جہاز تیس ہزار فٹ کی بلندی پر محوِ پرواز تھا۔ پُرسکون، آرام دہ فلائٹ؛ بزنس کلاس کا بااخلاق اسٹاف اور ہر طرف خاموشی۔ مدھم روشنیوں میں ہر کوئی سونے کےلیے اپنی سیٹوں کو ایڈجسٹ کر رہا تھا۔
عبداللہ کی آنکھوں پر نیند طاری تھی، وہ بھی نیم غنودگی میں تھا کہ اچانک جہاز کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ لائٹس جل اٹھیں اور ایمرجنسی سائرن کی آواز سے جہاز گونج اُٹھا۔ پائلٹ نے اعلان کیا کہ جہاز کا ایک اِنجن فیل ہوگیا ہے اور دوسرے میں بھی کچھ خرابی معلوم ہوتی ہے۔ جہاز دس منٹ میں کریش لینڈنگ کرے گا۔ دعائیں مانگ لیجیے۔
مسافروں کی سانسیں اوپر کی اوپر، نیچے کی نیچے رہ گئیں۔ کسی کو موت سے پہلے مر جانے کی عکس بندی کرنی ہو تو یہ بہترین موقع تھا۔ فرطِ جذبات اور غصّے سے آگے والی سیٹ کے بزنس مین صاحب چیخنے لگے۔
’’کیا بےہودہ بات ہے، بکواس کرتے ہو، تمہیں معلوم نہیں میں کون ہوں، میرے اتنے بزنس…‘‘
ایئرہوسٹس نے بات کاٹی، ’’جناب چیخنے چلانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ تھوڑی دیر میں ہم سب میتوں میں بدل جائیں گے۔‘‘
’’میں آپ لوگوں کےلیے ایک آخری کام کرسکتی ہوں،‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے اندر کاک پٹ میں گئی اور ایک چھوٹا سا کالا ڈبہ لے آئی؛ کہنے لگی:
’’دیکھیے، یہ ڈبہ خصوصی ساخت کا ہے اور آگ یا دھماکے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اگر آپ سب لوگ اپنی فیملی یا بزنس پارٹنر یا بینکر کو کوئی آخری ہدایات لکھ کر دینا چاہتے ہیں تو جلدی سے لکھ کر اس ڈبے میں ڈال دیجیے۔ ملبے سے جب یہ نکلے گا تو آپ کے رشتے داروں تک آپ کے یہ آخری خطوط پہنچادیئے جائیں گے۔‘‘
یہ کہہ کر ایئر ہوسٹس نے تمام مسافروں کو قلم اور کاغذ تھمادیئے۔ ہر کوئی اپنی فیملی کو آخری خط لکھ رہا تھا۔ عبداللہ پہلے تو حیران ہوا کہ کوئی اپنے بینک، اِنشورنس ایجنٹ، بزنس پارٹنر یا محبوب سیاسی لیڈر کو خط کیوں نہیں لکھ رہا۔ مگر پھر اس نے سوچا کہ ابھی حیران ہونے کا وقت نہیں؛ اور جلدی سے اپنا خط شروع کیا۔
گھڑی پر وقت دیکھا، اِن تمام اعلانات و حیرانی میں دو منٹ گزر چکے تھے اور باقی بچے آٹھ۔، عبداللہ نے خط شروع کیا۔
’’میرے پیارے اللہ سائیں،
’’اب ملاقات کا وقت قریب ہے۔ ہماری دنیا میں رواج ہے کہ جب کوئی چھوٹا کسی بڑے سے ملنے جاتا ہے تو کوئی تحفہ، کوئی نذرانہ، کوئی ہدیہ ضرور لے جاتا ہے۔ آپ بڑے ہیں، بےنیاز ہیں۔ آپ کو کسی چیز کی کیا ضرورت۔ مگر میں بندے کی حیثیت سے کچھ تو پیش کروں۔ آج اپنی چالیس سالہ زندگی کو پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو کوئی بھی تو ایسی چیز نہیں جو آپ کو پیش کر سکوں۔ کوئی روزہ، کوئی نماز، کوئی عبادت، کوئی سجدہ، کچھ بھی اس قابل نہیں۔ ساری زندگی سوتے میں گزار دی۔ کوئی بارہ سال تو حقیقتاً سوتا ہی رہا۔ دس ایک سال پڑھنے میں گزار دیئے۔ آٹھ ایک سال روزی روٹی میں اور باقی چند فضول کاموں میں۔ آگے سے آگے بڑھنے کے شوق میں کبھی کوئی اتنا وقفہ بھی نہیں آیا کہ رک کر، پیچھے مڑ کر دیکھ سکوں کہ تیرے ساتھ کیا تعلق بنا؟ معاشرے کو سُدھارنے کے خبط میں اپنے آپ پر کام کرنا بھول گیا۔ نوافل روزوں کی تعداد، حج و عمرہ و ختمِ قرآن کی گنتی، اور اپنی بڑائیوں کے حساب کتاب میں عبادت نہ ہو سکی۔ Never give up (کبھی نہ ہار ماننے) کے زعم میں تیرے سامنے بھی سرینڈر نہ کیا۔ کبھی ہار تسلیم نہیں کی کہ اے اللہ! میں ہار گیا، نفس جیت گیا۔ تُو بچا لے۔
’’اللہ سائیں، یا ذوالجلالِ والاکرام، وہ لمحات جو تیرے ذکر میں کٹنے تھے وہ ٹی وی ڈراموں میں لگ گئے۔ جو تیری یاد و دعا میں لگنے تھے وہ ٹوئٹر، فیس بک اور لنکڈ اِن کی نذر ہوگئے۔ جو وقت قرآن پڑھنے اور سمجھنے میں لگنا تھا وہ گیم آف تھرونز (GoT) کھا گیا۔ اِس کے ساتھ تصویر، اُس کے ساتھ تصویر، اِس جگہ کا وزٹ، اُس جگہ کے قصّے، بس یہی کچھ کرتا رہا۔
’’اے اللہ، اے مالک، اِس وقت جہاز میں سوار لوگوں میں، میں بد ترین مخلوق ہوں۔ اگر تو یہ آفت کوئی عذاب ہے تو مجھے سو فیصد یقین ہے کہ میری وجہ سے آئی ہوگی۔ آج یہ سارے تیرے حضور اپنی عبادتیں لے کر آرہے ہیں۔ میرے پاس سوائے ندامتوں کے کچھ بھی نہیں۔
’’آج میں اپنے جرائم کا اقرار کرتا ہوں۔ سو فیصدی Plead Guilty
’’اے اللہ! میں نے شرک کیا۔ میں نے اپنی ذات کو بندگی اور تیرے بیچ رکھ دیا۔ میری اَنا، میرا غرور، میری ذات کا اِدّعا، میرے کارنامے، میرے ناولز، میرے قصّے، یہ سب شرک نہیں تو اور کیا ہے۔
’’نام تیرا لیتا رہا، محبتیں کسی اور سے کرتا رہا، ذکر تیرا دھیان کہیں اور۔ نماز تیری نظر کہیں اور، خیال تیرا فون کہیں اور، سامنے تُو اور chat کہیں اور۔
’’یااللہ، میں نے ملاوٹ کی۔ تیرے عشق میں، تیری بندگی میں اپنی ذات کی۔
’’میں نے ذخیرہ اندوزی کی کہ میرے گھر میں مہینوں کا اناج اِسٹور میں پڑا ہوتا تھا اور باہر لوگ بھوکے مرتے تھے۔
’’میں نے رشوت بھی لی۔ رشوت دی ہی اس لئے جاتی ہے کہ جو کام کرنے آئے ہو، جس کےلیے کرنے آئے ہو اس کو دھوکا دے کر کسی اور کا کردو۔ یہ میری تنخواہ رشوت ہی تو تھی جو دنیا دیتی رہی کہ تیرا کام نہ کروں۔ جس کےلیے بھیجا گیا وہ نہ کروں، باقی سب کروں۔
’’میں نے غرور کیا کہ میری ذات و اَنا کے بت کے سوشل میڈیا پر ہزاروں فالورز تھے۔
’’میں نے جھوٹ بولا اپنے آپ سے کہ سب اچھا ہے۔ لگے رہو، صحیح جا رہے ہو۔
’’میں نے سچ پہ آنکھیں بند کرلیں کہ روز آئینہ دیکھتا اور اپنے آپ سے نظریں چُرا لیتا۔
’’اللہ سائیں، میں مرنے سے پہلے مر گیا۔ جہاز گرنے سے پہلے ہی چاروں شانے چت ہو گیا۔
’’بے شک تیرا فضل کسی وجہ کا محتاج نہیں۔ بڑوں کی شان ہوتی ہے کہ جب کسی پر گرفت مکمل ہو جائے تو چھوڑ دیتے ہیں۔ میں اقرارِ جرم کرتا ہوں۔ تیری رحمت سے مکمل کوئی شئے نہیں۔ تیری جود و سخا سے باہر کوئی گناہ نہیں۔ تیرے فضل سے سِوا کوئی نافرمانی نہیں اور تیری پہنچ سے دور کوئی دعا نہیں۔ اے سمیع و بصیر اللہ! آخری منٹ بچا ہے، میں ایسا بے بس کہ کچھ بس میں نہیں، اِس بے بسی، اِضطراب، لاچاری و بے چارگی کے صدقے۔ مجھے بخش دے۔ مجھے بخش دے۔ مجھے بخش دے۔
’’میری پیاری بِلّو، اب چلتا ہوں۔ میرے چاروں بچوں کا خیال رکھنا۔ انہیں اچھا عبداللہ بنانا۔‘‘
’’سر! آر یو اوکے؟‘‘ ایئر ہوسٹس نے پسینے میں شرابور عبداللہ کو نیند سے جگایا۔ سب کچھ نارمل تھا اور عبداللہ خواب دیکھ رہا تھا۔
آئیے، ہم سب بھی آج اپنا آخری خط لکھتے ہیں کہ زندگی کا خط درست ہوسکے۔
تو اکیلا ہے بند ہے کمرہ
اب تو چہرہ اُتار کے رکھ دے
مسافروں کی سانسیں اوپر کی اوپر، نیچے کی نیچے رہ گئیں۔ کسی کو موت سے پہلے مر جانے کی عکس بندی کرنی ہو تو یہ بہترین موقع تھا۔ فرطِ جذبات اور غصّے سے آگے والی سیٹ کے بزنس مین صاحب چیخنے لگے۔
’’کیا بےہودہ بات ہے، بکواس کرتے ہو، تمہیں معلوم نہیں میں کون ہوں، میرے اتنے بزنس…‘‘
ایئرہوسٹس نے بات کاٹی، ’’جناب چیخنے چلانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ تھوڑی دیر میں ہم سب میتوں میں بدل جائیں گے۔‘‘
’’میں آپ لوگوں کےلیے ایک آخری کام کرسکتی ہوں،‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے اندر کاک پٹ میں گئی اور ایک چھوٹا سا کالا ڈبہ لے آئی؛ کہنے لگی:
’’دیکھیے، یہ ڈبہ خصوصی ساخت کا ہے اور آگ یا دھماکے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اگر آپ سب لوگ اپنی فیملی یا بزنس پارٹنر یا بینکر کو کوئی آخری ہدایات لکھ کر دینا چاہتے ہیں تو جلدی سے لکھ کر اس ڈبے میں ڈال دیجیے۔ ملبے سے جب یہ نکلے گا تو آپ کے رشتے داروں تک آپ کے یہ آخری خطوط پہنچادیئے جائیں گے۔‘‘
یہ کہہ کر ایئر ہوسٹس نے تمام مسافروں کو قلم اور کاغذ تھمادیئے۔ ہر کوئی اپنی فیملی کو آخری خط لکھ رہا تھا۔ عبداللہ پہلے تو حیران ہوا کہ کوئی اپنے بینک، اِنشورنس ایجنٹ، بزنس پارٹنر یا محبوب سیاسی لیڈر کو خط کیوں نہیں لکھ رہا۔ مگر پھر اس نے سوچا کہ ابھی حیران ہونے کا وقت نہیں؛ اور جلدی سے اپنا خط شروع کیا۔
گھڑی پر وقت دیکھا، اِن تمام اعلانات و حیرانی میں دو منٹ گزر چکے تھے اور باقی بچے آٹھ۔، عبداللہ نے خط شروع کیا۔
’’میرے پیارے اللہ سائیں،
’’اب ملاقات کا وقت قریب ہے۔ ہماری دنیا میں رواج ہے کہ جب کوئی چھوٹا کسی بڑے سے ملنے جاتا ہے تو کوئی تحفہ، کوئی نذرانہ، کوئی ہدیہ ضرور لے جاتا ہے۔ آپ بڑے ہیں، بےنیاز ہیں۔ آپ کو کسی چیز کی کیا ضرورت۔ مگر میں بندے کی حیثیت سے کچھ تو پیش کروں۔ آج اپنی چالیس سالہ زندگی کو پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو کوئی بھی تو ایسی چیز نہیں جو آپ کو پیش کر سکوں۔ کوئی روزہ، کوئی نماز، کوئی عبادت، کوئی سجدہ، کچھ بھی اس قابل نہیں۔ ساری زندگی سوتے میں گزار دی۔ کوئی بارہ سال تو حقیقتاً سوتا ہی رہا۔ دس ایک سال پڑھنے میں گزار دیئے۔ آٹھ ایک سال روزی روٹی میں اور باقی چند فضول کاموں میں۔ آگے سے آگے بڑھنے کے شوق میں کبھی کوئی اتنا وقفہ بھی نہیں آیا کہ رک کر، پیچھے مڑ کر دیکھ سکوں کہ تیرے ساتھ کیا تعلق بنا؟ معاشرے کو سُدھارنے کے خبط میں اپنے آپ پر کام کرنا بھول گیا۔ نوافل روزوں کی تعداد، حج و عمرہ و ختمِ قرآن کی گنتی، اور اپنی بڑائیوں کے حساب کتاب میں عبادت نہ ہو سکی۔ Never give up (کبھی نہ ہار ماننے) کے زعم میں تیرے سامنے بھی سرینڈر نہ کیا۔ کبھی ہار تسلیم نہیں کی کہ اے اللہ! میں ہار گیا، نفس جیت گیا۔ تُو بچا لے۔
’’اللہ سائیں، یا ذوالجلالِ والاکرام، وہ لمحات جو تیرے ذکر میں کٹنے تھے وہ ٹی وی ڈراموں میں لگ گئے۔ جو تیری یاد و دعا میں لگنے تھے وہ ٹوئٹر، فیس بک اور لنکڈ اِن کی نذر ہوگئے۔ جو وقت قرآن پڑھنے اور سمجھنے میں لگنا تھا وہ گیم آف تھرونز (GoT) کھا گیا۔ اِس کے ساتھ تصویر، اُس کے ساتھ تصویر، اِس جگہ کا وزٹ، اُس جگہ کے قصّے، بس یہی کچھ کرتا رہا۔
’’اے اللہ، اے مالک، اِس وقت جہاز میں سوار لوگوں میں، میں بد ترین مخلوق ہوں۔ اگر تو یہ آفت کوئی عذاب ہے تو مجھے سو فیصد یقین ہے کہ میری وجہ سے آئی ہوگی۔ آج یہ سارے تیرے حضور اپنی عبادتیں لے کر آرہے ہیں۔ میرے پاس سوائے ندامتوں کے کچھ بھی نہیں۔
’’آج میں اپنے جرائم کا اقرار کرتا ہوں۔ سو فیصدی Plead Guilty
’’اے اللہ! میں نے شرک کیا۔ میں نے اپنی ذات کو بندگی اور تیرے بیچ رکھ دیا۔ میری اَنا، میرا غرور، میری ذات کا اِدّعا، میرے کارنامے، میرے ناولز، میرے قصّے، یہ سب شرک نہیں تو اور کیا ہے۔
’’نام تیرا لیتا رہا، محبتیں کسی اور سے کرتا رہا، ذکر تیرا دھیان کہیں اور۔ نماز تیری نظر کہیں اور، خیال تیرا فون کہیں اور، سامنے تُو اور chat کہیں اور۔
’’یااللہ، میں نے ملاوٹ کی۔ تیرے عشق میں، تیری بندگی میں اپنی ذات کی۔
’’میں نے ذخیرہ اندوزی کی کہ میرے گھر میں مہینوں کا اناج اِسٹور میں پڑا ہوتا تھا اور باہر لوگ بھوکے مرتے تھے۔
’’میں نے رشوت بھی لی۔ رشوت دی ہی اس لئے جاتی ہے کہ جو کام کرنے آئے ہو، جس کےلیے کرنے آئے ہو اس کو دھوکا دے کر کسی اور کا کردو۔ یہ میری تنخواہ رشوت ہی تو تھی جو دنیا دیتی رہی کہ تیرا کام نہ کروں۔ جس کےلیے بھیجا گیا وہ نہ کروں، باقی سب کروں۔
’’میں نے غرور کیا کہ میری ذات و اَنا کے بت کے سوشل میڈیا پر ہزاروں فالورز تھے۔
’’میں نے جھوٹ بولا اپنے آپ سے کہ سب اچھا ہے۔ لگے رہو، صحیح جا رہے ہو۔
’’میں نے سچ پہ آنکھیں بند کرلیں کہ روز آئینہ دیکھتا اور اپنے آپ سے نظریں چُرا لیتا۔
’’اللہ سائیں، میں مرنے سے پہلے مر گیا۔ جہاز گرنے سے پہلے ہی چاروں شانے چت ہو گیا۔
’’بے شک تیرا فضل کسی وجہ کا محتاج نہیں۔ بڑوں کی شان ہوتی ہے کہ جب کسی پر گرفت مکمل ہو جائے تو چھوڑ دیتے ہیں۔ میں اقرارِ جرم کرتا ہوں۔ تیری رحمت سے مکمل کوئی شئے نہیں۔ تیری جود و سخا سے باہر کوئی گناہ نہیں۔ تیرے فضل سے سِوا کوئی نافرمانی نہیں اور تیری پہنچ سے دور کوئی دعا نہیں۔ اے سمیع و بصیر اللہ! آخری منٹ بچا ہے، میں ایسا بے بس کہ کچھ بس میں نہیں، اِس بے بسی، اِضطراب، لاچاری و بے چارگی کے صدقے۔ مجھے بخش دے۔ مجھے بخش دے۔ مجھے بخش دے۔
’’میری پیاری بِلّو، اب چلتا ہوں۔ میرے چاروں بچوں کا خیال رکھنا۔ انہیں اچھا عبداللہ بنانا۔‘‘
’’سر! آر یو اوکے؟‘‘ ایئر ہوسٹس نے پسینے میں شرابور عبداللہ کو نیند سے جگایا۔ سب کچھ نارمل تھا اور عبداللہ خواب دیکھ رہا تھا۔
آئیے، ہم سب بھی آج اپنا آخری خط لکھتے ہیں کہ زندگی کا خط درست ہوسکے۔
تو اکیلا ہے بند ہے کمرہ
اب تو چہرہ اُتار کے رکھ دے
No comments:
Post a Comment