بے انصاف ظالم معاشرے کی سچی کہانی
مظہر حسین اسلام آباد کی ڈھوک حیدرعلی کا رہائشی تھا‘ یہ خوشحال شخص تھا‘ ذاتی گھر‘ زمین اور ٹرک کا مالک تھا‘ مظہر حسین کا 1997ء میں کسی شخص سے جھگڑا ہو گیا‘ یہ جھگڑا ڈھوک حیدر علی کے دو خاندانوں میں تنازعے کا باعث بن گیا‘ یہ دونوں فیملیز ایک دوسرے سے دور ہو گئیں‘ جھگڑے کے آٹھ ماہ بعد دوسرے خاندان کا ایک شخص محمد اسماعیل قتل ہو گیا‘ یہ اس شخص کا چچا تھا جس سے مظہر حسین کا جھگڑا ہوا تھا‘ مقتول کے بھائی منظور نے مظہر حسین کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دی‘ پولیس نے مظہر کو گرفتار کر لیا‘ یہ بے گناہ تھا لیکن پولیس نے اسے بے گناہ ماننے سے انکار کر دیا‘ چالان عدالت میں پیش ہوا‘ جھوٹے گواہوں نے گواہیاں دیں‘ پولیس نے غلط شواہد پیش کیے اور سیشن جج نے 21 اپریل 2004ء کو مظہر حسین کو سزائے موت اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی ۔
مظہر حسین کی گرفتاری کے وقت اس کے تین بچے تھے‘ خواجہ شہباز کی عمر 8 سال تھی‘ بیٹی ارم شہزادی پانچ سال کی تھی اور سب سے چھوٹا بیٹاخواجہ زعفران چھ ماہ کا تھا‘ مظہر حسین کی اہلیہ اس وقت 26 برس کی جوان خاتون تھی‘ مظہر حسین کا والد زندہ تھا‘ وہ اپنے بے گناہ بیٹے کی فائل اٹھا کر کچہریوں میں مارا مارا پھرنے لگا‘ وہ بوڑھا آدمی تھا‘ وہ یہ دھکے برداشت نہ کر سکا چنانچہ وہ کچہریوں میں ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر انتقال کر گیا‘ والد کے مرنے کے بعد مظہر حسین کے تایا اور چچا نے پیروی شروع کی لیکن وہ بھی یہ بوجھ زیادہ عرصے تک نہ اٹھا سکے‘ وہ بھی انتقال کر گئے‘
مظہر حسین کے والد‘ تایا اور چچا کے انتقال کے بعد خاندان دو بڑے مسائل کا شکار ہو گیا‘ پہلا مسئلہ مقدمہ تھا‘ پاکستان کے وہ تمام لوگ مظہر حسین کے خاندان کی کیفیت اور صورتحال کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں جو زندگی میں کبھی تھانے‘ کچہری اور عدالتوں کے گورکھ دھندے میں پھنسے ہیں‘ ہمارا عدالتی نظام بیلنا ہے‘ یہ دروازے پر قدم رکھنے والے ہر شخص کا وہ حشر کرتا ہے جو بیلنا گنے کے ساتھ کرتا ہے۔
یہ مظلوموں کا پھوگ تک نچوڑ لیتا ہے چنانچہ خاندان کا پہلا مسئلہ مقدمے کے اخراجات‘ وکیلوں کی فیسیں‘ عدالتی عملے کی بخشیش اور قیدی مظہر حسین کا جیل کا خرچہ پانی تھا‘ دوسرا مسئلہ مظہر حسین کے خاندان کے اخراجات تھے‘ مظہر حسین کے گھر میں جوان بیوی اور تین چھوٹے بچے تھے‘ یہ اپنے اخراجات کیسے اور کہاں سے پورے کرتے؟ یہ دونوں مسائل بوجھ تھے‘ یہ بوجھ مظہر حسین کا والد‘ تایا اور چچا برداشت کرتے رہے لیکن جوں ہی ان کی آنکھیں بند ہوئیں خاندان دائیں بائیں ہو گیا‘ یہ لوگ اپنے اپنے مسائل میں الجھتے چلے گئے یہاں تک کہ مظہر حسین کا مقدمہ اور بیوی بچے اکیلے رہ گئے‘ یہ لوگ گلیوں میں رلنے لگے‘ اس برے وقت میں مظہر حسین کے بھائی محمد افضل نے ان کا ساتھ دیا۔
یہ خاندان کا نان نفقہ اور مقدمے کی گاڑی چلانے لگا‘ یہ کورٹ کچہری بھی جاتا تھا‘ بھائی سے جیل میں ملاقات بھی کرتا تھا اور مظہر حسین کے بیوی بچوں کی ’’ٹیک کیئر‘‘ بھی کرتا تھا‘ یہ بھائی پندرہ سال سسٹم کے برآمدوں میں مارا مارا پھرتا رہا‘ مظہر حسین کے بچوں نے ان 19 برسوں میں باپ کی جدائی‘ غربت‘ بھوک اور جہالت بھی دیکھی اور خاندان کی تبدیل ہوتی نظریں بھی‘ یہ بچے باپ کا سایہ سر پر نہ ہونے کی وجہ سے اسکول نہیں جا سکے‘ یہ کوئی کام دھندہ بھی نہ سیکھ سکے چنانچہ مظہر حسین کا بڑا بیٹا خواجہ شہباز کرین آپریٹر اور دوسرا بیٹا خواجہ زعفران ٹرک ڈرائیور بن گیا‘ بیٹی غیر شادی شدہ اور گھر میں بیٹھی ہے جب کہ بیوی خاوند کا انتظار کرتے کرتے بوڑھی ہو گئی‘ بیٹی ارم جس سے بھی ملتی ہے بس ایک ہی بات کرتی ہے ’’میرے ابو محرم کے مہینے میں گھر سے گئے تھے‘ ہم اس دن سے محرم گزار رہے ہیں‘ ہم نے 19 برسوں میں محرم کے علاوہ کوئی مہینہ نہیں دیکھا‘‘۔
آپ ٹریجڈی ملاحظہ کیجیے‘،
مظہر حسین کا مقدمہ 19 سال چلا‘ یہ کیس سیشن کورٹ سے ہوتا ہوا ہائی کورٹ پہنچا اور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ چلا گیا‘ پہلے مظہر حسین کے والد‘ تایا اور چچا مقدمے کے پیچھے دوڑتے رہے اور پھر یہ بوجھ بھائی محمد افضل نے اٹھا لیا لیکن مظہر حسین کی بے گناہی کا فیصلہ نہ ہو سکا‘ آپ نظام کا کمال دیکھئے‘ مظہر حسین کے بھائی نے 2010ء میں سپریم کورٹ میں اپیل کی‘ یہ اپیل 2016ء تک فائلوں میں دبی رہی‘ یہ 6 اکتوبر 2016ء کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے آئی‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ بینچ کے سربراہ تھے‘ پولیس کی طرف سے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالرؤف پیش ہوئے‘ مدعی اور مجرم دونوں کی طرف سے عدالت میں کوئی شخص موجود نہیں تھا‘ مجرم کے وکیل شاہد محمود عباسی اس دوران ہائی کورٹ کے جج بن گئے۔
یہ بھی غیر حاضر تھے‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ انقلابی انسان ہیں‘ یہ سماعت ملتوی کرنے کے بجائے کیس کھول کر بیٹھ گئے‘ فائل کھلنے کی دیر تھی‘ بینچ کو چند لمحوں میں مظہر حسین کی بے گناہی کا یقین ہو گیا‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا دل بھر آیا‘ انھوں نے ریمارکس دیے ’’ہم نے فلموں میں سنا تھا جج صاحب مجھے میری زندگی کے 12 سال لوٹا دیں‘ ہم نے آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا‘ ایک بے گناہ شخص 19 سال سے جیل میں پڑا ہے‘ اسے اس کے 19 سال کون لوٹائے گا‘‘ بینچ نے ریمارکس دینے کے بعد مظہر حسین کی رہائی کا حکم دے دیا‘ یہ حکم نکلا‘ میڈیا میں آیا اور میڈیا نے بے گناہ مظہر حسین کی تلاش شروع کر دی‘ پتہ چلا مظہر حسین زیادہ دنوں تک بے گناہی کا بوجھ نہیں اٹھا سکا تھا۔
اسے مارچ 2014ء میں ڈسٹرکٹ جیل جہلم میں ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ جیل ہی میں انتقال کر گیا‘
جیل حکام نے لاش لواحقین کے حوالے کر دی‘ لواحقین نے جنازہ پڑھا اور بے گناہ مظہر حسین کو دفن کر دیا‘ جیل حکام نے مظہر حسین کا ڈیتھ سر ٹیفکیٹ بھی جاری کر دیا لیکن یہ سر ٹیفکیٹ ہمارے باکمال سسٹم کی وجہ سے مظہر حسین کی فائل تک نہیں پہنچ سکا چنانچہ مرنے کے بعد بھی مظہر حسین کا کیس چلتا رہا‘ یہ ٹریجڈی‘ ٹریجڈی کے اوپر خوفناک ٹریجڈی تھی‘ اس ٹریجڈی نے ہمارے نظام کی ساری خامیاں کھول کر سامنے رکھ دیں۔
میری چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار ‘جسٹس آصف سعید کھوسہ اور وفاقی حکومت سے درخواست ہے آپ مظہر حسین کی داستان کو نظام عدالت کے خلاف ’’ویک اپ کال‘‘ سمجھیں اور ملک کے جسٹس سسٹم میں چند اصلاحات کریں‘ جسٹس صاحب مظہر حسین صرف ایک آدمی نہیں تھا‘ یہ تین نسلوں پر مشتمل پورا خاندان تھا‘ مظہر حسین کا والد‘ اس کا تایا اور اس کا چچا انصاف تلاش کرتے کرتے انتقال کر گئے‘ بیوی نے خاوند کی زندگی میں 19 سال بیوگی برداشت کی اور بچے باپ کی شکل کو ترستے رہے۔
یہ تعلیم تک سے محروم رہے چنانچہ ظلم صرف مظہر حسین کے ساتھ نہیں تھا ستم کا پہاڑ19 سال پورے خاندان پر ٹوٹتا رہا‘ میری جسٹس آصف سعید کھوسہ سے درخواست ہے آپ مقدمے کی فائل دوبارہ کھولیں اور حکومت کو مظہر حسین کے خاندان کو 19 کروڑ روپے ادا کرنے کا حکم جاری کریں‘ یہ 19 کروڑ روپے بعد ازاں اسلام آباد پولیس‘ مدعی خاندان اور جھوٹے گواہوں سے وصول کیا جائے اور اس کے بعد قانون بنا دیا جائے سیشن کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک قتل کے تمام مقدموں کی سماعت فوری ہو گی‘ کوئی فائل تین چار ماہ سے زیادہ پینڈنگ نہیں رہے گی اور اگر کوئی مجرم بے گناہ ثابت ہو گیا تو حکومت‘ پولیس ڈیپارٹمنٹ اور مدعی تینوں مل کر مجرم کو قید کے ہر سال کا ایک کروڑ روپے تاوان ادا کریں گے۔
یہ تاوان پولیس‘ حکومت اور مدعی تینوں کا دماغ ٹھیک کر دے گا‘ آپ اندازہ لگائیے ہم کس دور اور کس ملک میں زندہ ہیں‘ ہمارے ملک میں جھوٹی گواہی پر ایک شخص کو سزائے موت ہو جاتی ہے‘ خاندان 19 سال انصاف کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے‘ اس دوران گھر کے برتن تک بک جاتے ہیںا ور آخر میں بے گناہ مجرم جیل میں مر جاتا ہے لیکن سسٹم بندر کی طرح ایک شاخ سے دوسری شاخ اور ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگاتا رہتا ہے‘ کیا یہ ظلم پر ظلم نہیں؟ ہم اس سسٹم اور انصاف کے اس بدبودار جوہڑ میں کتنی دیر زندہ رہ لیں گے چنانچہ میری جج صاحب سے درخواست ہے آپ خدا خوفی کریں‘ آپ زندہ مظہر حسین کو انصاف نہیں دے سکے لیکن آپ اب اس کی قبر ہی سے عدل کر دیں‘ آپ اس کے بچوں کا بچپن نہیں لوٹا سکتے‘ آپ انھیں ان کی جوانی ہی دے دیں‘ آپ انھیں باپ نہیں دے سکتے‘ آپ انھیں باپ کا معاوضہ ہی دے دیں‘ آپ ملک میں روڈیل سینڈرز جیسی کم از کم ایک مثال ہی قائم کر دیں۔
جج صاحب آپ انصاف نہیں کر سکے ‘ آپ خدا خوفی ہی کر دیں‘ آپ دنیا میں کچھ تو کرجائیں ۔ جج بننے کے لیے وکالت کا پندرہ سالہ تجربہ لازمی ھوتا ھے ایک پاکستانی وکیل کو نظام میں موجود تمام تر خرابیوں کا پتہ ھوتا ھے۔ آپ کچھ ایسا نظام بنا دیں کہ غریب عدالت میں کرنے سے بچ سکیں ۔ آپکی کرسی بھی زیادہ دیر نہیں رہے گی کچھ ایسا کر کہ جاہیں کہ لوگ آپکو نشتوں یاد رکھ سکیں۔
تمام لوگوں سے گزارش ھے کہ اس تحریر کو کاپی پیسٹ کریں ۔واہٹس آپ پر شییر کریں ۔تاکہ معاشرے میں انصاف کے لیے کچھ ھو سکے ۔ شکریہ ۔ منقول
No comments:
Post a Comment