February 24, 2023

نام نہاد محبت خواتین کے لئے عبرت

کالج اور یونیورسٹی کی لڑکیوں کے نام
عورت کی جانب سے خاص پیغام لڑکوں کے متعلق نصیحت  اور تمہارے آبرو کی اہمیت
ایک دن میں یونیورسٹی کے گیٹ سے نکلی تو اچانک ایک نوجوان میرے سامنے کھڑا نظر آیا وہ میری طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے مجھے پہچانتا ہو ۔میں نے اس پر کچھ توجہ نہ دی لیکن وہ میرے پیچھے ہو لیا، پست آواز اور بچگانہ کلمات سے میرے ساتھ باتیں کرنے لگا: اے خوب صورت حسینہ '''''''' میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ، میں بہت دنوں سے آپ کو دیکھتا آ رہا ہوں ،

میں خوف اور ڈر کی وجہ سے تیز تیز چلنے لگی تو میرے قدم لڑ کھڑانے لگے ، میری پیشانی پسینے سے شرابور ہو گئی ، اس سے پہلے کبھی ایسا واقعہ پیش نہ آیا تھا اور میں مدہوش اور انتہائی پریشانی کے عالم میں گھر پہنچی ۔اس واقعہ پر سوچتی رہی اور خوف ، گھبراہٹ اور بے چینی سے اس رات نہ سو سکی ۔
اگلے دن میرے یونیورسٹی سے نکلتے وقت میں نے اسے گیٹ کے سامنے پایا وہ مسکرا رہا تھا ،
میں خوفزدہ تھی ۔اس لئیے کسی کو کچھ نا بتا سکتی تھی اور نا اسے کچھ کہہ پاتی تھی وہ اب تقریباً ہر روز پیچھا کرنے لگا ،ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کوئی نا کوئی ذو معنی بات کر کے آگے
بڑھ جاتا ۔۔۔

زندگی بدلنے والا سچا واقع  

ایک دن تو اس نے حد کر دی ۔اس نے ایک خط نما لفافہ گھر کے دروازے کے پاس پھینک دیا،
میں نے اس کو اٹھانے میں خوف محسوس کیا ، لیکن ڈرتے ڈرتے اٹھا لیا ، میرے ہاتھ کپکپا رہے تھے ، میں نے اسے کھولا اور پڑھا تو اس میں محبت بھرے کلمات تھے جنونِ عشق کے دعوے تھے اور مزید جو اس نے مجھے تنگ کیا اور پریشان کیا تھا اس کی معذرت کی تھی،بار بار معافی مانگی تھی ۔

میں نے کاغذ پھاڑا اور پھینک دیا کچھ دیر بعد میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی ۔۔
میں نے کال ریسیو کی تو اچانک وہی نوجوان ، خوب صورت کلام سے بول رہا تھا :
آپ نے خط پڑھ لیا یا نہیں؟ میں نے کہاں: اگر تم نہیں سدھرے تو میں اپنے گھر والوں کو بتا دوں گی اور نقصان تمہارا ہو گا ۔ اور میں نے فون بند کر دیا ۔۔۔

ایک منٹ بعد دوبارہ فون کر دیا پیار جتانے لگا کہ میرا مقصد بڑا نیک ہے اور شادی کرنا چاہتا ہے ،
اور کہنے لگا کہ۔۔۔ وہ بڑا مال دار ہے ، عنقریب میرے لیے وہ ایک خوبصورت گھر بنائے گا اور میری تمام خواہشات کو پورا کرے گا مزید کہا کہ وہ اکلوتا ہے اس کے خاندان سے کوئی باقی نہیں بچا. المختصر

..اور اس پر میرا دل نرم پڑ گیا بات چیت کرنے لگی اور بے تکلفی اختیار کرنے لگی ۔ اب میں ہر وقت اس کے فون کی منتظر رہتی ۔
یونیورسٹی سے نکلتے وقت اس کو تلاش کرتی کہ شاید اس کو دیکھ پاؤ، لیکن بے سود

ایک دن یونیورسٹی سے نکلی تو اچانک وہ میرے سامنے تھا ۔ میں خوشی سے پھٹ پڑی ، میں اس کی دعوت دینے پر اس کے ساتھ گاڑی میں گھومنا شروع ہوئی ۔۔
میں گاڑی میں بیٹھ کر میں اس کی طرف دیکھتی رہتی اور وہ میری طرف دیکھتا رہتا ،
میں اس نوجوان کی بے حد دیوانی ہو چکی تھی ۔
محبت اور پیار کا پاگل پن شروع ہو چکا تھا ۔۔لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں محض اس نوجوان کا،پکڑا شکار بن چکی تھی۔میں نے بہت مرتبہ اس کے ساتھ اس کے گھر میں آنا جانا شروع کر دیا ۔

لیکن اسوقت جب اس گھر والے گھر موجود نا ہوتے ۔۔میں سب سے عزت والی چیز کو کھو بیٹھی تھی ۔اس نوجوان کی محبت میں ہر درد اور اذیت کو خوشی سے برداشت کر چکی تھی ۔
جب جذبات کچھ ٹھنڈے پڑے تو میں پاگلوں کی طرح اپنے کپڑوں کی جانب بڑھی ۔مجھے اس وقت شدید شرمندگی اور پچھتاوا ہو رہا تھا ۔۔
میں نے روتے ہوئے اس سے گلہ کیا کہ ۔۔۔ تو نے یہ میرے ساتھ کیا کیا؟تم ڈرو نہیں، تم میری بیوی ہو ۔میں تمہاری بیوی کیسے ہوں؟تم نے میرے ساتھ نکاح نہیں کیا ۔

میں عن قریب تم سے نکاح کر لوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔میں بے بسی محسوس کر رہی تھی ۔۔

میں لڑکھڑاتی ہوئی اپنے گھر پہنچی ، میری پنڈلیاں میرا بوجھ اٹھا نہیں رہی تھیں۔۔
یا الٰہی! یہ میں نے کیا کر دیا ۔۔۔ کیا میں پاگل ہو گئی ہوں؟ مجھ پر کیا مصیبت پڑی تھی کہ اس نوجوان کے ہاتھوں اپنی عزت خود ہی لٹوا بیٹھی تھی ؟
۔۔۔میں روتی اور کڑوے اشک پیتی ۔۔ میں نے پڑھائی چھوڑ دی اور انتہا درجے کی بدحال ہو گئی
گھر والوں میں سے کوئی بھی اصل معاملے تک نہیں پہنچ سکا تھا ۔
لیکن میں ایک وعدہ سے لٹکی تھی کہ اس کا میرے ساتھ شادی کا وعدہ تھا ۔
کئ دن بیت گئے ، اس کے بعد کیا ہو گا؟اچانک ایسا حادثہ ہوا، جس نے میری زندگی داؤپر لگا دی ۔

ایک ماہ بعد میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔۔۔
ہاں یہ اسی کا نمبر تھا ۔۔۔ میں جھٹ سے کال ریسیو کی ۔۔۔ تو دور سے اس کی آواز آ رہی تھی اور مجھے کہ رہا تھا: میں ایک اہم کام کے لیے تجھ سے ملنا چاہتا ہوں۔۔
میں خوش ہوگئ کہ اہم کام کا مطلب تو شادی کے امور کو ہی انجام دینا ہو گا ۔۔۔
میں اس کی بتائی گئی جگہ پر پہنچ گئی ۔۔۔جہاں وہ اپنی گاڑی میں موجود تھا ۔میں اس کے ساتھ ہی گاڑی میں بیٹھ گئی ۔۔لیکن یہ کیا ۔۔۔۔وہ تو انتہائی ترش روئی سے پیش آیا ،اس کے چہرے پر لاپرواہی اور نفرت کے تاثرات تھے ،وہ کہنے لگا کہ ۔۔۔سب سے پہلے یہ بات ذہن میں اچھی طرح بیھٹا لوں کہ میں تمہارے ساتھ کبھی بھی شادی نہیں کرو گا ۔۔
اور ایک شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہتا ہے کہ میرے نزدیک تمہاری حثیت ایک طوائف سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔۔ہاں اگر تم چاہو تو ہم بغیر کسی قید کے اکھٹے رہیں گے ۔۔۔
تمہارے بحثیت طوائف تمام حقوق پورے کرونگا ۔۔میں نے لاشعوری طور پر ہاتھ اٹھا دیا اور اس کے چہرے پر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا۔ ۔۔
میں نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتی تھی کے تم اپنی غلطی کی اصلاح کرو گے۔۔
لیکن تم ایک انتہائی کمینے اور غلیظ انسان ہوںاس کے ساتھ ہی میں اس کی گاڑی سے نیچے اتر آئی اور رونے لگی۔اس نے شیشے میں سے سر باہر نکال کر آواز دی ۔۔
بولا تھوڑی دیر مہربانی فرما کر رکیں میرے پاس تمہارے لئیے ایک عمدہ گفٹ ہے ۔۔تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ۔۔اس کے ہاتھ میں ایک سی ڈی تھی ،
وہ اسے بے باکانہ اپنی انگلیوں کے کناروں سے اٹھائے ہوئے تھا اور متکبرانہ الفاظ اور شیطانی
 مسکراہٹ سے کہ رہا تھا: میں عنقریب اس سی ڈی کے ذریعے تجھے توڑ پھوڑ کر رکھ دوں گا ،
میں نے انتہائی خوفزدہ ہو کر اور کپکپاتے جسم کے ساتھ اس سے سوال کیا اس سی ڈی میں ایسا کیا ہے؟وہ بولا میرے سآتھ گاڑی میں بیٹھو اور ایک بار دیکھو کہ اس سی ڈی میں کیا ہے ۔۔۔
میں ڈر اور خوف کی وجہ سے ایک بار پھر اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔۔
اس نے گاڑی میں لگی سکرین کے ذریعے وہ مکمل ویڈیو دیکھائی جس میں وہ لمحات قید تھے جب ہمارے درمیان وہ حرام کام ہوا تھا وہ اس میں ریکارڈ تھا ۔۔۔۔
اور میری حالت اسوقت ایسی تھی کہ جیسے ابھی بے ہوش ہو کر گر پڑو گی ۔میرا پورا جسم خوف سے کانپ رہا تھا ۔۔اور میرے آنسو بے اختیار بہتے جا رہے تھے ۔۔لیکن میں نے ہمت کر کے اس سے صرف اتنا کہا ۔۔او بزدل تو نے یہ کیا کیا؟ او گھٹیا انسان! ۔۔۔کیوں کیا یہ سب میرے ساتھ ؟؟؟؟اس نے کہاں وہاں پر خفیہ کیمرے نصب تھے ، جو ہر حرکت اور پست آواز کو ریکارڈ کر رہے تھے،اب تم میری غلام بن کر رہو گی ۔۔جیسا میں کہوں گا ویسا کرو گی ۔۔۔۔
اور ایک پھر اس ظالم شخص نے گاڑی کے اندر ہی میری عزت کو تار تار کیا ۔۔
میں رونے اور چلانے لگی ، لیکن اب اس کا کوئی فایدہ نا تھا ۔۔میں لٹی پٹی عزت کے ساتھ گھر واپس آ گئی ۔۔میں بے بس ہو چکی تھی یہ صرف اب میرا معاملہ نہ تھا ۔میرے گھر والوں بلکہ پورے خاندان کی عزت داؤ پر لگ چکی تھی ۔۔اب میں اس کے ہاتھ میں قیدی بن چکی تھی ۔۔
وہ مجھے ایک آدمی سے دوسرے کی طرف منتقل کرتا رہتا اور رقم بٹورتا۔۔ میں دلدل میں گر چکی تھی اور زندگی تباہی کی طرف لے جا چکی تھی ،۔۔جبکہ میرے گھر والے میرے کرتوتوں سے بے خبر تھے ۔ انھیں مجھ پر مکمل بھروسا تھا۔۔لیکن اس ظالم شخص نے ایک دن وہ ویڈیوز انٹرنیٹ پر وائرل کر دی ۔۔۔ویڈیوز پھیل گئی اور میرے چچا کے بیٹے کے ہاتھ لگ گئ اور پھر سارا معاملہ کھل گیا اور راز فشاء ہو گیا ،میرے ماں باپ اور سارے خاندان کو پتا چل گیا ، رسوائی سارے شہر میں پھیل گئی اور ہمارا گھر شرمندگی سے لتھڑ گیا ۔۔
میں اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑی ہوئی اور اسی ظالم کے ہاتھوں مزید برباد ہونے کیلے پہنچ گئی ۔کیونکہ اس کے سواء اب میرا کوئی ٹھکانہ نا تھا ۔اب میں اس دھندے میں مکمل طور پر داخل ہو چکی تھی ۔معاشرے نے مجھے ایک نام دے دیا ۔۔
طوائف۔۔۔اب میں ایک طوائف کہلاتی ہوں ۔۔میرے شب وروز اسی نام کے دھندے سے جڑے ہوئے ہیں۔۔اس دوران مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ میرے والدین اور بہنیں دوسرے شہر نقل مکانی کر گئے ہیں ،لیکن رسوائی بھی ان کے ساتھ ساتھ پیچھے چلتی رہی
اور میں ذلت میں ڈوبی بدکار عورتوں کے درمیان رہنے لگی اور اس کا زمہ دار یہ گھٹیا شخص تھا ۔
کسی روبوٹ کی طرح وہ مجھے حرکت دیتا میں خود کچھ بھی نہ کر سکتی تھی۔۔
یہ نوجوان مجھ سمیت متعدد گھروں کی تباہی اور اٹھتی عمر کی دو شیزاوں کے مستقبل کی ویرانی کا باعث بنا تھا ۔
میں اس ماحول سے تنگ آ چکی تھی ۔کبھی کبھار میرا دل ڈوبنے لگتا تھا ۔۔میں بے بس تھی ۔میرے پاس اس گندی جگہ کے علاؤہ کوئی اور ٹھکانہ نا تھا ۔۔۔

پھر میں سوچ سوچ کر تنگ آ گئی کہ اب یہاں سے کیسے جان چھڑاؤ۔۔۔ پھر میں نے ایک حتمی فیصلہ کرلیا ۔۔اس کے ساتھ ہی میں مطمئن ہو گئی جیسے اندر ہی اندر سکون محسوس ہونے لگا ۔۔۔
اب میرا مکمل انتقام لینے کا ارادہ تھا ۔اگلی ہی رات وہ میرے جسم کے ساتھ بھیانک کھیل کھیلنے کیلے آیا۔۔۔وہ نشے سے دھت تھا ، اسے اپنے آس پاس کی کوئی خبر نہیں تھی ۔۔۔میں نے موقع غنیمت جانا اور اس کو چھرا گھونپ دیا ،۔۔۔
وہ پہلے ہی وار میں ختم ہو گیا ۔۔میں نے انسانی صورت میں ایک شیطان کو قتل کر دیاتھا مزید معصوم لڑکیوں کو اس کی برائیوں اور چنگل سے بچا لیا تھا ۔
میرا انجام یہ ہوا کہ مجھے گرفتار کر لیا گیا ۔۔۔اب میں پابند سلاسل اور سلاخوں کے پیچھے ہوں ۔
عمر قید کی سزا مکمل ہونے میں چند سال باقی ہے ۔۔لیکن میں ذلت اور محرومی کے گھونٹ پی رہی ہوں اپنے فعل بد پر،،
اور اپنی زندگی پر سخت شرمندہ ہوں جس میں سراسر میرا اپنا ہی قصور ہوں ۔۔میں نے اپنا یہ قصّہ سپردِ قلم کر دیا ہے تاکہ ہر بھولی اور معصوم لڑکی اس کہانی سے عبرت اور نصیحت پکڑے۔۔۔
جو ناکام اور بدنام عاشقوں کے جھوٹے اور بھڑکیلے الفاظ کے پیچھے بھاگ رہی ہوتی ہیں .۔۔

February 22, 2023

BIWI SE ISHAQ ? بیوی سے عشق

  بیوی سے عشق کب ہوتا ہے

ایک خاتون نے نہایت دلچسپ سوال کیا، کہنے لگیں ’’تارڑ صاحب میں نے آپ کا حج کا سفرنامہ ’’منہ ول کعبے شریف‘‘ پڑھا ہے جس میں آپ نے اپنی بیگم کا تذکرہ اس طرح کیا ہے جیسے وہ آپ کی بیوی نہ ہوں گرل فرینڈ ہو‘‘۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’خاتون جب میں اپنے سفرناموں میں غیرمنکوحہ خواتین کا تذکرہ کرتا تھا تب بھی لوگوں کو اعتراض ہوتا ہےاور اب اگر اپنی منکوحہ کے ساتھ چہلیں کرتا ہوں تو بھی اعتراض ہوتا ہے۔

اگر آخری عمر میں بالآخر اپنی بیوی کے عشق میں مبتلا ہو گیا ہوں تو بھی آپ کو منظور نہیں‘‘۔ وہ خاتون نہایت پُرمسرت انداز میں کہنے لگیں ’’آخری عمر میں ہی کیوں؟‘‘ ۔۔۔ میں نے انہیں تو جواب نہیں دیا محض مسکرا دیا لیکن میں آپ کو رازداں بناتا ہوں۔۔۔ آخری عمر میں بیوی کے عشق میں مبتلا ہو جانا ایک مجبوری ہے کہ اتنی طویل رفاقت کے بعد آپ کو احساس ہوتا ہے کہ اس بھلی مانس نے مجھ پر بہت احسان کئے۔۔۔ میری بے راہرو حیات کو برداشت کیا۔۔۔ کبھی شکایت نہ کی البتہ ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ بہت کی تو بس یہی عشق میں مبتلا ہونے کے لائق ہے۔ ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ جوانی میں بیوی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی، مرد آخر مرد ہے.دل میں خیال آتا تھا کہ اگر یہ مر جائے تو سبحان اللہ میں دوسری شادی کر لوں۔

اب اس بڑھاپے میں ہر نماز کے بعد میں دعا مانگتا ہوں کہ یا اللہ اسے سلامت رکھنا، یہ م ر گئی تو میں دربدر ہو جاؤں گا، مجھے تو کوئی پانی بھی نہیں پوچھے گا۔۔۔ مجھے پہلے لے جانا اِسے سلامت رکھنا۔ ویسے یہ میرا نصف صدی کا پاسے سونے کی مانند کھرا تجربہ ہے کہ نوجوانی میں اپنی بیویوں سے ع ش ق کرنے والے اور اُس کا چرچا کرنے والوں نے ہمیشہ اُن بیویوں سے چھٹکارا حاصل کر کے دوسری ش ادی اں کیں۔۔۔ مجھ سے پانچ چھ برس جونیئر ایک مناسب شاعر اور ان دنوں بہت دھانسو کالم نگار نے کہا ’’تارڑ بھائی۔۔۔ آپ جانتے ہیں کہ میں نے عشق کی شادی کی ہے۔۔۔ میں اپنی بیوی سے ایک ایسا عشق کرتا ہوں.جس کی مثال روئے زمین پر نہ ملے گی۔ میں اُس کی پرستش کرتا ہوں، وہی میرا مذہب ہے اور میں نے اُسے جو خطوط لکھے، جاں نثار اختر نے کہاں لکھے ہوں گے، یہ خطوط تاج محل سے بھی عظیم تر ہیں۔۔۔ میں یہ خطوط کتابی صورت میں شائع کروا رہا ہوں تاکہ آنے والی نسلوں کو معلوم ہو کہ عشق کیا ہوتا ہے۔۔۔ اور اس شہر میں صرف تین لوگ ہیں جنہیں میں اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خطوط کی اس کتاب کا فلیپ تحریر کریں۔۔۔ اعتزاز احسن، منو بھائی اور آپ اُنہوں نے لکھ دیا ہے آپ بھی لکھ دیں۔۔۔ میں نے لکھ دیا اور پھر کتاب کا انتظار کرنے لگا۔

چار پانچ ماہ کے بعد میں نے اس کتاب کے ناشر سے پوچھا کہ خطوط کی وہ کتاب کیاہوئی تو وہ کہنے لگے ’’موصوف تو اپنے عشق کو طلاق دے چکے ہیں اور ان دنوں دوسری بیوی کے عشق میں سرشار ہو رہے ہیں‘‘۔ میرے ابّا جی کے ایک دوست نسبت روڈ چوک کے قریب حکمت کی دکان کرتے تھے۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اتنا عشق کرتے تھے کہ دکان کی دیواروں پر اُس کی تصویریں سجا رکھی تھیں اور کہتے تھے ’’چوہدری صاحب۔۔۔ میں لمحہ بھر کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔ اُس کا چہرہ دیکھتا رہتا ہوں تب دن گزرتا ہے‘‘۔۔۔ جانے کیا ہوا کہ اُن کی بیوی ناگہانی م وت سے دوچار ہو گئیں، اُن کو اتنا ص دم ہ ہوا کہ بہت دنوں تک کچھ کھایا پیا نہیں اور لاغر ہو گئے۔۔۔ مرحومہ کی قبرکے برابر میں ایک جھونپڑا ڈال کر اُس میں فروکش ہو گئے۔۔۔ گھر ترک کر کے قبرستان میں بسیرا کر لیا، درویشی اختیار کر لی، بیوی کی قبر کے ساتھ لپٹ کر روتے رہتے۔۔۔ایک دو ماہ بعد میں نے ابّا جی سے پوچھا کہآپ کے اُس دوست کا کیا حال ہے جو بیوی کی ق ب ر کے ساتھ رہتے ہیں تو ابّا جی کہنے لگے اور مسکرا کر کہنے لگے ’’ اُس نے اپنی چھوٹی سالی سے شادی کر لی ہے اور ان دنوں ہنی مون منانے مری گئے ہوئے ہیں‘‘۔ جوانی میں اپنی بیویوں سے محبت کرنے والے لوگ ۔۔۔ ہمیشہ دوسری شادی کرتے ہیں۔۔۔ آزمائش شرط ہے۔۔۔ چونکہ میں نے اپنی اہلیہ سے ج وان ی میں محبت نہیں کی اس لئے میں نے دوسری ش ادی بھی نہیں کی۔ ویسے اس عمر میں آ کر اپنی بیوی کے عشق میں مبتلا ہو کر اُس کے ساتھ فلرٹ کرنا نہایت ہی شاندار تجربہ ہے۔ میں اُسے ’’ڈارلنگ‘‘ یا ’’سویٹ ہارٹ‘‘ کہتا ہوں تو وہ ناک چڑھا کر کہتی ہے

 

February 08, 2023

Love of Mother


اس دن میرے بیٹے کی سالگرہ تھی ، میں کام سے جلدی گھر آ گیا ، گھر داخل ہوتے ہی صحن میں چار پائی پر بیٹھی بوڑھی ماں پر نظر پڑی مگر مجھ کو لگا کہ شاید ماں کی نظریں پہلے سے ہی دروازے پر جمی ہوئی تھیں..مگر میں نظر چراتے ہوۓ سر جھکاتے ہوۓ السلام کر کے اپنے کمرے کی طرف چل دیا ،

اور ماں کا ہاتھ اُٹھا ہُوا ہوا ہی میں معلق ریہہ گیا ، میں اپنے کمرے میں صوفے پر بیٹھ کر سوچنے لگا کہ شاید…

ماں نے کچھ کہنا تھا….

میری بیوی جو کے پہلے ہی کمرے میں موجود تھی مجھ کو یُوں دیکھ کر بولی کیا ہُوا ، کس سوچ میں ہیں ، آج تو بیٹے کی سالگرہ ہے خوش ہو جائیں… سارا انتظام میں نے کردیا ہے ،میں نے ہڑبڑا کے کہاں ہاں ہاں بالکل…

مگر میری نظروں کو وہی ہاتھ معلق دکھائی دے رہا تھا…

بیوی کی محبت بچوں کی رونق زمانے کی الجھنوں نے مجھ کو شاید ماں سے کچھ دور کردیا تھا….

اسی سوچ میں تھا کہ ماں میرے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوۓ بولی ، راشد ، پُتر میں آ جاں….

ماں کا یہ جملہ سنتے ہی میں کانپ گیا…

بیوی بولی کیا ہُوا کیا ہُوا… ؟

میں کانپتے ہوۓ بولنے کی کوشش کرنے لگا ….اتنے میں ماں اندر آ کے بولی…

پُتر اَج بڑی جلدی آ گیا ایں اللہ خیر کرے ماں صدقے…

میں بولا میں ویسے ہی جلدی آ گیا…

ماں بولی پُتر تیرے نال اک گل کرنی ایں…. یک دم میری بیوی بولی ماں جی تُسی جاؤ سانوں پہلے ای بڑے کم نیں ماں بولی پُتر اَج کوئی خاص دن اے…

میں نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور نظروں ہی نظروں میں پوچھا کہ ….کیا ماں کو نہیں بتایا….

اتنے میں ماں باہر چلی گئی…. میں تھوڑی دیر سر جھکاۓ بیٹھا رہا اور پھر اُٹھا اتنے میں بیوی بولی کوئی ضرورت نہیں باہر جانے کی ، میں نے اُس کا بازو پکڑ کر زور کا جھٹکا دیا اور باہر چلا گیا..

صحن میں چار پائی پر بیٹھی ماں کے پاس بیٹھ گیا ماں اُٹھی ۔..میں نے کہا ماں مجھے معاف کردیں ، میں نے ساری تفصیل ماں پر واضح کردی…. اور پوچھا آپ میرے کمرے میں خیر سے آۓ تھیں… ماں تھی نا… ایک دم سے معاف کرتے ہوۓ سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولی… پُتر تیرے باپ دے مرن تُوں بعد میں کلی ریہہ گئی آں تے جدوں تک تینوں مل کے پیار نہ کر لاں سکون نئی ملدا…. تھوڑا ویلا کڈ کے میرے کول وی بے جایا کر…

میں ماں کا ہاتھ پکڑ کر چومتے ہوۓ دھاڑیں مار کے رونے لگا… اور بار بار معافی مانگتا رہا… یہ سب میری بیوی ہمارے بچے کو اُٹھاۓ دیکھتی رہی جس کی آج پہلی سالگرہ تھی….

اور ماں میرے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ دھیمی سی آواز میں کہتی رہی ، بس پُتر میں تے ایہی گل کرنی سی بس میں تے ایھو گل کرنی سی…

کدی مینوں وی پُچھ لیا کر…

کدی میرے کول وی بہیہ جایا کر….

اپنی امی کے پاس تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ جایا کریں

کیوں کہ مجھے میری امی سے ملنے قبرستان جانا پڑتا ہے

آپکی دعاؤں کا طالب


February 07, 2023

LOVE & SORRY

 وہ گورنمٹ کے محکمے کا آفیسر تھا اسکا ٹرانسفر لاہور سے کراچی ہوا ۔ بزریعہ ریل گاڑی اسکو کراچی جانا تھا … چانچہ وہ سٹیشن پہنچا اور ٹکٹ خرید لی۔ گاڑی جس لائین پہ کھڑی تھی اسکو وہاں پہنچنا تھا اس نے سامان اٹھانے کے لیے قلی کو بلایا اور کہا بھئ میرا سامان گاڑی کو پہنچا دو، قلی نے سامان اٹھایا اور صاحب کے پیچھے پیچھے ہولیا ۔

چونکہ وقت بے حد کم تھا اسلیئے صاحب تیزی سے پیلٹ فارم کی طرف چل رہا تھا ۔ پیچھے سے قلی بھی سامان اٹھا کر بھاگا وہ آدمی تیز تیز چل کر پیلٹ فارم پر بوگی کے دروازے پہ جلدی پہنچ گیا ۔ لیکن بھیڑ چونکہ زیادہ تھی اسلیئے قلی سامان سمیت بھیڑ ہی میں پھنس گیا صاحب بار بار راستے کو دیکھ رہے تھے لیکن قلی کا نام و نشان بھی نہ تھا اتنے میں گارڈ وسل دی اور ٹرین چلنی شروع ہوئی ۔ صاحب اس پہ چڑھ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ پیچھے اسکا سامان رہ جانا تھا ۔ بلآخر اسکو ٹرین چھوڑنی ہی پڑی ۔

گاڑی سے رہ جانے کی وجہ سے صاحب کو بھت افسوس ہوا کہ میرا پروگرام سارا مس ہوگیا ۔ گاڑی دور جاتی رہی اور مسافر ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے عزیزوں کو رحصت کرنے لگے جب پیلٹ فارم میں لوگوں کا رش کم ہوا تو سامنے سے قلی پسینے سے شرابور سامنے اٹھاے ہوے صاحب کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیا ۔ قلی قریب آیا تو اسکے چہرے پہ افسوس اور شرمندگی کی واضح آثار موجود تھے

” صاحب …!!!

مجھے معاف کردے میں نے وقت پہ پہنچنے کی بھت کوشیش کی لیکن بھیڑ زیادہ ہونے کی وجہ سے میں وقت پہ پہنچ نہیں پایا ”

صاحب غصہ تو بہت تھے لیکن سوچا گاڑی تو ویسے بھی مس ہوگی ہے اب اگر میں اس قلی کا قتل بھی کردوں تو بھی گاڑی نے آنا تو ہے نہیں لہذا غصہ ہونے کا کوئی فایدہ نہیں۔

” کوی بات نہیں … اللہ کو ایسے منظور تھا تو ایسا ہی ہونا تھا اسکی مرضی کو کون ٹال سکتا ہے چلو میں کل آج نہ سہی کل چلا جاونگا ”

صاحب نے پیار سے مسکرا کر جواب دیا… جیسے ہی قلی نے یہ سنا تو اسکے چہرے پہ بشاشت آئی اور سامان اٹھا کر کہا

” لائیں میں آپکا سامان اٹھا لیتا ہوں یہاں قریب ہی ریسٹ ہاوس ہے وہاں لیے چلتا ہوں ۔”

قلی نے ریسٹ ہاوس میں صاحب کا سامان رکھا اور باہر نکل آیا ۔ قلی کو چونکہ علم تھا کہ صاحب نے کل پھر اسی سٹیشن سے جانا ہے لہذا وہ تمام رات سٹیشن پہ ہی رہا ۔

اگلے دن صاحب مقررہ وقت سے پہلے ہی سٹیشن پہنچا ۔ سامنے ہی وہی قلی کھڑا تھا اس نے بھاگ گرمجوشی سے ہاتھ ملایا جیسے کہ دونوں بہت قریبی عزیز ہوں اور سامان اٹھاکر کہا ” صاحب آپکی ایڈوانس بکنگ میں کرچکا ہوں چلیں آئیں ”

قلی نے سامان سر پہ رکھا اور دونوں پیلٹ فارم کی طرف جانے لگے گاڑی کے پاس پہنچ کر صاحب نے بٹوے سے پیسے نکال کر قلی کو ادا کرنے چاہے تو قلی نے لینے سے انکار کردیا ”

نہیں صاحب میں پیسے نہیں لوں گا کیونکہ میری ہی غلطی کی وجہ سے آپکی ٹرین مس ہوئی ہے ”

صاحب نے بڑی کوشیش کی کہ وہ ٹرین کا کرایہ کم سے کم ادا کردے لیکن قلی کسی صورت نہ مانا قلی نے صاف کہہ دیا کہ آپ مجھے پیسے نہ دے گے تو میں زیادہ خوش رہوں گا….

قلی نے اسکو گاڑی میں بٹھا دیا پاس بیٹها گپ شپ لگائی پهر باہر آکر کھڑکی کھولی اور صاحب سے کھڑا وہی باتیں کرنے لگا ۔ قلی اسکو احسان مندانہ نظروں سے بار بار دیکھ رہا تھا اتنے میں گاڑی سٹارٹ ہوئی تو وہ گاڑی کے ساتھ ساتھ چل کر صاحب سے باتیں کرنے لگا ٹرین کی رفتار تیز ہوئی تو وہ اپنی جگہ کھڑا ہوکر الوداعی انداز میں ہاتھ لہرا لہرا کر صاحب کو رحصت کررہا تھا ۔ صاحب نے کھڑکی سے ہاتھ ہلا کر اسکو الوداع کا جواب دیا اسکو محسوس ہوا کہ اس محبت مان اور چاہت سے تو کسی اپنے نے بھی اسکو رحصت نہیں کیا تھا۔ ٹرین چلی گی تو قلی نے سوچا کہ صبح کا ناشتہ نہیں کیا ہے ناشتہ ہی کردوں میں ۔ جیب میں ہاتھ ڈال تو جیب میں کئ نوٹ نکل آے گنے پہ پتہ چلا کہ یہ تو پورے 3 ہزار روپے تھے اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور رو کر صاحب کو دعا دی اور اللہ کا شکر ادا کیا ۔ صاحب نے اسکو محسوس کیئے بنا ہی 3 ہزار روپے اسکے جیب میں ڈال دیئے تھے۔

بیس سال بعد صاحب نے اپنی ڈائری نکالی اور اس میں لکھا ” اس قلی کی وجہ سے لیٹ ہونے کا جو غم تھا وہ تو رات کو ہی ختم ہو گیا تھا لیکن اس کی محبت بھری الوداعی نطر آج بیس سال گزر جانے بعد بھی میرے دل میں ٹھنڈک پیدا کردیتی ہے مجھے ٹرین لیٹ ہونے کا غم و افسوس نہیں افسوس اس بات کا ہے کہ ایک محبت بھرا انسان میں سٹیشن پہ چھوڑ آیا ”

یہ بندہ گالیاں دے کر بھی اپنے غصے کا اظہار کرسکتا تھا اور قلی سن کر چلا جاتا ۔ لیکن صاحب نے معاف کردیا ۔ معاف کرنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ قلی نے احسان مانا۔ اس نے لیٹ ہونے کی وجہ سے سامان واپس اٹھا کر ریسٹ ہاوس بھی چھوڑا اور صبح اسکا ایڈوانس ٹکٹ بھی لیا اور واپس سامان اٹھا کر گاڑی میں رکھا دعائیں بھی دی اور محبت سے رحصت بھی کیا ،

جی ہاں جب انسان دوسروں کی غلطیاں معاف کردیتا ہے تو انکی غلطیوں کی تکلیف تو یاد نھی ہوتی لیکن معاف کرنے کا مزہ زندگی بھر انسان کو محسوس ہوتا ہے

 

February 06, 2023

قانون کے بے بس محافظ قانون کے شکنجے میں


 

میں جہانزیب علی محکمہ پولیس میں انسپکسٹر تھا ۔ ایک دفعہ میں ڈیوٹی سے گھر واپس  آ رہا تھا کہ مجھے راستے میں عشاء کی اذان سنائی دی ۔ میں نے اذان سننے کے لیے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا تو اذان سے زیادہ تحش گانوں کی آواز آ رہی تھی ۔ میں گاڑی کو اسی سمت لے گیا جہاں سے میوزک کی آواز آ رہی تھی ۔

پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ ایک پیشہ ور طوائف کا گھر ہے ۔ جس کے پاس مغرب کے بعد علاقے کے وڈیرےلوفر اور رئیس لوگ شراب میں دھت ہو کر آ جاتے ہیں اور پھر ساری رات ناچ گانے کی محفل جمائے رکھتے ہیں ۔ کچھ ضروری معلومات لینے کے لئے میں طوائف کے کوٹھے میں داخل ہو گیا ۔ سامنے سب نشے میں دھت تھے یہاں تک کہ سکیورٹی گارڈ بھی اپنے ہوش و حواس میں نہ تھا ۔ میں نے جا کر طوائف سے کہا کہ اذان ہو رہی ہے میوزک بند کرو تو اس نے میری بات سئی ان سنی کر دی ۔

پھر میں نے میوزک سپیکر کی تارکھینچ کر توڑ دی میوزک بند ہوا تو نشے میں دھت وڈیرے بھی اضطراب میں نظر آنے لگے ۔ میں نے طوائف کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ تو خدا کا خوف کرو , میری بات سن کر طوائف نے طنزیہ انداز میں کہاں کہ کیا خدا صرف تمہارا ہے ۔ طوائف کی بات سن کر مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے تھانے سے عملہ  بلا  لیا , عملہ آنے سے پہلے حالات کی نزاکت کو کو سمجھتے ہوۓ باقی تماشائی فرار ہو گئے مگر طوائف اور اس کی چیلیاںگرفتار کر کے لیڈیز پولیس کے حوالے کر دی گئیں مجھے پولیس کی بے بسی کا اندازہ تب ہوا جب ایک طوائف نے بھرے مجمے اور میرے عملے کے سامنے مجھے کہا کہ انسپیکٹر جہانزیب یاد رکھنا میں تم کو اتنا ذلیل کر دوں گی کہ ایک دن میں تیری ہی بیٹی سے مجرا کراؤں گی وہ جسم بیچنے پر مجبور ہو جائے گی ۔ اور تو  چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکے گا ۔ میں چاہ کر بھی طوائف کے منہ پر تھپڑ نہ مار سکا اور لیڈیز پولیس اس کو اٹھا کر لے گئی ۔ میں اس واقعے کو بھول گیا مگر ٹھیک ایک مہینے بعد مجھ پر ایک عورت نے عزت لوٹنے کی کوشش کا الزام لگا دیا ۔ مجھے معطل کر کے انکوائری شروع کردی گئی اور انکوائری کے دوران ہی یکے بعد دیگرے تین چار عورتوں نے مجھ پر یہی الزام عائد کر دیا ۔ ابھی میں ان عورتوں کے وار سے خود کو محفوظ نہیں کر پایا تھا کہ ایک اور عورت نے مجھ پر الزام لگا دیا کہ میں جہانزیب اس کو جسم بیچنے اور کمیشن دینے پر مجبور کرتا ہوں ، مجھ پر ان الزامات کے تحت پہلے درخواستیں اور پھر ایف آئی آر درج ہو گئی ۔ میں خود کو پولیس کی گرفت سے دور رکھنے کے لئے عارضی طور پر فرار ہو گیا ۔

پولیس والوں نے ایک دن میری بیوی اور بیٹی کو تنگ کرنا شروع کر دیا ۔ یہاں تک کہ میری بیوی کو چوری کے کیس میں گرفتار کر لیا گیا ۔ پھر جب میری بیٹی اپنی ماں کی خبر گیری کرنے گئی تو خدا کے خوف سے عاری پولیس والوں نے میری بیٹی کی نازک حصوں کو چھونا شروع کر دیا ۔ جب میری بیٹی پولیس والوں کی نازیبا حرکات سے تنگ آئی اور رونے لگی تو میری بیٹی کو ماں سے ملوا دیا گیا ۔ اور ماں کی رہائی کے بدلے میری بیٹی کو بستر پر رات گزارنے کا کہا گیا تو میری بیٹی نے قانون کے محافظ پولیس والوں سے کہا کہ آپ میری ماں کو میرے ساتھ بھیج دو اور آج رات مجھے مہلت دے دوں کل خود ہی آ کر میں آپ کے پاس رات گزاروں گی۔

اگر  نہ گزاری تو مجھے بیشک دوبارہ میری ماں سمیت گرفتار کر لینا , ہوس کے پجاری پولیس والوں نے میری بیٹی کی بات مان کر اس کو ماں سمیت گھر آنے کی اجازت دے دی ۔ گھر آتے ہی میری بیٹی نے دودھ میں چینی اور گندم میں رکھی جانے والی زہر کی گولیاں ملا کر دودھ کو ابالنے کے بعد خود بھی پی لیا اور ماں کو بھی پلا دیا ۔ دوسرے دن سورج نکلنے سے پہلے ہی میری بیوی اور بیٹی مر چکی تھی مجھے جب بیوی اور بیٹی کی موت کا پتہ چلا تو میری زندگی کا مقصد ختم ہو گیا ۔ میں گھر واپس آ گیا مگر مجھے میری بیٹی اور بیوی کا جنازہ تک نہ پڑھنے دیا گیا ۔ اور بیوی اور بیٹی کو زہر دے کر قتل کرنے , فحاشی کا اڈہ چلانے اور لڑکیوں سے زبردستی کرنے کی کوشش کے الزام میں مجھے گرفتار کر لیا گیا ۔ میں نے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا ۔ مجھ پر الزام ثابت ہو گیا اور جیل بھیج دیا گیا ۔ میں آج جیل سے اپنی سزا پوری کر کے باہر آ چکا ہوں مگر میری زندگی کا مقصد ختم  ہو چکا ہے ۔ میں لوگوں کو فقط یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آج کی طوائفیں مجبور نہیں ہوتیں بلکہ مضبوط ہوتی ہیں ۔ قانون کے محافظوں سے بھی مضبوط

 

پاکستان میں بڑا بیٹا ہونا خاص طور پر دیہات میں اُس پر بڑا ظلم ہے۔

 

آٹھ بہنوں میں سے تیسرے نمبر کی لڑکی بڑی بہو کی حیثیت سے بیاہ کر ایک دور دراز کے علاقے میں واقع اپنی سسرال پہنچی ۔ وہاں دیگر افراد کے ساتھ اس کے دو  دیور بھی تھے جو پڑھائی اور کام دونوں سے فارغ تھے اور باپ کی ڈھیل اور بڑے بھائی کی باہر کی کمائی پر عیش کرتے تھے ۔

 اب لڑکی نے سسرال والوں کے دل جیتنے اور ان کی نظروں میں اپنا مقام بنانے کے لیے اپنی جان لڑا دی ، اپنے ایک بنیادی حق سے محروم ہونے کے باوجودشوہر پردیس میں اپنا خون پسینہ ایک کر رہا تھا اور یہ یہاں سسرال والوں کے دل میں گھر کرنے کے لیے اپنے دن رات ایک کیے ہوئے تھی ۔ پھر اس کی یہ قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں دو چار برسوں بعد ہی وہ اس لائق ہو گئی کہ اس نے اپنے ساس سسر سے اپنے دونوں دیوروں کےلیے اپنی دو چھوٹی بہنوں کے رشتے کی بات کی ۔ انہیں بھلا اور کیا چاہیئے تھا وہ تو ویسے ہی اس پر سو جان سے فدا تھے اور ان کا یہی خیال تھا کہ اس کی بہنیں بھی اسی کی طرح محنتی اور سگھڑ ہوں گی ۔ پھر کہیں اور ٹانگ پھنسانے اور رسک لینے سے اچھا ہے کہ باقی دونوں بیٹوں کا بھی اسی گھر میں رشتہ طے کر دیا جائے وہ راضی ہو گئے ۔
‎پھر یہ لڑکی اپنی دونوں بہنوں کو بہت دھوم دھام کے ساتھ اپنی دیورانیاں بنا کر لے آئی اور مہینہ بھر تک انہیں پلنگ سے پیر بھی نیچے زمین پر نہ دھرنے دیا اگرچہ خود اس کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ۔ پھر کھیر پکائی کی رسم انجام پائی دعوتیں ضافتیں بھی اپنے اختتام کو پہنچیں مگر نو بیاہتا جوڑوں کا ہنی مون بدستور جاری رہا ۔ دن چڑھے تک اور چھٹی والے روز بارہ بارہ بجے تک ان کے کمروں کے دروازے کھلتے نہیں تھے ۔ یہ ناشتہ بنا کر دوپہر کے کھانے کی تیاری میں مصروف ہوتی تھی تو وہ کمروں سے برامد ہوتے تھے اور غسلخانے میں غروب ہو جاتے تھے ۔ ساس کا خیال تھا کہ یہ بہنوں بہنوں کا آپس کا معاملہ ہے وہ خود ہی مینیج کر لیں گی ۔

 مگر بڑی بہن اس معاملے میں بالکل ہی مٹی کا مادھو نکلی چھوٹی بہنوں کو گھر کے نظام کا حصہ بنانے اور انہیں عملی زندگی میں ساتھ لے کر چلنے کی بجائے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا پیچھے سے بھی کوئی تربیت نہیں ہوئی تھی یہاں بڑی بہن ان کی اصلاح کرنے کی بجائے ان کی ڈھال بن گئی ۔
بالکل اسی طرح اس کے دونوں دیور بھی گھر کی ذمہ داریوں میں حصہ ڈالنے اور بڑے بھائی کا بوجھ بانٹنے کے موڈ میں نظر نہیں آتے تھے اور ٹھاٹ باٹ ان کے پورے تھے ۔

 اور باپ حسب معمول اس ساری صورتحال سے انجان بنا ہؤا تھا بڑا بیٹا اور بہو جیسے کوئی سوتیلے تھے اور سارے فرض انہی کے تھے باقی لوگ صرف مفت کی روٹیاں اور چارپائی توڑنے کے لیے تھے ۔ حالات میں ایک عجیب ابتری پیدا ہو گئی یہ لوگ سدھرنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔ لڑکی صورتحال کو اپنے ماں باپ کے علم میں لے آئی جن کے ترغیب دلانے اور اکسانے پر اس نے سسرال میں اپنی جان ماری کی تھی اپنی دو بہنوں کو وہاں کھپانے کے لیے ۔ پھر ماں باپ نے انہیں خاصی لعن طعن کی تو بس مارے باندھے جیسے تیسے گزارا ہونے لگا مگر ماحول میں خاصا تناؤ رہنے لگا ۔ پھر بڑا بھائی جو چھوٹے بھائیوں کی شادی کے بعد واپس لوٹ گیا تھا چھٹی پر گھر آیا تو ان کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر دنگ رہ گیا ۔ وہ اب بال بچے دار ہو چکے تھے کچھ کام کاج سے بھی لگ چکے تھے مگر گھر کی ذمہ داریوں میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا بڑے بھائی بھابھی کو قربانی کا بکرا بنا رکھا تھا ۔

 پھر ماں باپ کی صریح غفلت اور خود غرضی نے بھی اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ اس نے اپنی بیوی کا کچن اور پورشن علیحدہ کر دینے کا مطالبہ کر دیا ماں باپ نے اسے اپنا بوریا بستر سمیٹ کر گھر سے نکل جانے کا حکم دے دیا ۔ وہ گھر جس پر اس نے اپنی جوانی کے سارے سنہرے قیمتی سال قربان کر دیئے تھے خود اپنے لیے کچھ کیا ہی نہیں تھا اور اس دوران اسے ایک ہلکا ہارٹ اٹیک بھی آ چکا تھا ۔ ہاتھ پلے کچھ تھا ہی نہیں جو کماتا تھا والدین کے ہاتھ میں دے دیتا تھا بیوی کو بھی ان کا دست نگر بنا رکھا تھا لہٰذا اس کے ہاتھ بھی کوئی جمع پونجی نہیں تھی ۔ خیر وقت ابھی ہاتھ سے نکلا نہیں تھا اور وقت سے ہی ان دونوں کی آنکھیں بھی کھل گئی تھیں انہوں نے مزید بیوقوف نہ بننے کا فیصلہ کر لیا اور زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کے لیے کمر باندھ لی ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کام اتنا آسان بھی نہ تھا زندگی کے برسہا برس محنت مشقت کرتے ہوئے گزار دینے کے بعد خالی ہاتھ پھر زیرو پوائنٹ سے اسٹارٹ لینا ۔ خون کے رشتے خون چوس لینے کے بعد جب آپ کی کمر میں خنجر بھی گھونپ دیں تو سنبھلنا آسان نہیں ہوتا ۔ پاکستان کے متوسط و نیم متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوے فیصد گھرانوں کی یہی کہانی ہے کہ جب کوئی نوجوان زیادہ تر گھر کا بڑا بیٹا اپنے حالات کو سُدھارنے کے لیے دیار غیر کو سِدھارتا ہے تو انصاف اور خدا کا خوف اس بچے کے ساتھ ہی رخصت ہو جاتا ہے 

February 04, 2023

پٹھان لڑکی جس نے 4 مردوں کو شادی کی پہلی رات ہی مار کر FOUR YOUNG MEN DIED AND THERE GRAVE ....



 میر انام انور ہے میں ایک گورگن تھا اپنی مرضی سے نہیں اپنی قسمت سے کیوں کہ میرے والد صاحب بھی یہی کام کرتے تھے اور ان کے جانے کے بعد مجھے بھی یہی کام کرنا تھا کیونکہ اور کوئی کام مجھے آتا نہیں تھا میں ہمیشہ یہی سوچتا رہا کہ پڑھ لکھ کے بڑا آدمی بنوں گا لیکن اللہ نے اتنی عقل بھی نہیں دی تھی 6دفعہ میٹرک کرنے کی کو شش کی پر میٹرک پورا نہیں ہوا ہم لوگ  سرگودھا کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے تھے یہاں پے ویسے بھی کوئی زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا بس پھر بابا کے جانے کے بعد میں اسی کام میں لگ گیا مجھے قبرستان کے باہر ہی ایک چھوٹا سا کمرہ بھی ملا ہو ا تھا جس کی کھڑکیوں سے قبرستان نظر آتا تھا۔

میرا اب اس دنیا میں کوئی بھی نہیں تھا بس یہی میرا کام تھا پر ایک دن گاؤں میں کچھ ایسا ہوا کہ ہم حیران رہ گئے دراصل ایک دن پہلے ہی ایک جوان لڑکے کی موت ہوئی تھی اس کو کیا ہوا یہ کوئی نہیں جانتا تھا بس وہ اپنے کمرے میں مردہ حالت میں ملا تھا اس کو دفنا دیا گیا تھا اور آج صبح یہ دیکھ کر سب حیران تھے کہ اس کی قبر کی کسی نے بے حرمتی کی تھی اور اس کی لاش کی بھی ہم لوگ حیران رہ گئے کیونکہ آج سے پہلے ایسا کبھی بھی نہیں ہوا تھا۔پورے گاؤں میں ایک ہی قبرستان تھا اور گورکن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ قبرستان میں ہونے والے تمام معاملات پر نظر بھی رکھے اسی لئے لوگ مجھ سے ہی سوال کر رہے تھے میں نے کہا کہ بھائی میں بھی انسان ہوں ساری رات جاگتا نہیں رہتا میں نے کون سا کوئی چلا کاٹنا ہوتا ہے میں اپنے کمرے میں جا کر سو گیا تھا مجھے کیا پتا تھا کہ یہ کب ہوا ہے میری بات اپنی جگہ ٹھیک تھی لیکن لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا اور جس نے بھی یہ کام کیا تھا وہ انسان نہیں ہو سکتا کسی انسان کو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی لواحقین بھی بہت پریشان تھے اور پہلے سے ہی صدمے میں تھے ایک تو ان کا جوان بیٹا اس دنیا سے چلا گیا اور پھر اس کی لاش اور قبر کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا گیا یہ بات پورے گاؤں میں پھیل گئی اور ہر کسی کے لیے ایک موضوع بن گیا ابھی اس بات کو دو تین دن ہی ہوئے تھے کہ ایک  اور بات سامنے آگئی اور وہ یہ کہ اس گاؤں میں ایک چڑیل آگئی ہے اسی نے یہ کام کیا ہے کیونکہ لاش کے اوپر ناخن بھی مارے گئے تھے یہ کام کسی انسان کا نہیں ہو سکتا تھا اور ویسے بھی رات کے اندھیرے میں کوئی انسان اس قبرستان میں نہیں آتا تھا میں تو یہی پلا بڑھا تھا اس لئے مجھے ڈر نہیں لگتا تھا لیکن یہ قبرستان کافی پرانا تھا اور یہاں سے بہت سے بھوتوں کی کہانیاں بھی منسوب  تھی اسی لیے کسی عام انسان کا یہاں آنا ہی بہت مشکل تھا پھر قبر کھودنا اور لاش کے ساتھ یہ سب کچھ کرنا بہت دور کی بات تھی جن لوگوں کی میت تھی ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بیٹے کی تو کسی کے ساتھ بھی دشمنی نہیں تھی ایسی دشمنی تو ہر گز بھی نہیں تھی کہ مر جانے کے بعد بھی وہ اپنا غصہ نکالتا ہمارا بیٹا تو بہت شریف تھا پھر یہ سب کچھ کیا تھا کوئی بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔

یہ بات کے گاؤں میں چڑیل آگئی ہے اس کو آدھے لوگوں نے تسلیم کیا تھا لیکن آدھے لوگوں نے ابھی اس کو مانا نہیں تھا کہ یہ ایک ہوائی ہے جو صرف کسی دماغ سے نکلی اور زیادہ تر گاؤں کی عورتوں نے ادھر ادھر کر دی تھی لیکن تین چار دن کے بعد پھر ایک اور ایسا واقعہ ہوا یہ واقعہ ہوا کہ ایک اور جوان انسان اس دنیا سے چلا گیا اور پھر اس کو جب دفنا دیا گیا تو اگلے دن پھر سے اس کی لاش کے ساتھ بھی یہی سب کچھ کیا گیا تھا مجھے نہیں لگتا تھا کہ اللہ نہ کرے اب کسی تیسرے واقعے کی ضرورت تھی کیونکہ لوگوں نے اس بات پر یقین کر لیا تھا کہ اس گاؤں میں کوئی چڑیل آگئی ہے اور وہ یہ صرف مردوں کی لاشوں کے ساتھ ہی کر رہی ہے اور وہ بھی جو ان مردوں کی لاشوں کے ساتھ گاؤں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور شام ہوتے ہی مردوں نے گھروں سے نکلنا بھی

چھوڑ دیا لیکن میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ میں بھی تو مرد ہوں اور میری بھی تو ابھی کوئی اتنی عمر نہیں تھی میں تو اس کے قریب بیٹھا تھا سب سے آسان شکار سمجھ کے بھلا مجھ پر ہی حملہ کر دیتی تو پھر میں کیا کرتا اس سے زیادہ تو مجھے ہی ڈرنا چاہیے تھا لیکن میرے پاس اور کوئی ٹھکانہ نہیں تھا جانے کا کوئی مجھے اپنے گھر میں گھنے بھی نہیں دیتا میں پناھ لینے کے لیے کہاں جا سکتا تھا میری تو مجبوری

تھی اور اب مجھے بھی تھوڑا تھوڑا ڈر لگنے لگا تھا لیکن ابھی بھی مجھے اس بات کا یقین تھا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا ہے پر میرے بابا ہمیشہ سے کہا کرتے تھے کہ یہ جن بھوت چڑیل جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی یہ صرف کہانیوں میں ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ساری زندگی ہی قبرستان میں گزر گئی تھی اسی لیے وہ بہادر تھے اور کسی چیز سے ڈرتے نہیں تھے ہر رات انہوں نے قبرستان

میں گزاری قبرستان ہی تو ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں پر لوگ جانے سے ڈرتے ہیں جہاں پر لوگ کہانیاں بناتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ وہاں پر بھوت ہوتے ہیں جبکہ وہاں پر صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو بیچارے اس دنیا سے جاچکے ہوتے ہیں اور ان کی باقیات کو قبر میں دفنا دیا جاتا ہے لیکن اب میری بہادری بھی تھوڑی تھوڑی ڈگمگانے لگی تھی اگلے دن مجھے خبر ملی کہ کوئی اور

اس دنیا سے چلا گیا اور اس کے لیے قبر کھودنی ہے لیکن یہ کوئی بوڑھا انسان تھا اسی لیے میں نے زیادہ دھیان نہیں دیا میں نہیں جوان لڑکا اس دنیا سے چلا گیا ہے لیکن آج کے دن مجھے یہ ضرور دیکھنا تھا اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے میں نے جاگنے کی کو شش تو بہت کی لیکن مجھے بہت سخت نیند آگئی اور میں سکون سے سو گیا پر صبح آنکھ کھلی تو قبر چاہتا تھا کہ پھر سے مجھے یہ خبر ملی

بالکل صحیح سلامت پڑی تھی اس کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوا تھا اس کا مطلب کہ یہ جو بھی چڑیل تھی اسے کسی بوڑھے کی قبر سے کوئی واسطہ نہیں تھا اس کا شکار صرف جوان مرد ہی تھے ایک دن میں دکان سے کوئی چیز لینے جا رہا تھا جب ایک آدمی سے ٹکرا گیا اس آدمی کے ہاتھوں میں کچھ سامان تھا جو زمین پر گر گیا جب میں نے وہ سامان اٹھا کر دیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ رو

رہا تھا لیکن میں اس کو جانتا تھا وہ تو محلے کا بڑا ہی مہذب شخص تھا میں نے کہا کہ میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں اب رو کیوں رہے میں اس نے کہا کہ نہیں بیٹا کوئی بات نہیں کوئی بات نہیں میں ٹھیک ہوں میں نہیں ہو رہا وہ یہ کہتا ہوں وہاں سے چلا گیا اور میں حیران رہ گیا کہ اس کو کیا ہوا ہے یہ واقعی رو رہا تھا پھر سوچا کہ نہ جانے کس کے کتنے مسائل میں سفید پوش لوگ تو کسی سے بیان بھی

نہیں کر سکتے دعا کر دی کے اللہ اسکے لیے آسانی کرے لیکن اس کی وہ بے بسی بھری آنکھیں دیکھ کر تھوڑی دیر کے لئے میرا دل بڑا ہی خراب ہو گیا تھا اور میں اسی کے بارے میں سوچتا رہا تھا کچھ دن اسی طرح گزر گئے آج کل شام ہوتے ہی گاؤں خالی ہو جاتا تھا سارے بچے جو ان سب اپنے اپنے گھروں میں چلے جاتے تھے ظاہر ہے کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا تھا سب کو ہی اپنی

جان پیاری تھی میں اپنے لئے کھانا لینے رات کو نکلتا تو سارا علاقہ خالی ہو تا تھا لوگوں کے کاروبار بھی خراب ہو رہے تھے میں کھانا لے کر واپس آجاتا تھا اور کھانا کھانے کے بعد سکون سے سو جاتا تھا میری یہی روٹین تھی اور میں اسی میں خوش تھا ایک ہفتے کے بعد پھر سے کچھ ایسا ہوا کہ ایک اور لڑکا اس دنیا سے چلا گیا جب مجھے بتایا گیا کہ کسی جوان کی میت ہے تو میں سمجھ گیا کہ اس

کے بعد کیا ہونے والا ہے پر کیا میں کچھ کر سکتا تھا کیا مجھے کچھ کرنا چاہیے کیونکہ اگر وہ چویل تھی تو پھر میں کیا کر سکتا تھا میں تو کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا میں نے قبر تو کھود دی تھی اور لوگوں نے میت بھی دفنا دی تھی سب لوگ یہی باتیں کر رہے تھے کہ پھر سے نہ کچھ ہو جائے مجھے کہا کہ تم نے ساری رات جاگ کر پہرا دینا ہے

مجھ پر سب لوگ اس طرح چلا رہے تھے جیسے یہ سب کچھ  میری وجہ سے ہو رہا ہے میری تو کوئی صورت نہیں تھی جاتی بھی رہا اور میں نے کسی کا سایہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ لیا کہ وہ کسی عورت کا ہی سایہ تھا لیکن اس کے بعد میں اس اس قدر ڈر گیا تھا کہ آگے بڑھنے کی یا اسے بلانے کی یا اسے کسی طرح روکنے کی میری کوئی ہمت نہیں ہوئی بلکہ یہ بات میں نے صبح نہیں بتائی گاؤں والوں کو

لیکن مجھے چکر بھی آگئے تھے ڈر کے مارے میں بے  ہوش ہو گیا تھا کیونکہ لوگوں کی بات بلکل ٹھیک تھی میں نے سایہ تو دیکھا ہی تھا اور وہ بھی کسی عورت کا جس نے کالے کپڑے پہن رکھے تھے اور اس ٹائم یہاں پر کوئی لڑکی نہیں آسکتی تھی گاؤں کی لڑکیاں ویسے ہی کافی ڈرپوک ہوتی تھی وہ تو اپنے گھر سے باہر نکلتی تھی تو پھر اس قبرستان میں آدھی رات کو کیوں آتی تو پھر وہ کوئی چڑیل ہی ہو سکتی تھی صبح میں نے گاؤں والوں نہیں کو یہ بتا دیا کہ وہ چڑیل ہے اور میں نے کسی چوڑیل کو ہی دیکھا ہے اس کے بعد گاؤں والوں کو یقین ہو گیا اور مسجد میں اعلان تک

ہو گیا کہ اس گاؤں میں کوئی چڑیل آئی ہوئی ہے اپنی حفاظت کریں کلمہ درود پڑھیں گھر سے بلاوجہ نہ نکلے اور خاص کر مردوں کا کہا گیا کہ وہ گھر سے بالکل ہی نہ نکلے لوگوں نے اپنے گھر کو راشن سے بھر لیا تھا کہ بار بار باہر نہ جانا پڑے لیکن میرے پاس تو فریج بھی نہیں تھا جس میں ایک ساتھ ہی راشن لے کے رکھ سکتا ہے مجھے تو لگتا تھا کہ اگلا نمبر میرا کیونکہ میں سب سے زیادہ آسان شکار تھا بہت زیادہ ڈرا ہوا تھا بہت ہی پریشان تھا سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں مجھے بابائی بہت یاد آرہی تھی بابا ہوتے تو وہ اس معاملے کو اچھی طرح سنبھال لیتے میرے بابا تو اتنے بہادر تھے کہ جیسے انھوں نے اس چڑیل کو دیکھا وہ ڈنڈالے کر اس کے پیچھے پڑ جاتے لیکن میں اتنا ڈر پوک تھا کہ اس کو دیکھتے ہی بے ہوش ہو گیا یہ تو شکر ہے کہ کسی نے مجھے بے ہوش ہوتے نہیں دیکھا نہیں تو میری کیا عزت رہ جانی تھی کچھ دن کے بعد پھر سے ایک شخص دنیا سے چلا گیا اور مجھے بلایا گیا لیکن میں نے بہانہ کر دیا کہ میں وہاں پہ ہوں ہی نہیں میں نے ایک مالی کو کہا کہ تم کہہ دینا کہ وہ تو اپنے دوسرے گاؤں چلا گیا کیونکہ میں بہت زیادہ ڈر گیا تھا اسی لیے میں نے یہ بات کی تھی تھوڑی دیر اسی طرح اپنے کمرے میں چھپ کے بیٹھا رہا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ جب اندھیرا ہو جائے گا تو ویسے بھی گھر سے کوئی باہر نہیں نکلے تو پھر میں آرام سے باہر آسکتا ہوں اپنے لیے کھانا لینے گیا ابھی تو یہ سوچ رہا تھا کہ کیسے دن آگئے ہیں مجھ پہ کے اپنے ہی گاؤں میں مجھے چھپنا پڑ رہا ہے لیکن آج رات کو میں نے ایسا منظر دیکھا کہ میں حیران رہ گیا میں نے دیکھا کہ کوئی لڑکی کا سایہ قبر کی طرف آیا ہے لیکن اچانک سے وہ سایہ زمین پر گر گیا اور اس کے منہ سے آہ نکل گئی میرے بابا کہتے تھے کہ جن بھوتوں کو کبھی بھی چھوٹ نہیں لگتی ہے لیکن اس لڑکی کی آہ مجھے سنائی دی تھی اس کا مطلب یہ چڑیل نہیں تھی میں نے اس طرف لائٹ ماری میں نے کہا کون ہو تم اور اس نے بھی میری طرف دیکھا تو میں حیران رہ گیا کیونکہ وہ کوئی لڑکی ہی تھی جو صرف 16سال کی ہو گئی اور قبر کھودنے کی تیاری میں تھی کہ میں نے اسے پکڑ لیا اور میں نے کہا کون ہو تم یہاں کیا کر رہی ہو جب میں اسے روشنی میں لے کر آیا تو میں حیران رہ گیا اس کے چہرے پر بہت پرانے اور بڑے بڑے زخموں کے نشان تھے وہ بری طرح رونے لگی ۔

میں نے کہا کون ہوں ہو تم یہاں کیا کر رہی ہو اس قبر سے تمہارا کیا تعلق  ہے کیا تم نے ہی وہ سب کچھ کیا ہے جب اس نے ہاں میں سر ہلایا تو میرے قدموں تلے سے زمین نکل گئی ہے یہ تو پتہ چل گیا تھا کہ وہ کوئی چڑیل نہیں تھی لیکن لڑکی ہو کر وہ یہ سب کیوں کر رہی تھی یہ نہیں پتا تھا میں نے اس سے کہا کہ تم میرے کوارٹر میں آ جاؤ اور مجھے پوری بات بتاؤ وہ اندر آنے سے گھبرانے لگی میں نے کہا دیکھو تم میری چھوٹی بہن جیسی ہو آجاؤ اور بس مجھے بتاؤ تم یہ سب کیوں کرتی ہو اندر آئی اور کھانے کی طرف دیکھنے لگی اسے بہت زیادہ بھوک لگی ہوئی تھی میں نے اسے اپنے حصے کا کھانا کھلا دیا اب اسے میرے اوپر تھوڑا سا بھروسہ ہو گیا کہ یہ واقعی اچھا انسان ہے میں نے کہا کہ بتاؤ کیا بات ہے تمہارے ساتھ کیا ہوا تو اس نے کہا کہ میں انور علی کی بیٹی ہوں یہ وہی انور تھا جو کسی سکول میں ٹیچر ہے اس نے کہا کہ جی یہ اسی انسان کی بات کر رہی تھی جس کو میں نے سڑک پر دیکھا تھا جو بہت زیادہ دکھی تھا اور جس کی شکل ابھی تک میری آنکھوں میں آرہی تھی اس نے کہا کہ جن چار لوگوں کو تم نے دفنایا وہ ملک کے بیٹے کے دوست تھے اور ملک کا بیٹا مجھے پسند کرتا تھا آتے جاتے میرا راستہ روکتا تھا اس نے کئی دفعہ پیغام بھی بھیجا تھا لیکن جب مجھے وہ پسند ہی نہیں تھا تو میں اس کا کیا جواب دیتی اس لیے میں نے انکار کر دیا مجھے نہیں پتا تھا کہ میرے لیے وہ اس قدر پاگل ہو جائے گا کیونکہ اس کے لیے لڑکیوں کی کمی نہیں تھی وہ یہاں پر زیادہ وقت رہتا بھی نہیں ہے کبھی کبھی آتا تھا جب آتا ہے اس کا یہی کام ہوتے ہیں کوئی بھی اسے پسند نہیں کرتا ہے اس نے اپنے انہیں 4 دوستوں کے ساتھ مل کر مجھ اٹھ والیا اور سب نے مل کر میری عزت لوٹ لی اور مجھے جان سے مارنے کی کوشش بھی کی ان کو لگا کہ میں مر گئی ہوں لیکن میں بچ گئی تھی یہ مجھے اس قبرستان میں پھینک گئے تھے میرے اندر اتنی زندگی باقی نہیں تھی لیکن بدلے کی آگ ضرور تھی اسی لیے شاید میری جان بچ گئی اور آہستہ آہستہ وہ چاروں خود ہی مرنے لگے نہ جانے ان کو کس نے مار دیا یہ مجھے نہیں پتا لیکن میرا ابدلہ کسی اور نے لیا اسی لیے میرے اندر بھی آگ بھری ہوئی تھی جس کو  ختم کرنے کے لیے میں اپنا غصہ ان کی لاش پر نکال دیتی تھی میں اس بات پر حیران رہ گیا میں نے کہا کہ انہوں نے تمہارے ساتھ برا کیا لیکن اگر تم نے ان کو نہیں مارا تو پھر کس نے مارا اس نے۔ کہا کہ یہ بات میں بھی نہیں جانتی میں ویسے بھی میں کیا کر سکتی میں کیا کر لیتی میرے اندر اتنی طاقت نہیں تھی مجھے پتا تھا کہ میں نہیں کر پاؤں گی لیکن جس نے بھی یہ کیا ہے اس نے میرا بہت بھلا کیا اور لوگوں کو مار کے میر ابد لا پورا کر دیا ہے اب آخری شکار رہ گئی اور مجھے لگتا ہے کہ جس طرح سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے وہ بھی ضرور مرجائے گا اس نے کہا کہ میرے بابا یہ جانتے ہیں کہ مر گئی ہوں اس لئے آج کل بہت اداس ہے میں ان کے سامنے نہیں جانا چاہتی جب تک کہ میر ابدلہ پورا نہ ہو جائے۔

تبھی وہ انسان اتنا زیادہ پریشان تھا میں نے اس سے کہا کہ میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں اس نے کہا کہ بس یہ ہی کرو کہ چڑیل کی اس کہانی کو پھیلاتے رہو تا کہ لوگ یہ سمجھیں کہ یہ کام کسی چڑیل کا ہے تاکہ مجھ پر اس انسان پر کوئی بات نہ آئے جو میری مدد کر رہا ہے اور یہ سب کچھ کر رہا ہے میں نے کہا کہ ٹھیک ہے اگلے دن نے شور ڈال دیا کہ انہوں نے چڑیل کو دیکھا اس دفعہ میں لوگوں کو اس کا حلیہ بھی بتایا کہ اس کے لمبے لمبے ناخن  تھے بڑا قد تھا اس نے کالے کپڑے پہن رکھے تھے اور جب میں گیا تو اس نے مجھے ایسا دھکا دیا کہ میں اُڑ سے زمین پر گر گیا میری کہانی سب عورتیں ایسے سن رہی تھی کہ جیسے کوئی بہت بڑی داستان سنار رہا تھا لیکن ابھی بھی میں یہ سن کر حیران تھا کہ وہ انسان کون ہے جو اس لڑکی کی مدد کر رہا تھا کیونکہ واقعی ان لوگوں کو مارتے  اس لڑکی کے بس کی بات نہیں تھی مجھے گاؤں میں ایک  شخص نظر آیا جو بہت ہی زیادہ طاقتور اور شکل سے امیر اور خوبصورت لگ رہا تھا اس کو میں نے اس گاؤں میں کبھی پہلے نہیں دیکھا تھا وہ اجنبی تھا اور جس دن میں نے دیکھا اسی دن ملک کے بیٹے کی جان چلی گئی اور وہ اس دنیا سے چلا گیا اس لڑکی نے اپنا نام صائمہ بتایا تھا اس کا بدلہ پورا ہو گیا لیکن یہ آدمی کون تھا یہ بھی کسی کو نہیں پتا تھا وہ بھی وہاں سے غائب ہو گیا مجھ کو بہت باتیں  سنائی گئی کہ تم کچھ نہیں کر سکتے میں نے کہا کہ میں بھی آپ لوگوں کی طرح انسان ہوں اور گورکن بھی انسان ہوتا ہے میں اس سے لڑ نہیں سکتا اگر میں قبرستان میں رہتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میرے اندر کوئی طاقت ہے میں نے ان لوگوں کو یہ کہہ دیا کہ اب وہ چڑیل یہاں پر نہیں آئے گی میں  نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ میرابدلہ پورا ہو گیا وہاں سے چلی گئی ہے کیونکہ مجھے لوگوں کے دماغ سے ڈر نکالنا بھی تھا اس کے بعد واقعی ایسا کچھ نہیں ہوا کافی وقت گزر گیا لیکن وہ انسان کون تھا جس نے ان سب کو مارا تھا جب کہ وہ اس لڑکی کو جانتا بھی نہیں تھا اس لڑکی کا باپ بھی اس گاؤں سے چلا گیا تھا لڑکی نے کہا تھا کہ جب میں اپنا بدلہ لے لوں گی تو میں اپنے باپ کو اپنے بارے میں بتا دوں گی۔

اور اس کا اپنے باپ کے علاوہ اس دنیامیں کوئی بھی نہیں اسی لیے شاید وہ لوگ یہاں سے چلے گئے تھے کچھ عرصہ کے بعد میں نے اس کے باپ اپنے گھر کے باہر کھڑے دیکھا میں نے کہا کہ آپ یہاں پر تو لڑکی اُن کے ساتھ نہیں تھی اس نے کہا کہ تمہیں سب کچھ پتہ ہے نا میں نے کہا کہ جی مجھے پتا ہے اس نے کہا کہ میری بیٹی نے تمہیں سب کچھ بتایا تھا اور اسی نے مجھے بتایا ہے کہ تم نے اس کی مدد بھی کی تھی میں چاہتاہوں کہ تم میری بیٹی کے ساتھ شادی کر لو اور تم بھی میرے ساتھ چلو میں نے کہا کیا مطلب ہے اس نے کہا کہ اگر تم میری بیٹی سے شادی کرنا چاہتے ہو تو کر لو کیونکہ تم وہ پہلے انسان ہوں جس کو اس کے بارے میں سب کچھ پتہ ہے میں نے کہا کہ مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے میں مردوں میں سے نہیں اگر آپ کو منظور ہے تو مجھے واقعی کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن مجھے بھی سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ان سب کو مارا کس نے تو اس کے باپ نے مجھے ایسی بات بتائی کہ میں حیران رہ گیا اس نے کہا کہ میں نے ایک ایسے انسان کو پیسے دیے تھے جس کا کام ہی یہی تھا یہ بات میری بیٹی کو نہیں پتا ہے دراصل وہ کرائے کا غنڈا تھا میں نے اسے اپنا سب کچھ بیچ کے اتنے پیسے دیے کہ وہ ان 5 لوگوں کی جان لے سکے اور اس کے لیے یہ کام کوئی مشکل نہیں تھا میں نے اپنی بیٹی کیعزت لوٹنے والوں سے بدلہ لیا ہے لیکن میری بیٹی کو یہ بات بتانی نہیں ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ کوئی اس کے ساتھ شادی کر لی کیونکہ اگر کسی کو یہ پتہ چل گیا اور میں پولیس کے ہاتھ لگ گیا اور جیل میں چلا گیا تو میری بیٹی اکیلی رہ گئی میں نے کہا کیا ہے ایسا کچھ نہیں ہو گا اور میں ہمیشہ اس کا خیال رکھوں گا اس نے اس اسی لڑکی کے ساتھ میرا نکاح کر وا دیا اور میں بھی وہاں سے چلا گیا اب میں ایک کرانے کی دکان پر کام کرتا ہوں جو میں نے خود بنا لی ہے اور صائمہ میری بیوی ہے مجھے واقعی اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ عورت کی عزت ایک ایسا خزانہ ہے جو کبھی بھی ختم نہیں ہوتا ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ فلاں عورت کی عزت لٹ گئی ہے کیونکہ اس کے ساتھ غلط کاری ہوئی ہے تو عزت اس کی نہیں بلکہ اس انسان کی جاتی ہے جس نے غلطی کی ہے

کیونکہ غلط اس نے کیا ہوتا ہے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ جس کے ساتھ ظلم ہوا ہے اس کو کیوں مجرم بنا دیا جاتا ہے بہر حال میری زندگی کا رخ بدل گیا ہے گاؤں والے اس بات کو شاید بھول گئے ہونگے یا صرف کہانی سناتے ہو گے کہ اس گاؤں میں ایک چڑیل آئی تھی جس نے 5 جو ان لوگوں کو مار کے ان کی لاشوں کو برباد کر دیا تھا لیکن دراصل ان کے ساتھ جو ہوا بالکل

ٹھیک ہوں انہوں نے کسی کی بیٹی کی زندگی برباد کی تھی اور ایسے لوگوں کے ساتھ اس سے بھی برا ہونا چاہیے میں سلام کرتا ہوں اس آدمی کو جس نے اپنی بیٹی کی عزت لوٹنے والوں سے بدلہ لیا لیکن کسی کو یہ بات بتائی نہیں کہ کسی کی بیٹی کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے اور ہر غریب انسان ہر بارڈر پوک نہیں ہوتا ہے پر میں نہیں جانتا تھا کہ میں اس کہانی کا حصہ تھا یہ مجھے معلوم ہی

نہیں تھا لیکن میری زندگی پوری طرح سے بدل گئی ہے اور اب میں بہت خوش ہوں میں ساری زندگی قبر نہیں کھود نا چاہتا تھا اب میں ایک دکاندار ہوں میری ایک بیوی ہے ایک بچہ ہے اور میں ایک اچھی زندگی گزار رہا ہوں اس سے زیادہ مجھے اور کچھ چاہیے بھی نہیں چاہیے اپنی زندگی میں بہت خوش ہوں اور اپنے بابا کو یاد کرتا ہوں آخری وقت میں انھوں نے مجھے بہت دعائیں دی تھی ان کی دعائیں ہی مجھے لگ گئی اور اب میری زندگی بہت اچھی ہے

Total Pageviews