September 28, 2021

DOCTOR ڈاکٹر ایک مسیحا

 “ایک ڈاکٹر”

بچہ چند ماہ کا تھا کہ اسے قے کا عارضہ لاحق ہوگیا. میں اسےشہر کے سب سے بڑے چائلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹر سمیر شیخ کے پاس لے گیا. ڈاکٹر صاحب نے معائنے کے بعد فرمایا
"اسے الٹا سلایا کیجئے، ٹھیک ہوجائے گا"
یہ کہہ کر وہ مجھے یوں دیکھنے لگے جیسے ان کی ذمہ داری پوری ہوگئی. میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا
"دوائی ؟"
انہوں نے خالی پرچہ میری جانب بڑھاتے ہوئے فرمایا
"کوئی دوائی نہیں، بچوں کو دوا صرف اشد ضرورت کے تحت دی جاتی ہے"
میں اور اہلیہ خالی پرچہ لئے گھر آگئے اور بچے کی قے کی شکایت الٹا سونے سے ٹھیک ہوگئی. کچھ عرصے بعد اس کے دانت نکلنے کے دن آئے تو میں ایک بار پھر اسے لے کر ڈاکٹر سمیر کی خدمت میں حاضر ہوا اور دانشوری بھگارتے ہوئے کہا
"ڈاکٹر صاحب ! یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ بچوں کے جب دانت نکلتے ہیں تو اس کے سبب ان کا پیٹ خراب ہوجاتا ہے، جس سے یہ کمزور ہوجاتے ہیں. میں چاہتا ہوں کہ آپ بچے کے لئے کوئی ایسی دوا لکھ دیجئے کہ اس کا پیٹ خراب نہ ہو اور یہ ہٹا کٹا رہے"
ڈاکٹر سمیر عینک کے اوپر سے گھورتے ہوئے میری دانشوری پر حملہ آور ہوئے
"نہیں ! میں بالکل نہیں جانتا کہ دانت نکلنے سے بچوں کا پیٹ خراب ہوتا ہے، یہ راز کب دریافت ہوا ؟"
تپ تو مجھے بہت چڑھی مگر ضبط سے کام لیتے ہوئے ان کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے گزارش کی
"میرے دونوں بڑے بچوں کے ساتھ ایسا ہوچکا ہے، اور یہ تو عام معروف بات ہے، حیرت ہے آپ نہیں جانتے !"
ڈاکٹر صاحب بولے
"یہ انپڑھ گھرانوں کا تصور ہے کہ دانت نکلنے سے پیٹ خراب ہوتا ہے. حقیقت یہ ہے کہ جب بچے کے دانت نکلتے ہیں تو اس کے مسوھڑوں میں کھجلی ہوتی ہے جس کے سبب وہ بار بار ہاتھ منہ میں ڈالنے لگتا ہے. چونکہ ہاتھوں پر جراثیم ہوتے ہیں سو یہ بچے کے پیٹ میں جاکر خرابی پیدا کر دیتے ہیں. حل اس کا یہ ہے کہ بچے کے دانت نکلنے کے ایام میں مناسب وقفے کے ساتھ دن میں چار بار اس کے ہاتھ صابن سے دھوئے جائیں"
یہ کہہ کر وہ پچھلی بار کی ہی طرح یوں ہاتھ ٹیبل پر رکھ کر بیٹھ گئے جیسے انہیں مزید کچھ نہیں کرنا. عرض کیا
"دوائی کوئی نہیں ؟"
فرمایا
"کوئی نہیں"
کچھ مدت بعد بچے کا گلا اور سینہ خراب ہوگیا، میں اس بار بھی اسے ڈاکٹر سمیر کے پاس لے گیا مگر اس بار "انپڑھ گھرانوں" والی ڈوز سے بچنے کی خاطر دانشوری جھاڑنے سے مکمل گریز کرتے ہوئے بس اتنا کہا
"اس کا گلا اور سینہ خراب ہے"
"کیوں خراب ہے ؟"
"مجھے کیا پتا، میں تو انپڑھ گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں"
یہ میں نے جی ہی جی میں کہا، چونچ بند ہی رکھی. وہ معائنہ فرما کر بولے
"سری لیک بند کردیجئے، ٹھیک ہوجائے گا، سری لیک ہر بچے کو راس نہیں آتی"
"سری لیک کی جگہ کیا دیں ؟"
"دہی جو کھٹی ہرگز نہ ہو، ابلا ہوا آلو، یخنی، سبز چائے، شہد اور کھچڑی دیجئے"
"دوائی ؟"
"بچوں کو دوا صرف اشد ضرورت کے وقت دیتے ہیں اور وہ بھی ایک آدھ. وقاص کو کوئی اشد ضرورت نہیں"
میں بچے کو دس بارہ برس کی عمر تک بوقت ضرورت ڈاکٹر سمیر کو ہی دکھاتا رہا اور اس پورے عرصے میں ایک دو بار ہی انہوں نے ایک آدھ دوا لکھ کر دی. وہ سختی سے اس بات کے قائل تھے کہ بچے کو دوا نہیں دینی چاہئے. آج بھی ان کے لئے دل سے دعاء نکلتی ہے کیونکہ وہ ایسے دور میں بچوں کو ادویات سے بچانے کے قائل تھے جس دور میں کمیشن خور ڈاکٹرز پانچ سے دس دوائیں لکھ کر مریض کو کرتے تو مزید بیمار ہیں لیکن نسخے والے پیڈ کی لوح پر "ھوالشافی" پرنٹ کرا کر ثواب دارین کی امید بھی رکھتے ہیں.
کیا آپ بھی ڈاکٹر سمیر جیسے کسی ڈاکٹر کو جانتے ہیں؟؟؟؟

 

There is nothing wrong with the world، دُنیا میں کوئی بھی چیز نکمی نہیں ہے۔

  ایک آدمی کا بڑا بیٹا بہت لا ئق اور ہونہار طالب علم تھا لیکن چھوٹا بیٹا اتنا ہی نا لائق تھا۔ جب رزلٹ کا دن آیا تو باپ چھوٹے بیٹے کے پاس گیا اور بولا کہ آپ ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئے آپ کو پتہ نہیں ہے کہ ہم نے آج آپ کا رزلٹ لینے کے لیے آپ کے سکول جانا ہے۔

لڑکا بولا کہ ابو پلیز آپ مت جائیں میں اکیلے چلا جاتا ہوں۔میں کوئی احسن کی طرح لائق فائق تھوڑی ہوں کہ آپ فخر سے میرے ساتھ سکول جا سکیں ۔ آپ کی بھی بے عزتی ہوگی۔باپ مسکرا کر بولا کہ بیٹا مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا رزلٹ برا ہوتا ہے، میں آپ کا باپ ہوں اور ہر حالات میں ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑا رہوں گا اور آپ مایوس کیوں ہوتے ہو آپ کا اور احسن کا بھلا کیا مقابلہ اور سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں کسی بھی دو انسانوں کا آپس میں کبھی کسی قسم کا مقابلہ نہیں بنتا۔جب اللہ نے اس دنیا میں گھاس کا بیج بویا تھا تو وہ اگلے گھنٹے پوری دنیا میں ہری بھری نظر آنے لگی تھی لیکن کیا اللہ نے بانس کا بیج بے وجہ بنایا تھا؟ جب گھاس کا بیج لگایا تو اگلے گھنٹے پوری دنیا ہری بھری نظر آنے لگی اور جب بانس کا لگایا تو پہلے ایک سال کچھ نظر نہیں آیا، پھر دوسرا سال اسی طرح گزر گیا اور کوئی بیل بوٹا نہیں اگا۔ لیکن کیا.اللہ نے بانس کو بے مقصد بنایا تھا یا اس کے بیج بنانا بند کر دیے تھے۔ جب دو سال بعد بانس کا پودہ اگا تو بالکل چھوٹا سا تھا، کمزور۔ لیکن جب بانس کا پودہ بڑا ہوتا ہے تو کتنا خوبصورت لگتا ہے۔ اتنا لمبا اونچا اور مضبوط، پھر اس کے آگے گھاس کی پتیاں کیسی لگتی ہیں۔

