December 07, 2020

VITAMIN "C" BENEFITS IN HUMAN BODY وٹامن سی نعمت ہے۔

وٹامن سی کے فوائد

 وٹامن سی ہمارے جسم میں کولاجن (جلد کو تندرست رکھنے والی پروٹین) پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، کولاجن ہماری جلد، بالوں، ہڈیوں، جوڑوں، خون کی نالیوں کو تندرست رکھتی ہے۔

وٹامن سی کی کمی ہمارے جسم کی جلد کو شدید نقصان پہنچاتی ہے اور اسے کھردرا اور ناہموار کر دیتی ہے خاص طور پر جب جسم کو یہ وٹامن 4 سے 5 ماہ تک مناسب مقدار میں نہ ملے تو بازوں کے اوپر کی جلد، رانوں کی جلد اور پیٹھ کی جلد پر دھدری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے جسے وٹامن سی کے سپلیمنٹ کھانے سے دُور کیا جاسکتا ہے۔

وٹامن سی کی کمی سے جسم پر اُگنے والے بالوں سیدھے نہیں رہتے اور بالوں میں الجھنیں پڑنی شروع ہو جاتی ہیں کیونکہ بالوں کی صحت کو قائم رکھنے والی پروٹین کی ساخت وٹامن سی کی کمی سے تبدیل ہو جاتی ہے۔

بالوں کی ساخت میں یہ تبدیلی وٹامن سی کی کمی کی بڑی نشانی ہے اس سے بال رُوکھے اور کمزور ہوکر گرنا شروع کر دیتے ہیں۔بالوں کی یہ کمزوری مسلسل ایک مہینے تک وٹامن سی کے سپلیمنٹ کھانے سے دُور ہو جاتی ہے۔

جلد پر بالوں کی جڑوں کے ساتھ خون کی باریک نالیاں ہوتی ہیں جو جلد کے اُس حصے کو خون اور نیوٹرنٹس مہیا کرتی ہیں اور جب جسم وٹامن سی کی کمی کا شکار ہوتا ہے تو یہ باریک نالیاں لیک کر جاتی ہیں اور ٹوٹ جاتی ہیں اور بالوں کی جڑوں پر باریک سُرخ نشان نمایاں ہو جاتے ہیں اور یہ وٹامن سی کی کمی کی بڑی نشانی ہے جسے متواتر 2 ہفتے تک وٹامن سی کے سپلیمنٹس کھانے سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔

وٹامن سی جسم کو آئرن جذب کرنے میں مدد دیتا ہے اور اس کی کمی آئرن کی کمی کا بھی باعث بنتی ہے اور ان دونوں کی کمی ناخنوں کو کمزور کر دیتی ہے، ناخن ٹُوٹنا شروع ہو جاتے ہیں اور ناخنوں پر سفید اور سُرخ رنگ کی لکیریں نمایاں ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔

ناخنوں کی ساخت میں تبدیلی وٹامن سی اور آئرن کی کمی کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات سے پیدا ہو سکتی ہیں اور اس مرض کی تشخیص کے لیے ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے۔

صحت مند جلد میں وٹامن سی کی ایک بڑی مقدار موجود ہوتی ہے اور وٹامن سی جلد کو سُورج کی روشنی اور دُوسری جلد کو متاثر کرنے والی چیزوں سے بچا کر رکھتا ہے اور جلد پر ایک فائر وال کی طرح کام کرتا ہے۔

وٹامن سی کی کمی جلد کو خُشک اور ڈیمج کرتی ہے اور اس کمی سے جلد کی صحت کے لیے ضروری پروٹین کولاجن کی پیداوار میں بھی کمی واقع ہوتی ہے اور جلد خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ وٹامن سی کا زیادہ استعمال جلد کو تروتازہ اور جوان رکھنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

جلد کی خُشکی وٹامن سی کی کمی کی بڑی نشانی ہے مگر یہ کئی اور وجوہات کی وجہ سے بھی پیدا ہوسکتی ہے لہذا جلد کے ڈیمج اور خُشک ہونے کو صرف وٹامن سی کی کمی کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاسکتا۔

جلد پر الرجی اور داغ اُس وقت پڑتے ہیں جب جلد کے نیچے خون فراہم کرنے والی نالیاں لیک کر جاتی ہیں اور یہ وٹامن سی کی کمی کی ایک بڑی نشانی ہے، جلد پر یہ الرجی سارے جسم پر بھی ظاہر ہو سکتی ہے اور جسم کے کسی خاص حصے پر بھی ظاہر ہوتی ہے۔

جلد کی اس خرابی کی صورت میں وٹامن سی سے بھرپور کھانے کھانا جیسے سٹرس فروٹس وغیرہ اور وٹامن سی کے سپلیمنٹس کا استعمال جسم کی اس کمی کو پُورا کر دیتا ہے۔

کولاجن پروٹین جوڑوں کو تندرست رکھنے میں قلیدی کردار ادا کرتی ہے اور کولاجن اور وٹامن سی کی کمی جوڑوں میں درد کا باعث بنتے ہیں اور اس کمی سے چلنےپھرنے سے بھی جوڑوں میں تکلیف پیدا ہوتی ہے اور بغض دفعہ جوڑوں میں بلیڈینگ کی وجہ سے تکلیف میں مزید اضافہ ہوتا ہےا ور سوزش پیدا ہوتی ہے۔

عام طور پر اس بیماری میں متواتر ایک ہفتے تک وٹامن سی کا زیادہ استعمال اس بیماری کو ختم کر دیتا ہے۔

وٹامن سی ہڈیوں کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس کی کمی ہڈیوں کی کمزوری کا باعث بنتی ہے اور معمولی چوٹ سے ہڈی ٹُوٹ سکتی ہے۔

وٹامن سی ایک طاقتور اینٹی آکسائیڈینٹ ہے جو قوت مدافعت کو طاقتور بناتا ہے اور جسم کو بیماریوں سے لڑنے کی قوت فراہم کرتا ہے اور اس وٹامن کی کمی قوت مدافعت کو کمزور کر دیتی ہے اور وٹامن سی کی کمی کے شکار لوگ انفیکشنز اور جراثیموں سے پیدا ہونے والی دُوسری بیماریوں کا جلد شکار ہو جاتے ہیں اور قوت مدافعت کی کمزوری کی وجہ سے خُود بخود ٹھیک نہیں ہوتے۔

وٹامن سی اور آئرن کی کمی ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور اس کمی سے چہرہ پیلا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اُس کی سُرخی غائب ہو جاتی ہے، ورزش کے دوران سانس پھولتا ہے اور جسم جلد تھکاؤٹ کا شکار ہو جاتا ہے، اور اکثر سردرد کی شکائت رہتی ہے۔

اس کمی کو آئرن سپلیمنٹ اور وٹامن سی سپلیمنٹ کھا کر اور ایسے کھانے کھا کر جو ان دونوں کیمیا پر مشتعمل ہوں پُورا کیا جاسکتا ہے۔

یہ وٹامن سی کی کمی کی دو ایسی علامات ہیں جو اس وٹامن کی کمی کی صورت میں فوراً ظاہر ہوتی ہیں اور ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ چڑاچڑا پن اور تھکاؤٹ وٹامن سی کی کمی کی ابتدائی علامات ہیں جنہیں فوراً  پہچان کر اس کمی کو دُور کرلینا چاہیے تاکہ کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔

وٹامن سی جسم میں چربی کو پگھلاتا ہے ذہنی تناؤ پیدا کرنے والے ہارمونز کو کنٹرول کرتا ہے اور جسم میں سوزش پیدا نہیں ہونے دیتا۔

ماہرین کی تحقیقات کے نتائج کے مطابق وٹامن سی کی کمی جسم میں چربی پیدا کرتی ہے خاص طور پر پیٹ کے اوپر۔

قدرت کے بہت سے کھانے وٹامن سی کے خزانوں سے بھر پور ہیں جن میں چیری، امرود، کیوی، لیچی، لیموں، مالٹا، کینو، مسمی، سٹابری، پپیتا، بروکلی وغیرہ سر فہرست ہیں۔

 

 

October 24, 2020

EOBI. ( Employyes OldAgePension )Announcement For those who have reached the age of Pension

 

 ایمپلائز اولڈ  ایج  بینی فٹس انسٹی ٹیوشن 

ای ۔او۔ بی۔ آئی۔کی جانب سے بڑی خوشخبری

ایسے افراد جن کی عمر 60 سل سے زائد ہو چکی ہے اور وہ  ای او بی آئی میں رجسٹرڈ ہیں۔ اگر انھوں نے ابھی تک پنشن کے لئے  درخواست جمع نہیں کروائی اُن کے لئے موقع  ہے ۔ وہ اپنی درخواست جمع کروا  سکتے ہیں۔ 

 



 

October 23, 2020

HUMAN MEDICAL FITNESS PARAMETERS

 

 MEDICAL FITNESS_

BLOOD PRESSURE
          ----------
120/80 --  Normal
130/85 --Normal  (Control)
140/90 --  High
150/95 --  V.High
----------------------------

           PULSE
          --------
72  per minute (standard)
60 --- 80 p.m. (Normal)
40 -- 180  p.m.(abnormal)
----------------------------

          TEMPERATURE
          -----------------
98.4 F    (Normal)
99.0 F Above  (Fever)

BLOOD GROUP COMPATIBILITY

What’s Your Type and how common is it?

O+       1 in 3        37.4%   (Most common)

A+        1 in 3        35.7%

B+        1 in 12        8.5%

AB+     1 in 29        3.4%

O-        1 in 15        6.6%

A-        1 in 16        6.3%

B-        1 in 67        1.5%

AB-     1 in 167       0.6%    (Rarest)


Compatible Blood Types

O- can receive O-

O+ can receive O+, O-

A- can receive A-, O-

A+ can receive A+, A-, O+, O-

B- can receive B-, O-

B+ can receive B+, B-, O+, O-

AB- can receive AB-, B-, A-, O-

AB+ can receive AB+, AB-, B+, B-, A+,  A-,  O+,  O-

This is an important msg which can save a life! A life could be saved...
What is ur blood group ?


EFFECT OF WATER                  
 We Know Water is
       important but never
       knew about the
       Special Times one
       has to drink it.. !

       Did you know ?

  Drinking 1 Glass of Water at the Right Time Maximizes its effectiveness on the  Human Body;

         1 Glass of Water
              after waking up -
              helps to
              activate internal
              organs..

         1 Glass of Water
              30 Minutes   
              before a Meal -
              helps digestion..

        1 Glass of Water
              before taking a
              Bath  - helps
              lower your blood
              pressure.

        1 Glass of Water
              before going to
              Bed -  avoids
              Stroke  or Heart
              Attack.

      'When someone
       shares something of
       value with you and
       you benefit from  it,
       You have a moral
       obligation to share

October 04, 2020

Technical Education, Finish un-employment, انڈسٹری کو ترقی دینے کے لئے ہنر مند افراد کی تیاری بہت ضروری ہے۔

   تقدیر بدلنے کا نسخہ

          ایک بوائلر بنانے والے دوست کی ورکشاپ میں جانا ہوا. کوریا سے درآمدہ استعمال شدہ  بوائلرز قطار اندر قطار پڑے تھے. بہت سا سازوسامان دیواروں کے ساتھ بے ترتیب بکھرا پڑا تھا. پوچھا اس قدر کارآمد، بیش قیمت اشیاء یوں پراگندہ حال کیوں پڑی ہیں. کہنے لگے صاحب کوئی کاریگر ہی نہیں ملتا کہ ان کو ٹھیک ٹھاک کرکے الماریوں میں لگائیں.

     ایک بڑے سے بوائلر کے پاس دوتین لوگ کام کررہے تھے. پوچھا یہ کاریگر تو ہیں. کہنے لگے نہیں یہ آٹومیشن والےہیں، پی ایل سی (ایک طرح کا کمپیوٹر سمجھ لیں جو آجکل ہو مشین کے ساتھ لگا ہوتا ہے جو اس کو خودکار انداز میں چلنے کیلئے ہدایات دیتا ہے) ٹھیک کرنے کیلئے آئے ہیں. یہ بھی چند کاریگر ہیں بہت بار فون کرنے پر اور بہت منت سماجت کرنے پر آتے ہیں.

        کہنے لگے اب اپنے بچے کو ساتھ لیکر آیا ہوں کہ یہ خود پی ایل سی کا کام سیکھ لے اور کچھ محتاجی ختم ہو، مگر کوئی اس کو کام سکھانے پر آمادہ ہی نہیں. عرض کیا حضور نظام کو سمجھیں جس نے خود آدھی زندگی خرچ کرکے بمشکل تمام ایک کام سیکھا ہے وہ بھلا کیوں آسانی سے کسی کو سکھائے گا. یہ کام تو تعلیمی اداروں کے کرنے کے ہیں. جہاں سے ہمیں ہر میدان کے وافر ہنر مند ملنا چاہیے مگر وہاں تو سب ایف اے ایف ایس سی مشغول ہیں. اس کے بعد بے اے کریں گے پھر پکوڑوں کی ریڑھی لگا کر سماجی ذرائع پر تصاویر لگائیں گے کہ ایم. پاس بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے پکوڑے بیچ رہا.

       بھائی کس نصاب حیات میں درج ہے کہ ہر شخص نے ضرور ہی میٹرک ، ایف اے، بی اے کرنا ہے. ٹیکنیکل کورسز کرو. ہنرسیکھو توجہ اور شوق سے کام کرو عزت سے روزگا کماؤ.

      وزیراعظم صاحب اگلے روز فرما رہے تھے کہ سب ایکسپورٹ کے پیچھے پڑ جاؤ. حضور سپنے ایکسپورٹ نہیں ہوتے. کارآمد اشیاء ہوتی ہیں. اور ان کو بنانے کیلئے ہنرمند ہاتھ چاہئیں. آپ پرائمری مڈل تعلیم سب پر لازم کریں اس میں انہیں، اخلاقیات مذہب، معاشرت اور خوراک کے متعلق ضروری تربیت کے بعد ساٹھ فیصد سے کم نمبر والوں کو کام سیکھنے پر لگائیں.  ہر ہائی سکول اس کے ضلع کی انڈسٹری کے حساب سے دوسال کے کورسز کروائے. جہاں پوری نیک نیتی سے انہیں مکمل ہنرمندی سکھائی جائے. فیکٹری میں کام کرنے کی عمر کی حد اٹھارہ سال سے کم کرکے پندرہ سال کریں. اور سکول سے نکلنے والا ہر ہنرمند پہلے روز کسی فیکٹری میں کم از کم بیس ہزار پر ملازم ہو.

      فیکٹریاں لگانے والوں کو یہ فکر نہ ہو کہ  مشینیں توخرید لیں گے کاریگر کہاں سے آئیں گے، ماں باپ کو یہ دباؤ نہ  ہو کہ بچہ کام تو سیکھ لے گا نوکری کہاں ملے گی. جی چاہتا ہے فی الفور ایک ایسا سکول بنادوں، مگر ابھی وسائل کی کمی آڑے آتی ہے. مگر کوئی دن جاتا ہے کہ انشاء اللہ اس کا آغاز کریں گے. آپ بھی غور کریں اگر بات منطقی لگے تو ارباب اختیار تک پہنچانے میں مدد کریں. کہ جہاں کورسز پر کام کررہے ہیں وہاں سکولوں کا نظام کو بھی ایک باربدل ہی  دیں. کہ شاید وطن عزیز کی تقدیر بدل جائے.

                            (ابن فاضل)


October 02, 2020

GOAT FARMING & BASIC FAULTS , بکریوں کی فارمنگ اور بنیادی غلطیوں کا ابتدا سے ہی ازالہ

 

بکریوں کی فارمنگ اور بنیادی غلطیوں کا ابتداء سے ہی ازالہ
کچھ سالوں سے بکریوں کا فارم بنانے کا رحجان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر ہمارے دوست اس فیلڈ میں آ رہے ہیں۔ اور لائف سٹاک میں یہ اچھا شگون ہے۔ دیار غیر میں یہ کام جا کر کرنا ہے تو کیوں نہ اپنے ملک میں رہ کر کیا جائے جس سے ملک کے زر مبادلہ میں بھی اضافہ ہوگا اور ملک میں لحمیات کی کمی بھی دور ہوگی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کونسی نسل کا فارم بنایا جائے۔ تو میرا آپ تمام نئے بکریوں کے فارمر کو مشورہ ہے کہ اپنے مخصوص علاقے کی بریڈ پالی جائے۔ بکری بنیادی طور پر ایک نازک جانور ہے۔ تھوڑا سا موسم کا مزاج بدلہ نہیں اور بکری بیمار ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ تو میرے تجربے میں جو پندرا بیس فارم آئے ہیں وہ مکمل ناکامی کا شکار ہوئے ہیں۔ تمام تر حفاضطی تدابیر کے باوجود وہ تمام فارم نقصان کا باعث ہوئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ دوسرے علاقے کی نسل کو اپنے علاقے میں لے کے آنا ہے۔ اور یہ اصول تمام نسلوں پے لاگو ہوتا ہے۔ مثلاً میرے ایک دو جاننے والوں نے راجن پوری نسل لے آئے تھے اپر پنجاب اور وسطی پنجاب میں ۔ایک بھائی کے ڈیڑھ سو جانور تھے جو اس علاقے کے موسم سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ اسی طرح دوسرے دوست نے 85 جانور ہلاک کروائے۔ ایک اور گوجرانولا کا فارمر ہے جس نے ہر چیز سائنسی طریقے سے سیٹ کی ہوئی تھی اور حتٰی کہ ویٹنری ڈاکٹر بھی باہر کا رکھا ہوا تھا۔ پرسوں اس کے فارم پے وزٹ کیا ہے تو 200 میں سے پچیس جانور بچے ہوئے تھے۔ اور اسی طرح پندرا بیس اور بھی ہیں جو راجن پوری سفید بکریوں کا نقصان کر چکے ہیں۔ تو میرے سینیئر ڈاکٹرز اور فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے ماہرین کی مشترکہ رائے یہی ہے کہ اس علاقے کی لوکل بریڈ کو زیادہ ترجیح دی جائے اگر نقصان سے بچنا ہے۔ پاکستان کی تمام نسلوں میں راجن پوری بیتل سفید زیادہ خوبصورت مانی جاتی ہے اور سب سے زیادہ نازک بھی یہی بریڈ ہے۔ یہ بریڈ صرف ڈی جی خان راجن پور اور مظفر گڑھ تک کامیاب ہے۔ اس سے آگے یا پیچھے یہ نسل جائے گی تو بکریوں فارمر کا نقصان کرے گی۔ اس نسل کی بیماری کے خلاف قوت مدافعت انتہائی کم ہے۔ اپنی پتلی چمڑی کی وجہ سے یہ نسل بہت جلد موسمی اثرات قبول کرتی ہے۔ اور اگر ملتان اور گھوٹکی تک اس نسل کو مصنوعی ماحول دیکر کچھ عرصہ برقرار بھی رکھتے ہیں تو جانور ویسا قد کاٹھ نہیں بنائے گا جس طرح وہ اپنے آبائی علاقے میں بناتے ہیں۔
دوسری بھائیوں کی بھلائی کے واسطے آگے شیئر کریں تاکہ کوئی دوسرا بھائی لا علمی کی وجہ سے عمر بھر کی کمائی کا نقصان نہ کر بیٹھے۔ ہو سکتا ہے وہ پتا نہیں کیا کیا چیز گھر کا بیچ کر یا گھر کے ضروری فرائض کو کچھ وقت کے لیے پینڈنگ کر کے یہ شوق کر رہا ہو اور نہ سمجھی میں نہ اِدھر کا رہے اور نہ اُدھر کا رہے۔ چالاک بیوپاری جو آجکل سوشل میڈیا پے چھائے ہوئے ہیں ، کبھی بھی یہ نہیں بتائیں گے کہ کون سی نسل کس علاقے کے لیے مخصوص ہے۔ ان کو اپنے نفع سے غرض ہے ۔ باقی ان کی بلا سے کسی کی منجی ٹُھک جائے۔ بکریوں کی فارمنگ ضرور کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسمیں منافع کافی ہے بشرطیکہ لوکل بریڈ کا فارم ہو۔ یہ پیغمبری پیشہ ہے ۔منافع کی تو یقیناً گارنٹی ہے۔ لیکن جو تحفظات اوپر بیان کیے ہیں ان کو مدِنظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ شیِر کریں۔ آپ کی یہ چھوٹی سی کوشش کسی کا گھر برباد ہونے سے بچا سکتی ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں دن بدن کھلی جگہوں کی کمی ہورہی ہے، اور بکریوں فارمنگ جو کبھی فری آف کاسٹ چرائی کا نظام تھا وہ ختم ہورہا ہے۔ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ گوشت کی طلب میں بھی دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ روایتی طریقےسے گوشت کی پیداوار خاطر خواہ نہیں بڑھائی جاسکتی ۔
ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان گوشت برآمد کرنے والے ممالک میں 19 نمبر پر آتے ہیں۔ لیکن بکریوں کی تعداد کے حوالے سے چین، انڈیا کے بعد تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں بھیڑ بکری کے گوشت کی بہت زیادہ طلب ہے، جس کو پورا کرنے میں بکریوں فارمنگ بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
بکریوں فارمنگ کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے، جس کے لیے کسی یونیورسٹی کی ڈگری کی ضرورت ہو، رات کو جاگ جاگ کر پڑھنا پڑھتا ہو، بکریوں فارمنگ ہر وہ انسان کر سکتا ہے ، جو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے حلال کی روزی کمانا چاہتا ہو
یہ درست یہ کہ بکریوں فارمنگ دیہاتی پیشہ ہے۔ اور دیہات میں رہنے والے بکریوں پروڈکشن سے اپنے لیے مناسب آمدن حاصل کرسکتے ہیں۔ اور شہروں میں رہنے والے حضرات بکریوں مارکیٹنگ سے اپنے لیے مناسب آمدن حاصل کرسکتے ہیںِ ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بکریوں کی فارمنگ کن لوگوں کے لیے باعث منافع ہے؟
بکریوں فارمنگ ان لوگوں کے بہت منافع کا باعث ہے جو دیہات میں رہائش پذیر ہیں۔
ان کے پاس فارمنگ کے لیے تین سے پانچ ایکڑ زمین موجود ہے، یا ابتدائی طور ایک سے دو ایکڑ زمین مناسب سالانہ کرائے یا ٹھیکہ پر حاصل کرسکتے ہیں۔
ابتدائی پر دس سے پندرہ ٹیڈی بکریاں خرید سکتے ہیں۔ ایک سال تک ان کو چارہ اور بوقت ضرورت ونڈا کھلا سکتے ہیں۔ وقت ڈی ورمنگ اور حفاظتی ٹیکہ جات لگوا سکتے ہیں۔
جانوروں کی جگہ کو صآف اور خشک رکھھ سکتے ہیں۔ دن میں دو سے تین گھنٹے کے لیے چرائی یا چہل قدمی کروا سکتے ہیں۔ دو سے تین کنال گوارہ اور جنتر لگا سکتے ہیں۔ ہر چھ ماہ کے بعد نر جانوروں کو مناسب قیمت پر لوکل سطح پر فروخت کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
اگر مندرجہ بالا نکات کو ایک منصوبہ کے تحت اختیار کیا جائے تو بکریوں فارمنگ منافع بخش ہے۔
وہ دوست جو لائیوسٹاک فارمنگ کے شعبہ میں آنے چاہتے ہیں۔ اور ایک اچھا فارمر بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اور ساتھ نقصان سے ڈرتے بھی ہیں تو بکریوں فارمنگ ان کو بہترین تربیت حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے۔ کہ ایسے دوست جو دیہات کی سطح پر فارمنگ کرنا چاہتے ہیں اور ان کے پاس دو سے تین لاکھ روپے سرمایہ اور دو سے تین ایکڑ زمین اور وقت اور شوق ہے تو وہ بکریوں فارمنگ سے اپنے کام کی ابتداء کریں۔ اور ابتداء میں ایسی دس سے بیس بکریاں خرید لیں جو سال میں دو دفعہ بچے دیتی ہوں۔ ان کے بچے ہر چھ ماہ فروخت کرتے جائیں۔
ٹیڈی بکریوں کی عمر عام طور پر چھ سے سات سال ہوتی ہے۔ اور اپنی زندگی میں اوسط چودہ بچے جنم دیتی ہے۔ چھ سال کے بعد بکری بوڑھی ہوجاتی ہے۔ اس کی جگہ نئی جوان بکری لے آنی چاہیے ۔ اگر ہر چھ ماہ نر بکرے فروخت کرتے جائیں اور مادہ کو اپنے پاس رکھتے جائیں تو دوسرے چھ ماہ میں پہلے چھ ماہ میں جنم لینے والی مادہ بھی ماں بن جائے گی، اور فارم میں جانوروں کا اضافہ ہوگا۔
مارکیٹ میں ٹیڈی نسل کے جانور عام گوشت کی مارکیٹ میں فروخت کئے جاتے ہیں۔ اور عام گوشت کی مارکیٹ میں جانور پندرہ کلو وزن تک فروخت ہوتا ہے۔ اور سودا بازی سے مناسب قمیت پر فروخت کیا جاسکتا ہے۔ عام طور پندرہ کلو کا جانور تین سو ساڑھے تین سو روپے فی کلو زندہ فروخت ہوتا ہے۔ اگر جانور کو وافر مقدار میں چارہ ، وقت پر ڈی وارمنگ ، حفاظتی ٹیکہ جات اور اچھی مینجمنٹ کی جائے تو پندرہ کلو وزن چار ماہ کے اندر باآسانی کرلیتے ہیںِ اور چھ ماہ کے اندر بیس سے پچیس کلو وزن ہوجاتا ہے۔ جو کہ اچھی قیمت دیتا ہے۔
ٹیدی نسل کے جانور پالنے میں کم محنت ، کم سرمایہ لگتا ہے۔ اگر بکریوں سے بچے حاصل کرکے فروخت کئے جائیں تو پھر بھی منافع ہوتا ہے۔
عام طور پر ہمارے ذہنوں میں تیس ہزار ، چالیس ہزار بکرے کی قیمت ہوتی ہے۔ کہ اس قمیت پر بکے تو منافع ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ جی اگر دس بکرے بھی فروخت کئے تو چار لاکھ تو بن جائیں گئے۔ تیس چالیس ہزار خالص نسل کے بکروں کی قیمت لگتی ہے جن کا قد، رنگ، وزن زیادہ ہوتا ہے۔ اور ان کو پالنے کے اخراجات کافی زیادہ ہوتے ہیں
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ خالص نسل کے جانور بہت نخریلے ہوتے ہیں۔ اگر چارہ، ونڈا ان کی مرضی کے مطابق نہ ہو تو یہ کھانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اگر ان کی ڈی ورمنگ ، حفاظتی ٹیکہ جات اور موسم کی شدت سے بچاو کا انتظام نہ کیاجائے تو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیںِ ۔ اس لیے اگر بکریوں فارمنگ کے کم از کم دو سال بعد نسلی بکروں کو پالا جائے تو پھر مناسب منافع ملتا ہے۔
اس کے برعکس ٹیڈی بکری کے بچے بہت تعاون کرنے والے ہوتے ہیںِ ۔ ان کو جو بھی ملے وہ کھا لیتے ہیں۔ اور ٹیڈی نسل کے بکروں کو اچھے چارے پر بھی پالا جاسکتا ہے۔ اور ونڈے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اگر گھر میں بچی ہوئی روٹیوں کو گیلی کرکے باریک توڑی میں مکس کرکے کھلا دی جائیں تو پھر بھی ونڈے کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ جو دوست بکریوں فارمنگ کرنا چاہتے ہیں تو وہ ابتداء ٹیڈی بکریوں سے کریں۔ اس سے کم محنت ، کم سرمایہ سے ایک سے دو سال میں اچھا خاصا جانوروں کی تعداد میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ جس سے اچھی نسل کے کم عمر بکرے ہر سال اچھی منڈی سے خرید کر ان کی پرورش کرکے عید قربان پر فروخت کرسکتے ہیں۔
قربانی کے جانور اپنے علاقے کی معاشی صورتحال کے مطابق قیمت دیتے ہیں۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں زیادہ تر بیس سے پچیس ہزار تک ہی کے جانور خریدے جاتے ہیںِ ۔شاذونادر ہی چالیس سے پچاس ہزار تک کا جانور خریدا جاتا ہے۔ چھوٹے شہروں میں پچیس سے تیس ہزار تک کا جانور خریدا جاتا ہے۔ جبکہ بڑے شہروں میں پنتیس سے چالیس تک کا جانور خرید جاسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک اچھی نسل کو وی آئی پی طریقے سے پالنے پر دس ہزار سے بارہ ہزار روپے خرچہ ایک سال کے اندر آتا ہے۔
اس لیے بکریوں فارمنگ شروع کرنے سے پہلے فروخت کے لیے علاقے کی معاشی صورتحال کا جائزہ لینا بھی بہت ضروری ہے۔ کہ لوگ مہنگا جانور خرید سکتے بھی ہیں یا نہیں۔ عام طور بکریوں فارمنگ میں ٹیڈی بکری کا کراس بتیل بکرے سے کروا لیا جاتا ہے ۔ اور اس سے حاصل ہونے والا جانور ٹیڈی جانور سے قد میں تھوڑا بڑا لیکن بتیل سے کم ہوگا۔ اور ایسا جانور دوغلا کہلاتا ہے۔ یہ جانور مناسب قیمت پر فروخت ہوجاتا ہے۔ اور ایسے جانور کو پالنے پر زیادہ اخراجات بھی نہیں آتے
اگر آپ کے پاس اپنی ذاتی زمین ہے اور مناسب سرمایہ ہے اور وقت ہے تو پھر یہ کام شوق سے کریں۔ اگر زمین اور سرمایہ تو ہے لیکن خود کوئی نوکری یا کاروبار کرتے ہیں تو پھر ایسے ملازم کا انتخاب کریں جو کام چھوڑ کر نہ بھاگے۔ زمینداری کے کاموں میں ورکر کا ہر وقت موجود ہونا بہت ضروری ہے، ورکر آپ کے فارم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتا ہے۔ اگر کسی وقت ورکر بھاگ جائے اور آپ خود فارم پر کام نہ کرسکیں تو پھر سمجھیں کام ختم ، سرمایہ خلاص
اگر آپ اپنے فارم پر خود کام کریں تو اس سے اچھی بات اور کوئی نہیں۔ جس آپ کا تجربہ بھی بڑھے گا، اور ذہنی سکون بھی رہے گا ، اور اچھا منافع بھی حاصل ہوگا۔
بکریوں فارمنگ پارٹ ٹائم فارمنگ نہیں یہ فل ٹائم فارمنگ ہے۔ جو دوست بکریوں فارمنگ کی طرف آنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے بکریوں فارمنگ کی روٹین کو سمجھیں ، بکریوں فارمنگ کی ضروریات کو سمجھیں پھر اس پر خوب خوب سوچیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ جو بھی کام کیا جاتا ہے اس کی کامیابی نسلوں کو سنوار دیتی ہے۔ اگر آپ فارمنگ میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کوپندرہ سے بیس سالوں میں زیادہ سے زیادہ بڑھا لیتے ہیں۔ آج آپ نے دس سے بیس جانوروں سے آغاز کیا ، اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ، اور اس کاروبار میں اضافے کے ساتھ ہی آپ کو زیادہ ورکروں کی ضرورت ہوگی۔
تو اگر اچھے طریقے سے اس کو چلایا گیا ہوگا تو اسی فارم کو گورنمنٹ سے بطور سنگل پرسن کمپنی رجسٹرڈ کرویا جاسکتا ہے۔ اگر آپ پانچ سے دس سال کامیاب فارمنگ کرلیتے ہیں اور مناسب تجربہ ہوجاتا ہے ، مناسب بنک بیلنس کے مالک ہوجاتے ہیں تو آپ بطور وزیٹر کسی بھی ملک کا ویزہ باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔
بکریوں فارمنگ ایک ایسا بزنس بن سکتا ہے جو آپ کو پوری دنیا کی سیر کروا سکتا ہے۔ آپ کا فارم آپ کو دنیا کے ہرکونے میں لے جاسکتا ہے۔ یہ کوئی ناممکن کام نہیں۔ بس ضرورت کس بات کی ہے، ضرورت اس بات کی کہ آپ درست وقت پر درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کریں۔
بکریوں پروڈکشن کرنے والے فارمر کے لیے دنیا کے دروازے کھلے ہیں۔ اگر وہ ان کی شرائط پر پورے اُترتے ہوں تو۔ میں آپ کو خواب نہیں دکھلا رہا بلکہ ایک خواب کی تعبیر پانے کے رستے کی نشان دھی کررہا ہوں۔ کہ گاؤں دیہات میں رہنے والے پڑھے لکھے دوست اگر کم از کم پانچ سال تک کامیاب بکریوں فارمنگ کرلیتے ہیں اور فارم بنانے کے دو سال کے بعد گورنمنٹ سے فارم بطور ایک پروڈکشن کمپنی رجسٹرڈ کروالیتے ہیں۔ تو پھر دنیا کی سیر ان کے لیے ناممکن نہیں۔
دوستو! حلال گوشت کی دنیا میں بہت ہی زیادہ ڈیمانڈ ہے۔ حلال گوشت کی دنیا کو بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ایسے فارمر جن کے پاس مناسب مقدار میں زمین ہے اگر نہ ہوتو ٹھیکے پر بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور ابتدائی طور مناسب سرمایہ موجود ہے ، تو پھر بکریوں فارمنگ سے منافع حاصل کرنے سے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا ۔
اگر آپ بکریوں فارمنگ کے کاروبار کو سنجیدگی کے ساتھ شروع کرنے کا ارادہ کر چکے ہیں اور آپ کے پا س کم ازکم ایک سے دو ایکڑ اراضی موجود ہے، اور چار سے پانچ لاکھ کا سرمایہ موجود ہے ، تو پھر یہ تحریر آپ کے لیےہے، دنیا کے دروازے آپ پر کھلنے کے لیے تیار ہیں۔

 

Medicine Prices, With Brand Name & Generic Formula پاکستان میں ڈاکٹر برانڈ کا نام کمیشن کھانے لے لئے لکھتے ہیں۔

 

ادویات : خرابی کہاں پر ہے؟
آصف محمود
کبھی آپ نے سوچا کہ ہمارے ڈاکٹرز ادویات کے نسخوں پر برانڈڈ اور مہنگی ادویات کیوں لکھتے ہیں ، جب اسی فارمولے میں مارکیٹ میں درجنوں سستی ادویات موجود ہوتی ہیں تو ہمارے ڈاکٹر حضرات وہاں متعلقہ دوائی کا عام فارمولا نام لکھنے کی بجائے کمپنی کا برانڈ نام لکھنے پر بضد کیوں ہیں؟
ہوتا کیا ہے؟ واردات کو سمجھیے۔ مریض ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ ڈاکٹر اس کے لیے ایک دوا تجویز کرتا ہے۔ وہ دوا دس بیس کمپنیاں تیار کرتی ہیں۔اس دوا کے دو نام ہوتے ہیں۔ایک generic name ہوتا ہے جو سب کا یکساں ہو تا ہے اور ایک برانڈ نام ہوتاہے جو ہر کمپنی کا الگ ہوتا ہے۔بھارت میں اور شاید بنگلہ دیش میں بھی یہ قانون بن چکا ہے کہ ڈاکٹر دوا کا نام لکھیں گے ، کسی خاص کمپنی کی برانڈڈ دوا کا نام نہیں لکھیں گے۔بنگلہ دیش جیسے ملک میں صرف 20 فیصد ادویات برانڈڈ نام سے لکھی اور تجویز کی جاتی ہیں۔جب دوا کا نام لکھ دیا یعنی اس کا فارمولا نام لکھ دیا تو اب مریض آزاد ہے وہ مارکیٹ میں جائے اور اس فارمولے پر تیار کردہ کسی بھی کمپنی کی دوا خرید لے۔
یعنی وہاں کا ڈاکٹر صرف ایک ڈاکٹر ہے وہ کسی برانڈ یا کسی خاص کمپنی کا کارندہ اور سیلز ایجنٹ نہیں ہے۔ہاورڈ ہیلتھ سکول کی آج میں ایک تحقیق پڑھ رہا تھا اس کے مطابق امریکہ میں ڈاکٹرز کے 85 فیصد نسخوں پر برانڈڈ نام کی بجائے فارمولا نام درج ہو تا ہے۔
پاکستان میں معاملہ اس کے بر عکس ہے،پورے جنوبی ایشیا میں نیپال اور پاکستان ہی ایسے ملک رہ گئے ہیں جہاں کسی دوا کا فارمولا نام نہیں لکھا جاتا۔پاکستان میں ڈاکٹر کمپنی یعنی برانڈ کا نام لکھتا ہے اور مریض اس کی مہنگی دوا خریدنے جب مارکیٹ جاتا ہے تو میڈیکل سٹور والا اس کو بتاتا بھی رہے کہ اسی فارمولے میں یہ دوسری دوا دستیاب ہے جو سستی بھی تو تو مریض کہتا ہے ’’ نہیں جی ، مجھے تو وہی دوا لینی ہے جو ڈاکٹر صاحب نے لکھی ہے‘‘۔
مریض کو شاید یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب نے مہنگی کمپنی کی دوا اس کی صحت کے لیے نہیں لکھی بلکہ اس لیے لکھی ہے کہ ان کا متعلقہ کمپنی کے میڈیکل ریپ سے معاملہ ہو چکا ہے ، وہ کمپنی سے گاڑی لے چکے ہیں اور عمرے بھی فرما چکے ہیں اور معاہدے کے تحت انہوں نے ایک یا دو سال صرف یہی دوا لکھنی ہے اور اس کی ایک خاص مقدار میں فروخت یقینی بنانی ہے۔
ذرا ان بقلم خود مسیحائوں کے غیر ملکی دوروں پر مکمل پابندی لگائیے اور فارماسوٹیکل کمپپنیوں سے ان کے معاملات کی تحقیق کیجیے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ لیکن تحقیق کون کرے؟ معاملات ڈاکٹرز تک تھوڑے محدود ہونے ہیں۔ اگر قانون سازی نہیں ہو پا ررہی تو کیا عجب کھرا پارلیمان اور کابینہ تک چلا جائے۔
بھٹو صاحب کے دور میں یہ قانون بنایا گیا تھا کہ ڈاکٹرز کسی خاص کمپنی کا نام نہیں لکھیں گے وہ صرف دوا کا فارمولا نام لکھیں گے۔ کچھ دن یہ قانون نافذ رہا پھر ضیاء الحق صاحب کے دور میں یہ قانون بدل دیا گیا ۔ تب سے اب تک ڈاکٹرز برانڈڈ ادویات ہی لکھ رہے ہیں اور اب تو یہ عالم ہے کہ عوام الناس کو ادویات کے اصل نام معلوم ہی نہیں ، بس چند کمپنیوں کے برانڈڈ نام ہی انہیں معلوم ہیں اور وہی ادویات مہنگے داموں خریدی اوراستعمال کی جا رہی ہیں۔
مثال کے طورپر دوا کا اصل نام پیراسٹامول ہے لیکن برانڈ پیناڈول کا مشہور کر دیا ہے۔حالانکہ یہ دوا اور ناموں سے بھی دستیاب ہے۔زولگینسما ایک بہت مہنگی دوائی ہے ، یہ اس دوائی کا برانڈ نام ہے۔یہی دوائی اسی فارمولے میں نصف قیمت پر بھی دستیاب ہے لیکن بیمار سمجھتا ہے کہ بس اس نام میں کوئی کمال ہے اور اسے کوئی بتانے والا نہیں کہ بھائی اپنے پیسے برباد نہ کرو ، مہنگی اور سستی دوا کا فارمولا ایک ہی ہے۔
ایسی ادویات کی ایک طویل فہرست ہے جن کے برانڈ نام کی قیمتیں ان کے فارمولا نام سے کئی گنا زیادہ ہیں ۔لیکن یہاں نہ کوئی پالیسی ہے نہ کوئی کسی کو پوچھنے والا ہے۔ سب کو سیاست کا چسکا لاحق ہے اور ہر طرف سیاسی بحث زوروں پر ہے۔وزرائے کرام بھی یہاں اتنے ’’ویلے‘‘ اور فارغ ہیں کہ ہر وقت سیاسی موضوعات پر تبصرے فرمانے کو دستیاب ہوتے ہیں۔یہ ایماندار ی سے متعلقہ شعبوں میں کام کر رہے ہوں تو ان کے پاس ادھر ادھر کی ہانکنے کا وقت ہی نہ ہو۔لیکن یہاں ریلوے کا وزیر امور خارجہ پر قوم کی رہنمائی فرما رہا ہوتا ہے اور سائنس ایند ٹیکنالوجی کا وزیر آستینیں چڑھائے اہل مذہب کے تعاقب میں ہوتا ہے۔اپنے متعلقہ شعبے میں کسی کو دلچسپی ہی نہیں۔ اصلاح احوال کیسے ہو سکتی ہے؟
مقامی انڈسٹری ، آٹو موبائل کی ہو یا فارماسوٹیکل ، پوری توجہ اور محنت سے برباد کی گئی ہے۔ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ یہاں کوئی کام نہ کر سکے۔ انڈسٹری کے لیے آج تک ون ونڈو آپریشن کی سہولت پر نہیں سوچا گیا۔ ایک یونٹ لگانا ہو تو سرمایہ کار دو درجن دفاتر میں دھکے کھاتا رہتا ہے۔ الا ماشا ء اللہ ، ہر محکمہ اسے ذلیل کر کے اس سے حرام کھانے پر تلا ہوتا ہے ، سہولت دینے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔
رہی سہی کسر اس حکومت نے خوف کی فضا پیدا کر کے پوری کر دی ہے۔ خوف اور سرمایہ ایک جگہ نہیں رہ سکتے۔ مقامی صنعت تباہ ہو چکی ہے۔
ہمارا قومی مزاج بھی بیمار ہے۔ ہم معاشی خوشحالی بھی چاہتے ہیں لیکن ہم سرمایہ دار سے نفرت بھی کرتے ہیں۔ہر سرمایہ کار ہمیں بے ایمان لگتا ہے۔سیاسی قیادت کے فضائل میں بھی اب یہ ملامتی سوچ در آئی ہے کہ فلاں کے کوٹ کا بٹن ٹوٹا ہوا ہے اور فلاں کے بیٹے کی بنیان پھٹی ہوئی ، پس ثابت ہوا دونوں بہت ایماندار ہیں۔ یعنی ایمانداری اب کنگلا ہونے کا نام ہے۔چنانچہ اپنے سرمایہ کار کو ہم بھگا دیتے ہیں اور اس کے بعد ہم غیر ملکی کمپنیوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ہمارا مشیر صحت ساری بے بسی سے بتا رہا ہوتا ہے: کیا کرتے دوائیں مہنگی نہ کرتے تو مارکیٹ میں دوائیں ملنی ہی نہیں تھیں۔

 

September 30, 2020

innovation, جدت، تبدیلی, A STORY OF A TAXI DRIVER

 

 

سائیں ٹیکسی ڈرائیور

میں ٹیکسی لینے سٹینڈ کی طرف چلا۔ جب میرے پاس ایک ٹیکسی رکی تو مجھے جو چیز انوکھی لگی وہ گاڑی کی چمک دمک تھی۔ اس کی پالش دور سے جگمگا رہی تھی۔ ٹیکسی سے ایک سمارٹ ڈرائیور تیزی سے نکلا۔ اس نے سفید شرٹ اور سیاہ پتلون پہنی ہوئی تھی جو کہ تازہ تازہ استری شدہ لگ رہی تھی۔ اس نے صفائی سے سیاہ ٹائی بھی باندھی ہوئی تھی۔ وہ ٹیکسی کی دوسری طرف آیا اور میرے لئے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا۔
اس نے ایک خوبصورت کارڈ میرے ہاتھ میں تھمایا اور کہا ’سر جب تک میں آپ کا سامان ڈگی میں رکھوں، آپ میرا مشن سٹیٹ منٹ پڑھ لیں۔ میں نے آنکھیں موچ لیں۔ یہ کیا ہے؟‘ میرا نام سائیں ہے، آپ کا ڈرائیور۔ میرا مشن ہے کہ مسافر کو سب سے مختصر، محفوظ اور سستے رستے سے ان کی منزل تک پہنچاؤں اور ان کو مناسب ماحول فراہم کروں ’۔ میرا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ میں نے آس پاس دیکھا تو ٹیکسی کا اندر بھی اتنا ہی صاف تھا جتنا کہ وہ باہر سے جگمگا رہی تھی۔
اس دوران وہ سٹئرنگ ویل پر بیٹھ چکا تھا۔ ’سر آپ کافی یا چائے پینا چاہیں گے۔ آپ کے ساتھ ہی دو تھرماس پڑے ہوئے ہیں جن میں چائے اور کافی موجود ہے‘ ۔ میں نے مذاق میں کہا کہ نہیں میں تو کوئی کولڈ ڈرنک پیوں گا۔ وہ بولا ’سر کوئی مسئلہ نہیں۔ میرے پاس آگے کولر پڑا ہوا ہے۔ اس میں کوک، لسی، پانی اور اورنج جوس ہے۔ آپ کیا لینا چاہیں گے؟‘ میں نے لسی کا مطالبہ کیا اور اس نے آگے سے ڈبہ پکڑا دیا۔ میں نے ابھی اسے منہ بھی نہیں لگایا تھا کہ اس نے کہا ’سر اگر آپ کچھ پڑھنا چاہیں تو میرے پاس اردو اور انگریزی کے اخبار موجود ہیں‘ ۔
اگلے سگنل پر گاڑی رکی تو سائیں نے ایک اور کارڈ مجھے پکڑا دیا کہ اس میں وہ تمام ایف ایم سٹیشن ہیں جو میری گاڑی کے ریڈیو پر لگ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں وہ تمام البم بھی ہیں جن کی سی ڈی میرے پاس ہے۔ اگر آپ کو موسیقی سے شوق ہے تو میں لگا سکتا ہوں۔ اور جیسے یہ سب کچھ کافی نہیں تھا، اس نے کہا کہ ’سر میں نے ائر کنڈیشنر لگا دیا ہے۔ آپ بتائیے گا کہ ٹمپریچر زیادہ یا کم ہو تو آپ کی مرضی کے مطابق کردوں‘ ۔
اس کے ساتھ ہی اس نے رستے کے بارے میں بتا دیا کہ اس وقت کس رستے پر سے وہ گزرنے کا ارادہ رکھتا ہے کہ اس وقت وہاں رش نہیں ہوتا۔ پھر بڑی پتے کی بات پوچھی ’سر اگر آپ چاہیں تو رستے سے گزرتے ہوئے میں آپ کو اس علاقے کے بارے میں بھی بتا سکتا ہوں۔ اور اگر آپ چاہیں تو آپ اپنی سوچوں میں گم رہ سکتے ہیں‘ وہ شیشے میں دیکھ کر مسکرایا۔
میں نے پوچھا ’سائیں، کیا تم ہمیشہ سے ایسے ہی ٹیکسی چلاتے رہے ہو؟‘ اس کے چہرے پر پھر سے مسکراہٹ آئی۔ ’نہیں سر، یہ کچھ دو سال سے میں نے ایسا شروع کیا ہے۔ اس سے پانچ سال قبل میں بھی اسی طرح کڑھتا تھا جیسے کہ دوسرے ٹیکسی والے کڑھتے ہیں۔ میں بھی اپنا سارا وقت شکایتیں کرتے گزارا کرتا تھا۔ پھر میں نے ایک دن کسی سے سنا کہ سوچ کی طاقت کیا ہوتی ہے۔ یہ سوچ کی طاقت ہوتی ہے کہ آپ بطخ بننا پسند کریں گے کہ عقاب۔ اگر آپ گھر سے مسائل کی توقع کرکے نکلیں گے تو آپ کا سارا دن برا ہی گزرے گا۔ بطخ کی طرح ہر وقت کی ٹیں ٹیں سے کوئی فائدہ نہیں، عقاب کی طرح بلندی پر اڑو تو سارے جہاں سے مختلف لگو گے۔ یہ بات میرے دماغ کو تیر کی طرح لگی اور اس نے میری زندگی بدل دی۔
میں نے سوچا یہ تو میری زندگی ہے۔ میں ہر وقت شکایتوں کا انبار لئے ہوتا تھا اور بطخ کی طرح سے ٹیں ٹیں کرتا رہتا تھا۔ بس میں نے عقاب بننے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ارد گرد دیکھا تو تمام ٹیکسیاں گندی دیکھیں۔ ان کے ڈرائیور گندے کپڑوں میں ملبوس ہوتے تھے۔ ہر وقت شکایتیں کرتے رہتے تھے اور مسافروں کے ساتھ جھگڑتے رہتے تھے۔ ان کے مسافر بھی ان سے بے زار ہوتے تھے۔ کوئی بھی خوش نہیں ہوتا تھا۔ بس میں نے خود کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے میں نے چند تبدیلیاں کیں۔ گاڑی صاف رکھنی شروع کی اور اپنے لباس پر توجہ دی۔ جب گاہکوں کی طرف سے حوصلہ افزائی ملی تو میں نے مزید بہتری کی۔ اور اب بھی بہتری کی تلاش ہے۔‘
میں نے اپنی دلچسپی کے لئے پوچھا کہ کیا اس سے تمہاری آمدنی پر کوئی فرق پڑا
"سر بڑا فرق پڑا۔ پہلے سال تو میری انکم ڈبل ہوگئی اور اس سال لگتا ہے چار گنا بڑھ جائے گی۔ اب میرے گاہک مجھے فون پر بک کرتے ہیں یا ایس ایم ایس کرکے وقت طے کرلیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب مجھے ایک اور ٹیکسی خریدنی پڑے گی اور اپنے جیسے کسی بندے کو اس پر لگانا پڑے گا۔‘
یہ سائیں تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اسے بطخ نہیں بننا بلکہ عقاب بننا ہے۔ کیا خیال ہے، اس ہفتے سے عقاب کا ہفتہ نہ شروع کیا جائے؟ سائیں نے تو مجھے ایک نیا فلسفہ دیا ہے۔ بڑا فلسفہ۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ کوئی پانی میں گرنے سے نہیں مرتا۔ ہاتھ پاؤں نہ مارنے سے مرتا ہے۔
# ... منقول

 

July 28, 2020

خطبہ حجتہ الوداع، حضرت محمد ﷺ کی آخری نصیحتیں Khutba Hajj tul Vida

میدان عرفات میں آخری نبی، نبی رحمت محمد رسول اللہﷺ نے 9 ذی الجہ  ، 10 ہجری   (7 مارچ 632 عیسوی)  کو آخری خطبہ حج دیا تھا۔ آئیے اس خطبے کے اہم نکات کو دہرا لیں، کیونکہ ہمارے نبی  نے فرمایا تھا، میری ان باتوں کو دوسروں تک پہنچائیں۔ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔۔
۔ اے لوگو!  سنو، مجھے نہیں لگتا کہ اگلے سال میں تمہارے درمیان موجود ہوں گا۔ میری باتوں کو بہت غور سے سنو، اور ان کو ان لوگوں تک پہنچاؤ جو یہاں نہیں پہنچ سکے۔

۔ اے لوگو! جس طرح یہ آج کا دن، یہ مہینہ  اور یہ جگہ عزت و حرمت والے ہیں۔ بالکل اسی طرح دوسرے مسلمانوں کی زندگی، عزت  اور مال حرمت والے ہیں۔ (تم اس کو چھیڑ نہیں  سکتے )۔

۔ لوگو کے مال اور امانتیں ان کو واپس کرو،

۔ کسی کو تنگ نہ کرو، کسی کا نقصان نہ کرو۔ تا کہ تم بھی محفوظ رہو۔

۔ یاد رکھو، تم نے اللہ سے ملنا ہے، اور اللہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا۔

٦۔ اللہ نے سود کو ختم کر دیا، اس لیے آج سے سارا سود ختم کر دو (معاف کر دو)۔

۔ تم عورتوں پر حق رکھتے ہو، اور وہ تم پر حق رکھتی ہیں۔ جب وہ اپنے حقوق پورے کر رہی ہیں تم ان کی ساری ذمہ داریاں پوری کرو۔

۔ عورتوں کے بارے میں نرمی کا رویہ قائم رکھو، کیونکہ وہ تمہاری شراکت دار (پارٹنر) اور بے لوث خدمت گذار  رہتی ہیں۔

۔ کبھی زنا کے قریب بھی مت جانا۔

۔ اے لوگو! میری بات غور سے سنو، صرف اللہ کی عبادت کرو، پانچ فرض نمازیں پوری رکھو، رمضان کے روزے رکھو، اورزکوۃ ادا کرتے رہو۔ اگر استطاعت ہو تو حج کرو۔

  ۔زبان کی بنیاد پر, رنگ نسل کی بنیاد پر تعصب میں مت پڑ جانا, کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر, عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں, ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ تم سب اللہ کی نظر میں برابر ہو۔
 برتری صرف تقوی کی وجہ سے ہے۔

۔  یاد رکھو! تم ایک دن اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے،خبردار رہو! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا۔

۔ یاد رکھنا! میرے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ، نہ کوئی نیا دین لایا جاےَ گا۔ میری باتیں اچھی طرح سے سمجھ لو۔

۔ میں تمہارے لیے دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں، قرآن اور میری سنت، اگر تم نے ان کی پیروی کی تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔

۔ سنو! تم لوگ جو موجود ہو، اس بات کو اگلے لوگوں تک پہنچانا۔ اور وہ پھر اگلے لوگوں کو پہنچائیں۔اور یہ ممکن ہے کو بعد والے میری بات کو پہلے والوں سے زیادہ بہتر سمجھ (اور عمل) کر سکیں۔

پھر آپ نے آسمان کی طرف چہرہ اٹھایا اور کہا،
٦۔ اے اللہ! گواہ رہنا، میں نے تیرا پیغام تیرے لوگوں تک پہنچا دیا۔

نوٹ: اللہ ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے، جو اس پیغام کو سنیں/پڑھیں اور اس پر عمل کرنے والے بنیں۔ اور اس کو آگے پھیلانے والے بنیں۔ اللہ ہم سب کو اس دنیا میں نبی رحمت کی محبت اور سنت عطا کرے، اور آخرت میں جنت الفردوس میں اپنے نبی کے ساتھااکٹھا کرے، آمین۔



July 25, 2020

HUMANITY, FEAR OF ALLMIGHTY ALLAH

اللہ کا خوف
بارش کی بوندیں ابھی گر  رہی تھی 
وہ گلی کے کونے پر پہنچکر وہ ٹھٹک گیا۔
اس بزرگ کو اس نے گزشتہ روز بھی ایک ٹوٹی پھوٹی میز پر کچھ سبزی اور چند  قسم کےفروٹ فروخت کرنے کیلئے سجائے دیکھا تھا اور دوبارہ دیکھے بغیر گاڑی گلی میں گھر کیطرف موڑ لی تھی۔
آج وہ پیدل تھا
اس کے ٹھٹکنے کیوجہ دس بارہ سال کا ایک بچہ اور پاس کھڑی اس کی ماں تھی۔
بارش سے بے نیاز
کسی گاہک کی آس میں ان کی نظروں میں
آس و یاس کا ملا جُلا تاثر تھا۔

وہ کچھ لینا نہیں چاہ رہا تھا۔ لاک ڈاؤن کیوجہ سے دو روز قبل ہی منڈی سے کافی کچھ لے آیا تھا۔
مزید لینے کا مطلب پیسے اور چیزوں کا ضیاع ہوتا

نماز کے بعد تلاوت کرنے بیٹھا تو بار بار ان بھیگتے ہوئے ماں بیٹے کا تصور اسے بےچین کرنے لگا۔
جب وہ ایک آیت  تک پہنچا کہ
(،،ترجمہ) "پھر تم سےسوال کیا جائے گا کہ تم سونا چاندی بچا بچا کر اکٹھا کرتے رہے۔ اللّٰه کی راہ میں کیوں نہیں خرچ کیا ؟ تو آج تھاری پیشانیاں، اور کاندھے اور کمریں اسی پگھلے ہوئے گرم سونے اور چاندی سے داغے جائیں گی۔"

تو دل سے آواز ابھرنے لگی۔
کیا فائدہ اس عبادت کا ؟
جب تم غربت میں پستے ہوئے دو مجبور انسانوں کی مجبوری دیکھکر بھی نہیں پگھل سکے
نماز اور تلاوت تو اللّٰه کا معاملہ ہے
وہ قبول کرے یا نہ کرے، اس کی مرضی
لیکن کیا اس بے حسی پر تمھیں معافی مل جائے گی؟
سارا دن فیسبک پر بیٹھکر انسانیت کے لیکچر دیتے ہو۔
ہمدردی کی پوسٹیں لگاتے ہو۔
لیکن خود تم سے بڑا خود غرض کوئی ہو سکتا
اس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا

اس نے قرآن پاک کو ادب سے بند کیا
اور اٹھ کر برساتی پہننے لگا۔
"کہاں جا رہے ہیں؟ "
بیوی نے پریشان ہوکر پوچھا 
وہ آیسولیشن کے معاملے میں بہت سخت تھی۔
بچوں کو بھی نہیں نکلنے دیتی تھی۔
بہت ضروری طور پر نکلنا ہوتا تو ماسک، سینیٹائزر، ڈسپوزایبل دستانے، سب کی پابندی کرنا ہوتی

"کہیں نہیں ۔ گلی کے کونے تک"
وہ پرس جیب میں رکھتے ہوئے بولا.
پھر پوری بات بتائی۔
اس کی آواز بھرا گئی۔

"کون آئے گا اس پوش علاقے میں، بارش میں ان سے سبزی یا فروٹ خریدنے ؟
وہ گداگر نہیں ہیں ۔ محنت کش ہیں ورنہ بارش میں  نہ بھیگ رہے ہوتے۔"

"ٹھہریں ۔آپ ایک نیک مقصد کےلئے جا رہے ہیں ۔
میرا شئیر بھی شامل کرلیں۔"
جبھی کمرے سے بیٹے کی آواز آئی
جو یہ سب سُن رہا تھا۔ "
پاپا ! میری طرف سے بھی ۔"
اس نے باپ کیطرف کچھ پیسے بڑھا دئے۔

اس سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔
بس آنسو نکل رہے تھے۔
وہ دعا مانگ رہا تھا کہ وہ لوگ چلے نہ گئے ہوں۔
وہ باہر نکل آیا۔
بارش کے بس اکا دکا قطرے ہی گر رہے تھے 

گلی کے کونے پر ماں بیٹا اسیطرح پھلوں اور سبزی کی میز کے آگے بھیگے ہوئے کھڑے تھے
کوئی گاہک دور دور تک نہیں تھا

پاس جاکر وہ بچے سے ہر چیز کا بھاؤ پوچھنے لگ گیا جبھی وہ بزرگ بھی کہیں سے آپہنچا

"بھائی ! ان سب فروٹس اور سبزی کا کیا لگاؤ گے؟ "اس نے پوچھا۔

"تول دوں صاحب ؟ "
وہ خوش ہوگیا تھا۔
عورت بھی اپنے میاں کے قریب آگئی تھی
اور حیرت سے دیکھ رہی تھی۔

"نہیں  ایسے ہی بتا دو حساب کر کے۔
اپنا منافع بھی شامل کر لو
مجھے سارا سامان لینا ہے۔ منڈی نہیں جا سکتا۔ کرونا پھیلا ہوا ہے۔"
وہ آدمی تھوڑی دیر حساب لگا تا رہا. 
پھر بولا۔
"سر ! ۔۔۔۔۔۔۔ ہزار بنتے ہیں۔"

"کوئی رعایت نہیں کرو گے ؟"
اس نے ٹٹولا

"آپ دوسرے گاہک ہیں صبح سے 
پہلا گاہک ایک شربوزہ لیکر گیا تھا
ایسا کریں
دوسو کم دے دیں۔
میرا بھی وقت بچ جائے گا۔"

اس نے پرس سے نوٹ  نکالے اور اسکی طرف بڑھا دئے۔
"ٹھیک ہے جتنے تم نے پہلے کہے ہیں
اتنے میں ہی دے دو۔"

"شاپر میں ڈال دوں؟ یا الگ الگ۔؟"
"نہیں ۔
انھیں ادھر ہی رہنے دو۔
اب یہ سامان میرا ہوا
چاہو تو غریبوں کو دے دینا
اور چاہو تو بیچ دینا
میری طرف سے اجازت ہے"

اس کی بیوی بولی
"بھائی ! کچھ تو لے جائیں۔"

اس نے آسمان کیطرف اشارہ کیا۔
"میرا سودا اللّه سے ہو گیا ہے
اب اسمیں سے میں کچھ نہیں لے سکتا۔"

وہ تیزی سے مڑا
آنسو اس کی آنکھوں سے  تیزی سے بہے جا رہے تھے.
یہ بیک وقت ندامت، خوف اور شکرانے کے آنسو تھے  
گھر پہنچتے پہنچتے وہ منہ پر ہاتھ رکھے دھاڑیں مار کر رونے لگا

"مجھے معاف کر دیں میرے مالک!
میری کسی غلطی پر پکڑ نہ کرنا 
مجھے تو نے سب کچھ دیا ہے
اتنا کہ ساری زندگی شکر کرتا رہوں
تو لفظ ختم ہوجائیں
اور ایک طرف تیری یہ مخلوق ہے
ان کے حال پر رحم فرما میرے اللّه !
انھیں بخش دیں

وہ منہ پر ہاتھ رکھیں چیخوں کا گلا گھونٹتا رہا
اندر داخل ہوا تو بیوی تین برساتیاں لئے کھڑی تھی
اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا دیکھکر بیوی کی آنکھیں بھی بھر آئی تھیں

"یہ تینوں برساتیاں بھی انھیں دے آئیں۔
ہمیں تو ویسے بھی ابھی ضرورت نہیں ہے
کرونا ختم ہوگا تو اور لے آئینگے۔"

وہ واپس گیا اور برساتیاں بھی انھیں دے دیں

پہلی بار اسے اپنی روح اور دل سے بوجھ اترتا محسوس ہوا تھا
اور وہ اللّٰه پاک سے معافی مانگ کر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا
(ماخوذ)

والسلام ::



July 12, 2020

Spend in the way of Allah





ایک شخص اپنے دوست سے: یار ! تم جس دریا دلی سے غریبوں پر پیسہ خرچ کر رہے ہو تمہیں ڈر نہیں لگتا کہ یہ بحران طول پکڑے اور خود تمہیں پیسے کی ضرورت پیش آئے؟
میرا خیال تھا کہ اس کا جواب ہوگا "صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا " یا پھر "خرچ کیجئے تاکہ تم پر خرچ کیا جائے"...
لیکن میرے لیے اس کا جواب بالکل نیا تھا،وہ پورے وثوق سے بولے
*خرچ کرنے والے شہیدوں کی طرح ہیں....{لا خوف عليهم و لا هم يحزنون}*
ترجمہ: ( *نہ ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے* )
میں نے جلدی قرآن مجید کھول کر تصدیق کرلی واقعی میں {أن لا خوف عليهم و لا هم يحزنون}
کی بشارت شہداء اور مال خرچ کرنے والے دونوں طبقوں کے حق میں ہے.
سورة بقرہ میں مال خرچ کرنے والوں کے حق میں دو بار یہ آیت و بشارت آئی ہے.
{ *اَلَّـذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَـهُـمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّـهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً فَلَـهُـمْ اَجْرُهُـمْ عِنْدَ رَبِّهِـمْۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْـهِـمْ وَلَا هُـمْ يَحْزَنُـوْنَ* } (274)
ترجمہ
( *جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں رات اور دن چھپا کر اور ظاہر خرچ کرتے ہیں تو ان کے لیے اپنے رب کے ہاں ثواب ہے، ان پر نہ کوئی ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے* ۔)
{ *اَلَّـذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَـهُـمْ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ ثُـمَّ لَا يُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَا اَذًى ۙ لَّـهُـمْ اَجْرُهُـمْ عِنْدَ رَبِّـهِـمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْـهِـمْ وَلَا هُـمْ يَحْزَنُـوْنَ* } (262)
ترجمہ :
( *جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ ستاتے ہیں، انہیں کے لیے اپنے رب کے ہاں ثواب ہے اوران پر نہ کوئی ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے* )
سورة آل عمران کی آیت نمبر 170 میں شہداء کے حق میں یہ آیت اور بشارت آئی ہے
{ *وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّـذِيْنَ قُتِلُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ اَمْوَاتًا ۚ بَلْ اَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّـهِـمْ يُـرْزَقُوْنَ* (169) *فَرِحِيْنَ بِمَآ اٰتَاهُـمُ اللّـٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَيَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّـذِيْنَ لَمْ يَلْحَقُوْا بِـهِـمْ مِّنْ خَلْفِهِـمْ اَلَّا خَوْفٌ عَلَيْـهِـمْ وَلَا هُـمْ يَحْزَنُـوْنَ* } (170)
ترجمہ :
( *اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردے نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے ہاں سے رزق دیے جاتے ہیں،اللہ نے اپنے فضل سے جو* *انہیں دیا ہے اس پر خوش ہونے والے ہیں اور ان کی طرف سے بھی خوش ہوتے ہیں جو ابھی تک ان کے پیچھے سے ان کے پاس نہیں پہنچے اس لیے کہ نہ ان پر خوف ہے اور نہ وہ غم کھائیں گے* )
میری توجہ پہلی بار اس طرف گئی تھی کہ مال خرچ کرنے والے شہداء کی طرح ہیں،{ لا خوف عليهم و لا هم يحزنون } (نہ ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے)


WOLF بھیڑیا





ابن البار (بھیڑیا)
بھیڑیا ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ .
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ کا ﻏﻼﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺷﯿﺮ ﺳﻤﯿﺖ ﮨﺮ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﻮ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ .


ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺍﺗﻨﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﯿﺰ ﺗﺮﯾﻦ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﮐﺮﮐﮯ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺳﮯ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﻣﺎﺭ ﮈﺍﻟﮯ .
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺮﺩﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺟﻨﮕﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮬﯽ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﺤﺮﻡ ﻣﺆﻧﺚ ﭘﺮ ﺟﮭﺎﻧﮑﺘﺎ ﮬﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮐﮧ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻦ ﮐﻮ ﺷﮩﻮﺕ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ .
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﯾﮏ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺆﻧﺚ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﻗﺎﺋﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﺆﻧﺚ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﯿﮍﺋﯿﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﯼ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ .
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﭖ ﺍﯾﮏ ﮬﯽ ﮬﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ .
ﺟﻮﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺗﯿﻦ ﻣﺎﮦ ﮐﮭﮍﺍ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ .
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﮐﯽ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺻﻔﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ ، ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﯼ ، ﺧﻮﺩﺩﺍﺭﯼ ، ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﮯ ﺣﺴﻦ ﺳﻠﻮﮎ مشہور ﮬﯿﮟ .
ﺑﮭﯿﮍﺋﮯ ﺟﺐ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﮕﮧ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﯾﻮﮞ ﮔﺮﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ:
1 - ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺑﮭﯿﮍﯾﯿﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ .
2 - ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺎﻧﭻ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺟﻮ ﺑﻮﮌﮬﮯ ، ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺑﮭﯿﮍﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ‏( ﻓﺮﺳﭧ ﺍﯾﮉ ‏) ﺗﻌﺎﻭﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ .
3 - ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ، ﺩﺷﻤﻦ ﮐﮯ ﺣﻤﻠﮯ ﮐﺎ ﺩﻓﺎﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﭼﺎﮎ ﻭ ﭼﻮﺑﻨﺪ ﺑﮭﯿﮍﯾﯿﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ .
4 - ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﻋﺎﻡ ﺑﮭﯿﮍﯾﯿﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔
5 - ﺳﺐ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮍﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺴﺘﻌﺪ ﻗﺎﺋﺪ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺳﺐ ﮐﯽ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﮐﺮﺭﮬﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﯾﻮﭨﯽ ﺳﮯ ﻏﺎﻓﻞ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮬﺮ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ‏( ﺍﻟﻒ ‏) ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮐﯿﻼ ﮬﺰﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺳﺒﻖ ﺟﻮ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﻋﺒﺮﺕ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺑﮭﯿﮍﯾﯿﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﮭﺘﺮﯾﻦ ﺧﯿﺮﺧﻮﺍﮦ ﻗﺎﺋﺪ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﯿﮯ ﮐﻮ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺒﺎﺭ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ،
ﯾﻌﻨﯽ ﻧﯿﮏ ﺑﯿﭩﺎ، کیوں ﮐﮧ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺟﺐ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮬﻮﺟﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺷﮑﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ .
*ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺗﺮﮎ اﻭر ﻣﻨﮕﻮﻝ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺗﺮﮎ ﻭ ﻣﻨﮕﻮﻝ ﮐﺎ ﻗﻮﻣﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﮯ.



BOYCOT THIS PRODUCT ?




لائحہ عمل / عبداللہ بن زبیر
یہ پروڈکٹ استعمال نہ کیا کریں
کیوں جی ؟؟
اس کے مالک یہودی ہیں
یہ چیز نہ لیا کرو __' ارے بھائی کس لئے ؟؟"
جی آپ کو نہیں پتہ اس کے مالک قادیانی ہیں ،
یہ برانڈ چھوڑ دیں " کس لئے ؟؟ "
کیونکہ یہ اسرائیل کو فنڈ دیتے ہیں
اس پارٹی کا ساتھ نہیں دینا " کیوں بھائی ؟؟"
آپ نہیں جانتے یہ یہودی ایجنٹ ہیں ___
کیا کھانا ہے ؟ کیسے کھانا ہے ؟ کیا خریدنا ہے ؟ کس کے ساتھ چلنا ہے ؟ کس کا ساتھ دینا ہے یہ سب فیصلے ہمارے " بڑوں " نے کرنے ہیں اب کوئی مان کر چلتا ہے یا نہیں اس سے قطع نظر صرف یہ عرض کروں گا
آپ خود اس معیار کی پروڈکٹ کیوں نہیں بناتے ؟
آپ کی ملکیت کے خانے میں کمپینیاں کیوں نہیں پنپ پاتیں ؟
ان چیزوں کے مینو فیکچرر آپ خود کیوں نہیں بن جاتے ؟؟
آپ فلسطین کو فنڈ دیجئے گا کس نے روک رکھا ہے ؟
وہ مٹھی بھر ہوکر بھی اپنے ایجنٹ بنا سکتے ہیں اور ہم ایک ارب سے زائد ہوکر بھی ایجنٹ بنانے سے قاصر ہیں ، کوئی ایک تو آپ بھی بنا دو یار ___
آپ کے کچھ استعمال کرنے یا چھوڑدینے سے ان کی کمپنیوں پہ کوئی اثر نہیں پڑتا ، مقابلہ سامنے آکر کیا جاتا ہے ، اس میں سور کی چربی ہے ، اس میں گدھے کے بال ہیں ، اس میں حرام کی ملاوٹ ہے ، اس میں فلانا ہے ، ڈھمکانا ہے یہ دور ہوا ہوئے ___
اب یا تو مقابلہ کے لئے اپنے ایمپائرز کھڑے کیجئے یا پھر چپ چاپ دشمن کی سازش دیکھتے رہئے ، دشمن سے لڑائی کے لئے مارو یا مر جاؤ کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے ، وہ ٹیکنالوجی کی ہر صورت پہ عبور رکھتے ہیں اور ہم صرف احتجاج ، مذمت اور بائیکاٹ کے پوسٹر چھپوا کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں ___
دشمن کا مقابلہ ہر میدان میں کرنا پڑتا ہے ،وہ جس روپ میں آئے اسی روپ میں مات دینا ہوتی ہے صرف جوشیلے نعروں سے کچھ نہیں بنتا ہے ، اس لئے دشمن کی سازشوں سے ہی نہیں ان کی پروڈکٹس سے بھی مقابلہ کرنا ہے اور یہ نفلی جہاد ہوگا ___


April 23, 2020

Family VS Wealth , Job , Work Business Which is most important





* * * * * گھاٹے کے سوداگر * * * * *
ہنری کا تعلق امریکہ کے شہر سیاٹل سے تھا وہ مائیکرو سافٹ میں ایگزیکٹو منیجر تھا۔ اس نے 1980ء میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کیا اور اس کے بعد مختلف کمپنیوں سے ہوتا ہوا مائیکرو سافٹ پہنچ گیا.
مائیکرو سافٹ اس کے کیرئیر میں ’’ ہیلی پیڈ ‘‘ ثابت ہوئی اور وہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا گیا ، وہ 1995ء میں کمپنی میں بھاری معاوضہ لینے والے لوگوں میں شمار ہوتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا تھا جب تک ہنری کسی سافٹ وئیر کو مسکرا کر نہ دیکھ لے مائیکرو سافٹ اس وقت تک اسے مارکیٹ نہیں کرتی ، ہنری نے کمپنی میں یہ پوزیشن بڑی محنت اور جدوجہد سے حاصل کی تھی وہ دفتر میں روزانہ 16 گھنٹے کام کرتا تھا ، وہ صبح 8 بجے دفتر آتا تھا اور رات بارہ بجے گھر جاتا تھا.
ہنری کا ایک ہی بیٹا تھا ، ہنری دفتری مصروفیات کے باعث اپنے بیٹے کو زیادہ وقت نہیں دے پاتا تھا ، وہ جب صبح اٹھتا تھا تو اس کا بیٹا سکول جا چکا ہوتا تھا اور وہ جب دفتر سے لوٹتا تھا تو بیٹا سو رہا ہوتا تھا ، چھٹی کے دن اس کا بیٹا کھیلنے کے لیئے نکل جاتا تھا جبکہ ہنری سارا دن سوتا رہتا تھا.
ء سیاٹل کے ایک ٹیلی ویژن چینل نے 1998 میں  ہنری کا انٹرویو نشر کیا ، اس انٹرویو میں ٹیلی ویژن کے میزبان نے اعلان کیا کہ ’’ آج ہمارے ساتھ سیاٹل میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی شخصیت بیٹھی ہے‘‘ کیمرہ میزبان سے ہنری پر گیا اور ہنری نے فخر سے مسکرا کر دیکھا ، اس کے بعد انٹرویو شروع ہو گیا ، اس انٹرویو میں ہنری نے انکشاف کیا وہ مائیکرو سافٹ سے 500 ڈالر فی گھنٹہ لیتا ہے.
یہ انٹرویو ہنری کا بیٹا اور بیوی بھی دیکھ رہے تھے انٹرویو ختم ہوا تو ہنری کا بیٹا اٹھا ، اس نے اپنا ’’ منی باکس‘‘ کھولا ، اس میں سے تمام نوٹ اور سکے نکالے اور گننا شروع کر دیئے ، یہ ساڑھے چار سو ڈالر تھے ، ہنری کے بیٹے نے یہ رقم جیب میں ڈال لی ، اس رات جب ہنری گھر واپس آیا تو اس کا بیٹا جاگ رہا تھا ، بیٹے نے آگے بڑھ کر باپ کا بیگ اٹھایا ، ہنری نے جھک کر بیٹے کو پیار کیا ، بیٹے نے باپ کو صوفے پر بٹھایا اور بڑی عاجزی کے ساتھ عرض کیا ؛
’’ ڈیڈی کیا آپ مجھے پچاس ڈالر ادھار دے سکتے ہیں ‘‘
باپ مسکرایا اور جیب سے پچاس ڈالر نکال کر بولا ’’ کیوں نہیں میں اپنے بیٹے کو ساری دولت دے سکتا ہوں ‘‘
بیٹے نے پچاس ڈالر کا نوٹ پکڑا ، جیب سے ریزگاری اور نوٹ نکالے ، پچاس کا نوٹ ان کے اوپر رکھا اور یہ ساری رقم باپ کے ہاتھ پر رکھ دی ، ہنری حیرت سے بیٹے کو دیکھنے لگا ، بیٹے نے باپ کی آنکھ میں آنکھ ڈالی اور مسکرا کر بولا ’’ یہ پانچ سو ڈالر ہیں ، میں ان پانچ سو ڈالروں سے سیاٹل کے سب سے امیر ورکر سے ایک گھنٹہ خریدنا چاہتا ہوں ‘‘ ہنری خاموشی سے بیٹے کی طرف دیکھتا رہا ، بیٹا بولا ’’ میں اپنے باپ سے صرف ایک گھنٹہ چاہتا ہوں ، میں اسے جی بھر کر دیکھنا چاہتا ہوں ، میں اسے چھونا چاہتا ہوں ، میں اسے پیار کرنا چاہتا ہوں ، میں اس کی آواز سننا چاہتا ہوں ، میں اس کے ساتھ ہنسنا ، کھیلنا اوربولنا چاہتا ہوں ،
"ڈیڈی کیا آپ مجھے ایک گھنٹہ دے دیں گے ، میں آپ کو اس کا پورا معاوضہ دے رہا ہوں.
ہنری کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ، اس نے بیٹے کو گلے سے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا ۔ ہنری نے 1999ء میں
’’ فیملی لائف ‘‘ کے نام سے ایک آرٹیکل لکھا ، مجھے یہ مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا ، اس مضمون میں اس نے انکشاف کیا دنیا میں سب سے قیمتی چیز خاندان ہوتا ہے ، دنیا میں سب سے بڑی خوشی اور سب سے بڑا اطمینان ہماری بیوی اور بچے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ انہیں سب سے کم وقت دیتے ہیں ، ہنری کا کہنا تھا دنیا میں سب سے بڑی بے وفا چیز ہماری نوکری ، ہماراپیشہ اور ہمارا کاروبار ہوتا ہے ، ہم آج بیمار ہو جائیں ، آج ہمارا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو ہمارا ادارہ شام سے پہلے ہماری کرسی کسی دوسرے کے حوالے کر دے گا ، ہم آج اپنی دکان بند کر دیں ہمارے گاہک کل کسی دوسرے سٹور سے خریداری کر لیں گے ، آج ہمارا انتقال ہو جائے تو کل ہمارا شعبہ ، ہمارا پیشہ ہمیں فراموش کر دے گا لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ دنیا کی سب سے بڑی بےوفا چیز کو زندگی کا سب سے قیمتی وقت دے دیتے ہیں ، ہم اپنی بہترین توانائیاں اس بے وفا دنیا میں صرف کر دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ہمارے دکھ درد کے ساتھی ہیں جن سے ہماری ساری خوشیاں اور ہماری ساری مسرتیں وابستہ ہیں اور جو ہمارے ساتھ انتہائی وفادار ہوتے ہیں ہم انہیں فراموش کر دیتے ہیں ، ہم انہیں اپنی زندگی کا انتہائی کم وقت دیتے ہیں۔‘‘
ہنری کی کہانی نے مجھے زندگی کا ایک دوسرا پہلو دکھایا ، مجھے محسوس ہوا ہماری زندگی میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، ایک وہ لوگ جن کے لیئے ہمارا وجود معمول کی چیز ہوتا ہے ، جو ہمیں مشین کی طرح سمجھتے ہیں ، جن کی نظر میں ہم محض ایک کارکن ہیں ، جو ہمیں میز ، کرسی ، ٹیبل لیمپ ، گاڑی ، قلم ، کاغذ ، ٹشو پیپر ، کھڑکی اور دروازے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور جو ہمارے بارے میں کہتے ہیں
’’ استعمال کرو ، پھینکو اور بھول جاؤ ‘‘
جبکہ دوسری قسم کے لوگ ہمیں اپنے وجود ، اپنی دھڑکنوں اور اپنی سانسوں کا حصہ سمجھتے ہیں ، وہ ہمارے لیئے تکلیف برداشت کرتے ہیں ، وہ ہمارے لیئے ظلم سہتے ہیں ، وہ راتوں کو جاگ کر ہمارا انتظار کرتے ہیں ، وہ ہمارے وعدوں کو آسمانی تحریر سمجھتے ہیں اور جن کی نظر میں ہمارا ایک ایک لفظ مقدس اور پاک ہوتا ہے اور جو ہمارے اصل ساتھی ہوتے ہیں ، میں نے سوچا بدقسمتی سے ہم لوگ پہلی قسم کے لوگوں کو اپنی زندگی کا سب سے قیمتی حصہ دے دیتے ہیں ، ہم لوگ زندگی بھر دوسری قسم کے لوگوں کو فراموش کر کے پہلی قسم کے لوگوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں ، ہم بےوفا لوگوں سے وفاداری نبھاتے رہتے ہیں اور وفاداروں سے بے وفائی کرتے رہتے ہیں ۔
میں نے کسی جگہ امریکہ کے ایک ریٹائر سرکاری افسر کے بارے میں ایک واقعہ پڑھا تھا
اس افسر کو وائٹ ہاؤس سے فون آیا کہ فلاں دن صدر آپ سے ملنا چاہتے ہیں ، اس افسر نے فوراً معذرت کر لی ، فون کرنے والے نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا
’’ میں اس دن اپنی پوتی کے ساتھ چڑیا گھر جا رہا ہوں‘‘
یہ جواب سن کر فون کرنے والے نے ترش لہجے میں کہا
’’ آپ چڑیا گھر کو صدر پر فوقیت دے رہے ہیں‘‘
ریٹائر افسر نے نرمی سے جواب دیا
’’ نہیں میں اپنی پوتی کی خوشی کو صدر پر فوقیت دے رہا ہوں‘‘
فون کرنے والے نے وضاحت چاہی تو ریٹائر افسر نے کہا
’’ مجھے یقین ہے میں جوں ہی وہائٹ ہاؤس سے باہر نکلوں گا تو صدر میرا نام اور میری شکل تک بھول جائے گا جبکہ میری پوتی اس سیر کو پوری زندگی یاد رکھے گی ، میں گھاٹے کا سودا کیوں کروں ، میں یہ وقت اس پوتی کو کیوں نہ دوں جو اس دن ، اس وقت میری شکل اور میرے نام کو پوری زندگی یاد رکھے گی ، جو مجھ سے محبت کرتی ہے ، جو اس دن کیلئے گھڑیاں گن رہی ہے‘‘
میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو میں نے کرسی کے ساتھ ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کر کے دیر تک سوچتا رہا ، ہم میں سے 99 فیصد لوگ زندگی بھر گھاٹے کا سودا کرتے ہیں ، ہم لوگ ہمیشہ ان لوگوں کو اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات دے دیتے ہیں جن کی نظر میں ہماری کوئی اوقات ، ہماری کوئی اہمیت نہیں ہوتی ، جن کیلئے ہم ہوں یا نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا ، جو ہماری غیر موجودگی میں ہمارے جیسے کسی دوسرے شخص سے کام چلا لیتے ہیں ، میں نے سوچا ہم اپنے سنگدل باس کو ہمیشہ اپنی اس بیوی پر فوقیت دیتے ہیں جو ہمارے لیئے دروازہ کھولنے ، ہمیں گرم کھانا کھلانے کے لیئے دو ، دو بجے تک جاگتی رہتی ہے ، ہم اپنے بے وفا پیشے کو اپنے ان بچوں پر فوقیت دیتے ہیں جو مہینہ مہینہ ہمارے لمس ، ہماری شفقت اور ہماری آواز کو ترستے ہیں ، جو ہمیں صرف البموں اور تصویروں میں دیکھتے ہیں ، جو ہمیں یاد کرتے کرتے بڑے ہوجاتے ہیں اور جو ہمارا انتظار کرتے کرتے جوان ہو جاتے ہیں لیکن انہیں ہمارا قرب نصیب نہیں ہوتا ، ہم انہیں ان کا جائز وقت نہیں دیتے.
پھر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہم سب گھاٹے کے سوداگر ہیں ۔
منقول

Total Pageviews