جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا آئی ایس آئی پر الزام اور اس کی حقیقت
دوستو! تحریر کچھ لمبی ہے۔ پرامید ہوں کہ آپ سب حقائق جاننے کے لیے اپنے قیمتی وقت میں سے چند منٹ نکال سکتے ہیں۔
۔
توجہ فرمائیے۔ امید ہے اب تک آپ سب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات سن چکے ہونگے۔ میں آج الزام در الزام نہیں کھیلوں گا بلکہ چند اہم حقائق سے منظر عام پر لاوں گا کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ لاعلمی کی بنیاد پر پراپیگینڈے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
۔
تو دوستو! آپکو بتاتا چلوں کہ عدالتوں کا ایک ڈیکورم ہوتا ہے کام کرنے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ جسے روایتی انداز میں فالو کیا جاتا ہے۔ سرکاری اداروں میں ہر کام خط و کتابت کے ذریعے ہوتا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ شاید آپ میں سے بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں عدالتوں میں سال میں دو دفعہ چھٹیاں ہوتی ہیں ایک دفعہ گرمیوں کے دوران اور ایک دفعہ سردیوں کے دوران۔ گرمیوں کی چھٹیاں زیادہ طویل عرصے پر مشتمل ہوتی ہیں۔ جن کا دورانیہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس دفعہ 9 جولائی 2018ء تا 9 ستمبر 2018ء (عرصہ تقریباََ دو ماہ) ہے۔ ان چھٹیوں کے دوران محدود ڈیوٹی ججز عدالتوں میں ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہیں۔ تاکہ انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہ آئے۔ ان چھٹیوں میں کام کرنے والے ججز کی دستیابی اور کام کرنے کے طریقہ کار کی پلاننگ ماہ جون میں ہی چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے مکمل کر لی جاتی ہے۔ اور اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے کہ کون کس وقت دستیاب ہوگا اور کس وقت چھٹی پر ہوگا۔ ہر جج اپنی مرضی کی تاریخوں میں دستیابی اور اپنی پریفربیلیٹی کے حساب سے چھٹیوں کی خواہش کرتا ہے۔ جسے مناسب حد تک منظور کر لیا جاتا ہے۔
۔
اب بات کرتے ہیں نواز شریف کے کیس کی۔ یہ کیس جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انہیں احتساب عدالت سے سزا ہو چکی۔ بیشک اس سزا کے خلاف اپیل کا مجرمان کو حق حاصل ہے لیکن قانون کی رو سے یہ اپیل ہائیکورٹ کا دو رکنی بینچ (جسے ڈویژن بینچ کے نام سے جانا جاتا ہے) اسی نے سننی ہوتی ہے۔ اب چونکہ چھٹیوں کے دوران ججز کی تعداد محدود ہوتی ہے۔ اس لیے موجودہ آپشنز میں سے سنگل بینچ اور ڈویژن بیچ بنائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ڈویژن بینچ (جو دو ججز پر مشتمل ہوتا ہے) کے سامنے کوئی ایسا قانونی مسئلہ آ جاتا ہے کہ جس میں ان دو کے درمیان اختلاف ہوتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے ایک ایک سے فیصلہ ڈرا تو ہو نہیں سکتا۔ ان معاملات میں ریفری جج کو معاملہ ریفر کیا جاتا ہے۔ اور عام طور پر یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ریفری جج جو معاملہ اووررول کر کے کسی ایک کے نقطہ نظر سے اتفاق کرے وہ کم از کم ڈویژن بینچ کے ججز سے سینئیر ہو (ایسا کیا جانا ضروری نہیں ہے لیکن عام طور پر سنیارٹی کا خیال رکھا جاتا ہے) اسی اصول کے مطابق ہر دفعہ بالخصوص چھٹیوں میں کسی بھی ہائیکورٹ میں جو ڈویژن بینچز تشکیل پاتے ہیں وہ دستیاب ججز میں سے جونئیر موسٹ ہوتے ہیں۔
۔
جی تو دوستو! یہ تو تھا پس منظر۔ اب حقائق کی طرف آتے ہیں۔ اس سب کے بعد (جس کی ورکنگ ماہ جون میں بھی مکمل کر لی گئی تھی) 16 جولائی 2018ء سے 20 جولائی 2018ء تک جو ہفتہ گزرا (یہ وہ ہفتہ تھا جس دوران شریف خاندان کی طرف سے سزاوں کے خلاف اپیل دائر کی گئی) اس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ میں فقط تین ججز دستیاب تھے جن کے نام درج ذیل ہیں (تصدیق کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ کا روسٹر آف سیٹنگ تحریر کے ساتھ لف ہے)
1۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی
2۔ جسٹس محسن اختر کیانی
3۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب
۔
اب پہلے سے بیان کردہ اصول کے تحت جسٹس شوکت عزیز صدیقی چونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئیر پیونی جج ہیں (سینئیر پیونی جج قانونی اصطلاح میں چیف جسٹس کے بعد سینئیر ترین جج کو کہتے ہیں) لہٰذا ان کو چھوڑ کر باقی دو ججز پر مشتمل ڈویژن بینچ بنا دیا گیا جس کا مقصد "آل میٹرز" کو ڈیل کرنا تھا۔ عرف عام میں کہا جائے تو اس دوران ڈویژن بینچ سے متعلقہ جتنے بھی کیسز آنے تھے وہ اسی بینچ نے سننے تھے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیوں شریف خاندان کے ساتھ اسپیشل ٹریٹمنٹ کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ڈویژن بینچ میں شامل کیا جاتا؟ سوال یہاں یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا کوئی بھی ماہ جون میں پریڈکٹ کر سکتا تھا کہ شریف خاندان اسی ہفتے کے دوران اپیل فائل کرے گا؟
کیا آپ ایسا کر سکتے تھے؟
یقیناََ نہیں۔ تو پھر کیسی سازش کہاں کی سازش۔ کیونکر سازش؟
۔
اگر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اتنی ہی فکر تھی تو اپنے چہیتوں کو مشورہ دے لیتے کہ 23 جولائی 2018 سے شروع ہونے والے ہفتے میں اپیل دائر کریں تاکہ ان کے ساتھ انصاف ہو سکے۔ بتاتا چلوں کے آئندہ ہفتے اسلام آباد ہائیکورٹ میں صرف دو ججز (جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس عامر فاروق) دستیاب ہیں۔ اور انہی دونوں پر مشتمل ڈویژن بینچ تشکیل پایا ہے۔ اگر شریف خاندان 23 جولائی 2018ء کو اپیل مقرر کرواتا تو بلاشبہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اپیل سننے کا موقع ملتا اور شریف خاندان کو انصاف بھی جو یقیناََ لامحالہ طور پر الیکشن سے پہلے جیل سے باہر آ جاتے اور یوں آئی ایس آئی کا پلان دھبڑ دھوس ہو جاتا۔
۔
قارئین! اب بات کرتے ہیں پٹواریوں کی۔ جنہیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی صورت میں نیا باپ مل گیا ہے۔
۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی چور اچکے یا ڈاکو سے حساب مانگا جاتا ہے تو وہ سازش کا رونا رونے لگتا ہے۔ اپنی حق گوئی کی دلیل دینے کے لیے مختلف مفروضوں کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن بات وہی ہے کہ جب جھوٹ کا سہارا لیا جائے تو انسان اپنی بات میں ہی ایسے لوپ ہولز چھوڑ جاتا ہے جس سے سوال جنم لیں۔ اب ان نام نہاد پٹواریوں کے حساب سے آئی ایس آئی نے اتنی کچی گولیاں کھیلی ہیں کہ شوکت صدیقی کے کان میں آ کر بتائیں گے کہ
۔
سن بے! ہم نے تیرے چیف کو منع کیا ہے۔
تے اک ہور گل اے گل کسے نوں وی دسی نہ۔
۔
یقیناً اگر پٹواری ازلی جاہل نہ ہوتے تو ایسی باتوں پر کان نہ دھرتے۔ یہ چیزیں انہی کے ہاں بک سکتی ہیں کیونکہ انکے دماغوں میں بھوسہ بھرا ہوتا ہے۔ اپنے مطلب کی بات کا بغیر کسی سر پیر کے فورا یقین کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔
۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ چور چور کا بھائی ہوتا ہے۔ جب ان سے سوال کیا جائے تو کہتے ہیں کہ ویکھو میں نے یہ نہیں نہ مانی اس لیے تم ایسے کر رہے۔ ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔ سب کو حساب دینا ہے۔ یہاں ایک لنک شئیر کر رہا ہوں۔ اگر کسی پٹواری کو لگے کہ حق گوئی کی وجہ سے جسٹس صدیقی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تو اکھاں کھول کے تاریخ بھی دیکھ لے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے کی تو تمہیں توفیق ہی نہیں ہونی کم از کم تاریخ دیکھ لیا کرو۔ یہ بات پرانی ہے۔ آج انتقامی کارروائی شروع نہیں ہوئی۔
۔
توجہ فرمائیے۔ امید ہے اب تک آپ سب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات سن چکے ہونگے۔ میں آج الزام در الزام نہیں کھیلوں گا بلکہ چند اہم حقائق سے منظر عام پر لاوں گا کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ لاعلمی کی بنیاد پر پراپیگینڈے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
۔
تو دوستو! آپکو بتاتا چلوں کہ عدالتوں کا ایک ڈیکورم ہوتا ہے کام کرنے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ جسے روایتی انداز میں فالو کیا جاتا ہے۔ سرکاری اداروں میں ہر کام خط و کتابت کے ذریعے ہوتا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ شاید آپ میں سے بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں عدالتوں میں سال میں دو دفعہ چھٹیاں ہوتی ہیں ایک دفعہ گرمیوں کے دوران اور ایک دفعہ سردیوں کے دوران۔ گرمیوں کی چھٹیاں زیادہ طویل عرصے پر مشتمل ہوتی ہیں۔ جن کا دورانیہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس دفعہ 9 جولائی 2018ء تا 9 ستمبر 2018ء (عرصہ تقریباََ دو ماہ) ہے۔ ان چھٹیوں کے دوران محدود ڈیوٹی ججز عدالتوں میں ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہیں۔ تاکہ انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہ آئے۔ ان چھٹیوں میں کام کرنے والے ججز کی دستیابی اور کام کرنے کے طریقہ کار کی پلاننگ ماہ جون میں ہی چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے مکمل کر لی جاتی ہے۔ اور اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے کہ کون کس وقت دستیاب ہوگا اور کس وقت چھٹی پر ہوگا۔ ہر جج اپنی مرضی کی تاریخوں میں دستیابی اور اپنی پریفربیلیٹی کے حساب سے چھٹیوں کی خواہش کرتا ہے۔ جسے مناسب حد تک منظور کر لیا جاتا ہے۔
۔
اب بات کرتے ہیں نواز شریف کے کیس کی۔ یہ کیس جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انہیں احتساب عدالت سے سزا ہو چکی۔ بیشک اس سزا کے خلاف اپیل کا مجرمان کو حق حاصل ہے لیکن قانون کی رو سے یہ اپیل ہائیکورٹ کا دو رکنی بینچ (جسے ڈویژن بینچ کے نام سے جانا جاتا ہے) اسی نے سننی ہوتی ہے۔ اب چونکہ چھٹیوں کے دوران ججز کی تعداد محدود ہوتی ہے۔ اس لیے موجودہ آپشنز میں سے سنگل بینچ اور ڈویژن بیچ بنائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ڈویژن بینچ (جو دو ججز پر مشتمل ہوتا ہے) کے سامنے کوئی ایسا قانونی مسئلہ آ جاتا ہے کہ جس میں ان دو کے درمیان اختلاف ہوتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے ایک ایک سے فیصلہ ڈرا تو ہو نہیں سکتا۔ ان معاملات میں ریفری جج کو معاملہ ریفر کیا جاتا ہے۔ اور عام طور پر یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ریفری جج جو معاملہ اووررول کر کے کسی ایک کے نقطہ نظر سے اتفاق کرے وہ کم از کم ڈویژن بینچ کے ججز سے سینئیر ہو (ایسا کیا جانا ضروری نہیں ہے لیکن عام طور پر سنیارٹی کا خیال رکھا جاتا ہے) اسی اصول کے مطابق ہر دفعہ بالخصوص چھٹیوں میں کسی بھی ہائیکورٹ میں جو ڈویژن بینچز تشکیل پاتے ہیں وہ دستیاب ججز میں سے جونئیر موسٹ ہوتے ہیں۔
۔
جی تو دوستو! یہ تو تھا پس منظر۔ اب حقائق کی طرف آتے ہیں۔ اس سب کے بعد (جس کی ورکنگ ماہ جون میں بھی مکمل کر لی گئی تھی) 16 جولائی 2018ء سے 20 جولائی 2018ء تک جو ہفتہ گزرا (یہ وہ ہفتہ تھا جس دوران شریف خاندان کی طرف سے سزاوں کے خلاف اپیل دائر کی گئی) اس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ میں فقط تین ججز دستیاب تھے جن کے نام درج ذیل ہیں (تصدیق کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ کا روسٹر آف سیٹنگ تحریر کے ساتھ لف ہے)
1۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی
2۔ جسٹس محسن اختر کیانی
3۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب
۔
اب پہلے سے بیان کردہ اصول کے تحت جسٹس شوکت عزیز صدیقی چونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئیر پیونی جج ہیں (سینئیر پیونی جج قانونی اصطلاح میں چیف جسٹس کے بعد سینئیر ترین جج کو کہتے ہیں) لہٰذا ان کو چھوڑ کر باقی دو ججز پر مشتمل ڈویژن بینچ بنا دیا گیا جس کا مقصد "آل میٹرز" کو ڈیل کرنا تھا۔ عرف عام میں کہا جائے تو اس دوران ڈویژن بینچ سے متعلقہ جتنے بھی کیسز آنے تھے وہ اسی بینچ نے سننے تھے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیوں شریف خاندان کے ساتھ اسپیشل ٹریٹمنٹ کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ڈویژن بینچ میں شامل کیا جاتا؟ سوال یہاں یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا کوئی بھی ماہ جون میں پریڈکٹ کر سکتا تھا کہ شریف خاندان اسی ہفتے کے دوران اپیل فائل کرے گا؟
کیا آپ ایسا کر سکتے تھے؟
یقیناََ نہیں۔ تو پھر کیسی سازش کہاں کی سازش۔ کیونکر سازش؟
۔
اگر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اتنی ہی فکر تھی تو اپنے چہیتوں کو مشورہ دے لیتے کہ 23 جولائی 2018 سے شروع ہونے والے ہفتے میں اپیل دائر کریں تاکہ ان کے ساتھ انصاف ہو سکے۔ بتاتا چلوں کے آئندہ ہفتے اسلام آباد ہائیکورٹ میں صرف دو ججز (جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس عامر فاروق) دستیاب ہیں۔ اور انہی دونوں پر مشتمل ڈویژن بینچ تشکیل پایا ہے۔ اگر شریف خاندان 23 جولائی 2018ء کو اپیل مقرر کرواتا تو بلاشبہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اپیل سننے کا موقع ملتا اور شریف خاندان کو انصاف بھی جو یقیناََ لامحالہ طور پر الیکشن سے پہلے جیل سے باہر آ جاتے اور یوں آئی ایس آئی کا پلان دھبڑ دھوس ہو جاتا۔
۔
قارئین! اب بات کرتے ہیں پٹواریوں کی۔ جنہیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی صورت میں نیا باپ مل گیا ہے۔
۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی چور اچکے یا ڈاکو سے حساب مانگا جاتا ہے تو وہ سازش کا رونا رونے لگتا ہے۔ اپنی حق گوئی کی دلیل دینے کے لیے مختلف مفروضوں کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن بات وہی ہے کہ جب جھوٹ کا سہارا لیا جائے تو انسان اپنی بات میں ہی ایسے لوپ ہولز چھوڑ جاتا ہے جس سے سوال جنم لیں۔ اب ان نام نہاد پٹواریوں کے حساب سے آئی ایس آئی نے اتنی کچی گولیاں کھیلی ہیں کہ شوکت صدیقی کے کان میں آ کر بتائیں گے کہ
۔
سن بے! ہم نے تیرے چیف کو منع کیا ہے۔
تے اک ہور گل اے گل کسے نوں وی دسی نہ۔
۔
یقیناً اگر پٹواری ازلی جاہل نہ ہوتے تو ایسی باتوں پر کان نہ دھرتے۔ یہ چیزیں انہی کے ہاں بک سکتی ہیں کیونکہ انکے دماغوں میں بھوسہ بھرا ہوتا ہے۔ اپنے مطلب کی بات کا بغیر کسی سر پیر کے فورا یقین کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔
۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ چور چور کا بھائی ہوتا ہے۔ جب ان سے سوال کیا جائے تو کہتے ہیں کہ ویکھو میں نے یہ نہیں نہ مانی اس لیے تم ایسے کر رہے۔ ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔ سب کو حساب دینا ہے۔ یہاں ایک لنک شئیر کر رہا ہوں۔ اگر کسی پٹواری کو لگے کہ حق گوئی کی وجہ سے جسٹس صدیقی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تو اکھاں کھول کے تاریخ بھی دیکھ لے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے کی تو تمہیں توفیق ہی نہیں ہونی کم از کم تاریخ دیکھ لیا کرو۔ یہ بات پرانی ہے۔ آج انتقامی کارروائی شروع نہیں ہوئی۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف مکمل ریفرنس کا لنک
۔ https://dailytimes.com.pk/…/ihc-judge-lands-in-trouble-ove…/
۔
اپنا فنڈا سمپل ہے کہ کوئی مقدس گائے نہیں سب کو حساب دینا ہوگا۔ اب وہ دور نہیں کہ پٹواری بڑے آرام سے سیاہ کو سفید کر لیں۔ تم ان تمام مذموم مقاصد کے درمیان ہمیں کھڑا پاؤ گے۔ ہم سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑےہو کر تمہاری ہر تدبیر کو ناکام بنائیں گے۔ اور ہاں ہم تمہاری طرح مفروضوں پر نہیں بلکہ حقائق پر بات کریں گے۔ کیونکہ اب پاکستان جاگ اٹھا ہے۔ گھر گھر میں شعور پہنچ چکا ہے۔
روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے۔
۔
اب آپ سب یقیناََ سوچ رہے ہونگے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے یہ سب کرنے کے پیچھے وجہ کیا تھی۔ اب ظاہر ہے کوئی پاگل تو ہے نہیں کہ الیکشن سے بالکل پہلے کسی کو سیاسی فائدہ پہنچانے کی خاطر کوئی بھی بیان داغ دے۔
۔
تو دوستو ایسا بالکل نہیں ہے۔ یقیناََ جسٹس صاحب پاغل نہیں ہیں۔ یقیناََ جسٹس صاحب نے کافی ناپ تول کے شارٹ کھیلی ہے۔ لیکن انکی بدقسمتی کے قوم میں شعور بیدار ہو چکا۔ جیسا پہلے کہہ چکا کہ میں الزام در الزام نہیں کھیلوں گا بلکہ حقائق بیان کروں گا۔ اور صرف دلیل سے ہی بات کروں گا۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا ہمارے چاچا قینچی عرف عرفان صدیقی صاحب سے کوئی تعلق ہے۔ میں آپکو ماضی کھنگالنے کا بھی نہیں کہوں گا کہ جب 1998ء میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کا کیس چل رہا تھا (یہ وہی وقت تھا جب ن لیگی غنڈے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ پر چڑھ دوڑے تھے) پاکستان کی اعلٰی ترین عدلیہ کے چند ججز نے چند ٹکوں کی خاطر اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ اب ایسا تھوڑی ناں ہوتا ہے کہ سارے بکاو اپنے چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کر کے الزامات کی بوچھاڑ کر دیں؟ قطعی نہیں! اور یقیناََ میں ایسا کچھ بھی نہیں کہوں گا۔
۔
تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسٹس صاحب کو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی تو جناب اگر آپ نے کچھ عرصہ پہلے غور کیا ہو تو ہمارا درویش صفدر سزا پانے کے بعد سب سے کہتا پھر رہا تھا کہ میں ختم نبوت پر سٹینڈ کی وجہ سے جیل جا رہا ہوں۔ کیا سمجھے آپ؟ کیا ایک وہی درویش تھا؟ کوئی اور اللہ کا نیک بندہ درویش نہیں ہو سکتا کیا؟ ایسا ہی کچھ ہمارے جسٹس درویش صاحب بھی کر رہے ہیں جو متوقع فیصلے کی گراونڈ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ جسٹس صاحب کی سپریم جوڈیشل کونسل میں سماعت ہے اور وہ جس منصب پر بیٹھے ہیں انہیں بہت کچھ نوشتہ دیوار نظر آ رہا ہے۔
قوم کو ایک اور درویش مبارک ہو
۔
تحریر: عمران فاروق
پیشکش: عاشور بابا
۔ https://dailytimes.com.pk/…/ihc-judge-lands-in-trouble-ove…/
۔
اپنا فنڈا سمپل ہے کہ کوئی مقدس گائے نہیں سب کو حساب دینا ہوگا۔ اب وہ دور نہیں کہ پٹواری بڑے آرام سے سیاہ کو سفید کر لیں۔ تم ان تمام مذموم مقاصد کے درمیان ہمیں کھڑا پاؤ گے۔ ہم سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑےہو کر تمہاری ہر تدبیر کو ناکام بنائیں گے۔ اور ہاں ہم تمہاری طرح مفروضوں پر نہیں بلکہ حقائق پر بات کریں گے۔ کیونکہ اب پاکستان جاگ اٹھا ہے۔ گھر گھر میں شعور پہنچ چکا ہے۔
روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے۔
۔
اب آپ سب یقیناََ سوچ رہے ہونگے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے یہ سب کرنے کے پیچھے وجہ کیا تھی۔ اب ظاہر ہے کوئی پاگل تو ہے نہیں کہ الیکشن سے بالکل پہلے کسی کو سیاسی فائدہ پہنچانے کی خاطر کوئی بھی بیان داغ دے۔
۔
تو دوستو ایسا بالکل نہیں ہے۔ یقیناََ جسٹس صاحب پاغل نہیں ہیں۔ یقیناََ جسٹس صاحب نے کافی ناپ تول کے شارٹ کھیلی ہے۔ لیکن انکی بدقسمتی کے قوم میں شعور بیدار ہو چکا۔ جیسا پہلے کہہ چکا کہ میں الزام در الزام نہیں کھیلوں گا بلکہ حقائق بیان کروں گا۔ اور صرف دلیل سے ہی بات کروں گا۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا ہمارے چاچا قینچی عرف عرفان صدیقی صاحب سے کوئی تعلق ہے۔ میں آپکو ماضی کھنگالنے کا بھی نہیں کہوں گا کہ جب 1998ء میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کا کیس چل رہا تھا (یہ وہی وقت تھا جب ن لیگی غنڈے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ پر چڑھ دوڑے تھے) پاکستان کی اعلٰی ترین عدلیہ کے چند ججز نے چند ٹکوں کی خاطر اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ اب ایسا تھوڑی ناں ہوتا ہے کہ سارے بکاو اپنے چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کر کے الزامات کی بوچھاڑ کر دیں؟ قطعی نہیں! اور یقیناََ میں ایسا کچھ بھی نہیں کہوں گا۔
۔
تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسٹس صاحب کو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی تو جناب اگر آپ نے کچھ عرصہ پہلے غور کیا ہو تو ہمارا درویش صفدر سزا پانے کے بعد سب سے کہتا پھر رہا تھا کہ میں ختم نبوت پر سٹینڈ کی وجہ سے جیل جا رہا ہوں۔ کیا سمجھے آپ؟ کیا ایک وہی درویش تھا؟ کوئی اور اللہ کا نیک بندہ درویش نہیں ہو سکتا کیا؟ ایسا ہی کچھ ہمارے جسٹس درویش صاحب بھی کر رہے ہیں جو متوقع فیصلے کی گراونڈ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ جسٹس صاحب کی سپریم جوڈیشل کونسل میں سماعت ہے اور وہ جس منصب پر بیٹھے ہیں انہیں بہت کچھ نوشتہ دیوار نظر آ رہا ہے۔
قوم کو ایک اور درویش مبارک ہو
۔
تحریر: عمران فاروق
پیشکش: عاشور بابا
No comments:
Post a Comment