May 28, 2023

Parents & Children relationship how to remove gaps

 Resourcefulness: How Parents Help Children Achieve Goals

 

Building and strengthening the relationship between parents and children is important for a healthy and supportive family dynamic. Here are some suggestions to help remove gaps and foster a stronger bond:

  1. Communication: Establish open and honest communication channels between parents and children. Encourage active listening, empathy, and respect for each other's perspectives. Regularly engage in meaningful conversations to understand each other's thoughts, feelings, and concerns.

  2. Quality time: Make an effort to spend quality time together as a family. Plan activities that everyone can enjoy and participate in. This can include family outings, game nights, cooking or baking together, or engaging in shared hobbies or interests.

  3. Mutual respect: Cultivate an atmosphere of mutual respect within the family. Treat each other with kindness, patience, and understanding. Encourage children to express their opinions and thoughts without fear of judgment. Likewise, parents should also respect their children's viewpoints and encourage their individuality.

  4. Set boundaries and rules: Establish clear boundaries and rules that are reasonable and age-appropriate. Involve children in the process of setting rules to foster a sense of ownership and responsibility. Consistency in enforcing these rules is important to provide structure and a sense of security.

  5. Show appreciation and affection: Express love, appreciation, and affection to one another regularly. Verbalize your appreciation for each other's efforts and achievements. Hugs, kisses, and other physical gestures of affection can also help strengthen the emotional bond between parents and children.

  6. Empower independence: Encourage children to take on age-appropriate responsibilities and allow them to make decisions when appropriate. Gradually increase their independence while providing guidance and support. This helps build their confidence and nurtures a sense of trust between parents and children.

  7. Resolve conflicts constructively: Conflicts are a natural part of any relationship. Teach children healthy conflict resolution skills, such as active listening, compromise, and finding win-win solutions. Model these skills yourself when resolving conflicts with your children.

  8. Seek professional help if needed: In some cases, family counseling or therapy can be beneficial for addressing deeper issues or improving communication within the family. Consider seeking professional help if there are persistent gaps or conflicts that need external support.

Remember that building and strengthening relationships takes time, effort, and patience. Each family is unique, so find approaches that work best for your specific circumstances. It's also important to adapt and adjust your strategies as children grow and their needs change.

May 27, 2023

By The Law Pakistan Army Can't Interfare in Politics ?

 

پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق پاکستانی فوج سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی اور پاکستانی فوج کے افسران پاسنگ آؤٹ پریڈ کے دن بھی یہی حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ سیاست میں حصہ نہیں لیں گے، لیکن حال ہی میں ہمیں پاکستانی فوج سے پتہ چلا کہ پاکستانی فوج پچھلے 74 سال اور 6 ماہ سے سیاست کر رہی تھی اور اب فروری 2022 سے سیاست چھوڑ چکی ہے - سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پہلے دوسرے لوگ (یعنی سیاست دان، میڈیا وغیرہ) کہہ رہے تھے کہ پاکستانی فوج سیاست میں حصہ لیتی ہے، لیکن اس بار پاکستانی فوج نے خود تسلیم کیا ہے اور ساری عزت گنوا دی ہے۔
اب اصل معمہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج کو نہیں معلوم کہ اسے یہ عزت دوبارہ حاصل کرنے میں کتنا وقت لگے گا یا شاید وہ یہ عزت دوبارہ حاصل کر پائیں گے یا نہیں۔ وقت ہی بتائے گا یا ان کے مستقبل کے کرتوت بتائیں گے- اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک صرف ایک فرد یا ادارے کی وجہ سے برباد نہیں ہوتا بلکہ تمام شہریوں کا اس میں کوئی نہ کوئی حصہ ہوتا ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ جن کے پاس زیادہ طاقت ھوتا ہیں ان کی ذمہ داری بھی زیادہ ھوتی ہیں -
ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ان 75 سال کی آزمائشوں اور فتنوں سے نکالے گا، انشاء اللہ۔
ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے ظالموں، جابروں اور قانون شکنی کرنے والوں سے نجات عطا فرمائے۔
 آمین یا رب العالمین
(تحریر: خالد احمد خٹک)

 

May 23, 2023

Political Bans, Dialogue in Pakistan

 By Haroon Tahir

ہم ارسطو ، گریک ٹریجڈیز اور دیگر اصطلاحات کو یہیں چھوڑتے ہُوئے آگے چلتے ہیں ۔ اِس میں ہم عِمران خان ، دیگر سیاست دانوں اور آرمی کو اپنی ذاتی پسند نا پسند سے اُوپر اُٹھ کر دیکھیں گے ۔
عِمران خان ٹریجڈی ہیروز کی ڈیفائینڈ اصطلاح پر اگر مکمل نہیں تو تقریباً فِٹ بیٹھتا ہے ۔ یہ وُہ بندہ تھا / ہے جِس نے اپنی نوجوانی سے لے کر آج تک عُروج ، شُہرت اور کامیابی دیکھی ہے ۔ دُنیا میں بُہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایک مڈل کلاس یا اِس سے کم تر سطح سے شروع کر کے ہائیٹ اوو گلوری دیکھتے ہیں ۔ اِس میں آپ ایک بھی مِثال ایسی نہیں ڈُھونڈ سکتے جو سپورٹس کے اعلیٰ ترین معیار ، شخصی جاذبیت ، ( جِسے ہم کِرزما کہتے ہیں ) سمیت کامیابی اور شُہرت کی بُلند ترین حدود تک پُہنچا ہو اور سیاست میں بھی بُلند ترین مقام حاصِل کِیا ہو ۔ یہ تمام باتیں ، نصیب ، محنت ، میل جول یا دیگر تمام فیکٹرز آپ کو ایک ایسے اندازِ فِکر میں مُبتلا کر دیتے ہیں جہاں آپ خُود کو مسیحا کے درجے پر بِٹھا لیتے ہیں ، ایک مِنیچر گاڈ ۔ آپ اپنا محاسبہ نہیں کر سکتے ، آپ کو لگتا ہے کہ آپ نہیں تو کون ؟ اب نہیں تو کب ؟ یہ بالاخر آپ کی بربادی کا سبب بنتے ہیں ۔
عِمران خان پر بعد میں واپس آتے ہیں اور اگلے سیاسی سٹیک ہولڈرز کو دیکھتے ہیں ۔ اِس وقت سیاست میں خان کے عِلاوہ دو بڑے سیاسی فیکٹرز ہیں باقی اُن کے ساتھ یا اُن کے سائے میں ہیں ۔ اُنھیں ہم سپورٹنگ رولز یا معاون اداکار کہہ سکتے ہیں ۔ بڑی سیاسی قوتیں دو اور ہیں ، ایک شریف فیملی ، دُوسری بُھٹو / زرداری فیملی ۔ آپ بُھٹو صاحب سے شروع کریں کیونکہ شریف بعد میں آتے ہیں ۔ بُھٹو مُنہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہُوئے اور اپنے سیاسی کیرئیر میں ایوب خان سمیت یحییٰ خان کو دیکھا ، اُن کے نیچے اور ساتھ کام کِیا ۔ اِیسٹ پاکستان کے سانحہ کے بعد پہلے سِول چِیف مارشل لا ایڈمِنسٹریٹر بنے ۔ بچے ہُوئے مغربی پاکستان کو سنبھالا ، پاکستان کو تہتر کا آئین دِیا ۔ اُس وقت آرمی پچھلے قدموں پر تھی اور بُھٹو صاحب نے اِس کا سیاسی کِردار مزید محدود کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھیں ۔ فوج نے ہی مذہبی ٹولے سمیت دیگر کو آگے لا کر بُھٹو صاحب کو پہلے اقتدار سے ہٹایا اور پھر اُنھیں پھانسی گھاٹ تک پُہنچایا ۔ بُھٹو صاحب ہماری سیاست کے ایک عظیم ٹریجک ہیرو ہیں اور وُہ آج بھی سیاست سے مائینس نہیں ہُوئے ۔
شریف فیملی کی سیاست کا جنم ضیا الحق صاحب کی آمریت کے دور میں بُنیادی طور پر پی پی پی کو کمزور کرنے کے لیے ہُوا ۔ ضیا الحق کی ہلاکت کے بعد میاں نواز شریف صاحب نے اُن کا مِشن جاری رکھنے کا عزم دوہرایا اور بارہا دوہرایا لیکن سیاسی منظر پر اب ایک طاقتور حریف بینظیر بُھٹو بھی موجود تھیں ۔ پدرسری معاشرے کی سوچ کے عین مُطابق وُہ اِبتدائی طور پر کِسی کو قبول نہیں تھیں بالخصوص اسٹیبلیشمینٹ کو ؛ جِن کے ہاتھ جو اُن کے باپ کے ناحق خُون سے رنگے تھے ؛ وُہ اِن کے ساتھ کمفٹیبل نہیں تھے ۔ میوزیکل چیئرز کا کھیل جاری رہا اور بالاخر فوج خُود وردی جُوتوں سمیت حکومت میں آگے آگئی ۔
میاں صاحب اور بی بی دونوں سیاست اور وطن سے دُوری پر مجبور ہُوئے لیکن یہ سمجھ گئے کہ سیاست دانوں کو آپس میں لڑ مرنا نہیں ہے بلکہ مِل کر کام کرنا ہے ۔ میثاقِ جمہوریت تو ہُوا لیکن بی بی ایک المناک حادثے اور سازش کا شِکار ہو کر ابدی نیند سو گئیں اور پارٹی کی باگیں جناب زرداری صاحب کے ہاتھ میں آگئیں یعنی بِلی کے بھاگوں چھینکا ٹُوٹا ۔
اِس دوران ایک نیا سیاسی کِردار یعنی عِمران خان بھی اب منظر پر لایا گیا تھا کیونکہ اسٹیبلشمینٹ کو تیسری قوت کے نام پر اپنا ہتھوڑا مضبوط رکھنا تھا ۔ یہاں سے جو ہُوا وُہ سب بالکل حالیہ برسوں کی بات ہے ۔
بات جو ہمارے شہریوں کو سمجھ نہیں آتی کہ جِن کی نوجوانی بُھٹو صاحب اور میاں نواز شریف صاحب کے سیاسی عروج کے دِنوں کی ہے وُہ اُن کے عِشق میں میں ہیں اور جو نوجوان ابھی اِن سالوں میں بڑے ہُوئے ہیں وُہ خان صاحب کی “ کرشماتی شخصیت “ کے “ مقدس “ ہالے میں گرفتار ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ سب گھڑے گئے بیانیے میں پھنسے ہیں ۔ بینظیر ایک میچور لِیڈر تو تھیں لیکن نوے کی دہائی میں وُہ بھی ٹی وی پر کاشمیر کاشمیر نامی فِلم کا پرچار کِیا کرتی تھیں اور بھارت دُشمنی کا فوجی بیانیہ بھی خُوب بولا کرتی تھیں ۔
ہمارا آخری اور سب سے اہم سٹیک ہولڈر فوجی اسٹیبلشمینٹ ہے ۔ یہ خُود کو اوّل روز سے پاکستان میں طاقتور دیکھتے اور پاتے ہیں ۔ اِن کے ظاہر ہے پاکستان میں ویسٹیڈ اِنٹرسٹس ہیں ۔ اِس میں کوئی دُوسری رائے نہیں کہ آرمی کی اپنی ایک بڑی اہمیت ہے اور پاکستان جیسے تیسری دُنیا کے ممالک میں افواج ہمیشہ طاقتور ہوتی ہیں لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ افواج کے سیاسی انٹرسٹس نہیں ہونے چاہئیے ۔ جہاں اور جِس مُلک میں فوج طاقت اور حکومت کے ایوانوں میں موجود ہے اُس کا حال خراب ہے ۔ کیا میاں صاحبان اپنی فیملی سیاست سے باہر آ کر یہ سمجھنے کو تیار ہیں ؟ کیا زرداری این بلاول یہ مانیں گے کہ آخرکار پاکستان کی بچت کا واحد راستہ شاہراہِ دستور ( و جمہوریت ) سے گُزرتا ہے نہ کہ جی ایچ کیو سے ؟ یہ عِمران خان صاحب کو جانے کب سمجھ آئے گی کہ سیاستدانوں سے بات کرنا ہی اصل راستہ ہے ۔ سیاستدان عوامی لوگ ہوتے ہیں ، اُنھیں عوام میں جانا ہوتا ہے ، جواب دینا ہوتا ہے جبکہ فوجی اذہان کُچھ اور طرح سے سوچتے ہیں اور ویسے بھی اُن کی سروس ختم تو وُہ منظر سے غائب ۔
ابھی اِس بات کو یہیں ختم کرتے ہیں اور اگلی باری یہ دیکھتے ہیں کہ اِس کے بعد کا سیاسی منظر کیا ہوگا کیونکہ یہ تو طے ہے کہ اب یہ بندوبست ایسے نہیں چل سکتا ۔ نہ سیاستدانوں کو اب کُھڈے لائین لگایا جا سکتا ہے اور نہ کوئی سرکاری افسر اپنی اندھی طاقت کا استعمال مسلسل جاری رکھ سکتا ہے ۔ اِس کو کہیں تو اب رُکنا ہے ۔ کب اور کہاں یہ آگے ڈسکس کرتے ہیں ۔
میں اب مسلسل ایک لائین ایڈ کرنے پر مجبور ہو رہا ہُوں اور وُہ یہ کہ سیاسی پسند نا پسند اور کِسی ایک سیاستدان کی محبت یا نفرت کو جو بندہ سائیڈ پر رکھ کر بات نہیں کر پا رہا اُسے سنجیدہ لینا چھوڑ دیں کیونکہ تعصب اور محبت دونوں ہی آپ کی چشم کو متاثر کرتے ہیں ۔
Haroon Malik.
 https://www.facebook.com/keatsmano?__cft__[0]=AZWcIIoMScwd6lfWHks0RfB43-hi3tDnqwNXhCm2AFWaYeB02RIv2gxfuRCHVFS74PQAdloCjPa9zDjLLyGa7Y-5V-gsoZQ2VLgy5vudZwoObt1he7jhRP8KhItnIKHSeRftiWime7QGiOJPqmB6xUzBdW9iDXOFInZoOBkX-GQdp5GRmjQTRi1AEG08EEE4fGU&__tn__=-UC%2CP-R

پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کیسے سیاسی رہنماؤں کی اقتدار سے بے دخلی کا باعث بنتی رہی


 پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کیسے سیاسی رہنماؤں کی اقتدار سے بے دخلی کا باعث بنتی رہی

  • احمد اعجاز
  • عہدہ, صحافی

سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین تنازعے کی ابتدا تو اُن کی وزارت عظمیٰ کے دور کے آخری مہینوں سے ہی شروع ہو گئی تھی تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے رائے میں نو مئی کو پیش آنے والے پرتشدد واقعات اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد دو طرفہ تعلقات میں بہتری کا مستقبل قریب میں کوئی خاص امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔

17 مئی کو ایک ویڈیو بیان میں چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف کا کہنا تھا ’اسٹیبلشمنٹ الیکشن کروائے اور ملک کو بچائے۔ میں کب سے انتظار کر رہا ہوں کہ کوئی ہم سے بات کرے۔‘

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق معاملات جس نہج پر آگے بڑھ رہے ہیں اس کے پیش نظر عمران خان کی بات چیت کی پیشکش فی الوقت پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ماضی میں سیاستدانوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی، دوطرفہ فاصلوں کی خلیج کو وسعت دے کر سیاسی حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کرنے کا باعث بنتی رہی ہے اور اس کی ابتدا پاکستان کے قیام کے کچھ عرصے بعد سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ 

پاکستان کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کا انجام کبھی نہ تو سیاست اور نہ ہی سیاستدانوں کے حق میں سامنے آیا۔


قیام پاکستان سے پاور ایلیٹ کے مابین اختیارات پر کھینچا تانی

یہ اپریل 1953 کا واقعہ ہے جب اس وقت کے وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل غلام محمد نے ایوب خان کی معاونت سے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

انھیں ایک ایسے وقت میں ہٹایا گیا تھا جب انھیں نہ صرف اسمبلی کا اعتماد حاصل تھا بلکہ کچھ ہی عرصہ قبل وہ اسمبلی سے بجٹ بھی پاس کروا چکے تھے۔

قیوم نظامی اپنی کتاب ’جرنیل اور سیاست دان، تاریخ کی عدالت میں‘ میں لکھتے ہیں کہ ’بعض مؤرخین کے مطابق خواجہ ناظم الدین جو دستور تیار کروا رہے تھے، اُس میں گورنر جنرل کے اختیارات کم کر دیے گئے تھے۔ ناظم الدین، ایوب خان کو توسیع دینے اور فوج کے حجم کو قومی وسائل سے زیادہ بڑھانے کے مخالف تھے۔‘

قیام پاکستان کے ٹھیک گیارہ برس بعد سنہ 1958 میں ملک میں پہلا مارشل لا لگا دیا گیا۔ قدرت اللہ شہاب، شہاب نامہ میں لکھتے ہیں کہ ’اکتوبر 1958 میں آئین منسوخ کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ اُس وقت پاکستان کسی غیر معمولی بیرونی خطرے سے دوچار نہیں تھا۔ اندرونی خطرہ صرف یہ تھا کہ اگر انتخابات ہو جاتے تو غالباً اسکندر مرزا کو کرسیِ صدارت سے ہاتھ دھونا پڑتے۔‘

اب ذرا دیکھیے کہ اسکندر مرزا کے ساتھ کیا ہوا؟ قیوم نظامی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’ملٹری انٹیلیجنس نے سید امجد علی اور اسکندر مرزا کے درمیان ٹیلی فون بات چیت سُنی۔ سید امجد علی کے بیٹے کی شادی اسکندر مرزا کی بیٹی سے ہونا تھی۔

’سید امجد علی نے اُنھیں شادی کی تاریخ مقرر کرنے کو کہا تو اسکندر مرزا نے جواب دیا کہ وہ اگلے چند دن بہت مصروف ہیں۔ حالات معمول پر آئیں گے تو تاریخ مقرر ہو جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ امجد علی نے کہا حالات معمولات پر آنے میں کافی وقت لگے گا؟ تو اسکندر مرزا نے اس کا جواب دیا کہ چند دن میں، مَیں ایوب خان کو سیدھا کر دوں گا۔‘

وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ’ایوب خان کو ٹیلی فون پر ہونے والی اس بات چیت سے آگاہ کر دیا گیا لیکن اس پر 27 اکتوبر تک کوئی کارروائی نہ کی گئی کیونکہ امریکی سیکریٹری دفاع نے پاکستان کی فوجی امداد کی ضروریات پر مذاکرات کے لیے پاکستان آنا تھا۔ 27 اکتوبر کو امریکی سیکریٹری کے دورے کے اختتام کے بعد یحییٰ خان اور ان کی ٹیم نے اپنے ایکشن پلان کے دوسرے حصے پر کارروائی شروع کر دی جس کے نتیجے میں ایوب خان نے رات دس بجے اسکندر مرزا کو صدارت سے الگ کر دیا۔‘


 

مارشل لا کو دفن کرنے والا کیسے مارشل لا کا نشانہ بن گیا؟

ایم اے چودھری اپنی کتاب ’مارشل لا کا سیاسی انداز‘ میں لکھتے ہیں ’پاکستان کے منتخب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آئین کو تشکیل دینے کے سلسلے میں ایک دفعہ یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس ملک میں مارشل لا کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں گے۔ یہ وقت کی کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ مارشل لا ہی کی حکومت نے اُنھیں پھانسی دی اور دفن کیا۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکمرانوں کے مابین اختلاف کا نتیجہ کبھی سیاسی حکمرانوں کے لیے اچھا نہیں رہا: ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا جونیجو، میاں نوازشریف ہوں یا بے نظیر اور یوسف رضا گیلانی ہوں یا پھر عمران خان۔۔۔

ذوالفقار علی بھٹو فوج اور بیوروکریسی میں اصلاحات کے خواہاں تھے اور جمہوری بالادستی کو قائم کرنا چاہتے تھے۔اُنھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی کئی اعلیٰ درجے کے فوجی افسران کو ملازمتوں سے سبکدوش کر دیا، جن میں لیفٹیننٹ گل حسن خان بھی شامل تھے۔

اسی طرح افواج کے چیفس کے عہدے کی مدت بھی ایک سال کم کر دی، علاوہ ازیں 1972 میں فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔

ڈاکٹر محمد اعظم چودھری نے اپنی کتاب ’پاکستان کا آئین‘ میں لکھا ’ایف ایس ایف کے قیام سے فوجی افسران چوکنے ہو گئے۔ اُنھیں پیشہ ورانہ روایتی فوج کی جگہ عوامی فوج کا وہ نعرہ یاد آنے لگا جو بھٹو نے بہت پہلے اپنی سیاسی تحریک کے دوران لگایا تھا۔ جنرل ضیا نے برسرِاقتدار آ کر اپنے اولین اقدامات کے تحت ایف ایس ایف کو توڑ دیا۔‘

سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس ایف ایس ایف کو فوج کے متوازی فوج نہیں مانتے۔ ان کے مطابق ’ایف ایس ایف فوج کے متوازی فوج نہ تھی بلکہ یہ صرف بھٹو کے سیاسی مخالفین کو قابو کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس فورس میں زیادہ تر پیپلز پارٹی کے اپنے ورکرز تھے، جن کا کام بھٹو کے مخالفین کو ڈرانا دھمکانا اور قابو میں رکھنا تھا۔‘

طاہر کامران، بھٹو کی جانب سے 43 فوجی افسروں کی سبکدوشی کے تناظر میں اپنی کتاب ’پاکستان میں جمہوریت اور گورننس‘ میں لکھتے ہیں ’یہ فوج پر سویلین بالادستی کے قیام کی جانب بہت واضح اشارہ تھا۔ آئین کے آرٹیکل 271 میں کسی بھی ممکنہ فوجی مداخلت یا فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضہ کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کے لیے موت کی سزا تجویز کی گئی۔‘

جنرل کے ایم عارف اپنی کتاب خاکی سائے میں لکھتے ہیں ’بھنڈارہ نے مجھے بتایا کہ انھوں نے ایک بار ضیا سے سوال کیا تھا کہ آپ نے بھٹو حکومت کو کیوں گرایا تھا؟ ضیا نے اس کا بالواسطہ جواب دیتے ہوئے کہا تھا ’کسی روز میں آپ کو بھٹو کے بارے میں ایسی معلومات فراہم کروں گا کہ حیرت سے آپ کا رواں رواں ششدر رہ جائے گا۔‘ ضیا نے بھنڈارہ کو بتایا کہ مجھے پاکستان آرمی کی شکست و ریخت قبول نہیں تھی۔‘


ضیا، جونیجو کی ’سادہ لوحی‘ بھی برداشت نہ کر سکے؟

جنرل ضیا نے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے۔ الیکشن کے بعد وزیراعظم کے طور پر محمد خان جونیجو کا انتخاب عمل میں آیا اور بیشتر مؤرخین کے مطابق اس انتخاب کی بنیادی وجہ جونیجو کی سادہ لوحی قرار دی جاتی تھی کیونکہ ضیا کسی ایسے شخص کو وزیرِ اعظم نہیں بنانا چاہتے تھے جو بعد میں اِن کی حیثیت کو کسی طرح چیلنج کرنے کی قوت نہ رکھتا ہو۔

مگر جونیجو اور ضیا کے مابین تعلقات کچھ ہی عرصے بعد خراب ہوتے چلے گئے۔ بالآخر مئی 1988 کو صدر ضیا نے جونیجو کو عہدے سے ہٹا دیا اور قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔

طاہر کامران اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’ضیا کی جانب سے جونیجو کو ہٹانے کی وجوہات کے پیچھے جونیجو کا جنرل ضیا کی خواہشات کے برعکس جنیوا معاہدہ پر دستخط کرنا ان کی معزولی کا بڑا سبب بن گیا۔‘

’علاوہ ازیں راولپنڈی میں اوجڑی کیمپ کے واقعے کے ذمہ دار فوجی افسروں کو موردِ الزام ٹھہرانا بھی ضیا الحق اور جونیجو کے مابین اختلافات کا بڑا سبب تھا۔‘

قیوم نظامی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’فوج سندھ میں پنوں عاقل اور تین دوسری جگہوں پر چھاؤنیاں قائم کرنا چاہتی تھی، سندھ کے قوم پرست لیڈر اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ جونیجو نے ضیا کی خواہش کے برعکس چھاؤنیوں کے قیام کے لیے کھلے عام حمایت سے گریز کیا۔‘


بے نظیر کا دو بار اقتدار اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار

بے نظیر بھٹو پہلی بار 1988 کے الیکشن میں وزیرِ اعظم بنیں مگر وہ اپنی مُدت اقتدار کو پورا نہ کر سکیں۔

طاہر کامران اپنی کتاب میں سعید شفقت کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں ’سب سے طاقتور ادارے کے ساتھ بے نظیر کے تعلقات کی خرابی کی چار وجوہات تھیں جو اُن کی حکومت کے خاتمے کا سبب بن گئیں۔

’اُس میں ایک وجہ یہ تھی کہ 1990 میں بے نظیر نے آرمی کے سلیکشن بورڈ کے معاملات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔ جس نے اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا دھرنے کا کام سرانجام دے دیا۔‘


’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ سے ڈان لیکس تک، نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کی محاذ آرائی

’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔‘ میاں نوازشریف کا یہ جملہ اگرچہ اُس وقت کے صدر اسحاق خان کے خلاف کی جانے والی تقریر کا حصہ ہے مگر اس کے پیچھے جو وجہ تھی وہ اقتدار سے ہٹانے کی تھی۔

میاں نواز شریف کے اقتدار کا پہلا دور اسی شورش اور محاذ آرائی کی نذر ہو جاتا ہے مگر جب یہ دوسری بار وزیرِ اعظم بنتے ہیں تو عوام کی اکثریت کا اعتماد لے کر بنتے ہیں مگر پھر بھی اپنا دور مکمل کرنے سے قاصر ٹھہرتے ہیں اور جنرل مشرف انھیں ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کر لیتے ہیں۔

عائشہ صدیقہ نے اپنی کتاب ’پاکستانز آرمز پروکیورمنٹ اینڈ ملٹری بلڈ اپ‘ میں لکھا ہے کہ ’نواز شریف کی پالیسیوں کے برعکس فوج نے اپنے ادارے کو محفوظ رکھنے کے خدشات کے پیش نظر اقتدار پر قبضہ کیا۔ فوج کو خدشہ تھا کہ نواز شریف فوج کو اپنے کنٹرول میں لا کر ڈاؤن سائزنگ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فوج نے نواز شریف کی جانب سے عسکری اُمور میں مداخلت کو بھی ناپسندیدگی سے دیکھا۔‘

جبکہ رسول بخش رئیس کا خیال ہے کہ ’جب نواز شریف کے پاس 1997 کے الیکشن کے بعد دوتہائی اکثریت آ گئی تو وہ فوج کے قابو میں نہ رہے اور انھوں نے بھٹو کی طرح سول سپریمیسی لاگو کرنے کی کوشش کی۔‘

اسٹیبلیشمنٹ سے اپنی محاذ آرائی کے باوجود سنہ 2013 میں نواز شریف عام انتخابات کے نتیجے میں تیسری بار وزیرِ اعظم بن گئے مگر تیسری بار بھی اپنی مدت پوری نہیں کر پائے۔

سنہ 2016 میں ایک خبر سامنے آئی جو آنے والی تاریخ میں ’ڈان لیکس‘ کے عنوان سے مشہور ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے پیچھے ایک بڑا محرک ڈان لیکس رہی۔

اس خبر کو رکوانے میں ناکامی کی بنیاد پر پرویز رشید، جو اس وقت وزیرِ اطلاعات تھے، کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

اس معاملے کی سنگینی کھل کر اُس وقت سامنے آئی جب پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے ڈان لیکس سے متعلق جاری اعلامیے کی تردید کرتے ہوئے ٹویٹ کیا تھا کہ ’یہ نوٹیفکیشن مسترد کیا جاتا ہے‘ تاہم بعد میں حکومتی نوٹیفکیشن مسترد کرنے والی ٹویٹ واپس لے لی گئی تھی۔


’ریاست کے اندر ریاست‘ کا بیان دینے والے یوسف رضا گیلانی

22 دسمبر 2011 کو اُس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں چوہدری نثار علی خان کے نکتہ اعتراض کے جواب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اگر فوج اور متعلقہ ادارے وزارت دفاع کے ماتحت نہیں ہیں اور متحدہ ہندوستان سے علیحدگی کے بعد اگر یہاں محکوم ہی رہنا ہے تو اس پارلیمنٹ اور جمہوریت کی کوئی وقعت اور فائدہ نہیں۔‘

اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے مہمند اور کرم ایجنسیوں کی چوکیوں کے دورے پر فوجی جوانوں سے مخاطب ہو کر کہا تھا ’پاکستانی فوج جمہوریت کی حمایت کرتی ہے اور کرتی رہے گی، فوج اقتدار پر قبضہ نہیں کر رہی۔‘


’ریڈ لائن کراس ہو چکی‘

ملکی تاریخ میں کئی وزرائے اعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکے جس کی بڑی وجہ عسکری اور سول قیادت میں تنازعات قرار پاتی ہے۔

اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر سید جعفر احمد کا کہنا تھا کہ ’ماضی کا اس طرح کا کوئی واقعہ معروضی پس منظر اور حقائق کا حامل ہوتا ہے۔ اگر کچھ ملتے جلتے نتائج نکل آئیں تو الگ معاملہ ہے۔‘

اس حوالے سے ضیغم خان کا کہنا تھا ’ہمیں اسٹیبلشمنٹ کو ایک پولیٹکل ایلیٹ گروپ کے طور پر بھی دیکھنا چاہیے۔ پاکستان میں طاقتور اشرافیہ کے جو گروپس ہیں، اُس میں ایک پولیٹیکل سائیڈ ہے اور ایک ریاست کی سائیڈ ہے اور پاکستان میں جو طاقتور اشرافیہ کا بڑا گروپ ہے وہ پاکستان کی فوج ہے۔

’یہ دنیا کی تاریخ ہے کہ جب بھی پاور ایلیٹ کو کوئی چیلنج آتا ہے تو وہ اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے۔‘

موجودہ صورتحال کے تناظر میں بات کرتے ہوئے ضیغم خان کا کہنا ہے کہ ’ْاس وقت ریڈلائن کراس ہو چکی ہے۔ ریڈلائن صرف فوج کی نہیں ہوتی بلکہ ریاست کی بھی ہوتی ہے اور فوج کی تنصیبات اور گھروں پر حملہ کسی بھی ملک کی فوج کے لیے قابلِ قبول نہیں۔‘


وہ کہتے ہیں کہ ’ریاست اسے نظر انداز نہیں کرے گی۔‘

صحافی و اینکر فریحہ ادریس کے مطابق ’ْ9 مئی کے واقعات ریاست کی ریڈ لائن کراس کرنے جیسے ہیں۔ معاملہ کچھ پرانی عمارتوں کا نہیں بلکہ میرے نزدیک یہ بعض علاقوں کے تقدس کو پامال کرنے کا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم سب کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے نو مئی کے واقعات کا جواب دینا ناگزیر ہو چکا ہے لیکن کیا اس کا مطلب ہے کہ آپ خواتین کو گھروں سے اٹھا لیں؟

’ایک سیاسی جماعت کو نشانہ بنانے کی یہ روایت قابل تائید نہیں اور لگ یوں رہا ہے کہ اداروں کو استعمال کر کے سیاسی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔‘

 

 Source :

https://www.bbc.com/urdu/articles/c80yn0z7lwzo?at_link_origin=BBC_URDU&at_campaign=Social_Flow&at_campaign_type=owned&at_bbc_team=editorial&at_ptr_name=facebook_page&at_medium=social&at_link_id=FB3618D0-F91F-11ED-BCB2-C48AAD7C7D13&at_link_type=web_link&at_format=link&fbclid=IwAR22saH37H75T2xOnzjAbSeYlBsTwZ3gSQ7BHkxi3f40XbsA0AZkP1N6Hso

 

 

 

 

 

 

 

 

Total Pageviews