October 18, 2019

LUNCH BOX


لنچ بکس
"اسد زکاء آپ لنچ نہیں کر رھے" مس راحیلہ نے روز کی
طرح آج بھی اسد زکاء کو لنچ نہ کرتے دیکھ کر پوچھا۔
" میم مجھے بھوک نہیں ھے" اسد زکاء نے بھی روز کی طرح وھی جواب دیا۔
کلاس فور کو شروع ھوئے دو ہفتے ھو چکے تھے ان دو ہفتوں میں روز مس راحیلہ اسد زکاء کو لنچ نہ کرتے دیکھ کر پوچھتی اور وہ بھی روز ایک ھی جواب دیتا۔ اسد زکاء کلاس تھری میں ٹاپ کرکے کلاس فور میں آیا تھا۔ بلکہ نرسری سے لےکر کلاس تھری تک ھر کلاس میں ھر ٹرم میں وھی ٹاپ کرتا تھا۔ اس لیے مس راحیلہ نے آج طے کیا تھا کہ وہ آج بریک میں ضرور اسد زکاء سے پوچھیں گی کہ وہ لنچ کیوں نہیں کرتا۔ اور اسکے والدین کو بھی بلا کر بات کریں گی کہ وہ بچے کو لنچ کیوں نہیں دے کر بھیجتے۔ مس راحیلہ کو لگ رھا تھا کہ قصور ماں باپ کا ھے وہ شاید لنچ دے کر ھی نہیں بھجیتے۔ یہ سب بات کرنے کے لیے بریک کی بیل کے بعد مس راحیلہ نے اسد زکاء کو کہا کہ آپ میری بات سن کر باھر جایئے گا۔
ساری کلاس کے باھر جانے کے بعد مس راحیلہ نے اسد زکاء سے پوچھا" بیٹا میں دو ہفتے سے دیکھ رھی ھوں آپ لنچ کیوں نہیں کرتے۔"
" وہ میم مجھے بھوک نہیں ھوتی۔ " اسد زکاء نے وھی رٹا ھوا جملہ بول دیا۔
"بیٹا یہ کیسے ھو سکتا ھے۔ آپ صبح سات بجے ناشتہ کرتے ھو گے۔ گیارہ بجے تک یہاں سکول میں پڑھ پڑھ کے آپ کو ذرا بھی بھوک نہ لگے۔ آپ جاؤ اپنا لنچ بکس لے کر آؤ۔ " مس راحیلہ نے اپنا شک دور کرنے کے لیے کہا۔ کیونکہ انھیں یقین تھا کہ اسد ذکاء کے پاس لنچ ھے ھی نہیں۔ اسد اپنی جگہ سے نہیں ھلا۔ وہ وھی کھڑا رھا۔
مسں راحیلہ نے کچھ دیر انتظار کیا پھر ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا۔ " یعنی میرا شک ٹھیک نکلا۔ بلاتی ھوں آپ کے والدین کو کہ آپ بچے کو لنچ تک نہیں دے کر بھیجتے اتنی لا پرواھی۔ " مس راحیلہ کو سخت غصّہ آگیا۔
انکی یہ بات سن کر اسد کے پاؤں تلے جیسے زمین نکل گئی ھو۔ وہ انتہائی پریشانی سے بولا " نہیں میم میرے پاس لنچ ھے۔ الله کی قسم میرے پاس لنچ ھے۔ " وہ جیسے رونے لگا تھا۔ مس راحیلہ اسکی پریشانی پر حیران اور پریشان ھو گئیں۔ اور بولیں" اچھا دکھاؤ کہاں ھے۔" ان کے کہتے ھی اسد فوراً جاکر اپنے بیگ سے اپنا لنچ بکس لے کر آگیا۔ اس کے لنچ بکس میں پراٹھا اور اچار تھا۔ مس راحیلہ کو سمجھ نہیں آئی کہ پھر وہ لنچ کرتا کیوں نہیں۔ انھوں نے پھر بڑے پیار سے پوچھا۔ " بیٹا لنچ ھے تو آپ کرتے کیوں نہیں۔ کیوں بھوکے رھتے ھو۔ زیادہ نہیں تو تھوڑا تو کھا لیا کرو۔" انھوں نے پیار سے سمجھایا۔
جی میم آئندہ ضرور کھا لیا کروں گا۔ بس آپ میری امّی بابا کو مت بتائیے گا۔" اسد نے روھانسی آواز میں کہا۔ مس راحیلہ کو لگا کہ کوئی بات ضرور ھے۔ وہ پھر پوچھنے لگ گئیں۔ " اچھا بیٹا نہیں بتاؤں گی۔ پر آپ مجھے بتاؤ اصل بات کیا ھے۔ آپ لنچ کرتے کیوں نہیں۔"
"وہ میم سب بچے پھر مزاق اڑاتے ھیں۔ میں بس اچار پراٹھا ھی لیکر آتا ھوں تو سب مزاق اڑاتے ھیں۔ اس لیے نہیں کھاتا۔" اسد نے اب اصل وجہ بتائی اور ساتھ اپنی آنکھوں میں آنے والے ھلکے سے آنسو بھی صاف کیے۔ مس راحیلہ کا دل کیا کہ اسے اپنے گلے سے لگا کر پیار کریں۔ وہ اسکے سر پر ھاتھ پھیرتے ھوئے بولیں۔
" بیٹا آپ اپنی امّی سے بولا کریں وہ آپکو کچھ اور بنا دیا کریں۔ " مس راحیلہ نے بڑے پیار سے حل بتایا۔
"کلاس ون میں کہا تھا میم۔ کہ مجھے نہیں پراٹھا لیکر جانا۔ سب مذاق اڑاتے ھیں۔ " اسد نے معصومیت سے بتایا۔ "پھر" مس راحیلہ کو بھی اب تجسس ھونے لگا تھا۔ اسد نے ایک نظر انھیں دیکھا۔ پھر اسی طرح نظر جھکا کر بولنے لگا۔ " پھر میم۔ مجھے کچھ عرصے بعد میری آپی نے کہا کہ۔ وہ نائتھ کلاس میں جاتی ھیں۔ نائتھ اور ٹینتھ کے بعد وہ محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیں گی۔ پھر جیسا لنچ میں کہوں گا ویسا آپی بنا دیا کریں گی۔ مگر ابھی میں امّی سے کہوں کے بریڈ اور کباب یا نگٹس کھانے سے میرے پیٹ میں درد ھو جاتا ھے۔ اس لیے مجھے یہ نہ دیا کریں۔" اسد ابھی بول ھی رھا تھا کہ مس راحیلہ اس کی بات کاٹتے ھوئے بولیں۔ مگر آپ کی بہن نے ایسا کیوں کہا۔"
" کیونکہ جب سے امّی نے مجھے بریڈ سینڈوچ کباب وغیرہ لنچ میں دینے شروع کیے تھے۔ تب سے بابا رات کو دو کی بجائے تین بجے گھر آنا شروع ھو گئے تھے۔ میرے بابا ایک کلرک ھیں۔ وہ دن کو دفتر میں کام کرتے ھیں اور رات کو ٹیکسی چلاتے ھیں۔ تاکہ میری بیکن ھاؤس کی فیس اور باقی خرچہ کر سکیں۔ میرے ایک لنچ کے لیے وہ پورا ایک گھنٹہ لیٹ آنے لگ گئے تھے۔ حالانکہ اگلے دن سات بجے انھوں نے پھر اٹھنا ھوتا تھا دفتر جانے کے لیے۔اس لیے میری آپی نے کہا ایسے بابا بیمار ھو جائیں گے۔ تو میں امّی سے کہوں مجھے یہ لنچ نہ دیں۔ اور جب آپی میڑک کر لیں گی تو وہ ٹیوشن پڑھا کر میرے لنچ کے پیسے بنا لیا کریں گی۔ تو میں نے امّی سے وھی کہہ دیا۔ پہلے بھی بس میں ھی بیکن ھاؤس پڑھتا ھوں۔ میری بہنیں تو گورنمنٹ سکول میں پڑھتی ھیں۔ اور میرے لنچ کے لیے بابا کو نیند کی مزید قربانی دینی پڑھ رھی تھی جو مجھے اچھا نہیں لگا۔ تو میں کہہ دیا کہ مجھے یہ سب نہیں کھانا۔ " اسد نے آج اپنے اندر کی ساری باتیں کر ڈالیں۔
" تو کیا ابھی تک آپ کی آپی نے میڑک نہیں کیا۔" مس راحیلہ کو چھوٹے سے اسد کی بڑی باتوں میں دلچسپی پیدا ھو گئی تھی۔ اس لیے وہ مزید جاننے کی کوشش کر رھی تھیں۔
"میڑک تو اس نے پچھلے سال کر لیا تھا میم۔ اور پتا ھے اس نے بورڈ میں ٹاپ کیا تھا۔ اس نے بابا سے کہا کہ وہ اسے کنیٹ کالج میں داخلہ لینے دیں۔ کچھ تو سکالر شپ مل جائے گا۔ باقی وہ ٹیوشن پڑھا کے انتظام کر لے گی۔ بابا کو پریشان نہیں کرے گی۔ بابا اس کے بھی تو بابا ھیں نا۔ اور اس نے کیا بھی ٹاپ تھا۔ بابا نے اسکا کنیٹ کالج میں ایڈمیشن کرا دیا۔ اسے جب پہلی ٹیوشن فیس ملی تو اس نے کہا چلو اسد آج جو میرا بھائی کہے گا وہ سب لے کر آؤں گی اور وھی لنچ میں لے کر جائے گا میرا بھائی اسے اب پراٹھا اچار نہیں لے کر جانا پڑے گا۔ مگر میں نے آپی سے کہہ دیا۔ آپی قسم سے وہ بازار کی چیزوں سے واقعی ھی میرے پیٹ میں درد ھو جاتا تھا۔ ویسے بھی تو اب میں بڑی کلاس میں آگیا ھوں۔ اب تو کوئی میرا مذاق بھی نہیں اڑاتا۔ میں روز پراٹھا کھا کر آتا ھوں۔ میم پتا ھے میں نے ایسے کیوں کہا۔ کیونکہ میں نے اکثر آپی کو چھوٹی آپی کو بتاتے سنا تھا کہ کنیٹ کالج میں بہت امیر لڑکیاں پڑتی ھیں ان کے پاس بہت مہنگی چیزیں ھوتی ھیں۔ تو آپی ٹیوشن کے پیسوں سے اپنے لیے کچھ لے سکتی تھیں۔ لنچ تو اتنا ضروری نہیں تھا نا۔ تو میں نے آپی کو بھی منع کر دیا۔ ویسے بھی کلاس تھری تک تو عثمان میرا دوست تھا وہ میرے لیے اکثر الگ لنچ لے آتا تھا۔ اسکی ماما میرے لیے بہت مزے کا لنچ بنا کر دیتی تھیں۔ اسکے بابا کی اب پوسٹنگ کراچی ھو گئیں ھے۔ وہ لوگ اب وھاں چلے گئے ھیں۔ اس لیے مجھے ابھی کوئی نیا دوست نہیں ملا۔ ویسے میم اچھا ھوا وہ چلا گیا"۔ اسد کچھ اداسی سے بولا مگر مس راحیلہ کو اس کے آخری فقرے کی وجہ سمجھ نہیں آئی کے دوست کا جانا اچھا کیوں تھا۔ وہ پھر بولیں۔" اچھا کیوں ھوا۔ آپکا دوست آپکے ساتھ رھتا تو زیادہ اچھا نہیں تھا۔ " مس راحیلہ نے وضاحت سے پوچھا۔ اور اسد ایک ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔ " اس طرح سے تو بہت اچھا تھا میم وہ میرا بہت اچھا دوست تھا۔ مگر جب وہ میرے لیے لنچ لاتا تھا تب بھی کچھ بچے تنگ کرتے تھے۔ اوہ آج عثمان پھر اسد کے لیے لنچ لایا ھے۔ کھاؤ کھاؤ۔ ماں باپ غریب ھیں تو کیا ھوا دوست امیر ھیں نا۔ تو میرا دل دکھتا تھا۔ میں اکثر کھانا چھوڑ دیتا تھا مگر عثمان کے کہنے پر پھر کھا لیتا تھا۔ میرے امی بابا غریب نہیں ھیں میم۔ بس انکے پاس پیسے تھوڑے کم ھیں۔ میرے بابا کہتے ھیں انشا الله میرا اسد ڈاکڑ بنے گا اور اسکے پاس بہت پیسے ھوں گے اور انشا الله میں انکا خواب ضرور پورا کروں گا۔ بس اس لیے کبھی کبھی میرا دل کرتا تھا کہ عثمان کہیں چلا جائے تاکہ کوئی میرے امی بابا کو ایسے نہیں بولے۔" وہ چھوٹا سا بچہ اپنے ھر رشتے کے لیے اتنا حساس تھا یہ دیکھ کر مس راحیلہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ " مگر بیٹا آپ لنچ تو کرتے نہیں۔ آپکی امی یا آپی آپکا لنچ بکس چیک کرکے پوچھتی نہیں کے لنچ کیوں نہیں کیا۔ " مس راحیلہ بولیں۔ اسد ہلکا سا مسکرایا اور بولا۔ " میم میں نا اپنی وین میں لنچ کر لیتا ھوں۔ اس وین میں سب پراٹھا ھی لیکر جاتے ھیں۔ اس لیے کوئی میرا مذاق بھی نہیں اڑاتا اور امی کو پتا بھی نہیں چلتا کے میں نے سکول میں لنچ نہیں کیا۔ " اسد نے فخر سے بتایا۔ مس راحیلہ کو اسکی اس ادا پہ بہت ھی پیار آیا۔ اور ساتھ ھی بریک ختم ھونے کی بیل بج گئی۔ "چلو باقی باتیں پھر کبھی کریں گے۔" مس راحیلہ نے کہا اور اسد بھی جاکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ باقی دن نارمل کلاسز میں گزر گیا۔ مس راحیلہ اسد سے اسکی سوچ اور اسکی حساسیت سے بہت متاثر ھوئیں۔ وہ اس کے لیے کچھ کرنا چاھتی تھیں۔ اگر وہ خود اس کے لیے لنچ بنا کر لے جائیں۔ مگر اسے تو عثمان کا لنچ نہیں نہیں یہ ٹھیک نہیں ھے۔ وہ بہت سے خیالات اپنے ذھن میں بن رھی تھیں۔ پھر ایک طریقہ انکے ذھن میں آگیا۔
اگلے روز بریک سے کچھ دیر پہلے گیٹ کیپر نے آکر کلاس کے دروازے پہ دستک دی اور کہا کہ "اسد زکاء کا لنچ آیا ھے"۔ اسد حیرانی و پریشانی سے اپنی جگہ سے اٹھ کر گیا اور لنچ بکس لے لیا۔ لنچ بہت مزے کا تھا وہ سارا کھا گیا۔ اس کے بعد یہ روز کا معمول بن گیا۔ روز بریک سے پہلے گیٹ کیپر آ کر لنچ دے جاتا اور وہ لنچ کھا لیتا۔ کلاس فور ، فائیو، سکس حتی کہ اسد زکاء نے میڑک کے پیپر دیے اور اپنی بہن کی طرح اس نے بھی بورڈ میں ٹاپ پوزیشن لی۔ اور سکول سے فخر سے نکلا۔ کلاس ٹین تک اسکا وہ لنچ بکس آتا رھا وہ بند نہیں ھوا۔
مس راحیلہ اس سکول سے ریٹائر ھو کر فارغ ھو گئیں۔ وہ اب تک سوچتی تھیں کہ اسد زکاء نے کبھی گیٹ کیپر سے پوچھا نہیں کہ اسے لنچ کون دیتا ھے۔ جبکہ انکا خیال تھا کہ اسد زکاء اسی دن جب جاکر گھر پوچھے گا کہ لنچ کس نے بھیجا اور اسے پتا چلے گا کہ گھر سے کسی نے نہیں بھیجا تو وہ شاید اگلے دن وہ لنچ لے ھی نہ یا گیٹ کیپر سے ضد کرے کہ بتائیں یہ لنچ بکس کس نے دیا ھے۔ مگر مس راحیلہ نے سوچا کہ جب یہ ھوگا تب دیکھیں گے لنچ بکس دینا تو شروع کروں۔ مگر اسد زکاء نے کبھی گیٹ کیپر سے یہ نہیں پوچھا بلکہ وہ روز چھٹی ٹائم وہ لنچ بکس گیٹ کیپر کو دے جاتا تھا۔ کبھی کبھی مس راحیلہ کو تجسس ھوتا تھا کہ وہ کیا سوچتا ھو گا۔ کہ یہ کون دیتا ھے۔ مگر وہ اب یہ کس سے پوچھتی۔ شروع کے دو تین سال تو اسد زکاء سکول آتا رھا ملتا بھی رھا۔ اسکا میڈیکل کالج میں ایڈمیشن ھو گیا ھے۔ یہ وہ انھیں خود بتا کر گیا تھا۔ مگر اسکے بعد وہ دوبارہ سکول نہیں آیا۔ مس راحیلہ اس کو یاد کرتی اور اس کے لیے دعا کر دیا کرتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" سر پلیز آپ جلدی سے چار لاکھ جمع کرا دیں تاکہ آپکی امّی کا آپریشن شروع ھو سکے۔ " نرس پچھلے آدھ گھنٹے میں یہ تیسری بار بول کر گئی تھی۔ مگر وہ دونوں کچھ نہیں کر پا رھے تھے۔ اپنی ساری جمع پونچھی اور ھر رشتے دار سے مدد مانگنے کے بعد بھی بس ڈھائی لاکھ کا بندوبست ھو سکا تھا۔ ڈیڑھ لاکھ ابھی بھی کم تھا۔ اور آپریشن تب شروع ھونا تھا جب چار لاکھ جمع ھو جاتے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور سوچتے دو کمپوڈرذ آئے اور انکی امی کو لے کر جانے لگے۔
" یہ کیا کر رھے ھیں آپ"۔ ان بہن بھائی کو سمجھ نہیں آئی کہ انکی امی کو کہاں لے کر جایا جا رھا ھے۔ "انکا آدھ گھنٹے میں آپریشن ھے۔ آپریشن تھیڑ لے کر جا رھے ھیں۔" ان میں سے ایک کمپوڈر بولا۔
"مگر ھم نے ابھی فیس جمع نہیں کرائی ۔ آپریشن کیسے ھو سکتا ھے" بھائی نے استفسار کیا۔
" انکی فیس جمع ھو گئی ھے۔" اسی کمپوڈر نے بے نیازی سے جواب دیا۔ اور وہ بہن بھائی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ " دیکھیں انکا نام راحیلہ امجد ھے۔ انکی فیس ابھی جمع نہیں ھوئیں۔ آپکو کوئی غلط فہمی ھوئی ھے"۔ اس بار بہن نے تفصیل سے بات بتائی۔
"جی راحیلہ امجد انکا بائی پاس ھے۔ کل یہ ایڈمیٹ ھوئیں تھیں۔ انھی کی فیس جمع ھوئیں ھے۔ مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ھوئیں۔ آپ پلیز جانے دیں ڈاکڑ صاحب خفا ھو گے۔ " اس کمپوڈر نے تفصیل سے ساری بات بتائی اور انھیں راستے سے ھٹاتے ھوئے انکی بیڈ کو آپریشن تھیڑ کی طرف لے کر جانے لگا۔ مس راحیلہ سو رھی تھیں۔ انھیں اس سب کی کوئی خبر نہ تھی۔
" سسڑ آپکے کمپوڈرز کو کوئی غلط فہمی ھوئی ھے۔ ھماری مدر کی فیس ابھی ھم جمع نہیں کرا سکے۔ تو آپریشن کیسے ھو سکتا ھے۔ " بھائی اس نرس کے پاس گیا جو پہلے تین دفع انکے پاس آئی تھی اور پوچھنے لگا۔ " جی انکی فیس تھوڑی دیر پہلے جمع ھو گئی ھے۔ آپ پریشان نہ ھوں۔" نرس نے اپنے پیپرز ٹھیک کرتے ھوئے بتایا۔
"لیکن کس نے کرائی۔" وہ دونوں حیران پریشان ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ نرس آپریشن تھیڑ کی طرف جانے لگی تو بہن نے اسے روک کر دوبارہ پوچھا۔
" پلیز بتائیں کس نے کرائی ھے۔" بہن اسکے آگے آ گئ۔
"جی ھمیں سختی سے منع کیا گیا ھے کہ کسی کو مت بتایا جائے۔ پلیز آپ مجھے جانے دیں"۔ نرس نے بہن کو ھاتھ سے پیچھے کیا اور آگے بڑھ گئ۔
اب وہ دونوں آپریشن تھیڑ کے باھر کھڑے تھے۔ انھیں فل حال اپنی امّی کے آپریشن کی زیادہ فکر تھی۔ فیس کس نے دی یہ تو بعد میں پتا لگ سکتا تھا۔ کچھ دیر بعد سرجن صاحب باھر آئے اور بتایا کہ ان کی مدر کا آپریشن کامیاب ھو گیا ھے۔ آج کا دن وہ under observation رھے گی پھر انھیں روم میں شفٹ کر دیں گے۔ ان دونوں نے الله کا شکر ادا کیا کہ آپریشن ٹھیک ھو گیا ھے۔ جتنے دن مس راحیلہ ھسپتال رھی انکے بیٹے نے ھر ممکن کوشش کر ڈالی یہ جاننے کی کہ انکی مدر کی فیس کس نے ادا کی ھے۔ مگر کچھ پتا نہ چل سکا۔ یہ بات اس نے مس راحیلہ کو بھی بتائی وہ بھی حیران تھی کہ کون ایسا ھے جو اتنا بڑا احسان بھی کر رھا ھے مگر سامنے بھی نہیں آ رھا۔ آج مس راحیلہ کو فارغ کردیا گیا تھا۔ ان کا بیٹا ھسپتال کے واجبات ادا کرنے گیا تو اسے پتا چلا کہ وہ پہلے ھی ادا ھو چکے ھیں اور جواب پہلے والا ھی تھا کہ نہیں بتا سکتے کس نے کیے ھیں۔ اس نے یہ بات جاکر مس راحیلہ کو بتائی وہ سب حیران پریشان تھے کہ وہ کون ھے۔ انھیں بالکل سمجھ نہیں آرھا تھا۔ خیر وہ سامان اٹھا کر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ انھیں اندازہ تھا کہ اتنے دنوں سے اصرار کر رھے ھیں کسی نے کچھ نہیں بتایا تو اب کیا بتائیں گے۔
سب سامان گاڑی میں رکھ کر گاڑی میں بیٹھتے ھوئے مس راحیلہ کی نظر ھسپتال کے اوپر لکھے ھوئے بڑے سے بورڈ پر پڑی اور وہ جیسے اپنی جگہ پر جامد ھو گئ ھوں۔ بورڈ پہ لکھا تھا ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکڑ اسد زکاء۔ یہ نام پڑتے ھی نجانے کتنے سال مس راحیلہ کے دماغ میں لمحے کا سفر طے کر گئے۔ انھوں نے اپنے بیٹے سے اصرار کیا کہ انھیں ڈاکڑ اسد زکاء سے ملنا ھے۔ انکا بیٹا انھیں واپس ھسپتال کے اندر لے گیا۔وھاں کچھ اصرار کے بعد نرس نے ڈاکڑ اسد زکاء سے بات کی۔ ڈاکڑ نے انھیں الگ کمرے میں بٹھانے کو کہا اور کہا کہ وہ تھوڑی دیر میں آتے ھیں۔ وہ تینوں ماں بیٹا اور بیٹی اس کمرے میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگے۔
تقریبًا پانچ منٹ گزرے ھوں گے کہ دروازہ کھلا ایک انتہائی شاندار شخصیت کا مالک شخص کمرے میں داخل ھوا۔ اور مس راحیلہ کے پاس آکر اس نے انتہائی ادب سے سلام کیا۔
" یہ کلاس فور میں میرے سٹوڈنٹ تھے۔ " مس راحیلہ نے اپنے بیٹا اور بیٹی کو فخریہ انداز میں بتایا۔
"بیٹا مجھ پہ اتنا بڑا احسان کر کے تم منظر سے غائب کیوں رھنا چاھتے تھے۔ " اس بار وہ ڈاکڑ اسد سے مخاطب تھیں۔ جو سر جھکائے انتہائی ادب سے کھڑا تھا۔
"میم پہلے تو آپ سب بیٹھیں آرام سے بات کرتے ھیں۔ اس نے مس راحیلہ کے بچوں کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ سب بیٹھ گئے۔ اور اب ڈاکڑ اسد نے بولنا شروع کیا۔
" پہلے تو آپکی امی نےمیرا تعارف نامکمل کرایا ھے۔ میں انکا کلاس فور کا وہ سٹوڈنٹ ھوں جسے یہ کلاس ٹین تک لنچ بکس بنا کر دیتی رھی ھیں۔ " ڈاکڑ اسد نے یہ بات کی تو مس راحیلہ حیرانگی سے اسکا منہ دیکھنے لگی۔ یعنی وہ جانتا تھا کہ وہ لنچ بکس مس راحیلہ بنا کر دیتی تھیں۔ وہ بے ساختہ بول پڑیں۔
" آپ جانتے تھے مگر کیسے"۔ وہ حیران پریشان اسکا منہ دیکھ رھی تھی۔ ڈاکڑ اسد ہلکا سا مسکرایا اور بولا
" میم کلاس ون میں میں نے لنچ کرنا چھوڑا تھا۔ کلاس ون سے لیکر آپکی کلاس تک کبھی کسی ٹیچر نے پوچھا ھی نہیں تھا کہ آپ لنچ کیوں نہیں کر رھے۔ اس دن آپ نے پوچھا اور اگلے دن لنچ آ گیا۔ میم بات یہ ھے کہ ھماری کلاس کے بچوں کو لوگ اور حالات بڑی جلدی سمجھ آ جاتے ھیں۔ اور میں بھی سمجھ گیا تھا۔ جب پہلے دن لنچ آیا تھا نا میم اس دن تو غضب کی بھوک لگی ھوئی تھی۔ اس دن تو رھا ھی نہیں گیا۔ پھر گھر ساری رات سوچتا رھا کہ آپکو کیسے منع کروں۔ پھر طے کیا کہ میں بڑا ھو کر آپکو سارے پیسے واپس کر دوں گا۔ جتنے پیسے آپ نے میرے لنچ پہ لگائے ھوں گئے۔ اور پتا ھے میم پہلے دن سے لیکر آخری دن تک کے لنچ کا حساب آج بھی میرے پاس لکھا ھوا ھے۔ نوے ھزار چھ سو اسی روپے۔ " وہ یہ رقم بول کر ایک بار مسکرایا اور پھر بولنے لگا۔ " آپ جو بھی لنچ میں دیتی تھیں بیکری سے گزرتے ھوئے اسکی قیمت پوچھ کر رف اندازہ لگایا کرتا تھا کہ اتنے کا ھو گا میرا لنچ اور گھر جا کر نوٹ کر لیتا تھا تاریخ کے ساتھ آج بھی وہ ڈائری میرے پاس ھے۔ مگر جوں جوں وقت گزرا تو احساس ھوا کہ شاید ساری دنیا کی دولت دے کر بھی میں اس لنچ کے پیسے نہ چکا پاؤں گا۔ کیونکہ اس لنچ کی قیمت نوے ھزار چھ سو اسی روپے نہیں بلکہ وہ خلوص تھا جس سے آپ وہ لنچ بنایا کرتی تھیں۔ بس اسکے بعد میں نے کبھی اس لنچ بکس کی قیمت چکانے کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا تھا۔ ھاں دعا کرتا تھا کبھی کوئی ایسا موقع آئے کہ میں بھی آپکے کسی کام آ سکوں۔ اور اپنے بچوں کو کہا ھوا ھے اگر آپکی کلاس میں کوئی ایسا بچہ ھو جو لنچ نہ لاتا ھو تو مجھے ضرور بتانا۔ اس دن جب آپکو دیکھا تو فوراً پہچان گیا۔ جب نرس نے بتایا کہ آپکی فیس جمع نہیں ھوئی تو لگا الله نے میری دعا سن لی۔ سامنے اس لیے نہیں آیا کہ آپ نے بھی تو گیٹ کیپر کو منع کیا تھا کہ مجھےکبھی نہ بتائے کہ کون لنچ بکس دیتا ھے۔" اب وہ مس راحیلہ کی طرف دیکھ کر مسکرا رھا تھا۔
مس راحیلہ اسکی ساری باتیں بہت گم ھو کر سن رھی تھیں۔ جب وہ چپ ھوا تو بڑی ٹھنڈی آہ بھر کر بولیں
" تو اس لیے تم چھٹی کے وقت وہ لنچ بکس گیٹ کیپر کو دے دیا کرتے تھے۔ " وہ کچھ سوچتے ھوئے بولیں۔ اور ڈاکڑ اسد زکاء نے انکی بات سن کر مسکرا کر سر جھکا دیا۔ مس راحیلہ اسے ڈھیروں دعائیں دے کر اپنے بیٹا بیٹی کے ساتھ چلیں گئیں۔ آج ڈاکڑ اسد زکاء بہت مطمئن محسوس کر رھا تھا۔
میری اس پوسٹ کا مقصد یہ ھے کہ اپنے بچوں کو شیئر کرنا سکھائیں۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی کلاس کے ایسے بچے کا مذاق اڑائیں جس کے پاس ان جیسا لنچ نہیں ھے وہ اس کے ساتھ شیئر کریں۔ ھمارے بڑے جب کہتے ھیں تو مجھے اور آپکو برا لگتا ھے۔ مگر یہ سچ ھے کہ جیسے جیسے ھمارے گھر بڑے ھو رھے ھیں ھمارے دل چھوٹے ھوتے جا رھے ھیں۔ قاسم علی شاہ صاحب کے ایک لیکچر میں مَیں نے سنا تھا کہ اپنے بچے کو ایکسڑا لنچ بکس دے کر تو دیکھو اسکی شخصیت میں کتنا نکھار آتا ھے۔ مجھے بھی یہی لگتا ھے جس دن ھمارے بچے لنچ شیئر کرنا سیکھ لیں گے۔ ھمارا ملک ترقی کرنے لگ جائے گا۔ کیونکہ ھمارا المیّہ ھی یہی ھے کہ ھم کسی دوسرے کو اپنے جیسا یا اپنے سے بہتر کھاتے نہیں دیکھ سکتے۔ پھر آگے نکلنے کی دوڑ میں ھم ایسا پڑتے ھیں کہ پھر ھمیں صحیح غلط کا فرق محسوس ھونا بند ھو جاتا ھے۔ اور احساس تب ھوتا ھے جب بہت دیر ھو چکی ھوتی ھے۔ تو اپنے بچے کو لنچ شیئر کرنا ضرور سکھائیں۔
دوسرا یہ کہ الله آپکی نیکی کا صلہ ضرور دیتا ھے جلد یا با دیر نیکی کا صلہ ضرور ملتا ھے۔ الله ھمارے لیے آسانیاں پیدا کرے اور ھمیں آسانیاں بانٹنے کی توفیق دے۔ امین

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews