May 26, 2018

دھوکہ دہی ۔ فروٹ والے خراب فروٹ کیوں ڈال دیتے ہیں اسکا ذمہ دار وہ کسے کہتے ہیں۔



ملاوٹ کا ذمہ دار کون / عبداللہ بن زبیر
اس نے سیب کا وزن کرنے کے لئے ہاتھ کی چالاکی دکھائی ، تیزی سے چلتے ہاتھوں کی پھرتی کو میں بھانپ گیا ۔۔ میری نظروں کی پرواہ کئے بغیر وہ دھڑا دھڑ خراب دانے ڈالتا چلا گیا جب پانچ کلو کا وزن برابر ہوا تو تقریباً نصف سے زائد وہ خراب دانے ڈال چکا تھا میں نے پوچھا
“ یار پانچ کلو پہ خراب دنوں کی مقدار ڈھائی کلو تو نہیں ہوگی کم ازکم ۔۔ ہاں حصہ کے بقدر ڈال دو تو کام چل جائے گا ۔۔”
“ نہیں صاب ہر دانہ ٹھیک ہے کوئی بھی خراب نکلے تو پیسے واپس “
اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے ایک صاف ستھرا دانہ دکھا بھی دیا “ یہ دیکھو صاب جی ہم ہلکے والا مال نہیں رکھتے “
“ اچھا جو تم نے ریٹ لگایا ہے تحصیل حکام کی طرف سے کوئی لسٹ تو دکھاؤ “
اب وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا
میں نے وزن ہونے کے بعد خراب دانے ایک طرف نکالنا شروع کئے تو وہ غصے اور حیرت کے ملے جلے جذبات سے میرا منہ تکنے لگا، اسے نظر انداز کرتے ہوئے میں نے ایک ایک دانے کا حدود اربعہ دیکھا اور معمولی سے نقص پہ بھی باہر نکال دیا ، شاپر کی تہہ تک ایک ایک دانے کو کنگھال ڈالا ۔۔ اب اسے کہا
“ ان دانوں کا وزن کرو “
کمپیوٹرائزڈ کانٹے کی سکرین پہ 3.8 کا فگر چمکنے لگا
“ کتنے ظالم ہو یار ۔۔ پانچ میں سے تین کلو سے بھی زیادہ خراب دانے اور پیسے سب کے وہی ۔۔ کچھ اللہ سے ڈرو “
“ صاب جی ادھر دو ۔۔ اور جاکر کہیں اور سے لے لو “
اس نے میرے ہاتھ سے شاپر پکڑا اور اپنی ٹوکری میں انڈیل دیا
“ یار ناراض کیوں ہوتے ہو ؟؟”
“ ارے صاب جی ناراضگی کی بات نہیں ہمیں ایک پیٹی میں جب مال ہی خراب ملے گا تو ہم کیا کرے گا ؟ فروٹ کا ہمارا باغ تو نہیں ہے پتہ نہیں کہاں کہاں سے مال آتا ہے ، ہمیں جس ریٹ سے ملتا ہے اس کے مطابق ہم آگے بیچ دیتے ہیں لیکن کسٹمر چاہتا ہے کہ اسے ٹھیک ٹھیک دانہ ملے تو کہاں سے دیں ؟ خراب دانوں کا ہم نے اچار ڈالنا ہے کیا ؟؟”
اس کا پارہ چڑھا ہوا تھا
“ اچھا میری بات سنو ! تمہیں ایک پیٹی میں کتنا خراب مال ملتا ہے ؟؟ “
“ بھائی آدھے سے زیادہ دانے نقص والے ہی نکل رہے ہیں آج کل وگرنہ ایک تہائی تو کہیں نہیں گیا “
یہ تو بہت ہی حیرت والی بات ہے
“ منڈی والے خراب دانے نہیں نکال لیتے ؟”
“ نہیں صاب جی بند پیٹی کے جب تک پیسے نہ دئیے جائیں ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتے “
“ یہ خراب دانے باغ والا ڈالتا ہے ، دس میں سے دو تین پیٹیوں کی بھرتی اسی تناسب سے ہوتی ہے ، اگر اچھا مال نکل آئے تو ہماری قسمت وگرنہ چھوٹے بچوں کا رزق اسی توتکار کی نظر ہوجاتا ہے “
مجھے اس مزدور پہ انتہائی ترس آرہا تھا
باغ والے ٹھیکے دار نے خراب دانہ پیٹی میں بند کیا ، ٹرک پہ لد کر منڈی پہنچا ، آڑھتی نے صحیح مال کی قسمیں کھا کر بولی دی ، بیوپاری نے درست سمجھ کر خریدا ، دوکاندار نے روزی روٹی کے لئے سودا کیا اور یہ پیٹی کسی ریڑھی یا دوکان پہ آکر کھلی تو پتہ چلا آدھے سے زیادہ فروٹ خراب ہیں ۔۔ باغ والے کی دلیل یہ ہے کہ خراب دانہ بھی تو بیچنا ہے ، منڈی والا کہتا ہے مجھے پیٹی کے اندرونی حالات کا کوئی پتہ نہیں ہوتا ، بیوپاری کہتا ہے جیسے آتا ہے ہم بیچتے ہیں خود اندر گھس کے تو نہیں دیکھ سکتے اور آخر میں ریڑھی والا اسی مال کو کسٹمر کو یہ کہتے ہوئے فروخت کرتا ہے “ بھائی صاب ہر دانہ ٹھیک ہے خراب نکلے تو پیسے واپس “
کوئی بھی بھلا مانس آدمی واپس آکر یہ تول مول تو کرتا نہیں اس لئے کاروبار زندگی چل رہا ہے
باغ کے ٹھیکے دار سے ریڑھی بان تک جھوٹ اور ملاوٹ کا ایک تسلسل ہے جس کو سسٹم اپنائے ہوئے ہے اور ہم مجبور محض ہیں ، ٹھیکے دار سے خریدار تک کے اس گھن چکر میں آنے والی نسلوں کی صحت کو چونا لگ رہا ہے
دنیا کے دیگر ممالک میں فروٹس اور سبزی پہ بھی ایکسپائری ڈیٹ لگی ہوتی ہے وہ مارکیٹ میں فروخت ہی نہیں ہوتی لیکن ہمارے سسٹم میں خراب چیز کو بھی بہتر کی قیمت پہ فروخت کیا جاتا ہے جس پہ جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔
آج میں بیٹھا ہوا سوچ رہا تھا کہ ٹھیکے دار ، بیوپاری ، آڑھتی اور ریڑھی بان کے اس تسلسل میں ہم بطور خریدار کہاں کھڑے ہیں ؟
اگر ایک پیٹی میں آدھا مال خراب نکلے تو کیا ہم ایک کلو پہ نصف خراب دانے برداشت کرلیں گے ؟ بالکل نہیں ۔۔ یہاں سے پھر نئی بے ایمانی کی شروعات ہوتی ہے ، ہم اپنا نقصان نہیں کرنا چاہتے ، ریڑھی بان جیب سے ادا نہیں کرسکتا ۔۔ کھینچ تان کے یہ نقصان ریڑھی بان ہی کے کھاتے میں جاپڑتا ہے اور نتیجتا جب ہم فروٹس خرید کر گھر پہنچتے ہیں اور شاپر سے صحیح اور تندرست دانوں کی بجائے خراب اور ناقص دانے برآمد ہوتے ہیں تو منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہیں
“ یہ سالے ریڑھی والے جھوٹی قسمیں کھانے کے ماہر ہیں ، سارا ہی خراب مال ڈال دیا “
تربوز کچا نہ نکلے اس لئے “ چکی “ کٹوا کر دیکھ پرکھ کر لیں گے لیکن خربوزے کے میٹھے پن کا کوئی پیمانہ نہیں اس لئے پھیکا نکلنے پہ سو صلوات سنائیں گے ، بھنڈی پکی ہو یا بینگن کے اندر سے کیڑا برآمد ہو ، آم کا ذائقہ خراب نکلے یا خوبانی گلی ہوئی ہماری تان ریڑھی بان کے ایمان پہ ہی آکے ٹوٹتی ہے ۔۔ اس سسٹم میں مجرم کون ہے ؟ باغ کا مالک جس کے دانے خراب ہیں یا آڑھتی جو بند سودے فروخت کرتا ہے ؟ یا ریڑھی بان جس نے اونے پونے بیچنا ہی ہے یا پھر ہم خریدار جو اپنا حق وصولنے کے لئے کسی رو رعایت کے روادار نہیں ہیں ؟؟
مجرم جو بھی ہو لیکن اس سارے معاملے میں “ ریڑھی بان “ کا رزق جھوٹ کی نظر ہوجاتا ہے ، ہمیں خراب دانہ نہیں چاہئے اور اس نے اپنے پیسے پورے کرنے ہیں۔ نتیجہ میں وہ جھوٹ بولتا ہے ، قسم اٹھاتا ہے اور اپنا مال بیچتا ہے
مجھے اس تناظر میں عرب کے بازار میں گھومنے والے والے دنیا کے اعلی ترین ایڈمنسٹریٹر کی یاد آجاتی ہے جو اناج کی بوریوں میں ہاتھ ڈال کر اس کی تہہ چیک کر رہے تھے ، جب ہاتھ کو اندرونی تہہ میں اناج کے اندر گیلا پن محسوس ہوا تو حکم صادر فرمایا “ جو مال گیلا ہے اسے بھی سامنے رکھو تاکہ خریدار عیب کو دیکھ کر مال خریدے اس کے ساتھ بد دیانتی نہ ہو “
آج مارکیٹ میں جاکر دیکھ لیجئے اسلامی سلطنت کا یہ آفاقی اصول آپ کو کہیں بھی نظر نہیں آئے گا ، بیمار تو در کنار حرام جانوروں تک کے گوشت پارچے بن کر فروخت ہوتے ہیں ، گدھوں اور کتوں کے قیمے کھلائے جاتے ہیں ، سوجی میں آٹا ، مرچ میں برادہ ، دودھ میں پانی اور ڈبوں میں ایسنس فروخت کیا جاتا ہے ، بوتلوں میں زہر کی نیلامی ہوتی ہے اور مضر صحت اجزا خوب صورت بوتلوں میں بھر کر معاشرہ میں پھیلا دئیے جاتے ہیں، حرام مرغی کے کباب اور قورمے بنتے ہیں اور ہم عوام لکیر کے فقیر بن کر ہر چیز کھائی رہے ہیں بس ہمارا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔
#عبداللہ_بن_زبیر

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews