June 24, 2019

MARRIED LIFE & NAKAIL


#نکیل

اس کو عبید کے لئے لڑکی کی تلاش تھی ، برادری میں وہ اس لئے نہیں دیکھ رھی تھی کہ بیٹا باپ کی طرح قسائی ٹائپ تھا ،، ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا تھا ، اگر آپ نے سالن پہلے رکھ دیا اور روٹی میں دیر ھو گئ تو صاحب سالن کی پلیٹ دیوار پر مار دیتے تھے ، روٹی پہلے آ گئ مگر سالن میں دیر ھو گئ تو نواب صاحب روٹی اٹھا کر کتے کے آگے رکھ آتے تھے ، چائے ڈیمانڈ سے کم گرم ھوئی تو جب تک وہ پیالی توڑ نہ دیں غصہ ٹھنڈا نہیں ھوتا تھا۔
پوت کی یہ ادائیں دیکھ کر اس کو یقین تھا کہ کوئی لڑکی اس کے گھر میں چار دن نہیں نکالے گی لہذا برادری میں دشمنی بنانے کی بجائے غریبوں کی دو چار لڑکیاں اگر اجاڑ بھی دے گا تو کوئی خاص مسئلہ نہیں ھو گا نیز اس دوران کچھ نہ کچھ تو سدھر ھی جائے گا۔
آخر ایک سفید پوش گھرانے کی قربانی کی بکری ڈھونڈ ھی لی گئی۔ چونکہ لڑکے کا گھرانا پیسے والا بھی تھا اور بظاھر مہذب بھی نظر آتا تھا لہذا لڑکی والوں نے بھی زیادہ تحقیق و تفتیش کرنے کی بجائے جھٹ سے ہاں کر دی ، لڑکی شکل کی خوبصورت تھی موٹی آنکھیں ،گورا رنگ اور ستواں ناک جس کو باقاعدہ چھیدا گیا تھا سب کچھ مل ملا کر لڑکی کے لئے اس گھر میں گنجائش بناتا تھا۔
کچھ عرصے بعد شادی ھو گئی ، شادی دھوم دھام کی بجائے سادگی سے کی گئی تھی کیونکہ خود لڑکے والے ھی اس کو لو پروفائل پہ رکھنا چاھتے تھے تا کہ اگر طلاق بھی ھو تو اتنا شہرہ نہ ھو۔ لڑکی والے ویسے بھی غریب تھے وہ اس بات کو لڑکے والوں کی دینداری سمجھ کر ان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کے لئے گڑھا کھودا جا رھا ہے ـ
رخصتی کے بعد لڑکی کو جب حجلہ عروسی میں بھیجا گیا تو ماں کا دل دھک دھک کر رھا تھا کہ کہیں سالن کی پلیٹ کر طرح لڑکی پہلی رات ھی باھر نہ پھینک دی جائے مگر سیانے کہتے ہیں کہ جس کا کوئی نہیں ھوتا اس کا خدا ھوتا ھے ، اور بندے کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان جوتا ہے وہ جدھر چاھے پلٹ دیتا ھے۔
عبید نے جونہی گھونگھٹ اٹھایا تو اس نے ایک سادہ سی نتھ کو لڑکی کی ناک سے کان کی طرف جاتے دیکھا۔ پتہ نہیں اس میں کیا راز تھا کہ عبید کی نظر لڑکی کی ناک پر جم کر رہ گئی گویا کسی نے اس کو ہپناٹائز کر کے رکھ دیا ھو ، اس کے اندر بےبسی کی اس ایک رمز سے کئ شرحیں لکھی جا رھی تھیں۔ یہ کون ھے ، کیوں اس نے اپنی ھستی کو اس نتھ میں پرو کر اپنا آپ میرے حوالے کر دیا ھے۔ یہ بےبسی کی کونسی قسم ھے کہ اپنی نکیل خود کسی کے ہاتھ میں پکڑا کر اپنی خوشی سے بےبس ھو جاؤ۔۔۔۔۔کیا میں اس بےبسی کو سنبھال بھی سکوں گا؟؟ اس کی قدر کر سکوں گا ؟؟؟؟ دلہن خاموش بیٹھی تھی مگر ٹکٹکی لگائے عبید سے اس کو ڈر لگنے لگا تھا۔ رات گزری تو اگلی صبح حجلہ عروسی سے ایک نیا عبید پیدا ھوا۔
وہ بہنوں سے ناشتہ بنوا کر خود اٹھا کر دلہن کے پاس لایا۔ وہ اس کو یوں لقمے توڑ توڑ کر دے رھا تھا جیسے وہ کوئی چھوٹی سے بچی ھو۔

ماں اور بہنیں ہکا بکا رہ گئیں۔ وہ ایک دوسرے کو کہنیاں مار کر آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھ رھی تھیں کہ اس کو کیا ھو گیا ھے ؟ ھر آنے والا دن ان کی محبت میں اضافے کی نوید لاتا۔
آخر ایک دن ماں نے عبید کو اپنے کمرے میں بلا لیا ،، ماں کو شک تھا کہ لڑکی نے کوئی تعویذ کر دیا ھے اور لڑکا ہاتھ سے نکلا جا رھے اور بس دلہن کا طواف ھی کرتا رھتا ھے اس کو سمجھایا جائے کہ وہ اپنے سلوک میں اعتدال رکھے وغیرہ وغیرہ۔
ماں نے پوچھا "عبید دلہن کیسی ھے؟"
"ٹھیک ھے مما ، بہت اچھی ھے بلکہ بہت ھی اچھی ، شاید اس کو اللہ نے میرے لئے بنایا ھے۔" عبید ماں کی طرف دیکھے بغیر نارمل بات کر رھا تھا جبکہ دوسری جانب ماں کی آنکھیں دائرے میں گھومنا شروع ھو گئ تھی۔ وہ بھڑک کر بولیں "میں نے تمہیں بیوی کا نوری نامہ سنانے کے لئے نہیں بلایا بلکہ یہ سمجھانے کے لئے بلایا ھے کہ وہ تیری بیوی ھے اور تو اس کا شوھر ھے ، اپنے وقار کا خیال رکھ اور مرد بن کر رہ ، جس طرح تو ماں اور بہنوں میں مرد بن کر رہ رھا تھا اور سب کا خون خشک کر کے رکھا ھوا تھا ، اب اس نے تمہیں کیا کھلا دیا ھے جو ادب و آداب کے زمزمے بہنے لگے ہیں تجھ میں؟ پچھلے تین ہفتے سے ایک برتن نہیں ٹوٹا ، نہ کوئی پلیٹ اڑتی ھوئی صحن میں جا کر گری ، آخر میری تربیت میں وہ کونسی کمی تھی جو اس لڑکی نے پوری کر کے تمہیں اشفاق احمد بنا دیا ھے ؟"
عبید چونک گیا "مما کیا ھو گیا ھے آپ کو ؟ اس بیچاری نے تو کچھ بھی نہیں کہا ، مما پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے ، میں جب اس کی ناک کی نکیل کو دیکھتا ھوں تو لگتا ھے ایک معصوم سی بچھڑی ھے جس نے نہایت تابعداری کے ساتھ اپنی نکیل میرے ہاتھ میں پکڑا دی ھے ، مما میں نے بےبسی کا یہ حقیقی منظر پہلی دفعہ دیکھا ھے ، اس کے بعد میں اب کیا کر سکتا ھوں۔۔۔۔۔۔مما میں نے بہت پہلے جمعے کے خطبے میں ایک حدیث سنی تھی کہ کریم جب قابو پا لیتا ھے تو معاف کر دیتا ھے ۔ مما اس نے پہلے ھی دن اپنی نکیل میرے ہاتھ میں دے دی تھی ، خود کو میرے قابو میں دے دیا تھا ، بس وہ حدیث رہ رہ کے مجھے یاد آ رھی تھی کہ اب اللہ نے تجھے اس پر قابو دے دیا ھے تو اس کو معاف کرتے ھی رھنا ھے ،، یہ کہہ کر عبید آہستہ سے اٹھ کر باھر نکل آیا جبکہ ماں سکتے میں بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی۔
سیمیں کو پتہ بھی نہیں چلا تھا کہ اس کی سہیلی کے دیئے گئے اس تحفے نے کتنا بڑا دیو اس کے قابو میں کر دیا تھا جس کو پیدا کرنے والی بھی سنبھالنے سے عاجز تھی ـ

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews