November 30, 2017

فاٹا کے لوگ ایف سی آر قانون کے تحت ظلم کی چکی میں پچھلے 70 سال سے پس رہے ہیں۔ توجہ کی ضرورت ہے۔





انتہائی معذرت کے ساتھ انتہائی معذرت کے ساتھ میں خود صوبائی تعصب اور لسانیت کے ھمیشہ خلاف رہا ہوں
اور شاید یہ فاٹا(علاقہ غیر) کے سلسلے میں آخری پوسٹ ہو
لیکن ایک جانب توجہ دلانا مقصود تھی
بلوچستان میں 5 پنجابی مزدور بے گناہ قتل ہوتے ہیں
تو پوری حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی آرٹیکلز لکھے جاتے ہیں بحث مباحثے ہوتے ہیں حکومتی رٹ چیلنج ہوجاتی ہے ۔
اور نئے ایکشن نئے منصوبے بنائے جاتے ہیں

لیکن فاٹا میں آئے روز ڈرون اٹیکس میں بچے اور معصوم مرتے ہیں (دس سال ہوگئے)
آئے روز عوام کے ساتھ ظلم وستم ہورہا
FCR کے قانون کی چکی میں پس رہے ہیں
مجرم اور معصوم کی تحقیق کیے بغیر ھر کسی کو جیل ڈالا جاتا ہے
لیکن کبھی آواز بلند نہیں ہوئی
آواز بلند ہوبھی کیسے
جب وہاں
میڈیا کے نمائندوں کے جانے پر پابندی ہے
وہاں انٹرنیٹ سوشل میڈیا کیبل ٹی وی یا موبائل سروس کا نام و نشان تک نہیں (دس سال ہوگئے اس بات کو)

آخر کیوں؟؟؟
کیوں کہ وہ علاقہ غیر ہے؟؟
کیونکہ وہ پاکستان کے باقاعدہ شہری نہیں؟
کیونکہ وہ دھشتگرد ہیں؟؟
کیونکہ وہ ان پڑھ یا جاھل ہیں؟؟
کیونکہ وہ کسی عدالت میں آواز بلند نہیں کرسکتے ؟؟؟

اگر فاٹا پرامن ہے تو پھر وہاں میڈیا کے نمائندوں کے جانے کی آزادی کیوں نہیں ؟؟
وہاں اب تک سوشل میڈیا کیمرہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندی کیوں عائد ہے ؟؟
کوئی اس سوال کا جواب دے سکتا تو دے دے
ورنہ یاد کر لیں
پاکستان میں ایک خطہ ایسا بھی ہے
جو "نوگو ایریا" ہے
جہاں اب تک برطانیہ کا عائد کردہ FCR لاگو ہے
جہاں پڑوس میں رہنے والی سیکیورٹی ایجنسی کو دھشتگرد کی خبر نہیں ہوتی لیکن 45 کلومیٹر اونچائی پر پرواز کرنے والے ڈرون کی بدولت ھزاروں کلومیٹر دور بیٹھے امریکیوں کو دھشتگردوں کی خبر ہوجاتی ہے
پھر کبھی باوجوڑ میں مدرسے کے معصوم بچے اپنی جانوں سے ھاتھ دھو بیٹھتے ہیں
تو کبھی گھروں میں کام کرتی خواتین نشانہ بن جاتی ہیں

لیکن کوئی پرسان حال نہیں
لے دے کے یہی بات رہ جاتی
کہ قبائلی بھی بلوچیوں کی طرح
برطانیہ اور سویزر لینڈ پناہ کے لیے درخواست دیں
اور وہاں انٹرنیشنل میڈیا پہ بیٹھ کر تمام ظلم و ستم بیان کریں
پھر

کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہوگا کہ یہ ناراض بھائی اور یہ باغی اور غدار ہیں کیونکہ ھم سارے آپشن تو آزما بیٹھے ہیں
اتنے ظلم کے بعداب اک یہی آپشن ہی بچتا ہے
توجہ نہیں دو گے تو یہ لاوا پھٹ جائے گا
60 سال نظراندازی کے اور دس سال ظلم و ستم کے
یہ اب کافی ہیں برداشت کا پیمانہ چیک کرنے کے لیے

مجھے کیا ہے میں تو آرام سے بیٹھا ہوا پنجاب میں
مجھے توسب کچھ مل رہا یہاں
لیکن جو لوگ وہاں موجود اور جو متاثرین ہیں اصل

وہ اب برداشت کی آخری حدود کو پہنچ چکے ہیں
اگر جلد سے جلد انکا پاکستان میں خیبرپختونخواہ پختونخوا کے ساتھ انضمام کرکے انہیں تعلیم صحت اور انصافجیسی بنیادی انسانی حقوق نہ دیے گئے
تو پھر
واپسی ناممکن ہو جائے گی

آخری بات فاٹا کے خیبرپختونخواہ میں انضمام یا خودمختاری کے حوالے سےکہ اگر فاٹا کو الگ صوبہ بنا دیا جائے تو کوئی فضل الرحمن صاحب سے پوچھے کہ
صوبے کا مرکز (دارالخلافہ)کدھر ہوگا کیونکہ یہ ایک لمبی پٹی ہے جو ضلع دیر سے ہوتی ہوئی بلوچستان ژوب تک جاتی ہے اور اس میں کوئی ایک شہر بھی ایسا نہیں جس کو مرکز بنا دیا جائے اب بھی فاٹا کے جتنے بڑے دفاتر محکمے ہیں وہ پشاور سے چلائے جاتے ہیں تو اگر صوبہ بنا کر پھر بھی ہمارا نظام پشاور سے چلے تو فائدہ کیا ہوا.؟

ایک بات یہ بھی اگر الگ صوبہ بنا تو یہی ظلم کے پسے عوام ایک بار پھر مختلف اختیارات کی تقسیم پہ ایک دوسرے کے دشمن ہوجائینگے اور حالات پھر سے اچھائی کی جگہ لڑائیوں اور بدنئیتی کی طرف جائیں گے
تو اس سے بہتر یہی ہے کہ فاٹا کو خیبر پختون خواہ میں ضم کیا جائے اور مرکز بھی پشاور ہی رہے پھر جس کو جو بھی ملے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا.
عبداللہ
فاٹا کے حوالے سے مزید معلومات جاننے کے لیے مہمند ایجنسی علاقہ غیر کے نوجوان Sheraz Khan Mmd شیراز خان مہمند کو ایڈ یا فالو کیجیے

Total Pageviews