July 03, 2019

GUEST FROM ALLAH


#کبھی_کبھی_لیکچر_نہ_دیا_کریں_بلکہ

کچھ دن پہلے میں ایک شاپنگ مال کے باہر کھڑا اپنی بیگم کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک بہت خوش پوش اور شستہ زبان بولنے والے صاحب نے میری گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹایا۔ میں نے شیشہ نیچے کیا اور ان کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ انھوں نے بہت محبت سے مجھ سے ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف کروایا، اور کہا کہ 
محترم ...آئی ایم طیب.. کیا ہم آپ سے بات کر سکتے ہیں؟
میں گاڑی سے اترا اور ان کی جانب متوجہ ہوا اور کہا "جی فرمائیے". طیب خان ہے میرا نام، میں 78 سال کا ہوں۔میری کچھ خواہشیں ہیں۔ کیا آپ پوری کر دیں گے؟ میں نے بھی کچھ ویسا ہی سوچا جو آپ سوچ رہے ہیں کہ ابھی یہ بابا مانگنا شروع ہو جائے گا رونا دھونا شروع ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ خیر میں بھی ان کو لیکچر دینے کے موڈ میں تھا کہ اللہ تعالیٰ سے مانگیں۔ مگر میں نے سوچا کہ یہ جو بھی ہے۔ سچا ہے یا مکار، اسے میرے پاس اللہ پاک نے ہی بھیجا ہے۔ تو کیوں نہ پہلے اس سے اس کی بات سن لوں۔ میں نے کہا جی میں کوشش کروں گا، آپ حکم فرمائیں۔ ان کے چہرے پر ایک حیرت اور خوشی کے ملےجلے اثرات ابھرے۔ انھوں نے کہا، کیا واقعی آپ کوشش کریں گے؟
میں نے انھیں یقین دلایا اور تحمل سے ان کی بات سننے کے لیے ان کی جانب متوجہ ہوا۔ تو وہ بولے بیٹا میں ایک ٹیکسٹائل مل کا مالک تھا۔ پچھلے سیاسی دور میں بھتہ نہ دینے پر مجھے قتل کی دھمکیاں ملیں تو سب کچھ چھوڑ کر بنگلہ دیش چلا گیا اور وہاں گارمنٹس فیکٹری لگا لی۔ کچھ عرصہ تو سسٹم ٹھیک چلا مگر پھر مجھے میرے بنگالی پارٹنر نے دھوکہ دیا اور مجھے نہ صرف وہاں سے بھگا دیا بلکہ میرا سب کچھ کھا گیا۔ پاکستان واپس آیا تو میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا مل بند پڑی تھی اور سرمایہ کاری کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔
 بڑے بیٹے نے مل اپنے نام کروائی اور مجھے گھر سے نکال دیا۔ مل کی جگہ اس نے کالونی بنا دی۔ میں کچھ عرصہ تو اپنی بہن کے ساتھ رہا مگر ان کے شوہر کو اچھا نہیں لگتا تھا اس لیے میں وہاں سے بھی نکل آیا۔ بیٹے سے ملا مگر اس نے ذلیل کرکے نکال دیا۔ پھر میں ایک مسجد میں گیا اور وہاں کے امام صاحب سے مسجد کی خدمت اور بچوں کو پڑھانے کی درخواست کی اور رہنے کے لیے جگہ مانگی تو وہ مان گئے۔ چار سال سے وہیں ہوں۔ 
کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ بن ٹھن کر نکلوں اور کافی پی لوں۔ میں دن میں تین کپ کافی پیتا تھا۔ کافی کا مجھے جنون تھا۔ اب جب بھی کبھی ایک دو ماہ بعد دل کرتا ہے تو اپنی واحد پوشاک یہ کپڑے پہن کر یہاں آتا ہوں اور کسی ایک شخص کو جو مجھے امیر لیکن اللہ والا دکھتا ہے. میں کافی پلانے کی درخواست کرتا ہوں۔ مان جائے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور نہ مانے تو واپس چلا جاتا ہوں۔ تو بیٹا کیا آپ مجھے کافی پلا سکتے ہیں؟
میں زمین سے جیسے چپک کر رہ گیا تھا۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ آنکھیں نم تھیں۔ میں نے ان کا ہاتھ تھاما اور بیگم کو فون کیا کہ وہ میرے فون پر ہی لوٹے کیونکہ میں ایک دوست کے ساتھ کافی پینے جا رہا ہوں۔ پاس ہی گلوریا جینز کے کیفے پر لے جا کر میں نے طیب صاحب کو ان کی پسند کی کافی پلائ اور کیک کھلایا۔ انھوں نے دو تین مگ پیئے۔ ہم نے مزید باتیں نہیں کی اور خاموشی سے کافی پینے کے بعد باہر نکل آئے۔ میں نے ان کو مسجد تک چھوڑنے اور ان کی کچھ مالی امداد کرنے کی اجازت چاہی تو بولے بیٹا اب اور کوئی خواہش باقی نہیں رہی۔ اللہ پاک آپ کو بہت زیادہ عطا فرمائے آمین۔ مجھ سے مصافحہ کیا اور چلے گئے۔ 

میں کھڑا ان کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا اور وہ بغیر پیچھے مڑے بہت شان سے چلتے ہوئے میری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔ کسی کی خواہش کی تکمیل کے لیے سوچا نہ کریں اور لیکچر نہ دیا کریں۔ یہ جو آپ کے در پر دستک دیتے ہیں اللہ کے مہمان ہوتے ہیں۔ ان کی قدر کیا کریں۔ کیونکہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔۔


 مجھے یہ تحریر متاثر کن لگی اسی لئے کاپی کر لی۔  شاید کسی دوست کو استفادہ ہو جائے۔ اور اللہ کے مہمان کی خدمت کا موقع مل جائے۔

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews