January 13, 2023

Muscular Dystrophy (A Silent Killer) مسکولر ڈسٹرافی (ایک خاموش قاتل)

 

مسکولر ڈسٹرافی (ایک خاموش قاتل)

Muscular Dystrophy (A Silent Killer)
آپ کی عمر 2 سال سے 60 سال تک ہے۔ آپ بڑی پرفیکٹ زندگی جی رہے ہیں۔ یہ قاتل آپ کے اور میرے جسم میں بھی چھپا یا سویا ہو سکتا ہے۔ جو کسی بھی وقت جاگ سکتا ہے۔
مسکولر ڈسٹرافی جسے عام زبان میں پٹھوں کی بیماری کہا جاتا ہے۔ اسے ہمارے جینز میں چھپا ہوا قاتل سمجھا جاتا ہے۔ جو عمر کے کسی بھی حصے میں جاگ کر جسم کے چند حصوں یا پورے جسم میں تہس نہس مچا دیتا ہے۔ اور یہ قاتل ہستے کھیلتے زندگی کی بہاریں دیکھتے اپنے شکار کو موت کے منہ کے قریب لے جاتا ہے۔
مسکولر ڈسٹرافی پر آج میں انشاء اللہ تفصیل سے بات کروں گا۔ اور اس قاتل کی چالوں و حملوں سے بچنے کے طریقوں پر بات ہوگی۔ تحریر پڑھنے کے لیے جو کر رہے ہیں پلیز اسے ابھی چھوڑ دیجیے۔ یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے جسے آپ کو ضرور پڑھنا چاہیے۔
اس بیماری کی یوں تو 8 اقسام ہیں مگر تصویری پریزنٹیشن میں 6 اقسام ہیں۔ جو کہ عام ہیں۔ آپ نے تحریر پڑھتے ہوئے تصویر کو a سے شروع کرکے نیچے f کی طرف دیکھتے جانا ہے۔
آئیے اس خاموش قاتل کے تمام طریقہ واردات پر باری باری بات کرتے ہیں۔

اے۔ ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی

Duchene Muscular Dystrophy
مسکولر ڈسٹرافی کے مریضوں میں یہ سب سے کامن قسم ہے۔ یہ ایک جنیٹک یا موروثی بیماری ہے۔ اور جو سب سے چھوٹی عمر میں ہوتی ہے وہ یہی ہے ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی۔ یہ ہمیشہ لڑکوں کو ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کے اندر ماں اسکی کیرئیر ہوتی ہے۔ اور بیماری جب ظاہر ہوتی ہے تو پیدا ہونے والے لڑکوں میں ظاہر ہوتی ہے۔
اب اس میں ہوتا کیا ہے؟ بچہ بلکل ٹھیک پیدا ہوتا ہے۔ تمام مائل سٹون اپنی عمر کے باقی بچوں کی طرح پورے کرتا ہے۔ چلنا باتیں کرنا سب کچھ پرفیکٹ ہوتا ہے۔ جیسے ہی عمر 5 سال ہوتی تو قاتل اندر سے جاگ کر بچے کے پاؤں کی ایڑھی زمین سے اٹھا دیتا ہے۔ اور اپنے شکار پر ہلا بولنے کی پہلی نشانی اسے پنجوں پر چلانا شروع کرتا ہے۔ چند ہی ماہ بعد بچہ اپنا چھاتی یعنی سینہ باہر نکال کر چلنا شروع ہوتا ہے۔ جیسے پہلوان سینہ تان کر چلتے ہیں۔ اندر چھپا ہوا قاتل ہی سینہ تان کر ایڑھیاں اٹھا کر للکار رہا ہوتا ہے میں آگیا ہوں آؤ اب میرے مقابلے میں۔
والدین بچے کو ڈانٹ رہے ہوتے کہ یہ تم کیسے چل رہے ہو؟ ایڑھی نیچے لگاؤ سینہ پیچھے کرو۔ مگر بچہ ایسا کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اور والدین اسے بچے کی کوئی عادت سمجھ کر اگنور کر رہے ہوتے۔ اور بزدل قاتل اپنا وار بچے کے پٹھوں پر تیز سے تیز کرتا جا رہا ہوتا۔
پھر چند ماہ بعد کیا ہوتا ہے کہ بچہ پیراں بھار بیٹھا ہوا جب اٹھنے لگتا تو اس سے اٹھا ہی نہیں جاتا۔ پیچھے گر جاتا۔ یا اٹھے بھی تو گھنٹوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھتا ہے۔ اور دن بدن ٹانگیں کمزور ہوتی جاتیں۔ بظاہر تو ٹانگیں ٹھیک ہونگی مگر اندر موجود مسلز کمزور ہو کر بڑی تیزی سے ٹوٹ رہے ہوتے۔ کیونکہ والدین کو تو پتا ہی نہیں بچے کے اندر کونسی جنگ چھڑ چکی ہے۔ اور دشمن اپنے وار معصوم پر دن رات کیے جا رہا۔
اس گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھنے سے بیماری کی شناخت شروع ہوتی ہے۔ اسے گاور سائن کہتے ہیں۔ والدین اب جا کے بچے کو سیریس لیتے ہیں۔ بچے کی عمر 7 سے 8 سال ہو چکی ہوتی۔ یعنی 2 سے 3 سال مسلسل قاتل اپنا کام کرتا رہا اور والدین کو خبر ہی نہ ہوئی۔ اب کسی ماہر ڈاکٹر کے پاس جائیں تو وہ پہچان لیتا کہ یہ تو مسکولر ڈسٹرافی ہے۔ اکثریت آبادی کی رسائی ماہر ڈاکٹروں تک نہیں ہو پاتی وہ کسی عطائی، مالشیے ہڈی جوڑ والے جراح کے پاس جاتے جو اپنے ٹوٹکے لگا کر قاتل کو اپنا شکار نگلنے میں اور وقت فراہم کر دیتے۔ جب تک بیماری کی مکمل تشخیص ہوتی بچہ موت کے منہ میں پہنچ چکا ہوتا۔
بیٹھ کر اٹھنا مشکل ہوا۔ پھر سیڑھیاں چڑھنا مشکل ہوا۔ اب کندھوں کے جوڑ کمزور ہونا شروع ہوئے۔ اور بازوؤں کے اوپری حصے کام کرنا چھوڑنے لگتے ہیں۔ 10 سال کی عمر تک بازو کو کندھے سے حرکت دینا بہت مشکل اور کئی کیسز میں بلکل ناممکن ہوجاتا ہے۔ ٹانگیں اور بازو مکمل یا 90 فیصد مفلوج ہو چکے ہوتے۔
بچہ اب پانی نہیں پی سکتا۔ روٹی کا نوالہ نہیں توڑ سکتا۔ کنگھی نہیں کر سکتا۔ قمیض پہنتے ہوئے ہاتھ اوپر نہیں اٹھتا۔ یہ کمزوری دن بدن بڑھتی جاتی ہے۔ اور کچھ بچوں میں دل کے پٹھے بھی کمزور ہونا شروع ہوتے ہیں۔ قاتل اب خون پمپ کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرنے کی طرف اپنا وار کرتا ہے۔ اسے ہم کارڈیو مایو پیتھی کہتے ہیں۔ یہ اگر ہو جائے تو بچے کی زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
یہ ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی کا شکار بچے 10 سال تک کسی طرح چل لیتے ہیں۔ پھر وہیل چیئر یا چار پائی پر آجاتے ہیں۔ اور دوبارہ کبھی بھی کھڑے نہیں ہو سکتے یا چل نہیں سکتے۔ یا کسی سہارے سے چلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
خطرناک صورت حال کب بنتی ہے؟ بیماری نے حملہ کر دیا ہوا۔ اور بچے کو بخار ہوگیا۔ ابھی بیماری کا آغاز ہے اور بچے کو والدین لٹائے رکھتے ہیں۔ ساکت پڑے ہوئے بچے پر قاتل اپنا حملہ بہت تیز کر دیتا ہے اور مسلز بڑی تیزی سے ضائع ہونے لگتے۔ ان بچوں کو بخار میں ہر وقت کبھی بھی لیٹنے نہ دیں۔ پیراسیٹامول دے کر بچوں کو تھوڑا تھوڑا چلائیں۔ ایک دفعہ مسلز ضائع ہونے ٹوٹنے شروع ہوگئے آپ ان کو پھر روک نہیں سکتے۔ کمان سے تیر نکل جائے گا۔
نیم حکیم یا عطائی یا ہمارے گھر کے ہی بڑھے بوڑھے سیانے کہتے ہیں کہ بچے کو ورزش کروائیں۔ اس سے پٹھوں میں جان آئے گی۔ یہ سب سے بڑی غلطی ہے جو والدین کرتے اور پٹھے جو پہلے ہی کمزور ہورہے ہوتے وہ تباہ ہوجاتے۔ اتنی ورزش کریں کہ جوڑ جڑ نہ جائیں۔ ان میں تھوڑی حرکت رہے اور کوئی بھی چیز اٹھائے بغیر باڈی ویٹ پر ہی معمولی ورزش کریں۔ بچے کو تھکنا نہیں چاہیے۔ ان بیماری میں بچوں کے پٹھے کاغذ کی طرح ہو چکے ہوتے وہ بڑی جلدی ٹوٹ جاتے ہیں۔
ایک اور بلنڈر والدین یا ماجھے و نورے قسم پریکٹشنر ان بچوں کے ساتھ کیا مارتے ہیں۔ وہ یہ کہ بچہ جب ایڑھی اٹھاتا ہے تو وہ کسی عطائی، ہڈی جوڑ یا نئے نئے بنے آرتھوپیڈک یا جنرل سرجن کے پاس چلے جاتے۔ وہ اس کی وجہ سے بے خبر ایڑھی کو زمین پر لگانے کی کوشش کرتا۔ نہیں لگتی تو کئی ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی بچوں کے پاؤں کے آپریشن ہوئے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ اب اس بچے کا آپریشن کرنے والے عطائی یا سرٹیفائیڈ ڈاکٹر کا میرا بس چلے تو مرڈر کر دوں۔ والدین کو تو پتا ہی نہیں آپ لوگ ہی عقل کر لیا کریں۔ نہیں پتا کسی سے پوچھ ہی لو۔
ایڑھی اٹھتی پتا کیوں ہے؟
ٹانگوں، کولہوں اور کمر کے پٹھے سکڑ رہے ہوتے۔ اب جسم اپنے خود کار دفاعی نظام کے تحت ان پٹھوں کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے خود بخود پاؤں کی ایڑھی اٹھا کر ان پٹھوں کو Compensate کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ کہ والدین اس بچے کو بچا لیں۔ اس کی ٹانگوں کے پٹھوں کو ضائع ہونے سے بچا لیں۔ جب کسی بھی طرح ایڑھی زمین پر لگا دی جاتی تو پٹھے ٹوٹ کر ہمیشہ کے لیے ضائع ہوجاتے۔
پیٹ باہر نکل رہا ہوتا تو بیلٹ کبھی نہ لگائیں۔ اس سے پیرا سپائنل مسلز کمزور ہونا شروع ہو جائیں گے۔
ہم قاتل کے وار سے بچ کیسے سکتے ہیں؟
اسکا پوری دنیا میں کوئی علاج نہیں ہے۔ جو اسے بلکل ختم کر سکے۔ ہاں سٹیم سیل تھراپی شاید چند سالوں بعد اسکے علاج میں مددگار ہو مگر ابھی آج کے دن تک کوئی علاج نہیں ہے۔
پاکستان میں ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی کا شکار اکثریت بچے دیر سے تشخیص ہونے کے باعث ٹین ایج (13 سے 19) میں ہی فوت ہوجاتے ہیں۔ اگر شروع سے پتا چل جائے اور کوالٹی آف لائف بہتر کر دی جائے۔تو بچوں کی زندگی 30 سے 40 اور بہت کم کیسز میں 50 تک بھی جا سکتی ہے۔ ہمیں ان بچوں کے لیے ان کے لائف سٹائل اور اوور آل ماحول و سپورٹ سسٹم کو بدلنا ہوتا ہے۔ ان کو اٹھا کر چلانا نہیں ہوتا بلکہ وہیل چیئر پر ہی ان کو زندگی کا کوئی مقصد دینا ہوتا ہے۔ جو مقصد انکی عمر بڑھا دیتا ہے۔
ایک بات میری یاد رکھیں کہ ہم اپنی بھی اور ان مسکولر ڈسٹرافی والے بچوں کی کوالٹی آف لائف تو بہتر کر سکتے ہیں مگر کوانٹٹی آف لائف نہیں بڑھا سکتے۔ یہ ایک موٹا پرنسپل یاد رکھیں۔
مالش بلکل نہیں کرنی۔
کوئی بریس کوئی سپیشل جوتا نہ پہنائیں۔
کوئی سرجری نہیں کروانی۔
بچوں کو بیکری کی تمام اشیاء، چاول، کولڈ ڈرنکس، مصنوعی جوسز، بلکل نہیں دینے۔
بچوں کو بلکل بھی موٹا نہیں ہونے دینا۔
جیسا ہی بچہ موٹا ہوا سمجھیں وہ زندگی سے گیا۔
ان کو سکول بھیجنا ہے مگر جب تک آسانی سے جا سکیں۔
پڑھائی اور امتحانوں کا سٹریس نہیں دینا۔
خوش رکھنا ہے۔ ڈپریشن میں نہیں جانے دینا۔
بہت زیادہ ڈاکٹر نہیں بدلنے۔ اس کی کوئی دوا نہیں ہے بس لائف سٹائل بدلنا ہوتا۔
جتنی بار نئے نئے ڈاکٹروں کے پاس جائیں گے بچے میں سٹریس بڑھے گی کہ میں ٹھیک نہیں ہوسکتا۔
اس معذوری کو ڈے ون سے قبول کریں۔ اور بچے کو بھی اچھی طرح سمجھائیں کہ آپکی زندگی اب وہیل چیئر کے ساتھ گزرنی ہے۔
چلنے کا خواب معصوم آنکھوں کو نہ دیں جو پورا ہی نہیں ہونا۔ ادھورے یا پورے نہ ہو سکنے والے جاگتی آنکھوں سے دیکھے گئے خواب اکثر ہمیں بڑوں کو اندر سے توڑ دیتے ہیں۔یہ تو پھر معصوم بچے ہوتے۔
خود نہیں افورڈ کر سکتے کسی سے درخواست کرکے زیور مال مویشی بیچ کر ان بچوں کو بجلی سے چلنے والی جاپانی پاور وہیل چیئر لے کر دیں۔ جو پانچ دس سال نکال بھی جائے۔
بچوں کو وہ وہیل چیئر آپریٹ کرنا سکھائیں۔ اپنے گھر کا لیول باہر گلی یا سڑک کے لیول سے بس 6 انچ یا 1 فٹ اونچا رکھیں۔ اور ریمپ بنائیں۔ جب جی چاہے بچہ باہر جائے گھر آئے۔ اسے ایک کمرے گھر یا چارپائی پر محدود نہ کریں۔
کوشش کریں مسجد، مندر، چرچ، امام بارگاہ، گر دوارہ میں ریمپ بنوائیں۔ بچے کی وہیل چیئر کو مسجد میں بغیر کسی کے دھکا لگائے رسائی دیں۔ وضو کی جگہ سپیشل بنائیں کہ یہ بچہ مسجد میں وہیل چیئر پر بیٹھا ہی وضو کر سکے۔ وہ وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا ہی مسجد کے اندر چلا جائے۔ عبادت کرے اور کوئی اسے روکنے والا نہ ہو۔
خدا سے تعلق جتنا مضبوط ہوگا۔ زندگی میں کچھ کر گزرنے کی لگن اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ اور روحانی طاقتیں بھی کوالٹی آف لائف کو بہتر کر دیں گی۔
ان بچوں کو بولنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ یوٹیوب چینل بنا سکتے ہیں۔
وائس اوور آرٹسٹ بن سکتے ہیں۔
نیوز کاسٹر بن سکتے ہیں۔
وی لاگنگ کر سکتے ہیں۔
ان کی وہیل چیئر یا کرسی چارپائی عام روٹین سے کافی اونچی رکھیں۔ بیڈ صوفہ الغرض جس بھی چیز پر یہ سکول کالج یا آفس میں بیٹھتے ہیں وہ نیچے اینٹیں وغیرہ رکھ کے اونچا کر دیں۔ کہ اٹھنے میں بہت زور نہ لگے۔ اٹھنا چاہیں تو جیسے ہی پاؤں زمین پر لگیں یہ کھڑے ہوجائیں۔
ہر بار جب یہ ران کے پٹھوں پر زور دے کر اٹھتے ہیں۔۔تو وہ پٹھے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اور اٹھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہوئی ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے ان کے بیٹھنے کی جگہ ہی اونچی کر دیں۔ اٹھتے وقت بلکل زور نہ لگے۔
شادی کی طرف نہ ہی آئیں تو بہتر ہے۔ ڈاکٹر سے مشورہ کرکے بیماری کی شدت دیکھ کر شادی کا فیصلہ کیا بھی جا سکتا ہے۔
ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی کی میڈیکل تشخیص کے لیے سب سے کامن و عام ٹیسٹ ہے۔ cpk ۔ یہ ایک بلڈ ٹیسٹ ہے۔ جو کی مقدار ایورج سے ہزاروں گنا زیادہ ہوتی ہے۔ نارمل سی پی کے 150 کی رینج میں ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ EMG ہو سکتا ہے۔ مسل بیاپسی بھی ہو سکتی ہے۔

