July 19, 2019

"پنجابی سامراج" Punjabi & Other Nations in Pakistan


"پنجابی سامراج"
:::::::::::::::::::
یہ نومبر 1994ء کی بات ہے جب میں نہایت مخدوش حالات والے کراچی سے نہایت پرسکون بود و باش والے اسلام آباد منتقل ہوا. تب میں 25 برس کا پختون نوجوان تھا اور میں یہ سنتے سنتے جوان ہوا تھا کہ اس ملک میں "حقوق" نام کا کوئی لولی پاپ پایا جاتا ہے جسے پنجابی اکیلے اکیلے چوس چاٹ رہے ہیں. کراچی کی تین بڑی اکائیاں مہاجر، پختون اور سندھی تھے. اور پنجابیوں پر حقوق غصب کرنے کا الزام لگاتی سب سے اونچی آوازیں الطاف حسین، خان عبدالولی خان اور جی ایم سید کی تھیں. جب آپ کسی شہر میں ڈھائی برس کے بچپن سے 25 برس کی جوانی تک اس طرح کی باتیں سنتے آئے ہوں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کے شعور اور لاشعور دونوں پر اس کا گہرا اثر نہ ہو

اگرچہ میں ڈرل مشینوں کی مدد سے انسان اور حرمت انسانی دونوں میں چھید کرنے والے کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تھا مگر یہ اندیشہ ساتھ لایا تھا کہ جس پنجابی نے ہمارے حقوق غصب کر رکھے ہیں وہ مجھے وفاقی دارالحکومت میں قدم کیوں جمانے دے گا ؟ تب میرا کل صحافتی تجربہ فقط پانچ برس کا تھا. میرے مرحوم دوست اللہ وسایا قاسم نے حامد میر سے میرے لئے کالم کی بات کی جو انہی دنوں روزنامہ پاکستان اسلام آباد کے نئے نئے ایڈیٹر تعینات ہوئے تھے. حامد میر نے ایک ماہ تک چھ تحریریں لکھ کر بھیجنے کا کہا تاکہ ان کی بنیاد پر پرکھا جاسکے کہ مجھے کالم لکھنا بھی آتا ہے کہ نہیں ؟ میں نے پہلی تحریر بھیجی تو انہوں نے اللہ وسایا قاسم مرحوم سے کہا "وہ لکھ لیتا ہے، اسے کہو کالم کا ٹائٹل سوچ کر بتائے" یوں گویا ایک پنجابی نے مجھے دوسرے پنجابی سے متعارف کرایا اور اس دوسرے پنجابی نے مجھے اپنے اخبار کے ادارتی صفحے پر جگہ عنایت کردی. مجھے یاد ہے تب میں نے جی ہی جی میں خود سے کہا تھا "اچھا ! تو پنجابیوں میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں" اگلے دوچار سال اس طرح گزرے کہ میں اسلام آباد میں کسی بھی لمحے کسی بھی جانب سے "پنجابی پنے" کا شکار ہونے کو ذہنی طور پر تیار بیٹھا تھا. مگر کچھ بھی نہ ہوا. پنجابی سامراج کہیں سے نمودار نہ ہوا۔ میں حامد میر کے ساتھ دو اخباروں میں مجموعی طور پر سات سال رہا. اس سفر کا اختتام ناخوشگوار طور پر ہوا لیکن اس سے پنجابیت کا کوئی لینا دینا نہ تھا
.
اس عرصے میں جو سب سے حیران کن چیز نوٹ کی وہ یہ تھی کہ میرا پختون ہونا ہر پنجابی کے لئے ایک بے معنی چیز تھی. کسی سرکاری افسر یا اہلکار نے کبھی مجھ سے یہ سوال ہی نہ کیا کہ تمہاری قوم یا قبیلہ کیا ہے ؟ یہ چیز حیران کن اس لحاظ سے تھی کہ پنجابی تو بقول الطاف حسین، ولی خان و جی ایم سید سامراج تھا. ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ سامراج قدم قدم پر میری نسل اور ڈی این اے چیک کرتا لیکن عملی طور پر بھگتا یہ کہ کراچی میں مظلوم سندھی ہی نہیں بلکہ مظلوم مہاجر افسر بھی سلام دعاء کے بعد پہلا کام ہی یہ کرتے کہ میری قومیت کی پڑتال کرتے. میرے محلے کی سیوریج لائن کھولنے یا نہ کھولنے کا دارومدار بھی اس بات پر تھا کہ میری قومیت متعلقہ افسر کی قومیت سے میچ کرتی ہے یا نہیں ؟. اس ذلالت سے میری جان تب چھوٹی جب میں پنجاب میں جا بسا. تعصب پر مبنی جو گمراہ کن سوچ مجھے کراچی میں بچپن سے جوانی تک کے 23 سالوں میں ملی تھی اسے مکمل طور پر صاف ہونے میں دس برس لگے. یوں پنڈی، اسلام آباد کے ان ابتدائی دس برسوں میں جن پنجابیوں کو تعلق کے معاملے میں "شناسائی" والی کٹیگری تک محدود رکھا تھا انہیں باقاعدہ "رفیق" کا درجہ دے ڈالا اور اگلے پندرہ برسوں میں بہت سے مزید شاندار پنجابی دوست بنائے جو میرے لئے کسی بہت ہی بیش قیمت سرمائے سے کم نہیں. ایسا نہیں ہے کہ میری کبھی کسی پنجابی سے تلخی نہیں ہوئی. اور ایسا بھی نہیں کہ کبھی کسی پنجابی نے مجھے کوئی تکلیف نہیں دی. تلخیاں بھی بہت ہویں اور نقصان بھی بھگتے مگر کوئی ایک واقعہ بھی میرے ساتھ میرے پختون ہونے کے سبب نہیں ہوا. میرے بچوں نے نرسری سے لے کر یونیورسٹی لیول کی تعلیم یہاں سے حاصل کی اور حرام ہے جو انہیں کسی لسانی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا ہو.
لگ بھگ 25 برس راولپنڈی، اسلام آباد قیام کے بعد ہمیں ایک بار پھر کراچی لوٹنا پڑا. مگر ایک واضح فرق کے ساتھ. میں نے 1994ء میں کراچی اس کے بدترین پرتشدد لسانی تعصبات کے سبب چھوڑا تھا جبکہ مجھے 2019 میں پنجاب سے کراچی کسی تعصب کے سبب نہیں بلکہ فیملی وجوہات کے تحت منتقل ہونا پڑا. میرے لئے ممکن ہی نہیں کہ میں اس دکھ کا کما حقہ اظہار کرسکوں جو اس گزرے جون کے دوران کراچی کے گلشن معمار میں لاحق ہوا. کراچی کے مضافات میں واقع یہ وسیع ہاؤسنگ سکیم اسلام آباد کی طرح ماسٹر پلان پر بنی ہے. اس کی کشادہ سڑکیں اور کھلی گلیاں اسلام آباد جیسی ہی ہیں. اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہریالی ہے. میں نے یہاں کرائے کا مکان حاصل کرنے کے لئے تین پراپرٹی ڈیلرز سے رابطہ کیا تو پہلے ہی روز تینوں نے مجھ سے میری قومیت پوچھی. میں نے اس سوال کا سبب پوچھا تو بتایا گیا کہ یہاں اکثر مالک مکان پختونوں اور سندھیوں کو مکان کرائے پر نہیں دیتے، لہذا آپ کو صرف وہ خالی مکان دکھائے جائیں گے جن کے مالکان کو پختون یا سندھی کرائے دار پر اعتراض نہیں. اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ تھا کہ میں جس تعصب بھرے کراچی سے پچیس برس قبل نکلا تھا، لوٹ کر عین اسی تعصبات کے شکار کراچی میں آنا ہے. یہاں زمین پر نہ سہی مگر دلوں میں اب بھی نوگو ایریاز قائم ہیں۔
اس ملک کے اصل دشمن فرقہ پرست ملا اور نسل پرست لیڈر ہیں. فرقہ پرست ملا کے خلاف تو ان دنوں ریاستی ادارے سرگرم ہیں. ہیٹ سپیچ اور منافرت پر مبنی لٹریچر کا پھیلاؤ جرم قرار دیا جا چکا. لیکن نسلی تعصبات پھیلانے والوں کو فی الحال کھلی آزادی حاصل ہے. نسلی منافرت کی بنیاد پر کرائے کا مکان نہ دینا ابھی قابل دست اندازی پولیس جرم نہیں. مذہبی فرقہ پرست جماعتیں دیر سے سہی مگر کالعدم ہوگئیں لیکن نسلی و لسانی تعصبات کی بنیاد پر بننے والی تنظیموں کو ابھی کھلی آزادی ہے. باچا خان کی جگہ پختونوں کی اگلی نسل تباہ کرنے کے لئے منظور پشتیں آستین چڑھا چکا، مہاجروں اور سندھیوں کو بھی جلد اپنے حصے کے نئے بدبخت میسر آجائیں گے. کیونکہ ان تینوں نے ابھی پنجابی سامراج کی طرح اپنے دروازے سب کے لئے کھلے رکھنا نہیں سیکھا. میں نہیں جانتا کہ آنے والے دن میرے لئے اپنے دامن میں کیا رکھتے ہیں. مگر میں ایک بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ مجھے اب قدم قدم پر پنجابی سامراج کی یادیں ستائیں گی. سندھ کی سرزمین پر جب جب مجھ سے میری قومیت پوچھی جائے گی، مجھے پنجابیوں کی وہ کھلی باہیں اور روشن آنکھیں بہت یاد آئیں گی جو جی آیا نوں کا استعارہ ہیں !
(تحریر: رعایت اللہ فاروقی)

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews