June 18, 2019

How To Create JS 17 Thunder Air Craft



آسمانی بجلی *' جے ایف تھنڈر '* کی کہانی
ائیر مارشل ریٹائرڈ شاہد لطیف کی زبانی
*"پاکستان نے تین برس میں جے ایف 17 بنا کر تاریخ رقم کی"*
ائیر چیف مارشل شاہد لطیف
انٹرویو : احسان کوہاٹی
’’میں نے اپنے 'بے بی' کو دشمن کا لحاظ کرنا سکھایا ہی نہیں ہے، اسے ایسے گر سکھائے ہیں کہ سامنے آنے والے کو کاک پٹ میں لگ پتہ جائے کہ سامنا کس سے ہوا ہے ‘‘
ائیر مارشل ریٹائرڈ شاہد لطیف کے لبوں پر وہی فاتحانہ مسکراہٹ تھی جو اکھاڑے میں مدمقابل کو دھول چٹانے والے پہلوان کے لبوں کا خاصہ ہوتی ہے۔
اس مسکراہٹ کا ماخد ان کے آراستہ مہمان خانے میں راقم کا ستائیس فروری کے معرکہ ء کشمیر کے تناظر میں کہا گیا یہ جملہ تھا کہ
'سر آپکے ’’بے بی‘‘ نے پڑوس کے بزرگ مگ اکیس کا ذرا بھی لحاظ نہ کیا۔'
ساہیوال کے ایک متوسط اور غیر فوجی گھرانے میں آنکھ کھولنے والے شاہد لطیف نے اپریل 1974ء میں پاک فضائیہ میں بحیثیت لڑاکا ہوا باز کمیشن اس طرح حاصل کیا کہ پاسنگ آؤٹ پریڈ میں بہترین کیڈٹ کی اعزازی شمشیر ان کے ہاتھ میں تھی،
وہ رسالپور اکیڈمی میں بہترین کیڈٹ پائلٹ ثابت ہوئے تھے ، پھربعد میں پاک فضائیہ کے قابل فخر پائلٹ رہے اور شاندار کیرئیر کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتے کرتے ائیر مارشل کے عہدے تک پہنچے۔
وہ پاک فضائیہ کے نائب سربراہ بھی رہے یہ ان چھ پاکستانی پائلٹوں میں سے بھی ہیں جنہیں ایف سولہ کی تربیت کے لئے امریکہ بھیجا گیا اور جو ایک سال کی تربیت پانچ ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل کر کے ایف سولہ اڑا کر لے کر آئے تھے۔
ائیر مارشل کا سب سے بڑا کارنامہ جے ایف تھنڈر کی تیاری ہے ۔
یہ اس پروجیکٹ کے پہلے چیف ڈائریکٹر بھی تھے اور اسی لئے یہ اس طیارے کو پیار سے اپنا بے بی بھی کہتے ہیں۔
انکے اس ’’بے بی‘‘ کی کہانی انہی کی زبانی سنتے ہیں :
یہ انیس سو نوے کی بات ہے جب امریکہ نے پریسلر ترمیم کے تحت ہم پر پابندیاں لگا دیں ۔ افغان جنگ تک تو وہ ہماری دفاعی ضروریات مجبورا پوری کر رہا تھا، اس نے ہمیں ایف سولہ بھی دیئے اور انکی کی مرمت و پرزہ جات کی فراہمی کی ذمہ داری بھی پوری کرتا رہا اور یہ ذمہ داری اس وقت تک نبھاتا رہا جب تک افغانستان میں اسے ہماری ضرورت رہی ۔
جب پاکستان کی مدد سے افغانوں نے روس کو نکال باہر کیا تو امریکہ نے بھی ماتھے پر آنکھیں رکھ لیں ،
یہ اسکی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے کہ دوست اور دشمن نہیں مفاد مستقل ہوتا ہے، وقت پڑنے پرمفاد کے لئے دوست بھی بدلے جاسکتے ہیں اور دشمن کو بھی گلے لگایا جاسکتا ہے۔
پریسلر ترمیم کی پابندیوں کا جواز یہ بنایا گیا کہ ہمارا صدر اب آپکے ایٹمی پروگرام کو دنیا کے لئے محفوظ نہیں سمجھتا، وہ سرٹیفکٹ دستخط نہیں کر رہا تو ہم اب فوجی امداد نہیں دیں گے۔
پابندیاں لگیں تو پاک فضائیہ کا سخت وقت شروع ہو گیا، پاکستان میں طیارہ سازی کی کوئی صنعت نہیں تھی۔ ہم جہاز تو کیا جہاز کا کاک پٹ بھی نہیں بناتے تھے ، امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتے تھے ، حالت یہ ہو گئی کہ ایف سولہ اڑانا مشکل ہو گیا ۔
پائلٹس کو ہر دم تیار رہنے کے لئے ماہانہ کچھ flying hourss درکار ہوتے ہیں ، نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہمارے پائلٹ وہ لازمی اڑان کے گھنٹے بھی پورے کرنے سے رہ گئے۔
