June 13, 2018

KHAYBAR WAS YOUR LAST CHANCE فتح خیبر تمھاری مسلمانوں کی آخری فتح تھی




خیبر سے اسرائیل تک
نگاہیں پلے کارڈ پر چپک کر رہ گئیں تھی جس پر جلی حروف سے لکھا تھا
KHAYBAR WAS YOUR LAST CHANCE
’’خیبر تمہارا آخری موقع تھا‘‘یہودی نوجوان یہ پلے کارڈ اٹھائے ٹورنٹو شہر میں مظاہرہ کررہے تھے ۔۔۔
میں نے اپنے پوتے کی جانب دیکھا اور پوچھا
کیا تمہیں معلوم ہے خیبر کا واقعہ ؟
پوتے نے بھول پن سے کہا :نہیں
میں نے اپنے بیٹے سے معلوم کیا کیا تم جانتے ہو خیبر کے یہودیوں کا معاملہ کیا تھا ؟
بیٹے نے جواب دیا نہیں بابا جان ! مجھے بھی نہیں معلوم ۔
میری نظریں پھر پلے کارڈ پر اٹھ گئیں لیکن اب ایسا لگتا تھا پلے کارڈ پر لکھے حروف مجھ پر ہنس رہے ہیں ان کے قہقہوں میں عجیب سفاکیت ہے ۔۔۔۔۔میں نے ایک نگاہ اپنی دونوں نسلوں پر ڈالی ۔۔۔۔
یہودی کی کوئی نسل خیبر کو نہیں بھولی اور مسلمانوں کی آنے والی نسلیں خیبر کی فتح کو بھول گئیں ۔۔۔۔
پلے کارڈ نگاہوں کے حصار میں تھا کہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی چیخوں نے میری سماعت سے ٹکرانا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔میری رگیں پھولنا شروع ہو گئیں ۔۔۔۔آنکھیں سرخ ہو نے لگیں ۔۔۔۔ہتھیلی نے مٹھی کی شکل اختیار کر لی ۔۔۔۔اگلے ہی لمحے اپنے بیٹے اور پوتے کو دیکھا تو دل چاہا اپنے بال نوچ لوں ۔۔۔۔۔ خود کو تختۂ جرم پر محسوس کررہا تھا۔۔۔۔۔
میں نے کیوں نہیں بتایا انہیں کہ میرے نبی ﷺ کے ساتھ ان یہودیوں نے مدینے میں کیا کیا تھا؟یہ میرےنبی کے خون آشام دشمن تھے ۔۔۔۔غزوہ بنو قریضہ کیوں نہیں سُنایا ؟۔۔۔۔۔غزوہ بنو نضیرکیوں پیش آیا تھا ؟ ۔۔۔۔غزوہ قینقا ع کا پس منظر کیا تھا ؟ مسلمان خیبر کیوں پہنچے تھے ؟۔۔۔۔۔
یہ یہودی میرے آقا ومولیٰ ﷺ کی جان کے دشمن کیوں تھے ؟ اُحد کے میدا ن میں جب مسلمانوں کو بڑی تعداد میں جانی نقصان ہوا توان کے گھروں میں گھی کے چراغ کیوں روشن ہو ئے تھے ؟
میں نے کیوں نہیں بتایا اپنی نسلوں کو ؟ ۔۔۔۔۔۔ یہ خود خدا کی چہیتی قوم بتانے والی انسانیت کے لیے کس قدر مضر ہے ۔۔۔اس کی سفاکی کی داستانیں فلسطین کے ہر درو دیوار پر جلی حروف سے آویزاں ہے ۔۔۔۔۔
پلے کارڈ پر نگاہ پڑی حروف زناٹے دار تھپڑوں کی طرح میرے چہرے پر برس رہے تھے ۔۔۔۔۔
ایک عزم کےساتھ اٹھا نہیں ۔۔۔۔نہیں ہر گز نہیں ۔۔۔۔
میرے نبی ﷺ کی جان کے دشمن ۔۔۔۔میرے نبی کریم ﷺ کے صحابہ کے دشمن ۔۔۔۔۔
میں اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کو تمہاری خباثت سے ضرور آگاہ کروں گا ۔۔۔۔۔میں تمہارے ظلم و سفاکیت کی داستان اپنی آنے والی نسلوں تک ضرور پہنچاؤں گا ۔۔۔۔۔میں بتاؤں گا اپنی نسلِ نو کو تمہاری ابتداء سے انتہاتک کی تاریخ ۔۔۔۔۔
میں اپنے بچوں کو سیرت النبی ﷺ یعنی آپ ﷺ کی زندگی کے ہر پہلو سے آگاہ کروں گا ۔۔۔۔۔
آؤ اے ملتِ اسلامیہ کے نوجوانو! اس مشن میں میری مدد کرو ۔۔۔۔۔
آؤ ! ہم سب اپنے بچوں کو ۔۔۔۔اپنی آنے والی نسلوں کو ۔۔۔۔سیرت النبی ﷺ سے آگاہ کریں اور بتا دو ان یہودیوں کو خیبر آخری موقع نہیں تھا ان شاء اللہ اسرائیل کی فتح بھی امت مسلمہ کے نوجوانوں نبی کریم ﷺ کے غلاموں کے ہاتھوں ہو گی ۔۔۔۔
امن کا نشان
ہمارا پاکستان

وہ ابھی خیبر کی شکست نہیں بھولے ۔۔۔!!!!

جمعہ کو یہودیوں نے کینڈا میں ریلی نکالی ، زیر نظر تصویر اسی ریلی میں اٹھائے گئے ایک پلے کارڈ کی ہے۔ جس پر مسلمانوں کے لیے طنزاً لکھا گیا ہے۔
" خیبر آپ کا آخری موقع تھا "

یقیناً یہ طمانچہ تمام مسلمانوں کے منہ پر ھے کہ تم نے جو کرنا تھا وہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے کر لیا ۔ اب تم صرف جذباتی نعروں اور خالی بدعاؤں کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔

پلے کارڈ پر لکھے گئے الفاظ صاف صاف بتا رہے ہیں کہ یہودی آج تک خیبر کی شکست نہیں بھولے ۔
لیکن ہم مسلمانوں نے کیا یاد رکھا۔۔؟؟؟
ہم سب کچھ بھول کر دوبارہ وہی غلطیاں کر رہے ہیں۔

ہم شائد بھول گئے ہیں کہ چنگیز خان نے کیسے ہمارے خون کی ندیاں بہائیں ۔
ہم شائد بھول گئے ہیں کہ جب ہلاکو خان بغداد میں مسلمانوں کے کٹے سروں کا مینار بنا رھا تھا اس وقت ہمارے علماء مخالف فرقے کو نیچ دیکھانے کی تدبیریں سوچ رہے تھے۔
جب ہمیں اندلس سے دھکے مار کر نکالا گیا تب ہمارے شہنشاہ مختلف قسم کی شرابوں کے چسکے لے رہے تھے۔
ہم شائد بھول گئے ہیں کہ جب فلسطین سے مسلمانوں کا قبضہ چھینا گیا تب تو ہمارے درمیان سوئی کی نوک پر بیٹھنے والے فرشتوں کی تعداد پر مناظرے ہو رہے تھے۔

ہم ترکی کی چھینی گئی خلافت کو بھول گئے۔ آج تک کبھی دوبارہ خلاف کا خیال نہیں آیا۔
ہم ہندوستان پر مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے کو بھول گئے ۔
ہم یہ بھی بھول گئے کہ ہمارے میسور کے شیر سلطان ٹیپو کو شکست دلوانے والے ہمارے اپنے تھے۔
ہم بھول گئے کہ ہم نے ایک ریاست اسلام کے نام پر حاصل کی تھی آج ہم اسے کس طرف لے کر جارہے ہیں۔

کاش ہم کچھ نہ بھولتے ۔۔۔۔۔

کاش ہم بھی عراق کی تباہی پر اسرائیل ، امریکہ کو بتاتے کہ یہ تمھارا آخری موقع تھا اس سے آگے مت بڑھنا ۔
کاش ہم بھی شام لیبیا فلسطین کشمیر کو نہ بھولتے ۔

مگر افسوس ہم نے سب کچھ بھلا دیا ۔ ہم بھول گئے کہ ہم نے متحد ہو کر رہنا ہے۔ ہمارے علماء بھول گئے کہ ہم نے ماضی میں بھی آپس کی رنجشیں اور جعلی فتوؤں ٰ کی قیمت  امت کی لاشیں دے کر پوری کروائی ہے۔
ہمارے بادشاہ بھول گئے اپنے ملکوں میں مندر ، جوئے خانے اور شراب خانے کھولنے سے مشرک ہم سے راضی نہیں ہوجائیں گئے ۔

کاش ہم آج بھی سب کچھ یاد کرلیں ۔
ہم یاد کرلیں کہ ہمارے بڑوں نے جعلی مناظروں اور ایک دوسرے پر فتوے لگا کر شان و شوکت حاصل نہیں کی تھی۔
کاش ہم یاد کرلیں کہ ہمیں اپنے بڑوں کی طرح خاموشی سے سائنسی دنیا میں انقلاب پیدا کرنا ہے۔

ہمیں یاد رکھنا ہے کہ ہمارے دشمن اپنی شکستوں کو آج تک نہيں بھولے وہ اپنی خامیاں دور کر کے ہم سے کئی گنا طاقتور بن چکے ہیں۔
ہمیں اس جدید دنیا میں اپنی قابلیت کا لوہا منوانا ہے۔
تحریر محبت خان

June 08, 2018

PTI ANNOUNCES National Assembly Ticket Holders 2018


پاکستان تحریک انصاف  نے قومی اسمبلی الیکشن 2018 کے لئے ٹکٹ ہولڈرز کا اعلان کر دیا ہے۔ مکمل تفصیل








ریحام خان کی کتاب اہم مگر۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ


ریحام خان کی کتاب اہم مگر۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ


کوئی سا بھی ٹی چینل کھول لیں، آپ کے سامنے وطن عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ موضوع بحث بنا ہوگا۔ ریحام خان کی نئی کتاب کے مندرجات کیا ہیں؟ جن ذرائع سے ان کو حاصل کیا گیا ہے وہ کیا ہیں؟ اس نے جو باتیں کی ہیں، اس کا ہمارے آنے والے الیکشن پر کیا اثر ہوگا؟ اس میں عمران خان کی ذاتی زندگی کو کس حد تک ڈسکس کیا گیا ہے؟ اور حیرت انگیز بات ہے کہ آپ کو کئی کلپس مل جائیں گے، جس میں ریحام خان ایک بلیک بیری کا ذکر کر رہی ہیں اور پھر یہ بلیک بیری ایک بریکنگ نیوز کے طور پر ہمارے سامنے بار بار دہرایا جا رہا ہے۔ آپ ہمارے ذہن کا اندازہ لگائیں، اگر آپ کسی عوامی جگہ پر موجود ہیں اور ٹی وی ٹاک شو کا پرائم ٹائم چل رہا ہے اور اس وقت آپ کوئی ایسا چینل لگاتے ہیں، جس میں یہ موضوع نہ ہو تو وہاں بیٹھے لوگ چند منٹس میں آپ کو چینل تبدیل کرنے پر مجبور کر دیں گے، یہ کیا ہے؟ ہم بڑی تیزی سے معاشرتی اور نفسیاتی طور پر ایک مریض سوسائٹی کی طرف بڑھ رہے ہیں، جہاں اقدار کا خون ہوتا ہے۔
ایک اور واقعہ کو دقت سے دیکھیں، پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے ایک شخص اپنے ہی بچوں اور بیوی کو یرغمال بنا لیتا ہے، تھوڑی ہی دیر میں یہ واقعہ پورے پاکستانی چینلز پر سب سے بڑا ہاٹ ایشو بن چکا ہوتا ہے۔ میں اس وقت پاکستان سے باہر تھا، مجھے ایک دوست نے پاکستان  سے سپیشل فون کیا، کیا کچھ پتہ چلا یا بے خبر ہو؟ میں بڑا پریشان ہوا خدا خیر کرے، ہر روز وطن عزیز میں دھماکے ہو رہے تھے، میں سمجھا شائد کوئی دھماکہ ہوا ہے۔ میں نے پوچھا  کیا ہوا۔؟ انہوں نے بتایا غالباً کسی جاوید نامی بندے نے اپنی فیملی کو یرغمال بنا لیا ہے اور ہم اسے دیکھنے آئے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا یار یہ بھی کوئی خبر ہے؟ اس نے کہا عجیب آدمی ہو، یہاں سینکڑوں لوگ جمع ہیں، ہر چینل لائیو دکھا رہا ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ میں نے اس دوست کا اس اہم خبر پر شکریہ ادا کیا اور دیار غیر میں کافی دیر سوچتا رہا کہ میرے وطن کے لوگ کب بڑے ہوں گے۔
اس وقت سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹرینڈ میں ریحام خان کا نام آ رہا ہے۔ ہم بطور سوسائٹی تربیت کے بحران کا شکار ہیں۔ جھوٹ، تہمت، غیبت اور بہتان بڑی آسانی سے لگا دیا جاتا ہے اور اسے سٹوری کا نام دیا جاتا ہے۔ جس بندے کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے، اس کی عمر بھر کی عزت لمحات میں برباد کر دی جاتی ہے اور اسے خبر کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر بندہ طاقتور ہو تو چند دنوں بعد فرنٹ پیج پر چھپنے والے بہتان کی تردید نظر نہ آنے والے فونٹ میں کر دی جاتی ہے۔ مغربی تہذیب کا ایک المیہ ہے کہ اس میں عورت کو ایک کمرشل پروڈکٹ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اس پورے معاملے میں بھی مشرقی اقدار کو پامال کیا گیا ہے۔ امام خمینیؒ نے کہا تھا کہ اہل مغرب نے عورت کو اشتہار کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ بخدا انہوں نے درست فرمایا تھا۔ اس پوری کمپین میں عورت ایک اشتہار کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ کون درست ہے اور کون غلط ہے؟ بعض اوقات دونوں ہی غلط ہوتے ہیں، کوئی تھوڑا اور کوئی زیادہ غلط ہوتا ہے۔
ہم بطور قوم اس وقت اس عجیب ایشو میں الجھے ہوئے ہیں، جب فلسطین میں آگ لگی ہے ہر روز ظلم و بربریت کی ایک داستان رقم ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوج انسانیت سوز مظالم کا ارتکاب کر رہی ہے، نہتے فلسطینی اپنی قربانیوں کے ذریعے عَلم حریت کو بلند کر رہے ہیں۔ گھروں کو واپسی کی تحریک نے فلسطینی نوجوانوں میں نئی روح پھونک دی ہے۔ کشمیر، ہاں وہی کشمیر جو ہماری شہ رگ حیات ہے، جس کے بغیر پاکستان نامکمل ہے، جس کے لوگوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں، انہیں گولیوں سے چھنی کیا جا رہا ہے، انہیں گاڑیوں کے نیچے کچلا جا رہا ہے اور بارود لگا کر اڑایا جا رہا ہے۔ ان کے فلک شگاف نعرے خوبصورت وادیوں کے سکون کو اضطراب میں مبتلا کئے ہوئے ہیں۔ بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین جان کی پرواہ کئے بغیر پاکستان کی حمایت میں نکل کھڑے ہوئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں پاکستان سے رشتہ کیا؟ لا الہ الا اللہ، لے کر رہیں گے آزادی، ہے حق ہمارا آزادی، کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ ہم  خواب غفلت میں پڑے ہیں، سوچنے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے۔ اقبال کا درد بھی یہی تھا، اسی لئے فرماتے ہیں:
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاج سر دارا
جب ایسٹ انڈیا کمپنی بنگال پر قبضہ کرکے بڑی تیزی سے ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی طرف بڑھ رہی تھی تو مسلمان اسی طرح نان ایشوز میں الجھے ہوئے تھے، جیسے آج ہیں۔ دلی میں کبوتر بازی کے بڑی مقابلے چل رہے تھے، دن بھر منہ آسمان کی طرف اٹھائے لوگ دلی کی  بڑی حویلیوں کی چھتوں پر نظر آتے تھے۔ شہر کے بڑے بڑے سورما جنہوں نے قوم کی رکھوالی کرنی تھی، ان کے درمیان شہر کی طوائفوں سے تعلقات پر جھگڑے چل رہے تھے اور نتیجہ سب کے سامنے ایک سو سال کی بربادی مقدر ٹھہری، وہ تہذیب و ثقافت جس کی بنیاد پچھلی کئی صدیوں کی محنت سے رکھی گئی تھی، غارت ہوگئی اقتدار ایسا ہاتھ سے نکلا کہ ہاتھ ملتے رہ گئے، آج تک ہندوستان میں مسلم شناخت کا مسئلہ درپیش ہے۔ عجیب بات ہے اب تو مسلم ممالک سے کوئی اچھی خبر  بھی نہیں آتی، یا سازشوں کا شکار ہیں یا سازشوں کا حصہ ہیں۔ اللہ بھلا کرے ارجنٹائن کا جس نے اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کے خلاف بطور احتجاج اسرائیل سے دوستانہ میچ کھیلنے سے انکار کر دیا۔ اس جیسی خبروں سے دل کو حوصلہ ملتا ہے کہ انسانیت ابھی مری نہیں، دنیا کا ضمیر مفادات کی دھول میں دب ضرور گیا ہے، مگر موجود ہے۔ ایک دن ضرور آئے گا، جب فلسطینی اپنے گھروں کو جائیں گے اور اہل کشمیر آزادی پائیں گے۔

June 07, 2018

محمود خان اچکزائی کی اصلیت Real face of Mehmood Khan Achakzai




اسلام و علیکم میرے ہم وطن پاکستانیو یہ ہیں جناب محمود خان اچکزائی کی اصلیت
پلیز تحریر کو پورا پڑھئیے گا شکریہ
یہ کھدر پوش مسخرہ جو اپنی چادر میں بہت کچھ چھپا لیتا ہے ۔عبدالصمد اچکزئی کا بیٹا ہے۔ وہی عبدالصمد جس نے ساری عمر بلوچستان میں بیٹھ کر کانگرس کا مال کھایا اور پاکستان بننے کی مخالفت کی ۔جس نے نیشنل عوامی پارٹی سے الگ ہوکر "پختون خواہ" پارٹی بنالی۔اور بلوچستان کے پختونوں کے حقوق کا سوداگر بن بیٹھااور زندگی بھر1970ءکے انتخابات میں بلوچستان سے صرف ایک صوبائی نشست حاصل کی۔1970ءکی دہائی میں عبدالصمد کا نام ایک قوم پرست پختون راہنماکے طور پر سنا پھر غالبا1973ءمیں ایک قبائلی جھگڑے میں قتل ہوگیا۔اور یوں ایک طویل عرصہ تک "اچکزئی" نام کی کوئی چیز میدان سیاست میں نظر نہ آئی۔جنرل مشرف نے جب الیکٹرانک میڈیا کو آزادی دی تو ابتداءمیں TV کے پاس "ٹائم پاس"کرنے کیلئے کوئی پروگرام نہیں ہوتے تھے۔رنگا رنگ قسم کے سیاسی ٹوٹ بٹوٹ اور الوباٹےT.Vکی سکرینوں پر جلوہ گر ہوتے رہے جن میں ایک بار کسی چینل پر محمود خان اچکزئی کو دیکھنے اور سننے کا اتفاق ہوا۔"چکی" اتنی بڑی کہ کرسی پر پورا اسمایا نہیں جاتا تھا۔گفتگو میں اتنی ربط کہ ایک جملہ دوسرے سے میل نہیں کھاتا تھا۔کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کہنا چاہتا ہے۔اور اسی طرح پروگرام ختم ہوگیا۔

محمود خان ایک طویل وقفے تک عوام اور میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہا۔پھر اسلام آباد میں طاہر القادری اور عمران خان نے 126،دن کا تاریخی دھرنا دیا جس نے نواز شریف کی بادشاہت کو لگام ڈال دی تو تاریخ نے ان سب سیاسی مفت خوروں کو بھی جو نواز شریف کا دیا کھاتے تھے پارلیمنٹ میں عریاں کر دیا۔ یہ میرے مولا کی کرم نوازی تھی ورنہ اقتدار کے دسترخوان سے ہڈیاں چننے والے سیاستدان جلد بے نقاب نہیں ہوتے۔ انہیں میں سے ایک محمود خان اچکزئی بھی تھا جس نے اپنے سیاسی مخالفین کو کبھی خانہ بدوش کہا تو کبھی ریاست پاکستان کا غدار۔ تاہم کبھی کبھی ایک انجانی سے خوشی ضرور ہوتی کہ اچکزئی اب ریاست پاکستان کا وفادار بن چکا ہے۔ کیونکہ وہ اب بار بار"ریاست پاکستان" اور آئین پاکستان کی بات کرکے اپنے باپ کے سیاسی گناہوں کو دھونا چاہتا ہے اور اچکزئی خاندان سے پاکستان دشمنی کا لیبل ہٹانا چاہتا ہے۔مگر دل کے کسی اندرونی گوشے سے کسی خدشے کی آواز ضرور سنائی دیتی کہ یہ سب ڈھونگ ہے۔ پارلیمنٹ، ریاست اور آئین کا تو بس نام ہے وگرنہ D.N.Aکیسے بدل سکتا ہے۔ کبھی خوش گمانی اور کبھی بدگمانی کی سی کیفیت رہتی۔ خوش گمانی کہ اچکزئی ریاست پاکستان کے حوالے سے بات کر رہا ہے۔ بدگمانی کہ نسلوں کے غدار کہیں ریاست اور آئین کے نام پر دھوکہ تو نہیں دے رہے۔ اگر ہمیںخوب علم تھا کہ وہ خود وزیر اعظم کے مشیر ہیں۔ جبکہ ان کے بھائی بلوچستان کے گورنر دوسرے بھائی فمید خاں تیسرے بھائی مجید خاں بلوچستان اسمبلی کے رکن بیوی کی بہن نسیمہ اچکزئی M.N.Aبیوی کی بھابی MPA۔ ایک برادرنسبتی میجر کوئٹہ ائر پورٹ۔ دوسرابرادر نسبتی DIG موٹروے پولیس۔ بیوی کا بھتیجا یونیورسٹی آف انجیئرنگ کا پروفیسر اور اسی یونیورسٹی میں بیوی کا کزن رجسٹرار اور حال ہی لاءکالج کا ہونے والا پرنسپل امان اچکزئی بھی اسی "برمکی خاندان" سے تعلق رکھتا تھا۔ اللہ تو بے نیاز ہی ہے مگر یہ میرا پاکستان بھی کتنا بے نیاز ہے کہ یہاں پر غدار کو تمغے سجائے گئے۔ریاست کے ہر دشمن کو مقتدر کیا گیا۔ پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کروانے والوں کو پورے کے پورے آئینی ادارے عطاکر دیئے گئے۔ کانگرس اور گاندھی کے گن گانے والوں کو مسلم لیگ اور قائد اعظم کے جانشین نواز شریف نے سونے میں تولا۔ ایسے را کے ایجنٹوں کو پورے کے پورے صوبوں کا اقتدار تھالی میں رکھ کر پیش کیا گیا۔ جنہیں دیکھ کر مشہور روسی ناول نگار "دستووسکی" کے ایک ناول کا عنوان "ذلتوں کے مارے لوگ" یاد آجاتا ہے۔ ہم بھی کتنے بدقسمت لوگ ہیں کہ یہاں ریاست سے محبت کرنے والے سولیوں کی نذر ہوئے یا افلاس و جہالت اور قید و بند کا ترنوالہ بنے اور ریاست کو رسواءکرنے والے ہمارے آقا و حکمران ۔ آغا شورش یاد آگئے۔ہر دور کے آقا غلام ابن غلامہر عہد کی تاریخ چند سودائیبھارت اور افغانستان کا غلام محمود اچکزئی پاکستان میں رہتا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم کامالشیاء(مشیر) ہے۔وفاق سے لے کر بلوچستان تک اس کے اقتدار کے جھنڈے لہرارہے ہیں۔ اسی ملک کی گندم کا پساآٹاکھاتا ہے۔اسی کے چشموں کے پانی سے سیراب ہوتا ہے۔ اسی کی ہواﺅںمیں سانس لیتا ہے۔یہیںمحل بناتا ہے۔اسی ملک میں اپنے خاندان کے ہر فرد کو دور دور سے لاکر صاحب اقتدار واختیار کرتا ہے ۔اسی ملک کے وزیر اعظم کی مالش کرکے کھربوں روپے کما رہا ہے۔اوراسی بدقسمت ملک کے بارے میں کہتا ہے کہ اس کا صوبہ خیبر پختون خواہ افغانستان کا حصہ ہے۔پاکستان سے محبت کرنے والے لکھاریوں نے اب تک بہت کچھ لکھا۔بہت سوں نے مذمت کی مگر واری جاﺅں اپنے بھولے وزیر اعظم کے کہ خاموشی میں ہی بہتری سمجھی ایک "دنیا دار"لکھنے والے نے"ارشاد " کیا کہ پاکستان میں بسنے والے یہ افغان جوتے پالش کرکے ریڑھیوں پر بھٹے فروخت کرکے اور چوکیدارہ کرکے پاکستان کی خدمت کررہے ہیں۔اپنی اوقات سے زیادہ تنخواہ بھی انسان کو بے عقل بنا دیتی ہے۔کیا افغانوں کے آنے سے پہلے یہاں لوگ بغیر پالش کے جوتے پہنتے تھے یامکی کی بھٹے نہیں کھاتے یایہاں دیہاتوں ،قصبوں اور شہروں میں کوئی چوکیدار نہیں ہوتا تھا۔دل لگتی بات چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی نے کی اور مسلم لیگ کے قائدین ہونے کا حق ادا کر دیا کہ ہمارے ملک میں لوگ بے روزگار ہیں ۔تلاش معاش میں بیرون ملک جاتے ہوئے سمندروں اور صحراﺅں میں جان دے دیتے ہیںاور یہاں دس لاکھ افغان ہماری سرکاری نوکریوں پر براجمان ہیں۔لاکھوں افغان مقامی لوگوںکے کاروبارپر قابض ہیں جنہوں نے ہیروئن اور کلاشنکوف کو معاشرے کا حصہ بنا دیا۔افسوس کے وزیر اعظم نواز شریف اور محمود خان اچکزئی میرے پاکستان کے ایک صوبے کو ©"را" کے کہنے پر افغانستان کا حصہ ظاہر کررہا ہے۔"وزیر اعظم پاکستان کا نمک حلال اور ریاست پاکستان کا نمک حرام۔وزیر اعظم پاکستان کا وفادار اور پاکستان کا غدار محمود خان اچکزائی۔
پاکستان زندہ باد
#اختر_بلوچ

Total Pageviews