July 22, 2018

JUSTIC SHOUKAT AZIZ SIDDIQUI Against ISI



جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا آئی ایس آئی  پر الزام  اور اس کی حقیقت

دوستو! تحریر کچھ لمبی ہے۔ پرامید ہوں کہ آپ سب حقائق جاننے کے لیے اپنے قیمتی وقت میں سے چند منٹ نکال سکتے ہیں۔
۔
توجہ فرمائیے۔ امید ہے اب تک آپ سب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات سن چکے ہونگے۔ میں آج الزام در الزام نہیں کھیلوں گا بلکہ چند اہم حقائق سے منظر عام پر لاوں گا کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ لاعلمی کی بنیاد پر پراپیگینڈے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
۔
تو دوستو! آپکو بتاتا چلوں کہ عدالتوں کا ایک ڈیکورم ہوتا ہے کام کرنے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ جسے روایتی انداز میں فالو کیا جاتا ہے۔ سرکاری اداروں میں ہر کام خط و کتابت کے ذریعے ہوتا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ شاید آپ میں سے بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں عدالتوں میں سال میں دو دفعہ چھٹیاں ہوتی ہیں ایک دفعہ گرمیوں کے دوران اور ایک دفعہ سردیوں کے دوران۔ گرمیوں کی چھٹیاں زیادہ طویل عرصے پر مشتمل ہوتی ہیں۔ جن کا دورانیہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس دفعہ 9 جولائی 2018ء تا 9 ستمبر 2018ء (عرصہ تقریباََ دو ماہ) ہے۔ ان چھٹیوں کے دوران محدود ڈیوٹی ججز عدالتوں میں ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہیں۔ تاکہ انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہ آئے۔ ان چھٹیوں میں کام کرنے والے ججز کی دستیابی اور کام کرنے کے طریقہ کار کی پلاننگ ماہ جون میں ہی چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے مکمل کر لی جاتی ہے۔ اور اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے کہ کون کس وقت دستیاب ہوگا اور کس وقت چھٹی پر ہوگا۔ ہر جج اپنی مرضی کی تاریخوں میں دستیابی اور اپنی پریفربیلیٹی کے حساب سے چھٹیوں کی خواہش کرتا ہے۔ جسے مناسب حد تک منظور کر لیا جاتا ہے۔
۔
اب بات کرتے ہیں نواز شریف کے کیس کی۔ یہ کیس جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انہیں احتساب عدالت سے سزا ہو چکی۔ بیشک اس سزا کے خلاف اپیل کا مجرمان کو حق حاصل ہے لیکن قانون کی رو سے یہ اپیل ہائیکورٹ کا دو رکنی بینچ (جسے ڈویژن بینچ کے نام سے جانا جاتا ہے) اسی نے سننی ہوتی ہے۔ اب چونکہ چھٹیوں کے دوران ججز کی تعداد محدود ہوتی ہے۔ اس لیے موجودہ آپشنز میں سے سنگل بینچ اور ڈویژن بیچ بنائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ڈویژن بینچ (جو دو ججز پر مشتمل ہوتا ہے) کے سامنے کوئی ایسا قانونی مسئلہ آ جاتا ہے کہ جس میں ان دو کے درمیان اختلاف ہوتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے ایک ایک سے فیصلہ ڈرا تو ہو نہیں سکتا۔ ان معاملات میں ریفری جج کو معاملہ ریفر کیا جاتا ہے۔ اور عام طور پر یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ریفری جج جو معاملہ اووررول کر کے کسی ایک کے نقطہ نظر سے اتفاق کرے وہ کم از کم ڈویژن بینچ کے ججز سے سینئیر ہو (ایسا کیا جانا ضروری نہیں ہے لیکن عام طور پر سنیارٹی کا خیال رکھا جاتا ہے) اسی اصول کے مطابق ہر دفعہ بالخصوص چھٹیوں میں کسی بھی ہائیکورٹ میں جو ڈویژن بینچز تشکیل پاتے ہیں وہ دستیاب ججز میں سے جونئیر موسٹ ہوتے ہیں۔
۔
