March 30, 2020

صرف 16 منٹ کی ورزش جو بُوڑھوں کو جوان اور جوانوں کو پرواز سیکھا دے گی





صرف 16 منٹ کی ورزش جو بُوڑھوں کو جوان اور جوانوں کو پرواز سیکھا دے گی

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ وہ روزانہ ایک گھنٹہ واک کرتے ہیں مگر اُن کا وزن ٹس سے مس نہیں ہوتا اور واک کرنے سے اُنہیں چربی پھگلانے میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا، یہ بات بلکل ٹھیک ہے کیونکہ عام طور پر صرف واک کرنے سے وزن کم نہیں ہوتا چاہے ایک گھنٹے کی بجائے 2 گھنٹے واک شروع کردیں مثال کے طور پر اگر آپ لکڑی میں کیل ٹھونکنا چاہتے ہیں اور آپ کے پاس ہتھوڑی نہیں ہے تو اُنگلی سے کیل پر چاہے جتنی مرضی ضربیں لگاتے رہیں کیل پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔
اس آرٹیکل میں ہم پیٹ کو کم کرنے کے لیے پانچ ایسی ورزشیں جانیں گے جنہیں روزانہ صرف 16 منٹ کرنے سے دو سے تین ہفتے میں جہاں آپ کے پیٹ کی چربی پھگلنے لگے گی وہاں آپ کو یہ بھی محسوس ہونا شروع ہو جائے گا کہ آپ زمین پر چل نہیں رہے بلکے اُڑ رہے ہیں۔


ان ورزشوں کو نیچے دی گئی ترتیب سے کریں اور اپنی زندگی کو جادوئی انداز سے بدل دیں۔

ورزش نمبر 1 Squarts (20 Second)

اوپر دی گئی ویڈیو میں اس ورزش کو کرنے کا طریقہ سیکھ لیں یہ ورزش صرف ایک ورزش نہیں ہے بلکے یہ آپ کے جسم میں اتنی جان ڈال دے گی کے چند ہی دنوں میں آپ کو لگے گا کے آپ چھلانگ لگا کر اُڑ سکتے ہیں، اس ورزش کو کرنے سے آپ کے درجہ ذیل مسلز مضبوط اور طاقتور ہوں گے اور ان میں موجود فاضل چربی پگھل جائے گی۔
Quadriceps, Calves, Hamstrings, Abdominal Muscles, Lower Back and Butts.
20 سکینڈ سکواٹس کرنے کے فوراً بعد بغیر کسی وقفے کے ورزش نمبر 2 شروع کریں

ورزش نمبر 2 Dynamic Pushups (20 Seconds)

اوپر دی گئی ویڈیو میں اس ورزش کو کرنے کا طریقہ سیکھ لیں کیونکہ یہ ورزش آپ کی زندگی کو بدل کر رکھ دے گی اور یہ ورزش صرف چند دن میں آپ کو ایک ایسا کمانڈو بنا دے گی جس کے لیے کُچھ بھی ناممکن نہیں رہتا۔
یہ ورزش آپ کے جسم کی فنکشنل Strength کو بڑھائے گی اور جسم کے تمام مسلز کو مضبوط کرے گی خاص طور پر آپ کے ٹرائی سپ، بائی سپ، کور مسلز اور نیچے والی باڈی کے مسلز کو انتہائی طاقطور کردے گی، صرف 20 سیکنڈ اس ورزش کو کرنے کے بعد بغیر کسی وقفے کے ورزش نمبر 3 پر چلے جائیں۔

ورزش نمبر 3 Cobra (20 Seconds)

باقی ورک آوٹ سے نسبتاً آسان نظر آنے والی یہ کوبرا ورزش آپ کے پیٹ کی چربی کو ایسے پگھلائے گی جیسے آگ موم کو پگھلاتی ہے یہ آپ کے پیٹ کو فلیٹ کردے گی اور اُس پر سکس پیک کے نشان ایسے اُبھریں گے کہ آپ خُود بھی دیکھ کر خوشی سے نڈھال ہو جائیں گے، صرف 20 سیکنڈ اس ورک آؤٹ کو کرنے کے بعد فوراً چوتھی ورزش پر چلے جائیں اور درمیان میں کوئی وقفہ نہ دیں۔

ورزش نمبر 4 Jumping Jacks (20 Seconds)

یہ انتہائی آسان ورزش نہ صرف سکول کے دنوں کی یاد تازہ کرے گی بلکے آپ کے سارے جسم کو ظاقتور اور فعال بنائے گی ورزش کرنے کا طریقہ اگر آپ نہیں جانتے تو Jumping Jacks کسی بھی بچے سے کرنا سیکھ لیں یا پھر یوٹیوب سے رہنمائی حاصل کریں اور صرف 20 سیکنڈ اس ورزش کو کرنے کے بعد آخری ورزش یعنی ورزش نمبر پانچ کی طرف بغیر کسی وقفے کے چلے جائیں۔

ورزش نمبر 5 Mountain Climbers (20 Seconds)

اس ورزش کو کرنے کا طریقہMountain Clibers پر کلک کر کے سیکھ لیں اور اسے اپنے ورک آؤٹ کی پانچویں ورزش میں شامل کر لیں کیوں یہ یہ ورزش بُوڑھوں کو جوان اور جوانوں کو پرواز سیکھا دیتی ہے اس ورزش کے اختتام پر آپ کے 100 سیکنڈ کی ورزش کا پہلا سیٹ مکمل ہوجائے گا ورزش کے اختتام پر ڈیڑھ منٹ کی یعنی 90 سیکنڈ کی بریک لیں اور بریک کے بعد دوبارہ 100 سیکنڈ کی یہ پانچ ورزشیں اسی ترتیب سے شروع کریں آپ نے ان ورزشوں کے 10 سیٹ ورک آؤٹ کرنے ہیں جو کہ تقریباً 16 منٹ اور 40 سیکنڈ بنتے ہیں اور ہر 4 دن کے بعد ایک دن مکمل ریسٹ کریں اور پھر اگلے چار دن کے لیے اسی ورک آؤٹ کو اپنے روٹین کا حصہ بنائیں اور یاد رکھیں کہ یہ ورزش آپ کر سکتے ہیں ۔
نوٹ : بزرگوں کا قول ہے کہ پہلے دن کی سواری مشکل ہوتی ہے اور پھر ہر گُزرتے دن کیساتھ یہ سواری آپ پر آسان تر ہوتی چلی جاتی ہے، ہمیں پتہ ہے کہ یہ ورک آؤٹ آپ کو شروع میں مشکل لگے گا مگر ہر گُزرتے دن کیساتھ آپ اس مشقت کے عادی ہوتے چلے جائیں گے اور یہ آپ پر آسان ہوتا چلا جائے گا۔


March 28, 2020

COVID-19 KORONA IS NOT BAD


ٹیرس سے پیرس
کورونا کیا کر رہا ہے؟
ایک عرب سکالر مستشار عدلی حسین کا کہنا ہے کہ
کوروناوائرس پرلعنت مت بھیجو🖐
کیوں؟
اس نےانسان کو انسانیت اور خالق کی حقانیت کی طرف متوجہ کیاہے۔
وہ اپنے اس دعوی' کے حق میں دلائل دیتے ہوئے مزید کہتے ہیں۔
💗کیا پوری دنیا میں تمام عیش وطرب کے مراکز بند نہیں ہو گئے۔سینماگھر ،نائٹ کلب ،شراب خانے ،جواخانےاور ریڈ ایریا بند نہیں ہیں کیا؟
💗کیا خاندانوں کوایک طویل جدائی کے بعدان کے گھروں میں دوبارہ اکٹھا ہونے کا موقع نہیں دیا کیا؟
کیا اس نے غیر مرداور غیرعورت کوایک دوسرے کا بوسالینے سے نہیں روکا؟
💗کیا اس نے عالمی ادارہ صحت کواس بات کے اعتراف پرمجبور نہیں کیا کہ شراب پینا تباہی ہے،لہذااس سے اجتناب کیاجائے؟
💗کیا اس نے صحت کے تمام اداروں کویہ بات کہنے پرمجبور نہیں کیا کہ درندے ،شکاری پرندے ،خون ،مردار اورمریض جانور صحت کے لئے تباہ کن ہیں؟
کیا اس نے انسان کو نہیں سکھایا کہ چھینکنے کاطریقہ کیا ہے، صفائی کس طرح کی جاتی ہے جو ہمیں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے1450 سال پہلے بتایا تھا ؟
💗کیا اس نےفوجی بجٹ کاایک تہائی حصہ صحت کی طرف منتقل نہیں کیا ہے؟
💗 کیا اس نے دونوں جنسوں کے اختلاط کومذموم قرار نہیں کر دیا؟
💗کیا اس نےدنیاکے فرعون حکمرانوں کوبتا نہیں دیاکہ لوگوں کوگھروں میں پابندکرنے،جبری بٹھانےاور ان کی آزادی چھین لینےکامطلب ہوتا کیاہے؟
💗کیا اس نے لوگوں کواللہ سےدعامانگنے گریہ وزاری کرنےاوراستغفارکرنے پرمجبور اورمنکرات اورگناہ چھوڑنے پرآمادہ نہیں کیا؟
💗کیا اس نےمتکبرین کے کبر و غرور کا سرپھوڑ نہیں دیااورانہیں عام ا نسانوں کی طرح لباس نہیں پہنایا؟
💗کیا اس نے دنیامیں کارخانوں کی زہریلی گیس اوردیگر آلودگیوں کوکم کرنے کی طرف متوجہ نہیں کیا؟ جن آلودگیوں نے باغات، جنگلات، دریا اور سمندروں کوگندہ کیا ہوا ہے۔
💞کیا اس نے ٹیکنالوجی کو رب ماننے والوں کودوبارہ حقیقی رب کی طرف متوجہ نہیں کیا؟
💗کیا اس نے حکمرانوں کوجیلوں اورقیدیوں کی حالت ٹھیک کرنے پرآمادہ نہیں کیا؟
💞💓💞اوراس کا سب سے بڑاکارنامہ کیا یہ نہیں ہے کہ اس نے انسانوں کواللہ کی وحدانیت کی طرف متوجہ کیا، شرک اورغیراللہ سے مددمانگنے سے منع نہیں کیا؟
آج عملی طورپریہ بات واضح ہوگئی کہ کس طرح بظاہر ایک وائرس لیکن حقیقت میں اللہ کا ادنا سپاہی انسانیت کےلئے شر کے بجائے خیر کاباعث بن گیا۔
تواے لوگو! کرونا وائرس پرلعنت مت بھیجو یہ تمہارے خیر کے لئے آیاہے کہ اب ا نسانیت اس طرح نہ ہوگی جس طرح پہلے تھی۔۔
آج دنیا جس کرب سے گزر رہی ہے ! نظر نہ آنے والا ایک وائرس پوری دنیا کے لئے تھرٹ بنا ہوا ہے ۔شخصی آزادی جسمانی آزادی ، میرا جسم میری مرضی، مائی باڈی مائی چائس اور بڑے بڑے فرعون نما انسانوں کی اصلیت کھول کر نہیں رکھ دی۔
 میں ہمارے ایک دوست کرنل حامد جو اب برگیڈیئر ہیں نے مزاق میں کہا تھا کہ اللہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ! میں نے حیران ہو کے پوچھا وہ کیوں ؟ انہوں نے کہا وہ رب ہے وہ خود ڈرا لے گا۔
ڈرنے کی بات انسانوں کے شیطانی کردار ہے ۔ آج وہ بات بلکل سچ ثابت ہو رہی ہے پوری دنیا ایک چھوٹے سے بظاہر نظر نہ آنے والے وائرس کا بری طرح شکار ہے۔ سب کچھ کھا جانے والے چائنیز کے گھر سے شروع ہونے والا یہ وائرس وہاں اتنا نقصان نہیں کر سکا جتنا کر سکتا تھا وجہ وہاں انسان نے انسان کو پابند کر دیا مگر اٹلی چھوٹا تھا مگر عوام مادر پدر آزاد تھی غلامی کو نہیں مانتی اللہ کو بھی نہیں مانتی سب کچھ ہونے کے باوجود اٹلی کے وزیراعظم کا یہ بیان کہ زمینی طاقت اور وسائل اس کورونا کی آفت پر قابو پانے سے قاصر ہیں اس کے لیے اسمان سے مدد کی ضرورت ہے۔ کیا یہ بات اس عرب سکالر مستشار عدلی حسین کے دعویٰ کا ثبوت نہیں۔
اللہ سب کو محفظ رکھے اس وبا سے مگر جو اس وبا میں مارے جائیں گے یا مرے گئے ہیں اسلامی روح سے وہ شہید ہیں مگر احتیاط لازم ہے ، احتیاط نہ کرنا خودکشی اور خودکشی حرام ہے ۔
شکریہ

March 18, 2020

DIFFERENCE IN ABBA JEE , DADDY, & PAPA JAAN IN PAKISTAN




ابا جی ڈیڈی اور پاپا میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے دلچسپ تحریر
ایک وقت تھا جب تمام گھروں میں والد کو اباجی کہا جاتا تھا۔ اُس دور میں اباجی صرف بچوں کے لیے ہی نہیں بلکہ بچوں کی ماں کے لیے بھی خوف کی علامت ہُوا کرتے تھے، ادھر ابا جی گھر پہنچتے اور اُدھر گھر کے صحن پر سناٹا چھا جاتا، بچے گھر کے کونوں کُھدروں میں دبک جاتے اور بچوں کی اماں سر پر دوپٹہ اوڑھ لیتی۔
ابا جی کے ہاتھ سے تھیلا وغیرہ پکڑ کر مقررہ جگہ پر رکھ دیا جاتا اور ابا جی چارپائی پر بیٹھ کر جُوتے اُتارتے جنہیں فوراً ایک طرف اُٹھا کر رکھا جاتا۔ پھر ابا جی کوئی بھی حُکم جاری کرتے تو فوراً اُس کی تعمیل ہوتی، پھر ابا جی کو کھانا پیش کیا جاتا اور امی جان اُن کے قریب بیٹھی رہتی جب تک کھانا ختم نا ھو جاتا تھا اور سب بہن بھائی بھاگ بھاگ کر اُنہیں کبھی نمک اور کبھی چٹنی مہیا کیا کرتے تھے۔
ابا جی کے غُسل سے پہلے امی جان غُسل خانے کا معائینہ کرتیں اور وہاں ڈبہ تولیہ صابن وغیرہ ہر چیز رکھ دیتیں اور پھر ابا جی کے کپڑے استری ہوتے، ابا جی جب دفتر جاتے تو امی اُن کو دروازے تک رخصت کرنے جاتیں اور ابا جی کے روانہ ہوتے ہی گھر میں چھائی خاموشی کے بند ٹُوٹتے اور بچوں کی شرارتیں اور امی جان کی دھمکیاں شروع ہوجاتیں کے شام کو تمہارے ابا آئیں گے تو تمہاری شکایت لگاؤں گی۔
اُس دور میں ابا جی کی دہشت ہر وقت بچوں پر چھائی رہتی تھی، مُجھے اچھی طرح یاد ہے کے سکول کی پراگرس رپورٹ پر ابا جی سے دستخط کروانا ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا تھا۔
پھر زمانہ بدلا تو بچے ابا جی کو ڈیڈی اور ماں جی کو ممی کہنے لگے ، ڈیڈی کہلوانے والوں کا وہ رعب اور دہشت نہیں ہوتی تھی جو ابا جی کہلوانے والوں کی ہوتی تھی، ڈیڈی وہ حضرات تھے جو عورت اور مرد کی برابری پر یقین رکھتے تھے اوران کا خیال تھا کہ بیوی اور بچوں کو ڈرا کر رکھنے کی بجائے ان سے دوستانہ تعلقات ہونے چاہیے، چنانچہ ڈیڈی حضرات حکم آخر جاری کرنے کی بجائے مشاورت پر یقین رکھتے تھے اور گھروں میں ان کا طرز عمل ابا صاحبان سے کافی بہتر ہوتا تھا جو مخاطب کی پُوری بات سُنے بغیر ہی جوتا اُتار لیا کرتے تھے۔
ڈیڈی کہلوانے والے صاحبان کو اگر کھانے میں کوئی نقص نظر آتا تو وہ انتہائی شائستگی سےاُس کی نشاندہی کرتے اور ابا صاحبان کی طرح کھانا صحن میں اُٹھا کر نہیں پھینکتے تھے، ڈیڈی کہلوانے والے بچوں کے سوالات کے جوابات انتہائی پیار و محبت سے دیتے اور بیوی کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات و مطالبات کے جواب بھی خندہ پیشانی اور دلبری سے دیتے اور گھروں میں توازن کی فضا برقرار رکھتے تھے۔
زمانہ اور اور آگے بڑھا اور ابا صاحبان کو پاپا اور والدہ کو ماما کہا جانے لگا، یہاں سے گھروں میں ایک بڑی تبدیلی آنی شروع ہُوئی اور گھر میں حکمرانی کا تاج پاپا کی بجائے ماما کے سر پر سجایا جانے لگا اور پاپا کی حثیت گھر میں ایک عام شہری جیسی ہو گئی، پاپا صاحبا ن جب دفتر سے گھر واپس آتے ہیں تو اُن کی طرف کوئی متوجہ نہ ہوتا، ماما ٹی وی دیکھتی رہتی ہیں اور بچے موبائل فون پر ایس ایم ایس کرتے رہتے ہیں ، پاپا حضرات کپڑے وغیرہ تبدیل کرکے کھانا مانگتے ہیں تو ماما کہتی ہیں ذرا صبر کریں ڈرامے میں وقفہ آتا ہے تو کھانا دے دیتی ہُوں ، اگر پاپا موصوف زیادہ بھوک لگی ہونے کی شکایت کرتے ہیں تو ماما کہتی ہیں کے دفتر سے نکلتے ہی فون کر دیا کریں میں کھانا گیٹ پر ہی رکھ دیا کروں گی۔
اس جواب کے بعد پاپا دبک کر بیٹھ جاتے ہیں اور ڈرامے میں وقفے کا انتظار کرتے ہیں، خُدا خُدا کر کے ڈرامے میں کمرشل بریک آتا ہےتو ماما بھاگ کر کچن میں جاتی ہیں اور کھانا لاکر شوہر کے سامنے یُوں رکھتی ہیں جیسے وہ پیش نہ کیا جارہا ہو بلکہ اُسے ڈالا جارہا ہو اور شوہر کے ہاتھ سے ٹی وی کا ریموٹ جسے شوہر نے بیوی کی غیر موجودگی میں اُٹھا لیا ہوتا ہےواپس جھپٹ لیتی ہیں اور بولتی ہیں ابھی تو بڑا بھوک بھوک کا شور مچایا ہُوا تھا اور اب خبریں سُننے کی پڑ گئی ہے چُپ کر کے کھانا کھاؤ اور اگر پاپا کھانے کے بعد ٹی وی کا ریموٹ دوبارہ مانگتے ہیں تو ماما کہتی ہیں کہ چُپ کر کے جا کر سو جائیں اور یُوں پاپا حضرات دُم دبا کر سونے چلے جاتے ہیں۔
آج کے پاپا کی حثیت اے ٹی ایم مشین سے زیادہ نہیں رہ گئی اور میں یہ سوچتا ہُوں کہ کہاں وہ کل کے ابا جان اور کہاں آج کے پاپا، زمانہ کیا سے کیا ہوگی.

منقول

March 13, 2020

CORONA VIRUS JUST 3% DEATH ONLY FEAR




ہم سب مسلمان ہیں ، جتنی گندگی و بیماریاں و وائرل انفیکشنز پاکستان میں پاۓ جاتے ہیں ، شاید دنیا کے کسی ملک میں ہوں ، کرونا تو کچھ بھی نہیں ، ہمارے پاکستان میں بارش کے بعد سڑک پر سے جو کیچڑ سوکھ کر اڑتا ہے ، اس میں کرونا سے لاکھوں گنا زیادہ طاقتور جراثیم موجود ہوتے ہیں ، مگر ہمارا ( پاکستانیوں کا ) مدافعتی نظام ان جراثیم کے خلاف مدافعت پیدا کر چکا ہے ، اوپر سے مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا ایمان ہے کہ جس کی جیسے آئ ہے ویسے ہی ہر بندے نے جانا ہے ، موت برحق ہے ، احتیاط لازم ہے ۔ ۔ ۔ بزرگوں و چھوٹے بچوں کو خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ احتیاط کریں ۔ بس ۔
در حقیقت یہ بیماری ففتھ جنریشن وار میں ایڈیشن ہے ، بائیو لاجیکل ہتھیار ، ٹرائیکا کے سربراہ یہودی زائیونسٹ کی ایجاد ہے ، مقاصد خوف و ہراس پھیلا کر ، مضبوط ممالک کی معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجانی ، چین سب سے بڑا خطرہ تھا ، اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، چین سنبھل جاۓ گا ، جس ملک سے خطرہ ہو گا کرونا وائرس وہیں کا رخ کرے گا ، خوف پھیلایا جاۓ گا ، ملک کو تنہا کر کے معیشت تباہ کی جاۓ گی ، پھر دوا ساز کمپنیز کے زریعے پیسہ کمایا جاۓ گا کہ کرونا کی ویکسین آ گئی ہے ، مہنگی ترین ہوگی ۔ ۔ ۔ فضول میں پینک نہ پھیلائیں ، کچھ نہیں ہے ، کچھ بھی نہیں ہے ، بس خوف ہے ، جسے پھیلانے میں یہودی زائیونسٹ کامیاب ہو گیا ہے ، پوری دنیا کی معیشت ھل گئی ہے مگر اسرائیل میں کچھ نہیں ہے ، جس شخص کو اقتدار سے الگ کرنا چاہتے ہیں ، اسے کوئی نا کوئی آ کر کرونا لگا جاتا ہے ، ٹرمپ کو اسکی بیٹی کو کوئی ہاتھ ملا گیا ، کرونا ہو گیا ، کچھ نہیں ہے بھائی ۔ ۔ ۔ صرف خوف ۔ایک بڑی زبردست پوسٹ ہاتھ لگی سوچا دوستوں سے شیئر کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ یوں بھی میسجز بہت زیادہ آ رہے ہیں کرونا پر لکھیں ۔ ۔ ۔ مت ڈرو ، کچھ نہیں ہے ، حکومت کے فیصلوں کا ساتھ دو ، نفی کرو ہر اس بندے کی جو پاکستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد کاؤنٹ کر رہا ہے ، الحمدلللہ پاکستان کورونہ سے محفوظ ملک ہے ۔ ۔ ۔ اپنی ملکی معیشت کو بچاؤ ۔ ۔ ۔ بیوقوف نا بنو ۔ ۔ ۔ میرے باقاعدہ قارئین جانتے ہیں اس پر بہت لکھا ہے ۔ اس کو اسٹڈی کرو ۔ بس یہی حقائق ہیں ، کرونا کے حوالے سے ۔ ۔ ۔ اور کچھ نہیں ۔ ۔ ۔
بیماری کا نام : سارس
علامات: سانس لینے میں دشواری
انفیکشن کے بعد مرنے کے امکانات : 36٪
بیماری کا نام : زیکا
علامات : جوڑوں کا درد اور جلد کی خارش
انفیکشن کے بعد مرنے کے امکانات : 20٪
وائرس کا نام : ایبولا
علامات : کمزوری اور بخار
موت کا امکان : 90٪
نام : ماربرگ بخار
ہاضمہ کی پریشانیوں کے سبب 10 دن بعد موت
انفیکشن کے بعد مرنے کا 88٪ امکان ۔
نام : نپاہ
ذہنی الجھن کے بعد موت
انفیکشن ہونے کے بعد مرنے کے امکانات : 75٪
نام : کریمین کانگو بخار
منہ ، ناک سے خون نکلنا
انفیکشن کے بعد مرنے کے امکانات : 40٪
بیماری کا نام : انفلوئنزا
علامات : جلن اور گلے کی سوزش
انفیکشن کے بعد مرنے کے امکانات : 13٪
بیماری کا نام : کورونا
علامات: سانس کی نالی میں انفیکشن
انفیکشن کے بعد مرنے کے امکانات : 3٪
جتنا ہوسکے اس کو شیئر کریں ۔ کرونا سے مرنے کی بڑی وجہ انسان کا خوف زدہ ہونا ہے۔اس لئے کہ اگر صحت مند انسان بھی خوف زدہ ہوجائے تو وہ مرجائے گا ۔ ۔ ۔ پاکستان اللّه کے فضل سے محفوظ ہے ۔ ۔ ۔
آغا عاطف خان ۔


March 10, 2020

AURAT Ki MARZI, عورت کی مرضی اور اسلام



عورت  کی مرضی💚

میں نے تو عورت کی مرضی کو اس دن تسلم کیا ہوا تھا جب میری بیوی کہنے لگی... آج ہم دنیا کی بلند ترین بلڈنگ " برج خلیفہ" دیکھنے جا رہے ہیں ... میں نے کہا جی ضرور.... انہوں نے اپنی مرضی سے کالے رنگ کا عبایا پہن کر مکمل حجاب کیا ہوا تھا وہاں پہنچ کر تقریباً زیادہ تر عورتیں نیم برہنہ لباس میں ملبوس تصویریں بنا رہیں تھیں اور ہم دونوں تب سب لوگوں کی توجہ کا محور بن گئے جب ان کی مرضی سے ہم نے بھی سیلفیاں بنانا شروع کیے... اتنے میں ایک آسٹریلین خاتون میرے پاس آکہ کہنے لگی....
Wow ، what a nice couple, can I take a picture with your wife?
کیا میں آپ کی بیوی کے ساتھ ایک تصویر بنا سکتی ہوں؟

میں نے  شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا...
Why not, but it's up to her
ہاں اگر ان کی مرضی ہو.... وہ حیران رہ گئی اور کہنے لگی
A bearded pakistani man says like this?
ایک داڑھی والا مسلمان پاکستانی مرد یہ کہتا ہے 🤔
میں نے کہا جی.... میں یہاں ان کی مرضی سے آیا ہوں، لباس اور حجاب بھی  انہوں نے اپنی مرضی سے کیا ہوا ہے اور آپ کے ساتھ تصویر بھی یہ اپنی مرضی سے بنوائے گی.... انہیں عجیب لگا اور کہنے لگی...
It's mean you have given her the full freedom,
اس کا مطلب ہے اپ انہیں مکمل آزادی دے چکے ہو ،
میں نے ہنستے ہوئے کہا...
Of course, I have given her complete freedom within the realm of Islam and morality,
جی بالکل ، میں اسلام و أخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے انہیں مکمل آزادی دے چکا ہوں،
پھر پوچھنے لگی...
Does your religion allow women to come here?
کیا آپ کا مذہب عورتوں کو یہاں آنے کی اجازت دیتا ہے؟
میں نے کہا...
Yes why not? Islam has never banned the tourism,
کیوں نہیں ، اسلام نے کبھی سیر و سیاحت پر پابندی نہیں لگائی ہے،
وہ بہت متاثر ہوئی اور کہنے لگی
 can we sit here for a  few minutes?
کیا ہم چند منٹوں کے لیے یہاں بیٹھ سکتے ہیں؟
میں نے کہا جی ضرور.. پلیز have a seat... پھر ہم نے عورتوں کے حقوق بارے بہت باتیں کیے... سب سے زیادہ جس بات نے انہیں متاثر کیا  وہ یہ تھی کہ میری بیوی نے کہا کہ دیکھیں.... دنیا میں سب سے زیادہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کے حقوق پورے کررہے ہیں تو وہ صرف ہمارے ہی مرد ہیں... جیسا کہ اب چند لمحے پہلے میں  اپنی مرضی سے ساتھ والے شاپنگ مال یعنی " دبئ مال" میں 17 ہزار درھم کی شاپنگ اپنے شوہر کی پیسوں سے کرکہ آئی ہوں.. میرا نان نفقہ، میری علاج معالجہ... میرے ذاتی اخراجات سمیت میرے عزیز و اقارب پر بھی بعض أوقات خرچہ میرا شوہر ہی کررہا ہے... نہ میں جاب کرتی ہوں... نہ میرا ذاتی کوئی بزنس ہے بلکہ میرے شوہر کا سب کچھ میرا ہی ہے.... اور ان سے پوچھنے لگی...
Do you have a system like us?
کیا آپ کا بھی ہماری طرح نظام ہے؟
وہ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بولنے لگی....
No, we are all earning our living and spending our own, we do not rely on anyone else,
نہیں ، ہم سب اپنا کما کر اپنا ہی خرچ کررہے ہیں اور کسی اور پر انحصار نہیں کرتے،
میری وائف کہنے لگی... پھر آپ ہی بتا دیں کہ ہمارے مرد عورتوں کو زیادہ حقوق دے رہے ہیں یا کہ آپ کے؟
وہ آسٹریلین خاتون کہنے لگی اگر آپ کے سارے مرد آپ کی شوہر کے طرح ہیں تو پھر بعض پاکستانی خواتین میڈیا پر کیوں یہ پروپیگنڈہ کررہی ہیں کہ ہمیں ہمارے حقوق نہیں مل رہی ہیں؟
وہ کہنے لگی.. بدقسمتی سے ہمارے میڈیا پر ایسے سیکولر لوگ قابض ہیں جو ہمیشہ حقائق کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں ہم یہ نہیں کہتے... کہ سب مرد میرے شوہر کی طرح اچھے ہیں لیکن میں یہ بھی نہیں مانتی کہ پاکستان میں عورتوں کو ان کے حقوق  نہیں مل رہے ہیں!!!

💖

copied

March 09, 2020

زنا کی اتنی سخت سزا کیوں Why is adultery so severe


زنا کی اتنی سخت سزا کیوں؟
کئی بار ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ شریعت میں صرف زنا کی سزا ہی اتنی سخت کیوں رکھی گئی.
یہاں جب قرآن کی طرف رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ جہاں صرف اللہ کے حق کا معاملہ ہوتا ہے تو اللہ نرمی کا رویہ اپناتے ہیں اور جہاں بندے کا حق اللہ کے حق سے مل جائے تو اللہ پاک سختی اختیار کرتے ہیں.
دو افراد کے زنا کے متاثرین دو فرد ، دو خاندان، دو قومیں، دو گروہ یا دو قبیلے نہیں بلکہ پوری امت ہے.
زنا کی سزا یوں بھی اپنی شدت میں بڑھ کر ہے کہ یہ چھپ کر نہیں بلکہ سرِعام مجمع میں دینی ہے.
اور ہر پتھر جسم پر ایک زخم بنائے گا جب تک جان نہ نکل جائے اس میں حکمت یہ ہے کہ جیسے اس گناہ کے عمل میں اس کے جسم کے ہر ٹشو  نے لطف اٹھایا تو اب موت بھی لمحہ لمحہ اور پل پل کی اذیت کے بعد آئے یعنی زانی جب تک اپنے خون میں غسل نہ کرے، اس کی توبہ قبول نہ ہوگی
مگر کیا اللہ پاک اتنے بے انصاف ہیں کہ ایک گناہ کی اتنی بڑی سزا رکھ دی مگر اس سے بچنے کی کوئی ترکیب یا طریقہ نہ سکھایا؟ ایسا نہیں ہے...
اللہ تعالٰی نے اس امت کو اپنے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے واسطے سے قرآن و حدیث کے ذریعے اس گناہ سے بچنے کے لیے پورا پلان پیش کیا ہے. احکامات کی پوری لسٹ ہے. مکمل فہرست ہے.
آئیں ان سب کا جائزہ لیں
پہلا حکم:
استیذان یعنی اجازت طلب کرنا
کسی کے گھر یا کمرے میں بلا اجازت مت جاؤ.
بھائی بہن کے ، باپ بیٹی کے ، ماں بیٹے کے کمرے میں جانے سے پہلے اجازت طلب کریں.
شریعت اس طرح ہمیں سکھا رہی ہے.
اور آج اس حکم پر عمل نہ کرنے سے محرم رشتوں میں بھی خرابی آ رہی ہے
گھر میں دو حصے رکھیں
 پرائیویٹ رومز یعنی ذاتی
 کامن رومز یعنی عام
پرائیویٹ کمروں میں محرم اجازت لیکر جائیں اور اجنبی بالکل مت جائیں.
تاکہ ایک دوسرے کو نامناسب حالت میں نہ دیکھ لیں.  یعنی ڈرائنگ روم وغیرہ میں مرد ہی مردوں کو سرو کریں۔
عورتیں بالکل مت سرو کریں چاہے کزنز ہوں یا سسرالی رشتہ دار.
مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کزنز کھلم کھلا فی میل کزنز کے کمروں میں جاتے ہیں ، چھیڑ خانی ہو رہی ہوتی ہے ، ہنسی مذاق اور آؤٹنگ چل رہی ہوتی ہے
اور اسی دوران شیطان اپنا وار کر دیتا ہے .
عورتیں یاد رکھیں مرد زبردست اور عورت زیردست ہوتی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی عورت پاک رہنا چاہے اور مرد اس کو پاک نہ رہنے دے؟
دوسرا حکم
نظر کی حفاظت نظروں کو نیچا رکھیں اور اپنی حیا کی حفاظت کریں.
یہ حکم مرد عورت دونوں کے لئے ہے.
عورتوں کی شادی بیاہ اور مردوں کی بازاروں میں اکثر نظر بہکتی ہے. کوئی مہمان آئے تو عورتیں جھانکتی تاکتی ہیں. باپ، بھائیوں کے دوستوں سے ہنس ہنس کر ملنا اور  کھانے پینے کی اشیاء سرو  ہو رہی ہوتی ہے.
جبکہ شریعت تو دیکھنے سے بھی منع کر رہی ہے.
مردوں، عورتوں کی یہ عادت شادی بیاہ میں کھل کر سامنے آتی ہے جب بے حیائی اپنے عروج پر ہوتی ہے.
دو اندھے اگر آمنے سامنے بیٹھے ہیں تو انکو نہیں معلوم کہ سامنے والا کیسا ہے ، کتنی عمر کا ہے.؟
مگر شریعت ایک بینا اور اندھے کو بھی آمنے سامنے بیٹھنےسے منع کرتی ہے جیسا کہ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ والی حدیث سے ثابت ہے.
عورتوں اور مردوں کو کئی بار مجبوری میں بات بھی کرنی پڑتی ہے جیسے بازار وغیرہ میں.
تب شریعت چہرے پر نظر ڈالنے سے منع کرتی ہے. صرف پردہ کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ نظر بھی جھکانی ہے.
امام غزالی فرماتے ہیں،
“نظر سوچ کے اندر تصویر لے جاتی ہے، یہ تصویر خواہش میں بدل جاتی ہے اور پھر یہی خواہش بے حیائی کا راستہ دکھاتی ہے. “
اگلا حکم: زینت کو چھپانا
پردہ اور چیز ہے اور زینت اور چیز.
عورت کے اعضائے زینت نماز میں چھپانے والے اعضاء ہیں.
کوشش کریں کہ اس فتنہ کے دور میں محرم مردوں سے بھی زینت والے اعضاء چھپائے جائیں.
اپنے سینے اور گریبان کو خصوصاً ڈھانپیے.
مرنے کے بعد اللہ تعالٰی چار کپڑوں میں عورت کو ڈھانک کر قبر میں بھیجنے کا کہتا ہے.
ہم عورتوں نے زندگی میں دو کپڑوں کا لباس معمول بنا لیا ہے کہ اب تو بوتیکس بھی دوپٹے آرڈر پہ تیار کرتی ہیں.
کیونکہ آج عورتیں تین کپڑے بھی پہننے پر راضی نہیں.
مسلمان عورت کا غیر محرم عورت اور غیر مسلم عورت سے بھی نماز والا پردہ ہے.
یعنی سوائے چہرے، دونوں ہاتھ اور پاؤں کے باقی جسم چھپانا ہے.
مگر یہاں تو ویکس بھی کروائی جاتی ہے اور فیشلز بھی.
مرد حضرات پبلک یا گھر میں شارٹس نہیں پہن سکتے.
گھر کے مرد حیا دار ہوں گے تو گھر کی عورتیں بھی اپنی حیا کو مقدم رکھیں گی.
ورنہ سب سے پہلے بگاڑ گھروں کے ماحول سے شروع ہوتا ہے.
ماؤں اور بہنوں کے نامناسب لباس گھر کے مردوں میں حیا کی کمی کی وجہ بنتے ہیں.
یاد رکھیں
“جب عورت نے اپنے ستر کا خیال نہ رکھا تو محرم محرم کا دشمن بن گیا.
جب اللہ کی مقرر کردہ حدود و قیود کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو باپ بیٹیوں کو خود پہ حلال کر لیں گے اور بھائی بہنوں کو خود پر حلال کر لیں گے اور بہنوئی سالیوں کو اور سالیاں بہنویوں کو حلال کر لیں گے
” خدارا اپنے گھروں سے فسق کا ماحول ختم کریں.
اگلا حکم:
بیوہ اور مطلقہ کا نکاح
ان کے نکاح کا مقصد معاشرے کو پاک رکھنا ہے.
کیونکہ بیوہ یا مطلقہ ازدواجی زندگی کے دور سے گزر چکی ہوتی ہے اور ان کے نکاح میں تاخیر یا انکار معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے.
یہ حکم اس مرد کے لیے بھی ہے جس کی بیوی مر جائے یا وہ طلاق دے دے.
یاد رکھیں
شادی پر اصرار وہی مرد کرتا ہے جو پاک رہ کر صرف بیوی سے سکون حاصل کرنا چاہے.
ورنہ معاشرہ بھرا ہوا ہے ایسے غلیظ لوگوں سے جو شادی کو بوجھ سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں اس بوجھ کو گلے میں ڈالے بنا بھی سب کچھ مل رہا ہوتا ہے.
اللہ تعالٰی نے اجازت دی ہے کہ ایک سے خواہش پوری نہیں ہوتی تو دو شادیاں کرلو. تین کرلو ، چار کرلو
اور اس میں بیوی کی اجازت بھی شرط نہیں ہاں بیوی کے حقوق پورے کرنا فرض ہے مگر کیا کریں آج کے اخلاقی طور پر دیوالیہ معاشرے کا
کہ جو گرل فرینڈز تو دس دس برداشت کر لیتا ہے مگر بیوی ایک سے دو نہیں.
اسی طرح بیوہ یا مطلقہ کی شادی پہ ایسے ایسے بےشرم تبصرے اور اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ.
نکاح میں تاخیر نہ کی جائے
ہم گھروں میں کیبل لگوا کر ، کھلی آزادی دے کر ،
کو ایجوکیشن میں پڑھا کر پھر اپنے بچوں سے رابعہ بصری اور جنید بغدادی بننے کی توقع کریں تو ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں.
دو جوان لڑکا لڑکی جب سکول کالج یونیورسٹی کے آزاد اور “روشن خیال” ماحول میں پڑھیں گے تو انکو تعلق بنانے سے کون روکے گا؟
جب گھروں میں دینی تربیت نہ ہو ، مائیں سٹار پلس کے ڈراموں اور واٹس ایپ اور فیس بک اور کپڑوں کی ڈیزائننگ فیشن میں مگن رہتی ہوں،
اولاد کی سرگرمیوں اور ان کی صحبت سے ناواقف ہوں تو جیسی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی ہیں وہ بعید نہیں.
مگر ہمیں تو یہ سکھایا جاتا ہے کہ جب نظروں میں حیا ہو تو پردے کی ضرورت نہیں.
اس کا تو یہ مطلب بھی بنتا ہے کہ جب نظروں میں حیا ہو تو پھر کپڑوں کی بھی ضرورت نہیں.
یہ اللہ کا اپنے محبوب کی امت پہ خاص احسان ہے کہ اس نے ہم میں پچھلی قوموں کے تمام گناہ دیکھ کر بھی ہمیں غرق نہیں کیا.
ورنہ بنی اسرائیل کے لوگ تو بندر بھی بنائے گئے اور خنزیر بھی.
توبہ کے دروازے بند نہیں اور نہ ہی رب کی رحمت مدھم ہو گئی ہے.
جب اللہ کی محبت اور ایمان کی روشنی دل میں آجاتی ہے تو یہ “ نورٌ علی نورٌ ” ہے
اب ایسے دل میں بےحیائی داخل نہیں ہو سکتی.
ایمان کا نور لینا ہے؟
تو سٹڈی کریں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی اجمعین کو ایمان کیسے ملا
قرآن مجید اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ کو پڑھیں سمجھیں اور اس پر عمل کریں
اور دین دار نیک صالح لوگوں کی صحبت اختیار کریں
سچی توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اختیار کریں تو ان شاء اللہ تعالیٰ دلوں کی بے چینی سجدوں کے سرور میں بدل جائے گی .
اور آج میڈیا اور معاشرہ ہمارے ایمان دین اور آخرت کی کامیابی کو بڑی تیزی سے نگلتا جا رہا ہے
آج ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس رب العزت کے غلام ہیں یا اپنے نفس کے۔
اگر آخرت کی فلاح چاہیے تو اللہ تعالیٰ کی غلامی میں پناہ لے لیں
اللہ تعالیٰ
ہم سب کو دین کو سمجھنے کی اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین ثم آمین

March 05, 2020

Priest of the male goose مرد ھوّس کا پجاری


*بانو قدسیہ کا دل ہلا دینے والا مضمون *
*مرد ھوّس کا پجاری*
*جب عورت مرتی ھے اس کا جنازہ مرد اٹھاتا ھے۔ اس کو لحد میں یہی مرد اتارتا ھے*
*پیدائش پر یہی مرد اس کے کان میں اذان دیتا ھے۔*
*باپ کے روپ میں سینے سے لگاتا ھے بھائی کے روپ میں تحفظ فراہم کرتا ھے اور شوہر کے روپ میں محبت دیتا ھے۔*
*اور بیٹے کی صورت میں اس کے قدموں میں اپنے لیے جنت تلاش کرتا ھے*
*واقعی بہت ھوس کی نگاہ سے دیکھتا ھے*
*ھوس بڑھتے بڑھتے ماں حاجرہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صفا و مروہ کے درمیان سعی تک لے جاتی ھے*
*اسی عورت کی پکار پر سندھ آپہنچتا ھے*
*اسی عورت کی خاطر اندلس فتح کرتا ھے۔ اور اسی ھوس کی خاطر 80% مقتولین عورت کی عصمت کی حفاظت کی خاطر موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ واقعی ''مرد ھوس کا پجاری ھے۔''*
*لیکن جب ھوا کی بیٹی کھلا بدن لیے، چست لباس پہنے باہر نکلتی ھے اور اسکو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ھے تو یہ واقعی ھوس کا پجاری بن جاتا ھے*
*اور کیوں نا ھو؟*
*کھلا گوشت تو آخر کتے بلیوں کے لیے ھی ھوتا ھے۔*
*جب عورت گھر سے باھر ھوس کے پجاریوں کا ایمان خراب کرنے نکلتی ھے۔ تو روکنے پر یہ آزاد خیال عورت مرد کو "تنگ نظر" اور "پتھر کے زمانہ کا" جیسے القابات سے نواز دیتی ھے کہ کھلے گوشت کی حفاظت نہیں کتوں بلوں کے منہ سینے چاہیے ھیں*
*ستر ہزار کا سیل فون ہاتھ میں لیکر تنگ شرٹ کے ساتھ پھٹی ھوئی جینز پہن کر ساڑھے چارہزار کا میک اپ چہرے پر لگا کر کھلے بالوں کو شانوں پر گرا کر انڈے کی شکل جیسا چشمہ لگا کر کھلے بال جب لڑکیاں گھر سے باہر نکل کر مرد کی ھوس بھری نظروں کی شکایت کریں تو انکو توپ کے آگے باندھ کر اڑادینا چاہئیے جو سیدھا یورپ و امریکہ میں جاگریں اور اپنے جیسی عورتوں کی حالت_زار دیکھیں جنکی عزت صرف بستر کی حد تک محدود ھے*
*"سنبھال اے بنت حوا اپنے شوخ مزاج کو*
*ھم نے سرِبازار حسن کو نیلام ھوتے دیکھا ھے"*
*مرد*
*میں نے مرد کی بے بسی تب محسوس کی جب میرے والد کینسر سے جنگ لڑ رہے تھے اور انھیں صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ جو کچھ انھوں نے اپنے بچوں کے لئے بچایا تھا وہ ان کی بیماری پر خرچ ہورہا ھے اور ان کے بعد ھمارا کیا ھوگا؟ میں نے مرد کی قربانی تب دیکھی جب ایک بازارعید کی شاپنگ کرنے گئی اور ایک فیملی کو دیکھا جن کے ھاتھوں میں شاپنگ بیگز کا ڈھیر تھا اور بیوی شوہر سے کہہ رھی تھی کہ میری اور بچوں کی خریداری پوری ھوگئی آپ نے کرتا خرید لیا آپ کوئی نئی چپل بھی خرید لیں جس پر جواب آیا ضرورت ہی نہیں پچھلے سال والی کونسی روز پہنی ھے جو خراب ھوگئی ھوگی، تم دیکھ لو اور کیا لینا ھے بعد میں اکیلے آکر اس رش میں کچھ نہیں لے پاؤں گی۔ ابھی میں ساتھ ھوں جو خریدنا ھے آج ھی خرید لو۔*
*میں نے مرد کا ایثار تب محسوس کیا جب وہ اپنی بیوی بچوں کے لئے کچھ لایا تو اپنی ماں اور بہن کے لئے بھی تحفہ لایا، میں نے مرد کا تحفظ تب دیکھا جب سڑک کراس کرتے وقت اس نے اپنے ساتھ چلنے والی فیملی کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے خود کو ٹریفک کے سامنے رکھا۔ میں نے مرد کا ضبط تب دیکھا جب اس کی جوان بیٹی گھر اجڑنے پر واپس لوٹی تو اس نے غم کو چھپاتے ھوئے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ابھی میں زندہ ھوں لیکن اس کی کھنچتی ہوئے کنپٹیاں اور سرخ ھوتی ھوئی آنکھیں بتارھی تھیں کہ ڈھیر تو وہ بھی ھوچکا، رونا تو وہ بھی چاہتا ہے لیکن یہ جملہ 
کہ مرد کبھی روتا نہیں ھے اسے رونے نہیں دیگا۔

مرد ظلم کرتا ہے جو اپنی بیٹی ، بہن کو جائیداد مین سے حصہ نہیں دیتا جس کا
 جواب اُسے قیامت والے دن اپنے پروردگار کو دینا ہوگا۔
Copied.

فرانس کی ایک فیکٹری میں کام کرنے والے پاکستانی کے ساتھ
خواتین اور مرد حضرات بھی کام کرتے ہیں
فیکٹری میں 50 سال کی ایک فرنچ خاتون
اک دن اسے کہنے لگی
کہ
سنا ہے تم پاکستان کے لوگ
عورتوں کے حقوق نہیں دیتے
انہیں
گھر میں بند رکھتے ہو
اور
کام بھی نہیں کرنے دیتے
نوجوان نے عورت سے سوال کیا کہ
آپ کو کام کرتے کتنا عرصہ ہو گیا
جواب ملا
جب میں 18 سال کی تھی تب سے نوکری کر رہی ہوں
جواب میں
پاکستانی ماں کے بیٹے
نے کہا کہ
آپ گھر کا کام بھی کرتی ہیں جاب بھی کرتی ہیں
اور آپ کی عمر بھی کافی ہو گئی
جبکہ ہمارے ہاں
غالب اکثریت کے گھرانوں میں
جب بیٹی پیدا ہوتی ہے
تو بچپن سے لے کر
جب تک اس کی شادی ہوتی ہے
اس وقت تک
اس کے اس لڑکی کے والد اور بھائی اپنی اس بیٹی
کو
اللہ کی رحمت قرار دیتے ہوئے
اپنی
آنکھوں کا تارا بنا کر رکھتے ہیں
اس کی عزت و عصمت کی پوری طرح
حفاظت کرتے ہیں
اس کی ضرورتیں اور فرمائشیں پوری کرتے ہیں
اور
جب اس کی شادی کر دیتے ہیں
تو وہ اپنے شوہر کی ذمہ داری بن جاتی ہے
اب اس کی تمام خواہشات اور ضروریات اس کا شوہر پوری کرتا ہے
اور جب وہ آپ کی عمر میں پہنچ جاتی ہے
تو
تب
اس کے بیٹے اور بیٹیاں
اس کو
اپنی جنت کہہ کے پکارتے ہیں
اور اپنے حالت اور
پوزیشن کے مطابق اس کی
خدمت کرتے ہیں
ہمارے ہاں
اس عمر میں
عورت کو
آپ کی طرح اس عمر میں کام کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی
لہذا
کیا
اسے حقوق نہ دینا کہتے ہیں
اور
کیا گھر میں بند رکھنا کہتے ہیں
یہ ہمارا مسلم معاشرہ ہے
یہ ہمارے دین کی تعلیمات اور تربیت ہے
اور یہی ہمارے رسم و رواج ہیں
فیکٹری کا وقت ختم ہو گیا اور
وہ خاتون چلی گئی
دوسرے دن اپنی ڈیوٹی
پر آ کر
اس خاتون نے بتایا
کہ وہ ساری رات سو نہیں سکی
کہ کیا کوئی ایسا معاشرہ بھی ہے
جہاں عورت کو پیدائش سے لے کر موت کے وقت تک
اتنی عزت دی جاتی ہو

Total Pageviews