July 15, 2019

PAKISTAN BUDGET 2019-20 INCOME & EXPENCES COMPLETE INFORMATION





یہ ہے اس سال2019- کا بجٹ۔
نمبر1۔ بنیادی اخراجات بشمول سرکاری ملازمین کی پنشن، بجلی گیس کی سبسڈی، سول ملازمین کی تنخواہیں، دفاع اور گرانٹس ملا کر اخراجات بنتے ہیں 3186 ارب۔ ان میں آپ چاہیں بھی تو کوئی کمی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ کم سے کم بنیادی اخراجات کی حد ہے۔
نمبر2۔۔ سابقہ حکومتوں کے لئے گئے قرضے اور سود کی مد میں اس سال 3987 ارب روپے جائیں گے۔ ان میں کمی ناممکن ہے کیونکہ یہ ادائیگیاں معاہدوں کے ساتھ منسلک ہیں۔
نمبر3۔۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ اخراجات جن میں نیشنل انفراسٹرکچر، ڈیمز، ہائی ویز کی مرمت وغیرہ شامل ہے، اس کی مد میں 864 ارب ہیں۔ یہ کم سے کم اخراجات کی حد ہے ورنہ آپ جانتے ہیں کہ صرف دیامیرڈیم کیلئے ڈیڑھ ہزار ارب چاہیئے۔
نمبر4۔۔ اضافی اخراجات جن میں بینظیر انکم سپورٹ فنڈ، یوریا امپورٹ جیسے لازمی اخراجات ہیں، ان کیلئے 86 ارب درکار ہوں گے۔
نمبر5۔۔ ہنگامی حالات کیلئے 115 ارب مختص کئے گئے جو کہ سیلاب، زلزلہ اور ایسی ہی دوسری ہنگامی صورتحال میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے سیلاب کا خرچہ پانچ سو ارب سے تجاوز کرگیا تھا، اس لئے 115 ارب بھی کم سے کم لاگت ہے جو اس بجٹ میں رکھی گئی۔
یہ ہے آپ کا اخراجات کا ٹوَٹل بجٹ، جو کہ بنتا ہے صرف 8 ہزار 2 سو 38 ارب روپے۔
اب آجائیں آمدن کی طرف۔
ہر طرح کے ٹیکسوں کی مجموعی آمدن سے 4 ہزار 4 سو 52 ارب ملیں گے۔
فیڈرل اور ایکسائز ڈیوٹیوں سے 1 ہزار 3 سو 70 ارب حاصل ہوں گے۔
سول ایڈمنسٹریشن کا ریونیو، سروسز فیس وغیرہ کی مد میں 895 ارب حاصل ہوں گے۔
ان سب کو ملا کر بنتا ہے 6717 ارب روپے۔
18 ویں ترمیم اور این ایف سی کمیشن کے مطابق صوبوں کو اس ریونیو سے 3255 ارب چلے جائیں گے۔
پیچھے بچے 3462 ارب۔
اخراجات 8238 اور آمدن 3462۔ جس کا فرق 4 ہزار 7 سو 76 ارب روپے ہے۔
چنانچہ اس سال حکومت کو مزید 3032 ارب کا قرضہ لینا ہوگا۔ جس کے بعد اخراجات کا فرق پھر بھی 1744 رہے گا۔
حکومت اس فرق کو کہاں سے پورا کرے؟ 
خرچے روکتی ہے تو سول ملازمین اور عوام سڑکوں پر آئیں گے، 
خرچے پورے کرنے کیلئے ٹیکس کی وصولی کی کوشش کرتی ہے تو تاجر سڑکوں پر نکل آتے ہیں،
مزید قرضہ لینے کی کوشش کرتی ہے تو اپوزیشن اور میڈیا والے شور مچانا شروع ہوجائیں گے ( سابقہ ادوار میں یہ سب خاموش رہے)۔
یاد رہے، موجودہ بجٹ میں جو ٹیکس کی وصولی کا ٹارگٹ یعنی 4452 ارب ہے، یہ اس وقت حاصل ہوگا جب تاجر ٹیکس ادا کرتے ہیں، اگر ان کے مطالبات مان لئے جائیں تو ٹیکسوں کی آمدن گھٹ کر 2500 ارب رہ جاتی ہے، جس سے اخراجات کا فرق 3700 ارب سے بھی اوپر چلا جائے گا۔
پٹواری، جمعوتی، جیالے اور فضلانڈو ہمیں بتائیں کہ اس اخراجات کے فرق کو کیسے پورا کیا جائے؟
ایک طریقہ بڑا آسان ہے کہ ن لیگ کی طرح سالانہ 15 ارب ڈالرز کے حساب سے غیرملکی قرضہ لیتے جائیں اور ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرتے جائیں۔ 
بزنس مین اور تاجر طبقے سے ٹیکس وصول کے علاوہ ، کوئی اور حل ہے تو بتائیں،
ورنہ اپنی بکواس بند رکھیں!!! بقلم خود باباکوڈا

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews