July 27, 2019

دو گھوڑا بوسکی کی قمیض

دو گھوڑا  بوسکی
آج پھیکے سے مسجد میں ملاقات ہوئی۔۔۔! کہنے لگا صاحب جی آپ سے ضروری بات کرنی ہے جی۔۔۔! شام کو کار آؤں گا۔۔۔! پھیکے نے بات کرنی ہو تو شام کا انتظار کون کرے۔۔۔؟ میں نے کہا نہیں یار پھیکے تُو ابھی میرے ساتھ چل اور بتا کیا بات ہے۔۔۔؟ گھر آ کر میں نے بخشو سے چاۓ لانے کو کہا اور پھر پھیکے سے مُخاطب ہوا۔۔۔! ہاں بھئی اب بتا بات کیا ہے کس لیئے اتنا بے چین ہے۔۔۔؟
پھیکا کہنے لگا دو دن رہ گئے تھے کار آنے میں صاحب جی۔۔۔! بیگم صاحبہ کا ڈرائیور چھٹی پر تھا۔۔۔! بڑے صاحب نے مجھے اُن کو بازار لے کر جانے کا کہہ دیا۔۔۔! صاحب جی بیگم صاحبہ نے شاپنگ کرنی تھی۔۔۔! خورے کہاں کہاں سے مہنگے مہنگے کپڑے لیئے۔۔۔! ایک ایک جوڑا    ہزاروں کا تھا۔۔۔! مِنٹوں میں لاکھوں کی شاپنگ کر لی جی بیگم صاحبہ نے۔۔۔! میں نے پوچھا بیگم صاحبہ اتنے مہنگے لون کے جوڑے ان میں کیا سونا چاندی لگا ہے۔۔۔؟ ہنس کر بولیں پھیکے تجھے نہیں پتہ یہ “ڈزینر ہیں ڈزینر”۔۔۔!
ایک تو پھیکے کی معصوم شکل اوپر سے ڈیزائنر کو “ڈزینر” کہنے کا انداز مجھے اُس پر بے ساختہ پیار آگیا۔۔۔! پھیکا اب جانے کیا بتانے والا تھا۔۔۔! جب سے میرے بھتیجے مدثر کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا میں نے پھیکے کو اپنے بھائی کے گھر مدثر کے پاس بھیج دیا تھا۔۔۔! دو تین ہفتے کے بعد پھیکا چند ایک روز کے لیئے گھر آ جایا کرتا۔۔۔!
میں نے پوچھا پھیکے آخر تجھے کپڑوں میں کیا دلچسپی ہو گئی۔۔۔؟ صاحب جی مجھے کیا دلچسپی ہونی ہے جی۔۔۔! میں تو بس حیران رہ گیا ایک ایک لون کا جوڑا ہزاروں کا خریدا بیگم صاحبہ نے۔۔۔! صاحب جی آخر تھا تو لون کا جوڑا ہی نا۔۔۔؟ سوچتا ہوں میری کار والی (بیوی)کا بھی دل کرتا ہو گا ڈزینر جوڑا پہننے کا۔۔۔! خورے کیوں صاحب جی دل میں پھانس سی چُبھ گئی۔۔۔! اُس نے تو کبھی فرمائش ہی نہیں کی۔۔۔! سادے سے لون کے تین جوڑوں میں ساریاں گرمیاں لنگھا لیتی ہے جی۔۔۔! میں نے گھر آ کر پوچھا تیرا دل نہیں کرتا سوہنے سوہنے جوڑے لینے کا یہ جو “ڈزینر” ہوتے ہیں۔۔۔! میرے پوچھنے پر ہنس کر کہنے لگی گُڈی کے ابّا لون جُوں جُوں دُھل کر گِھستی ہے نا پِنڈے کو ُسکھ دیتی ہے۔۔۔! مُجھے ایسی فضول سوچیں نہیں آتیں۔۔۔! میں نے کہا پھر بھی بتا تو سہی اگر میں لا کر دوں تو پہنے گی۔۔۔! صاحب جی جانتے ہیں اُس نے کیا کہا۔۔۔! کہنے لگی گُڈی کے ابّا آخر کو تو اِکو چٹا جوڑا ہی پہننا ہے۔۔۔! وہ بھی خورے نصیب ہونا ہے کہ نہیں۔۔۔! اس خاکی پنڈے کو کیڑوں نے ہی کھانا ہے نا۔۔۔! “ڈزینر” پہننے والوں کے پنڈے کوکیا کیڑے نہیں کھائیں گے۔۔۔! تجھے کیا ہو گیا ہے گُڈی کے ابّا۔۔۔! تُو جانتا ہے مجھے ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔! تُو میرے لیئے ایک ڈزینر جوڑا لانے کی بجائے چار چھ جوڑے لے کر غریبوں میں بانٹ دے۔۔۔! میں خدا کو کیا منہ دکھاؤں گی۔۔۔؟ گُڈی کے ابّا جِس دن میرے دیس کے سب غریبوں کے تَن کجے گئے نا اُس دن میں بھی اپنے آپ کو ڈزینر جوڑے کا حقدار سمجھوں گی۔۔۔! صاحب جی پھیکے غریب کی اتنی امیر بیوی۔۔۔! مجھے اپنا آپ اُس کے سامنے حقیر بونا لگنے لگا جی۔۔۔! صاحب جی اُس نے تو مجھے روا ای دیا۔۔۔! اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے جی اُس نے اتنی صابر شاکر بیوی دی مُجھے۔۔۔! پھیکا روتا جا رہا تھا۔۔۔!
اب میں کیا بتاتا کہ اس کی گھر والی کی یہ بات سُن کر کہ اِس خاکی پنڈے کو تو کیڑوں نے ہی کھانا ہے نا میرے بدن میں بھی سنسنی دوڑ گئی۔۔۔! مجھے اپنا چائنا کی دو گھوڑا بوسکی کا کُرتا چبھنے لگا۔۔۔! اور مجھے لگا میرے بدن پر بے شمار کیڑے رینگ رہے ہیں۔۔۔! پھیکا مجھ سے دُکھ سُکھ کرنے آیا تھا اور ہمیشہ کی طرح مجھے پھر ایک نیا سبق دے گیا۔۔۔! وہ ابھی بھی رو رہا تھا میں نے دلاسہ دیا اور کندھا تھپک کر کہا ہاں پھیکے تو ٹھیک کہتا ہے۔۔۔! نیک اور قناعت پسند بیوی اللہ کی بڑی نعمت ہوتی ہے۔۔۔! یار تجھے تو خوش ہونا چاہیئے جھلیا روتا کیوں ہے۔۔۔؟
پھیکا کہنے لگا صاحب جی اُسی شام بیگم صاحبہ نے مجھے مالی کو بلانے اس کے کواٹر بھیجا۔۔۔! مالی بابا کی بیٹی نے دروازہ کھولا اُس کے کندھے سے پلو سرک گیا۔۔۔! صاحب جی اس کی قمیض کندھے سے پھٹی ہوئی تھی جسے چھپانے کے لیئے وہ بار بار پلو کھینچتی تھی۔۔۔!
پھیکا دھاڑیں مار کر رو رہا تھا۔۔۔! مجھے اُس کے رونے کی وجہ اچھی طرح معلوم ہو گئی تھی۔۔۔!
صاحب جی میں نے اپنی کار والی کو بتایا تو اس نے اسی وقت لون کے دو کرتے مالی بابا کی بیٹی کے لیئے سی کر دیۓ۔۔۔! ہم سو ہی نہیں سکے صاحب جی اور ساری رات ڈزینر لون پہننے والی بیگم صاحبہ کے پھوٹے نصیبے پر روتے رہے۔۔۔!
میں نے اسی شام بخشو سے کہہ کر اپنے سارے بوسکی کے کرتے گاؤں کے غریب کسانوں کو بھجوا دیئے۔۔۔! پھیکا واپس شہر چلا گیا لیکن ُاس دن سے جب بھی اس کی بات یاد آتی ہے بدن پر کیڑے رینگنے لگتے ہیں۔۔۔!

July 19, 2019

"پنجابی سامراج" Punjabi & Other Nations in Pakistan


"پنجابی سامراج"
:::::::::::::::::::
یہ نومبر 1994ء کی بات ہے جب میں نہایت مخدوش حالات والے کراچی سے نہایت پرسکون بود و باش والے اسلام آباد منتقل ہوا. تب میں 25 برس کا پختون نوجوان تھا اور میں یہ سنتے سنتے جوان ہوا تھا کہ اس ملک میں "حقوق" نام کا کوئی لولی پاپ پایا جاتا ہے جسے پنجابی اکیلے اکیلے چوس چاٹ رہے ہیں. کراچی کی تین بڑی اکائیاں مہاجر، پختون اور سندھی تھے. اور پنجابیوں پر حقوق غصب کرنے کا الزام لگاتی سب سے اونچی آوازیں الطاف حسین، خان عبدالولی خان اور جی ایم سید کی تھیں. جب آپ کسی شہر میں ڈھائی برس کے بچپن سے 25 برس کی جوانی تک اس طرح کی باتیں سنتے آئے ہوں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کے شعور اور لاشعور دونوں پر اس کا گہرا اثر نہ ہو

اگرچہ میں ڈرل مشینوں کی مدد سے انسان اور حرمت انسانی دونوں میں چھید کرنے والے کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تھا مگر یہ اندیشہ ساتھ لایا تھا کہ جس پنجابی نے ہمارے حقوق غصب کر رکھے ہیں وہ مجھے وفاقی دارالحکومت میں قدم کیوں جمانے دے گا ؟ تب میرا کل صحافتی تجربہ فقط پانچ برس کا تھا. میرے مرحوم دوست اللہ وسایا قاسم نے حامد میر سے میرے لئے کالم کی بات کی جو انہی دنوں روزنامہ پاکستان اسلام آباد کے نئے نئے ایڈیٹر تعینات ہوئے تھے. حامد میر نے ایک ماہ تک چھ تحریریں لکھ کر بھیجنے کا کہا تاکہ ان کی بنیاد پر پرکھا جاسکے کہ مجھے کالم لکھنا بھی آتا ہے کہ نہیں ؟ میں نے پہلی تحریر بھیجی تو انہوں نے اللہ وسایا قاسم مرحوم سے کہا "وہ لکھ لیتا ہے، اسے کہو کالم کا ٹائٹل سوچ کر بتائے" یوں گویا ایک پنجابی نے مجھے دوسرے پنجابی سے متعارف کرایا اور اس دوسرے پنجابی نے مجھے اپنے اخبار کے ادارتی صفحے پر جگہ عنایت کردی. مجھے یاد ہے تب میں نے جی ہی جی میں خود سے کہا تھا "اچھا ! تو پنجابیوں میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں" اگلے دوچار سال اس طرح گزرے کہ میں اسلام آباد میں کسی بھی لمحے کسی بھی جانب سے "پنجابی پنے" کا شکار ہونے کو ذہنی طور پر تیار بیٹھا تھا. مگر کچھ بھی نہ ہوا. پنجابی سامراج کہیں سے نمودار نہ ہوا۔ میں حامد میر کے ساتھ دو اخباروں میں مجموعی طور پر سات سال رہا. اس سفر کا اختتام ناخوشگوار طور پر ہوا لیکن اس سے پنجابیت کا کوئی لینا دینا نہ تھا
.
اس عرصے میں جو سب سے حیران کن چیز نوٹ کی وہ یہ تھی کہ میرا پختون ہونا ہر پنجابی کے لئے ایک بے معنی چیز تھی. کسی سرکاری افسر یا اہلکار نے کبھی مجھ سے یہ سوال ہی نہ کیا کہ تمہاری قوم یا قبیلہ کیا ہے ؟ یہ چیز حیران کن اس لحاظ سے تھی کہ پنجابی تو بقول الطاف حسین، ولی خان و جی ایم سید سامراج تھا. ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ سامراج قدم قدم پر میری نسل اور ڈی این اے چیک کرتا لیکن عملی طور پر بھگتا یہ کہ کراچی میں مظلوم سندھی ہی نہیں بلکہ مظلوم مہاجر افسر بھی سلام دعاء کے بعد پہلا کام ہی یہ کرتے کہ میری قومیت کی پڑتال کرتے. میرے محلے کی سیوریج لائن کھولنے یا نہ کھولنے کا دارومدار بھی اس بات پر تھا کہ میری قومیت متعلقہ افسر کی قومیت سے میچ کرتی ہے یا نہیں ؟. اس ذلالت سے میری جان تب چھوٹی جب میں پنجاب میں جا بسا. تعصب پر مبنی جو گمراہ کن سوچ مجھے کراچی میں بچپن سے جوانی تک کے 23 سالوں میں ملی تھی اسے مکمل طور پر صاف ہونے میں دس برس لگے. یوں پنڈی، اسلام آباد کے ان ابتدائی دس برسوں میں جن پنجابیوں کو تعلق کے معاملے میں "شناسائی" والی کٹیگری تک محدود رکھا تھا انہیں باقاعدہ "رفیق" کا درجہ دے ڈالا اور اگلے پندرہ برسوں میں بہت سے مزید شاندار پنجابی دوست بنائے جو میرے لئے کسی بہت ہی بیش قیمت سرمائے سے کم نہیں. ایسا نہیں ہے کہ میری کبھی کسی پنجابی سے تلخی نہیں ہوئی. اور ایسا بھی نہیں کہ کبھی کسی پنجابی نے مجھے کوئی تکلیف نہیں دی. تلخیاں بھی بہت ہویں اور نقصان بھی بھگتے مگر کوئی ایک واقعہ بھی میرے ساتھ میرے پختون ہونے کے سبب نہیں ہوا. میرے بچوں نے نرسری سے لے کر یونیورسٹی لیول کی تعلیم یہاں سے حاصل کی اور حرام ہے جو انہیں کسی لسانی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا ہو.
لگ بھگ 25 برس راولپنڈی، اسلام آباد قیام کے بعد ہمیں ایک بار پھر کراچی لوٹنا پڑا. مگر ایک واضح فرق کے ساتھ. میں نے 1994ء میں کراچی اس کے بدترین پرتشدد لسانی تعصبات کے سبب چھوڑا تھا جبکہ مجھے 2019 میں پنجاب سے کراچی کسی تعصب کے سبب نہیں بلکہ فیملی وجوہات کے تحت منتقل ہونا پڑا. میرے لئے ممکن ہی نہیں کہ میں اس دکھ کا کما حقہ اظہار کرسکوں جو اس گزرے جون کے دوران کراچی کے گلشن معمار میں لاحق ہوا. کراچی کے مضافات میں واقع یہ وسیع ہاؤسنگ سکیم اسلام آباد کی طرح ماسٹر پلان پر بنی ہے. اس کی کشادہ سڑکیں اور کھلی گلیاں اسلام آباد جیسی ہی ہیں. اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہریالی ہے. میں نے یہاں کرائے کا مکان حاصل کرنے کے لئے تین پراپرٹی ڈیلرز سے رابطہ کیا تو پہلے ہی روز تینوں نے مجھ سے میری قومیت پوچھی. میں نے اس سوال کا سبب پوچھا تو بتایا گیا کہ یہاں اکثر مالک مکان پختونوں اور سندھیوں کو مکان کرائے پر نہیں دیتے، لہذا آپ کو صرف وہ خالی مکان دکھائے جائیں گے جن کے مالکان کو پختون یا سندھی کرائے دار پر اعتراض نہیں. اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ تھا کہ میں جس تعصب بھرے کراچی سے پچیس برس قبل نکلا تھا، لوٹ کر عین اسی تعصبات کے شکار کراچی میں آنا ہے. یہاں زمین پر نہ سہی مگر دلوں میں اب بھی نوگو ایریاز قائم ہیں۔
اس ملک کے اصل دشمن فرقہ پرست ملا اور نسل پرست لیڈر ہیں. فرقہ پرست ملا کے خلاف تو ان دنوں ریاستی ادارے سرگرم ہیں. ہیٹ سپیچ اور منافرت پر مبنی لٹریچر کا پھیلاؤ جرم قرار دیا جا چکا. لیکن نسلی تعصبات پھیلانے والوں کو فی الحال کھلی آزادی حاصل ہے. نسلی منافرت کی بنیاد پر کرائے کا مکان نہ دینا ابھی قابل دست اندازی پولیس جرم نہیں. مذہبی فرقہ پرست جماعتیں دیر سے سہی مگر کالعدم ہوگئیں لیکن نسلی و لسانی تعصبات کی بنیاد پر بننے والی تنظیموں کو ابھی کھلی آزادی ہے. باچا خان کی جگہ پختونوں کی اگلی نسل تباہ کرنے کے لئے منظور پشتیں آستین چڑھا چکا، مہاجروں اور سندھیوں کو بھی جلد اپنے حصے کے نئے بدبخت میسر آجائیں گے. کیونکہ ان تینوں نے ابھی پنجابی سامراج کی طرح اپنے دروازے سب کے لئے کھلے رکھنا نہیں سیکھا. میں نہیں جانتا کہ آنے والے دن میرے لئے اپنے دامن میں کیا رکھتے ہیں. مگر میں ایک بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ مجھے اب قدم قدم پر پنجابی سامراج کی یادیں ستائیں گی. سندھ کی سرزمین پر جب جب مجھ سے میری قومیت پوچھی جائے گی، مجھے پنجابیوں کی وہ کھلی باہیں اور روشن آنکھیں بہت یاد آئیں گی جو جی آیا نوں کا استعارہ ہیں !
(تحریر: رعایت اللہ فاروقی)

July 15, 2019

PAKISTAN BUDGET 2019-20 INCOME & EXPENCES COMPLETE INFORMATION





یہ ہے اس سال2019- کا بجٹ۔
نمبر1۔ بنیادی اخراجات بشمول سرکاری ملازمین کی پنشن، بجلی گیس کی سبسڈی، سول ملازمین کی تنخواہیں، دفاع اور گرانٹس ملا کر اخراجات بنتے ہیں 3186 ارب۔ ان میں آپ چاہیں بھی تو کوئی کمی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ کم سے کم بنیادی اخراجات کی حد ہے۔
نمبر2۔۔ سابقہ حکومتوں کے لئے گئے قرضے اور سود کی مد میں اس سال 3987 ارب روپے جائیں گے۔ ان میں کمی ناممکن ہے کیونکہ یہ ادائیگیاں معاہدوں کے ساتھ منسلک ہیں۔
نمبر3۔۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ اخراجات جن میں نیشنل انفراسٹرکچر، ڈیمز، ہائی ویز کی مرمت وغیرہ شامل ہے، اس کی مد میں 864 ارب ہیں۔ یہ کم سے کم اخراجات کی حد ہے ورنہ آپ جانتے ہیں کہ صرف دیامیرڈیم کیلئے ڈیڑھ ہزار ارب چاہیئے۔
نمبر4۔۔ اضافی اخراجات جن میں بینظیر انکم سپورٹ فنڈ، یوریا امپورٹ جیسے لازمی اخراجات ہیں، ان کیلئے 86 ارب درکار ہوں گے۔
نمبر5۔۔ ہنگامی حالات کیلئے 115 ارب مختص کئے گئے جو کہ سیلاب، زلزلہ اور ایسی ہی دوسری ہنگامی صورتحال میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے سیلاب کا خرچہ پانچ سو ارب سے تجاوز کرگیا تھا، اس لئے 115 ارب بھی کم سے کم لاگت ہے جو اس بجٹ میں رکھی گئی۔
یہ ہے آپ کا اخراجات کا ٹوَٹل بجٹ، جو کہ بنتا ہے صرف 8 ہزار 2 سو 38 ارب روپے۔
اب آجائیں آمدن کی طرف۔
ہر طرح کے ٹیکسوں کی مجموعی آمدن سے 4 ہزار 4 سو 52 ارب ملیں گے۔
فیڈرل اور ایکسائز ڈیوٹیوں سے 1 ہزار 3 سو 70 ارب حاصل ہوں گے۔
سول ایڈمنسٹریشن کا ریونیو، سروسز فیس وغیرہ کی مد میں 895 ارب حاصل ہوں گے۔
ان سب کو ملا کر بنتا ہے 6717 ارب روپے۔
18 ویں ترمیم اور این ایف سی کمیشن کے مطابق صوبوں کو اس ریونیو سے 3255 ارب چلے جائیں گے۔
پیچھے بچے 3462 ارب۔
اخراجات 8238 اور آمدن 3462۔ جس کا فرق 4 ہزار 7 سو 76 ارب روپے ہے۔
چنانچہ اس سال حکومت کو مزید 3032 ارب کا قرضہ لینا ہوگا۔ جس کے بعد اخراجات کا فرق پھر بھی 1744 رہے گا۔
حکومت اس فرق کو کہاں سے پورا کرے؟ 
خرچے روکتی ہے تو سول ملازمین اور عوام سڑکوں پر آئیں گے، 
خرچے پورے کرنے کیلئے ٹیکس کی وصولی کی کوشش کرتی ہے تو تاجر سڑکوں پر نکل آتے ہیں،
مزید قرضہ لینے کی کوشش کرتی ہے تو اپوزیشن اور میڈیا والے شور مچانا شروع ہوجائیں گے ( سابقہ ادوار میں یہ سب خاموش رہے)۔
یاد رہے، موجودہ بجٹ میں جو ٹیکس کی وصولی کا ٹارگٹ یعنی 4452 ارب ہے، یہ اس وقت حاصل ہوگا جب تاجر ٹیکس ادا کرتے ہیں، اگر ان کے مطالبات مان لئے جائیں تو ٹیکسوں کی آمدن گھٹ کر 2500 ارب رہ جاتی ہے، جس سے اخراجات کا فرق 3700 ارب سے بھی اوپر چلا جائے گا۔
پٹواری، جمعوتی، جیالے اور فضلانڈو ہمیں بتائیں کہ اس اخراجات کے فرق کو کیسے پورا کیا جائے؟
ایک طریقہ بڑا آسان ہے کہ ن لیگ کی طرح سالانہ 15 ارب ڈالرز کے حساب سے غیرملکی قرضہ لیتے جائیں اور ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرتے جائیں۔ 
بزنس مین اور تاجر طبقے سے ٹیکس وصول کے علاوہ ، کوئی اور حل ہے تو بتائیں،
ورنہ اپنی بکواس بند رکھیں!!! بقلم خود باباکوڈا

July 04, 2019

MUSLIM SCIENTISTS


کیا مسلمان ایک ہزار سال سے تاریخ کے دستر خوان پہ حرام خوری کر رہے ہیں؟کیا عالم اسلام کی تمام عظیم دریافتیں اور ایجادات اسلامی تاریخ کے پہلے تین سو سال تک محدود ہیں؟
جاوید چوہدری کا اعتراض اور اس کا جواب.. کاپی پیسٹ
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمبر.1دمشق کے ایک مسلمان کاریگر نے ایک آلہ ایجاد کیا جو ’’نفت‘‘کہلاتا تھا۔جب یہ ڈرم پھٹ کر زمیں پر گرتا تو ہر طرف آگ پھیل جاتی تھی۔نفت کا استعمال صلاح الدین ایوبی نے صلیبی جنگوں میں کیا تھا(یہ نفت ابتدائی بیلسٹک میزائل تھا)۔
نمبر.2صلیبی جنگوں کے دوران مسلمانوں نے جو بارود استعمال کیا تھا،اسے گن پاؤڈر کہا جا سکتا ہے۔اس طرح گن پاؤڈر کے حقیقی موجد مسلمان تھے۔
نمبر.3مصریوں نے ایک قسم کا آلہ تیار کیا جس سے پستول یا پٹاخے کی آواز پیدا ہوتی تھی جسے سن کر دشمن ڈر جاتے تھے ۔ان آلات کو سواریخ(Crackers)کہا جاتا تھا۔اس ابتدائی پستول کو ابتدائی توپ بھی کہا جاتا ہے۔عثمانیوں کے عہد حکومت میں استنبول کے محاصر کے دوران ایسی توپیں استعمال ہوئیں جس سے چار سو کلوگرام کے گولے 2.4کلومیٹر کے فاصلے سے پھینکے جا سکتے تھے۔
نمبر.4برہان الدین نامی طبیب اور مصنف نے تحقیق کی خون میں سکر العنب (بلڈ گلوکوز)پائی جاتی ہے۔اس طرح اس اس انسان نے شوگر(ذیابیطس)کی عملی تحقیق کی بنیاد رکھی جس کے علاج کی بنیاد بلڈ گلوکوز کے کنٹرول پر منحصر ہے۔
نمبر.5زکریا بن محمد القزوینی نے اس کا انکشاف کیا کہ زمین اپنے محور پر گھومتی ہے، جس سے بدلتے ہیں انیسویں صدی کے نصف اول میں ان کی کتاب کا فرانسیسی ترجمہ دوجلدوں میں شائع ہوا۔
نمبر.6 ابوبکر رازی نے کتاب ھیئتہ العالم میں بیان کیا کہ زمین کی شکل کردی ہے ان کے بعد البیرونی نے اپنی تصانیف تحلید نھایات الاماکن اور کتاب الھند میں زمین کی ہیئت پر مدلل اندازی میں یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین قطعی طورپر کروی الشکل ہے اوراس کا گول ہونا ایک طبعی ضرورت ہے۔چھٹی صدی ہجری میں ادریسی نے زمین کی گولائی کو نبیاد بنا کر اپنی مشہور تخلیقات پیش کیں ۔ان کے بعد زکریا بن محمد القروینی نے بھی علمی بنیاد پر انکشاف کیا کہ زمین گول ہے۔
نمبر.7جنیوا کے ملاحوں کے خیالات کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈریپر کہتے ہیں۔
’’جنیوا کے ان جہاز رانوں میں جو خیالات سے دلچسپی لے رہے تھے کرسٹو کو لمبس بھی شامل تھا وہ ہمیں بتاتاہے کہ اس موضوع کی طرف اس کی توجہ ابن رشد کی کتابوں کے مطالعے سے ہوئی‘‘۔
نمبر.8صرف یہی نہیں کہ کرسٹو کولمبس مسلمانوں کے نظریہ کرویت زمین سے واقف ہوکر یا ابن رشد کی کتابوں کر پڑھ کر بحر ی سفر پر روانہ ہوا بلکہ رابرٹ بریفالف (Rabert Brifault) (۱۸۷۶-۱۹۴۸) کے مطابق مشہور مسلم سائنسدان ابو عبداللہ محمد بن جابر البتانی کی تخلیق کی نبیاد پر ریجیو مو نٹینس (Regio Montanus) (۱۴۶۳-۱۴۷۶ء) نے وہ نقشے تیار کئے تھے ،جن کی مد د سے کولمبس کا بحری سفر ممکن ہوا۔
نمبر.9: سمند ر میں مدوجزر یا جوار بھاٹا کی توجیہ سے لوگ نابلد تھے، مشہور مسلم سائنسداں ابو معشر بلخی (المتوفی ۲۷۳ھ/۸۸۶ء)نے پہلی بار اس کا انکشاف کیاکہ اس کا تعلق چاند کی کشش سے ہے۔
نمبر.10بعض اوقات کان میں زہریلی گیس سے یا تازہ ہوانہ ملنے کی وجہ سے آدمی کی موت واقع ہوجاتی تھی ۔اس خطرے کے سدباب کے لیے بنو موسی نے ایک مشین ایجاد کی تھی جو گہر ے کنوؤں یا گڑھوں سے زہریلی گیس نکالتی اور تازہ ہوا پہنچاتی رہتی تھی۔
 نمبر.11سمندر میں موتی تلاش کرنے والے غوطہ خوروں کو سانس لینے میں اتنی دشواری پیش آتی تھی کہ پانی کے اندر زیادہ دیر تک ٹھہر نا جان لیوا ہوسکتاتھا ۔اس دشواری پر قابو پانے کے لیے بغداد کے غوطہ خوروں نے
ایک چرمی گیئر ایجاد کیا تھا ۔ سمندر وں ،دریاؤں اور کنوؤں میں گری ہوئی اشیاء یا بھاری چیزوں کو نکالنے کے لیے خاص قسم کی مشینیں تیار کی گئی تھیں۔
نمبر.12:ابوبکر رازی نے نیوٹن سے کئی سو سال قبل کشش ثقل کا نظریہ پیش کیاانھوں نے ایک تصنیف کتاب سبب وقوف الارض فی السماء کے عنوان سے تحریر کی ، جس میں انھوں نے بتایا کہ زمین کشش کے سہارے فضا میں معلق ہے۔
’موخر الذکر نے ابو معشر بلخی کے بعد مدوجز کا مطالعہ کرکے بتایا کہ اس کا اصل سبب چاند کی کشش ہے۔ انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سیارے سورج کی کشش کی بنا پر اس کے گرد حرکت کرتے ہیں ۔ مسلم علماء اس امر سے واقف تھے کہ گرتے ہوئے اجسام کی اسراع کا تعلق ان کی کمیت سے نہیں ہوتا نیزوہ اس سے بھی آگاہ تھے کہ دوجسموں کے
درمیان قوت کشش اس وقت بڑھ جاتی ہے ۔ جب ان کا باہمی فاصلہ کم ہوتاہے۔
نمبر.13الجیانی نے صبح کاذب کی ابتدااور شام کے دھندلکے کے وقت آفتاب کا زاویہ انحضاض 18ڈگری دریافت کیا ہے۔ جو بڑی حد
تک درست ہے ۔اسی بنیاد پر انھوں نے فضامیں اس نمی کی اونچائی کوجاننے کی کوشش کی ہے جو دھندلکوں کے مظاہر کاسبب ہے۔
 نمبر.14عربوں کی تاریخ میں عباس ابن فرناس پہلے شخص ہیں ۔ جنھوں نے پرواز کرنے کی سائنسی انداز سے کوشش کی ۔انھوں نے اڑنے کی جو مشین بنائی تھی ۔ اس میں دوپر لگے ہوئے تھے ۔
  نمبر.15: ول دوران کے مطابق
’’بغداد کے پہلے بویہی حکمرانوں کی سرپرستی میں کام کرتے ہوئے ابو الوفانے (سڈیولٹ کی مجوث فیہ رائے کے مطابق ) ٹائیکو براہے سے چھ سوسال پہلے چاند کی تیسری حالت دریافت کی۔‘‘
نمبر.16الزرقالی نے جو ہانس کپلر(۱۵۷۱-۱۶۳۰ء) سے پہلے بتایا ہے کہ مدار بیضوی ہوتے ہیں ۔
نمبر.17دوربین ابو معشر بلخی نے ۲۷ محرم ۲۱۷ ھ کو بنائی لیکن اب اسے گلیلو کی ایجاد مانا جاتاہے ۔سورج کی سطح پر دھبوں کی نشاندہی سب سے پہلے ابن رشد نے کی مگر یورپ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ دھبے پہلے پہل گلیلو کی دوربین کو نظر آئے ،جنھوں نے ابن رشد کی آنکھ بند ہوئے۳۶۶سال بعد انکھیں کھولی ہیں ۔
نمبر.18جارج سارٹن کا کہنا ہے کہ علی بن عیسیٰ نے اپنی کتاب میں ایک سوتیس امراض چشم اورایک سو تینتالیس ادویات کا ذکر کیا ہے۔
نمبر.19ابن الخطیب کے مطابق متعدی امراض نہ نظر آنے والے نہایت باریک جانداروں سے ہوتے ہیں جنہیں جراثیم(microbes)کہا جاتا ہے۔اس نے بتایا کہ یہ جراثیم مریض کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے ،کھانے پینے اور اس کی استعمال شدہ اشیاء کے استعمال سے دوسرے افراد میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ اس انسان نے مائیکرو بیالوجی کی بنیاد رکھی۔
نمبر.20: الخجندی وفات1000 ء محوری جھکاؤ اور عرض بلد کے معلوم کرنے پر رسالہ فی المیل و عرض بلد پیش کرتا ہے۔ وہ مسئلہ جیب زاویہ یا سائن تھیورم دریافت کرتا ہے جو مینی لاؤ کے قانون کی جگہ لے لیتا ہے۔
 نمبر.21۔ الزہراوی وفات 1004 ء دنیا کے پہلے سرجن کا اعزاز حاصل کرتا ہے۔ وہ فن میں ٓاپریشن کے طریقے دیرافت کرتا ہے۔ وہ اپنی کتاب التصریف میں سوسے زیادہ سرجری کے آلات بیان کرتا ہے۔
نمبر.22
۔ علی بن عبدالرحمن یونس وفات 1004 ء دائرۃ البروج(inclination of ecliptic) کی قیمت 23 درجے35 منٹ اور اوج شمسی (Sun apogee) 86 درجے 10 منٹ معلوم کرتا ہے جو کہ جدید تحقیق کے بہت قریب ہے۔ وہ زمین کے محور کی 26 ہزار سالوں میں360 ڈگری مکمل ہونے والی حرکت کو دریافت کرتا ہے جو کہ جدید تحقیق کے مطابق ہے۔
نمبر.23: احمد بن محمد علی مسکویہ وفات1032 ء تاریخ میں پہلی بار نباتات میں زندگی دریافت کرتا ہے۔ وہ زندگی کی تحقیق اور دماغی ارتقاء کی درجہ بندی کرتا ہے۔ جو کہ بعد میں ڈارون اسی طرح پیش کرتا ہے۔
نمبر.24:ابن سینا وفات 1036 ء جسم کے اعضاء کی تقسیم بندی کرتا اورنفسیاتی طریقہ علاج دریافت کرتا ہے۔ وہ طب کی مکمل ترین اور مستند ترین تصنیف قانون الطب لکھتا ہے جو سولہویں صدی تک یور پ میں پڑھائی جاتی ہے۔
نمبر.25:۔ ابن الہشم وفات1038 ء اپنی شہرہ آفاق تصنیف کتاب المناظرمیں روشنی کا ذراتی نظریہ پیش کرتا ہے۔ وہ روشنی کے انعطاف ، انعکاس ، روشنی کے خطِ مستقیم میں سفر اور پردۂ چشم (ریٹینا) کو دریافت کرتا ہے۔ اس کی تحقیقات فزکس میں انقلاب برپا کر دیتی ہیں۔
 نمبر.26:۔علی احمد نسوی وفات 1030 ء ساعت یعنی گھنٹے کو 60 کے ہندسے پر تقسیم کر کے دقیقہ (منٹ) اور ثانیہ (سیکنڈ) میں تقسیم کرتا ہے۔ نسوی چھوٹے چھوٹے پیمانوں کی تقسیم در تقسیم کا دس کی نسبت سے طریقہ دریافت کرتا ہے جسے اعشاریہ کا نام دیا جاتاہے۔
 نمبر.27:۔البیرونی وفات1049 ء دھاتوں کی کثافت اضافی معلوم کرتا ہے۔ وہ طول البلد اور عرض بلد اور زمین کا محیط24779 میل معلوم کرتا ہے جس میں جدید تحقیق (24858 میل )صرف 79 میل کا فرق معلوم کر سکتی ہے۔
 نمبر.28:۔ علی ابن علی بن جعفر وفات1061 ء جدید طب میں مریض کے معانئے کے لیے استعمال ہونے والے طریقےGeneral Physical examination اورSystemic inquiry کا سلسلہ جاری کرتا ہے۔
 نمبر.29:۔ غزالی وفات 1111 ء جدید فلسفہء اخلاق کے موجد اور محقق کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
 نمبر.30:۔ عمر خیام وفات 1131 ء 28 سال کی عمر میں اپنی کتاب الجبرو المقابلہ مکمل کرتا ہے۔ اس میں وہ الجبرا کے چھ نئے اصول بیان کرتا ہے مثلاً بائی نو میل تھیورم ۔ عمر خیام شمسی سال کی مقدار 365 دن 5 گھنٹے اور 49 منٹ نکالتا ہے جو کہ صرف ایک منٹ کے فرق سے جدید تحقیق کے مطابق ہے۔ وہ شمسی کیلنڈر میں بعض مہنیوں کو 30 اور بعض کو 31 دن کا کر کے لیپ ائیر کی بنیاد رکھتا ہے جو آج یورپ اور امریکہ میں رائج ہے۔
۔ ابن زہر وفات 1162 ء متعدی خارش(Scabies) کی وجہ دریافت کرتا ہے۔ وہ تاریخ میں پہلی بار طفیلیوں (پیراسائٹس) کا وجود ثابت کرتا ہے۔
 نمبر.32:۔الادریسی وفات1164 ء پہلی بار زمین کو گول بتاتا ہے۔ وہ زمین کا چاندی کا ایک گلوب بناتا ہے۔ وہ دنیا کے پہلے ماہر نقشہ نویس کی حیثیت سے دنیا کا نقشہ بناتا ہے اور دریائے نیل کا منبع دریافت کرتا ہے۔ اس کی کتاب نزہتہ المشتاق فی الحتراق الآفاق جغرافیہ کی پہلی
کتاب ثابت ہوتی ہے۔
33: نمبر.33:۔ابن رشد وفات 1198 ء پہلی بار ثابت کرتا ہے کہ جس آدمی کو ایک بار چیچک ہو جائے ، اسے زندگی بھر دوبارہ نہیں ہوتی جسے جدید سائنس بھی مانتی ہے۔
نمبر.34:
 ۔ شرف الدین طوسی وفات1213 ء طولی اصطر لاب(Linear astrobabla) ایجاد کرتا ہے۔جو ستاروں کی بلندی ، وقت اور قبلے کے تعین کے لیے کیے گئے مشاہدات کو ممکن بناتی ہے۔
 نمبر.35:۔ عبداللہ ابن بیطار وفات 1248 ء سپین کاعظیم ترین ماہر نباتیات (باٹنی) ثابت ہوتا ہے۔ وہ جڑی بوٹیوں کی تلاش کے لیے سپین سے شام کا وسیع سفر کرتا ہے۔ وہ اینٹی کینسر خصوصیات رکھنے والی دوائی ہند باہ دریافت کرتا ہے جس کی تصدیق جدید سائنس بھی کرتی ہے۔
 نمبر.36:ابن النفیس وفات1288 ء تاریخ میں پہلی بار پھیپھڑوں اور دل میں دورانِ خون (پلمونری اور کرونری سرکولیشن) کو دریافت کرتا ہے جو طب میں انقلاب برپا کر دیتی ہے۔ وہ دورانِ خون کا پہلا محقق ثابت ہو تا ہے۔
 نمبر.37:۔ کمال الدین فارسی وفات 1320 ء قوسِ قزح بننے کے عمل کی پہلی درست وجہ دریافت کرتا ہے۔
نمبر.38:۔ ابن خلدون وفات1406 ء مقدمہ ابن خلدون مرتب کر کے عمرانیات کی بنیاد رکھتا ہے۔
نمبر.39:۔ پری رئیس محی الدین وفات1554 ء دنیا کا پہلا جدید نقشتہ بناتا ہے جس میں نو دریافت شدہ براعظم امریکا اور انٹار کٹکا بھی دکھائے جاتے ہیں۔
نمبر.40:۔تقی الدین محمد ابن معروف وفات1585 ء دنیا کا پہلا سٹیم انجن اور دو ر بین بنا تا ہے۔
 نمبر.41:۔ احمد چلبی وفات(سترہویں صدی عیسوی) انسانی پرواز کا تجربہ کرتاہے۔
 نمبر.42:۔ اس سے ایک سال پہلے لغاری حسن چلبی راکٹ کے ذریعے پہلی انسانی پرواز کرتا ہے۔
 نمبر.43:۔ شیر میسور ٹیپو سلطان شہادت 1799 ء تاریخ میں پہلی بار جنگی راکٹ ایجاد کرتا ہے۔ جنہیں برطانوی یورپ لے جا کر ان نے پر مزید تحقیق سے نئے راکٹ بناتے ہیں۔1793ء سے 1794ء کے دوران ٹیپو کی تعمیر کردہ flint lock blunderbuss gun آج تک اپنے وقت کی جدید ترین ٹیکنالوجی شمار کی جاتی ہے۔ٹیپو کے راکٹوں کی بنیاد پررائل وولوک آرسینل نے ملٹری راکٹوں پر تحقیق شروع کی ۔یہ تحقیق 1801ء میں شروع ہوئی اور اس کی بنیاد ٹیپو کی کی ٹیکنالوجی تھی۔اس تحقیق کا نتیجہ 1805ء میں ٹھوس ایندھن راکٹوں(سالڈ فیول راکٹ)کی صورت میں سامنے آیا۔اس کے بعد ولیم کانگریو نے A concise account of origin and progress of rocket system شائع کیا۔کانگریو کے راکٹوں کو انگریزوں نے نپولین سے جنگوں میں استعمال کیا۔1812ء اور بعد میں 1814ء کی بالٹی مور کی لڑائی میں انگریزوں نے جدید راکٹوں کا استعمال شروع کیا جن کی بنیاد ٹیپو کی راکٹ ٹیکنالوجی تھی۔ میسور کے راکٹ تقریبات کے موقع پر بھی فائر کیے جاتے تھے ۔اب میسور کی یہی روایت دینا بھر میں استعمال کی جاتی ہے
راکٹ فائز کے لیے فوجیوں کو تربیت دی جاتی تھی کہ وہ راکٹ اس زاویے سے لانچ کریں جو راکٹ کے سلنڈر کے قطر (ڈایا میٹر) اور ہدف سے فاصلے کے ذریعے معلوم کیا جاتا تھا ۔آج کی جدید فزکس اسے Pxojectile کے اصول کے نام سے استعمال کررہی ہے ۔پہیوں والے راکٹ لانچر جوایک ہی وقت میں 5سے 10راکٹ فائر کرتے تھے ،بھی استعمال کیے جاتے تھے۔
ٹیپو سلطان اور حیدر علی کو عسکری مقاصد کے لیے ٹھوس ایندھن راکٹ(سالڈفیول راکٹ)ٹیکنالوجی اور میزائلوں کے استعمال کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
نمبر.44:۔ ہلوسی بہست وفات1948 ء خون کی نالیوں کی ایک بیماری دریافت کرتا ہے جسے بہست سنڈروم کہا جاتا ہے۔ہلوسی بیس فروری 1889ء کو استنبول میں پیدا ہوا اور آٹھ مارچ 1948ء کو فوت ہوا۔وہ ترکی سے تعلق رکھنے والا مسلمان ماہر امراض جلد(ڈرماٹا لوجسٹ)اور سائنسدان تھا۔
ہلوسی نے خون کی نالیوں کی سوزش (Inflammation of blood vessels)کی ایک بیماری کو 1937ء میں دریافت کیا ج13146ے اس کے نام پر بہست کی بیماری(Behcet disease) کا نام دیا گیا۔
گیا۔1924ء میں اس نے ڈرماٹالوجی(امراض جلد) پر ترکی کا پہلا جریدہ Dermatologisische Wochenshriftشائع کیا جس میں اس نے آتشک اور دوسرے جلدی امراض خی تمیزی تشخیص(Differential diagnosis) پر مفصل معلومات ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سائنسدان ایک ہی وقت میں آتشک یا Syphilisاور دیگر امراض جلد کے متتعلق جان سکتے تھے۔یہ کتاب آج تک اس میدان میں اہم سمجھی جاتی ہے اور اسے Clinical and practical syphilis,diagnosis and related dermatoses کہا جاتا ہے۔
 نمبر.45:۔علی مصطفیٰ مشرفہ پاشا شہادت 1950 ء آئن سٹائن کے مقابلے میں تھیوری آف ریلٹیویٹی اور مادے اور توانائی کی باہمی تبدیلی کو بیان کرتا ہے۔جب آئن سٹائن نے مصر کا دورہ کیا تو اس نے خصوصاً مصطفی سے ملنے کی گزارش کی۔ کہا جاتا ہے کہ مصطفی کے کوانٹم تھیوری، ریڈی ایشن ، مکینکس او رڈائنا مکس کے زبردست علم کی وجہ سے مادے اور توانائی کی تبدیلی کی مشہور مساوات E=mc2 آئن سٹائن او رمصطفی نے اکٹھے پیش کی۔ افسوس ہے کہ اس مساوات کا تذکرہ کرتے ہوئے آئن سٹائن کا نام تو لکھا جاتا ہے اور مصطفی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
 نمبر.46:۔ ہندوستانی سب انسپکٹر عزیز الحق بیسویں صسدی کے پہلے نصف میں فنگر پرنٹس کی کلاسیفکیشن دریافت کرتا ہے سے اس کے انگریز آقا ایڈورڈ ہنری سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔اس نے اس نظام کی ریاضیاتی بنیاد بھی فراہم کی لیکن یورپ نے روایتی علمی چوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اس کے انگریز سر پرست ایڈورڈ ہنری کے نام سے" ہنری کلاسیفکیشن سسٹم آف فنگر پرنٹس" کا نام دے دیا۔
نمبر.47:۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں
منیر احمد خان پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھتے ہیں
نمبر.48:ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی محنت کی بدولت اسلامی دنیا کا پہلا ملک یعنی پاکستان یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔
نمبر.49:۔1983 ء میں پاکستان پہلے اسلامی ملک کی حیثیت سے خفیہ ایٹمی تجربے کرتا ہے۔

 نمبر.50:  1998میں پاکستان اسلامی دنیا کے پہلے ایٹمی ملک کا اعزاز حاصل کرتا ہے۔
نمبر.51:۔پاکستانی معاشی سائنسدان محبوب الحق ایچ ڈی آئی
(Human developmental index) کا پیمانہ پیش کرتا ہے جسے ممالک کی ترقی کی رفتار جانچنے کے لیے دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔
 نمبر.52:۔پاکستانی سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی نیم کے پودے پر تحقیق کرکے50 نئی ادویات دریافت کرتا ہے۔صدیقی نے دل کی بے قاعدہ دھڑکن (Cardiac arrhythmias)کے علاج کے لیے ایک دوئی (Anti-arrhythmic drug)دریافت کی۔اسے اس نے ایک پودے سے علٰیحدہ کیا جسے سائنس میں رولفیا سرپنٹا کہا جاتا ہے۔اس نے اسے اجمالین(Ajmaline)کا نام دیا۔بعد میں صدیقی نے اس پودے سے بدوسرے مرکبات مثلا Ajmalnine,Ajmalcine,Iso-ajmaline,Neo-ajmaline,Serpentine دریافت کیں۔ان میں سے کئی ادویات آج تک بہت سے امراض قلب اور دماغی امراض مثلا بروگاڈا سنڈروم(Brugada syndrome) کیے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔ان انقلابی دریافتوں کی بنیاد پر صدیقی کو 1946ء میں ،آرڈر آف برٹش ایمپائر کا ایوارڈ دیا گیا۔
بعد میں صدیقی نے نیم کے پودے کے مختلف حصوں مثلا پتے اور تنے سے کئی بے مثال جراثیم کش ادویات کی دریافت جاری رکھی۔اس نے اپنے ساتھیوں،شاگردوں اور رفقاء کی مدد کے علاوہ ذاتی طور پر بھی پچاس مرکبات دریافت کیے۔ان میں سے کئی ابھی تک مختلف ادویات اور حیاتیاتی سپرے(Bio-pesticides) کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں ۔
نمبر.53:۔ صغیر اختر خان شوگراور ہائی بلڈ پریشر (فشارِ خون) پر اپنی مالیکیولی تحقیق کرتا ہے۔
نمبر.54:۔ملائیشین آرتھو پیڈک سرجن شیخ مصطفیٰ مصظفر شکور سپیس کرافٹ ٹی ایم2۔  کے ذریعے خلا کا سفر کرتا ہے اور وہاں 10 تمام 21 گھنٹے 14 منٹ قیام کرتا ہے۔
نمبر.55:۔انڈونیشیا کا صدر بہار الدین جیبی تھر موڈائنا مکس اور ایرو ڈائنا مکس پر تحقیقات کرتا ہے جو جیبی متھڈ، جیبی تھیورم اور جیبی فیکٹر کے نام سے استعمال کی جاتی ہے۔
نمبر.56:۔فضل الرحمان خان بیسوی صدی کا عظیم ترین ماہر تعمیرات ثابت ہوتا ہے۔ اس کی تحقیقات کی بنیاد پر دنیا کی بلند ترین عمارتیں جان ہنکوک سنٹر ، ورلڈ ٹریڈ سنٹر، ولس ٹاور اور برج خلیفہ تعمیر کی جاتی ہیں۔ اسے تعمیرات کے آئن سٹائن کا لقب دیا جاتا ہے۔وہ تعمیرات کے پس منظر میں بنیادی شخصیت ہے۔اسے بلند عمارات (high - rises) کے ٹیوب نمانمونوں (ٹیوبیوڈایزائن) کا باوا سمجھا جاتا ہے ۔ خان نے بیسویں صدی کے آخری نصف میں کسی بھی آدمی سے زیادہ فلک بوس عمارات(skyscrapor) کی تعمیرات کی نشاۃ ثانیہ میں اہم کردار ادا کیا ۔ اسے سٹرکچرل انجینئرنگ کا آئن سٹائن کہا جاتا ہے اسے بیسویں صدی کے 1960 ؁ء کے بعد سے اب تک تعمیر ہونے والی عمارات مثلاً عالمی تجارتی مرکز (ورلڈٹریڈ سنٹر)، پٹروناس ٹاور اور جن ماؤ بلڈنگ میں خان کے ٹیوبی نظام کو استعمال کیا گیا ہے۔
نمبر.57:۔فلسطینی نژاد امریکی مسلم سائنسدان منیر حسین نیفح کی ذراتی (پارٹیکل) فزکس پر تحقیق الیکٹران مائیکرو سکوپ اور نینو ٹیکنالوجی کی ایجاد میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وہ سٹیلائٹ تصاویر کی بنیاد پر زیر زمین دریائے کویت دریافت کرتا ہے۔
نمبر.58:۔ پہلا عرب مسلمان سلطان بن سلیمان بن عبدالعزیز السعود خلا میں جاتا ہے۔
نمبر.59:۔ اس کے بعد دوسرا عرب اور شامی مسلمان محمد احمد فارس خلا کا سفر کرتا ہے۔
نمبر.60:مصطفیٰ السید سپکٹروسکوپی کا اصول پیش کرتا ہے جسے اس کے نام پر السید رول کہا جاتا ہے۔السید کے تحقیقی گروپ نے کئی نئے طریقے مثلا مگنیٹوفوٹو سلیکش پیکو سبکنڈ رمان سپکٹر وسکوپی اور مائیکروویوڈبل ریزوننس سپکٹروسکوپی ایجاد کیے ہیں۔اس کی تجربہ گاہ کا بنیاد ی مقصد نایاب دھاتوں نوبل میڈل ) کے نینو پارٹیکلر کی طبعی اور کیمیائی خصوصیات کا مطالعہ ہے ۔ اس کی تجربہ گاہ گولڈ نینوراڈٹیکنالوجی کی ایجاد کی وجہ سے مشہور ہے ۔ڈاکٹر مصطفی السید کے بیٹے ڈاکٹر ایوان السید نے (جو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ٹیور سرجری کا پروفیسر ہے ) نے اپنے والد کی تحقیق کو کچھ جانوروں کے کینر کے علاج کے لیے استعمال کیا ہے ۔
نمبر.61:۔مصری نژاد امریکی سائنسدان احمد زویل اپنی تحقیقات کی بنیاد پر کیمسٹری کی نئی شاخ فیمٹو کیمسٹری کی بنیاد رکھتا ہے۔
نمبر.62:۔بنگلہ ریشی مسلم خاتون سائنسدان سلطانہ نورون بلیک ہولز سے پیدا ہونے والے سپکٹرم کی وضاحت کے لیے اپنا ریاضیاتی ماڈل پیش کرتی ہے جسے دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔آئرن (لوہے) کی ایٹمی خصوصیات پر تحقیق کی وجہ سے اسے ’’ آئرن لیڈی ‘‘ کہا جاتاہے ۔دنیا بھر کے طبیعیات دان اور فلکیات دان فلکیاتی مظاہر سے پیدا ہونے والے طیفوں (سپیکٹرم) مثلا جو کہکشاؤں کے مرکز کے قریب بلیک ہولز کی وجہ سے بنتے ہیں ،کی تشریح کے لیے وہ اس کا پیش کردہ ریاضیاتی ماڈل استعمال کرتے ہیں ۔
نمبر.63:فاروق البازمصری نژاد امریکی سائنسدان ہے جس نے چاند پر خلائی تحقیق کے لیے ناسا کی معاونت کی جن میں چاند پر بھیجے گئے اپالومشن کے چاند پر اترنے کی جگہ اور قمری مشاہدات اور تصویر کشی کے لیے خلابازوں کی تربیت بھی شامل تھے ۔اسے یہ شہادت پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہے کہ صحرا
انسانی سر گرمیوں سے نہیں بلکہ موسمی تبدیلیوں سے وجود میں آتے ہیں ۔
نمبر.64:عزیز سنکار،پہلا مسلمان ماہر حیاتیات یا بیالوجی جسے نوبل انعام ملا
 نمبر.65:
سید ضیا الرحمن،سائنس کی شاخ Environmental Pharmacovigilance کے بانیوں میں سے ایک
نمبر.66:اختر حمید خان،سماجی سائنسدان،مائیکروکریڈٹ کے بانیوں میں سے ایک
نمبر.67:محمد یونس،نوبل انعام یافتہ بنگلہ دیشی ماہر معاشیات یا اکانومسٹ،مائیکرو فنانس کے بانیوں میں سے ایک ہے۔

نمبر.68:
مہمت اوز،مشہور ترک امریکی جراح امراض دل(ہارٹ سرجن )،HealthCorps کا بانی اور چےئرمین
محمد بی یونس،fibromyalgia کی بیماری پہ اولین تحقیق کرنے والوں میں سے ایک
نمبر.69:شیخ مصظر شکور،خلا میں طبی حیاتیات یا بائیو میڈیکل تحقیق کا اولین سائنسدان
نمبر.70:ابراہیم بی سید،ریڈیالوجی کا نامور محقق
نمبر.71:
ثمر مبارکمند،پاکستانی ایٹمی سائنسدان جس نے گیما سپیکٹرو سکوپی اور linear accelerator پہ اپنی نمایاں تجرباتی تحقیق پیش کی
شاہد حسین بخاری،field of parallel and distributed computing پہ تحقیق کرنے والا نامور پاکستانی سائنسدان
نمبر.73:علی مصطفی مشرفہ پاشا ،مصری مسلم سائنسدان جس نے ائن سٹائن سے بھی پہلے تھیوری آف ریلیٹویٹی پہ تحقیق پیش کی
نمبر.74:سمیرہ موسی شہید،عالم اسلام کی پہلی اور اولین خاتون ایٹمی سائنسدان جسے امریکہ بلا کر قتل کیا گیا تھا۔اس نے ایک تاریخی مساوات بنائی جو سستی دھاتوں مثلاً تانبے (کاپر) کے ایٹموں کو توڑنے میں معاون تھی۔ اس سے ایک سستا نیوکلیائی بم بنایا جا سکتا تھا۔ سمیرہ نے مختلف ہسپتالوں میں کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے خود کو پیش کیا۔
 نمبر.75:
کیرم کریموف،پہلی انسانی خلائی پرواز (Vostok 1), کا بنیادی معمر 
نمبر.76:فاروق الباز،ناسا سائنسدان،چاند پہ اتارے جانے والے خلائی منصوبے اپالو کے بنیادے سائنسدانوں میں سے ایک
نمبر.77:اسد اے عابدی،الکٹریکل انجنےئرنگ پہ تحقیق( پاکستانی سائنسدان)
نمبر.78:عبدالماجد،چٹانی سائنس پہ تحقیق
نمبر.79:قاسم مہدی،پاکستانی سائنسدان،مالیکیولر بیالوجی پہ تحقیق
نمبر.80:نرگس موالوالہ، پاکستانی ماہر آسٹرو فزکس
نمبر.81:
:عرفان صدیقی، quantum measurement & nano-scienceپہ تحقیق پیش   کرنے والا پاکستانی سائنسدان
محمد زبیر،کوانٹم آپٹکس پہ تحقیق کرنے والا پاکستانی سائنسدان
نمبر.82:دنیا کے حیرت انگیز ریکارڈ پیش کرنے والے آن لائن بلاگ اوڈی ڈاٹ کام کے مطابق سویڈن میں مقیم عراقی تارک وطن نوجوان نے ریاضی کی تین سو برس سے الجھی ہوئی گتھی سلجھا کر اہل مغرب کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا ہے۔اس نے 300 برس سے ریاضی دانوں کے لیے چیلنج بنے ہوئے برنولی نمبر پرابلم(Bernoulli number problem) کا فارمولا ایجاد کر کے اساتذہ کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا۔
نمبر.83:نیویارک سے تعلق رکھنے والی عالیہ صبور نے اٹھارہ سال کی عمر میں فل ٹائم فیکلٹی پروفیسر بن کر دنیا کا تین سو سالہ قدیم ریکارڈ توڑ دیا ہے۔وہ بطور پروفیسر جنوبی کوریا کی سیول یونیورسٹی میں فرائض انجام دے رہی ہیں۔اس سے قبل وہ سٹونی بروک ینیورسٹی میں سب سے کم عمر کالج پرو فیسر بن کر ریکارڈ قائم کر چکی ہیں۔نارتھ پورک نیو یارک کی سٹونی بروک یونیورسٹی نے انہیں دس سال کی عمر میں داخلہ دے دیا تھا۔انہوں نے یہاں سے چودہ سال کی عمر میں اپلائیڈ میتھ میں گریجویشن کیا۔اس طرح وہ امریکی تاریخ کی سب سے کم عمر گریجویٹ قرار پائیں۔بعد میں انہوں نے ڈریکسل یونیورسٹی سے مٹیریل سائنس اور انجنےئرنگ میں ایم ایس اور پی ایچ ڈی کیا۔انہیں اپنی انیسویں سالگرہ سے تین دن قبل KONKOLUSیونیورسٹی سیول میں پروفیست تعینات کیا گیا۔اس طرح سب سے کم عمر پروفیسر کی حیثیت سے ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہو گیا۔
نمبر.84:منیر حسین نیفح نے نینو ٹیکنالوجی کے نانیوں کا کردار ادا کیا ہے ۔ اس کے کام نے ذاتی فزکس (پارٹیکل فزکس ) میں انقلاب برپا کردیا۔ ذراتی فزکس پر اس کے کام نے الیکٹران مائیکروسکوپس اور نینوٹیکنالوجی کی ایجاد میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔
 احمد حسن زویل کی تحقیق کو فیمٹوکیمسٹری (Femtochemistry) نمبر.85:جوکہ ان کیمیائی تعاملات کا مطالعہ ہے جو فیمٹو سیکنڈ میں ہوتے ہیں ،کا بانی سمجھا جاتاہے ۔الٹرا فاسٹ 
لیزر کے استعمال سے یہ تحقیق مخصوص کیمیائی تعاملات میں درمیانی حالتوں (Tranistanstates) کا تجربہ کرتی ہے ۔
ریاض الدین پاکستان کا ایٹمی پروگرام، سی ساماڈل (Seasaw modal )نمبر.86:
 سٹرنگ تھیوری(string theory) ،کوانٹم گریوٹیی ، ریاض الدین ویک انٹر ایکشن ماڈل (week Intwraction Model) ، نیو ٹرائنوفزکس ، کیلکولس ڈیفرنشیل الجبرا، ہائی انرجی فزکس، ریاض الدین سمری فارلائٹ نیوٹرائنوز میں کارنامے انجام دیتا ہے۔
نمبر.87:عمر محمد یاغی(سائنسدان نینو سائنس اور مالیکیولر کیمسٹری ،دنیا کے دس
ذہین ترین ماہرین کیمسٹری میں سے ایک)
عمر محمد یاغی1965ء میں عمان(اردن)میں پیدا ہوا۔وہ امریکی شہریت رکھنے والا اردنی مسلمان ہے جو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں کیمسٹری کا پروفیسر رہا۔
اس نے ایسے مرکبات کی تیاری میں وسعت دی جن سے پہلے سائندان واقف نہیں تھے۔عمر نے کیمسٹری کے اس میدان کو ’’ریٹی کولر کیمسٹری(Reticular chemistry)کا نام دیا۔اس نے 130تحقیقی مضمون شائع کیے اور اسے دنیا کے دس ذہین ترین کیمیا دانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔پاپولر سائنس نے 2006ء میں اسے امریکا کے دس ذہین ترین سائنسدانوں میں شمار کیا۔ نوے سائنسی جریدوں نے اسے خراج تحسین پیش کی۔
نمبر.88:عطاء الرحمان پاکستان سے تعلق رکھنے والا ایک نامور سائنسدان ہے جو نیچرل پروڈکٹ کیمسٹری کے مختلف میدانوں میں اپنی تحقیق کی وجہ سے مشہور ہے۔اس میدان میں وہ 850تحقیقی مضمون شائع کر چکا ہے۔اسے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کو فروغ دینے کا بھی ایوارڈ حاصل ہے۔وہ آرگینک کیمسٹری میں 864بین الاقوامی تحقیقات دے چکا ہے جس میں 670ریسرچ پیپر،115کتابیں اور امریکی اور یورپی پریس میں شائع ہونے والے 59باب(چیپٹر)شامل ہیں۔
نمبر.89:پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ صادق 1940ء میں پیدا ہوا۔وہ پاکستانی ماہر فزکس اور آئی سی ٹی پی لارےئیٹ (Laureate)ہے۔اس نے 1987ء میں ریاضی اور سالڈ سٹیٹ فزکس کا انٹر نیشنل سنٹر ایوارڈ فار تھیوریٹیکل فزکس حاصل کیا۔
 نمبر.90:پاکستانی ڈاکٹر عبدالقیوم رانا ورلڈ پارکنسن ایجوکیشن پروگرام کا بانی ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں جاری ہے۔ڈاکٹر رانا اب تک دو سو پچاس تحقیقی کالم شائع کر چکا ہے جن کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ڈاکٹر رانا ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہے ۔
غازی یاسرگل(Gazi Yasargil،نمبر.91:بیسویں صدی کے عظیم ترین نیوروسرجنز میں سے ایک،بانی
مائیکرونیوروسرجری
پیدائش:6جولائی 1925ء،دیاربکر(ترکی)
تعلیم:انقرہ یونیورسٹی،باسل یونیورسٹی
1999ء میں کانگریس آف نیوروسرجنز کی سالانہ میٹنگ پر اسے ’’بیسویں صدی کے نیوروسرجری مین‘‘(Neurosurgery man of the century)کا لقب دیا گیا۔
ہاروے کشنگ کے ساتھ یاسرگل کو بیسویں صدی کا عظیم ترین نیوروسرجن قراردیا جاتا ہے۔اس نے نیوروسرجنوں کی ایک نسل کو نیوروسرجری کی ٹریننگ دی اور اس شعبے میں نئے طریقے متعارف کرائے۔اس نے ساری دنیا سے تعلق رکھنے والے تین ہزار نیوروسرجنوں کو ٹرینننگ دی۔
اس کی چھ جلدوں پر مشتمل تصنیف Microneurosurgery (19841501996, Georg Thieme Verlag Stuttgart-New York) نیوروسرجری کے میدان کی ایک اہم تصنیف ہے۔
92:عمر سیف ایک پاکستانی کمپیوٹر سائنسدان ہے جو پسماندہ ممالک کے لیے آئی سی ٹی مسائل حل کرنے کے کام کی وجہ سے مشہور ہے۔گراس روٹ ٹیکنالوجی پر اس کے کام کی وجہ سے اسے 2008ء میں ایم آئی ٹی ٹیکنوویٹر ایوارڈ(MIT Technovator Award)دیا گیا۔2010ء میں اسے ورلڈ اکنامک فورم نے اسے ینگ گلوبل لیڈر کا نام دیا۔کمپیوٹڑ کے شعبے میں وہ موبائل سسٹمز اور نیٹ ورک پروٹوکولز پر بھی کام کر چکا ہے۔
2011ء میں ایم آئی ٹی نے اسے کمپیوٹر کے شعبے میں نئے میدان متعارف کرانے دنیا کے پینتیس نوجوانوں میں سے قرار دیا۔یہ کسی پاکستانی کے لیے پہلا اعزاز تھا۔اس اعزاز کے ساتھ سیف گوگل اور فیس بک کے اعلیٰ افراد کے ساتھ بھی کام کرتا رہا۔۔کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر اس کے کام کی وجہ سے اسے 2008ء میں مارک ویزر ایوارڈ(Mark Weiser Award)دیا گیا۔
جاوید چوہدری جیسے سو کالڈ کالم نگار اور دانشور کس منہ سے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ایجادات اور دریافتیں اسلامی تاریخ کے پہلے تین سو سال تک محدود ہیں جب کہ یہ تفصیل ظاہر کرتی ہے کہ آج بھی وہ مسلم سائنسدان موجود ہیں جن کی ایجادات اور دریافتوں نے سائنس کے کئ نئے میدان کھولے ہیں۔ لیکن حسن نثار اور جاوید چودھری جیسے لوگ اپنی جہالت یا اسلامی تاریخ سے تعصب کی بنیاد پہ یہ الزام لگاتے ہیں ۔ اتنا بڑا جھوٹ، تاریخ کے ساتھ اتنا بڑا ظلم! عوام کس منہ سے ان کالم نگاروں کی باتوں پہ اندھا دھند اعتماد رکھتی ہے۔ ایسے فتنوں سے خبردار رہیے۔

Total Pageviews