کمپنی
انسان اپنی کمپنی سے پہچانا جاتا ہے . آپ کس طرح کے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں. کس طرح کے لوگ آپ کے دوست ہیں. اس سے دوسرے لوگ آپ کے بارے میں اندازہ لگاتے ہیں کہ آپ کیسے ہیں . آپ جیسے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں ، آپ کچھ ویسے ہی ہو جاتے ہیں. اگر آپ کے دوست اچھے ہیں تو ان کا آپ پہ بھی اثر ہوتا ہے . اگر آپ کے دوست برے ہیں تو آپ بھی کچھ نہ کچھ برے بن جائیں گے. میں نے بہت اچھے اچھے نوجوانوں کو خراب ہوتے دیکھا ہے .. صرف اس لئے کیونکہ ان کی کمپنی بری تھی . اسی طرح میں نے ایورج قسم کے نوجوانوں کو بہت اچھا بنتے بھی دیکھا ہے . وجہ پھر سے وہی .. کہ ان کی کمپنی اچھی تھی . اور یہ بات لڑکے لڑکیوں ، دونوں پہ صادق آتی ہے .
اگر آپ نوجوان ہیں تو کوشش کریں کہ اچھے لوگوں میں اٹھیں بیٹھیں جو پڑھنے اور کام کرنے والے ہوں. اگر آپ والدین ہیں تو اپنے بچوں کے دوستوں پہ کڑی نظر رکھیں کہ وہ کون ہیں . اگر آپ والد یا والدہ ہیں اور آپ کے پاس وقت ہی نہیں اپنے بچوں کو وقت دینے کا یا یہ جاننے کا کہ آپ کا بچہ کیسے دوست بنا رہا ہے تو آپ بطور والد یا والدہ ، اپنے فرائض سے بدترین غفلت کا ارتکاب کر رہے ہیں. میں بچپن سے ہی پڑھائی میں بہتر تھا ،بچپن میں سرکاری اسکول کے چھپن بچوں کی کلاس میں اکثر فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتا . کالج میں آئے تو سائنس رکھ کے اپنے کیریئر کا بیڑا غرق کر لیا. یہ سوچے بغیر کہ فزکس کیمسٹری میں اپنا دماغ چلتا بھی ہے یا نہیں . اس کے بعد کراچی آنا ہوا . میں ہمیشہ سے اپنے ہم عصر لوگوں سے اپنا موازنہ کرتا رہتا ہوں. میرا ایک کزن پڑھائی میں بہت اچھا تھا . اس نے میٹرک میں مجھ سے زیادہ نمبر حاصل کئے تھے . مجھے یقین تھا کہ یہ آگے چل کے پڑھائی کے میدان میں بہت زیادہ کامیاب ہو گا. لیکن پھر وہ لڑکا ایسے دوستوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا جو میٹرک کے بعد سے ہی کام کرنا شروع کر چکے تھے .پڑھائی کے نام سے ہی ان لڑکوں کو دندل پڑ جاتی . یہ لڑکے چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے ، اور منہ میں پان گٹکا رکھ کے کہتے ... چھوڑو یار پڑھائی میں کیا رکھا ہے . کوئی کام کرو . ان کی دیکھا دیکھی میرے کزن نے پڑھائی چھوڑی اور کراچی کے ریگل سینٹر میں کمپیوٹر کی دکان پہ ایک معمولی نوکری کرنا شروع کر دی .اتنا ہونہار سٹوڈنٹ تھا اور پڑھائی چھوڑ کے ایک معمولی نوکری پہ لگ گیا . میرا بھی حال کچھ اچھا نہ تھا.٢٠٠٢ میں بی کام شروع کیا لیکن پڑھائی سے زیادہ ویڈیو گیمز اور آوارہ گردی میں لگا رہتا . جیب میں پلا دھیلا نہیں ہوتا تھا . والد سے پیسے لے لے کے خرچ کرتا . میرے خاندان کا مستقبل میں انحصار مجھ پہ تھا لیکن مجھے پتا نہیں تھا کہ میں آگے کیریئر کیسے بناؤں. نہ کوئی گائیڈ کرنے والا تھا . دوسری طرف رحیمیارخان میں میرے دوست جو ہمیشہ پڑھائی میں مجھ سے پیچھے رہتے تھے . پڑھ لکھ کے خوب ترقی کر گے. کوئی امریکہ میں جاب کر رہا ہے کوئی سعودیہ، میں کوئی ڈینٹسٹ بن گیا کوئی ڈالرز میں کما رہا ہے . اور میں ان سے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا تھا .وہ پڑھ لکھ گے ، میں دریا کے کنارے بیٹھا ڈرتا رہا کہ اگر میں نے دریا کو عبور کرنے کی کوشش کی تو میں ڈوب جاؤں گا . میں سوچتا تھا کہ پہلی بات ... والدین کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں پڑھا نے کے لئے . لیکن اس سے بھی بڑا مسلہ یہ تھا کہ فیل ہونے سے ڈرتا تھا . میں ایسی ٹیم تھی جو ڈر کے مارے میدان میں ہی نہیں اترتی تھی. میرے باقی کزنز پڑھائی میں تو ویلے تھے لیکن ان کے والد نے ان کو بزنس کروا دیے تھے . میرے کزنز خوب پیسے کماتے اور پھر پورے خاندان میں شوخیاں مارتے . اپنے پیسوں کی ، اپنے مہنگے موبائل فونز کی . میں نے اتنے میں رو دھو کے بی کام کر لیا .بی کام کے دوران میں نے کلاس کے سب سے ہونہار طالب علم اویس سے دوستی لگا لی . اویس چند مارکس سے کراچی یونیورسٹی میں پوزیشن مارنے سے رہ گیا. لیکن پھر بھی اس نے اوور بہت اچھا سکور کیا . اویس پڑھائی تو میں ہونہار تھا ہی لیکن انگلش اس کی کمال تھی . میری انگلش انتہائی خراب تھی . اویس ...بطور دوست ... اچھی کمپنی تھا اور میری اور اس کی دوستی آج تک قائم ہے . اس نے مجھے بہت سی اچھی باتیں سکھائیں . آج اویس فیصل بنک ہیڈ آفس کراچی میں ایک اچھی مینجمنٹ لیول کی پوزیشن پہ کام کر رہا ہے . وہ ہمیشہ سے ٹاپ لیول کا کام کرتا .کلرکوں والا کام نہیں کرتا تھا . اس کے ساتھ کے لوگ آج بھی بنکوں کی برانچوں میں کلائنٹس کی منتیں ترلے کر رہے ہوتے ہیں کہ کچھ ڈپازٹ جمع کروا دیں. خیر جناب .. ٢٠٠٦ آیا . میں اب بھی یہی سوچتا تھا کہ میں کر کیا رہا ہوں . میں صرف اپنا وقت ضائع کر رہا ہوں . اور انہی دنوں میں مجھے بریک تھرو مل گیا . میرے کزن نے کوشش کر کے میری جاب ایک ٹیکسٹائل کمپنی میں کروا دی . میں ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کا اسسٹنٹ تھا . میری جاب انٹرنل آڈٹ کے شعبہ میں تھی. کمپنی میں لوگ بہت اچھے تھے . انتہائی نائس ، پڑھے لکھے لوگ. یہ ورک پلیس انتہائی مزے کی جگہ تھی .بات پھر وہی آ جاتی ہے کہ انسان پہ اس کی کمپنی کا اثر ہوتا ہے . ہمارے آفس میں دس اکاؤنٹس کے ایمپلائیز تھے . میرا باس اندر اپنے روم میں بیٹھتا بڑی شان سے کیوں کہ وہ چیف فنانشل آفیسر تھا . دیکھنے میں ایک دم ڈاکٹر شاہد مسعود جیسا لیکن بھرم اس کے آسمانوں پہ ہوتے تھے . میں نے سوچا ... بننا ہے تو بندہ اس جیسا بنے ، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ . یہ کیا اکاؤنٹس کلرک بن کے رہنا .
اب میں نے فیصلہ کیا کہ میں دوبارہ پڑھائی شروع کروں گا . پارٹ ٹائم پڑھوں گا . جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا .. وہیں سے جوڑوں گا . چاہے میں دس دفع فیل کیوں نہ ہوں .. میں نے پڑھائی نہیں چھوڑنی .. جب تک کوالیفیکیشن مکمل نہ کر لوں. میں وہ ٹیم بنوں گا جو کبھی ہار نہیں مانے گی .اگر ہاریں گے تو پھر سے حملہ کریں گے اور دوسری بار ... تیسری بار ... یا چوتھی بار میں جیت کے دکھائیں گے .. qualify کر کے دکھاؤں گا .
دنیا کو ہے دکھانا ... ہم سے ہے یہ زمانہ ...
ان سب کے منہ بند کروں گا جو کہتے ہیں کہ تم کچھ نہیں کر سکتے .
دو سال کے بریک کے بعد پڑھائی دوبارہ سٹارٹ کی . انتہائی کمزور انگلش کو امپروو کیا ، قلیل تنخواہ سے پڑھائی کا خرچہ کیسے خود پورا کیا ، چارٹرڈ اکاونٹینسی کے انتہائی مشکل پپیرز ... سٹریٹ اٹمپٹس میں بنا فیل ہوۓ پاس کئے . اور وہاں سے پھر میں یہاں تک آیا .
تو یہ تھی میری کہانی . تو دوستو .. اپنی کمپنی صیحح رکھو . اچھے لوگوں کی کمپنی میں رہو . اگر آپ والدین ہو تو بچوں کو بھی اسی طرف لے کے آؤ. انشا الله کامیابی آپ کے ... یا آپ کے بہنوں بھائیوں یا بچوں کے قدم چومے گی .
تحریر : احمد فہیم
انسان اپنی کمپنی سے پہچانا جاتا ہے . آپ کس طرح کے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں. کس طرح کے لوگ آپ کے دوست ہیں. اس سے دوسرے لوگ آپ کے بارے میں اندازہ لگاتے ہیں کہ آپ کیسے ہیں . آپ جیسے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں ، آپ کچھ ویسے ہی ہو جاتے ہیں. اگر آپ کے دوست اچھے ہیں تو ان کا آپ پہ بھی اثر ہوتا ہے . اگر آپ کے دوست برے ہیں تو آپ بھی کچھ نہ کچھ برے بن جائیں گے. میں نے بہت اچھے اچھے نوجوانوں کو خراب ہوتے دیکھا ہے .. صرف اس لئے کیونکہ ان کی کمپنی بری تھی . اسی طرح میں نے ایورج قسم کے نوجوانوں کو بہت اچھا بنتے بھی دیکھا ہے . وجہ پھر سے وہی .. کہ ان کی کمپنی اچھی تھی . اور یہ بات لڑکے لڑکیوں ، دونوں پہ صادق آتی ہے .
اگر آپ نوجوان ہیں تو کوشش کریں کہ اچھے لوگوں میں اٹھیں بیٹھیں جو پڑھنے اور کام کرنے والے ہوں. اگر آپ والدین ہیں تو اپنے بچوں کے دوستوں پہ کڑی نظر رکھیں کہ وہ کون ہیں . اگر آپ والد یا والدہ ہیں اور آپ کے پاس وقت ہی نہیں اپنے بچوں کو وقت دینے کا یا یہ جاننے کا کہ آپ کا بچہ کیسے دوست بنا رہا ہے تو آپ بطور والد یا والدہ ، اپنے فرائض سے بدترین غفلت کا ارتکاب کر رہے ہیں. میں بچپن سے ہی پڑھائی میں بہتر تھا ،بچپن میں سرکاری اسکول کے چھپن بچوں کی کلاس میں اکثر فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتا . کالج میں آئے تو سائنس رکھ کے اپنے کیریئر کا بیڑا غرق کر لیا. یہ سوچے بغیر کہ فزکس کیمسٹری میں اپنا دماغ چلتا بھی ہے یا نہیں . اس کے بعد کراچی آنا ہوا . میں ہمیشہ سے اپنے ہم عصر لوگوں سے اپنا موازنہ کرتا رہتا ہوں. میرا ایک کزن پڑھائی میں بہت اچھا تھا . اس نے میٹرک میں مجھ سے زیادہ نمبر حاصل کئے تھے . مجھے یقین تھا کہ یہ آگے چل کے پڑھائی کے میدان میں بہت زیادہ کامیاب ہو گا. لیکن پھر وہ لڑکا ایسے دوستوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا جو میٹرک کے بعد سے ہی کام کرنا شروع کر چکے تھے .پڑھائی کے نام سے ہی ان لڑکوں کو دندل پڑ جاتی . یہ لڑکے چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے ، اور منہ میں پان گٹکا رکھ کے کہتے ... چھوڑو یار پڑھائی میں کیا رکھا ہے . کوئی کام کرو . ان کی دیکھا دیکھی میرے کزن نے پڑھائی چھوڑی اور کراچی کے ریگل سینٹر میں کمپیوٹر کی دکان پہ ایک معمولی نوکری کرنا شروع کر دی .اتنا ہونہار سٹوڈنٹ تھا اور پڑھائی چھوڑ کے ایک معمولی نوکری پہ لگ گیا . میرا بھی حال کچھ اچھا نہ تھا.٢٠٠٢ میں بی کام شروع کیا لیکن پڑھائی سے زیادہ ویڈیو گیمز اور آوارہ گردی میں لگا رہتا . جیب میں پلا دھیلا نہیں ہوتا تھا . والد سے پیسے لے لے کے خرچ کرتا . میرے خاندان کا مستقبل میں انحصار مجھ پہ تھا لیکن مجھے پتا نہیں تھا کہ میں آگے کیریئر کیسے بناؤں. نہ کوئی گائیڈ کرنے والا تھا . دوسری طرف رحیمیارخان میں میرے دوست جو ہمیشہ پڑھائی میں مجھ سے پیچھے رہتے تھے . پڑھ لکھ کے خوب ترقی کر گے. کوئی امریکہ میں جاب کر رہا ہے کوئی سعودیہ، میں کوئی ڈینٹسٹ بن گیا کوئی ڈالرز میں کما رہا ہے . اور میں ان سے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا تھا .وہ پڑھ لکھ گے ، میں دریا کے کنارے بیٹھا ڈرتا رہا کہ اگر میں نے دریا کو عبور کرنے کی کوشش کی تو میں ڈوب جاؤں گا . میں سوچتا تھا کہ پہلی بات ... والدین کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں پڑھا نے کے لئے . لیکن اس سے بھی بڑا مسلہ یہ تھا کہ فیل ہونے سے ڈرتا تھا . میں ایسی ٹیم تھی جو ڈر کے مارے میدان میں ہی نہیں اترتی تھی. میرے باقی کزنز پڑھائی میں تو ویلے تھے لیکن ان کے والد نے ان کو بزنس کروا دیے تھے . میرے کزنز خوب پیسے کماتے اور پھر پورے خاندان میں شوخیاں مارتے . اپنے پیسوں کی ، اپنے مہنگے موبائل فونز کی . میں نے اتنے میں رو دھو کے بی کام کر لیا .بی کام کے دوران میں نے کلاس کے سب سے ہونہار طالب علم اویس سے دوستی لگا لی . اویس چند مارکس سے کراچی یونیورسٹی میں پوزیشن مارنے سے رہ گیا. لیکن پھر بھی اس نے اوور بہت اچھا سکور کیا . اویس پڑھائی تو میں ہونہار تھا ہی لیکن انگلش اس کی کمال تھی . میری انگلش انتہائی خراب تھی . اویس ...بطور دوست ... اچھی کمپنی تھا اور میری اور اس کی دوستی آج تک قائم ہے . اس نے مجھے بہت سی اچھی باتیں سکھائیں . آج اویس فیصل بنک ہیڈ آفس کراچی میں ایک اچھی مینجمنٹ لیول کی پوزیشن پہ کام کر رہا ہے . وہ ہمیشہ سے ٹاپ لیول کا کام کرتا .کلرکوں والا کام نہیں کرتا تھا . اس کے ساتھ کے لوگ آج بھی بنکوں کی برانچوں میں کلائنٹس کی منتیں ترلے کر رہے ہوتے ہیں کہ کچھ ڈپازٹ جمع کروا دیں. خیر جناب .. ٢٠٠٦ آیا . میں اب بھی یہی سوچتا تھا کہ میں کر کیا رہا ہوں . میں صرف اپنا وقت ضائع کر رہا ہوں . اور انہی دنوں میں مجھے بریک تھرو مل گیا . میرے کزن نے کوشش کر کے میری جاب ایک ٹیکسٹائل کمپنی میں کروا دی . میں ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کا اسسٹنٹ تھا . میری جاب انٹرنل آڈٹ کے شعبہ میں تھی. کمپنی میں لوگ بہت اچھے تھے . انتہائی نائس ، پڑھے لکھے لوگ. یہ ورک پلیس انتہائی مزے کی جگہ تھی .بات پھر وہی آ جاتی ہے کہ انسان پہ اس کی کمپنی کا اثر ہوتا ہے . ہمارے آفس میں دس اکاؤنٹس کے ایمپلائیز تھے . میرا باس اندر اپنے روم میں بیٹھتا بڑی شان سے کیوں کہ وہ چیف فنانشل آفیسر تھا . دیکھنے میں ایک دم ڈاکٹر شاہد مسعود جیسا لیکن بھرم اس کے آسمانوں پہ ہوتے تھے . میں نے سوچا ... بننا ہے تو بندہ اس جیسا بنے ، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ . یہ کیا اکاؤنٹس کلرک بن کے رہنا .
اب میں نے فیصلہ کیا کہ میں دوبارہ پڑھائی شروع کروں گا . پارٹ ٹائم پڑھوں گا . جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا .. وہیں سے جوڑوں گا . چاہے میں دس دفع فیل کیوں نہ ہوں .. میں نے پڑھائی نہیں چھوڑنی .. جب تک کوالیفیکیشن مکمل نہ کر لوں. میں وہ ٹیم بنوں گا جو کبھی ہار نہیں مانے گی .اگر ہاریں گے تو پھر سے حملہ کریں گے اور دوسری بار ... تیسری بار ... یا چوتھی بار میں جیت کے دکھائیں گے .. qualify کر کے دکھاؤں گا .
دنیا کو ہے دکھانا ... ہم سے ہے یہ زمانہ ...
ان سب کے منہ بند کروں گا جو کہتے ہیں کہ تم کچھ نہیں کر سکتے .
دو سال کے بریک کے بعد پڑھائی دوبارہ سٹارٹ کی . انتہائی کمزور انگلش کو امپروو کیا ، قلیل تنخواہ سے پڑھائی کا خرچہ کیسے خود پورا کیا ، چارٹرڈ اکاونٹینسی کے انتہائی مشکل پپیرز ... سٹریٹ اٹمپٹس میں بنا فیل ہوۓ پاس کئے . اور وہاں سے پھر میں یہاں تک آیا .
تو یہ تھی میری کہانی . تو دوستو .. اپنی کمپنی صیحح رکھو . اچھے لوگوں کی کمپنی میں رہو . اگر آپ والدین ہو تو بچوں کو بھی اسی طرف لے کے آؤ. انشا الله کامیابی آپ کے ... یا آپ کے بہنوں بھائیوں یا بچوں کے قدم چومے گی .
تحریر : احمد فہیم
No comments:
Post a Comment