August 12, 2018

Corruption and Miss Management 56 Companies of Shahbaz Sharif CM Punjab



شہباز شریف کی مشہور زمانہ 56 سرکاری کمپنیز میں سے ایک لاہور نالج پارک کمپنی ہے ۔۔ جس نے اخباری اشتہار کے ذریعے چیف کمرشل آفیسر کی بھرتی کے لئے 10 سالہ تجربے کے ساتھہ ایم بی اے مارکیٹنگ ڈگری ہولڈرز سے درخواستیں طلب کیں لیکن اس پوسٹ پر چپکے سے بی اے تعلیم کی حامل مہوش رفیع کو 9 لاکھہ روپے ماہانہ تنخواہ پر بھرتی کر دیا۔
تعلیم انڈر میٹرک اور سکیل 2 کے گھوڑوں کے اصطبل میں خدمت گار منظورعلی کو 2016 میں 65 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر کمپنی کی اراضی کا سائٹ سپروائزر بھرتی کرلیا گیا۔
ڈپٹی منیجر پروکیورمنٹ کی اسامی پر 8 سے 17 سالہ تجربے کے حامل ایم بی اے اور ایم فل امیدواروں کو نظر انداز کر کے ایف اے پاس مختار احمدجوئیہ کو ڈیڑھ لاکھہ روپے ماہانہ پر بھرتی کرلیا گیا
جنرل منیجر(انفارمیشن ٹیکنالوجی) کے عہدے پر صرف
بی سی ایس ڈگری ہولڈر نوجوان یاسر فرید ملک کو ماہانہ 5 لاکھہ 50 ہزار روپے تنخواہ پر ’’نواز‘‘ دیا گیا جبکہ کمپنی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کوئی شعبہ نہیں۔
کمپنی انتظامیہ نے ہیومن ری سورس منیجر کی اسامی پر فرید اقبال کو 7 لاکھہ روپے ماہانہ ،1300 سی سی کار اور دیگر مراعات دے کر بھرتی کیا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ان کو متعلقہ شعبے کا کام ہی نہیں آتا جس کے باعث یہ کام کسی دوسرے شعبے کو سونپ دیا گیا لیکن موصوف تب تک تنخواہ کی مد میں 1 کروڑ 40 لاکھہ روپے لے اڑے ۔
اسی کمپنی میں ایڈیشنل سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ شاہد زمان مہمند کو ایک سال کے لئے 8 لاکھہ روپے ماہانہ پرکمپنی کا چیف آپریٹنگ آفیسر مقرر کیا گیا جس میں 2 لاکھ 40 ہزار روپے ماہانہ ہاؤس رینٹ بھی شامل تھا حالانکہ اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب کے ریکارڈ کے مطابق وہ اس دوران حکومت پنجاب کی سرکاری کوٹھی میں مقیم رہے اس مد میں ان کو 40 لاکھہ روپے کی غیر قانونی ادائیگی کی گئی۔
سنگین نوعیت کی جعلسازی کی ایک اور مثال قائد اعظم سولر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کی بھرتی پر کی گئی۔ کمپنی انتظامیہ نے 25 اپریل 2014 کو اس عہدے کے لئے بجلی گھر لگانے اور چلانے کے 15 سالہ تجربے کے حامل الیکٹریکل انجینئرز سے درخواستیں طلب کیں لیکن اس اسامی پر اکتوبر 2013سے کام کررہے ڈی سی او فیصل آباد نجم احمد شاہ کو کمپنی کے بورڈ نے 15 فروری 2014 کو 3 سال کے لئے 8 لاکھہ روپے ماہانہ تنخواہ پر بھرتی کرلیا جنہوں نے زندگی میں کبھی کسی بجلی گھر پر کام نہیں کیا ،اس کیس میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک انکوائری میں چشم کشا انکشاف ہوا کہ نجم احمد شاہ نے 2013 سے اکتوبر2014 تک 86 ہزار 513 روپے ماہانہ کی سرکاری تنخواہ 5 ماہ تک وصول ہی نہیں کی اور کمپنی کے بورڈ کی منظوری کے بعد پچھلی تاریخوں سے 8 لاکھ ماہانہ پر بھرتی ظاہر کرکے 46 لاکھہ روپے بطور بقایا جات وصول کرلئے ۔
نجم احمد شاہ کی صوبائی سیکرٹری صحت تقرری سے قبل ان کو قائد اعظم سولر پاور کمپنی کے کھاتے سے تنخواہ کی مد میں 1 کروڑ 60 لاکھہ روپے ادا کئے گئے
نجم احمد شاہ کی بھرتی کے بعد اس اسامی پر بھرتی کی فائل سے درخواستیں جمع کرانے والوں کے نام اور پتے ،انٹرویو کی جگہ،ان کی تعداد اور سلیکشن کمیٹی کے میٹنگ منٹس غائب کردئیے گئے ۔
جعلی بھرتیوں کی کہانی پنجاب انرجی ہولڈنگ کمپنی تک بھی جاتی ہے جہاں منیجر ٹیکنیکل کی اسامی پر طارق رشید کو بھرتی کیا گیا ،ان کا پنجاب کا شہری ہونے کا ڈومیسائل صرف ایک دن قبل راولپنڈی سے جاری کرایا گیا جبکہ ان کی تمام تعلیمی اسناد اور کام کے تمام تجربے کا تعلق کراچی سے ہے جس سے ان کا ڈومیسائل مشکوک قرار دیا گیا ہے ۔
اسی کمپنی میں چیف آپریٹنگ آفیسر(سی او او) کی اسامی پر ناروے سے غیرتصدیق شدہ ڈپلومہ کی بنیاد پر انٹرویو میں 15 اضافی نمبر دیکر احمد شہریار کو 3 نومبر 2016 کو 5 لاکھہ 50 ہزار روپے ماہانہ پر بھرتی کیا گیا ،ان کی پروفائل میں تجربے کی کوئی دستاویز لف نہیں جبکہ جنوری 2018 تک ان کے ڈپلومے کی تصدیق نہیں ہوسکی ، جس کی بنا پر آڈیٹر جنرل پاکستان نے اس کے جعلی ہونے کا قوی امکان ظاہر کیا ہے ۔
پنجاب انرجی ہولڈنگ کمپنی میں ڈائریکٹر فنانس کے عہدے پر ضیاالرحمٰن کو ایک لاکھہ 80 ہزار روپے ماہانہ پر بھرتی کیا گیا ان کو نوازنے کے لئے تجربے کے 10 اضافی نمبر دیدئیے گئے اور تجربہ کی حد صرف 5 ماہ کردی گئی
قائد اعظم سولر پاور کمپنی میں افسروں نے 2013 سے 2017 کے دوران 3 کروڑ 36 لاکھہ روپے غیر قانونی طور پر بونس کی مد میں وصول کر لئے جس میں سے 57 لاکھہ روپے احد چیمہ کو ادا کئے گئے حالانکہ پنجاب انڈسٹریل اینڈ کمرشل ایمپلائمنٹ سٹینڈرڈ آرڈر کی شق 10 کے تحت بونس صرف ورکرز کو مل سکتا ہے ۔
قائداعظم سولر کمپنی میں بدرالمنیر کو دسمبر 2013 میں فنانس منیجر کے عہدے پر 5 سالہ تجربے کی شرط نظر انداز کرکے 2 لاکھہ 50 ہزر روپے ماہانہ تنخواہ پر بھرتی کر لیا گیا اور بعد میں 2017 میں چیف فنانشل آفیسر کے عہدے پر ترقی دے کر تنخواہ 4 لاکھہ روپے ماہانہ کردی گئی حالانکہ وہ بنیادی شرط پر ہی پورا نہیں اترتے تھے ان کو مجموعی طور پر 1 کروڑ 59 لاکھہ ادا کئے گئے ۔
ان لینڈ واٹر ٹرانسپورٹ کمپنی جہاں حکام نے ماسٹر ڈگری کے حامل منیجر ٹیکنیکل کے عہدہ پر 3 سالہ ڈپلومہ ہولڈر محمد اقبال کو 2 لاکھہ 80 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر بھرتی کیا ، ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو دوبارہ بھرتی کے قوانین کو بالائے طاق رکھہ کر 60 سال سے زائد عمر والے 3 سابق افسروں کو 1 لاکھہ 50 ہزار سے 3 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر وزیر اعلیٰ کی منظوری کے بغیر ہی بھرتی کرلیا گیا
اور 2018 فروری تک ان کو 99 لاکھہ روپے تنخواہ کی مد میں ادا کردئیے گئے ۔
ان لینڈ واٹر ٹرانسپورٹ کمپنی کے حکام نے الطاف حسین نامی شخص کو آپریشن کنسلٹنٹ کے طور پر کسی اشتہار کے بغیر ہی 1 لاکھہ 50 ہزار روپے ماہانہ پر نوکری دیدی جس کے تحت پیپرا رولز کی شدید خلاف ورزی ہوئی۔اس کمپنی میں سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے براہ راست نعیم سرفراز کو چیئرمین لگایا لیکن انہوں نے رول 4 کی خلاف ورزی کرکے ریگولر چیف ایگزیکٹو آفیسر کی تقرری کے بجائے 2014 سے 2018 تک غیر قانونی طور پراس عہدے پر بھی قبضہ جمائے رکھا۔ ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی میں محکمہ جنگلا ت کے ایڈیشنل سیکرٹری شاہد رشید اعوان کو عارضی طور پر کمپنی کے سیکرٹری کا اضافی چارج دیکر 2 لاکھہ روپے ماہانہ تنخواہ مقرر کردی گئی۔
ایک اور انوکھا کیس پنجاب ماڈل بازار ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی سے متعلق سامنے آیا ہے ،اس کمپنی نے 21 اگست 2017 کو رب نواز بلوچ نامی وکیل کو 40 ہزار روپے ماہانہ پر لیگل ایڈوائزر مقرر کیا لیکن حیران کن طور پر ان کو ماہانہ تنخواہ ادا کرنے کے بجائے 2020 (3سال) تک کی ایڈوانس تنخواہ 14 لاکھہ 40 ہزار روپے ادا کردی گئی اور اس بھرتی میں محکمہ قانون سے پیشگی اجازت کے رولز کو بھی بائی پاس کردیا گیا۔
محکموں کی موجودگی میں ان کے متوازی کمپنیاں بنانے کا مقصد ہی یہی تھا کہ تمام قواعد و ضوابط سے آزاد ہوکر کھل کھیلا جائے۔
سینئر صحافی ذوالفقار علی مہتو Zulfiqar Ali Mehto کی تحقیقاتی رپورٹ

Total Pageviews