بی۔ بیکر مسکولر ڈسٹرافی

Becker's Muscular Dystrophy
ڈوشین 4 سے 5 سال میں ظاہر ہوتی۔ جبکہ بیکر 15 سے 19 سال تک ظاہر ہوتی ہے۔ ابتدائی علامتیں ڈوشین جیسی ہی ہونگی۔ اکثر بچوں میں ڈوشین کی طرح ایڑھی نہیں بھی اٹھتی۔ مگر پیٹ اور سینہ باہر کو نکلنے لگتا ہے۔ بیٹھ کر اٹھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ چلتے چلتے گر سکتا ہے۔ یا سٹیبل نہیں رہتا لڑ کھڑانے لگتا ہے۔ ٹانگوں میں جان نہیں رہتی۔
بی والی تصویر زرا دیکھیں۔ کندھے اور ہاتھ کام کرنا چھوڑنے لگتے ہیں۔ بازو اوپر نہیں اٹھتے۔ علامتیں ڈوشین والی ہی ہیں مگر عمر کا فرق ہے۔ اس میں قاتل 4 سال میں جاگا اور یہاں 15 سے 19 سال تک چھپا رہا۔
بیماری کے آغاز میں تشخیص ہو جائے تو یہ بچہ اگلے دس سال تک چل سکتا ہے۔ کہ اسے سپورٹ دی جائے۔ یہ چیز بھی ختم نہیں ہونی۔ بس ہم نے مریض کی کوالٹی آف لائف ہو بہتر کرنا اور لائف سٹائل کو مکمل بدلنا ہے۔ 30 سے 32 سال کی عمر تک ہر قسم کی سپورٹ کے باوجود یہ بچے بھی بلا آخر وہیل چیئر پر آجاتے ہیں۔
ان بچوں کے لیے بھی وہ سب احتیاطی تدابیر اور لائف سٹائل میں تبدیلیاں ہیں جو اوپر ڈوشین میں لکھی ہیں۔ موٹے نہ ہوں۔ بہت ورزش نہ کریں۔ خود کو تکلیف دے کر چلیں نہیں۔ علاج کے پیچھے شہر شہر بستی بستی ناں بھاگیں۔ بریس، بیلٹ نہ لگائیں۔ سرجری نہ کروائیں۔ ان کی وہیل چیئر یا کرسی چارپائی اونچی رکھیں۔ بیڈ صوفہ الغرض جس بھی چیز پر یہ سکول کالج یا آفس میں بیٹھتے ہیں وہ نیچے اینٹیں وغیرہ رکھ کے اونچا کر دیں۔ کہ اٹھنے میں بہت زور نہ لگے۔ اٹھنا چاہیں تو جیسے ہی پاؤں زمین پر لگیں یہ کھڑے ہوجائیں۔
الیکٹرک ٹرائی سائیکل لیں جس پر جہاں مرضی جائیں۔ 150 ہزار کی اچھی الیکٹرک ٹرائی سائیکل آجاتی جو ڈوشین اور بیکر دونوں کے لیے بہترین ہے۔
تین پہیوں والی موٹر سائیکل ان کے لیے نہیں ہے۔ اس سے گر سکتے ہیں۔ وہ پولیو والے افراد کے لیے ٹھیک ہے۔ ان کا اوپری دھڑ بڑا مضبوط ہوتا ہے۔ جبکہ ان کا اوپری دھڑ بہت کمزور ہوتا۔ ہینڈل نہیں سنبھال سکتے۔
اس میں ہو سکتا ہے۔ ٹیسٹ کروانے پر سی پی کے cpk زیادہ نہ ہو۔ اس میں صرف ای ایم جی کروا کے یا کلینکل کو رلیشن کرکے معلوم کر سکتے ہیں۔ یا مسل بیاپسی بھی ہو سکتی ہے۔ تشخیص کے بعد لائف سٹائل کو بدلنا ہے علاج پر وقت ضائع نہیں کرنا۔ میں بار بار یہ کہہ رہا ہوں۔

سی۔ لمب گرڈل مسکولر ڈسٹرافی

Limb Girdle Muscular Dystrophy
اچھا یہ والی قسم ایسی ہے جو 2 سال سے لیکر 40 سال تک کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے۔ علامات سب وہی ہونگی۔ اس میں جو مسلز کمزور ہونگے وہ
hip and shoulder areas (limb-girdle area)
پر ہونگے۔ علامات وہی ہونگی۔ احتیاط بھی سب وہی ہے۔
مگر اس قسم میں بیماری کا حملہ 40 سال کی عمر تک ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے قاتل بلکل خاموش سویا ہوا ہے۔ آپ بڑی آئیڈیل و صحت مند زندگی جی رہے ہیں۔

ڈی۔ فیشیو سکیپولو ہیومرل ڈسٹرافی

facioscapulohumeral muscular dystrophy
یعنی چہرہ کندھا دونوں اس میں متاثر ہوتے ہیں۔ ڈی والی فوٹو دیکھیں۔ اس میں چہرے کی ساخت یا سائز ایک یا دونوں سائیڈوں سے سکڑ جاتا ہے۔ کندھے اور بازو بہت کمزور ہو جاتے ہیں۔ بیماری کی قسم 20 سال سے لیکر 50 سال تک کسی بھی وقت حملہ آور ہو سکتی ہے۔۔عموما چالیس کے بعد اس کا ایج آف آن سیٹ دیکھا گیا ہے۔
اس میں عموماً ٹانگیں بہت کم انوالو ہوتی ہیں۔
جس مرضی عمر میں سویا ہوا قاتل جاگ جائے احتیاط و لائف سٹائل سب وہی ہیں جو اوپر آپ پڑھ کے آئے۔
ای۔ ڈسٹل مسکولر ڈسٹرافی
Distal Muscular Dystrophy
یہ بیماری بھی عمر کے کسی حصے میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ عموماً یہ 40 سے 60 سال کی عمر میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس میں آپ فوٹو میں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ڈسٹل پارٹس آف باڈی۔ یعنی سنٹر سے دور دراز کے علاقے متاثر ہوتے ہیں۔ بازوں کے کہنیوں سے نچلے حصے اور ٹانگوں کے گھٹنے سے نچلے حصے۔
اس میں بھی علامات اور باقی سب باتیں وہی ہونگی جو ڈوشین میں ہیں۔

ایف۔ اکولو فرینجئیل مسکولر ڈسٹرافی

Oculopharyngeal Muscular Dystrophy
یہ بھی مسکولر ڈسٹرافی کی ایک رئیر فارم ہے۔ جو عموماً 40 سے 60 سال کی عمر میں اس سے متاثرہ مردوں و عورتوں دونوں میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ اس میں آنکھوں اور گلے کے مسلز کمزور ہونا شروع ہوتے۔ اور آنکھوں کی شیپ بدل دیتے۔ ہمارے بھنویں نیچے لٹک جاتے ہیں۔ اور گے کی اسکن بھی ڈی سیپ ہو جاتی ہے۔ اس مریض کو دیکھنے و کھانے میں مسئلہ پیش آتا ہے۔ کوئی سچ ایز علاج نہیں ہے۔ بس لائف سٹائل بدلنا ہے۔
اب ساری کہانی کا کرکس نکالوں تو دو باتیں کہوں گا۔
1. لانگ لائف ری ہیبلی ٹیشن پراسس ہوگا۔ اسے لائف ٹائم بھی کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ کوئی ایک ہی اچھا ری ہیبلی ٹیشن سپیشلسٹ چن لیں۔ جس سے آن لائن ہی رابطے میں رہیں۔ اور زندگی گزرنے کے ساتھ پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے اس سے راہنمائی لیتے رہیں۔ ایڈوانس ممالک میں ایسے بچوں کے ساتھ کام کرنے والے ری ہیبلی ٹیشن سپیشلسٹ سالانہ فیس لیتے ہیں۔ اور فون کال پر دستیاب ہوتے ہیں۔ میں خود پرائیویٹلی یہ سروس فراہم کرتا ہوں۔
ابھی میرے پاس دو بچے ہیں جن کے والدین کو میں بڑی جد و جہد کے بعد علاج کی نفسیات سے نکال کر ری ہیبلی ٹیشن میں لا چکا ہوں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ان بچوں کا ڈائٹ پلان، تعلقات، تعلیم، جاب، لائف سٹائل، زندگی کے بڑے فیصلے سب کچھ ماہرین کی سپر ویژن میں ہوتا ہے۔
آپ ایک دو بار مجھ سے فون پر بات کر سکتے ہیں۔
مجھے مل کر مشورہ کر سکتے ہیں۔ یہ سروس ساری عمر ساتھ چلنے والی کنڈیشنز مسکولر ڈسٹرافی، سیری برل پالسی اور ڈاؤن سنڈروم بچوں کے لیے بلکل فری یے۔
اور یہاں کیا ہوتا؟ جیڑھی رات قبر ویچ اے او باہر نئیں
جنھے لایا گلیں میں اوہندے نال چلی
جیہڑا رب بیماری لا سکدا اے او کٹ وی تے سکدا اے ( اور اسی لاحاصل امید کے چکر میں علاج کے پیچھے شہر شہر جا جا کر بچے کی باقی ماندہ صلاحیتوں پر اچھے بھلے سمجھدار والدین پانی پھیر دیتے ہیں)
2. ان بچوں کے لیے گھر میں سکول کالج مسجد آفس ہر جگہ بدلاؤ کرنے ہیں۔ انہیں بے مقصد زندگی نہیں گزارنے دینی۔ جہاں بھی بچے کے ساتھ مسکولر ڈسٹرافی جڑ جائے۔ اس کے والدین نہیں کر سکتے تو کمیونٹی کے دیگر افراد مل کر اس بچے کی رسائی ہر ممکن جگہ تک یقینی بنائیں۔ پارک میں اس کی رسائی کے لیے پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی پارک و گراؤنڈز کی راہداری اور گیٹ کھلا کرنے کا قانون طور پر پابند ہے۔ تمام بنک ریمپ بنانے کے پابند ہیں۔ مگر جیسے ریمپ بنکوں میں بنے ہوتے وہ بلکل بھی ٹھیک نہیں ہوتے۔ خانہ پری ہوتی یے وہ بس۔ پلازوں میں دفاتر میں ریمپس بنائے جائیں اور ان لوگوں کو وہیل چیئر سمیت ہر جگہ رسائی ملے۔
خطیب احمد
سینئر سپیشل ایجوکیشن ٹیچر
گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سنٹر نوشہرہ ورکاں
ضلع گوجرانولہ

 

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews