بیت اللہ محسود کا دور تھا.....
بقول بیت اللہ محسود کے ، فوج کبھی بھی ان علاقوں میں نہیں آسکتی۔۔۔۔!
سوات وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقے اب طالبانوں کے مظبوط مرکز بن چکے تھے۔۔
پھر ایک خطرناک دور شروع ہوا ، شریعت کے نام پر طالبانوں نے مختلف علاقوں میں اپنے امیر بٹھا دئیے، سکولوں کو بند کر کے اسلحہ ساز کارخانوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ تعلیم حاصل کرنا جرم کرنے کے برابر ٹھرا ۔۔ اسلام کا نام استعمال کر کے مخالفین کو ذبیح کرنا معمول بن گیا تھا۔ دہشتگرد زبردستی لوگوں کی بیٹیوں سے نکاح کرتے ، یاد رھیے انکار کی سزا موت تھی ۔
طالبانوں کے خلاف جب نفرت بڑی تو ایک خوفناک طریقہ اپنایا گیا۔ دہشتگرد جسے چاہتے گولی مار کر لاش سڑک پر پھینک دیتے ، بازاروں میں لٹکتی لاشیں اب معمول بن چکی تھیں ۔ غضب کی بات یہ ہے کہ اب لاشوں کے ساتھ ایک چٹ بھی لکھی جاتی جس پر علاقے کے امیر کا حکم درج ہوتا کہ یہ لاش چار دن یا پانج دن بعد سڑک سے اٹھائی جائے ۔ جو مقررہ دن سے پہلے لاش اٹھاتا اگلے دن اس کی لاش بھی پڑی ہوتی ہے۔
اس دور میں سوات کا گرین چوک لاشوں کے حوالے سے بہت مشہور ہوا ، جسے لوگ بعد میں خونی چوک کہنے لگے۔ دہشتگردوں کی ایک مخصوص گاڑی ہوتی تھی جو جس کو ایک دفعہ اٹھا لیتی پھر اس کی لاش گرین چوک میں ہی لٹکتی ملتی۔ آپ ذرہ ایک لمحے کے لیے تصور کیجئے آپ سوات کے گرین چوک پر کھڑے ہیں ، ۔ آپ کے گھر کے کسی فرد کی لاش آپ کے سامنے لٹک رہی ہے۔
لاش کے ساتھ چپکی چٹ پر لکھا ہے کہ اس کافر کی لاش کو پانچ دن تک ہاتھ تک نہ لگایا جائے۔۔۔
ذرہ تصور کیجئے کتنا دردناک لمحہ ہوتا ہے آپ کا اپنا بے گناہ مارا گیا ، آپ خوف کے مارے اس کی لاش کو بھی نہیں گھر لے جاسکتے ۔۔۔۔۔!!!
ذرہ سوچئیے یہ کیسی شریعت تھی جس میں لوگوں کی بیٹیوں کو گھروں سے اٹھا لانا جائز تھا؟؟؟
اب یہ دہشتگردی پورے پاکستان میں پھیل چکی تھی۔ مسجدوں ،مدرسوں سرکاری عمارتوں پر دھماکے معمول تھے۔ کے پی کے اور بلوچستان تو مکمل پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی دہشتگردی ملک کے وجود پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہی تھی۔
پھر حالات بدلے فوج ان دہشتگردوں کے خلاف لڑنے کے لیے میدان میں آئی ۔۔۔فوج نے اپنے پندرہ ہزار جوانوں کی قربانی دی ۔۔ ہزاروں فوجی عمر بھر کے لیے معذور ہوئے۔ پاک فوج کے جوانوں کو اغواہ کیا جاتا۔۔۔انکی لائیو ویڈیو بنائی جاتی۔۔۔۔۔۔ایک جوان کو سب باندھے ہوئے جوانوں کے سامنے چھری سے اللّه اکبر کہہ کر ذبح کیا جاتا۔۔۔۔وہ ذبح کئے ہوۓ جانور کی طرح خراٹے مارتا۔۔۔۔اسکا سر تن سے جدا کیا جاتا ۔۔۔۔۔پھر ناچتے ہوۓ اس کے سر سے فٹ بال کھیلا جاتا۔۔۔۔ذرا اپنے آپ کو ان جوانوں کی جگہ رکھ کر سوچیں۔۔۔۔۔کیا ایسے میں انکو بیوی بچوں کی یاد نہیں آئی ہو گی۔۔۔۔۔وہ جنگ جسے جیتنا محض خواب تھا، فوج نے وہ جنگ جیتی۔اپنی جانیں قربان کر کے۔۔۔۔۔۔۔
سوات کے خونی چوک کو دوبارہ امن چوک بنایا۔ وہ علاقے جہاں لٹکتی ہوئی لاشیں ملتی تھیں ، ان کو پرامن علاقہ بنایا۔ وزیرستان اور سوات کے علاقوں میں کیڈٹ کالج بنائے ۔ وہ سکول جو دہشتگردوں کے اسلحے کے کارخانے تھے ، دوبارہ تعلیمی مرکز بنائے ، تمام قبائلی علاقوں کو پرامن ماحول فراہم کیا۔۔
اب ایک دفعہ پھر کچھ لوگ جو عام لوگوں کے روپ میں انہی کے گماشتے ہیں مطالبہ کر رہے ہیں کہ چیک پوسٹیں ختم کی جائیں۔۔۔۔مسنگ پرسن واپس کیے جائیں۔۔۔۔ارے بھائی وہ جنکا رونا تم رو رہے ہو۔۔۔۔۔۔وہ فوج کے ساتھ جنگ کرتے ہوۓ اپنے انجام تک پہنچ چکے ہیں۔۔۔۔۔باقی افغانستان بھاگ گئے ہیں جاؤ انکو منا کر واپس لاؤ۔۔۔ ہمیں نہ آپس میں لڑواو ۔۔۔۔۔
انکے نام پر قومیت کا چورن نہ بیچو۔۔۔۔۔خدارا ہم پشتونوں پر رحم کرو ۔۔ ہم دوبارہ اپنے پیاروں کی لاشیں سڑکوں پر پڑی نہیں دیکھنا چاہتے ۔ہم نہیں چاہتے دوبارہ ہماری بیٹیوں کو جہاد کے نام پر گھروں سے اٹھا لیا جائے۔۔ اگر یہ چیک پوسٹیں ختم کر دی گئیں تو بارڈر کے پار افغانستان میں موجود درندے ہمیں نوچ ڈالیں گے ۔
بقلم : ایک پشتون
بقول بیت اللہ محسود کے ، فوج کبھی بھی ان علاقوں میں نہیں آسکتی۔۔۔۔!
سوات وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقے اب طالبانوں کے مظبوط مرکز بن چکے تھے۔۔
پھر ایک خطرناک دور شروع ہوا ، شریعت کے نام پر طالبانوں نے مختلف علاقوں میں اپنے امیر بٹھا دئیے، سکولوں کو بند کر کے اسلحہ ساز کارخانوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ تعلیم حاصل کرنا جرم کرنے کے برابر ٹھرا ۔۔ اسلام کا نام استعمال کر کے مخالفین کو ذبیح کرنا معمول بن گیا تھا۔ دہشتگرد زبردستی لوگوں کی بیٹیوں سے نکاح کرتے ، یاد رھیے انکار کی سزا موت تھی ۔
طالبانوں کے خلاف جب نفرت بڑی تو ایک خوفناک طریقہ اپنایا گیا۔ دہشتگرد جسے چاہتے گولی مار کر لاش سڑک پر پھینک دیتے ، بازاروں میں لٹکتی لاشیں اب معمول بن چکی تھیں ۔ غضب کی بات یہ ہے کہ اب لاشوں کے ساتھ ایک چٹ بھی لکھی جاتی جس پر علاقے کے امیر کا حکم درج ہوتا کہ یہ لاش چار دن یا پانج دن بعد سڑک سے اٹھائی جائے ۔ جو مقررہ دن سے پہلے لاش اٹھاتا اگلے دن اس کی لاش بھی پڑی ہوتی ہے۔
اس دور میں سوات کا گرین چوک لاشوں کے حوالے سے بہت مشہور ہوا ، جسے لوگ بعد میں خونی چوک کہنے لگے۔ دہشتگردوں کی ایک مخصوص گاڑی ہوتی تھی جو جس کو ایک دفعہ اٹھا لیتی پھر اس کی لاش گرین چوک میں ہی لٹکتی ملتی۔ آپ ذرہ ایک لمحے کے لیے تصور کیجئے آپ سوات کے گرین چوک پر کھڑے ہیں ، ۔ آپ کے گھر کے کسی فرد کی لاش آپ کے سامنے لٹک رہی ہے۔
لاش کے ساتھ چپکی چٹ پر لکھا ہے کہ اس کافر کی لاش کو پانچ دن تک ہاتھ تک نہ لگایا جائے۔۔۔
ذرہ تصور کیجئے کتنا دردناک لمحہ ہوتا ہے آپ کا اپنا بے گناہ مارا گیا ، آپ خوف کے مارے اس کی لاش کو بھی نہیں گھر لے جاسکتے ۔۔۔۔۔!!!
ذرہ سوچئیے یہ کیسی شریعت تھی جس میں لوگوں کی بیٹیوں کو گھروں سے اٹھا لانا جائز تھا؟؟؟
اب یہ دہشتگردی پورے پاکستان میں پھیل چکی تھی۔ مسجدوں ،مدرسوں سرکاری عمارتوں پر دھماکے معمول تھے۔ کے پی کے اور بلوچستان تو مکمل پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی دہشتگردی ملک کے وجود پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہی تھی۔
پھر حالات بدلے فوج ان دہشتگردوں کے خلاف لڑنے کے لیے میدان میں آئی ۔۔۔فوج نے اپنے پندرہ ہزار جوانوں کی قربانی دی ۔۔ ہزاروں فوجی عمر بھر کے لیے معذور ہوئے۔ پاک فوج کے جوانوں کو اغواہ کیا جاتا۔۔۔انکی لائیو ویڈیو بنائی جاتی۔۔۔۔۔۔ایک جوان کو سب باندھے ہوئے جوانوں کے سامنے چھری سے اللّه اکبر کہہ کر ذبح کیا جاتا۔۔۔۔وہ ذبح کئے ہوۓ جانور کی طرح خراٹے مارتا۔۔۔۔اسکا سر تن سے جدا کیا جاتا ۔۔۔۔۔پھر ناچتے ہوۓ اس کے سر سے فٹ بال کھیلا جاتا۔۔۔۔ذرا اپنے آپ کو ان جوانوں کی جگہ رکھ کر سوچیں۔۔۔۔۔کیا ایسے میں انکو بیوی بچوں کی یاد نہیں آئی ہو گی۔۔۔۔۔وہ جنگ جسے جیتنا محض خواب تھا، فوج نے وہ جنگ جیتی۔اپنی جانیں قربان کر کے۔۔۔۔۔۔۔
سوات کے خونی چوک کو دوبارہ امن چوک بنایا۔ وہ علاقے جہاں لٹکتی ہوئی لاشیں ملتی تھیں ، ان کو پرامن علاقہ بنایا۔ وزیرستان اور سوات کے علاقوں میں کیڈٹ کالج بنائے ۔ وہ سکول جو دہشتگردوں کے اسلحے کے کارخانے تھے ، دوبارہ تعلیمی مرکز بنائے ، تمام قبائلی علاقوں کو پرامن ماحول فراہم کیا۔۔
اب ایک دفعہ پھر کچھ لوگ جو عام لوگوں کے روپ میں انہی کے گماشتے ہیں مطالبہ کر رہے ہیں کہ چیک پوسٹیں ختم کی جائیں۔۔۔۔مسنگ پرسن واپس کیے جائیں۔۔۔۔ارے بھائی وہ جنکا رونا تم رو رہے ہو۔۔۔۔۔۔وہ فوج کے ساتھ جنگ کرتے ہوۓ اپنے انجام تک پہنچ چکے ہیں۔۔۔۔۔باقی افغانستان بھاگ گئے ہیں جاؤ انکو منا کر واپس لاؤ۔۔۔ ہمیں نہ آپس میں لڑواو ۔۔۔۔۔
انکے نام پر قومیت کا چورن نہ بیچو۔۔۔۔۔خدارا ہم پشتونوں پر رحم کرو ۔۔ ہم دوبارہ اپنے پیاروں کی لاشیں سڑکوں پر پڑی نہیں دیکھنا چاہتے ۔ہم نہیں چاہتے دوبارہ ہماری بیٹیوں کو جہاد کے نام پر گھروں سے اٹھا لیا جائے۔۔ اگر یہ چیک پوسٹیں ختم کر دی گئیں تو بارڈر کے پار افغانستان میں موجود درندے ہمیں نوچ ڈالیں گے ۔
بقلم : ایک پشتون
No comments:
Post a Comment