October 02, 2020

GOAT FARMING & BASIC FAULTS , بکریوں کی فارمنگ اور بنیادی غلطیوں کا ابتدا سے ہی ازالہ

 

بکریوں کی فارمنگ اور بنیادی غلطیوں کا ابتداء سے ہی ازالہ
کچھ سالوں سے بکریوں کا فارم بنانے کا رحجان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر ہمارے دوست اس فیلڈ میں آ رہے ہیں۔ اور لائف سٹاک میں یہ اچھا شگون ہے۔ دیار غیر میں یہ کام جا کر کرنا ہے تو کیوں نہ اپنے ملک میں رہ کر کیا جائے جس سے ملک کے زر مبادلہ میں بھی اضافہ ہوگا اور ملک میں لحمیات کی کمی بھی دور ہوگی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کونسی نسل کا فارم بنایا جائے۔ تو میرا آپ تمام نئے بکریوں کے فارمر کو مشورہ ہے کہ اپنے مخصوص علاقے کی بریڈ پالی جائے۔ بکری بنیادی طور پر ایک نازک جانور ہے۔ تھوڑا سا موسم کا مزاج بدلہ نہیں اور بکری بیمار ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ تو میرے تجربے میں جو پندرا بیس فارم آئے ہیں وہ مکمل ناکامی کا شکار ہوئے ہیں۔ تمام تر حفاضطی تدابیر کے باوجود وہ تمام فارم نقصان کا باعث ہوئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ دوسرے علاقے کی نسل کو اپنے علاقے میں لے کے آنا ہے۔ اور یہ اصول تمام نسلوں پے لاگو ہوتا ہے۔ مثلاً میرے ایک دو جاننے والوں نے راجن پوری نسل لے آئے تھے اپر پنجاب اور وسطی پنجاب میں ۔ایک بھائی کے ڈیڑھ سو جانور تھے جو اس علاقے کے موسم سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ اسی طرح دوسرے دوست نے 85 جانور ہلاک کروائے۔ ایک اور گوجرانولا کا فارمر ہے جس نے ہر چیز سائنسی طریقے سے سیٹ کی ہوئی تھی اور حتٰی کہ ویٹنری ڈاکٹر بھی باہر کا رکھا ہوا تھا۔ پرسوں اس کے فارم پے وزٹ کیا ہے تو 200 میں سے پچیس جانور بچے ہوئے تھے۔ اور اسی طرح پندرا بیس اور بھی ہیں جو راجن پوری سفید بکریوں کا نقصان کر چکے ہیں۔ تو میرے سینیئر ڈاکٹرز اور فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے ماہرین کی مشترکہ رائے یہی ہے کہ اس علاقے کی لوکل بریڈ کو زیادہ ترجیح دی جائے اگر نقصان سے بچنا ہے۔ پاکستان کی تمام نسلوں میں راجن پوری بیتل سفید زیادہ خوبصورت مانی جاتی ہے اور سب سے زیادہ نازک بھی یہی بریڈ ہے۔ یہ بریڈ صرف ڈی جی خان راجن پور اور مظفر گڑھ تک کامیاب ہے۔ اس سے آگے یا پیچھے یہ نسل جائے گی تو بکریوں فارمر کا نقصان کرے گی۔ اس نسل کی بیماری کے خلاف قوت مدافعت انتہائی کم ہے۔ اپنی پتلی چمڑی کی وجہ سے یہ نسل بہت جلد موسمی اثرات قبول کرتی ہے۔ اور اگر ملتان اور گھوٹکی تک اس نسل کو مصنوعی ماحول دیکر کچھ عرصہ برقرار بھی رکھتے ہیں تو جانور ویسا قد کاٹھ نہیں بنائے گا جس طرح وہ اپنے آبائی علاقے میں بناتے ہیں۔
دوسری بھائیوں کی بھلائی کے واسطے آگے شیئر کریں تاکہ کوئی دوسرا بھائی لا علمی کی وجہ سے عمر بھر کی کمائی کا نقصان نہ کر بیٹھے۔ ہو سکتا ہے وہ پتا نہیں کیا کیا چیز گھر کا بیچ کر یا گھر کے ضروری فرائض کو کچھ وقت کے لیے پینڈنگ کر کے یہ شوق کر رہا ہو اور نہ سمجھی میں نہ اِدھر کا رہے اور نہ اُدھر کا رہے۔ چالاک بیوپاری جو آجکل سوشل میڈیا پے چھائے ہوئے ہیں ، کبھی بھی یہ نہیں بتائیں گے کہ کون سی نسل کس علاقے کے لیے مخصوص ہے۔ ان کو اپنے نفع سے غرض ہے ۔ باقی ان کی بلا سے کسی کی منجی ٹُھک جائے۔ بکریوں کی فارمنگ ضرور کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسمیں منافع کافی ہے بشرطیکہ لوکل بریڈ کا فارم ہو۔ یہ پیغمبری پیشہ ہے ۔منافع کی تو یقیناً گارنٹی ہے۔ لیکن جو تحفظات اوپر بیان کیے ہیں ان کو مدِنظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ شیِر کریں۔ آپ کی یہ چھوٹی سی کوشش کسی کا گھر برباد ہونے سے بچا سکتی ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں دن بدن کھلی جگہوں کی کمی ہورہی ہے، اور بکریوں فارمنگ جو کبھی فری آف کاسٹ چرائی کا نظام تھا وہ ختم ہورہا ہے۔ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ گوشت کی طلب میں بھی دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ روایتی طریقےسے گوشت کی پیداوار خاطر خواہ نہیں بڑھائی جاسکتی ۔
ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان گوشت برآمد کرنے والے ممالک میں 19 نمبر پر آتے ہیں۔ لیکن بکریوں کی تعداد کے حوالے سے چین، انڈیا کے بعد تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں بھیڑ بکری کے گوشت کی بہت زیادہ طلب ہے، جس کو پورا کرنے میں بکریوں فارمنگ بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
بکریوں فارمنگ کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے، جس کے لیے کسی یونیورسٹی کی ڈگری کی ضرورت ہو، رات کو جاگ جاگ کر پڑھنا پڑھتا ہو، بکریوں فارمنگ ہر وہ انسان کر سکتا ہے ، جو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے حلال کی روزی کمانا چاہتا ہو
یہ درست یہ کہ بکریوں فارمنگ دیہاتی پیشہ ہے۔ اور دیہات میں رہنے والے بکریوں پروڈکشن سے اپنے لیے مناسب آمدن حاصل کرسکتے ہیں۔ اور شہروں میں رہنے والے حضرات بکریوں مارکیٹنگ سے اپنے لیے مناسب آمدن حاصل کرسکتے ہیںِ ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بکریوں کی فارمنگ کن لوگوں کے لیے باعث منافع ہے؟
بکریوں فارمنگ ان لوگوں کے بہت منافع کا باعث ہے جو دیہات میں رہائش پذیر ہیں۔
ان کے پاس فارمنگ کے لیے تین سے پانچ ایکڑ زمین موجود ہے، یا ابتدائی طور ایک سے دو ایکڑ زمین مناسب سالانہ کرائے یا ٹھیکہ پر حاصل کرسکتے ہیں۔
ابتدائی پر دس سے پندرہ ٹیڈی بکریاں خرید سکتے ہیں۔ ایک سال تک ان کو چارہ اور بوقت ضرورت ونڈا کھلا سکتے ہیں۔ وقت ڈی ورمنگ اور حفاظتی ٹیکہ جات لگوا سکتے ہیں۔
جانوروں کی جگہ کو صآف اور خشک رکھھ سکتے ہیں۔ دن میں دو سے تین گھنٹے کے لیے چرائی یا چہل قدمی کروا سکتے ہیں۔ دو سے تین کنال گوارہ اور جنتر لگا سکتے ہیں۔ ہر چھ ماہ کے بعد نر جانوروں کو مناسب قیمت پر لوکل سطح پر فروخت کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
اگر مندرجہ بالا نکات کو ایک منصوبہ کے تحت اختیار کیا جائے تو بکریوں فارمنگ منافع بخش ہے۔
وہ دوست جو لائیوسٹاک فارمنگ کے شعبہ میں آنے چاہتے ہیں۔ اور ایک اچھا فارمر بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اور ساتھ نقصان سے ڈرتے بھی ہیں تو بکریوں فارمنگ ان کو بہترین تربیت حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے۔ کہ ایسے دوست جو دیہات کی سطح پر فارمنگ کرنا چاہتے ہیں اور ان کے پاس دو سے تین لاکھ روپے سرمایہ اور دو سے تین ایکڑ زمین اور وقت اور شوق ہے تو وہ بکریوں فارمنگ سے اپنے کام کی ابتداء کریں۔ اور ابتداء میں ایسی دس سے بیس بکریاں خرید لیں جو سال میں دو دفعہ بچے دیتی ہوں۔ ان کے بچے ہر چھ ماہ فروخت کرتے جائیں۔
ٹیڈی بکریوں کی عمر عام طور پر چھ سے سات سال ہوتی ہے۔ اور اپنی زندگی میں اوسط چودہ بچے جنم دیتی ہے۔ چھ سال کے بعد بکری بوڑھی ہوجاتی ہے۔ اس کی جگہ نئی جوان بکری لے آنی چاہیے ۔ اگر ہر چھ ماہ نر بکرے فروخت کرتے جائیں اور مادہ کو اپنے پاس رکھتے جائیں تو دوسرے چھ ماہ میں پہلے چھ ماہ میں جنم لینے والی مادہ بھی ماں بن جائے گی، اور فارم میں جانوروں کا اضافہ ہوگا۔
مارکیٹ میں ٹیڈی نسل کے جانور عام گوشت کی مارکیٹ میں فروخت کئے جاتے ہیں۔ اور عام گوشت کی مارکیٹ میں جانور پندرہ کلو وزن تک فروخت ہوتا ہے۔ اور سودا بازی سے مناسب قمیت پر فروخت کیا جاسکتا ہے۔ عام طور پندرہ کلو کا جانور تین سو ساڑھے تین سو روپے فی کلو زندہ فروخت ہوتا ہے۔ اگر جانور کو وافر مقدار میں چارہ ، وقت پر ڈی وارمنگ ، حفاظتی ٹیکہ جات اور اچھی مینجمنٹ کی جائے تو پندرہ کلو وزن چار ماہ کے اندر باآسانی کرلیتے ہیںِ اور چھ ماہ کے اندر بیس سے پچیس کلو وزن ہوجاتا ہے۔ جو کہ اچھی قیمت دیتا ہے۔
ٹیدی نسل کے جانور پالنے میں کم محنت ، کم سرمایہ لگتا ہے۔ اگر بکریوں سے بچے حاصل کرکے فروخت کئے جائیں تو پھر بھی منافع ہوتا ہے۔
عام طور پر ہمارے ذہنوں میں تیس ہزار ، چالیس ہزار بکرے کی قیمت ہوتی ہے۔ کہ اس قمیت پر بکے تو منافع ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ جی اگر دس بکرے بھی فروخت کئے تو چار لاکھ تو بن جائیں گئے۔ تیس چالیس ہزار خالص نسل کے بکروں کی قیمت لگتی ہے جن کا قد، رنگ، وزن زیادہ ہوتا ہے۔ اور ان کو پالنے کے اخراجات کافی زیادہ ہوتے ہیں
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ خالص نسل کے جانور بہت نخریلے ہوتے ہیں۔ اگر چارہ، ونڈا ان کی مرضی کے مطابق نہ ہو تو یہ کھانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اگر ان کی ڈی ورمنگ ، حفاظتی ٹیکہ جات اور موسم کی شدت سے بچاو کا انتظام نہ کیاجائے تو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیںِ ۔ اس لیے اگر بکریوں فارمنگ کے کم از کم دو سال بعد نسلی بکروں کو پالا جائے تو پھر مناسب منافع ملتا ہے۔
اس کے برعکس ٹیڈی بکری کے بچے بہت تعاون کرنے والے ہوتے ہیںِ ۔ ان کو جو بھی ملے وہ کھا لیتے ہیں۔ اور ٹیڈی نسل کے بکروں کو اچھے چارے پر بھی پالا جاسکتا ہے۔ اور ونڈے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اگر گھر میں بچی ہوئی روٹیوں کو گیلی کرکے باریک توڑی میں مکس کرکے کھلا دی جائیں تو پھر بھی ونڈے کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ جو دوست بکریوں فارمنگ کرنا چاہتے ہیں تو وہ ابتداء ٹیڈی بکریوں سے کریں۔ اس سے کم محنت ، کم سرمایہ سے ایک سے دو سال میں اچھا خاصا جانوروں کی تعداد میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ جس سے اچھی نسل کے کم عمر بکرے ہر سال اچھی منڈی سے خرید کر ان کی پرورش کرکے عید قربان پر فروخت کرسکتے ہیں۔
قربانی کے جانور اپنے علاقے کی معاشی صورتحال کے مطابق قیمت دیتے ہیں۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں زیادہ تر بیس سے پچیس ہزار تک ہی کے جانور خریدے جاتے ہیںِ ۔شاذونادر ہی چالیس سے پچاس ہزار تک کا جانور خریدا جاتا ہے۔ چھوٹے شہروں میں پچیس سے تیس ہزار تک کا جانور خریدا جاتا ہے۔ جبکہ بڑے شہروں میں پنتیس سے چالیس تک کا جانور خرید جاسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک اچھی نسل کو وی آئی پی طریقے سے پالنے پر دس ہزار سے بارہ ہزار روپے خرچہ ایک سال کے اندر آتا ہے۔
اس لیے بکریوں فارمنگ شروع کرنے سے پہلے فروخت کے لیے علاقے کی معاشی صورتحال کا جائزہ لینا بھی بہت ضروری ہے۔ کہ لوگ مہنگا جانور خرید سکتے بھی ہیں یا نہیں۔ عام طور بکریوں فارمنگ میں ٹیڈی بکری کا کراس بتیل بکرے سے کروا لیا جاتا ہے ۔ اور اس سے حاصل ہونے والا جانور ٹیڈی جانور سے قد میں تھوڑا بڑا لیکن بتیل سے کم ہوگا۔ اور ایسا جانور دوغلا کہلاتا ہے۔ یہ جانور مناسب قیمت پر فروخت ہوجاتا ہے۔ اور ایسے جانور کو پالنے پر زیادہ اخراجات بھی نہیں آتے
اگر آپ کے پاس اپنی ذاتی زمین ہے اور مناسب سرمایہ ہے اور وقت ہے تو پھر یہ کام شوق سے کریں۔ اگر زمین اور سرمایہ تو ہے لیکن خود کوئی نوکری یا کاروبار کرتے ہیں تو پھر ایسے ملازم کا انتخاب کریں جو کام چھوڑ کر نہ بھاگے۔ زمینداری کے کاموں میں ورکر کا ہر وقت موجود ہونا بہت ضروری ہے، ورکر آپ کے فارم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتا ہے۔ اگر کسی وقت ورکر بھاگ جائے اور آپ خود فارم پر کام نہ کرسکیں تو پھر سمجھیں کام ختم ، سرمایہ خلاص
اگر آپ اپنے فارم پر خود کام کریں تو اس سے اچھی بات اور کوئی نہیں۔ جس آپ کا تجربہ بھی بڑھے گا، اور ذہنی سکون بھی رہے گا ، اور اچھا منافع بھی حاصل ہوگا۔
بکریوں فارمنگ پارٹ ٹائم فارمنگ نہیں یہ فل ٹائم فارمنگ ہے۔ جو دوست بکریوں فارمنگ کی طرف آنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے بکریوں فارمنگ کی روٹین کو سمجھیں ، بکریوں فارمنگ کی ضروریات کو سمجھیں پھر اس پر خوب خوب سوچیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ جو بھی کام کیا جاتا ہے اس کی کامیابی نسلوں کو سنوار دیتی ہے۔ اگر آپ فارمنگ میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کوپندرہ سے بیس سالوں میں زیادہ سے زیادہ بڑھا لیتے ہیں۔ آج آپ نے دس سے بیس جانوروں سے آغاز کیا ، اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ، اور اس کاروبار میں اضافے کے ساتھ ہی آپ کو زیادہ ورکروں کی ضرورت ہوگی۔
تو اگر اچھے طریقے سے اس کو چلایا گیا ہوگا تو اسی فارم کو گورنمنٹ سے بطور سنگل پرسن کمپنی رجسٹرڈ کرویا جاسکتا ہے۔ اگر آپ پانچ سے دس سال کامیاب فارمنگ کرلیتے ہیں اور مناسب تجربہ ہوجاتا ہے ، مناسب بنک بیلنس کے مالک ہوجاتے ہیں تو آپ بطور وزیٹر کسی بھی ملک کا ویزہ باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔
بکریوں فارمنگ ایک ایسا بزنس بن سکتا ہے جو آپ کو پوری دنیا کی سیر کروا سکتا ہے۔ آپ کا فارم آپ کو دنیا کے ہرکونے میں لے جاسکتا ہے۔ یہ کوئی ناممکن کام نہیں۔ بس ضرورت کس بات کی ہے، ضرورت اس بات کی کہ آپ درست وقت پر درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کریں۔
بکریوں پروڈکشن کرنے والے فارمر کے لیے دنیا کے دروازے کھلے ہیں۔ اگر وہ ان کی شرائط پر پورے اُترتے ہوں تو۔ میں آپ کو خواب نہیں دکھلا رہا بلکہ ایک خواب کی تعبیر پانے کے رستے کی نشان دھی کررہا ہوں۔ کہ گاؤں دیہات میں رہنے والے پڑھے لکھے دوست اگر کم از کم پانچ سال تک کامیاب بکریوں فارمنگ کرلیتے ہیں اور فارم بنانے کے دو سال کے بعد گورنمنٹ سے فارم بطور ایک پروڈکشن کمپنی رجسٹرڈ کروالیتے ہیں۔ تو پھر دنیا کی سیر ان کے لیے ناممکن نہیں۔
دوستو! حلال گوشت کی دنیا میں بہت ہی زیادہ ڈیمانڈ ہے۔ حلال گوشت کی دنیا کو بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ایسے فارمر جن کے پاس مناسب مقدار میں زمین ہے اگر نہ ہوتو ٹھیکے پر بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور ابتدائی طور مناسب سرمایہ موجود ہے ، تو پھر بکریوں فارمنگ سے منافع حاصل کرنے سے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا ۔
اگر آپ بکریوں فارمنگ کے کاروبار کو سنجیدگی کے ساتھ شروع کرنے کا ارادہ کر چکے ہیں اور آپ کے پا س کم ازکم ایک سے دو ایکڑ اراضی موجود ہے، اور چار سے پانچ لاکھ کا سرمایہ موجود ہے ، تو پھر یہ تحریر آپ کے لیےہے، دنیا کے دروازے آپ پر کھلنے کے لیے تیار ہیں۔

 

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews