May 28, 2018

Aafia Siddiqui Case: Ground Reality by Inam Rana





 عافیہ کیس؛ دستاویزی حقائق کیا ہیں۔۔ 

تحریر انعام رانا بیرسٹر یو ۔کے۔



پاکستان میں جن معاملات میں شدید کنفیوژن موجود ہے ان میں ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس بھی ہے۔ عافیہ کی گمشدگی، پھر گرفتاری اور سزا نے اس کیس کو ہمیشہ ہی بحث طلب رکھا۔ ایک طبقہ کے لئیے عافیہ پاکستان کی بیٹی ہے اور اس پہ ہر الزام غلط تو دوسری جانب ایک طبقے کیلئے وہ فقط اک دہشت گرد اور سزا بالکل درست۔ عافیہ کیس میں اک بڑی رکاوٹ اس کے کیس ڈاکیومنٹس تک دسترس نا ہونا اور محض افواہوں اور اخباری رپورٹوں پہ بھروسہ ہے۔ محترم اعجاز اعوان کی تحریک پر میں نے کچھ کوشش کی ہے۔ یہ مضمون میرے لکھنے کے سٹائل سے مختلف ہے اور طویل بھی، مگر مجھے یقین ہے کہ اس سے کئی مفروضات درست یا غلط ثابت ہوں گے اور معاملات کی کافی حد تک وضاحت ہو گی۔ میں اپنی کولیگ اٹارٹی سیمون وائٹ کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے کچھ ڈاکیومنٹس تک رسائی اور امریکی لیگل سسٹم کو سمجھنے میں میری مدد کی۔ آخر میں لنکس موجود ہیں۔ میری گزارش ہے کہ مضمون اگر کہیں ری پرڈیوس کیا جایے تو مکمل حوالے کے ساتھ کیا جایے۔
عافیہ کون ہے؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلق کراچی سے تھا۔ والدین اسلامی ذہن کے تھے اور سابق صدر ضیا الحق کے حلقے میں گنے جاتے تھے۔ عافیہ ایک ذہین طالبہ تھی اور سن نوے میں امریکہ چلی گئیں جہاں انکا بھائی پہلے ہی موجود تھا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ میں نیورو سائنسز میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ سن پچانوے میں ڈاکٹر امجد خان سے عافیہ کی شادی ہوئی۔ عافیہ دوران قیام اسلامی موومنٹس اور فلسطین، بوسنیا اور کشمیر کاز کے ساتھ منسلک تھیں اور بہت ایکٹو سپورٹر تھیں۔ سن چھیانوے میں عافیہ کا پہلا بیٹا احمد پیدا ہوا۔
ڈاکٹر امجد کے بیان کے مطابق عافیہ کے خیالات میں شدت پسندی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ شادی کے فقط چھ ماہ بعد ہی انہوں نے اپنے خاوند کو مجبور کیا کہ فیملی بوسنیا شفٹ ہو جسے امجد نے سختی سے رد کر دیا۔ عافیہ اس دوران کب القاعدہ سے منسلک ہوئیں؟ یہ ابھی تک دھند میں ہے۔ البتہ نو گیارہ کے حملوں کے بعد عافیہ نے اپنے خاوند پہ شدید دباو ڈالنا شروع کر دیا کہ افغانستان منتقل ہوا جائے جسے امجد نے پھر رد کیا۔ امجد کے بقول اس پہ عافیہ نے اسے بزدلی کے طعنے دئیے، جہاد کا بھگوڑا قرار دیا اور طلاق کا مطالبہ کیا۔
سن دو ہزار دو میں عافیہ اور اسکے شوہر نے دس ہزار ڈالر مالیت کا ایسا سامان خریدا جو مشکوک تھا۔ اسکے علاوہ عافیہ افریقی ممالک کی فریکوینٹ ٹریولر تھیں۔  اس سامان  میں دوربینز اور دیگر ملٹری سٹائل سامان شامل تھا۔ ایف بی آئی نے مئی دو ہزار دو میں دونوں میاں بیوی کو ہولڈ کر کے انٹرویو کیا مگر امجد نے بیان دیا کہ یہ سامان اس نے شکار کیلئے خریدا ہے۔ شاید اس نے ایسا عافیہ کو بچانے کیلئیے کیا ہو کیونکہ کچھ ہی ماہ بعد اگست میں کراچی میں دونوں کی طلاق ہو گئی جب کہ عافیہ تیسرے بچے سلیمان سے حاملہ تھی جو طلاق کے دو ہفتے بعد پیدا ہوا۔
پچیس دسمبر دو ہزار دو کو عافیہ اپنے تینوں بچے ماں کے پاس چھوڑ کر امریکہ چلی گئی۔ عافیہ اور اسکے خاندان کا کہنا ہے کہ عافیہ نوکری دھونڈنے گئی تھی (ایک چار ماہ کا بچہ چھوڑ کر۔ایڈیٹر)۔ ایف بی آئی کے پیش کردہ ریکارڈ کے مطابق عافیہ دس دن امریکہ رہی اور اس نے ماجد خان نامی شخص کے نام سے پوسٹ باکس کھولا جو کہ القاعدہ کا رکن تھا۔ اسی نے عافیہ کو ایف بی آئی ریڈار پہ الرٹ کر دیا۔ ایسا کوئی ریکارڈ دونوں جانب سے موجود نہیں جو ثابت کرے کہ ان دس دنوں میں عافیہ نے کوئی جاب انٹرویو دیا۔
عافیہ کی دوسری شادی:
طلاق کے فقط چھ ماہ بعد، امریکہ سے واپسی پر عافیہ نے عمار البلوچی یا البلاچی سے شادی کی۔ یہ عمار نو گیارہ کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کا بھانجا تھا۔ اگرچہ عافیہ کی فیملی اسکی تردید کرتی ہے لیکن خالد شیخ کے فیملی ذرائع، پاکستانی اور امریکی ایجنسیاں اس شادی کی تصدیق کرتی ہیں۔ حیران کن موڑ تھا جب امریکی عدالت میں کیس کے دوران ایف بھی آئی نے جو انٹرویو رکارڈز پیش کئیے، اس میں عافیہ نے خود بھی اس شادی کو تسلیم کیا۔ رپورٹس کے مطابق عمار مارا جا چکا ہے۔
عافیہ کی گمشدگی:
مارچ دو ہزار تین میں ایف بی آئی نے عافیہ اور انکے سابق شوہر امجد خان کے خلاف گلوبل الرٹ جاری کر دیا۔ اس موقع پہ عافیہ غائب ہو گئیں۔ امجد کو ایف بی آئی نے انٹرویو کیا مگر بعد ازاں رہا کر دیا۔
عافیہ کی گمشدگی انتہائی پراسرار ہے۔ عافیہ کی فیملی کے مطابق وہ تینوں بچوں سمیت ایئرپورٹ گئی تھی اور پھر گمشدہ ہو گئی۔ ایک شبہ یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ پاکستانی ایجینسیوں نے اسے گرفتار کیا اور پھر ایف بھی آئی کے حوالے کر دیا۔
عافیہ کے سابقہ شوہر امجد خان کی گواہی البتہ بالکل مختلف ہے۔ انکے مطابق وہ مسلسل،اپنے بچوں کی وجہ سے، عافیہ کے گھر پہ نظر رکھتے رہے تھے اور عافیہ کئی بار باہر نکلتی دیکھی گئی۔ اسکے علاوہ عافیہ کے ایک ماموں، شمس الحسن فاروقی بھی گمشدگی کے عرصہ میں اس سے اسلام آباد میں ملاقات کی گواہی دے چکے۔ انکے مطابق وہ دو ہزار آٹھ میں ان سے ملی اور بتایا کہ وہ کئی بار گرفتار ہوئی اور اب اس شرط پہ آزاد ہے کہ پاکستان میں القاعدہ گروپس میں ایجنسیوں کی رسائی یقینی بنائے۔ صدیقی کے بقول وہ ان پہ زور دیتی رہی کہ اسے کسی طور افغانستان سمگل کروا دیں تاکہ وہ طالبان تک پہنچ جائے۔ تیسرے دن عافیہ پھر غائب ہو گئی۔
عافیہ نے افغانستان میں مبینہ گرفتاری کے بعد جو بیان دئیے اس میں بھی اپنی روپوشی کو بیان کیا۔
اس دوران برطانوی نومسلمہ صحافی ایوان رڈلی نے اس ایشو کو اٹھایا اور کہا کہ بگرام ایئر بیس پہ موجود ایک قیدی خاتون دراصل عافیہ ہے۔
عافیہ اس دوران کہاں رہی؟ یہ ایک راز ہے جسکی حقیقت سے اب تک پردہ نہیں اٹھ سکا۔ عافیہ کے دو بچے کہاں گئے؟ یہ بھی دھند کے پردے کے پیچھے ہے۔ اس راز سے پردہ شاید ایک بچہ اٹھا سکتا ہے، عافیہ کا بڑا بیٹا احمد۔ لیکن عافیہ کی فیملی اسے کسی صورت میڈیا کے سامنے نہیں آنے دیتیں اور نا ہی یہ بتانے دیتی ہیں کہ گمشدگی کے یہ سال وہ کہاں تھے۔
عافیہ کی مبینہ گرفتاری
کورٹ میں جمع کرائے گئے ڈاکیومنٹس کے مطابق سترہ جولائی دو ہزار آٹھ کو عافیہ کو غزنی میں گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے اسکے پاس سے کچھ کاغذات برآمد کئیے جن پہ امریکی ٹارگٹس پر حملوں کے متعلق نوٹس تھیں۔ اسکے ساتھ ایک بچہ بھی موجود تھا۔ افغان اتھارٹیز نے اس صورتحال میں امریکی اتھارٹیز کو آگاہ کیا جو افغان نیشنل پولیس کے کمپاونڈ میں اسکا انٹرویو کرنے آئے۔ ریکارڈ کے مطابق تب تک امریکنوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ گرفتار شدہ عورت عافیہ ہے۔
عافیہ کا مبینہ حملہ اور الزامات:
کورٹ ڈاکیومنٹس کے مطابق اٹھارہ جولائی کی سویر امریکی آرمی کی ایک تین ممبر ٹیم عافیہ کو انٹیروگیٹ کرنے پہنچی۔ ایک افغان  گواہ کے مطابق عافیہ اس سے قبل مسلسل افغان ٹیم کی منت کرتی رہی کہ اسے امریکہ کے حوالے نا کیا جائے۔ امریکی ٹیم ایک نیم روشن کمرے میں پہنچی جہاں  کافی افغان پولیس والے بھی موجود تھے اور انھیں معلوم نہیں تھا کہ عافیہ کو وہاں باندھے بنا رکھا گیا ہے۔ امریکی ٹیم کے بیان کے مطابق انکو لگا کہ انھیں اس کمرے میں گرفتار ملزمہ کے متعلق معلومات دی جائیں گی سو وہ اسلحہ رکھ کر بیٹھ گئے۔ چیف وارنٹ آفیسر نے اپنی بندوق زمین پہ رکھی اور کمرے میں لگے پہلے پردے کے ساتھ کرسی رکھ کر بیٹھ گیا۔ اسی اثنا میں عافیہ نے پردے کی نیچے سے وہ بندوق کھسکا لی اور کمرے میں موجود لوگوں پر تان لی۔ عافیہ نے “اللہ اکبر” کہہ کر فائر کیا جو کسی کو نہیں لگا۔ ایک افغان ترجمان نے عافیہ کو دبوچنے کی کوشش کی اور اسی دوران امریکی فوجی نے اپنے پسٹل سے فائر کیا جو عافیہ کے معدے میں لگا۔ عافیہ اس کے بعد میں قابو میں نہیں آ رہی تھی اور “امریکہ مردہ باد” اور “میں تم سب مادر چودوں کو مار دوں گی” کہ نعرے لگائے۔
ٹیم نے عافیہ کو فورا میڈیکل سنٹر منتقل کیا جہاں انکی سرجری کر کے جان بچائی گئی، خون لگایا گیا۔ انیس جولائی کو عافیہ کو بگرام ایئربیس اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
بگرام ایئر بیس انٹرویو:
بگرام ایئربیس پہ عافیہ ایف بی ائی ٹیم کی زیرنگرانی تھیں۔ انکو ایک بیڈ سے باندھ کر رکھا گیا۔ اس دوران ٹیم نے انکا انٹرویو کیا اور جمع کرائے گئے ڈاکیومنٹس کے مطابق عافیہ نے کہا کہ اس نے بندوق فقط خوفزدہ کر کے بھاگنے کیلئے اٹھائی تھی اور فائر کرنا انکی غلطی تھی۔ چار اگست دو ہزار آٹھ کو عافیہ کو امریکہ منتقل کر دیا گیا جہاں انکے خلاف نیویارک میں کرمنل کیس دائر کیا گیا تھا۔
پاکستان سرکار کا رویہ:
پاکستان سرکار کا رویہ اس پورے کیس میں بہت مثبت رہا۔ عافیہ کو ایک انتہائی اچھی وکلا کی ٹیم فراہم کی گئی، ایکسپرٹ سائکالوجسٹ رپورٹس اور فرانزک رپورٹس ملزمہ کی جانب سے پیش کئیے گئے۔ عافیہ کی فیملی کی رسائی اس تک ممکن بنائی گئی۔ پاکستان سرکار نے اس مقدمہ میں قریب دو ملین ڈالر خرچ کئیے۔
نفسیاتی مریضہ اور ٹرائل:
ٹرائل سے قبل دفاعی ٹیم نے یہ اعتراض داخل کیا کہ عافیہ کی ذہنی حالت اس قابل نہیں ہے کہ وہ ٹرائل سٹینڈ کر سکے۔ عافیہ کے بھائی محمد، اسکے وکیل اور پاکستانی سفارتخانے کے آفیشل کے سامنے عافیہ کی نفسیاتی حالت کا تجزیہ کیا گیا۔ ایک سے زائد سائکولوجسٹ نے رپورٹ پیش کی جس میں سوائے ڈاکٹر لزلی پاورز کے سب نے عافیہ کی نفسیاتی حرکتوں یا علامات کو خود ساختہ قرار دیا۔ بعد ازاں ڈاکٹر لزلی نے بھی اپنی رپورٹ کو ری وزٹ کر کے عافیہ کی علامات کو “میلنگرنگ” قرار دے دیا۔
چنانچہ جج برمن نے چھ جولائی دو ہزار نو کو فیصلہ دیا کہ عافیہ ٹرائل چلانے کیلئیے بالکل فٹ ہے۔
ٹرائل:
ٹرائل شروع ہوا تو کورٹ میں فرانزک رپورٹس جمع کروائی گئیں جنکے مطابق آفیہ کے پاس ملنے والے ڈاکیومنٹس اور نقشوں پہ اسکے فنگر پرنٹ موجود تھے اور نوٹس اسی کی ہینڈ رائیٹنگ میں تھے۔ اسی دوران مختلف گواہان نے اٹھارہ جولائی کے وقوعہ پر اپنے بیانات ریکارڈ کرائے۔ ڈیفینس کا ایک اہم نکتہ تھا کہ عافیہ جیسی ایک عام عورت ایم فور رائفل فائر نہیں کر سکتی۔ پروسیکیوشن نے ثبوت جمع کروایا کہ دوران امریکہ قیام عافیہ نے اسلحہ چلانے کی ٹریننگ لی تھی۔ پروسیکوشن کے اکسپرٹ نے بیان دیا کہ یہ ممکن ہے کہ رائفل فائر ہوئی اور اسکا نشان کہیں نہیں ہے۔ جبکہ ڈیفنس کے ایکسپرٹ نے اس کو لغو قرار دیا کہ رائفل فائر ہوئی اور کسی جگہ گولی کا نشان نہیں ملا۔
عافیہ کا رویہ:
عافیہ کی گواہی سے قبل میں عافیہ کے رویہ پر توجہ دلانا چاہوں گا۔ عافیہ کے روئیے نے یقیناً انکے کیس پہ برا اثر ڈالا۔ عافیہ کا رویہ مسلسل غیر تعاون پہ تھا۔ عافیہ نے گائناکالوجسٹ کو معائنہ کی اجازت سے انکار کر دیا۔ عافیہ نے پری ٹرائل کیس مینیجمنٹ ہییرنگ میں جج کو مخاطب کرتے ہوے کہا “جیوری میں سے تمام یہودی نکالو، وہ میرے خلاف ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ سب یہودی ہیں، انکی جینیٹک ٹیسٹنگ کرو اور اسکی بنیاد پہ جیوری سے نکالو”۔ عدالتی رپورٹر کے مطابق اس موقع پر  جیوری کمرہ عدالت میں نہیں تھی۔ جج رچرڈ برمن نے اس موقع پر پراسیکیوشن سے کہا کہ عافیہ پر موجود سابقہ دہشت گردی یا القاعدہ سے تعلق کے متعلق کسی قسم کی بات جیوری کے سامنے نا کی جائے تاکہ جیوری متعصب نا ہو سکے۔
اگرچہ یہ بات موجود ریکارڈ پہ نہیں ہے لیکن نیو یارک میں موجود میرے ایک ذریعے کے مطابق جج برمن بھی یہودی ہیں۔ گو وہ ایک قابل جج کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن عافیہ کی نسلی نفرت آمیز گفتگو نے جج پر کوئی اثر ڈالا یا نہیں، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو گا۔
اسکے علاوہ عدالت میں ہی عافیہ نے کئی بار اپنے ہی وکلا کو ڈسمس کر دیا۔ عدالت آنے سے انکار کیا۔ کئی بار انکو چیخ و پکار کرنے پر عدالت سے ریموو بھی کیا گیا۔
عافیہ کی گواہی:
عافیہ نے عدالت سے کہا کہ وہ بطور گواہ بیان دینا چاہتی ہیں۔ عافیہ کی ڈیفنس ٹیم نے اسکی شدید مخالفت کی اور کہا کہ انکی نفسیاتی حالت کے پیش نظر انکو گواہی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پراسیکیوشن نے فورا عافیہ کی تجویز سے اتفاق کیا۔ عافیہ کو گواہی سے روکنے کیلئیے پاکستانی سفیر حسین حقانی خود جیل اسپتال پہنچ گئے اور عافیہ کو منانے کی کوشش کی۔ وکلا، حقانی اور فیملی کی کوششوں کے باوجود عافیہ نے بات ماننے سے انکار کر دیا اور گواہی دینے کے فیصلے پر قائم رہیں۔ جج نے فیصلہ دیا کہ عافیہ گواہی کیلئیے فٹ ہیں۔
عافیہ نے اپنی گواہی میں کہا کہ “اٹھارہ جولائی کو وہ پردے کے پیچھے بیٹھی تھیں کہ انھوں نے امریکی آوازیں سنیں۔ انکو خوف محسوس ہوا کہ انکو امریکیو کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے بھاگنے کی نیت سے جائزہ لینا چاہا اور پردے سے جھانکا تو اتنے میں ایک امریکی کی نظر ان پہ پڑی اور وہ چلایا کہ ملزمہ بھاگ رہی ہے اور ان پہ فائر کھول دیا گیا۔”
عافیہ نے اپنی گواہی میں کہا کہ “وہ قطعا دہشت گرد نہیں ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ انکو خفیہ جیلوں میں رکھا گیا اور ٹارچ کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ امن کیلیے کردار ادا کر سکتی ہیں۔  انکا کہنا تھا کہ گرفتاری کے وقت برآمد شدہ بیگ انکا نہیں تھا بلکہ انکو دیا گیا۔ جب عافیہ کو بتایا گیا کہ بیگ میں موجود نوٹس جو حملوں کے ہیں انکی ہینڈ رائیٹنگ میں ہیں تو عافیہ نے کہا “یہ ممکن ہے کہ وہ میری ہینڈ رائیٹنگ میں ہوں”۔
افغانستان مین دی اپنی اعترافی سٹیٹمنٹ کے متعلق عافیہ کا کہنا تھا کہ سرجری کے بعد وہ دواؤں کے اثر میں تھیں اور انھوں نے ایسا کچھ نہیں کہا بلکہ ان سے ایسا کہلوایا گیا۔
عدالتی فیصلہ:
تین فروری دو ہزار دس کو جیوری، جسکی اکثریت خواتین پہ مشتمل تھی، نے عافیہ کو تمام سات الزامات کیلئیے گلٹی قرار دیا۔
تئیس ستمبر دو ہزار دس کو جج برمن نے عافیہ کو سزا سنائی۔ جج برمن نے اس موقع پر سزا میں دہشت گردی کی دفعات کا بھی اضافہ کر دیا۔ عافیہ کی سزا میں اس بات پہ زور دیا گیا کہ ملزمہ کے بیانات کی روشنی میں اسکا ایسا جرم دوبارہ کرنے کا امکان زیادہ ہے۔
یہاں یہ پوائنٹ یاد رہے کہ عافیہ کی لیگل ٹیم نے جج سے استدعا کی کہ اسے بارہ برس تک کی سزا سنائی جائے۔
جج برمن نے کل سات الزامات پر عافیہ کو چھیاسی سال پرنسپل قید اور پانچ برس سپروائزد رہائی کی سزا سنائی۔
عافیہ کی نصیحت:
عافیہ نے اس موقع پر لوگوں سے کہا کہ وہ پرامن رہیں اور خون خرابہ نا کریں۔ انھوں نے اپنا فیصلہ خدا پہ چھوڑ دیا ہے۔
اپیل:
عافیہ کی لیگل ٹیم نے فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ نومبر دو ہزار بارہ کو سمری ججمنٹ کے بعد اسکا تفصیلی فیصلہ سیکنڈ سرکٹ کورٹ نے جاری کیا اور عافیہ کی اپیل خارج کر دی۔
دوسری اپیل:
مئی دو ہزار چودہ میں نئے وکیل نے عافیہ کی اپیل دائر کی۔ مگر جولائی دو ہزار چودہ میں عافیہ نے جج کو خط لکھا کہ مجھے امریکی لیگل سسٹم پہ کوئی اعتماد نہیں اور میں کسی قسم کے ٹرائل میں حصہ نہیں لوں گی۔ نو اکتوبر دو ہزار چودہ کو جج نے عافیہ کے خط کو قبول کرتے ہوے اپیل بند کر دی۔
بطور وکیل میرے خیالات:
میں نے اس مضمون میں یہ تفصیلات اور تمام لنکس اس لئیے فراہم کئیے ہیں کہ قارئین خود اس کیس کو جانچ سکیں۔ البتہ بطور وکیل اور ایک عام قاری میں اپنے تاثرات پیش کرنے کی جسارت کروں گا جنکا مستند ہونا ضروری نہیں ہے۔
عافیہ کا بیک گراونڈ، انکے سابقہ شوہر کی گواہی، انکی ایک دہشت گرد سے شادی یہ شدید تاثر چھوڑتی ہے کہ اسلامی ذہن رکھنے والی عافیہ رفتہ رفتہ شدت پسند ہوتی چلی گئی۔ اسلامک ایکٹوسٹ کے طور پر وہ کسی ایسے گروہ کے ہتھے چڑھیں جس نے انکے خیالات کو شدت پسندانہ بنا دیا اور انکے القاعدہ سے لنکس بھی بنے اور جیسا کہا جاتا ہے کہ وہ افریقی ممالک کی فریکوئنٹ ٹریولر تھیں، امریکہ میں ایک دہشت گرد کیلئیے پوسٹ باکس کھولا وغیرہ تو شاید وہ بطور مددگار القاعدہ سے وابسطہ رہیں۔ اسکے علاوہ القاعدہ کا انکے بدلے لینے کا اعلان بھی انکے تعلق کا تاثر دیتا ہے۔
میں قارئین کی توجہ اس اہم نکتے کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ امریکی حکام نے کئی لوگوں کو گرفتار کیا اور بعد ازاں رہا بھی کیا اور غلط گرفتاریوں پہ جرمانے بھی ادا کئیے۔ اگر عافیہ بالکل ہی معصوم ہوتیں تو ایف بی آئی انکو ٹاپ دہشت گردوں میں شامل نا کرتی۔
جہاں تک عافیہ کی گمشدگی کا تعلق ہے تو لگتا یہی ہے کہ انکو ایجنسیوں نے گرفتار کیا اور شاید وہ بیچ میں رہا بھی ہوئی ہوں مگر دوبارہ شاید اپنے طرزعمل کی وجہ سے گرفتار کر لی گئی ہوں۔ البتہ انکی گمشدگی، انکے دو بچوں کا لاپتہ ہونا، اور بگرام کی خفیہ قیدی والا پہلو دھند کی ایک دبیز تہہ کے پیچھے ہے۔
عافیہ کی گرفتاری اور انکے اوپر الزامات کے حوالے سے میں شدید غیر مطمئن ہوں۔ میں معروف کالم نگار آصف محمود سے اتفاق کرتا ہوں کہ گرفتاری کی کہانی اور حملے کا ڈرامہ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ یہ ممکن ہے کہ عافیہ کو کہیں پکڑا گیا ہو، ان سے مشتبہ کاغذ بھی برآمد ہوے ہوں۔ امریکی ٹیم سے بھاگنے کی کوشش پر انکو گولی ماری گئی ہو اور پھر بندوق اٹھانے وغیرہ کی کہانی بنا لی گئی ہو۔ پچھلے پندرہ سال کی دہشت گردی کی جنگ کے تجربے نے ہمیں اتنا تو سمجھا ہی دیا ہے کہ ایجنسیوں کا لگایا ہر الزام اور بتایا ہر واقعہ سچ نہیں ہوتا۔ میرے لئیے البتہ یہ بات حیرت کا باعث ہے کہ آخر ایجنسیز کو یہ سب ڈرامہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ عافیہ کو گوانتانامہ بے جیل رکھا جا سکتا تھا، مار کر پھینکا جا سکتا تھا لیکن اس کے بجائے ایک ایسا مقدمہ کیا گیا جو ہمیشہ سوال بنا رہے گا۔ شاید ابھی بھی بہت کچھ پردے کے پیچھے ہے جو وقت آنے پر لیک شدہ ڈاکیومنٹس سے سامنے آئے گا۔
عافیہ کے دوران سماعت روئیے نے بطور وکیل مجھے شدید مایوس کیا۔ اسے قطعا گواہی نہیں دینی چاہیے تھی۔ ایک ایسی جیوری جہاں خواتین کی اکثریت تھی،اسے فقط ایک خاموش مظلوم صورت ملزمہ بن کر بیٹھنا تھا۔ اسکے پاس پانچ قابل وکلا کی ٹیم تھی جو اسے کم سے کم سزا دلوانے کی کوشش کرتی۔ جج کے سامنے یہودی مخالف جملے کہنا، امریکی عدالتی نظام کے بارے میں توہین آمیز جملے، اپنی گواہی میں بہکی باتیں کرنا، امن کیلئیے خود کو بطور کردار پیش کرنا کہ میں امن کروا سکتی ہوں، یہ کہنا کہ دہشت گردی کے بارے میں لکھے نوٹس میری ہینڈ رائیٹنگ میں ہو سکتے ہیں، جیوری پر یہ تاثر چھوڑنے کیلئیے کافی تھے کہ ملزمہ کوئی ٹرینڈ دہشت گرد ہے اور ہم امریکیوں کو اس سے خطرہ ہے۔ اسی لئیے جیوری نے متفقہ طور پہ اسے ملزمہ قرار دیا۔ 
میں البتہ اس بات سے شدید اختلاف کرتا ہوں کہ یہ ایک فیئر سزا ہے۔ ایک ایسا جرم جسے اگر عافیہ کی گواہی کے ساتھ اور کراس ایگزامینیشن کے ساتھ ملائے بنا دیکھا جائے تو مبالغہ آمیز لگتا ہے، جج کو نرمی برتنا چاہیے تھی۔ میں عافیہ کی لیگل ٹیم سے متفق ہوں کہ اسے بارہ برس یا چلئیے کچھ زیادہ سزا دے دی جاتی۔ افسوس جج شاید حب وطن میں تعصب کا شکار ہوے۔ 
مجھے البتہ پھر حیرت ہے کہ بجائے اپیل کو اعلی ترین عدالتوں تک لیجانے کے جہاں سزا میں کمتری ہونے کے امکانات زیادہ ہو جاتے، عافیہ نے ایک بار پھر بیوقوفی کرتے ہوے خود اپنی اپیل ختم کر دی۔ ہمارے اپنے ملک میں ہم دیکھتے ہیں کہ سیشن کورٹ یا ہائی کورٹ تک سزا شدید ہے لیکن سپریم کورٹ تک جاتے ہوے، جذبات معتدل ہو جاتے ہیں اور سزائیں معاف یا کم کر دی جاتی ہیں۔ مجھے یقین ہے اگر یہ کیس مزید اعلی عدالتوں تک جاتا تو سزا میں کمی ضرور ہوتی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی اب جیل اسپتال میں ہیں جہاں وہ اپنی سزا پوری کریں گی۔ مجھے امید ہے کہ شاید سیاسی طور پر کبھی دونوں حکومتیں کوئی ایسی ڈیل کر پائیں گی جہاں ہم کوئی امریکہ کو مطلوب شخص دیتے ہوے بطور بار گین عافیہ کو لے سکیں۔ البتہ یہ افسوس ہے کہ ایک قابل پی ایچ ڈی ڈاکٹر شدت پسندانہ خیالات کا شکار ہو کر اپنے، اپنے خاندان خاص طور پہ اولاد اور ملک کیلئیے فائدے کا باعث نا بن سکی۔
اہم لنکس:
عافیہ کے خلاف کمپلینٹ:   لنک
فرد جرم: لنک
 عدالت میں رویہ: لنک
عافیہ کی سایکالوجی رپورٹ: لنک
کمپیٹنسی ججمنٹ: لنک
عافیہ کی گواہی کی ایک مزید کورٹ رپورٹ: لنک
سزا کی پریس ریلیز: لنک
اپیل کا تفصیلی فیصلہ: لنک
گارڈین رپورٹ: لنک
کیس کلوز نیوز: لن

May 26, 2018

دھوکہ دہی ۔ فروٹ والے خراب فروٹ کیوں ڈال دیتے ہیں اسکا ذمہ دار وہ کسے کہتے ہیں۔



ملاوٹ کا ذمہ دار کون / عبداللہ بن زبیر
اس نے سیب کا وزن کرنے کے لئے ہاتھ کی چالاکی دکھائی ، تیزی سے چلتے ہاتھوں کی پھرتی کو میں بھانپ گیا ۔۔ میری نظروں کی پرواہ کئے بغیر وہ دھڑا دھڑ خراب دانے ڈالتا چلا گیا جب پانچ کلو کا وزن برابر ہوا تو تقریباً نصف سے زائد وہ خراب دانے ڈال چکا تھا میں نے پوچھا
“ یار پانچ کلو پہ خراب دنوں کی مقدار ڈھائی کلو تو نہیں ہوگی کم ازکم ۔۔ ہاں حصہ کے بقدر ڈال دو تو کام چل جائے گا ۔۔”
“ نہیں صاب ہر دانہ ٹھیک ہے کوئی بھی خراب نکلے تو پیسے واپس “
اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے ایک صاف ستھرا دانہ دکھا بھی دیا “ یہ دیکھو صاب جی ہم ہلکے والا مال نہیں رکھتے “
“ اچھا جو تم نے ریٹ لگایا ہے تحصیل حکام کی طرف سے کوئی لسٹ تو دکھاؤ “
اب وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا
میں نے وزن ہونے کے بعد خراب دانے ایک طرف نکالنا شروع کئے تو وہ غصے اور حیرت کے ملے جلے جذبات سے میرا منہ تکنے لگا، اسے نظر انداز کرتے ہوئے میں نے ایک ایک دانے کا حدود اربعہ دیکھا اور معمولی سے نقص پہ بھی باہر نکال دیا ، شاپر کی تہہ تک ایک ایک دانے کو کنگھال ڈالا ۔۔ اب اسے کہا
“ ان دانوں کا وزن کرو “
کمپیوٹرائزڈ کانٹے کی سکرین پہ 3.8 کا فگر چمکنے لگا
“ کتنے ظالم ہو یار ۔۔ پانچ میں سے تین کلو سے بھی زیادہ خراب دانے اور پیسے سب کے وہی ۔۔ کچھ اللہ سے ڈرو “
“ صاب جی ادھر دو ۔۔ اور جاکر کہیں اور سے لے لو “
اس نے میرے ہاتھ سے شاپر پکڑا اور اپنی ٹوکری میں انڈیل دیا
“ یار ناراض کیوں ہوتے ہو ؟؟”
“ ارے صاب جی ناراضگی کی بات نہیں ہمیں ایک پیٹی میں جب مال ہی خراب ملے گا تو ہم کیا کرے گا ؟ فروٹ کا ہمارا باغ تو نہیں ہے پتہ نہیں کہاں کہاں سے مال آتا ہے ، ہمیں جس ریٹ سے ملتا ہے اس کے مطابق ہم آگے بیچ دیتے ہیں لیکن کسٹمر چاہتا ہے کہ اسے ٹھیک ٹھیک دانہ ملے تو کہاں سے دیں ؟ خراب دانوں کا ہم نے اچار ڈالنا ہے کیا ؟؟”
اس کا پارہ چڑھا ہوا تھا
“ اچھا میری بات سنو ! تمہیں ایک پیٹی میں کتنا خراب مال ملتا ہے ؟؟ “
“ بھائی آدھے سے زیادہ دانے نقص والے ہی نکل رہے ہیں آج کل وگرنہ ایک تہائی تو کہیں نہیں گیا “
یہ تو بہت ہی حیرت والی بات ہے
“ منڈی والے خراب دانے نہیں نکال لیتے ؟”
“ نہیں صاب جی بند پیٹی کے جب تک پیسے نہ دئیے جائیں ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتے “
“ یہ خراب دانے باغ والا ڈالتا ہے ، دس میں سے دو تین پیٹیوں کی بھرتی اسی تناسب سے ہوتی ہے ، اگر اچھا مال نکل آئے تو ہماری قسمت وگرنہ چھوٹے بچوں کا رزق اسی توتکار کی نظر ہوجاتا ہے “
مجھے اس مزدور پہ انتہائی ترس آرہا تھا
باغ والے ٹھیکے دار نے خراب دانہ پیٹی میں بند کیا ، ٹرک پہ لد کر منڈی پہنچا ، آڑھتی نے صحیح مال کی قسمیں کھا کر بولی دی ، بیوپاری نے درست سمجھ کر خریدا ، دوکاندار نے روزی روٹی کے لئے سودا کیا اور یہ پیٹی کسی ریڑھی یا دوکان پہ آکر کھلی تو پتہ چلا آدھے سے زیادہ فروٹ خراب ہیں ۔۔ باغ والے کی دلیل یہ ہے کہ خراب دانہ بھی تو بیچنا ہے ، منڈی والا کہتا ہے مجھے پیٹی کے اندرونی حالات کا کوئی پتہ نہیں ہوتا ، بیوپاری کہتا ہے جیسے آتا ہے ہم بیچتے ہیں خود اندر گھس کے تو نہیں دیکھ سکتے اور آخر میں ریڑھی والا اسی مال کو کسٹمر کو یہ کہتے ہوئے فروخت کرتا ہے “ بھائی صاب ہر دانہ ٹھیک ہے خراب نکلے تو پیسے واپس “
کوئی بھی بھلا مانس آدمی واپس آکر یہ تول مول تو کرتا نہیں اس لئے کاروبار زندگی چل رہا ہے
باغ کے ٹھیکے دار سے ریڑھی بان تک جھوٹ اور ملاوٹ کا ایک تسلسل ہے جس کو سسٹم اپنائے ہوئے ہے اور ہم مجبور محض ہیں ، ٹھیکے دار سے خریدار تک کے اس گھن چکر میں آنے والی نسلوں کی صحت کو چونا لگ رہا ہے
دنیا کے دیگر ممالک میں فروٹس اور سبزی پہ بھی ایکسپائری ڈیٹ لگی ہوتی ہے وہ مارکیٹ میں فروخت ہی نہیں ہوتی لیکن ہمارے سسٹم میں خراب چیز کو بھی بہتر کی قیمت پہ فروخت کیا جاتا ہے جس پہ جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔
آج میں بیٹھا ہوا سوچ رہا تھا کہ ٹھیکے دار ، بیوپاری ، آڑھتی اور ریڑھی بان کے اس تسلسل میں ہم بطور خریدار کہاں کھڑے ہیں ؟
اگر ایک پیٹی میں آدھا مال خراب نکلے تو کیا ہم ایک کلو پہ نصف خراب دانے برداشت کرلیں گے ؟ بالکل نہیں ۔۔ یہاں سے پھر نئی بے ایمانی کی شروعات ہوتی ہے ، ہم اپنا نقصان نہیں کرنا چاہتے ، ریڑھی بان جیب سے ادا نہیں کرسکتا ۔۔ کھینچ تان کے یہ نقصان ریڑھی بان ہی کے کھاتے میں جاپڑتا ہے اور نتیجتا جب ہم فروٹس خرید کر گھر پہنچتے ہیں اور شاپر سے صحیح اور تندرست دانوں کی بجائے خراب اور ناقص دانے برآمد ہوتے ہیں تو منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہیں
“ یہ سالے ریڑھی والے جھوٹی قسمیں کھانے کے ماہر ہیں ، سارا ہی خراب مال ڈال دیا “
تربوز کچا نہ نکلے اس لئے “ چکی “ کٹوا کر دیکھ پرکھ کر لیں گے لیکن خربوزے کے میٹھے پن کا کوئی پیمانہ نہیں اس لئے پھیکا نکلنے پہ سو صلوات سنائیں گے ، بھنڈی پکی ہو یا بینگن کے اندر سے کیڑا برآمد ہو ، آم کا ذائقہ خراب نکلے یا خوبانی گلی ہوئی ہماری تان ریڑھی بان کے ایمان پہ ہی آکے ٹوٹتی ہے ۔۔ اس سسٹم میں مجرم کون ہے ؟ باغ کا مالک جس کے دانے خراب ہیں یا آڑھتی جو بند سودے فروخت کرتا ہے ؟ یا ریڑھی بان جس نے اونے پونے بیچنا ہی ہے یا پھر ہم خریدار جو اپنا حق وصولنے کے لئے کسی رو رعایت کے روادار نہیں ہیں ؟؟
مجرم جو بھی ہو لیکن اس سارے معاملے میں “ ریڑھی بان “ کا رزق جھوٹ کی نظر ہوجاتا ہے ، ہمیں خراب دانہ نہیں چاہئے اور اس نے اپنے پیسے پورے کرنے ہیں۔ نتیجہ میں وہ جھوٹ بولتا ہے ، قسم اٹھاتا ہے اور اپنا مال بیچتا ہے
مجھے اس تناظر میں عرب کے بازار میں گھومنے والے والے دنیا کے اعلی ترین ایڈمنسٹریٹر کی یاد آجاتی ہے جو اناج کی بوریوں میں ہاتھ ڈال کر اس کی تہہ چیک کر رہے تھے ، جب ہاتھ کو اندرونی تہہ میں اناج کے اندر گیلا پن محسوس ہوا تو حکم صادر فرمایا “ جو مال گیلا ہے اسے بھی سامنے رکھو تاکہ خریدار عیب کو دیکھ کر مال خریدے اس کے ساتھ بد دیانتی نہ ہو “
آج مارکیٹ میں جاکر دیکھ لیجئے اسلامی سلطنت کا یہ آفاقی اصول آپ کو کہیں بھی نظر نہیں آئے گا ، بیمار تو در کنار حرام جانوروں تک کے گوشت پارچے بن کر فروخت ہوتے ہیں ، گدھوں اور کتوں کے قیمے کھلائے جاتے ہیں ، سوجی میں آٹا ، مرچ میں برادہ ، دودھ میں پانی اور ڈبوں میں ایسنس فروخت کیا جاتا ہے ، بوتلوں میں زہر کی نیلامی ہوتی ہے اور مضر صحت اجزا خوب صورت بوتلوں میں بھر کر معاشرہ میں پھیلا دئیے جاتے ہیں، حرام مرغی کے کباب اور قورمے بنتے ہیں اور ہم عوام لکیر کے فقیر بن کر ہر چیز کھائی رہے ہیں بس ہمارا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔
#عبداللہ_بن_زبیر

May 20, 2018

دشمنانِ پاکستان نے پاکستان کے ٹکڑے کرنے کا عزم کر لیا تھا مگر پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔



دشمنانِ پاکستان وطن عزیز کا نیا نقشہ بنا چکے........ مگر
یہ غالب امکان 1988 کی بات ہے لندن میں ایک پرہجوم پریس کانفرس میں انگلینڈ کی خاتون وزیراعظم مس مارگریٹ تھیچر سوالات کے جوابات دے رہی تھیں۔
ایک صحافی نے سوال کیا
میڈم رشین فوڈیشن یعنی روس تو ٹوٹ گیا اب یقینی نیٹو ختم کر دی جائے گی
مس مارگریٹ تھیچر نے جواب دیا نہیں “اسلام ابھی باقی ہے”.
یہیں سے ابتدا ہوئی مسلمانوں کے خلاف مسلمان ممالک کو کمزور کرنے کی پالیسیاں اور انہیں تباہ کرنے کا عمل شروع ہو گیا.اور اس کی ابتدا عراق تھا اور آخری ٹارگٹ پاکستان اور اس کے ایٹمی اثاثے، پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ عراق کو برباد کیا اس پر یہ جھوٹ گھڑ کر کہ اس کے پاس کمیائی ہتھیار ہیں پھر لیبیاء کو تباہ کیا گیا پھر شام پر چڑھ دوڑے
لیکن پاکستان کو ایسے گھیرا نہیں جاسکتا تھا اس کے لیے 9/11 کا ایک بہت ہی خطرناک ڈرامہ رچایا گیا اور امریکہ اپنے سب حواریوں کے ساتھ افغانستان کی سر زمین پر آ بیٹھا۔جس کے بعد بڑی ہوشیاری اور حکمت عملی سے پاکستان کو گھیر لیا گیا اور یہیں سے شروع ہوئی دنیا کی سب سے بڑی خطرناک گوریلا جنگ، اس جنگ میں ہماری سیاسی قیادت نے نہایت ہی بھیانک کردار ادا کیا، بلیک واٹر کے دہشتگروں کو امریکہ سے اور دبئی سے براہ راست ویزے جاری کیے گیے
کلبھوشن یادیو کی شکل میں انڈیا بلوچستان کی سر زمین پر الگ ہی اپنا کھیل کھیل رہا تھا۔شمالی اور جنوبی وزیرستان میں عالمی قوتیں کھل کر اپنے مہرے اتار چکیں تھیں، یہاں تک کہ سوات تک دہشتگرد پھیل گئے ،
یہ ایک ایسا جال تھا جس سے نکلنا اس قدر مشکل نظر آرہا تھا کہ امریکی تھنک ٹینک کی طرف سے برملا نہ صرف یہ کہہ دیا گیا کہ 2015 میں پاکستان کا وجود ختم ہو جائے گا بلکہ اس کے کتنے ٹکڑے ہونگے اس نقشہ تک جاری کر دیا گیا۔حالات اس سے بھی کہیں آگے جا چکے تھے
یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے بیانیے میں کہا کہ اصل خطرہ انڈیا نہیں بلکہ دہشتگرد ہیں
انہی خطرناک حالات میں ہی انڈیا نے کولڈ سٹارٹ جیسے منصوبے پر کام کرنا شروع کر دیا، یہاں تک کہ انڈیا نے اس مشن میں استعمال ہونے والے جدید ہتھیار بھی خرید لیے اور بھارتی فوجیوں کو پوری طرح سے حملے کے لیے تیار کیا جا چکا تھا۔ان حالات میں ہماری امیدوں کی محور پاکستان آرمی انٹیلیجنٹس ایجنسز اور پاکستان کی سلامتی کے تمام ادارے ان حالات پر نہ صرف گہری نظر رکھے ہوئے تھے بلکہ اپنے مہرے بڑی احتیاط کے ساتھ آگے بڑھا رہے تھے۔
ہمارے سائنسدان دن رات میزائل ٹیکنالوجی کو ایڈوانس کرتے چلے جارہے تھے، بھارت کے نئے اور جدید دفاعی نظام کو دیکھتے ہوئے ہمارے سائنسدانوں نے بھی اپنے مزائلوں کو جدید سے جدید تر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔تمام ورک اپ کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع ہو گیا مجاہدین اسلام پاکستان آرمی ان خارجی کتوں اور غیر ملکی طاقتوں کی کٹ پتلیوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑی۔
پھر چشم فلک نے دیکھا کہ کہ وہ دہشتگرد جو ساری دنیا کو بھگا بھگا کر مار رہے تھے
پاکستان کے شیر دل جوان ان کو بھگا بھگا کر موت کی وادیوں میں بھیج رہے تھے میرے مجاہد آندھیوں کی رفتار سے دشمن کو کاٹتے چلے گیے امریکہ اپنے حواریوں سمیت سکتے کی حالت میں چلا گیا، پاکستان آرمی نے اپنے تمام علاقے کلئیر کروائے بلکہ پاکستان کے اندر آئے بلیک واٹر کے اور دوسرے دہشتگرد پکڑ پکڑ موت کے گھاٹ اتارے جانے لگے بالا آخر امریکہ بھی چلا اٹھا کہ ہمارے ٹورسٹ غائب ہو رہے ہیں۔
حالانکہ وہ کوئی ٹورسٹ نہیں تھے وہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کے کارکن تھے جو کہ ٹورسٹ ویزے پر پاکستان بھیجے گئے تھے۔کلبھوشن یادیو جیسے سانپ بھی اپنے گروہ سمیت پکڑے گئے، یوں پھر سے پاکستان امن کا گہوارہ بننے لگا۔اور تاریخ میں پہلی بار پاکستان گوریلا وار کا فاتح اعظم بن کر دنیا کے سامنے آیا اب جوابی وار شروع ہے اور دشمن کی چیخوں سے آسمان ہل رہا ہے ان کے اوسان اس قدر اڑے ہیں کہ آئے دن پاکستان پر الزامات لگا رہا ہے۔
منظور پشتین اور اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی چنگاریاں چھوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے جو کہ دشمن کی شکست کا واضح ثبوت ہیں۔ دشمن جانتا ہے کہ وہ میدان جنگ میں پاکستان کی فوج سے نہیں جیت سکتا کیونکہ اس فوج کے ساتھ ایک دوسری فوج بھی کھڑی ہے اور وہ فوج 22 کروڑ کی تعداد میں ہے، جو کہ پاکستان کی عوام کی شکل میں ہے۔لہذا دشمن ایک دوسری جنگ چھیڑ چکا ہے جو کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ذہنوں میں لڑی جاتی ہے، مگر دشمن نہیں جانتا تھا کہ پاکستان کی عوام کے ذہنوں میں منظورپشتین جیسے لوگوں کے ذریعے اپنی فوج کے لیے نفرت نہیں بھری جا سکتی، آج ہر اس پاکستانی نے ایک اہم کردار ادا کیا اور منظورپشتین کے اس ڈرامے کو محض ایک ڈرامہ قرار دے دیا، یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو علم ہونے لگا کہ منظور پشتین جھوٹا انسان ہے لہذا لوگوں نے اس کے جلسے میں جانا چھوڑ دیا ہے۔
منظور پشتین کے اس خطرناک ڈرامے کو ناکام بنانے میں ان پاکستانیوں کا اہم کردار ہے جو سوشل میڈیا پر چاہے وہ فیس بک ہو یا پھر ٹویٹر، پاکستانیوں نے یہ جنگ اپنے کومنٹس اور لائٹس کی صورت میں لڑی، آپ سمجھتے ہوں گے کہ کمنٹس اور لائکس کی صورت میں کیسے جنگ لڑی جا سکتی ہے، جب آپ کسی چیز کو لائک کرتے ہو تو اصل میں آپ اس پوسٹ سے متفق ہوتے ہو۔
یعنی ایک ایسی پوسٹ جس میں لکھا گیا ہو یا پھر بتایا/دکھایا گیا ہو کہ منظور پشتین جھوٹا انسان ہے اور پاکستان اور اس کی فوج حق پر ہے سے متفق ہونا، دشمن کے ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے کی ایک کوشش ہے۔ جس میں پاکستانی جیت کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔
اپنے کیے گئے کومنٹس یا لائکس کو معمولی مت سمجھیں کیونکہ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو پانچویں نسل کی یعنی ذہنوں میں لڑی جانے والی جنگ میں استعمال ہوتا ہے۔
پاکستان آرمی زندہ آباد
پاکستان پائندہ آباد

May 16, 2018

پاکستانی دریاؤں پر بھارتی ڈیم حکومت پاکستان سور رہی ہے۔



پانی کو عزت دو!

 تحریر : آصف محمود  

بھارت نے پاکستان کے حصے کے پانی پر کشن گنگا ڈیم بنا لیا ہے اور چند ہی دنوں میں مودی اس کا باقاعدہ افتتاح کرنے والے ہیں ۔ پانی کی قلت کے بد ترین بحران سے دوچار پاکستان ایک نئے عذاب سے دوچار ہونے جا رہا ہے مگر زندہ اور پائندہ قوم میں کسی کو پرواہ ہی نہیں ہے ۔ سیاسی قیادت روز ایک نیا تماشا لگا دیتی ہے اور میڈیا اس پر ڈگڈگی بجاتے ہوئے دن گزار دیتا ہے۔ غیر سنجیدگی اور خوفناک سطحیت کے اس ماحول میں کسی کو احساس ہی نہیں پاکستان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے ۔

کشن گنگا ڈیم کی تکمیل ایک انتہائی خوفناک منظر نامہ ہے ۔ بھارت میں جس دریا کو کشن گنگا کہتے ہیں پاکستان میں وہ دریائے نیلم کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ دریا وادی نیلم سے ہوتا ہوا مظفر آباد کے قریب دومیل کے مقام پر دریائے جہلم میں شامل ہو جاتا ہے۔ اب بھارت نے 22 کلومیٹر سرنگ بنا کر اس کا رخ موڑ دیا ہے ۔ اب یہ وادی نیلم میں نہیں بہے گا ۔ کشن گنا پراجیکٹ کے لیے اسے وولر جھیل کے ذریعے بارہ مولا کے مقام پر مقبوضہ کشمیر ہی میں دریائے جہلم میں ڈال دیا گیاہے ۔ یعنی اس کے قدرتی بہاؤ میں فرق ڈال دیا گیا ہے ۔ اب صرف کتابوں میں ملے گا کہ وادی نیلم میں ایک دریا بھی بہتا تھا جسے دریائے نیلم کہتے تھے۔

ذرا غور کیجیے وادی نیلم سے دریائے نیلم ہی روٹھ جائے، اس کا رخ بدل دیا جائے تو یہ وادی کیا منظر پیش کرے گی؟ اس کا تو سارا حسن اجڑ جائے گا ۔ ہنستی بستی وادی اجاڑ اور بیابان ہو جائے گی ۔ یہ تو برباد ہو جائے گی ۔ وادی نیلم میں ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی چلتی ہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ چاول وغیرہ اگاتے ہیں ، ان کی چکیاں اسی کے پانی سے چلتی ہیں ۔ یہ دریا ان کے لے زندگی کا پیغام ہے ۔ یاد رہے کہ وادی نیلم میں مون سون کی بارشیں نہیں ہوتیں ۔ اسے ’’ نان مون سون‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس وادی کا 41 ہزار ایکڑ رقبہ دریائے نیلم سے سیراب ہوتا ہے ۔

جہاں سے دریا کا رخ بدلا گیا ہے وہاں سے دو میل تک 230 کلومیٹر کا علاقہ ہے۔ اڑھائی سو گاؤں پر مشتمل یہ سارا علاقہ ذرا تصور کیجیے کہ چند دنوں بعد ایک بہتے دریا سے اچانک محروم ہو جائے گا ۔ بارہ سو ٹن ٹراؤٹ مچھلی سالانہ اس علاقے سے پکڑ کر مقامی لوگ لوکل مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں ۔ یہ بھی ختم ہو جائے گی ۔ جنگلات کا مستقبل بھی ایک سوالیہ نشان ہو گا ۔ یہی نہیں پاکستان کے نیلم جہلم پراجیکٹ کا مستقبل بھی مخدوش ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ ہمارا 27 فیصد پانی کم ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی پیداواری صلاحیت میں 20 فیصد کمی آ جائے گی ۔ اور اگر بھارت نے کسی وقت مزید شر پسندی کرنا چاہی تو معاملات مزید سنگین ہو جائیں گے۔ مکمل تباہی دستک دے رہی ہے اور کسی کو پرواہ نہیں ۔

اس سارے معاملے میں ہماری حکومت نے جس بے بصیرتی ، جہالت اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا وہ اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے ۔ بھارت نے اس پراجیکٹ پر کام شروع کیا تو پاکستان نے انٹر نیشنل کورٹ آف آربٹریشن سے رجوع کر لیا ۔ عدالت نے پاکستان سے کہا کہ وہ پانی کے حوالے سے سارا ڈیٹا شواہد کے ساتھ عدالت کو فراہم کرے ۔ پاکستان کی تیاریوں کا عالم یہ تھا کہ جب عدالت نے یہ ڈیٹا مانگا تو حکومت کے پاس عدالت کو دینے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں ۔ خفت مٹانے کے لیے عدالت سے کہا گیا دس دنوں کی مہلت دے دیجیے ہم سب کچھ پیش کر دیں گے ۔

پاکستان جس وقت پانی کے اہم ترین مسئلے پر اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا تھا ، نواز شریف اقتدار سنبھال چکے تھے اور ان کی بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ پاکستان کا کوئی کل وقتی وزیر خارجہ تک نہیں تھا ۔ یہ اضافی ذمہ داری انہوں نے اپنے پاس رکھی ۔کیوں رکھی ؟ یہ ایک الگ داستان ہے جس پر پھر کسی روز بات کریں گے ۔

25 جون 2013 کو نواز شریف وزیر اعظم بنے اور اس سے 6 ماہ بعد بیس دسمبر 2013 کو عدالت نے بھارت کے حق میں فیصلہ سنا دیا ۔ اس فیصلے کے صفحہ 34 پر عدالت نے لکھ دیا کہ
’’ حکومت پاکستان نے پانی کے موجودہ اور متوقع زرعی استعمال کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کیے‘‘۔ 
کوئی مہذب معاشرہ ہوتا تو اس غفلت پر حکومت کا حشر نشر ہو جاتا لیکن نیم خواندہ معاشرے میں نواز حکومت نے کمال ڈھٹائی سے دعوی فرما دیا کہ یہ فیصلہ تو ہماری کامیابی ہے۔

اب آگے سنیے ۔ بھارت کو عدالت نے ڈیم بنانے کا حق دے دیا تو اس نے کھل کر کھیلنا شروع کر دیا اور سندھ طاس معاہدے کی دھجیااں اڑا دیں ۔ نواز شریف اس سارے دور میں مودی کی نازبرداریاں فرماتے رہے اور سجن جندال کی میزبانی فرماتے رہے ۔اب جب مودی اس ڈیم کا افتتاح کرنے والا ہے تو ہمیں ہوش آیا ہے اور ہم درخواست ہاتھ میں لیے ورلڈ بنک کی منتیں کر رہے ہیں کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت چونکہ آپ ثالث ہیں اس لیے ہماری بات تو سنیے ۔

ہم نے یہاں بھی وقت ضائع کر دیا ۔ ہماری کامیاب سفارت کاری کا عالم یہ ہے کہ ہم امید لگائے بیٹھے تھے اپریل میں ہمیں ملاقات کا وقت مل جائے گا لیکن ہمیں کہا گیا ورلڈ بنک کے صدر مصروف ہیں ابھی ان کے پاس وقت نہیں ۔ اب ڈیم کے افتتاح سے پہلے ورلڈ بنک کے صدر سے ملاقات کا کوئی امکان نہیں ۔ اور افتتاح کے بعد اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ 

نواز شریف اور شاہد خاقان نے غریب قوم کے خرچے پر بیرونی دوروں کے ریکارڈ قائم کر دیے لیکن حالت یہ ہے کہ ورلڈ بنک کے سربراہ کے پاس پاکستانی وفد سے ملنے کا وقت ہی نہیں ۔ اور بے حسی دیکھیے کہ حکومت کو کوئی پرواہ نہیں کیا ہو رہا ہے ۔ پانی ہمارے لیے موت و حیات کا مسئلہ ہے ۔ لیکن ہمیں کوئی حیا نہیں آ رہی کہ اسے سنجیدگی سے لیں ۔ کوئی اور ملک ہوتا اور اس کے ساتھ ایسی واردات ہو رہی ہوتی تو وہ اب تک سفارتی محاذ پر ایسا طوفان کھڑا کر چکا ہوتا کہ ورلڈ بنک تو رہا ایک طرف خود اقوام عالم کو معاملے کا نوٹس لینا پڑتا لیکن ہمارے ہاں کشن گنگا کی واردات پر حکومت بول رہی ہے نہ اپوزیشن ۔ نیم خواندہ اور اوسط سے کم درجے کی قیادت کو شاید اس معاملے کی سنگینی کا احساس تک نہیں۔

کشن گنگا پراجیکٹ سے ہمارے ایکو سسٹم کو بھی خطرہ ہے ۔ بھارت یو این کنونشن آن بائیولوجیکل ڈائیورسٹی ، کنونشن آن کلائیمیٹ چینج اور کنونشن آن واٹر لینڈز پر دستخط کر چکا ہے ۔ ہماری پوری ایک وادی مکمل طور پر تباہ ہونے جا رہی ہے اور ہم نے ان کنونشنز کو کسی فورم پر ابھی تک موضوع نہیں بنایا ۔ کشن گنگا ڈیم سے پاکستان کو سالانہ 140 ملین ڈالر کا نقصان متوقع ہے لیکن یہ مسئلہ ہمارے قومی بیانیے میں کہیں جگہ نہیں بنا سکا ۔ یہاں یاروں کے مسائل ہی اور ہیں ۔ گندی سیاست کی شعبدہ بازی سے کوئی بلند ہو سکے تو ان مسائل پر غور کرے ۔

نیم خواندہ رہنما ، تماش بین عوام اور ڈگڈگی بجاتی سکرینیں ۔ آتش فشاں پہ بیٹھ کر بغلیں بجائی جا رہی ہیں ۔ آج کسی کو احساس تک نہیں لیکن یاد رکھیے، وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب آپ ہم سب کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم پانی کے کس خوفناک بحران سے دوچار ہو چکے ہیں ۔ 

اس سماج کی غیر سنجیدگی اور کھلنڈرے پن سے اب خوف آ نے لگا ہے ۔ پانی کا خوفناک بحران ہماری دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔ سن سکتے ہو تو سن لو ۔

آصف محمود

May 10, 2018

بے انصاف ظالم معاشرے کی سچی کہانی



بے  انصاف ظالم  معاشرے کی سچی کہانی

مظہر حسین اسلام آباد کی ڈھوک حیدرعلی کا رہائشی تھا‘ یہ خوشحال شخص تھا‘ ذاتی گھر‘ زمین اور ٹرک کا مالک تھا‘ مظہر حسین کا 1997ء میں کسی شخص سے جھگڑا ہو گیا‘ یہ جھگڑا ڈھوک حیدر علی کے دو خاندانوں میں تنازعے کا باعث بن گیا‘ یہ دونوں فیملیز ایک دوسرے سے دور ہو گئیں‘ جھگڑے کے آٹھ ماہ بعد دوسرے خاندان کا ایک شخص محمد اسماعیل قتل ہو گیا‘ یہ اس شخص کا چچا تھا جس سے مظہر حسین کا جھگڑا ہوا تھا‘ مقتول کے بھائی منظور نے مظہر حسین کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دی‘ پولیس نے مظہر کو گرفتار کر لیا‘ یہ بے گناہ تھا لیکن پولیس نے اسے بے گناہ ماننے سے انکار کر دیا‘ چالان عدالت میں پیش ہوا‘ جھوٹے گواہوں نے گواہیاں دیں‘ پولیس نے غلط شواہد پیش کیے اور سیشن جج نے 21 اپریل 2004ء کو مظہر حسین کو سزائے موت اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی ۔
مظہر حسین کی گرفتاری کے وقت اس کے تین بچے تھے‘ خواجہ شہباز کی عمر 8 سال تھی‘ بیٹی ارم شہزادی پانچ سال کی تھی اور سب سے چھوٹا بیٹاخواجہ زعفران چھ ماہ کا تھا‘ مظہر حسین کی اہلیہ اس وقت 26 برس کی جوان خاتون تھی‘ مظہر حسین کا والد زندہ تھا‘ وہ اپنے بے گناہ بیٹے کی فائل اٹھا کر کچہریوں میں مارا مارا پھرنے لگا‘ وہ بوڑھا آدمی تھا‘ وہ یہ دھکے برداشت نہ کر سکا چنانچہ وہ کچہریوں میں ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر انتقال کر گیا‘ والد کے مرنے کے بعد مظہر حسین کے تایا اور چچا نے پیروی شروع کی لیکن وہ بھی یہ بوجھ زیادہ عرصے تک نہ اٹھا سکے‘ وہ بھی انتقال کر گئے‘

 مظہر حسین کے والد‘ تایا اور چچا کے انتقال کے بعد خاندان دو بڑے مسائل کا شکار ہو گیا‘ پہلا مسئلہ مقدمہ تھا‘ پاکستان کے وہ تمام لوگ مظہر حسین کے خاندان کی کیفیت اور صورتحال کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں جو زندگی میں کبھی تھانے‘ کچہری اور عدالتوں کے گورکھ دھندے میں پھنسے ہیں‘ ہمارا عدالتی نظام بیلنا ہے‘ یہ دروازے پر قدم رکھنے والے ہر شخص کا وہ حشر کرتا ہے جو بیلنا گنے کے ساتھ کرتا ہے۔

یہ مظلوموں کا پھوگ تک نچوڑ لیتا ہے چنانچہ خاندان کا پہلا مسئلہ مقدمے کے اخراجات‘ وکیلوں کی فیسیں‘ عدالتی عملے کی بخشیش اور قیدی مظہر حسین کا جیل کا خرچہ پانی تھا‘ دوسرا مسئلہ مظہر حسین کے خاندان کے اخراجات تھے‘ مظہر حسین کے گھر میں جوان بیوی اور تین چھوٹے بچے تھے‘ یہ اپنے اخراجات کیسے اور کہاں سے پورے کرتے؟ یہ دونوں مسائل بوجھ تھے‘ یہ بوجھ مظہر حسین کا والد‘ تایا اور چچا برداشت کرتے رہے لیکن جوں ہی ان کی آنکھیں بند ہوئیں خاندان دائیں بائیں ہو گیا‘ یہ لوگ اپنے اپنے مسائل میں الجھتے چلے گئے یہاں تک کہ مظہر حسین کا مقدمہ اور بیوی بچے اکیلے رہ گئے‘ یہ لوگ گلیوں میں رلنے لگے‘ اس برے وقت میں مظہر حسین کے بھائی محمد افضل نے ان کا ساتھ دیا۔
یہ خاندان کا نان نفقہ اور مقدمے کی گاڑی چلانے لگا‘ یہ کورٹ کچہری بھی جاتا تھا‘ بھائی سے جیل میں ملاقات بھی کرتا تھا اور مظہر حسین کے بیوی بچوں کی ’’ٹیک کیئر‘‘ بھی کرتا تھا‘ یہ بھائی پندرہ سال سسٹم کے برآمدوں میں مارا مارا پھرتا رہا‘ مظہر حسین کے بچوں نے ان 19 برسوں میں باپ کی جدائی‘ غربت‘ بھوک اور جہالت بھی دیکھی اور خاندان کی تبدیل ہوتی نظریں بھی‘ یہ بچے باپ کا سایہ سر پر نہ ہونے کی وجہ سے اسکول نہیں جا سکے‘ یہ کوئی کام دھندہ بھی نہ سیکھ سکے چنانچہ مظہر حسین کا بڑا بیٹا خواجہ شہباز کرین آپریٹر اور دوسرا بیٹا خواجہ زعفران ٹرک ڈرائیور بن گیا‘ بیٹی غیر شادی شدہ اور گھر میں بیٹھی ہے جب کہ بیوی خاوند کا انتظار کرتے کرتے بوڑھی ہو گئی‘ بیٹی ارم جس سے بھی ملتی ہے بس ایک ہی بات کرتی ہے ’’میرے ابو محرم کے مہینے میں گھر سے گئے تھے‘ ہم اس دن سے محرم گزار رہے ہیں‘ ہم نے 19 برسوں میں محرم کے علاوہ کوئی مہینہ نہیں دیکھا‘‘۔

آپ ٹریجڈی ملاحظہ کیجیے‘،

 مظہر حسین کا مقدمہ 19 سال چلا‘ یہ کیس سیشن کورٹ سے ہوتا ہوا ہائی کورٹ پہنچا اور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ چلا گیا‘ پہلے مظہر حسین کے والد‘ تایا اور چچا مقدمے کے پیچھے دوڑتے رہے اور پھر یہ بوجھ بھائی محمد افضل نے اٹھا لیا لیکن مظہر حسین کی بے گناہی کا فیصلہ نہ ہو سکا‘ آپ نظام کا کمال دیکھئے‘ مظہر حسین کے بھائی نے 2010ء میں سپریم کورٹ میں اپیل کی‘ یہ اپیل 2016ء تک فائلوں میں دبی رہی‘ یہ 6 اکتوبر 2016ء کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے آئی‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ بینچ کے سربراہ تھے‘ پولیس کی طرف سے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالرؤف پیش ہوئے‘ مدعی اور مجرم دونوں کی طرف سے عدالت میں کوئی شخص موجود نہیں تھا‘ مجرم کے وکیل شاہد محمود عباسی اس دوران ہائی کورٹ کے جج بن گئے۔
یہ بھی غیر حاضر تھے‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ انقلابی انسان ہیں‘ یہ سماعت ملتوی کرنے کے بجائے کیس کھول کر بیٹھ گئے‘ فائل کھلنے کی دیر تھی‘ بینچ کو چند لمحوں میں مظہر حسین کی بے گناہی کا یقین ہو گیا‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا دل بھر آیا‘ انھوں نے ریمارکس دیے ’’ہم نے فلموں میں سنا تھا جج صاحب مجھے میری زندگی کے 12 سال لوٹا دیں‘ ہم نے آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا‘ ایک بے گناہ شخص 19 سال سے جیل میں پڑا ہے‘ اسے اس کے 19 سال کون لوٹائے گا‘‘ بینچ نے ریمارکس دینے کے بعد مظہر حسین کی رہائی کا حکم دے دیا‘ یہ حکم نکلا‘ میڈیا میں آیا اور میڈیا نے بے گناہ مظہر حسین کی تلاش شروع کر دی‘ پتہ چلا مظہر حسین زیادہ دنوں تک بے گناہی کا بوجھ نہیں اٹھا سکا تھا۔
اسے مارچ 2014ء میں ڈسٹرکٹ جیل جہلم میں ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ جیل ہی میں انتقال کر گیا‘

 جیل حکام نے لاش لواحقین کے حوالے کر دی‘ لواحقین نے جنازہ پڑھا اور بے گناہ مظہر حسین کو دفن کر دیا‘ جیل حکام نے مظہر حسین کا ڈیتھ سر ٹیفکیٹ بھی جاری کر دیا لیکن یہ سر ٹیفکیٹ ہمارے باکمال سسٹم کی وجہ سے مظہر حسین کی فائل تک نہیں پہنچ سکا چنانچہ مرنے کے بعد بھی مظہر حسین کا کیس چلتا رہا‘ یہ ٹریجڈی‘ ٹریجڈی کے اوپر خوفناک ٹریجڈی تھی‘ اس ٹریجڈی نے ہمارے نظام کی ساری خامیاں کھول کر سامنے رکھ دیں۔
میری چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار ‘جسٹس آصف سعید کھوسہ اور وفاقی حکومت سے درخواست ہے آپ مظہر حسین کی داستان کو نظام عدالت کے خلاف ’’ویک اپ کال‘‘ سمجھیں اور ملک کے جسٹس سسٹم میں چند اصلاحات کریں‘ جسٹس صاحب مظہر حسین صرف ایک آدمی نہیں تھا‘ یہ تین نسلوں پر مشتمل پورا خاندان تھا‘ مظہر حسین کا والد‘ اس کا تایا اور اس کا چچا انصاف تلاش کرتے کرتے انتقال کر گئے‘ بیوی نے خاوند کی زندگی میں 19 سال بیوگی برداشت کی اور بچے باپ کی شکل کو ترستے رہے۔

یہ تعلیم تک سے محروم رہے چنانچہ ظلم صرف مظہر حسین کے ساتھ نہیں تھا ستم کا پہاڑ19 سال پورے خاندان پر ٹوٹتا رہا‘ میری جسٹس آصف سعید کھوسہ سے درخواست ہے آپ مقدمے کی فائل دوبارہ کھولیں اور حکومت کو مظہر حسین کے خاندان کو 19 کروڑ روپے ادا کرنے کا حکم جاری کریں‘ یہ 19 کروڑ روپے بعد ازاں اسلام آباد پولیس‘ مدعی خاندان اور جھوٹے گواہوں سے وصول کیا جائے اور اس کے بعد قانون بنا دیا جائے سیشن کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک قتل کے تمام مقدموں کی سماعت فوری ہو گی‘ کوئی فائل تین چار ماہ سے زیادہ پینڈنگ نہیں رہے گی اور اگر کوئی مجرم بے گناہ ثابت ہو گیا تو حکومت‘ پولیس ڈیپارٹمنٹ اور مدعی تینوں مل کر مجرم کو قید کے ہر سال کا ایک کروڑ روپے تاوان ادا کریں گے۔
یہ تاوان پولیس‘ حکومت اور مدعی تینوں کا دماغ ٹھیک کر دے گا‘ آپ اندازہ لگائیے ہم کس دور اور کس ملک میں زندہ ہیں‘ ہمارے ملک میں جھوٹی گواہی پر ایک شخص کو سزائے موت ہو جاتی ہے‘ خاندان 19 سال انصاف کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے‘ اس دوران گھر کے برتن تک بک جاتے ہیںا ور آخر میں بے گناہ مجرم جیل میں مر جاتا ہے لیکن سسٹم بندر کی طرح ایک شاخ سے دوسری شاخ اور ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگاتا رہتا ہے‘ کیا یہ ظلم پر ظلم نہیں؟ ہم اس سسٹم اور انصاف کے اس بدبودار جوہڑ میں کتنی دیر زندہ رہ لیں گے چنانچہ میری جج صاحب سے درخواست ہے آپ خدا خوفی کریں‘ آپ زندہ مظہر حسین کو انصاف نہیں دے سکے لیکن آپ اب اس کی قبر ہی سے عدل کر دیں‘ آپ اس کے بچوں کا بچپن نہیں لوٹا سکتے‘ آپ انھیں ان کی جوانی ہی دے دیں‘ آپ انھیں باپ نہیں دے سکتے‘ آپ انھیں باپ کا معاوضہ ہی دے دیں‘ آپ ملک میں روڈیل سینڈرز جیسی کم از کم ایک مثال ہی قائم کر دیں۔
جج صاحب آپ انصاف نہیں کر سکے ‘ آپ خدا خوفی ہی کر دیں‘ آپ دنیا میں کچھ تو کرجائیں ۔ جج بننے کے لیے وکالت کا پندرہ سالہ تجربہ لازمی ھوتا ھے ایک پاکستانی وکیل کو نظام میں موجود تمام تر خرابیوں کا پتہ ھوتا ھے۔ آپ کچھ ایسا نظام بنا دیں کہ غریب عدالت میں کرنے سے بچ سکیں ۔ آپکی کرسی بھی زیادہ دیر نہیں رہے گی کچھ ایسا کر کہ جاہیں کہ لوگ آپکو نشتوں یاد رکھ سکیں۔ 

تمام لوگوں سے گزارش ھے کہ اس تحریر کو کاپی پیسٹ کریں ۔واہٹس آپ پر شییر کریں ۔تاکہ معاشرے میں انصاف کے لیے کچھ ھو سکے ۔ شکریہ ۔ منقول

Total Pageviews