January 31, 2022

OUR STUDENT IS ZERO IN JOB MARKET, NO SKILLS NO JOB NO OPPORTUNITY

 پاکستانیو چینی کہاوت سے ہی سیکھ لو!

آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں بی اے، بی کام ، ایم کام، بی بی اے، ایم بی اے اور انجینئرنگ کے شعبہ جات میں بے تحاشہ ڈگریاں اور چار چار سال تک کلاس رومز میں جی پی کے لیےخوار ہوتے لڑکے لڑکیاں کونسا تیر مار رہے ہیں؟

آپ یقین کریں ہم صرف دھرتی پر "ڈگری ذدہ" انسانوں کے بوجھ میں اضافہ کر رہے ہیں. یہ ڈگری ذدہ نوجوان ملک کو ایک روپے تک کی پروڈکٹ دینے کے قابل نہیں۔ ان کی ساری تگ و دو اور ڈگری کا حاصل محض ایک انجان نوکری ہے اور بس۔

ٹیوٹا ، ڈاہٹسو ، ڈاٹسن ، ہینو ، ہونڈا ،سوزوکی ، کاواساکی ، لیکسس ، مزدا ، مٹسوبشی ، نسان ، اسوزو اور یاماہا یہ تمام برانڈز جاپان کے ہیں. کیا، ہونڈائی اور ڈائیوو جنوبی کوریا بناتا ہے۔ جو لگژری برینڈز ہیں وہ امریکہ اور یورپ بناتا ہے اس کے بعد دنیا میں آٹو موبائلز رہ کیا جاتی ہے؟ الیکٹرونکس مارکیٹ سونی سے لے کر کینن کیمرے تک سب کچھ چین اور جاپان کے پاس ہے۔ ایل جی اور سام سنگ جنوبی کوریا سپلائی کرتا ہے۔ 2014 میں سام سنگ کا ریوینیو 305 بلین ڈالرز تھا ۔ "ایسر" لیپ ٹاپ تائیوان بنا کر بھیجتا ہے جب کہ ویتنام جیسا ملک بھی "ویتنام ہیلی کاپٹرز کارپوریشن " کے نام سے اپنے ہیلی کاپٹرز اور جہاز بنا رہا ہے۔ محض ہوا، دھوپ اور پانی رکھنے والا سنگاپور ساری دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے. دنیا میں تعمیر ہونے والا ہر اسپتال چین اور جرمنی سے اپنے آلات منگوا رہا ہے۔ خدا کو یاد کرنے کے لیے تسبیح اور جائے نماز تک ہم خدا کو نہ ماننے والوں سے خریدتے ہیں۔

دنیا کے اول درجے کے تعلیمی نظاموں میں فن لینڈ،جاپان اور جنوبی کوریا ہیں۔ انھوں نے اپنی نئی نسل کو "ڈگریوں" کے پیچھے بھگانے کے بجائے انھیں ٹیکنیکل کرنا شروع کردیا ہے۔ آپ کو سب سے زیادہ ایلیمنٹری اسکولز ان ہی ممالک میں نظر آئیں گے۔

وہ اپنے بچوں کا وقت کلاس رومز میں بورڈز کے سامنے ضائع کرنے کے بجائے انہیں حقائق کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ ایک بہت بڑا ووکیشنل انسٹیٹیوٹ اس وقت سنگاپور میں ہے اور وہاں بچوں کا صرف بیس فیصد وقت کلاس میں گزرتا ہے باقی اسی فیصد وقت بچے اپنے اپنے شعبوں میں آٹو موبائلز اور آئی ٹی کی چیزوں سے کھیلتے گزارتے ہیں۔

دوسری طرف آپ ہمارے تعلیمی نظام اور ہمارے بچوں کا حال ملاحظہ کریں۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں۔

ہم اسقدر "وژنری" ہیں کہ ہم لیپ ٹاپ اسکیم پر 200 ارب روپے خرچ کرتے ہیں لیکن لیپ ٹاپ کی انڈسٹری لگانے کو تیار نہیں ہیں ۔ آپ ہمارے "وژنری پن" کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پوری قوم سی پیک کے انتظار میں صرف اس لیے ہے کہ ہمیں چائنا سے گوادر تک جاتے 2000 کلو میٹر کے راستوں میں ڈھابے کے ہوٹل اور پنکچر کی دوکانیں کھولنے کو مل جائیں گی اور ہم ٹول ٹیکس لے لے کر بل گیٹس بن جائیں گے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک کوئی بھی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

آپ فلپائن کی مثال لے لیں۔ فلپائن نے پورے ملک میں "ہوٹل مینجمنٹ اینڈ ہاسپٹلٹی" کے شعبے کو ترقی دی ہے۔اپنے نوجوانوں کو ڈپلومہ کورسسز کروائے ہیں اور دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ ڈیمانڈ فلپائن کے سیلز مینز / گرلز ، ویٹرز اور ویٹرسسز کی ہے ۔ حتیٰ کے ہمارا دشمن ملک بھارت تک ان تمام شعبوں میں بہت آگے جاچکا ہے۔ آئی ٹی انڈسٹری میں سب سے زیادہ نوجوان ساری دنیا میں بھارت سے جاتے ہیں جب کہ آپ کو دنیا کے تقریبا ہر ملک میں بڑی تعداد میں بھارتی لڑکے لڑکیاں سیلز مینز ، گرلز ، ویٹرز اور ویٹریسسز نظر آتے ہیں ۔ پروفیشنل ہونے کی وجہ سے ان کی تنخواہیں بھی پاکستانیوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں. جبکہ ادھر پاکستان میں ایک "مری" ہی ہمارے لیے ناسور بن چکا ہے جہاں کے دکانداروں کو سیاحوں سے بات تک کرنا نہیں آتی۔

چینی کہاوت ہے کہ "اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہتے ہو تو اس کو مچھلی دینے کے بجائے اسے مچھلی پکڑنا سکھا دو"۔ چینیوں کو یہ بات سمجھ آگئی کاش ہمیں بھی آجائے۔ خدارا ! ملک میں " ڈگری زدہ " لوگوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے ہنر مند افراد پیدا کیجیے. دنیا کے اتنے بڑے "ہیومن ریسورس" کی اس طرح بے قدری مت ہونے دیجیے ورنہ انجام ہمارے سامنے ہے.

نواز چشتی

January 27, 2022

SIX PRINCIPLES FOR A GOOD LIFE

 . اچھی زندگی کے چھ اصول 

     ہم اگلے دن دوبارہ باسفورس پہنچ گئے‘ سردی انتہا کو چھو رہی تھی‘ ہم ناک صاف کرنے کےلئے ہاتھ کوٹ سے باہر نکالتے تھے تو ہاتھ ناک تک پہنچتے پہنچتے جم جاتا تھا۔ ہمارے نتھنوں سے مسلسل دھواں نکل رہا تھا‘ باسفورس کے پانیوں پر سردی کے سفید پرندے اتر رہے تھے اور اڑ رہے تھے‘ یہ پانی پر اترتے تھے تو باسفورس کی چادر پر سلوٹیں پڑتی تھیں اور یہ اڑتے تھے تو پانی کا ارتعاش پورے ماحول کو ہلا کر رکھ دیتا تھا۔

 ہم دونوں کنارے کی ساتھ ساتھ چل رہے تھے‘وہ واکنگ سٹک کو ہوا میں تلوار کی طرح لہرا رہے تھے اور میں چپ چاپ ان کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا‘ وہ بینچ تک پہنچے‘ جیب سے رومال نکالا‘ بینچ پر گری برف ہٹائی‘ بینچ صاف کیا‘ بیٹھے اور مجھے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کر دیا‘ میں فوراً بیٹھ گیا‘ پروفیسر صاحب نے گہرا سانس لیا‘ ان کے منہ اور نتھنوں سے دھوئیں کی لمبی لکیر نکلی‘ وہ لکیر کے غائب ہونے کا انتظار کرتے رہے‘ لکیر غائب ہو گئی تو وہ بولے ”ایک مولوی صاحب تھے‘ وہ گاﺅں میں رہتے تھے‘ گاﺅں دریا کے پار تھا‘ لوگوں کو دریا پار کرنے میں بڑی دقت ہوتی تھی‘ مولوی صاحب ایک بار شہر جانے کےلئے گھر سے نکلے‘ دریا پر پہنچے اور کشتی کا انتظار کرنے لگے‘مولوی نے وہاں اچانک ایک عجیب منظر دیکھا‘ ایک نوجوان آیا‘ اللہ کا نام لیا‘ دریا میں پاﺅں ڈالے اور وہ چلتے چلتے دریا پار کر گیا‘ مولوی صاحب اس معجزے پر بہت حیران ہوئے‘ انہوں نے نوجوان کو آواز دی اور اونچی آواز سے پوچھا‘ برخوردار تم نے یہ آرٹ کہاں سے سیکھا‘ نوجوان نے قہقہہ لگایا‘ مولوی صاحب کی طرف اشارہ کیا اور بولا ۔

جناب میں نے یہ فن آپ سے سیکھا تھا‘ مولوی صاحب حیران ہو کر بولے بیٹا لیکن میں تو یہ فن نہیں جانتا‘میں تمہیں کیسے سکھا سکتا ہوں۔نوجوان نے دوبارہ قہقہہ لگایا اور بولا جناب آپ نے دو سال قبل جمعہ کے خطبے میں فرمایا تھا اگر انسان کا ایمان مضبوط ہو تو یہ اللہ کا نام لے کر پانی پر بھی چل سکتا ہے‘ میں نے آپ کی بات پلے باندھ لی‘میں اس دن سے اللہ کا نام لیتا ہوں‘ پانی میں پاﺅں ڈالتا ہوں اور چلتے چلتے دریا پار کر جاتا ہوں‘ یہ سن کر مولوی صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولے‘ برخوردار تم خوش نصیب ہو اور میں بدنصیب‘ تمہیں ایک تقریر نے مومن بنا دیا اور میں پوری زندگی پورے اسلام سے ایمان تلاش کرتا رہا‘ تم عظیم اور میں بدنصیب ہوں“وہ رکے‘ لمباس سانس لیا اور نتھنوں سے نکلنے والی دھوئیں کی لکیر غائب ہونے کا انتظار کرتے رہے‘ لکیر ہوا میں تحلیل ہو گئی تو بولے”ہم لوگ بدنصیب ہیں‘ ہم یقین کے بغیر دعائیں کرتے ہیں چنانچہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں‘ آپ دنیاوی اور دینی زندگی کا پہلا اصول نوٹ کرو‘ دعا سے پہلے اللہ کی ذات پر یقین پیدا کر لو‘ تمہاری ہر دعا قبول ہو جائے گا۔

وہ رکے‘ سانس لیاا ور بولے ”صوفی کی دعا کیوں قبول ہو جاتی ہے؟  کیونکہ اسے اللہ کی ذات پر یقین ہوتا ہے اور اللہ اپنی ذات پر یقین کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا لہٰذا زندگی کا پہلا اصول اللہ کی ذات پر مکمل یقین ہے‘ جو کرتا ہے خدا کرتا ہے اور خدا کبھی غلط نہیں کرتا‘یہ بات پلے باندھ لو تمہاری زندگی آسان ہو جائے گی“ وہ رکے‘ سانس لیا اور بولے ”زندگی گزارنے کا دوسرا بہترین اصول بولنے سے قبل سننا ہے‘ آپ اگر دس فقرے بولنا چاہتے ہو تو آپ کم از کم دو ہزار فقرے سنو‘ آپ دن میں دس گھنٹے سنو اور ایک گھنٹہ بولو‘ انسان زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے‘ آپ جوں ہی بولتے ہیں آپ دوسروں کے سامنے ظاہر ہو جاتے ہیں‘ آپ اگر اپنے آپ کو چھپانا چاہتے ہیں تو آپ زبان کو قابو رکھنا سیکھ لیں‘ آپ لوگوں کے درمیان رہ کر بھی ان سے چھپے رہیں گے‘آپ اگر اچھی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ دیوار پر لکھ لیں میں بولنے سے پہلے سنو گا اور جب تک دوسرا آدمی مجھ سے بولنے کےلئے نہیں کہے گا میں خاموش بیٹھا رہوں گا‘ آپ کی زندگی بہت اچھی گزرے گی“وہ رکے‘ کوٹ سے ہاتھ باہر نکالے‘ رگڑے‘ گرم کئے‘ ان پر پھونک ماری اور بولے ”ہمارے 80 فیصد مسائل کی جڑیں معیشت کی زمین میں پیوست ہوتی ہیں۔

ہم میں سے زیادہ تر لوگ کمانے سے قبل خرچ کر دیتے ہیں یا پھر یہ کمانے کے فوراً بعد خرچ کرنا شروع کر دیتے ہیں چنانچہ یہ لوگ مسائل میں الجھ جاتے ہیں‘ اچھی زندگی گزارنے کا تیسرا اصول خرچ کرنے سے قبل کمانا ہے‘ آپ پہلے کمائیں اور پھر خرچ کریں‘ آپ پوری زندگی خوش حال رہیں گے‘ میں استنبول کے ایک خوش حال خاندان کو جانتا ہوں‘ یہ لوگ چار نسلوں سے مطمئن اور متمول ہیں‘ میں ایک بار خاندان کے چھوٹے بیٹے سے ملا اور اس سے خاندان کے اطمینان اور خوشحالی کی وجہ پوچھی‘ نوجوان نے جواب دیا‘ ہمارے پردادا نے سو سال قبل دو اصول بنائے تھے‘ ہم لوگ سال میں دس ماہ کمائیں گے اور دو ماہ خرچ کریں گے اورہم لوگ ہر صورت اپنی آمدنی کا 25 فیصد بچا کر رکھیں گے‘ ہمارے پردادا نے یہ اصول اپنے بچوں کو سکھا دیئے‘ ہمارے دادا نے ہمارے والد اور ہمارے چچاﺅں کی پرورش اس عادت میں کی اور ہمارے والد نے ہمیں پہلے دن سے اس ٹریننگ میں ڈال دیا چنانچہ ہم چار نسلوں سے مطمئن‘ خوش حال اور مسرور زندگی گزار رہے ہیں‘ میں نے نوجوان سے پوچھا‘ کیا آپ لوگ سال میں دس ماہ کوئی چیز نہیں خریدتے‘ وہ ہنس کر بولا‘ ہم انسان بازار سے ضرورت اور آسائش خریدتے ہیں‘ انسان کو ضرورتیں کبھی غریب نہیں بناتیں‘ہم ہمیشہ آسائش کے ہاتھوں لٹتے ہیں‘ ہمارے خاندان کے لوگ سال میں دس ماہ صرف ضرورت کی اشیاءخریدتے ہیں۔

ہم سال بھر آسائشوں کی فہرست بناتے رہتے ہیں‘ ہم نومبر کے مہینے میں خریداری شروع کرتے ہیں اور 31 دسمبر تک فہرست کے مطابق اشیاءخریدتے رہتے ہیں‘ میں نے اس سے پوچھا سال کے آخری دو ماہ ہی کیوں؟ وہ ہنس کر بولا‘ ہمارے پاس وقت تک وافر پیسے جمع ہو چکے ہوتے ہیں‘ ملک میں نومبر دسمبر میں سیلز بھی شروع ہو جاتی ہیں اوردنیا کے زیادہ تر برانڈز اپنے نئے ماڈل بھی ان دو مہینوں میں متعارف کراتے ہیں چنانچہ ہم جی بھر کر خریداری کرتے ہیں اور پورا سال اس خریداری کو انجوائے کرتے ہیں‘ ہم اپنی اس عادت کی وجہ سے کبھی دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور نہ ہی کسی سے ادھار لیتے ہیں‘ میں نے اس خاندان سے سیکھا‘ آپ اگر کما کر خرچ کرنا سیکھ لیں تو آپ کبھی محتاج نہیں ہوتے‘ یہ کامیاب اور مطمئن زندگی کا تیسرا اصول ہے“۔ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور باسفورس کی طرف دیکھنے لگے۔ باسفورس پر دھند ہلکورے لے رہی تھی‘ یوں محسوس ہوتا تھا آسمان پانی پر اتر آیا ہے اور یہ اب ہوا کی دھن پر دائیں بائیں رقص کر رہا ہے‘ وہ دیر تک یہ رقص دیکھتے رہے‘ وہ پھر میری طرف مڑے اور بولے ”ہم میں سے زیادہ تر لوگ کوشش سے پہلے ہمت ہار بیٹھتے ہیں‘ یہ رویہ غلط ہے‘ آپ دل چھوڑنے سے قبل کوشش کریں‘ آپ کی زندگی اچھی ہو جائے گی۔

میں بیلجیئم میں ایک شخص سے ملا‘ وہ شخص زندگی میں کبھی ناکام نہیں ہوا تھا‘ میں نے اس سے وجہ پوچھی‘ اس نے جواب دیا‘میں نے زندگی میں کبھی کوشش ترک نہیں کی‘ میں کوشش کرتا رہتا ہوں‘ میں کوشش کرتا رہتا ہوں یہاں تک کہ میں کامیاب ہو جاتا ہوں‘ میں نے اس سے سیکھا ہمت نہ ہاریں‘ کوشش جاری رکھیں‘ آپ بالآخر کامیاب ہو جائیں گے چنانچہ اچھی زندگی کےلئے ہمت ہمارنے سے قبل کوشش‘ کوشش اور کوشش کو اصول بنا لیں‘ دنیا آپ کےلئے جنت بن جائے گی“ وہ رکے‘ قہقہہ لگایا اور بولے ”ہم لوگ بھی عجیب ہیں‘ ہم زندگی بھر موت سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں‘ ہم دنیا بھر کے ڈاکٹروں سے طویل عمری کے فارمولے جاننے کی سعی بھی کرتے رہتے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود مر جاتے ہیں‘موت کسی نہ کسی راستے‘ کسی نہ کسی ذریعے ہم تک پہنچ جاتی ہے‘ ہم میں سے کوئی شخص اس سے بچ نہیں پاتا‘ ہم موت سے بچنے کی اس دوڑ میں زندہ رہنا بھول جاتے ہیں‘ ہم میں سے زیادہ تر لوگ جیئے بغیر ہی مر جاتے ہیں‘ یہ بے چارے زندگی کو زندگی کی طرح گزار ہی نہیں پاتے چنانچہ اچھی زندگی کا پانچواں اصول ہے مرنے سے پہلے جی بھر کر جی لیں‘ یہ زندگی عظیم عطیہ ہے‘ یہ عطیہ اللہ تعالیٰ صرف ایک بار عطا کرتا ہے۔

موت ہر انسان کو آتی ہے لیکن زندہ کوئی کوئی رہتا ہے اور آپ کو ان کوئی کوئی لوگوں میں شمار ہونا چاہیے“ وہ خاموش ہو گئے‘فضا میں بھی ایک ٹھہراﺅ سا آگیا‘ ہم تھوڑی دیر اس ٹھہراﺅ کا حصہ بنے رہے‘ پھر انہوں نے جھری جھری سی لی اور بولے ”آپ لکھاری ہیں‘ میں آپ کو اچھی زندگی کا چھٹا اصول بتاتا ہوں‘ یہ اصول بنیادی طور پر لکھاریوں کےلئے ہے لیکن عام لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ آپ لکھنے سے پہلے سوچیں‘ آپ جتنا گہرا سوچیں گے آپ کی تحریر میں اتنی ہی گہرائی آئے گی اور آپ جتنا اچھا سوچیں گے آپ کی نگارشات بھی اتنی ہی اچھی ہو جائیں گی‘ آپ اگر لکھاری نہیں ہیں تو آپ ہر قدم اٹھانے سے قبلے سوچنے کی عادت ڈال لیں‘ آپ سوچیں‘ بار بار سوچیں اور پھر قدم اٹھائیں‘ آپ مسائل سے بچتے چلے جائیں گے‘یہ اچھی زندگی کے چھ اصول ہیں‘ دعا سے قبل اللہ پر یقین کریں‘ بولنے سے قبل سنیں‘ خرچ کرنے سے قبل کمائیں‘ ہمت ہارنے سے قبل کوشش کریں‘ مرنے سے قبل زندہ رہیں اور لکھنے سے قبل سوچیں‘ آپ شاندار اور قابل رشک زندگی گزاریں گے“ باسفورس پر سرد ہوائیں چلنے لگیں‘ پروفیسر صاحب نے کوٹ کے کالراٹھائے‘ ہاتھ رگڑے اور اٹھ کھڑے ہوئے‘ میں بھی اٹھا اور ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ ہم واپسی کےلئے تیار ہو چکے تھے

 

 

ALLAH HELP US, WHEN WE ASK FOR HELP

 ایک خاتون اپنی ڈیوٹی پر تھی جب اسے گھر سے فون کال موصول ہوئی کہ آپ کی بیٹی سخت علیل ہے، اچانک اسے بخار ہو گیا ہے جو لمحہ بہ لمحہ تیزتر ہوتا جا رہا ہے۔ خاتون گھر کیلئے روانہ ہوئی اور راستے میں ایک فارمیسی پر دوا لینے کیلئے رک گئی، جب واپس وہ اپنی گاڑی کے پاس پہنچی تو اسے پتا چلا کہ بوکھلاہٹ میں گاڑی کی چابیاں اندر ہی لاک ہو چکی ہیں .گاڑی کھولنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، نہ اسے یہ معلوم تھا کہ ایسی صورت میں کیا کیا جائے۔ مشکل وقت میں ایسی دوہری مصیبت لازمی پیش آتی ہے جب بوکھلاہٹ میں انسان احتیاط کا دامن چھوڑ کر کچھ مزید الٹا کر بیٹھتا ہے، ایسے حالات میں اپنے حواس اور اقدامات پر متناسب انداز میں قابو رکھنا چاہئے تاکہ کوئی اضافی جھنجھٹ کھڑا نہ ہو جائے۔ خاتون نے اپنے گھر فون کرکے بچی کی صورتحال معلوم کی جو بدستور خراب ہوتی چلی جا رہی تھی، اس نے آیا کو بتایا کہ میری گاڑی کی چابیاں اندر ہی لاک ہو چکی ہیں اور کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا جائے؟

آیا نے اسے بتایا، اگر کہیں قریب سے کوٹ کا ہینگر مل جائے تو اس کا تار شیشے میں پھنسا کر اسے نیچے کیا جا سکتا ہے۔ قریب ہی ایک ڈرائی کلینر کی دکان سے اسے کوٹ ہینگر تو مل گیا مگر اسے استعمال کرنے سے وہ قاصر رہی، خاتون کی مشکل دیکھ کر کچھ اور لوگ بھی اس کی مدد کو پہنچے، کسی نے دوسری قسم کی چابیاں لگانے کی کوشش کی، کسی نے مکینک اور کسی نے چابی بنانے والا ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر سب کچھ بے سود ہی رہا۔ لمحہ لمحہ قیمتی تھا، جس قدر بھی وقت ہاتھوں سے پھسلا جا رہا تھا وہ خاتون کی بے چینیوں میں مزید اضافہ کر رہا تھا،

مختلف چابیاں ٹرائی کرنے والے نوجوان نے آخرکار بے بس ہو کر افسوس کی شکل میں کندھے اچکائے اور سوری کہہ کے ہارے ہوئے انداز میں پیچھے ہٹ گیا، خاتون نے آخری امید ٹوٹنے پر ہینگر ہاتھ سے پھینکا اور آسمان کی طرف دیکھنے لگی، غم کے مارے اس کا حال گھمبیر ہوتا جا رہا تھا یہاں تک کہ اس نے آخری امید کے طور پر خدا کی بارگاہ میں کندھے جھکا دیے۔ سوائے رونے اور فریاد کرنے کے اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، لوگ اس کے ساتھ ہمدردی کر

رہے تھے مگر اسے کسی بات کا ہوش نہیں تھا، ایسے میں ایک تیز گرگراہٹ بھری پرانی سی کار آکے رکی، اس کے اندر سے دراز قد، الجھے بال اور پراگندہ لباس وال اایک شخص برآمد ھوا اور مجمع کو چیرتا ہوا خاتون کے پاس آگیا۔ کیا بات ہے محترمہ! کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟
لحیم شحیم ادھیڑ عمر شخص جو میلے سے دُھسے میں ملبوس تھا، اس نے اپنی بھاری بھر کم کھردری آواز میں خاتون کا مسئلہ دریافت کیا! خاتون بدستور زمین پر ہاتھ دھرے گاڑی کے ساتھ ماتھا ٹکائے غم سے نڈھال بیٹھی تھی، اس نے ایک نظر سوال کرنے والے کا سراپا دیکھا اور سوچا یہ بدحال انسان شائد اتنا بھی نہیں جانتا ہوگا جتنا کام دیگر لوگوں نے بطور کوشش کے کرکے دکھایا ہے اسلئے اسے جواب دینے کی ہمت نہ ہوئی، قریب ہی کھڑے ایک شخص نے آنے والے مسکین کے سامنے مسئلہ اجاگر کیا تو اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور خاتون سے کہا، اٹھ جاؤ بی بی اٹھ جاؤ، خدا نے آج تمہاری بھی سن لی ہے اور میرا گھیراؤ بھی خوب کیا ہے۔

مسکین صورت شخص نے اپنے ہُڈ کی لیسز کھولیں، سر سے ہڈ اتارا اور الجھی ہوئی داڑھی میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا، کوئی بھاگ کر جائے اور کہیں سے مجھے ایک کوٹ ہینگر یا تار کا کوئی ٹکڑا لا دے! ایک نوجوان نے کوٹ ہینگر اٹھا کر اسے تھما دیا، اس نے ہینگر کا سرا ایک مخصوص انداز میں تھوڑا سا سیدھا کیا اور اگلی ہی آن میں گاڑی کا لاک کھول دیا۔ خاتون نے بے اختیار خوشی سے بطور تشکر اس کیساتھ معانقہ کیا اور بولتی چلی گئی، ارے وااہ، تم تو کوئی فرشتہ صفت انسان ہو یا شائد تم کوئی فرشتہ ہی ہو جو اس آڑے وقت میں میری مدد کیلئے پہنچے، یقین کرو جو احسان تم نے میرے اوپر کیا ہے اس کیلئے میں تمہاری دل و جان سے مشکور ہوں، تھینک یو سو مچ مائی کائینڈ اینجل خاتون کی بات سن کر وہ گویا ہوا،

نہیں خاتون، فرشتہ تو دور کی بات ہے میں تو ایک اچھا انسان بھی نہیں، میں ایک کار چور ہوں، ابھی ایک گھنٹہ پہلے ہی مجھے رہائی ملی ہے اور میں بے مقصد اس سڑک پر ہو لیا، ہاں البتہ قید کے دوران مجھے یہ خیال ضرور آتا تھا کہ اب مجھے خدا کے دائرے میں آجانا چاہئے مگر طبیعت کی ہٹ دھرمی اس خیال کے ہمیشہ آڑے آتی رہی اور میں اس سوچ کو جھٹک دیا کرتا تھا لیکن ابھی کچھ دنوں سے مجھے یہ خیال بھی آنے لگا تھا کہ خدا اگر مجھے اپنی کوئی خاص نشانی دکھائے تو پھر سوچا جا سکتا ہے اور

وہ نشانی ابھی ابھی میں نے دیکھ لی ہے، زندگی میں آج پہلی بار یوں سرعام تالا توڑا ہے پھر بھی بجائے خوف کے خوشی محسوس ہو رہی ہے، میں نے آج خدا کی خوشنودی کو بڑے قریب سے محسوس کیا ہے۔ خاتون نے رواں آنسو پونچھتے ہوئے ایک بار پھر اس کا شکریہ ادا کیا اور گویا ہوئی، تم نے سچ کہا، مجھے بھی اس میں خدا کی ایک خاص نشانی نظر آئی ہے، اس نے نہ صرف میری استدعا پر جواب دیا ہے بلکہ میری مدد کیلئے کوئی عام نہیں بلکہ اس کام کے ایک پکے ماہر کو بھیجا ہے

 

January 10, 2022

ایک کنوری لڑکی جو شادی کے تیس بعد بھی کنواری رہی اللہ نے کیسا انعام دیا Virgen Lady passed 30 Years with husband and till death was virgen

شادی کی پہلی رات میں نے ہمبستر ی سے انکار کردیا


شادی کی پہلی رات میں نے ہمبستر ی سے انکار کردیا

شادی کی پہلی رات میں نے گھونگھٹ اٹھانے سے پہلے اپنی پگ اس کے قدموں میں رکھتے ہوۓ صاف الفاظ میں بتا دیا مجھے معاف کر دو میں حق زوجیت ادا کرنے سے بالکل قاصر ہوں,صرف اپنی والدہ اور بہنوں کی خوشی کی خاطر خود غرض بن گیا ہوں۔اس نے وہ پگ میرے سر پر رکھتے ہوۓ کہا آپ جیسے بھی ہیں میرا سہاگ ہیں میرا نصیب ہیں مجھے اب آپ کے ساتھ ہی رہنا ہے اس دن کے بعد اس اللہ کی بندی نے میرے ساتھ تیس سال گذارے میرے گھر والوں کی ہر بات برداشت کی بانجھ ہونے کے طعنے بھی سنے مگر میرا پردہ رکھا۔

 قبرستان میں قدم رکھتے ہی ایک مہک نے استقبال کیا یہ خوشبو اس سے پہلے کبھی نہیں سونگھی تھی اور نہ محسوس کی تھی ۔ میں ہر جمعے کو صبح فجر کی نماز کے بعد اپنے والد صاحب کی قبر پر جاتا فاتحہ خوانی کرتا اور وہاں سے ہی اپنی آفس چلا جاتا ایک عرصہ ہو گیا تھا مگر آج میں نے قبرستان میں ایک نئی خوشبو محسوس کی جو مجھے بے چین کر رہی تھی یہ خوشبو کسی طرح سے بھی دنیاوی خوشبو نہیں لگ رہی تھی بہرحال میں والد صاحب کی قبر پر پہنچا تو ان سے چند فاصلے پر ہی ایک نئی قبر بنی تھی تازہ پھول اور چادر سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ دو یا تین دن پہلے ہی یہ قبر بنی ہے والد صاحب کی قبر سے فارغ ہو کر جاتے ہوۓ اس قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے رک گیا فاتحہ خوانی کے دوران محسوس کیا۔خوشبو اس قبر سے ہی آ رہی ہے کنفرم کرنے کے لیے قبر کی مٹی مٹھی میں بھری۔ تو ایک دم ٹھٹھک گیا قبر کی مٹی ٹھنڈی تھی جیسے نم ہو جبکہ مٹی بالکل خشک تھی اور کمال حد تک ٹھنڈی تھی بہرحال مٹی کو وہیں قبر پر پھینک دیا اور ہاتھ جھاڑنے کے بعد چل پڑا

 بھائ کی دکان کھولی پہلا گاہگ آیا اس کو سامان دیا تو اس نے کہا زمان بھائی آج خوشبو تو بہت کمال کی لگائی ہے خوشبو؟؟؟ کون سی خوشبو؟ تو اس نے کہا زمان بھائی خوشبو آپ لگاتے ہو اور پوچھتے ھم سے ہو کون سی خوشبو بہت بھلے مانس آدمی ہو آپ بھی زمان بھائی یہ کہتے ہوۓ وہ چل پڑا ۔ میں نے جب آپنے ہاتھ کو سونگھا تو وہ ہی خوشبو میرے ہاتھ سے آ رہی تھی تمام دن میں اس خوشبو کو محسوس کرتا رہا ہاتھ دھونے کے باوجود بھی میرا ہاتھ معطر رہا اگلے دن ہفتے کو بھی میں نہ چاہتے ہوۓ قبرستان چلا گیا والد صاحب کی قبر پر فاتحہ خوانی کے بعد اس قبر پر فاتحہ خوانی کی کس کی قبر ہے یہ کون ہے جو اس قدر نیک ہے جس کی قبر ٹھنڈی اور خوشبودار ہے ایسا کون سا عمل کر دیا کہ اتنا بڑا انعام پا لیا اس بات نے مجھے بے چین سا کر دیا گورکن سے اس قبر کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا۔کہ خاتون کی قبر ہے یہ جان کر اور بھی حیرت ہوئی کہ عورت کو اس قدر شاندار مقام کیسے ملا ۔

 اگلے دن اتوار تھا دیر تک سونے کی عادت ہونے کے باوجود صبح فجر کی نماز کے وقت اٹھ کھڑا ہوا اور قبرستان روانہ ہوگیا قبرستان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں اسی خاتون کی قبر پر ایک باریش آدمی قرآن خوانی کر رہا ہے میں والد صاحب کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے لگا فاتحہ خوانی کے بعد میں۔نے اس آدمی کی طرف دیکھا جو اب دعا مانگ رہا تھا جیسے ہی وہ دعا سے فارغ ہوا تو باہر کی جانب چل پڑا اس کو جاتے دیکھ کر میں بھی اس کے پیچھے ہو لیا جیسے ہی وہ گیٹ سے باہر نکلا میں نے آواز دے دی سر بات سنیں ایک منٹ پلیز جی فرمائیں سر میں معذرت چاہتا ہوں میں نے آپ کو تکلیف دی مگر میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو۔ جی آپ پوچھیں کیا بات ہے انتہائی محنت سے اس شحض نے جواب دیا شکریہ سر جزاک اللہ میں دراصل جاننا چاہ رہا تھا یہ کن کی قبر ہے جہاں آپ قرآن خوانی کر رہے تھے اگر آپ مناسب سمجھیں تو بتا دیجئے۔ یہ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ اس نے سوال کیا دراصل اس قبر سے آنے والی خوشبو نے مجھے بے چین کر دیا ہے۔ایسی خوشبو میں نے آج تک محسوس نہیں کی مجھے یہ دنیاوی خوشبو نہیں لگتی میں جاننا چاہ رہا تھا کہ صاحب قبر نے ایسا کون سا عمل کہ کہ یہ مقام ملا کہ قبر ٹھنڈی اور خوشبودار ہو گئی ۔

 یہ سن کر اس شحض نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا قبر ٹھنڈی اور خوشبودار کیوں نہ ہو اس نے اللہ تعالیٰ کو راضی ہی ایسے کیا ہے۔جی میں یہ ہی جاننا چاہ رہا تھا کہ ایسا کون سا عمل ہے جس سے یہ سعادت نصیب ہوئی تو اس نے بتایا کہ یہ میری زوجہ کی قبر ہے تیس سال ھماری رفاقت رہی میں چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہوں میری بہنوں اور ماں کو میرا سہرا دیکھنے کا بے حد شوق تھا سرکاری نوکری ملتے ہی چاند سی دلہن کی تلاش شروع کر دی گئی یوں دنوں میں لڑکی کی تلاش کا کام مکمل ہوا شادی ہوئی اور ماں بہنوں نے اپنے ارمان دل کھول کر پورے کیے شادی کی پہلی رات میں نے گھونگھٹ اٹھانے سے پہلے اپنی پگ اس کے قدموں میں رکھتے ہوۓ صاف الفاظ میں بتا دیا مجھے معاف کر دو میں حق زوجیت ادا کرنے سے بالکل قاصر ہوں میدیکلی طور پر مکمل ان فٹ ہوں صرف اپنی والدہ اور بہنوں کی خوشی کی خاطر خود غرض بن گیا ہوں اس نے وہ پگ میرے سر پر رکھتے ہوۓ کہا آپ جیسے بھی ہیں میرا سہاگ ہیں میرا نصیب ہیں ۔مجھے اب آپ کے ساتھ ہی رہنا ہے اس دن کے بعد اس اللہ کی بندی نے میرے ساتھ تیس سال گذارے میرے گھر والوں کی ہر بات برداشت کی بانجھ ہونے کے طعنے بھی سنے مگر میرا پردہ رکھا اللہ تعالیٰ کیسے اس کی قبر کو ٹھنڈا اور خوشبودار نہ کرے جس نے اتنی پاکباز زندگی گذاری ہو ۔۔ اس شحض کی تمام بات سن کر اس خاتون پر رشک آنے لگا جس نے دنیا میں صبر کیا اور اعلی مقام حاصل کیا .

آج کل کے دور میں کچھ بھی حاصل کرنا کیا مشکل ہے عورت ذرا سی بیمار مرد حلال حرام کی تمیز کیے بغیر اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کر گذرتے ہیں تھوڑا سا فرق لگنے پر بیوی شوہر کو کھری کھری سنا دیتی ہے شوہر بیمار ہو تو تعلق تک استوار کر لیتی ہے معاشرتی ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے صبر کا دامن ھم نے چھوڑ دیا ہے اللہ تعالیٰ ھمیں دین کو سمجھنے اس پر عمل بھی کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین. پوسٹ اچھی لگے تودوسروں کی بھلائ کے لئے شیئر ضرور کریں الله پاک ھم سب کو ہدایت دے، اور اپنے ماں باپ کا احترام کرنے کی توفیق عطاء فرما۔

 

 

 

 ایک 95 سالہ شخص کے تجربات کا نچوڑ 50 اقوال

 <iframe src="https://www.facebook.com/plugins/video.php?height=314&href=https%3A%2F%2Fwww.facebook.com%2FTarsFoundation%2Fvideos%2F445938296958155%2F&show_text=false&width=560&t=0" width="560" height="314" style="border:none;overflow:hidden" scrolling="no" frameborder="0" allowfullscreen="true" allow="autoplay; clipboard-write; encrypted-media; picture-in-picture; web-share" allowFullScreen="true"></iframe>

Total Pageviews