جی تو دوستو! یہ تو تھا پس منظر۔ اب حقائق کی طرف آتے ہیں۔ اس سب کے بعد (جس کی ورکنگ ماہ جون میں بھی مکمل کر لی گئی تھی) 16 جولائی 2018ء سے 20 جولائی 2018ء تک جو ہفتہ گزرا (یہ وہ ہفتہ تھا جس دوران شریف خاندان کی طرف سے سزاوں کے خلاف اپیل دائر کی گئی) اس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ میں فقط تین ججز دستیاب تھے جن کے نام درج ذیل ہیں (تصدیق کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ کا روسٹر آف سیٹنگ تحریر کے ساتھ لف ہے)
1۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی
2۔ جسٹس محسن اختر کیانی
3۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب
۔
اب پہلے سے بیان کردہ اصول کے تحت جسٹس شوکت عزیز صدیقی چونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئیر پیونی جج ہیں (سینئیر پیونی جج قانونی اصطلاح میں چیف جسٹس کے بعد سینئیر ترین جج کو کہتے ہیں) لہٰذا ان کو چھوڑ کر باقی دو ججز پر مشتمل ڈویژن بینچ بنا دیا گیا جس کا مقصد "آل میٹرز" کو ڈیل کرنا تھا۔ عرف عام میں کہا جائے تو اس دوران ڈویژن بینچ سے متعلقہ جتنے بھی کیسز آنے تھے وہ اسی بینچ نے سننے تھے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیوں شریف خاندان کے ساتھ اسپیشل ٹریٹمنٹ کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ڈویژن بینچ میں شامل کیا جاتا؟ سوال یہاں یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا کوئی بھی ماہ جون میں پریڈکٹ کر سکتا تھا کہ شریف خاندان اسی ہفتے کے دوران اپیل فائل کرے گا؟
کیا آپ ایسا کر سکتے تھے؟
یقیناََ نہیں۔ تو پھر کیسی سازش کہاں کی سازش۔ کیونکر سازش؟
۔
اگر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اتنی ہی فکر تھی تو اپنے چہیتوں کو مشورہ دے لیتے کہ 23 جولائی 2018 سے شروع ہونے والے ہفتے میں اپیل دائر کریں تاکہ ان کے ساتھ انصاف ہو سکے۔ بتاتا چلوں کے آئندہ ہفتے اسلام آباد ہائیکورٹ میں صرف دو ججز (جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس عامر فاروق) دستیاب ہیں۔ اور انہی دونوں پر مشتمل ڈویژن بینچ تشکیل پایا ہے۔ اگر شریف خاندان 23 جولائی 2018ء کو اپیل مقرر کرواتا تو بلاشبہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اپیل سننے کا موقع ملتا اور شریف خاندان کو انصاف بھی جو یقیناََ لامحالہ طور پر الیکشن سے پہلے جیل سے باہر آ جاتے اور یوں آئی ایس آئی کا پلان دھبڑ دھوس ہو جاتا۔
۔
قارئین! اب بات کرتے ہیں پٹواریوں کی۔ جنہیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی صورت میں نیا باپ مل گیا ہے۔
۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی چور اچکے یا ڈاکو سے حساب مانگا جاتا ہے تو وہ سازش کا رونا رونے لگتا ہے۔ اپنی حق گوئی کی دلیل دینے کے لیے مختلف مفروضوں کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن بات وہی ہے کہ جب جھوٹ کا سہارا لیا جائے تو انسان اپنی بات میں ہی ایسے لوپ ہولز چھوڑ جاتا ہے جس سے سوال جنم لیں۔ اب ان نام نہاد پٹواریوں کے حساب سے آئی ایس آئی نے اتنی کچی گولیاں کھیلی ہیں کہ شوکت صدیقی کے کان میں آ کر بتائیں گے کہ
۔
سن بے! ہم نے تیرے چیف کو منع کیا ہے۔
تے اک ہور گل اے گل کسے نوں وی دسی نہ۔
۔
یقیناً اگر پٹواری ازلی جاہل نہ ہوتے تو ایسی باتوں پر کان نہ دھرتے۔ یہ چیزیں انہی کے ہاں بک سکتی ہیں کیونکہ انکے دماغوں میں بھوسہ بھرا ہوتا ہے۔ اپنے مطلب کی بات کا بغیر کسی سر پیر کے فورا یقین کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔
۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ چور چور کا بھائی ہوتا ہے۔ جب ان سے سوال کیا جائے تو کہتے ہیں کہ ویکھو میں نے یہ نہیں نہ مانی اس لیے تم ایسے کر رہے۔ ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔ سب کو حساب دینا ہے۔ یہاں ایک لنک شئیر کر رہا ہوں۔ اگر کسی پٹواری کو لگے کہ حق گوئی کی وجہ سے جسٹس صدیقی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تو اکھاں کھول کے تاریخ بھی دیکھ لے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے کی تو تمہیں توفیق ہی نہیں ہونی کم از کم تاریخ دیکھ لیا کرو۔ یہ بات پرانی ہے۔ آج انتقامی کارروائی شروع نہیں ہوئی۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف مکمل ریفرنس کا لنک
۔
https://dailytimes.com.pk/…/ihc-judge-lands-in-trouble-ove…/
۔
اپنا فنڈا سمپل ہے کہ کوئی مقدس گائے نہیں سب کو حساب دینا ہوگا۔ اب وہ دور نہیں کہ پٹواری بڑے آرام سے سیاہ کو سفید کر لیں۔ تم ان تمام مذموم مقاصد کے درمیان ہمیں کھڑا پاؤ گے۔ ہم سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑےہو کر تمہاری ہر تدبیر کو ناکام بنائیں گے۔ اور ہاں ہم تمہاری طرح مفروضوں پر نہیں بلکہ حقائق پر بات کریں گے۔ کیونکہ اب پاکستان جاگ اٹھا ہے۔ گھر گھر میں شعور پہنچ چکا ہے۔
روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے۔
۔
اب آپ سب یقیناََ سوچ رہے ہونگے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے یہ سب کرنے کے پیچھے وجہ کیا تھی۔ اب ظاہر ہے کوئی پاگل تو ہے نہیں کہ الیکشن سے بالکل پہلے کسی کو سیاسی فائدہ پہنچانے کی خاطر کوئی بھی بیان داغ دے۔
۔
تو دوستو ایسا بالکل نہیں ہے۔ یقیناََ جسٹس صاحب پاغل نہیں ہیں۔ یقیناََ جسٹس صاحب نے کافی ناپ تول کے شارٹ کھیلی ہے۔ لیکن انکی بدقسمتی کے قوم میں شعور بیدار ہو چکا۔ جیسا پہلے کہہ چکا کہ میں الزام در الزام نہیں کھیلوں گا بلکہ حقائق بیان کروں گا۔ اور صرف دلیل سے ہی بات کروں گا۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا ہمارے چاچا قینچی عرف عرفان صدیقی صاحب سے کوئی تعلق ہے۔ میں آپکو ماضی کھنگالنے کا بھی نہیں کہوں گا کہ جب 1998ء میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کا کیس چل رہا تھا (یہ وہی وقت تھا جب ن لیگی غنڈے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ پر چڑھ دوڑے تھے) پاکستان کی اعلٰی ترین عدلیہ کے چند ججز نے چند ٹکوں کی خاطر اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ اب ایسا تھوڑی ناں ہوتا ہے کہ سارے بکاو اپنے چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کر کے الزامات کی بوچھاڑ کر دیں؟ قطعی نہیں! اور یقیناََ میں ایسا کچھ بھی نہیں کہوں گا۔
۔
تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسٹس صاحب کو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی تو جناب اگر آپ نے کچھ عرصہ پہلے غور کیا ہو تو ہمارا درویش صفدر سزا پانے کے بعد سب سے کہتا پھر رہا تھا کہ میں ختم نبوت پر سٹینڈ کی وجہ سے جیل جا رہا ہوں۔ کیا سمجھے آپ؟ کیا ایک وہی درویش تھا؟ کوئی اور اللہ کا نیک بندہ درویش نہیں ہو سکتا کیا؟ ایسا ہی کچھ ہمارے جسٹس درویش صاحب بھی کر رہے ہیں جو متوقع فیصلے کی گراونڈ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ جسٹس صاحب کی سپریم جوڈیشل کونسل میں سماعت ہے اور وہ جس منصب پر بیٹھے ہیں انہیں بہت کچھ نوشتہ دیوار نظر آ رہا ہے۔
قوم کو ایک اور درویش مبارک ہو
۔
تحریر: عمران فاروق
پیشکش: عاشور بابا

PROPEGANDA AGAINST PAK ARMY پاک فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈا


فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈا
جمہوریت گن پوائنٹ پر چل رہی ہے۔ فوج کام کرنے نہیں دے رہی۔ اسٹیبلشمنٹ رکاؤٹ ہے وغیرہ وغیرہ۔

سیاست دانوں کی نااہلی اور ہڈ حرامی پر پردہ ڈالنے کا یہ بڑا اچھا نسخہ ڈھونڈا ہے لوگوں نے۔ یہ لوگ اپنے کام تو کر نہیں سکتے اور ہر الزام فوج پر، کوئی ان سے پوچھے کہ ۔۔۔

• کالاباغ ڈیم بنانے سے فوج نے روکا ہوا ہے؟
• نندی پور، قائداعظم سولر، تھر کول اور نیلم جہلم میں سینکڑوں ارب روپے گھسیڑنے کے بعد بھی ان کو ناکام بنانے کی ذمہ دار پاک فوج ہے؟
• فوج نے کہا تھا کہ اربوں روپے کا فراڈ کرنے والے شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم کو سونے کے تاج پہناؤ؟
• کلبھوشن، کشمیر اور پاکستانی دریاؤوں پر انڈین ڈیموں کی تعمیر پر خاموشی بھی اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے ہے؟
• پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ فوج نے معطل کروایا؟
• فوج نے کہا ہوا ہے کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے میں سول حکومت ہماری مدد نہ کرے؟
• افغانیوں کو بھی واپس جانے سے روکنے کا فوج کہہ رہی ہے؟
• فوج نے کہا تھا کہ فاٹا آئی ڈی پیز کے لیے فنڈز جاری نہ کرو ہم اپنی تنخواہوں سے ان کو سنبھالتے ہیں؟
• فوج نے فاٹا اصلاحات رکوائی تھیں؟؟
• فوج ہی کے کہنے پر عدالتوں نے ان دہشت گردوں کی سزاؤوں پر عمل درآمد رکوا دیا جن کو آرمی عدالتوں نے سزائیں سنائی تھیں؟
• فوج نے کہا تھا کہ دنیا بھر میں اربوں ڈالرز کی خفیہ پراپٹیز رکھو اور جب ان کے کاغذات مانگے جائیں تو جعلی دستاویزات پیش کرو؟
• فوج کے کہنے پر ماڈل ٹاؤن میں عورتوں کو گولیاں ماریں؟
• فوج نے روکا ہوا ہے کراچی کا کچرا اٹھانے سے؟
• ریلوے، پی آئی اے اور سٹیل مل میں اپنے سیاسی کارندے زبرستی گھسیڑ کر ان کا بیڑا غرق کرنے کا فوج نے کہا تھا؟
• فوج نے کہا تھا کہ ختم نبوت قانون میں ترمیم کرو؟
• فوج نے کہا تھا کہ قبول اسلام پر پابندی لگاؤ؟
• فوج نے کہا تھا کہ گستاخان رسولﷺ چھڑا کر پاکستان سے باہر بھیجو؟
• کیا فوج نے درخواست دی تھی کہ ہم سے مردم شماری کرواؤ، ہم کو الیکشن ڈیوٹی پر بلواؤ؟
• ہماری پولیس کا تو یہ حال ہے کہ چھوٹو گینگ کو پکڑ نہیں سکتی، کیا اس وقت کس نے کہا تھا کہ  فوج کو بلواؤ؟
• سیلاب کے دوران کس کو فوج کی مدد کی یاد آتی ہے؟
• کیا فوج کے کہنے پر الیکشن کمیشن ایک امیدوار جو نا اہل کرتا ہے پھر عدلیہ اسے اہل کرکے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دیتی ہے؟
• کیا فوج پر لگایا ہوا عوام کا ٹیکس لوگوں کو تکلیف دیتا ہے۔ پولیس، عدلیہ، بیوروکریسی، سیاست دان اور دیگر اداروں پر کس ملک کی عوام کا ٹیکس کا پیشہ لگایا جاتا ہے؟
• کیا فوج کے کہنے پر ملزم صفدر کو گرفتاری سے بچانے کے لئے  لوگوں نے اس کا پنڈی میں استقبال کیا تھا۔
• کیا فوج کے کہنے پر 245 مزدوروں کو بلدیہ فیکٹری میں زندہ جلا دیا تھا۔
• کیا فوج کے کہنے پر معصوم زینب کے قاتل عمران کی پھانسی رکی ہوئی ہے۔

فوج کی بے بسی کا تو یہ حال ہے کہ ان سیاستدانوں کے مقابلے میں اپنے آئینی اختیارات تک استعمال نہیں کر پارہی ۔۔۔۔۔۔

• ڈان لیکس میں ن لیگ نے پاک فوج کو پوری دنیا کے سامنے دہشت گردوں کا پشت پناہ قرار دیا اور فوج نے برداشت کیا۔

• فوج نے محمود خان اچکزئی ، اسفندیار ولی اور نواز شریف جیسے جمہوریت کے ٹھیکیداروں کی ملک توڑنے کی باتوں کو بھی برداشت کیا۔

• ہر قسم کا فضول اور بیوقوف شخص  فوج کی لازوال قربانیوں کو بھلا کر اور اس بات کو پس پشت ڈال کہ آج ہم پر سکون اور امن کی فضا میں آزادی کا سانس لے رہے ہیں ، ورنہ آج ہمارا دشمن ہمیں عراق، شام، فلسطین برما کے مسلمانوں کی طرح تباہ کر چکا ہوتا، اپنے ہی ملک کی فوج پر طعنہ زنی کرتا ہے لیکن فوج خاموش رہتی ہے۔

مریم نواز " دہشت گردی کے ییچھے وردی" والے نعرے کو سپورٹ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے تیس ہزار کارکن پی ٹی ایم کے فوج مخالف جلسے میں بھیجنے کا اعلان کیا اور فوج خاموشی سے دیکھتی رہی۔

• پاکستانی سیاستدان اور میڈیا اپنی فوج کو جتنی گالیاں دیتے ہیں شائد ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ایسا ہوتا ہو لیکن فوج ان کو بھی چپ نہیں کروا سکی۔

نواز شریف کی حکومت آنے کے بعد پاکستان سے سالانہ چار ارب ڈالر انڈیا جانے شروع ہوئے۔ وہ ڈالرز دہشت گردی کی شکل میں براستہ افغانستان واپس پاکستان کے خلاف خرچ ہوتے ہیں۔ پاک فوج ن لیگ کی اس بدمعاشی کو بھی نہیں روک پائی۔
• چار ارب ڈالر اگر فاٹا میں موجود دہشت گردی کے متاثرین میں تقسیم کیے جائیں تو ہر ایک کے حصے میں کم از کم ایک ایک کروڑ روپے آئیں۔


• فوج نے جانیں دے کر دہشت گردوں کے سہولت کار گرفتار کیے جن کو عدالتوں نے بڑی آسانی سے ضمانتوں پر رہا کر دیا اور فوج بے بسی سے دیکھتی رہ گئی۔
• نواز شریف نے اپنی کرپشن چھپانے اور فوج کو بدنام کرنے کے لئے ممبئ حملوں کا الزام پاکستان پر لگا دیا اور پاکستان گرے لسٹ میں شامل ہو گیا مگر فوج کچھ نہ کر سکی۔

سچائی یہ ہے کہ پاکستان کی تمام تر تباہی اور بربادی کی ذمہ دار چند خاندانوں پر مشتمل پاکستان کی سیاسی مافیا ہے جو وطن عزیز کو خون چوسنے والی جونکوں کی طرح چمٹی ہوئی ہے۔

مردار خور گدھوں سے مشابہ ان سیاست دانوں کو جمہوریت نامی "اقتدار کے وسیلے" کے سوا کسی چیز کی فکر نہیں۔۔
بس کرو پاکستانیوں  صرف پاکستان کا سوچو۔ ان سیاست دانوں کے اقتدار کی خاطر اپنا ملک پاکستان تباہ مت کرو۔۔
پاکستان  ہے تو ہم ہیں

پاک فوج زندہ باد   پاکستـــان پائندہ باد
۔۔
پاکستان سول فورس

IDEALOGY آئیڈیل اِن لائف



آئیڈیل  IDEAL
  ”مائی نیم از جینا“ خاتون نے فلائیٹ ہموار ہوتے ہی اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا دیا‘ میں نے کتاب بند کی اور اس کے ساتھ گرم جوشی سے ہاتھ ملایا‘ خاتون بزرگ تھی‘ عمر ساٹھ اور ستر کے درمیان ہو گی‘ وہ شکل سے پڑھی لکھی اور سمجھ دار بھی دکھائی دیتی تھی‘ اس نے کتاب کی طرف اشارہ کر کے پوچھا ”کیا یہ عربی کی کتاب ہے“ میں نے مسکرا کر جواب دیا ”نہیں‘ یہ اردوزبان کی کتاب ہے“ وہ مسکرائی‘ اپنا ہاتھ دوبارہ میری طرف بڑھایا‘ ملایا اور دیر تک جھلا کر بولی ” تم پاکستانی ہو“ میں نے گرم جوشی سے جواب دیا ”الحمد للہ“ وہ حقیقتاً خوش ہو گئی‘ فلائیٹ لمبی تھی چنانچہ ہم دیر تک گفتگو کرتے رہے۔‘ پتہ چلا جینا امریکن ہے‘ تاریخ کی استاد ہے‘ وہ طالب علموں کو ”عالمی تنازعے“ پڑھاتی ہے چنانچہ وہ مسئلہ کشمیر سے اچھی طرح واقف ہے‘ وہ قائداعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی دونوں سے بہت متاثر تھی‘ اس نے مجھ سے پوچھا ”کیا تم نے گاندھی کو پڑھا ہے“ میں نے جواب دیا ”جی ہاں میں نے گاندھی کی آٹوبائیو گرافی بھی پڑھی اور ان کے سات سماجی گناہوں کا مطالعہ بھی کیا“ جینا نے مجھ سے گاندھی کے سات سماجی گناہوں کے بارے میں پوچھا‘ میں نے عرض کیا ”پوپ گریگوری اول نے 590ءمیں سات خوفناک گناہوں کی فہرست جاری کی تھی‘ ان کا کہنا تھا انسان کو سات گناہ ہوس‘بسیار خوری ‘لالچ ‘کاہلی ‘شدید غصہ ‘حسد اورتکبر ہلاک کر دیتے ہیں‘ انسان اگر ان سات گناہوں پر قابو پا لے تو یہ شاندار‘ بھرپور اور مطمئن زندگی گزارتا ہے‘ گاندھی جی نے پوپ گریگوری کے سات گناہوں کی فہرست سے متاثر ہو کر 1925ءمیں سات سماجی گناہوں کی فہرست جاری کی‘ ان کا کہنا تھا جب تک کوئی معاشرہ ان سات گناہوں پر قابو نہیں پاتا وہ معاشرہ اس وقت تک معاشرہ نہیں بنتا‘ گاندھی جی کے بقول اصولوں کے بغیر سیاست گناہ ہے‘ کام کے بغیر دولت گناہ ہے‘ ضمیر کے بغیر خوشی گناہ ہے‘ کردار کے بغیر علم گناہ ہے‘ اخلاقیات کے بغیر تجارت گناہ ہے‘ انسانیت کے بغیر سائنس گناہ ہے اور قربانی کے بغیر عبادت گناہ ہے‘ یہ سات اصول بھارت کےلئے گاندھی کا سماجی ایجنڈا تھا“ وہ مسکرائی‘ مجھے تھپکی دی اور پھر پوچھا ”کیا تم قائداعظم محمد علی جناح کے سات اصول بھی بیان کر سکتے ہو“ میں نے مسکرا کر جواب دیا ”قائداعظم پریکٹیکل بااصول انسان تھے‘ وہ فرمودات پر یقین نہیں رکھتے تھے چنانچہ انہوں نے زندگی میں قوم کو کوئی تحریری ایجنڈا نہیں دیا تھا“ وہ میری طرف دیکھتی رہی‘ میں نے عرض کیا” گاندھی اور قائداعظم میں فرق تھا‘ گاندھی فلاسفر تھے اور قائداعظم پریکٹیکل انسان تھے‘ وہ کہنے کی بجائے کرنے پر یقین رکھتے تھے چنانچہ ہمارے پاس اقوال سے زیادہ قائداعظم کی مثالیں موجود ہیں“ میں خاموش ہو گیا‘ وہ بولی ”میں وہ مثالیں سننا چاہتی ہوں“ میں نے عرض کیا ”مثلاً قائداعظم نے پوری زندگی وقت کی پابندی کی‘ پوری زندگی قانون نہیں توڑا‘ پوری زندگی اقرباءپروری نہیں کی‘ پوری زندگی رشوت دی اورنہ لی‘ پوری زندگی اپنے مذہبی رجحانات کی نمائش نہیں کی( وہ سنی تھے‘ وہابی تھے یا پھر بریلوی قائد نے پوری زندگی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی)‘ پوری زندگی وعدے کی پابندی کی‘پوری زندگی کوئی سمجھوتہ نہیں توڑا‘ پروٹوکول نہیں لیا‘ سرکاری رقم نہیں کھائی‘ ٹیکس نہیں بچایا‘ آمدنی نہیں چھپائی‘ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا‘ کسی کا حق نہیں مارا اور پوری زندگی کسی شخص کے ساتھ بدتمیزی نہیں کی“۔وہ مسکرا کر بولی ”ویل ڈن‘ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ وہ واقعی بہت شاندار انسان تھے‘ میں ان سے بہت انسپائر ہوں“ وہ رکی اور پھر آہستہ سے بولی ”میں اگر آپ سے مزید سوال پوچھ لوں تو آپ مائینڈ تو نہیں کریں گے“ میں نے مسکرا کر جواب دیا” نہیں ضرور ضرور پوچھیں‘ میں حاضر ہوں“ وہ بولی ”کیا آپ قائداعظم سے محبت کرتے ہیں“ میں نے فوراً جواب دیا ”دل و جان سے“ وہ بولی ”آپ پھر بتائیے آپ میں اپنے قائداعظم کی کون کون سی خوبی موجود ہے“ میرے لئے یہ سوال غیر متوقع تھا‘ میں پریشان ہو گیا اور میں پریشانی میں دائیں بائیں دیکھنے لگا‘ وہ شرمندہ ہو گئی اور آہستہ آواز میں بولی ”آپ یہ چھوڑ دیں‘ آپ صرف یہ بتائیں آپ کی قوم نے اپنے قائد کی کون کون سی خوبی کو اپنی ذات کا حصہ بنایا“ میں مزید شرمندہ ہو گیا‘ میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا‘ وہ مسکرا کر بولی ”میں تاریخ کی طالب علم ہوں‘ میں اسلام سے بھی انسپائر ہوں‘ میں آدھی اسلامی دنیا دیکھ چکی ہوں‘ آپ مسلمان دو عملی (منافقت) کا شکار ہیں‘ آپ لوگ ہمیشہ نبی اکرم کو اپنا ہیرو کہتے ہیں‘ آپ ان کے خلفاءاور صحابہؓ کو بھی آئیڈیل کہتے ہیں لیکن جب عمل کی باری آتی ہے تو آپ ان کی کوئی ایک خوبی بھی ”اڈاپٹ“ نہیں کرتے‘ آپ میں آپ کے آئیڈیلز کی کوئی خوبی نظر نہیں آتی‘ آپ لوگ قائد اعظم جیسی شخصیات کے بارے میں بھی اسی طرز عمل کا شکار ہیں‘ آپ نے قائداعظم کو نوٹ پر چھاپ دیا‘ آپ ہر فورم پر ان کی عزت بھی کرتے ہیں اور آپ ان کےلئے لڑنے مرنے کےلئے بھی تیار ہو جاتے ہیں لیکن جب ان جیسا بننے کی باری آتی ہے تو آپ دائیں بائیں دیکھنے لگتے ہیں چنانچہ میرا مشورہ ہے آپ اگر اسلام پھیلانا چاہتے ہیں تو آپ رسول اللہ ﷺ جیسی عادتیں اپنا لیں اور آپ اگر پاکستان کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ قائداعظم کے اصولوں پر عمل شروع کر دیں‘ آپ کا ملک یورپ سے آگے نکل جائے گا“ وہ رکی اور نرم آواز میں بولی ”میں اپنی ہر پہلی کلاس میں طالب علموں سے ان کے آئیڈیلز کے بارے میں پوچھتی ہوں‘ یہ جب اپنے اپنے آئیڈیلز بتا دیتے ہیں تو پھر میں ان سے پوچھتی ہوں آپ وہ خوبیاں گنوائیں جو آپ نے اپنے آئیڈیلز سے متاثر ہو کر اپنی زندگی میں شامل کیں‘ زیادہ تر طالب علموں کا رد عمل آپ جیسا ہوتا ہے‘ میں پھر ان کو بتاتی ہوں میں اس وقت تک آپ کے آئیڈیل کو آئیڈیل نہیں مانوں گی جب تک آپ کی زندگی میں ان کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی‘ آپ اگر دل سے اپنے آئیڈیلز کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں تو پھر آپ میں اس کی عادتیں موجود ہونی چاہئیں ورنہ آپ منافق ہیں اور میں نے زندگی میں کسی منافق کو کبھی مطمئن اور اچھی زندگی گزارتے نہیں دیکھا“ وہ رکی اور بولی ”آپ یقین کریں میرے کورس کے آخر میں پوری کلاس اپنے اپنے آئیڈیلز جیسی ہو چکی ہوتی ہے‘ آپ بھی اپنی قوم کو ٹریننگ دیں‘ آپ انہیں بتائیں یہ اگر واقعی قائداعظم سے محبت کرتے ہیں تو پھر یہ قائداعظم جیسے ہو جائیں ‘آپ لوگوں کا ملک قائداعظم کا ملک ہو جائے گا“۔ میرا سفر ختم ہو گیا لیکن جینا سے سیکھا ہوا سبق کبھی ختم نہیں ہوگا‘ میں روز صبح اٹھتے وقت اپنے آپ سے کہتا ہوں ”میں نے کل کا دن بھی قائداعظم کے بغیر گزار دیا‘ کیا میں آج بھی اپنی زندگی میں قائداعظم کا کوئی اصول شامل نہیں کروں گا“ مجھے شرمندگی ہوتی ہے لیکن پھر اس کے ساتھ ساتھ نیا عزم‘ نیا جوش بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ہمارے ملک کے تمام سیاستدانوں کا یہ المیہ رہا‘ انہوں نے زندگی بھر قائداعظم کو نوٹ اور مزار سے باہر نہیں آنے دیا‘ یہ 25 دسمبر‘ 23 مارچ اور14 اگست کو قائداعظم کے نام پر ایک گھسا پٹا بیان جاری کردیتے ہیں اور بس‘ انہوں نے کبھی قائداعظم کی ذات اور حیات میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی اور یہ وہ سیاسی منافقت ہے جس نے ہمارے سیاستدانوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا‘ یہ آج ملک کے اندر رہ سکتے ہیں اور نہ ہی باہر‘ یہ گارڈز کے بغیر بھی سروائیو نہیں کر سکتے‘ یہ اپنے محل‘ اپنے فلیٹ اور اپنی گاڑی سے نکلتے وقت بھی دائیں بائیں دیکھتے ہیں اور پھر گلی‘ سڑک یا ائیرپورٹ پر قدم رکھتے ہیں اور یہ ہر لمحہ گو‘ گو اور جوتے کے خوف کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں‘ یہ کیا ہے؟ اور یہ لوگ یہ سزا کیوں بھگت رہے ہیں؟ یہ دراصل قائداعظم کے ساتھ منافقت کی سزا ہے‘ آپ پاکستان کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجئے‘ آپ قائداعظم اور قائداعظم کے پاکستان کے ساتھ منافقت کرنے والے ہر حکمران کو عبرت کا نشانہ بنتے اور گم نامی میں مرتے دیکھیں گے‘ آپ کو ملک کے تمام حکمران آخری زندگی میں تنہائی کے شکار اور لوگوں سے ڈرتے اورگھبراتے ملیں گے۔

Total Pageviews