ کو حل کرنے کے جو راستے بنتے ہیں وہ پیش بھی کئے گئے ہیں لیکن ان پر ابھی تک عمل نہیں ہو رہا، ہم نے پچھلے جمعہ کو بھی عرض کیا تھا، پھر وہ اخبارات میں بھی آیااور پھر اس پرعمل بھی شروع ہوا، کہ اس مصیبت کا حل یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ کیا ہے اس نے کچھ دلائل دئیے ہیں ، بے دلیل بات نہیں کی، فیصلے میں شرعی قانون کے حوالوں سے بات کی اور بہت سارے اہم نکات انہوں نے اُٹھائے ہیں جو قابل غور ہیں علماء کیلئے بھی،فقہاء کیلئے بھی، محدثین کیلئے بھی، ماہرین قانون کیلئے بھی،ان پر غور کیا جائے۔

کوئی بھی کسی شخص کے بارے میں کہہ دے کہ اس نے چوری کی ہے تو فوراً اسکے ہاتھ نہیں کاٹ دئیے جاتے بلکہ جو حدود جاری ہوتی ہیں انکی بڑی پابندیاں ہوتی ہیں کیونکہ یہ بھی ہدایت ہے کہ جتنا ہوسکے ملزم کو حد سے بچاؤ۔یعنی ذرا سا شبہ بھی اگر پیدا ہو جائے تو حد نہ لگائی جائے، ہاتھ نہ کاٹے جائیں، آپ ایک مثال سے سمجھیں، فقہاء نے لکھا ہے کہ چوری جس سے ہاتھ کٹتے ہیں، وہ ہر چوری نہیں ہے، کہ جیب میں سے کسی نے کچھ نکال لیا، اس کے ہاتھ نہیں کٹ جائیں گے بلکہ اس کے کچھ قوانین ہیں، خفیہ طور پر محفوظ جگہ سے کسی کا مال کوئی نکالے، جو مالک نے گھر کے اندر یا دوکان وغیرہ کے اندر محفوظ جگہ میں رکھا ہوا ہے، وہاں سے کوئی چوری کر لے، اس کے تو ہاتھ کٹیں گے بشرطیکہ گواہوں سے ثابت ہو جائے، کم از کم دو گواہ یہ گواہی دیں، کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے اس شخص کو مال باہر نکالتے ہوئے دیکھا ہے، اس میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو پورے یقین سے گواہیاں دیں، گواہوں کے بیان میں تضاد نہ ہو، اختلاف نہ ہو، متفقہ بیان ہو، تو ہاتھ کاٹ دئیے جائیں گے، لیکن اگر دو آدمی چور ہیں، ایک باہر کھڑا ہے، ایک اندر ہے، اس نے چوری کا مال نکال کردروازے پر رکھا، دوسرے نے دروازے سے اُٹھا لیا، فقہاء کہتے ہیں کہ اس نے وہ چوری نہیں کی جس سے ہاتھ کٹتے ہیں کیونکہ وہ چوری جس سے ہاتھ کٹتے ہیں وہ وہ ہے جس میں چور محفوظ جگہ سے مال باہر نکالے۔

یہاں ایک آدمی نے مال باہر نہیں نکالابلکہ دروازے پر رکھا ہے، اور دوسرے نے اُٹھایا ہے اس نے اندر سے نہیں نکالا،بلکہ باہر سے اُٹھایاہے تو نہ اس کے ہاتھ کٹیں گے نہ اُسکے، مجرم کو شبہ کا فائدہ دے دیا جائے گا، یہ علیحدہ بات ہے کہ جتنا جرم ثابت ہوا ہے اسکے مطابق کچھ اور سزا اسے ملے گی، پاکستان میں جنرل ضیاء الحق صاحب مرحوم کے زمانے میں جب حدود آرڈی نینس نافذ ہو رہا تھا، اس وقت یہ مسائل ہمارے سامنے تھے،جس پر مشورے ہو رہے تھے،اس میں یہ بات بھی پیش نظر تھی کہ اگر ہم نے اس میں احتیاط نہ برتی تو اسلامی قوانین بدنام ہو جائیں گے کہ ذرا سا شبہ ہوا اس پر ہاتھ کاٹ دیا، تو اس طرح تودنیا میں اسلامی قوانین بدنام ہو جائیں گے، اسلام کا قانون تو محکم قانون ہے اس میں کوئی شبہ نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قانون دیا ہے وہ بڑا مستحکم ہے،اس کی ایک حد ہے، اس کا ایک احترام ہے، اس میں کوئی غلطی نہیں، بنانے والا اللہ رب العالمین ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن اس قانون کے مطابق فیصلہ کرنے میں غلطی ہو سکتی ہے، گواہی دینے والوں سے غلطی ہو سکتی ہے، جرم کے ثبوت میں شک پیدا ہو سکتی ہے ذرا سا شبہ ہو جائے تو سزا ساقط ہو جائے گی، یہ مشہور قاعدہ ہے، اسلامی قانون ہے کہ شبہے کا فائدہ ملز م کو پہنچتا ہے،

شبہے کی وجہ سے اس کی سزا کم ہو جائے گی یا ختم ہو جائے گی۔ ہماری سپریم کورٹ کے فیصلوں میں یہی نکتہ اُٹھایا گیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم ان کو کافر نہیں سمجھتے، وہ بھی مسلمان ہیں ان کے بارے یہ گمان کرنا آسان نہیں ہے کہ ان کے دلوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جاگزیں نہیں ہو گی اور انہوں نے تو کہا بھی ہے کہ ہماری تو جانیں قربان ہو جائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس پر، لیکن ہم فیصلہ قانون کے مطابق کریں گے، یہ اور بات ہے کہ جج کی رائے میں غلطی ہو جائے، غور وفکر میں غلطی ہو جائے تو اس قسم کی غلطیا ں ہو جایا کرتی ہیں، انہوں نے ملزمہ کو شبہے کا فائدہ دیا اور ایک جگہ نہیں کئی جگہ ثبوت میں شبہے نکالے کہ یہاں ثبوت میں یہ نقص ہے، یہاں یہ شبہ پیدا ہوا ہے، ہم کہتے ہیں وہ باتیں یقیناً قابل غور ہیں جہاں شبہ پیدا ہوا ہے، اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ شریعت کا کوئی بھی قانون ہو اسلام ہمیں اسکی اجازت نہیں دیتا کہ اُس پر عمل کرنے یا کروانے کیلئے ہم جذبات میں بہہ جائیں اور ہم پوری تحقیق کے بغیر، کسی کو جان سے مار دیں،

سپریم کورٹ نے فیصلہ جو کیا ہے، یوں ہی آنکھیں بند کر کے نہیں کردیا، بلکہ اس نے جو باتیں لکھی ہیں وہ قابل غور ہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ ساری صحیح ہیں ان سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی، لیکن ہم ان کو قابل غور سمجھتے ہیں، غور کرنا چاہیے، بغیر غور کئے انتہا پسندانہ فیصلہ بھی شریعت کے خلاف ہے، ہم نے پچھلے جمعہ کے اجتماع میں جو بات کہی تھی، وہ اس کا حل تھا اور وہ یہ کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریکہ سپریم کورٹ کی اس فیصلے پر نظرثانی کی جائے، نظرثانی کا قانون یہ ہے کہ اس فیصلے کا جائزہ لیا جائے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کس حد تک صحیح ہے کس حد تک غلط ہے، کہاں ان سے غلطی ہوئی ہے، کہاں انہوں نے صحیح کہا ہے؟

سپریم کورٹ ہی سے کہا جائے کہ وہ اس پر نظرثانی کرے؟ ہم نے یہ عرض کیا تھا کہ لارجر بنچ قائم کی جائے۔ اگر سپریم کورٹ نظر ثانی کے بعد بھی اس سزا کو برقرار رکھتی ہے تو لازم ہے کہ مجرمہ کو قتل کریں، اس کے اندر سستی کرنا ہمارے لئے حرام ہو گا، لیکن اگرسبھی مل کر اس پر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ جرم کے ثبوت میں شبہات ہیں اور جرم پوری طرح ثابت نہیں ہوا تو اس کو رہا کرنا ہو گا، یہ بھی شریعت کا قانون ہے پھر شریعت کے قانون کو سر آنکھوں پر تسلیم کرنا ہو گا، ہم کون ہوتے ہیں اپنی طرف سے فیصلہ کرنے والے، فیصلہ کرنے والا تو اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ آسیہ مسیح کو رہا کر دیا جائے گا۔ اگر سپریم کورٹ کی نظر ثانی کے بغیر آسیہ مسیح کو ملک سے باہر بھیج دیا گیا تو کچھ نہیں پتہ کہا پاکستان میں کتنابڑا طوفان اُٹھے گا۔

November 03, 2018

Sub Continent Muslim Rullers and Basic Needs as Education, Hospitals etc.




لوگ عموما 'دور تاریکی' سے واقف ہیں کہ یہ یورپ کا پسماندہ ترین دور تھا۔ میرا اپنا یہ خیال ہے کہ اسی طرح کا ایک دورمسلمانانِ برصغیر پاک ہند پر بھی گذرا ہے۔
یہ دور ہے برصغیر میں وسطی ایشیاء کے مسلمان حکمرانوں کے اقتدار کا دور جو بابر سے شروع ہوا اور بہادر شاہ ظفر پر ختم ہوا۔ کچھ لوگ اس دور کو کھینچ کر محمد بن قاسم تک لے جاتے ہیں اور کچھ صرف 1000 سال تک۔ متفقہ  تاریخ یہ ہے کے یہ مسلمانوں کا سنہری دور تھا۔ عسکری نکتہء نگاہ سے یہ تو درست ہے، لیکن اس دور میں فرد واحد حکمراں رہا اور فرد واحد ہی قانون سازی کرتا رہا۔ کسی مجلس شوری کے آثار تاریخ میں نہیں ملتے، بغور دیکھئے تو حالات کا تانا بانا کچھ اس طرح رہا کہ، برصغیر میں، اس دور میں کوئی علمی ترقی نہ ہوئی، کوئی ایجاد قابل ذکر نہیں ہے، کوئی قابل ذکر درسگاہ، کوئی یونیورسٹی، کوئی شفا خانوں‌کا نظام، سڑکوں کا نظام، فلاحی نظام، گویا علمی ترقی جو مسلمانوں کا مشرق وسطیٰ میں‌طرہء امتیاز رہا، معدوم ہے۔ اس کم علمی و تاریکی کی بڑی وجہ کیا ہے، میں بے بہرہ ہوں۔ اور اس کا الزام کس کے سر ہے؟ بتانا بہت مشکل ہے۔
البتہ سر سید احمد خان نے جس ادارے کی ابتداء کی اور جس نظام کی بنیاد ڈالی، اس سے اوریجنل تعلیم یعنی سیاست، معاشیت، ثقافت، شہریات، علم ھندسہ (انجینئیرنگ) و ریاضی کی تعلیم عام ہوئی اور برصغیر میں تھوڑے وقت میں ہی مسلمانوں نے جس نشاط ثانیہ کی طرف پیش رفت شروع کی، اس کی رفتار دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں گذشتہ 60 سال میں خصوصا اور قیام علیگڑھ کے وقت سے خصوصاَ نہیں ملتی۔
اس لئے جو طبقہ سرسید کی لائی ہوئی تبدیلی کی مخالفت سرسید کی کردار کشی اس زمانے میں کرتا رہا، اور روایتی مدرسہ کو جدید مدرسہ پر ترجیح دیتا رہا، اور جدید تعلیم کی مخالفت کرتا رہا، اس طبقہ کو میں فطری طور پر اس عصرِانحطاط کا ذمہ دار ٹہراتا ہوں۔ اور اسی وجہ سے اس دور کو 'دور مولویت' کہہ کر اس کا مقابلہ یورپ کے دور تاریکی سے کرتا ہوں۔ اس موازنہ کی وجہ علم کی روشنی کی کمی، علمی انحطاط، روایئتوں کا فروغ، توہم پرستی کا فروغ، ایجادات کی کمی اور اس کے نتیجے میں آزادی سے غلامی میں داخلہ ہے۔
اس 'تاریک دور مولویت' کو میں 'یوروپی دور تاریکی' سی بدتر کیوں قرار دیتا ہوں، اسکی وجہ علم کے نام پر تاریکی کو فروغ‌ دینا ہے۔اور اس لئے بھی کہ اس دور میں تعلیم عظیم یعنی قران سے سنگدلانہ اختراعات کا سلسلہء غیر متناہی شروع ہوا۔ کلام الہی سے جنوں‌کی تسخیر، جنوں کی مدد سے عورتوں کو اڑوا کر منگوانا، علم الہی کو پھونک کر علاج کرنا، بے بسوں پر ظلم، اور اسی طرح کی دوسرے توہمات کو علم قران قرار دینا، علم کی نام سے تاریکی کے فروغ کی ادنیٰ مثالیں ہیں اور کچھ لوگوں کے عقیدہ میں اب تک اس قدر راسخ ہیں کہ دل کانپ اٹھتا ہے۔ مولویت اس دور میں عروج پر رہی۔ مولویں‌کی کوشش تھی کہ درپردہ علم و حکومت ان کے اپنے ہاتھ رہے، چاہے بادشاہ کوئی ہو۔ درسگاہیں صرف ان لوگوں کے لئے محدود تھیں جو ان کے "اپنے" خیالات سے متفق تھے۔ مولوی کا اپنا خیال تھا کہ وہ دین و علم کی خدمت کر رہا ہے لیکن وہ تمام مسلمانوں کو پسمانڈگی کی طرف دھکیلتا رہا۔ کوئی ایسی کوشش جو کسی دوسری درسگا کی ہوئی، مولوی اس کی راہ میں رکاوٹ‌بنا رہا، حتی کہ کسی بھی درسگاہ کی کوشش کو حکومتی زور و طاقت سے کچلتا رہا۔ یہی رکاوٹ سر سید احمد خان کو بھی پیش آئی، جب علی گڑھ یونیورسٹ کے قیام کا وقت آیا اور اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ مولویوں نے ایک نظریاتی جنگ کی ابتداء کی اور سرسید کی کردار کشی اپنے پرانے ہتھکنڈوں سے کرنی شروع کردی۔ جس میں کفر کا فتوی، تارک دین ، تارک حدیث، تارک قرآن اور تارک کے سنت کے فتاوی بہ آسانی ملتے ہیں۔

مولویت کو سب سے بڑا خطرہ کسی بھی قسم کی سند سے تھا۔ اب تک وہ خود ہی قوانین بناتے آرہے تھے، جس کے گواہ، بے تحاشا فتاوی ہیں۔ لیکن کسی دوسری قسم کی سند کا مطلب تھا کہ تعلیم یافتہ افراد اپنا حصہ قانون سازی، سیاست، اور معاشرے کے دوسرے حصوں میں مانگیں گے۔ یہی ہوا بھی اور مولویت کی اولیں شکست کے بعد ہی ایک مسلم حکومت کے آثار بر صغیر پاک و ہند میں نظر آنا شروع ہوگئے۔ مولویت کی اس استحصال کو برصغیر کی کسی قوم بشمول مسلمانوں نے معاف نہیں کیا اور نئی بننے والی حکومت میں ان مولویوں کو کوئی حصہ نہیں دیا کہ مولویت معاشرے کے لئے ایک زہر قاتل ہے۔ اور مذہب کے نام پر ایک مذموم عزائم سے بھرپور سیاسی نظام کا نام ہے۔

آسانی کے لئے تاریخ‌ برصغیر میں نمایاں کارنامے:
حرم سراء کے لئے محلوں کی تعمیر۔
مال کی حفاظت کے لئے قلعوں کی تعمیر۔
حکومت کی حفاظت کے لئے چھاونیوں کی تعمیر۔
فرد واحد کی حکومت کے نظریاتی دفاع کے لئے ایک مذہبی ان۔فراسٹرکچر کا قیام جو کہ حکومت کے لئے زیادہ منافع بخش اور عوام کے لئیے سخت تکلیف دہ سزاؤں پر مشتمل۔
ایکسٹرا جیوڈیشیل طریقہ سے مقدمات کی ہینڈلنگ۔
جنگوں سے بھرپور تاریخ۔

اس کے تاریخی حوالہ جات تو ہم سب کو زبانی یاد ہیں۔ کیا وجہ ہے کی ہماری تاریخ درج ذیل سے عاری ہے؟

جن خامیوں کی طرف اشارہ ہے، مسلمان قرون وسطی میں درج ذیل کار ہائے نمایاں انجام دے چکے تھے۔ ان میں سے، بابر سے ظفر تک علم کا ارتقاء اور قابل ذکر انسٹی ٹیوشنز کے قیام میں سرکاری اور حکومتی کوششوں کے بارے میں حوالہ جات سے بتائیے:

مشترکہ ہندوستان میں
چند بڑی یونیورسٹیوں‌کے نام؟
بڑے شفا خانوں کا نظام، ان کا وجود؟
ان دواؤں کی ایجاد و تعداد جو صحت و زندگی کی ضامن ہیں؟
عوامی دولت کے معاشرے میں‌نفوذ کے بڑے ادارے؟
نظام زکوۃ‌ اور غرباء کی فلاح کے ادارے؟
قرآن و سنت کی ترویج کے ادارے اور مدرسے؟
سائینسی، دفاعی اور دیگر ایجادات؟
صنعت و حرفت کی ترقی کے لیے کئے گئے انتظامات؟
نقل حمل کا نظام۔ (شیر شاہ سوری کی جی ٹی روڈ کو ہٹا کر)؟
عوام الناس کو درج بالاء مدوں‌ میں مشغول اور استعمال کرنے کے نظام؟
ملک گیر مالیاتی نظام؟
عوام کی فلاح و بہبود کی تعمیرات کے نظام کے فروغ کے ادارے؟
ملک گیر مکمل عدالتی نظام کی مثال؟
دفاعی آلات حرب اور کمیونیکشن کی ایجادات؟

یہ سب کچھ میرے لیے بھی اتنا تکلیف دہ ہے جتنا شاید آپ کےلئے کہ خود اپنی زریں تاریخ ہم پر عیاں ہے اور اس تاریکی کے نتیجے میں‌ 200 سالہ غلامی کی سزا بھی یاد ہے۔ اس کا سدباب کیسے ہوا، یہ بھی یاد ہے اور علم حاصل کرنے کی راہ میں کون سا فلسفہ رکاوٹ بنا یہ بھی یاد ہے۔
ذہن میں‌رکھئے کی یہ مجموعی تنقید آزردہ دلی اور برائی کے نکتہ نظر سے نہیں بلکہ خود آگہی کے لئے ہے کہ مولویت مسلمان کو کس پسماندگی میں دھکیل دیتی ہے۔ کہ معاشرے کا ہر فرد، ہرحصہ تاریکیوں میں‌ڈوب جاتا ہے۔ اور مزا یہ ہے کہ یہ سب اس مذہب کے نام پر ہوتا ہے جو دنیا میں نور کا گہوارہ ہے۔

تحریر: نامعلوم 

November 02, 2018

پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی توہین اور اس کا عمومی جائزہ




پیغمبر علیہ السلام کی توہین اور اس کا عمومی جائزہ
ترتیب/عبداللہ بن زبیر
پوری دنیا میں کوئی قانون اس لئے بنایا جاتا ہے کہ ریاستی نظام کو امن و امان سے چلایا جا سکے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جائے تاکہ آئندہ مجرم یا کوئی دوسرا بھی سزا سے نصیحت پکڑے اور جرم سے دور رہے۔
قانون پر عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا صرف اور صرف عدالت دے سکتی ہے۔
عوام صرف کسی جرم کی نشاندہی کر سکتی ہے،
جرم روکنے میں حکومت کی مدد کر سکتی ہے لیکن سزا دینے کا اختیار عام عوام کے پاس نہیں ہوتا اور جب ماورائے عدالت سزا عام شہری دینے لگیں تو یہ ایک سیدھا سیدھا جرم ہے اور دوسرا اس وجہ سے معاشرے میں شر پیدا ہوتا ہے اور سارا معاشرہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔
اگر کہیں ایسے حالات پیدا ہو جائیں جیسا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے تو اس صورت میں حکومت وقت کو خود بھی اور عام عوام کو بھی قانون پر سختی سے عمل کرنے اور کروانے کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ادارے اور حکمران نہ تو خود سو فیصد قانون پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی عوام سے کروا سکتے ہیں۔ جب کوئی مسئلہ بنتا ہے تو اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے عجیب عجیب بیان دے دیتے ہیں کہ فلاں قانون ٹھیک نہیں، فلاں شق تبدیل کی جائے ، یہ کیا جائے ، وہ کیا جائے وغیرہ۔۔
سوچنے کا مقام ہے کہ ہم پر ایسے حکمران بیٹھے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ دنیا کا کوئی ملک، کوئی قانون نبی تو دور کی بات ایک عام انسان کی توہین کی بھی اجازت نہیں دیتا اور تو اور کسی مجرم کو اس کے جرم کی سزا کے علاوہ مزید کوئی تکلیف دینے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔
ذرا سوچئیے ! دنیا کا کوئی بھی انسان اپنے نبی، پیغمبریا لیڈر کی توہین برداشت نہیں کرتا۔ مسلمانوں تو ایک طرف فرض کریں اگر کوئی ہندو یا کوئی دوسرا بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو کیا عیسائی یہ برداشت کریں گے؟
اگر کوئی مسلمان ہندؤں کے دیوتا کی توہین کرتا ہے تو کیا ہندو یہ برداشت کریں گے؟
ہر گز نہیں کریں گے اور کرنی بھی نہیں چاہئے
کیونکہ جب ہم اپنی توہین ہونے پر ہتک عزت کا دعوی کر دیتے ہیں تو پھر ان لوگوں جن کو انسانوں کی ایک جماعت عظیم ہستی سمجھتی ہے کی شان میں گستاخی یا توہین کسی صورت قابل قبول نہیں ہونی چاہئے۔
چاہے وہ ہستی مسلمانوں کی ہو یا پھر کسی بھی مذہب کی ہو۔ کسی کی بھی توہین قابل قبول ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔
یہاں ایک بات یاد رہے کہ نظریات و عقائد سے اختلاف اور چیز ہے اور توہین و گستاخی اور چیز ہے۔
فرض کریں اگر یہ قانون ختم کر دیا جاتا ہے تو پھر ہر کسی کو چھوٹ ہو گی کہ وہ جو چاہے کرے۔ منفی ذہنیت کے مالک لوگوں کو موقع مل جائے گا اور پھر ایسے ایسے بیانات اور گستاخیاں ہونگیں کہ پوری دنیا کا معاشرتی نظام بگڑ کر رہ جائے گا۔
یہ ہمارے کچھ لوگ اور حکمران آج ہمیں جس دنیا کے قانون کا حوالہ دیتے ہیں شاید ان کو خود معلوم نہیں کہ اُس دنیا میں ایک عام انسان کی توہین پر کیا سے کیا ہو جاتا ہے اور عدالتیں ایسے حرکت میں آتی ہیں کہ صدر تک کو اپنی فکر ہونے لگتی ہے۔ میں کوئی قانون دان تو نہیں لیکن یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کا کوئی قانون کسی کی مذہبی شخصیات اور مذہبی رسومات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔
دنیا کے ہر ملک میں ایسے قانون کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔
آج کل ایک اور بحث بڑی چل رہی ہے کہ مسئلہ توہین رسالت کے قانون کا نہیں بلکہ اس قانون کے غلط استعمال کا ہے۔
بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ قانون کا ٹھیک استعمال کرنا اور کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
دنیا میں کوئی ایسی چیز ، عہدہ اور نہ ہی کوئی قانون ایسا ہے جس کا غلط استعمال نہ کیا جاسکتا ہو۔
مثلا کوئی جھوٹی گواہی دے کر کسی کو سزا دلوا دیتا ہے اب بے گناہ کو سزا ہو جاتی ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ سب جانتے ہوئے بھی کہ گواہی کے نظام کے بغیر کام نہیں چلے گا اور آپ سیدھا سیدھا گواہی کے نظام کو ہی ختم کروانے چل پڑیں بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس نظام کو بہتر کیا جائے۔
اگر اس میں بہتری کی گنجائش ہے تو بہتری کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور بھی پیدا کریں تاکہ کوئی جھوٹی گواہی دے ہی نہ۔ اب یہ بات تو صاف ہے کہ کسی کی مذہبی شخصیات کی توہین کا قانون اگر ختم کر دیا جائے تو بے شمار مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہاں اگر اس قانون میں کوئی کمی ہے تو اس کو بہتر کیا جائے اور اگر حکمرانوں یا انتظامی اداروں سے ٹھیک طرح قانون پر عمل درآمد نہیں کروایا جا رہا تو وہ خود کو بہتر کریں یا پھر اپنی غلطی تسلیم کریں۔ میں مانتا ہوں کہ توہین رسالت کے قانون کی آڑ میں کئی شر پسند عناصر فائدہ حاصل کرتے ہیں اور قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ بات پھر وہیں آتی ہے کہ قانون کا ٹھیک استعمال کس نے کروانا ہے؟ انتظامی اداروں کو کس نے بہتر کرنا ہے؟ یہ گورنمنٹ کے اداروں ہی کا کام تو ہے ۔۔
اور جہاں تک سوال ہے گستاخی یا تو ہین کا ۔۔ تو یہ ایک مستقل پلان کے تحت کیا جارہا ہے ، ایک تسلسل کے ساتھ یہ عمل دہرایا جاتا ہے اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کیا جاتا ہے۔۔
یوں تو دنیا میں مقدس شخصیات کی توہین کرنے والے مخالفین ہمیشہ سے موجود رہے ہیں لیکن فی زمانہ آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو زیادہ تر نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ جس ذات کے پیروکار ایک ارب سے زائد مسلمان ہوں ، اور 56 ممالک میں رہنے والے لوگ جسے اپنا آقا اور مربّی تسلیم کرتے ہوں آخر انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ ان کی ذات پہ کیچڑ اچھا لیں ، حالانکہ مغرب دل آزاری کرنے کو بھی جرم قرار دیتا ہے لیکن کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں نہ جانے کیوں چھید کیا جاتا ہے اور بار بار کیا جاتا ہے ۔۔
اگر ان گستاخیوں اور اہانت کے واقعات کا جائزہ لیا جائے توقرونِ وسطیٰ میں جان آف دمشقی (700 تا 754ء)وہ پہلا نامراد شخص ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرالزامات واتہامات کا طومار باندھا اور بعد ازاں اکثر وبیشتر مستشرقین نے انہی الزامات کو دہرایا۔
جون 1935 میں امریکہ کی سپریم کورٹ کی بلڈنگ میں نبی اکرمﷺکی ایک خیالی تصویر بنائی گئی جس سے امریکیوں کے نبی محترمﷺکی ذات اقدس کے بارے میں خبث باطن کا اظہار ہوتا ہے۔
اِسی طرح اگست 1925 میں لندن کے ایک اخبار نے نبی اکرمﷺ کا خاکہ بنایا زیادہ دور نہ جائیں اور صرف گذشتہ دو دہائیوں کی ہی بات کریں تو پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اور قرآن مجید جیسی مقدس کتاب کی بار بار توہین کی کی گئی ہے ۔
مارچ 1989میں بدنام زمانہ بھارتی مصنف سلمان رشدی نے نبی اکرم ﷺ کے بارے میں توہین آمیز کتاب لکھی۔ سلمان رشدی کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے ۔ سلمان رشدی لندن فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا جہاں وہ ابھی تک برطانوی سیکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہے ۔ عالم اسلام کے کئی علمائے کرام نے سلمان رشدی کو قتل کرنے کا فتویٰ جاری کر رکھا ہے جب کہ اُس کے سر کی قیمت تیس لاکھ ڈالر بھی مقرر ہے ۔
1994 میں بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین نے قرآن پاک اور نبی اکرم ﷺ کے ذات اقدس کے بارے میں توہین آمیز کتاب لکھی ۔
1997ءمیں نبی اکرمﷺ کا خیالی مجسمہ نیویارک کی ایک عدالت میں نصب کیا گیا تھا، جس کو اسلامی ممالک کے سفیروں کے احتجاج کے بعد ہٹا دیا گیا۔ 1998ءمیں ایک پاکستانی غلام اکبر کو نبی اکرمﷺ کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر سزائے موت سنائی گئی ۔
1999 میں ایک جرمن میگزین ’ ڈر سپائیجل‘ میں نبی اکرم ﷺ کا خاکہ پیش کیا گیا۔
جنوری 2000ء میں انٹرنیٹ پر ایک حیاباختہ لڑکی کے سامنے مسلمان نمازیوں کو اس حالت میں سجدہ میں گرا ہوا دکھایا گیا کہ وہ اس کی عبادت کررہے ہیں۔
ستمبر 2000ء میں انٹرنیٹ پر قرآن کی دو جعلی سورتیں 'دی چیلنج'کے عنوان سے شائع ہوئیں اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ وہ مظلوم سورتیں ہیں جنہیں مسلمانوں نے اپنے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے قرآن سے نکال باہر کیا ہے ۔
نومبر 2001ء میں امریکی فاکس ٹی وی کے پروگرام ساؤتھ پارک کی ایک قسط میں نبی اکرمﷺ کا خاکہ پیش کیا گیا ، تاہم مسلمانوں کے احتجاج کے بعد اِس کی باقی ماندہ اقساط سے اِس کو ہٹا دیا گیا۔
اکتوبر 2001ء میں ہی 'دی رئیل فیس آف اسلام' نامی ویب سائٹ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب چھ تصاویر کے ساتھ ہتک آمیز مضامین شائع کئے گئے ، جس میں اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے یہ تاثر اُبھارا گیا کہ مسلمان اپنے سوا تمام دیگر انسانوں بالخصوص یہود ونصاری کوواجب القتل سمجھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصاویر منسوب کرکے یہ دعویٰ کیا گیا کہ آپ دنیا میں قتل وغارت اور دہشت گردی کا سبب ہیں۔نعوذباللہ
نومبر 2004ء میں ہالینڈ کے شہر ہیگ میں Submission نامی فلم میں اسلامی احکامات کا مذاق اُڑایا گیا اور برہنہ فاحشہ عورتوں کی پشت پر قرآنی آیات تحریرکی گئیں۔ قرآنی احکام کو ظالمانہ قرار دینے کی منظر کشی کرتے ہوئے مغرب میں بسنے والے انسانوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ اس دین سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس کے نتیجے میں وہاں مسلم کش فسادات شروع ہوگئے ۔ آخر کار ایک مراکشی نوجوان محمد بوہیری نے اس گستاخِ قرآن 'وان گوغ' کو اس کے انجام تک پہنچایا۔
یادر ہے کہ اس فلم کا سکرپٹ نائیجریا کی سیاہ فام مرتد عورت عایان ہرشی علی نے لکھا تھا، جب یہ عورت ہالینڈ میں سکونت پذیر ہوئی تو مسلمانوں نے اس کی سرگرمیوں پر احتجاج کیا، آخر کار ڈچ حکومت نے ا س عورت کے تحفظ کے لئے اسے سرکاری پروٹوکول فراہم کردیا۔
جنوری 2005ء میں فُرقان الحق نامی کتاب شائع کرکے اس کو مسلمانوں کا نیا قرآن باور کرانے کی مذموم مساعی شروع کی گئیں ۔ 364 صفحات پر مشتمل ا س کتاب میں 88آیات میں خود ساختہ نظریات داخل کئے گئے جس کی قیمت 20 ڈالر رکھی گئی۔
مارچ 2005ء میں امینہ ودود نامی عورت نے اسریٰ نعمانی کی معیت میں امامتِ زن کے فتنے کا آغاز کیا اور مغربی پریس نے اس کو خوب اُچھالا۔
مئی 2005ء میں نیوز ویک نے امریکی فوجیوں کی گوانتا ناموبے میں توہینِ قرآن کے 50 سے زائد واقعات کی رپورٹ شائع کی جس کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں میں اشتعال پھیل گیا۔
ستمبر 2005ء میں جیلانڈ پوسٹن نامی ڈینش اخبار میں توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارتکاب کیا گیا۔ جس کے بعد وہاں کے کئی جرائد نے اُنہیں دوبارہ شائع کیا ۔ بعد ازاں فروری 2006ء میں کئی مغربی اخبارات نے ان توہین آمیز کارٹونوں کو اپنے صفحہ اوّل پر شائع کیا۔
فروری 2006 ہی کی بات ہے جب جرمنی کے ایک خبطی شخص مینفرڈ وین نے ٹوائلٹ پیپرز پر ” قرآن پاک “ پرنٹ کرکے اُن کو مساجد اور میڈیا کو بھیجا مسلمانوں کے احتجاج پہ اُس شخص کو گرفتار کیا گیا اور عدالت نے اسے ایک سال کی سزا سنائی۔
جولائی2007 ءمیں سویڈن کے ایک شخص لارز ویلکس نے نبی اکرمﷺ کی توہین آمیز پینٹنگ بنائی۔ مسلمانوں کے احتجاج کے باعث اُس کو گھر چھوڑنا پڑا ۔
ستمبر 2007ءمیں بنگلہ دیش کے ایک اخبار میں نبی اکرم ﷺ کے خاکے شائع ہو ئے جس پرکارٹونسٹ کو گرفتار کر لیا گیا ۔
دسمبر 2007ءمیں عراق کے ایک کرد مصنف نے اپنی کتاب میں نبی اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کی۔ اُس نے نبی اکرمﷺ اور حضرت علی ؓ کی توہین آمیز پینٹنگ بناکر ہالینڈ کے ایک میوزیم میں اِس پینٹنگ کو نمائش کے لئے پیش کیا۔یہ شخص مسلمانوں کے احتجاج کے بعد ناروے فرار ہو گیا اور سیاسی پناہ حاصل کر لی ۔ عراقی عدالت نے اُسے قید کی سزا سنائی ، تاہم ناروے میں روپوش ہونے کی وجہ سے یہ شخص ابھی تک گرفتار نہیں ہو سکا ۔
فروری 2008ءمیں معروف ویب سائٹ وکی پیڈیا پر نبی اکرمﷺ کے خاکے شائع کئے گئے جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ ویب سائٹ انتظامیہ نے اِن خاکوں کو ہٹانے سے انکار کر دیا اور یہ ابھی تک وکی پیڈیا پر موجود ہیں۔
2008ءمیں ہی ہالینڈ کے فلم ساز گریٹ ویلڈرز کی بنائی گئی متنازعہ اور توہین آمیز فلم” فتنہ“ سامنے آئی ۔ اِس فلم میں اسلامی قوانین اور نبی اکرمﷺ کی تضحیک کی گئی تھی ۔
مئی 2008 میں ہالینڈ کے ایک کارٹونسٹ نے نبی اکرمﷺ کے خاکے بنا کر اپنی ویب سائٹ پر لگا دئیے ۔ اِس کارٹونسٹ کو پولیس نے ڈھونڈھ کر گرفتار کر لیا اور عدالت کے حکم پر اُس نے توہین آمیز خاکے اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دئیے۔
2010 میں نیو یارک کے میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ میں نبی اکرمﷺکے خاکوں پر مشتمل پینٹنگز رکھی گئیں، تاہم مسلمانوں کے احتجاج اور شدید ردعمل کے خوف سے اُن کو نمائش کے بغیر ہی ہٹا دیا گیا۔
20مئی 2010ءکو شرپسند عناصر کی جانب سے فیس بک اور سوشل میڈیا کی دیگر ویب سائٹس پر اشتہار دئیے گئے جن میں ہر ایک کو نبی اکرمﷺ کے خاکے بنانے کی دعوت دی گئی ۔ اِس اقدام کے خلاف مسلم دنیا میں شدید اشتعال پیدا ہوا اور کئی ممالک کی جانب سے فیس بک اور دیگر ویب سائٹس کو بند کر دیا گیا ۔
نومبر 2010 میں فرانس کے ایک ہفت روزہ میگزین چارلی ہیبڈو نے نبی اکرم ﷺ کے گستاخانہ خاکوں پر مشتمل خصوصی ایڈیشن شائع کرنے کا اعلان کیا ۔ میگزین نے ٹائٹل کو انٹرنیٹ پر شیئر بھی کر دیا ۔ اِس اشتعال انگیز اقدام کے بعد مسلم ہیکرز نے اِس میگزین کی ویب سائٹ ہیک کر لی اور اُس کے دفتر پر بھی فائر بم کے ذریعے حملہ کیا گیا۔
ستمبر2012 ءمیں ہالی وڈ میں پیغمبر اسلام ﷺ کی ذات اقدس کے بارے میں توہین آمیز فلم ریلیز کی گئی۔ اِس فلم کو جون کے آخر میں ایک چھوٹے سینما گھر میں دکھایا گیا۔ایک فرضی نام سیم رسائل نے اِس کی ڈائریکشن دی جس کو بعد میں نکولا بیسلی نیکولا کے نام سے شناخت کر لیا گیا ۔ یہ شخص اسرائیلی نثراد یہودی تھا۔ اُس نے نبی محترمﷺ کی شان میں گستاخی پر مشتمل فلم بنانے کے لئے 50ملین ڈالر چندہ جمع کیا ۔ امیر یہودیوں نے اِس مذموم حرکت کے لئے دل کھول کر عطیات دئیے۔ اُس کا ساتھی مورس صادق نامی ایک مصری نژاد امریکی شہری تھا جو کہ قبطی عیسائی ہے ۔ اُن دونوں کو امریکہ کے بدنام زمانہ پادری ٹیری جونز کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی بے حرمتی کا سلسلہ نائن الیون کے بعد کچھ زیادہ ہی تیز ہو گیا ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں قرآن پاک کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ۔ بعض مغربی شرپسند سکالروں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ مسلمانوں کے اندر جذبہ جہاد کی بیداری اور اسلام سے محبت کو کم کرنے کے لئے قرآن مجید کی توہین کی جائے اور اُس کی تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے ۔ اِسی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے امریکی فوجیوں اور بنیاد پرست عیسائی اور یہودی حلقوں کی جانب سے قرآن پاک کی توہین کی گئی ۔
قرآن پاک کی بے حرمتی کا ایک بڑا سکینڈل امریکہ کے بدنام زمانہ حراستی مرکز گوانتاناموبے میں سامنے آیا ۔ مسلمان قیدیوں نے انکشاف کیا کہ قرآن پاک کے اوراق کو ٹوائلٹ پیپر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ امریکی فوجی جان بوجھ کر قرآن پاک کو ٹھوکریں مارتے ہیں ۔ اِس مذموم حرکت کا مقصد مسلمان قیدیوں کے اندر اشتعال پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ اِس حوالے سے متعدد تصاویر بھی سامنے آئیں ۔ امریکہ کے معروف رسالے ”نیوزویک “نے اپنی ایک رپورٹ میں گوانتاناموبے میں قرآن پاک اور مسلمان قیدیوں کے ساتھ توہین آمیز رویے کی تصدیق کی ۔
امریکہ میں قرآن پاک کی توہین اور بے حرمتی کا سب سے بڑا واقعہ ملعون پادری ٹیری جونز کی جانب سے قرآن پاک کو جلانے کا اعلان تھا ۔ اُس نے 2010ءکو نائن الیون کی برسی کے موقعے پر فلوریڈا کے ایک چرچ میں قرآن پاک نذر آتش کرنے کا اعلان کیا ۔ ٹیری جونز اِس سال عالم اسلام کے شدید ردعمل اور امریکی حکومت کے دباﺅ کے باعث اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکا تاہم اُس نے اپنا منصوبہ ترک نہ کیا اور اگلے سال 20 مارچ 2011ءکو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اُس نے قرآن پاک کو نذرآتش کیا
درج بالا واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اہل مغرب کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت و دشمنی ہے، جس کا اظہار وہ مختلف قسم کی نازیبا حرکات کرکے کرتے رہتے ہیں۔یہ لوگ روزِ اوّل سے مسلمانوں کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کو کمزور کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اِن کی ناپاک کوشش ہے کہ مسلمانوں کی محبوب ترین شخصیت کو متنازعہ بنادیا جائے تاکہ اس عظمت اور توقیر و تعظیم کو زد پہنچائی جاسکے جو آپ صلی اللہ علی وسلم کے پیروکاروں کے دلوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کے لئے وقتاً فوقتاً وہ تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہذیان بکتے رہتے ہیں۔
اِن حالات میں نبی اکرم ﷺ سے محبت کرنے والوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے ۔ مسلم حکمرانوں کا فرض ہے کہ عالمی سطح پر انبیائے کرام اور مقدس کتابوں کی توہین کے واقعات کی روک تھام کے لئے قانون بنوانے کے لئے متحرک ہو جائیں۔ ایسی حرکتیں کرنے والے شرپسند عناصر عالمی امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، اِس لئے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے اِن کے خلاف کارروائی کریں ۔ دوسری جانب مسلمانوں کو چاہیے کہ پرُجوش مظاہروں اور محبت رسول ﷺ کے نعروں کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا عملی مظاہرہ بھی کریں اور علماء پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس طرح کے واقعات رونما ہونے پہ مسلمانوں کو صحیح طریقہ سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کی تربیت دیں تاکہ لوگوں کا جان ومال محفوظ رہ سکے ۔
کفار کی سازشوں کا بہترین جواب یہ ہے کہ مسلمان سنتوں کے فروغ اور نبی اکرمﷺ کی سچی تعلیمات کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں۔ اگر مسلمانوں کے جذبہ ایمانی ، نبی محترم ﷺ اور قرآن پاک سے اُن کی محبت کا عملی اظہار شروع ہو گیا تو یقینا بہت جلد اسلام کو عروج ملے گا اور دُنیا اِس سچے اور آفاقی دین کی برکات سے یقینا مستفید ہو گی۔
( اس مضمون کے لکھنے کے لئے مختلف اخبارات ویب سائٹس اور سلائیڈز سے مدد لی گئی اور نامعلوم لکھاریوں کے شکریہ کے ساتھ اسے شائع کیا جارہا ہے )
تحریر: عبداللہ ابن زبیر

Total Pageviews