تو کسی کا کسی کے ساتھ موازنہ بے مقصد کی باتیں ہیں اور وقت کا ضیاع ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کو بہت کم عمری میں ایک بہت قیمتی سبق سکھا دیا تھا کہ دنیا کے کارخانے میں کوئی بھی شے بے مقصد نہیں ہوتی اور کسی کا دوسرے انسان سے کوئی مقابلہ نہیں۔ سب الگ ہیں اور ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں ایسے میں ہر ایک اس دنیا میں ایک انمول رنگ بھرتا ہے اور جو لوگ اپنے بچوں میں اس طرح کے مقابلے بوتے ہیں،اس کا کڑوا پھل ان کی ذہنی بیماریوں کی صورت ساری عمر برداشت بھی کرتے رہتے ہیں۔ اللہ سب کو عقل دے۔سٹیو جابز کو کون نہیں جانتا؟ ایپل کا فاؤنڈر ۔ ایپل وہ کمپنی جس کے آئی فون ہاتھ میں لے کر ہم اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں ۔ دنیا کا سب سے زیادہ بکنے والا فون آئی فون ہی ہے۔ سٹیوو جابز نے ایپل کی بنیاد ۱۹۷۶ میں رکھی تھی۔ ایپل دنیا بھر میں بہت مشہور اور معروف تھی اور اس کے فون اور لیپ ٹاپ ہر آرٹسٹ کی پہلی ترجیح ہوا کرتے تھے۔ ایسے میں سٹیوو سے ایک غلطی ہو گئی اور اس نے ایک ایسا پراڈکٹ بنایا جو مارکٹ میں بالکل نہ چل پایا۔ یہ۱۹۸۵ کی بات ہے، اس کی اپنی کمپنی نے اسے ٹیم سے خارج کر دیا۔ پوری دنیا اس بات سے واقف تھی، بجائے اس کے کہ سٹیوو جابز بیٹھ کر اپنے اوپر ترس کھاتا یا اپنی قسمت اور رسوائی کے رونے روتا اس نے ایک نئی کمپنی کی بنیاد ڈال دی۔

اس نے اپنی نئی کمپنی ’نیکسٹ‘ کا آغاز کیا اور اس پر بے انتہا محنت کی۔ اس نے مڑ کر کبھی ایپل کی طرف نہیں دیکھا اور اس کی محنت رنگ لائی، ایپل جب 1997 میں ناکامیوں پر ناکامیوں کا سامنا کر رہی تھی تو انہوں نے سٹیوو جابز کی نئی کمپنی نیکسٹ کو کال کیا اور اس کے ساتھ مرجر کر لیا۔ سٹیوو جابز کو اس کی پرانی جاب واپس دے دی اور اس کے بعد سٹیوو نے آئی فون،آئی پیڈ اور آئی پاڈ جیسے پراڈکٹ بنائے اور مارکٹ میں لانچ کیے۔ آج بچے بچے کے ہاتھ میں آئی پیڈ ہوتا ہے اور ہر آدمی آئی فون لے کر پھرنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔یہ سب سٹیوو جابز کی انتھک محنت اور مستقل مزاجی کے باعث ممکن ہوا ہے۔ سٹیوو کے مزاج کے بارے میں بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنی کمپنی کی بات کو دل پر نہیں لیا تھا اور اس نے اپنے فیل پراڈکٹ کی پوری پوری ذمہ داری قبول کر کے اپنی غلطی کا اعتراف کیا تھا۔ جب اس کی کمپنی نے اس کو دوبارہ جاب آفر کی تو اس نے ناک منہ چڑھاکر ان کو کو انکار نہیں کیا بلکہ یہ سوچا کہ اس کا ذاتی فائدہ اور پوری کمپنی کا فائدہ کس چیز میں ہے۔ انسان جب صرف اپنے بارے میں نہیں بلکہ پوری ٹیم کا سوچ کر چلتا ہے تو کامیابی اس کے قدم ضرور چومتی ہے۔ کوشش کریں کہ سب کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلیں

 

September 20, 2021

LOVE MARRIAGE, COLLEGE LOVE JUST TIME PASS

کالج میں ایک لڑکے نے مجھ سے اظہار محبت کیا. اسے میں نے بہت سمجھایا لیکن اُسے ذرا اثر نہیں ہوا. وہ کٹر ٹھرکی تھا یا پھر اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ کوشش جاری رکھو، ایک نہ ایک دن مان ہی جائے گی. میں اُس کی باتیں سن کر ہنستی تھی، وہ دل میں خوش ہوتا تھا کہ ہنسی تو پھنسی،

پر اُسے یہ کہاں معلوم تھا میری ہنسی کا مطلب ہے کہ ہنسوں تو کبھی نہ پھنسوں. آج پھر وہ چلا آیا تھا. اچھا تو تمھارا یہ دعوی ہے کہ تم محبت کرتے ہو مجھ سے، کیا ہوتی ہے محبت؟ کچھ معلوم ہے اس کے بارے میں. جس سے محبت ہو اس کے حقوق کا علم ہے تمھیں. یہ فرائض سرانجام دینے کے قابل ہو تم. اُس کے چہرے پے حیرانیوں کے سائے لہرانے لگے. اُسے ان گہری باتوں کا علم ہی کہاں تھا. وہ تو بس فلموں، ڈراموں کی آغوش میں جوان ہو کر ہزاروں نوجوانوں کی طرح اپنی فطری ضروریات کے ہاتھوں مجبور ہو کر محبت کا نام اپنی روح میں سمو چکا تھا. سچ میں جب سے تمھیں دیکھا ہے، میرا چین و سکون لٹ گیا ہے. ہر جگہ تم ہی دکھائی دیتی ہو ،میں سچی محبت کرتا ہوں، پلیز مان جاؤ نا. کیا مان جاؤں؟

میں نے بے نیازی سے پوچھا. تم بھی محبت کر لو مجھ سے، بہت خوش رکھوں گا تمھیں، ہر بات مانوں گا. اچھا میری ہر بات مانو گے. ہاں! ہر بات مانوں گا، تم نہیں جانتی تمھاری یہ عام سی آنکھیں میرے لیے کتنی خاص ہیں. لوگوں کو تو محبوبہ کی آنکھیں جھیل جیسی گہری لگتی ہیں، تم انھیں عام کہہ رہے ہو. آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ بناوٹی باتیں آپ کو پسند نہیں، یہ سب جھوٹی تعریفیں ہوتی ہیں، اس لیے سچ بتا رہا ہوں کہ چاہے یہ آنکھیں عام سی ہیں پر میرے لیے تو خاص ہیں. خاص کیوں ہیں؟ وجہ بتاؤ. کیونکہ ان سے ذہانت ٹپکتی ہے، جب آپ کے لب پھول برساتے ہیں تب یہ بھی پورا ساتھ دیتی ہیں، ایسا لگتا جیسے یہ بھی بول رہی ہوں.. اوہ! تو محبت کی پہلی سیڑھی چڑھ ہی گئے ہو تم. اچھا بتاؤ، میری ہر بات مانو گے؟ ہاں ہر بات.. تو پھر میری محبت اپنے دل سے نکال دو،

اگر تم سچی محبت کرتے ہو مجھ سے تو میری یہ بات بھی مانو گے. اُس کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا تھا جسے اندر ہی اندر جذب کرنے کی وہ ناکام کوشش کر رہا تھا. ٹھیک ہے آئندہ آپ نہیں دیکھو گی مجھے.. یہ کہہ کر وہ خاموشی سے چلا گیا. اس لیےکہ وہ مجھے یقین دلانا چاہتا تھا کہ واقعی مجھ سے سچی محبت کرتا ہے. میرے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی. میں نے دل میں سوچا کہ تم مجھے بیوقوف نہیں بنا سکتے. کافی دن گزر گئے، اُس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی، کوئی کال نہ میسیج. پھر ایک دن وہ خود ہی میرے پاس چلا آیا. میں نے تمہاری محبت اپنے دل سے نکال دی ہے. اب تم میرے لیے ایک عام عورت ہو. لفظ عورت سن کر میں کھلکھلا کر ہنس پڑی.. پتہ میری محبت کیوں نکلی ہے تمہارے دل سے؟ کیونکہ یہ محبت کبھی تھی ہی نہیں،

محبت کبھی دل سے نہیں نکلتی بشرطیکہ سچی ہو. محبوب کے ساتھ حقیقی پل تو دور کی بات، کبھی خیالوں میں بھی اس کا ہاتھ تک پکڑنا نصیب نہ ہو، اور نہ ہی وہ شدتوں کو جانتا ہو، پھر بھی دل سے محبت نہیں نکلتی. وہ شرمندہ سا ہوا. تمھیں کیا پتہ میں کتنا رویا ہوں؟ کتنی راتیں جاگ کر گزاری ہیں؟ کتنا سوچا ہے؟ پھر میں نے خود کو سمجھایا کہ میں تمہاری بات مانوں گا، فریادی بن کر اب نہیں آؤں گا، اس لیے کہہ رہا ہوں محبت ختم ہو گئی. شادی تو ویسے بھی تمہارے ساتھ نہیں ہو سکتی. کیوں مجھے خارش ہے؟ میری رگ مزاح پھڑک اٹھی. پھر ہنستے ہوئے اس نے بتایا کہ ہمارے خاندان والے برادری سے باہر شادی نہیں کرتے. تو کیا تمھارے خاندان والے برادری سے باہر محبت کر لیتے ہیں؟ وہ چپ رہا، کیا جواب دیتا. خیر میں تم سے دوستی کرنا چاہتا ہوں، تم بہت اچھی لڑکی ہو، اگر تم میری محبت میں گرفتار ہو جاتیں تو میری نظروں میں اپنی اہمیت کھو دیتیں،

اور ہم لڑکے واقعی ایسی لڑکیوں سے محبت تو خوب کرتے ہیں پر شادی نہیں. اب کے حیران ہونے کی باری میری تھی. میری پلاننگ کامیاب ہوئی تھی. وہ سچ مان رہا تھا. پر میں اس کی دوسری چال بھی سمجھ گئی. مرد کو بسس سیٹیسفیکشن چاہیے ہوتی ہے، چاہے ذہنی ہو یا جسمانی، جب اُسے یقین ہو گیا کہ میں واقعی ہاتھ آنے والی نہیں تو اُس نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا. وہ میرے ساتھ باتوں سے ذہنی تسکین چاہتا تھا، وقت اچھا گزارنا چاہتا تھا. اچھا دوستی کر کے کیا کریں گے؟ اچھے دوست کیسے ہوتے ہیں؟ میں نے اس سے پوچھا. ہم اپنی ہر بات ایک دوسرے سے شیئر کیا کریں گے، میں آپ کو گفٹ دیا کروں گا، اکھٹے شاپنگ پر جائیں گے، خوب گھومیں پھریں گے، کھابے اڑائیں گے، دکھ سکھ کے ساتھی، بالکل اچھے دوست بنیں گے ہمیشہ ساتھ رہنے والے. محبت کی جگہ اب دوستی کا لفظ آ گیا تھا مگر ترجیحات اور مقاصد و معاملات وہی تھے. ایک لڑکا لڑکی کبھی دوست نہیں ہو سکتے،

ہاں کلاس فیلو ہو سکتے ہیں، جب سٹڈی ختم ہوئی رابطہ ختم. لیکن دوستی تو وہ ہوتی جو مستقل رہے. محبت تم نہیں کرتی، دوستی پر تمھیں اعتراض ہے. اچھا منہ بولی بہن بن جاؤ. میں اتنی اچھی لڑکی کھونا نہیں چاہتا. میں بھی اتنی اچھی لڑکی گنوانا نہیں چاہتی. میں نے دل میں سوچا. یہ اس کا آخری حربہ تھا محبت اور دوستی میں دال نہ گلی تو منہ بولی بہن.. اچھا بھائی بہن بن کر کیا ہوگا؟ میں نے پوچھا دونوں ساتھ وقت گزارا کریں گے، اپنی ہر بات بتایا کریں گے، صبح صبح اکٹھے سیر کو جایا کریں گے، جاگنگ کریں گے، ٹینیس کھیلیں گے، بہت خوش رہیں گے دونوں. یہ زندگی بورننگ نہیں لگتی تمھیں جو گزار رہی ہو، تھوڑا سا بدلو تم خود کو. دیکھنا کتنی خوشیاں ملتی ہیں، سچی بھائی بہن والا رشتہ ہوگا، کوئی نقصان نہیں اور اس دوران تم بہن لفظ کا سہارا لے کر مجھ سے اپنی ذہنی تسکین حاصل کرتے رہو،

نظروں سے ہی میرے چہرے کو چھوتے رہو، ٹینس کھیلتے ہوئے میرے بدن کے اتار چڑھاؤ کو للچائی نگاہوں سے دیکھتے رہو، تمھارا وقت رنگین ہو جائے گا. میں خاموش نظروں سے کہہ رہی تھی، وہ کن اکھیوں سے دیکھتا ہوا جواب کا منتظر تھا سوری میری خوشیاں، کھابے، سیر، جاگنگ، زندگی کے رنگ، ٹویسٹ، قہقہے، دکھ سکھ کسی غیر مرد کے محتاج نہیں. میں اپنے پاپا کے ساتھ سیر کو جاتی ہوں. باپ کی شفقت بھری گفتگو بہت لطف دیتی ہے. میری ماں میری سب سے اچھی دوست ہے، میرے دکھ سکھ کی ساتھی ہے. میری سکھیاں کھابے اُڑانے میں لاجواب ہیں، اُن کے ساتھ میرا وقت بہت اچھا گزرتا ہے. میرے ٹیچرز میرے رہنما ہیں. اپنے بھائی کے ساتھ میں گھنٹوں باتیں کرتی ہوں، معصوم شرارتیں دو منٹ میں ناراض دو منٹ میں راضی،

ایک دوسرے کے بنا ذرا وقت نہیں گزرتا، اس کے پیچھے بائیک پر بیٹھے ہوئے میں آزاد فیل کرتی ہوں، اس کے ساتھ شاپنگ کا جواب نہیں. میں بہت خوش ہوں. ایک نیا رشتہ بنا کر میں ان سب رشتوں کی مٹھاس نہیں کھونا چاہتی.. پتہ نہیں لڑکیوں کی حسین زندگی غیر مردوں سے ہی کیوں جڑی ہوتی ہے؟ خوبصورت خوابوں کے چکر میں عمر بھر کے لیے آنکھیں زخمی کروا لیتی ہیں. اتنا کہہ کر میں چلی آئی. اس کا ری ایکشن کیسا تھا؟ میں نے دیکھا نہیں، لیکن اسے ایک سبق ضرور مل گیا تھا. میں نے گھر آ کر سجدہ شکر ادا کیا اور آنکھ اشکبار ہو گئی. میرے اللہ تو مجھےایسے ہی ثابت قدم رکھنا، اس عہد کی پیداوار ہو کر بھی میرے قدم ذرا نہ ڈگمگائیں

 

Total Pageviews