پیغمبر علیہ السلام کی توہین اور اس کا عمومی جائزہ
ترتیب/عبداللہ بن زبیر
پوری دنیا میں کوئی قانون اس لئے بنایا جاتا ہے کہ ریاستی نظام کو امن و امان سے چلایا جا سکے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جائے تاکہ آئندہ مجرم یا کوئی دوسرا بھی سزا سے نصیحت پکڑے اور جرم سے دور رہے۔
قانون پر عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا صرف اور صرف عدالت دے سکتی ہے۔
عوام صرف کسی جرم کی نشاندہی کر سکتی ہے،
جرم روکنے میں حکومت کی مدد کر سکتی ہے لیکن سزا دینے کا اختیار عام عوام کے پاس نہیں ہوتا اور جب ماورائے عدالت سزا عام شہری دینے لگیں تو یہ ایک سیدھا سیدھا جرم ہے اور دوسرا اس وجہ سے معاشرے میں شر پیدا ہوتا ہے اور سارا معاشرہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔
اگر کہیں ایسے حالات پیدا ہو جائیں جیسا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے تو اس صورت میں حکومت وقت کو خود بھی اور عام عوام کو بھی قانون پر سختی سے عمل کرنے اور کروانے کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ادارے اور حکمران نہ تو خود سو فیصد قانون پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی عوام سے کروا سکتے ہیں۔ جب کوئی مسئلہ بنتا ہے تو اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے عجیب عجیب بیان دے دیتے ہیں کہ فلاں قانون ٹھیک نہیں، فلاں شق تبدیل کی جائے ، یہ کیا جائے ، وہ کیا جائے وغیرہ۔۔
سوچنے کا مقام ہے کہ ہم پر ایسے حکمران بیٹھے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ دنیا کا کوئی ملک، کوئی قانون نبی تو دور کی بات ایک عام انسان کی توہین کی بھی اجازت نہیں دیتا اور تو اور کسی مجرم کو اس کے جرم کی سزا کے علاوہ مزید کوئی تکلیف دینے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔
ذرا سوچئیے ! دنیا کا کوئی بھی انسان اپنے نبی، پیغمبریا لیڈر کی توہین برداشت نہیں کرتا۔ مسلمانوں تو ایک طرف فرض کریں اگر کوئی ہندو یا کوئی دوسرا بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو کیا عیسائی یہ برداشت کریں گے؟
اگر کوئی مسلمان ہندؤں کے دیوتا کی توہین کرتا ہے تو کیا ہندو یہ برداشت کریں گے؟
ہر گز نہیں کریں گے اور کرنی بھی نہیں چاہئے
کیونکہ جب ہم اپنی توہین ہونے پر ہتک عزت کا دعوی کر دیتے ہیں تو پھر ان لوگوں جن کو انسانوں کی ایک جماعت عظیم ہستی سمجھتی ہے کی شان میں گستاخی یا توہین کسی صورت قابل قبول نہیں ہونی چاہئے۔
چاہے وہ ہستی مسلمانوں کی ہو یا پھر کسی بھی مذہب کی ہو۔ کسی کی بھی توہین قابل قبول ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔
یہاں ایک بات یاد رہے کہ نظریات و عقائد سے اختلاف اور چیز ہے اور توہین و گستاخی اور چیز ہے۔
فرض کریں اگر یہ قانون ختم کر دیا جاتا ہے تو پھر ہر کسی کو چھوٹ ہو گی کہ وہ جو چاہے کرے۔ منفی ذہنیت کے مالک لوگوں کو موقع مل جائے گا اور پھر ایسے ایسے بیانات اور گستاخیاں ہونگیں کہ پوری دنیا کا معاشرتی نظام بگڑ کر رہ جائے گا۔
یہ ہمارے کچھ لوگ اور حکمران آج ہمیں جس دنیا کے قانون کا حوالہ دیتے ہیں شاید ان کو خود معلوم نہیں کہ اُس دنیا میں ایک عام انسان کی توہین پر کیا سے کیا ہو جاتا ہے اور عدالتیں ایسے حرکت میں آتی ہیں کہ صدر تک کو اپنی فکر ہونے لگتی ہے۔ میں کوئی قانون دان تو نہیں لیکن یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کا کوئی قانون کسی کی مذہبی شخصیات اور مذہبی رسومات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔
دنیا کے ہر ملک میں ایسے قانون کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔
آج کل ایک اور بحث بڑی چل رہی ہے کہ مسئلہ توہین رسالت کے قانون کا نہیں بلکہ اس قانون کے غلط استعمال کا ہے۔
بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ قانون کا ٹھیک استعمال کرنا اور کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
دنیا میں کوئی ایسی چیز ، عہدہ اور نہ ہی کوئی قانون ایسا ہے جس کا غلط استعمال نہ کیا جاسکتا ہو۔
مثلا کوئی جھوٹی گواہی دے کر کسی کو سزا دلوا دیتا ہے اب بے گناہ کو سزا ہو جاتی ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ سب جانتے ہوئے بھی کہ گواہی کے نظام کے بغیر کام نہیں چلے گا اور آپ سیدھا سیدھا گواہی کے نظام کو ہی ختم کروانے چل پڑیں بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس نظام کو بہتر کیا جائے۔
اگر اس میں بہتری کی گنجائش ہے تو بہتری کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور بھی پیدا کریں تاکہ کوئی جھوٹی گواہی دے ہی نہ۔ اب یہ بات تو صاف ہے کہ کسی کی مذہبی شخصیات کی توہین کا قانون اگر ختم کر دیا جائے تو بے شمار مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہاں اگر اس قانون میں کوئی کمی ہے تو اس کو بہتر کیا جائے اور اگر حکمرانوں یا انتظامی اداروں سے ٹھیک طرح قانون پر عمل درآمد نہیں کروایا جا رہا تو وہ خود کو بہتر کریں یا پھر اپنی غلطی تسلیم کریں۔ میں مانتا ہوں کہ توہین رسالت کے قانون کی آڑ میں کئی شر پسند عناصر فائدہ حاصل کرتے ہیں اور قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ بات پھر وہیں آتی ہے کہ قانون کا ٹھیک استعمال کس نے کروانا ہے؟ انتظامی اداروں کو کس نے بہتر کرنا ہے؟ یہ گورنمنٹ کے اداروں ہی کا کام تو ہے ۔۔
اور جہاں تک سوال ہے گستاخی یا تو ہین کا ۔۔ تو یہ ایک مستقل پلان کے تحت کیا جارہا ہے ، ایک تسلسل کے ساتھ یہ عمل دہرایا جاتا ہے اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کیا جاتا ہے۔۔
یوں تو دنیا میں مقدس شخصیات کی توہین کرنے والے مخالفین ہمیشہ سے موجود رہے ہیں لیکن فی زمانہ آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو زیادہ تر نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ جس ذات کے پیروکار ایک ارب سے زائد مسلمان ہوں ، اور 56 ممالک میں رہنے والے لوگ جسے اپنا آقا اور مربّی تسلیم کرتے ہوں آخر انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ ان کی ذات پہ کیچڑ اچھا لیں ، حالانکہ مغرب دل آزاری کرنے کو بھی جرم قرار دیتا ہے لیکن کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں نہ جانے کیوں چھید کیا جاتا ہے اور بار بار کیا جاتا ہے ۔۔
اگر ان گستاخیوں اور اہانت کے واقعات کا جائزہ لیا جائے توقرونِ وسطیٰ میں جان آف دمشقی (700 تا 754ء)وہ پہلا نامراد شخص ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرالزامات واتہامات کا طومار باندھا اور بعد ازاں اکثر وبیشتر مستشرقین نے انہی الزامات کو دہرایا۔
جون 1935 میں امریکہ کی سپریم کورٹ کی بلڈنگ میں نبی اکرمﷺکی ایک خیالی تصویر بنائی گئی جس سے امریکیوں کے نبی محترمﷺکی ذات اقدس کے بارے میں خبث باطن کا اظہار ہوتا ہے۔
اِسی طرح اگست 1925 میں لندن کے ایک اخبار نے نبی اکرمﷺ کا خاکہ بنایا زیادہ دور نہ جائیں اور صرف گذشتہ دو دہائیوں کی ہی بات کریں تو پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اور قرآن مجید جیسی مقدس کتاب کی بار بار توہین کی کی گئی ہے ۔
مارچ 1989میں بدنام زمانہ بھارتی مصنف سلمان رشدی نے نبی اکرم ﷺ کے بارے میں توہین آمیز کتاب لکھی۔ سلمان رشدی کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے ۔ سلمان رشدی لندن فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا جہاں وہ ابھی تک برطانوی سیکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہے ۔ عالم اسلام کے کئی علمائے کرام نے سلمان رشدی کو قتل کرنے کا فتویٰ جاری کر رکھا ہے جب کہ اُس کے سر کی قیمت تیس لاکھ ڈالر بھی مقرر ہے ۔
1994 میں بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین نے قرآن پاک اور نبی اکرم ﷺ کے ذات اقدس کے بارے میں توہین آمیز کتاب لکھی ۔
1997ءمیں نبی اکرمﷺ کا خیالی مجسمہ نیویارک کی ایک عدالت میں نصب کیا گیا تھا، جس کو اسلامی ممالک کے سفیروں کے احتجاج کے بعد ہٹا دیا گیا۔ 1998ءمیں ایک پاکستانی غلام اکبر کو نبی اکرمﷺ کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر سزائے موت سنائی گئی ۔
1999 میں ایک جرمن میگزین ’ ڈر سپائیجل‘ میں نبی اکرم ﷺ کا خاکہ پیش کیا گیا۔
جنوری 2000ء میں انٹرنیٹ پر ایک حیاباختہ لڑکی کے سامنے مسلمان نمازیوں کو اس حالت میں سجدہ میں گرا ہوا دکھایا گیا کہ وہ اس کی عبادت کررہے ہیں۔
ستمبر 2000ء میں انٹرنیٹ پر قرآن کی دو جعلی سورتیں 'دی چیلنج'کے عنوان سے شائع ہوئیں اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ وہ مظلوم سورتیں ہیں جنہیں مسلمانوں نے اپنے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے قرآن سے نکال باہر کیا ہے ۔
نومبر 2001ء میں امریکی فاکس ٹی وی کے پروگرام ساؤتھ پارک کی ایک قسط میں نبی اکرمﷺ کا خاکہ پیش کیا گیا ، تاہم مسلمانوں کے احتجاج کے بعد اِس کی باقی ماندہ اقساط سے اِس کو ہٹا دیا گیا۔
اکتوبر 2001ء میں ہی 'دی رئیل فیس آف اسلام' نامی ویب سائٹ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب چھ تصاویر کے ساتھ ہتک آمیز مضامین شائع کئے گئے ، جس میں اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے یہ تاثر اُبھارا گیا کہ مسلمان اپنے سوا تمام دیگر انسانوں بالخصوص یہود ونصاری کوواجب القتل سمجھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصاویر منسوب کرکے یہ دعویٰ کیا گیا کہ آپ دنیا میں قتل وغارت اور دہشت گردی کا سبب ہیں۔نعوذباللہ
نومبر 2004ء میں ہالینڈ کے شہر ہیگ میں Submission نامی فلم میں اسلامی احکامات کا مذاق اُڑایا گیا اور برہنہ فاحشہ عورتوں کی پشت پر قرآنی آیات تحریرکی گئیں۔ قرآنی احکام کو ظالمانہ قرار دینے کی منظر کشی کرتے ہوئے مغرب میں بسنے والے انسانوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ اس دین سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس کے نتیجے میں وہاں مسلم کش فسادات شروع ہوگئے ۔ آخر کار ایک مراکشی نوجوان محمد بوہیری نے اس گستاخِ قرآن 'وان گوغ' کو اس کے انجام تک پہنچایا۔
یادر ہے کہ اس فلم کا سکرپٹ نائیجریا کی سیاہ فام مرتد عورت عایان ہرشی علی نے لکھا تھا، جب یہ عورت ہالینڈ میں سکونت پذیر ہوئی تو مسلمانوں نے اس کی سرگرمیوں پر احتجاج کیا، آخر کار ڈچ حکومت نے ا س عورت کے تحفظ کے لئے اسے سرکاری پروٹوکول فراہم کردیا۔
جنوری 2005ء میں فُرقان الحق نامی کتاب شائع کرکے اس کو مسلمانوں کا نیا قرآن باور کرانے کی مذموم مساعی شروع کی گئیں ۔ 364 صفحات پر مشتمل ا س کتاب میں 88آیات میں خود ساختہ نظریات داخل کئے گئے جس کی قیمت 20 ڈالر رکھی گئی۔
مارچ 2005ء میں امینہ ودود نامی عورت نے اسریٰ نعمانی کی معیت میں امامتِ زن کے فتنے کا آغاز کیا اور مغربی پریس نے اس کو خوب اُچھالا۔
مئی 2005ء میں نیوز ویک نے امریکی فوجیوں کی گوانتا ناموبے میں توہینِ قرآن کے 50 سے زائد واقعات کی رپورٹ شائع کی جس کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں میں اشتعال پھیل گیا۔
ستمبر 2005ء میں جیلانڈ پوسٹن نامی ڈینش اخبار میں توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارتکاب کیا گیا۔ جس کے بعد وہاں کے کئی جرائد نے اُنہیں دوبارہ شائع کیا ۔ بعد ازاں فروری 2006ء میں کئی مغربی اخبارات نے ان توہین آمیز کارٹونوں کو اپنے صفحہ اوّل پر شائع کیا۔
فروری 2006 ہی کی بات ہے جب جرمنی کے ایک خبطی شخص مینفرڈ وین نے ٹوائلٹ پیپرز پر ” قرآن پاک “ پرنٹ کرکے اُن کو مساجد اور میڈیا کو بھیجا مسلمانوں کے احتجاج پہ اُس شخص کو گرفتار کیا گیا اور عدالت نے اسے ایک سال کی سزا سنائی۔
جولائی2007 ءمیں سویڈن کے ایک شخص لارز ویلکس نے نبی اکرمﷺ کی توہین آمیز پینٹنگ بنائی۔ مسلمانوں کے احتجاج کے باعث اُس کو گھر چھوڑنا پڑا ۔
ستمبر 2007ءمیں بنگلہ دیش کے ایک اخبار میں نبی اکرم ﷺ کے خاکے شائع ہو ئے جس پرکارٹونسٹ کو گرفتار کر لیا گیا ۔
دسمبر 2007ءمیں عراق کے ایک کرد مصنف نے اپنی کتاب میں نبی اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کی۔ اُس نے نبی اکرمﷺ اور حضرت علی ؓ کی توہین آمیز پینٹنگ بناکر ہالینڈ کے ایک میوزیم میں اِس پینٹنگ کو نمائش کے لئے پیش کیا۔یہ شخص مسلمانوں کے احتجاج کے بعد ناروے فرار ہو گیا اور سیاسی پناہ حاصل کر لی ۔ عراقی عدالت نے اُسے قید کی سزا سنائی ، تاہم ناروے میں روپوش ہونے کی وجہ سے یہ شخص ابھی تک گرفتار نہیں ہو سکا ۔
فروری 2008ءمیں معروف ویب سائٹ وکی پیڈیا پر نبی اکرمﷺ کے خاکے شائع کئے گئے جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ ویب سائٹ انتظامیہ نے اِن خاکوں کو ہٹانے سے انکار کر دیا اور یہ ابھی تک وکی پیڈیا پر موجود ہیں۔
2008ءمیں ہی ہالینڈ کے فلم ساز گریٹ ویلڈرز کی بنائی گئی متنازعہ اور توہین آمیز فلم” فتنہ“ سامنے آئی ۔ اِس فلم میں اسلامی قوانین اور نبی اکرمﷺ کی تضحیک کی گئی تھی ۔
مئی 2008 میں ہالینڈ کے ایک کارٹونسٹ نے نبی اکرمﷺ کے خاکے بنا کر اپنی ویب سائٹ پر لگا دئیے ۔ اِس کارٹونسٹ کو پولیس نے ڈھونڈھ کر گرفتار کر لیا اور عدالت کے حکم پر اُس نے توہین آمیز خاکے اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دئیے۔
2010 میں نیو یارک کے میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ میں نبی اکرمﷺکے خاکوں پر مشتمل پینٹنگز رکھی گئیں، تاہم مسلمانوں کے احتجاج اور شدید ردعمل کے خوف سے اُن کو نمائش کے بغیر ہی ہٹا دیا گیا۔
20مئی 2010ءکو شرپسند عناصر کی جانب سے فیس بک اور سوشل میڈیا کی دیگر ویب سائٹس پر اشتہار دئیے گئے جن میں ہر ایک کو نبی اکرمﷺ کے خاکے بنانے کی دعوت دی گئی ۔ اِس اقدام کے خلاف مسلم دنیا میں شدید اشتعال پیدا ہوا اور کئی ممالک کی جانب سے فیس بک اور دیگر ویب سائٹس کو بند کر دیا گیا ۔
نومبر 2010 میں فرانس کے ایک ہفت روزہ میگزین چارلی ہیبڈو نے نبی اکرم ﷺ کے گستاخانہ خاکوں پر مشتمل خصوصی ایڈیشن شائع کرنے کا اعلان کیا ۔ میگزین نے ٹائٹل کو انٹرنیٹ پر شیئر بھی کر دیا ۔ اِس اشتعال انگیز اقدام کے بعد مسلم ہیکرز نے اِس میگزین کی ویب سائٹ ہیک کر لی اور اُس کے دفتر پر بھی فائر بم کے ذریعے حملہ کیا گیا۔
ستمبر2012 ءمیں ہالی وڈ میں پیغمبر اسلام ﷺ کی ذات اقدس کے بارے میں توہین آمیز فلم ریلیز کی گئی۔ اِس فلم کو جون کے آخر میں ایک چھوٹے سینما گھر میں دکھایا گیا۔ایک فرضی نام سیم رسائل نے اِس کی ڈائریکشن دی جس کو بعد میں نکولا بیسلی نیکولا کے نام سے شناخت کر لیا گیا ۔ یہ شخص اسرائیلی نثراد یہودی تھا۔ اُس نے نبی محترمﷺ کی شان میں گستاخی پر مشتمل فلم بنانے کے لئے 50ملین ڈالر چندہ جمع کیا ۔ امیر یہودیوں نے اِس مذموم حرکت کے لئے دل کھول کر عطیات دئیے۔ اُس کا ساتھی مورس صادق نامی ایک مصری نژاد امریکی شہری تھا جو کہ قبطی عیسائی ہے ۔ اُن دونوں کو امریکہ کے بدنام زمانہ پادری ٹیری جونز کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی بے حرمتی کا سلسلہ نائن الیون کے بعد کچھ زیادہ ہی تیز ہو گیا ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں قرآن پاک کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ۔ بعض مغربی شرپسند سکالروں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ مسلمانوں کے اندر جذبہ جہاد کی بیداری اور اسلام سے محبت کو کم کرنے کے لئے قرآن مجید کی توہین کی جائے اور اُس کی تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے ۔ اِسی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے امریکی فوجیوں اور بنیاد پرست عیسائی اور یہودی حلقوں کی جانب سے قرآن پاک کی توہین کی گئی ۔
قرآن پاک کی بے حرمتی کا ایک بڑا سکینڈل امریکہ کے بدنام زمانہ حراستی مرکز گوانتاناموبے میں سامنے آیا ۔ مسلمان قیدیوں نے انکشاف کیا کہ قرآن پاک کے اوراق کو ٹوائلٹ پیپر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ امریکی فوجی جان بوجھ کر قرآن پاک کو ٹھوکریں مارتے ہیں ۔ اِس مذموم حرکت کا مقصد مسلمان قیدیوں کے اندر اشتعال پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ اِس حوالے سے متعدد تصاویر بھی سامنے آئیں ۔ امریکہ کے معروف رسالے ”نیوزویک “نے اپنی ایک رپورٹ میں گوانتاناموبے میں قرآن پاک اور مسلمان قیدیوں کے ساتھ توہین آمیز رویے کی تصدیق کی ۔
امریکہ میں قرآن پاک کی توہین اور بے حرمتی کا سب سے بڑا واقعہ ملعون پادری ٹیری جونز کی جانب سے قرآن پاک کو جلانے کا اعلان تھا ۔ اُس نے 2010ءکو نائن الیون کی برسی کے موقعے پر فلوریڈا کے ایک چرچ میں قرآن پاک نذر آتش کرنے کا اعلان کیا ۔ ٹیری جونز اِس سال عالم اسلام کے شدید ردعمل اور امریکی حکومت کے دباﺅ کے باعث اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکا تاہم اُس نے اپنا منصوبہ ترک نہ کیا اور اگلے سال 20 مارچ 2011ءکو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اُس نے قرآن پاک کو نذرآتش کیا
درج بالا واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اہل مغرب کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت و دشمنی ہے، جس کا اظہار وہ مختلف قسم کی نازیبا حرکات کرکے کرتے رہتے ہیں۔یہ لوگ روزِ اوّل سے مسلمانوں کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کو کمزور کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اِن کی ناپاک کوشش ہے کہ مسلمانوں کی محبوب ترین شخصیت کو متنازعہ بنادیا جائے تاکہ اس عظمت اور توقیر و تعظیم کو زد پہنچائی جاسکے جو آپ صلی اللہ علی وسلم کے پیروکاروں کے دلوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کے لئے وقتاً فوقتاً وہ تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہذیان بکتے رہتے ہیں۔
اِن حالات میں نبی اکرم ﷺ سے محبت کرنے والوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے ۔ مسلم حکمرانوں کا فرض ہے کہ عالمی سطح پر انبیائے کرام اور مقدس کتابوں کی توہین کے واقعات کی روک تھام کے لئے قانون بنوانے کے لئے متحرک ہو جائیں۔ ایسی حرکتیں کرنے والے شرپسند عناصر عالمی امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، اِس لئے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے اِن کے خلاف کارروائی کریں ۔ دوسری جانب مسلمانوں کو چاہیے کہ پرُجوش مظاہروں اور محبت رسول ﷺ کے نعروں کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا عملی مظاہرہ بھی کریں اور علماء پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس طرح کے واقعات رونما ہونے پہ مسلمانوں کو صحیح طریقہ سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کی تربیت دیں تاکہ لوگوں کا جان ومال محفوظ رہ سکے ۔
کفار کی سازشوں کا بہترین جواب یہ ہے کہ مسلمان سنتوں کے فروغ اور نبی اکرمﷺ کی سچی تعلیمات کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں۔ اگر مسلمانوں کے جذبہ ایمانی ، نبی محترم ﷺ اور قرآن پاک سے اُن کی محبت کا عملی اظہار شروع ہو گیا تو یقینا بہت جلد اسلام کو عروج ملے گا اور دُنیا اِس سچے اور آفاقی دین کی برکات سے یقینا مستفید ہو گی۔
( اس مضمون کے لکھنے کے لئے مختلف اخبارات ویب سائٹس اور سلائیڈز سے مدد لی گئی اور نامعلوم لکھاریوں کے شکریہ کے ساتھ اسے شائع کیا جارہا ہے )
تحریر: عبداللہ ابن زبیر
ترتیب/عبداللہ بن زبیر
پوری دنیا میں کوئی قانون اس لئے بنایا جاتا ہے کہ ریاستی نظام کو امن و امان سے چلایا جا سکے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جائے تاکہ آئندہ مجرم یا کوئی دوسرا بھی سزا سے نصیحت پکڑے اور جرم سے دور رہے۔
قانون پر عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا صرف اور صرف عدالت دے سکتی ہے۔
عوام صرف کسی جرم کی نشاندہی کر سکتی ہے،
جرم روکنے میں حکومت کی مدد کر سکتی ہے لیکن سزا دینے کا اختیار عام عوام کے پاس نہیں ہوتا اور جب ماورائے عدالت سزا عام شہری دینے لگیں تو یہ ایک سیدھا سیدھا جرم ہے اور دوسرا اس وجہ سے معاشرے میں شر پیدا ہوتا ہے اور سارا معاشرہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔
اگر کہیں ایسے حالات پیدا ہو جائیں جیسا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے تو اس صورت میں حکومت وقت کو خود بھی اور عام عوام کو بھی قانون پر سختی سے عمل کرنے اور کروانے کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ادارے اور حکمران نہ تو خود سو فیصد قانون پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی عوام سے کروا سکتے ہیں۔ جب کوئی مسئلہ بنتا ہے تو اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے عجیب عجیب بیان دے دیتے ہیں کہ فلاں قانون ٹھیک نہیں، فلاں شق تبدیل کی جائے ، یہ کیا جائے ، وہ کیا جائے وغیرہ۔۔
سوچنے کا مقام ہے کہ ہم پر ایسے حکمران بیٹھے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ دنیا کا کوئی ملک، کوئی قانون نبی تو دور کی بات ایک عام انسان کی توہین کی بھی اجازت نہیں دیتا اور تو اور کسی مجرم کو اس کے جرم کی سزا کے علاوہ مزید کوئی تکلیف دینے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔
ذرا سوچئیے ! دنیا کا کوئی بھی انسان اپنے نبی، پیغمبریا لیڈر کی توہین برداشت نہیں کرتا۔ مسلمانوں تو ایک طرف فرض کریں اگر کوئی ہندو یا کوئی دوسرا بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو کیا عیسائی یہ برداشت کریں گے؟
اگر کوئی مسلمان ہندؤں کے دیوتا کی توہین کرتا ہے تو کیا ہندو یہ برداشت کریں گے؟
ہر گز نہیں کریں گے اور کرنی بھی نہیں چاہئے
کیونکہ جب ہم اپنی توہین ہونے پر ہتک عزت کا دعوی کر دیتے ہیں تو پھر ان لوگوں جن کو انسانوں کی ایک جماعت عظیم ہستی سمجھتی ہے کی شان میں گستاخی یا توہین کسی صورت قابل قبول نہیں ہونی چاہئے۔
چاہے وہ ہستی مسلمانوں کی ہو یا پھر کسی بھی مذہب کی ہو۔ کسی کی بھی توہین قابل قبول ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔
یہاں ایک بات یاد رہے کہ نظریات و عقائد سے اختلاف اور چیز ہے اور توہین و گستاخی اور چیز ہے۔
فرض کریں اگر یہ قانون ختم کر دیا جاتا ہے تو پھر ہر کسی کو چھوٹ ہو گی کہ وہ جو چاہے کرے۔ منفی ذہنیت کے مالک لوگوں کو موقع مل جائے گا اور پھر ایسے ایسے بیانات اور گستاخیاں ہونگیں کہ پوری دنیا کا معاشرتی نظام بگڑ کر رہ جائے گا۔
یہ ہمارے کچھ لوگ اور حکمران آج ہمیں جس دنیا کے قانون کا حوالہ دیتے ہیں شاید ان کو خود معلوم نہیں کہ اُس دنیا میں ایک عام انسان کی توہین پر کیا سے کیا ہو جاتا ہے اور عدالتیں ایسے حرکت میں آتی ہیں کہ صدر تک کو اپنی فکر ہونے لگتی ہے۔ میں کوئی قانون دان تو نہیں لیکن یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کا کوئی قانون کسی کی مذہبی شخصیات اور مذہبی رسومات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔
دنیا کے ہر ملک میں ایسے قانون کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔
آج کل ایک اور بحث بڑی چل رہی ہے کہ مسئلہ توہین رسالت کے قانون کا نہیں بلکہ اس قانون کے غلط استعمال کا ہے۔
بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ قانون کا ٹھیک استعمال کرنا اور کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
دنیا میں کوئی ایسی چیز ، عہدہ اور نہ ہی کوئی قانون ایسا ہے جس کا غلط استعمال نہ کیا جاسکتا ہو۔
مثلا کوئی جھوٹی گواہی دے کر کسی کو سزا دلوا دیتا ہے اب بے گناہ کو سزا ہو جاتی ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ سب جانتے ہوئے بھی کہ گواہی کے نظام کے بغیر کام نہیں چلے گا اور آپ سیدھا سیدھا گواہی کے نظام کو ہی ختم کروانے چل پڑیں بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس نظام کو بہتر کیا جائے۔
اگر اس میں بہتری کی گنجائش ہے تو بہتری کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور بھی پیدا کریں تاکہ کوئی جھوٹی گواہی دے ہی نہ۔ اب یہ بات تو صاف ہے کہ کسی کی مذہبی شخصیات کی توہین کا قانون اگر ختم کر دیا جائے تو بے شمار مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہاں اگر اس قانون میں کوئی کمی ہے تو اس کو بہتر کیا جائے اور اگر حکمرانوں یا انتظامی اداروں سے ٹھیک طرح قانون پر عمل درآمد نہیں کروایا جا رہا تو وہ خود کو بہتر کریں یا پھر اپنی غلطی تسلیم کریں۔ میں مانتا ہوں کہ توہین رسالت کے قانون کی آڑ میں کئی شر پسند عناصر فائدہ حاصل کرتے ہیں اور قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ بات پھر وہیں آتی ہے کہ قانون کا ٹھیک استعمال کس نے کروانا ہے؟ انتظامی اداروں کو کس نے بہتر کرنا ہے؟ یہ گورنمنٹ کے اداروں ہی کا کام تو ہے ۔۔
اور جہاں تک سوال ہے گستاخی یا تو ہین کا ۔۔ تو یہ ایک مستقل پلان کے تحت کیا جارہا ہے ، ایک تسلسل کے ساتھ یہ عمل دہرایا جاتا ہے اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کیا جاتا ہے۔۔
یوں تو دنیا میں مقدس شخصیات کی توہین کرنے والے مخالفین ہمیشہ سے موجود رہے ہیں لیکن فی زمانہ آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو زیادہ تر نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ جس ذات کے پیروکار ایک ارب سے زائد مسلمان ہوں ، اور 56 ممالک میں رہنے والے لوگ جسے اپنا آقا اور مربّی تسلیم کرتے ہوں آخر انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ ان کی ذات پہ کیچڑ اچھا لیں ، حالانکہ مغرب دل آزاری کرنے کو بھی جرم قرار دیتا ہے لیکن کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں نہ جانے کیوں چھید کیا جاتا ہے اور بار بار کیا جاتا ہے ۔۔
اگر ان گستاخیوں اور اہانت کے واقعات کا جائزہ لیا جائے توقرونِ وسطیٰ میں جان آف دمشقی (700 تا 754ء)وہ پہلا نامراد شخص ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرالزامات واتہامات کا طومار باندھا اور بعد ازاں اکثر وبیشتر مستشرقین نے انہی الزامات کو دہرایا۔
جون 1935 میں امریکہ کی سپریم کورٹ کی بلڈنگ میں نبی اکرمﷺکی ایک خیالی تصویر بنائی گئی جس سے امریکیوں کے نبی محترمﷺکی ذات اقدس کے بارے میں خبث باطن کا اظہار ہوتا ہے۔
اِسی طرح اگست 1925 میں لندن کے ایک اخبار نے نبی اکرمﷺ کا خاکہ بنایا زیادہ دور نہ جائیں اور صرف گذشتہ دو دہائیوں کی ہی بات کریں تو پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اور قرآن مجید جیسی مقدس کتاب کی بار بار توہین کی کی گئی ہے ۔
مارچ 1989میں بدنام زمانہ بھارتی مصنف سلمان رشدی نے نبی اکرم ﷺ کے بارے میں توہین آمیز کتاب لکھی۔ سلمان رشدی کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے ۔ سلمان رشدی لندن فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا جہاں وہ ابھی تک برطانوی سیکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہے ۔ عالم اسلام کے کئی علمائے کرام نے سلمان رشدی کو قتل کرنے کا فتویٰ جاری کر رکھا ہے جب کہ اُس کے سر کی قیمت تیس لاکھ ڈالر بھی مقرر ہے ۔
1994 میں بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین نے قرآن پاک اور نبی اکرم ﷺ کے ذات اقدس کے بارے میں توہین آمیز کتاب لکھی ۔
1997ءمیں نبی اکرمﷺ کا خیالی مجسمہ نیویارک کی ایک عدالت میں نصب کیا گیا تھا، جس کو اسلامی ممالک کے سفیروں کے احتجاج کے بعد ہٹا دیا گیا۔ 1998ءمیں ایک پاکستانی غلام اکبر کو نبی اکرمﷺ کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر سزائے موت سنائی گئی ۔
1999 میں ایک جرمن میگزین ’ ڈر سپائیجل‘ میں نبی اکرم ﷺ کا خاکہ پیش کیا گیا۔
جنوری 2000ء میں انٹرنیٹ پر ایک حیاباختہ لڑکی کے سامنے مسلمان نمازیوں کو اس حالت میں سجدہ میں گرا ہوا دکھایا گیا کہ وہ اس کی عبادت کررہے ہیں۔
ستمبر 2000ء میں انٹرنیٹ پر قرآن کی دو جعلی سورتیں 'دی چیلنج'کے عنوان سے شائع ہوئیں اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ وہ مظلوم سورتیں ہیں جنہیں مسلمانوں نے اپنے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے قرآن سے نکال باہر کیا ہے ۔
نومبر 2001ء میں امریکی فاکس ٹی وی کے پروگرام ساؤتھ پارک کی ایک قسط میں نبی اکرمﷺ کا خاکہ پیش کیا گیا ، تاہم مسلمانوں کے احتجاج کے بعد اِس کی باقی ماندہ اقساط سے اِس کو ہٹا دیا گیا۔
اکتوبر 2001ء میں ہی 'دی رئیل فیس آف اسلام' نامی ویب سائٹ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب چھ تصاویر کے ساتھ ہتک آمیز مضامین شائع کئے گئے ، جس میں اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے یہ تاثر اُبھارا گیا کہ مسلمان اپنے سوا تمام دیگر انسانوں بالخصوص یہود ونصاری کوواجب القتل سمجھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصاویر منسوب کرکے یہ دعویٰ کیا گیا کہ آپ دنیا میں قتل وغارت اور دہشت گردی کا سبب ہیں۔نعوذباللہ
نومبر 2004ء میں ہالینڈ کے شہر ہیگ میں Submission نامی فلم میں اسلامی احکامات کا مذاق اُڑایا گیا اور برہنہ فاحشہ عورتوں کی پشت پر قرآنی آیات تحریرکی گئیں۔ قرآنی احکام کو ظالمانہ قرار دینے کی منظر کشی کرتے ہوئے مغرب میں بسنے والے انسانوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ اس دین سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس کے نتیجے میں وہاں مسلم کش فسادات شروع ہوگئے ۔ آخر کار ایک مراکشی نوجوان محمد بوہیری نے اس گستاخِ قرآن 'وان گوغ' کو اس کے انجام تک پہنچایا۔
یادر ہے کہ اس فلم کا سکرپٹ نائیجریا کی سیاہ فام مرتد عورت عایان ہرشی علی نے لکھا تھا، جب یہ عورت ہالینڈ میں سکونت پذیر ہوئی تو مسلمانوں نے اس کی سرگرمیوں پر احتجاج کیا، آخر کار ڈچ حکومت نے ا س عورت کے تحفظ کے لئے اسے سرکاری پروٹوکول فراہم کردیا۔
جنوری 2005ء میں فُرقان الحق نامی کتاب شائع کرکے اس کو مسلمانوں کا نیا قرآن باور کرانے کی مذموم مساعی شروع کی گئیں ۔ 364 صفحات پر مشتمل ا س کتاب میں 88آیات میں خود ساختہ نظریات داخل کئے گئے جس کی قیمت 20 ڈالر رکھی گئی۔
مارچ 2005ء میں امینہ ودود نامی عورت نے اسریٰ نعمانی کی معیت میں امامتِ زن کے فتنے کا آغاز کیا اور مغربی پریس نے اس کو خوب اُچھالا۔
مئی 2005ء میں نیوز ویک نے امریکی فوجیوں کی گوانتا ناموبے میں توہینِ قرآن کے 50 سے زائد واقعات کی رپورٹ شائع کی جس کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں میں اشتعال پھیل گیا۔
ستمبر 2005ء میں جیلانڈ پوسٹن نامی ڈینش اخبار میں توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارتکاب کیا گیا۔ جس کے بعد وہاں کے کئی جرائد نے اُنہیں دوبارہ شائع کیا ۔ بعد ازاں فروری 2006ء میں کئی مغربی اخبارات نے ان توہین آمیز کارٹونوں کو اپنے صفحہ اوّل پر شائع کیا۔
فروری 2006 ہی کی بات ہے جب جرمنی کے ایک خبطی شخص مینفرڈ وین نے ٹوائلٹ پیپرز پر ” قرآن پاک “ پرنٹ کرکے اُن کو مساجد اور میڈیا کو بھیجا مسلمانوں کے احتجاج پہ اُس شخص کو گرفتار کیا گیا اور عدالت نے اسے ایک سال کی سزا سنائی۔
جولائی2007 ءمیں سویڈن کے ایک شخص لارز ویلکس نے نبی اکرمﷺ کی توہین آمیز پینٹنگ بنائی۔ مسلمانوں کے احتجاج کے باعث اُس کو گھر چھوڑنا پڑا ۔
ستمبر 2007ءمیں بنگلہ دیش کے ایک اخبار میں نبی اکرم ﷺ کے خاکے شائع ہو ئے جس پرکارٹونسٹ کو گرفتار کر لیا گیا ۔
دسمبر 2007ءمیں عراق کے ایک کرد مصنف نے اپنی کتاب میں نبی اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کی۔ اُس نے نبی اکرمﷺ اور حضرت علی ؓ کی توہین آمیز پینٹنگ بناکر ہالینڈ کے ایک میوزیم میں اِس پینٹنگ کو نمائش کے لئے پیش کیا۔یہ شخص مسلمانوں کے احتجاج کے بعد ناروے فرار ہو گیا اور سیاسی پناہ حاصل کر لی ۔ عراقی عدالت نے اُسے قید کی سزا سنائی ، تاہم ناروے میں روپوش ہونے کی وجہ سے یہ شخص ابھی تک گرفتار نہیں ہو سکا ۔
فروری 2008ءمیں معروف ویب سائٹ وکی پیڈیا پر نبی اکرمﷺ کے خاکے شائع کئے گئے جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ ویب سائٹ انتظامیہ نے اِن خاکوں کو ہٹانے سے انکار کر دیا اور یہ ابھی تک وکی پیڈیا پر موجود ہیں۔
2008ءمیں ہی ہالینڈ کے فلم ساز گریٹ ویلڈرز کی بنائی گئی متنازعہ اور توہین آمیز فلم” فتنہ“ سامنے آئی ۔ اِس فلم میں اسلامی قوانین اور نبی اکرمﷺ کی تضحیک کی گئی تھی ۔
مئی 2008 میں ہالینڈ کے ایک کارٹونسٹ نے نبی اکرمﷺ کے خاکے بنا کر اپنی ویب سائٹ پر لگا دئیے ۔ اِس کارٹونسٹ کو پولیس نے ڈھونڈھ کر گرفتار کر لیا اور عدالت کے حکم پر اُس نے توہین آمیز خاکے اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دئیے۔
2010 میں نیو یارک کے میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ میں نبی اکرمﷺکے خاکوں پر مشتمل پینٹنگز رکھی گئیں، تاہم مسلمانوں کے احتجاج اور شدید ردعمل کے خوف سے اُن کو نمائش کے بغیر ہی ہٹا دیا گیا۔
20مئی 2010ءکو شرپسند عناصر کی جانب سے فیس بک اور سوشل میڈیا کی دیگر ویب سائٹس پر اشتہار دئیے گئے جن میں ہر ایک کو نبی اکرمﷺ کے خاکے بنانے کی دعوت دی گئی ۔ اِس اقدام کے خلاف مسلم دنیا میں شدید اشتعال پیدا ہوا اور کئی ممالک کی جانب سے فیس بک اور دیگر ویب سائٹس کو بند کر دیا گیا ۔
نومبر 2010 میں فرانس کے ایک ہفت روزہ میگزین چارلی ہیبڈو نے نبی اکرم ﷺ کے گستاخانہ خاکوں پر مشتمل خصوصی ایڈیشن شائع کرنے کا اعلان کیا ۔ میگزین نے ٹائٹل کو انٹرنیٹ پر شیئر بھی کر دیا ۔ اِس اشتعال انگیز اقدام کے بعد مسلم ہیکرز نے اِس میگزین کی ویب سائٹ ہیک کر لی اور اُس کے دفتر پر بھی فائر بم کے ذریعے حملہ کیا گیا۔
ستمبر2012 ءمیں ہالی وڈ میں پیغمبر اسلام ﷺ کی ذات اقدس کے بارے میں توہین آمیز فلم ریلیز کی گئی۔ اِس فلم کو جون کے آخر میں ایک چھوٹے سینما گھر میں دکھایا گیا۔ایک فرضی نام سیم رسائل نے اِس کی ڈائریکشن دی جس کو بعد میں نکولا بیسلی نیکولا کے نام سے شناخت کر لیا گیا ۔ یہ شخص اسرائیلی نثراد یہودی تھا۔ اُس نے نبی محترمﷺ کی شان میں گستاخی پر مشتمل فلم بنانے کے لئے 50ملین ڈالر چندہ جمع کیا ۔ امیر یہودیوں نے اِس مذموم حرکت کے لئے دل کھول کر عطیات دئیے۔ اُس کا ساتھی مورس صادق نامی ایک مصری نژاد امریکی شہری تھا جو کہ قبطی عیسائی ہے ۔ اُن دونوں کو امریکہ کے بدنام زمانہ پادری ٹیری جونز کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی بے حرمتی کا سلسلہ نائن الیون کے بعد کچھ زیادہ ہی تیز ہو گیا ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں قرآن پاک کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ۔ بعض مغربی شرپسند سکالروں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ مسلمانوں کے اندر جذبہ جہاد کی بیداری اور اسلام سے محبت کو کم کرنے کے لئے قرآن مجید کی توہین کی جائے اور اُس کی تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے ۔ اِسی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے امریکی فوجیوں اور بنیاد پرست عیسائی اور یہودی حلقوں کی جانب سے قرآن پاک کی توہین کی گئی ۔
قرآن پاک کی بے حرمتی کا ایک بڑا سکینڈل امریکہ کے بدنام زمانہ حراستی مرکز گوانتاناموبے میں سامنے آیا ۔ مسلمان قیدیوں نے انکشاف کیا کہ قرآن پاک کے اوراق کو ٹوائلٹ پیپر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ امریکی فوجی جان بوجھ کر قرآن پاک کو ٹھوکریں مارتے ہیں ۔ اِس مذموم حرکت کا مقصد مسلمان قیدیوں کے اندر اشتعال پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ اِس حوالے سے متعدد تصاویر بھی سامنے آئیں ۔ امریکہ کے معروف رسالے ”نیوزویک “نے اپنی ایک رپورٹ میں گوانتاناموبے میں قرآن پاک اور مسلمان قیدیوں کے ساتھ توہین آمیز رویے کی تصدیق کی ۔
امریکہ میں قرآن پاک کی توہین اور بے حرمتی کا سب سے بڑا واقعہ ملعون پادری ٹیری جونز کی جانب سے قرآن پاک کو جلانے کا اعلان تھا ۔ اُس نے 2010ءکو نائن الیون کی برسی کے موقعے پر فلوریڈا کے ایک چرچ میں قرآن پاک نذر آتش کرنے کا اعلان کیا ۔ ٹیری جونز اِس سال عالم اسلام کے شدید ردعمل اور امریکی حکومت کے دباﺅ کے باعث اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکا تاہم اُس نے اپنا منصوبہ ترک نہ کیا اور اگلے سال 20 مارچ 2011ءکو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اُس نے قرآن پاک کو نذرآتش کیا
درج بالا واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اہل مغرب کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت و دشمنی ہے، جس کا اظہار وہ مختلف قسم کی نازیبا حرکات کرکے کرتے رہتے ہیں۔یہ لوگ روزِ اوّل سے مسلمانوں کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کو کمزور کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اِن کی ناپاک کوشش ہے کہ مسلمانوں کی محبوب ترین شخصیت کو متنازعہ بنادیا جائے تاکہ اس عظمت اور توقیر و تعظیم کو زد پہنچائی جاسکے جو آپ صلی اللہ علی وسلم کے پیروکاروں کے دلوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کے لئے وقتاً فوقتاً وہ تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہذیان بکتے رہتے ہیں۔
اِن حالات میں نبی اکرم ﷺ سے محبت کرنے والوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے ۔ مسلم حکمرانوں کا فرض ہے کہ عالمی سطح پر انبیائے کرام اور مقدس کتابوں کی توہین کے واقعات کی روک تھام کے لئے قانون بنوانے کے لئے متحرک ہو جائیں۔ ایسی حرکتیں کرنے والے شرپسند عناصر عالمی امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، اِس لئے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے اِن کے خلاف کارروائی کریں ۔ دوسری جانب مسلمانوں کو چاہیے کہ پرُجوش مظاہروں اور محبت رسول ﷺ کے نعروں کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا عملی مظاہرہ بھی کریں اور علماء پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس طرح کے واقعات رونما ہونے پہ مسلمانوں کو صحیح طریقہ سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کی تربیت دیں تاکہ لوگوں کا جان ومال محفوظ رہ سکے ۔
کفار کی سازشوں کا بہترین جواب یہ ہے کہ مسلمان سنتوں کے فروغ اور نبی اکرمﷺ کی سچی تعلیمات کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں۔ اگر مسلمانوں کے جذبہ ایمانی ، نبی محترم ﷺ اور قرآن پاک سے اُن کی محبت کا عملی اظہار شروع ہو گیا تو یقینا بہت جلد اسلام کو عروج ملے گا اور دُنیا اِس سچے اور آفاقی دین کی برکات سے یقینا مستفید ہو گی۔
( اس مضمون کے لکھنے کے لئے مختلف اخبارات ویب سائٹس اور سلائیڈز سے مدد لی گئی اور نامعلوم لکھاریوں کے شکریہ کے ساتھ اسے شائع کیا جارہا ہے )
تحریر: عبداللہ ابن زبیر
No comments:
Post a Comment