یہ وہ وقت تھا جب ہم نے سوچا کہ اگر کبھی بھارت سے جنگ چھڑ گئی تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔۔۔ تب ہم نے اپنے قدموں پر کھڑے ہونا کا ارادہ کیا کہ ہم کب تک دوسروں کے دست نگر رہیں گے، اس پر غور ہوتا رہا ، ٹاپ لیول پر بات ہوتی رہی پھر 1999ء میں چین سے معاہدے پر دستخط بھی ہوگئے اور ابتدائی کام بھی شروع ہو گیا۔
معاہدے کے تحت ہم ایف سیون کو اپ گریڈ کر کے سپر سیون بنانا چاہتے تھے،
ایف سیون دراصل روسی طیارہ مگ اکیس ہی ہے، اسے چین نے کاپی کر کے ایف سیون کردیا تھا اور ہم اسے ’’سپر سیون‘‘ بنانا چاہتے تھے۔
یہ لڑاکا طیارہ چین میں پاکستان کی معاونت سے تیار ہونا تھا اور یہ کیسے ہونا تھا میں اسوقت اس سے تقریبا لاعلم تھا، بس یہ پتہ تھا کہ پاکستان ائیر فورس مشکل وقت سے گزر رہی ہے پائلٹس کے لئے flying hours پورے کرنا مشکل ہو رہے ہیں ، اس وقت ہمارے پاس ایف سولہ کو چھوڑ کر دیگر جتنے بھی جہاز تھے بڑے پرانے تھے۔
سچی بات ہے یہ جہاز دوست ممالک نے گراؤنڈ کر دیئے تھے، سمجھ لیں کہ کباڑ میں ڈال دیئے تھے اور ہم انہیں یہاں لا کر نئے سرے سے مرمت کر کے اڑنے کے قابل بناتے تھے ، یہ ہمار ے انجنیئرز کا ہنر اور پائلٹس کا کمال تھا جو انہیں اڑاتے تھے۔
ائیر فورس پر وہ واقعی کڑا وقت تھا اور اس مشکل وقت میں، میں بحیثیت ائیر کموڈور کامرہ بیس کی کمان کر رہا تھا۔
بحیثیت بیس کمانڈر ہر افسر کو دو سال پورے کرنے ہوتے ہیں۔
یہ 2001ء کی بات ہے ائیر مارشل مصحف علی میر نے ائیر فورس کی تازہ تازہ کمان سنبھالی تھی، یہ میرے فلائینگ انسٹرکٹر بھی رہ چکے تھے اور میں ان کے شاگردوں میں واحد فائٹر تھا جس نے اعزازی شمشیر حاصل کی تھی۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ گھر کے بچھڑے کے کوئی دانت نہیں گنتا تو یہ مجھ سے بحیثیت استاد خوب واقف تھے۔
انہیں فورس کی کمان سنبھالے دو تین ماہ ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک دن فون کی گھنٹی بجی، میں نے کال وصول کی دوسری جانب سے بتایا گیا کہ ائیر چیف آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں ۔
میں توچونک گیا اور ساتھ ہی کچھ پریشان بھی ہواکہ اللہ خیر کرے کچھ غلط نہ ہوگیا ہو دوسری طرف سے ائیر چیف لائن پرآئے اور حال احوال پوچھ کر کہنے لگے
’’شاہد یہ بتاؤ ،تمہارا سال کب پورا ہو رہا ہے‘‘
میں نے انہیں بتا دیا کہ سر فلاں تاریخ کو بحیثیت بیس کمانڈر مجھے دو سال ہو جائیں گے ، یہ سن کر کہنے لگے
’’میں تمہیں سال پورے ہونے کے بعد ایک دن بھی نہ رکنے دوں گا‘‘
یہ کہہ کر وہ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر ائیر چیف صاحب کہنے لگے
’’میں تمہیں تب سے جانتا ہوں جب تم فلائٹ کیڈٹ شاہد لطیف تھے ، اب تم ائیر کموڈور اور میں ائیر چیف ہوں کیا میں تم پر اعتماد کر سکتا ہوں ؟‘‘
میں نے کہا ’’حکم کریں سر میں آپکے اعتماد پر پورا اتروں گا‘‘
جس پر انکی آواز آئی
’’میں تمہیں سپر سیون کا پروجیکٹ ڈائریکٹر بنانا چاہتا ہوں ، کیا تم مجھے ایف سولہ بنا کر دے سکتے ہو، مجھے ایف سولہ سے کم نہیں چاہئے؟‘‘
میں نے کہا سر آپ کو ایف سولہ سے کم نہیں چاہئے تو ایک ایف سولہ کا پائلٹ ایف سولہ سے کم پر راضی بھی نہیں ہوگا، آپ نے ایسا سوچ ہی لیا ہے تو میں آپ کے اعتماد پر پورا اتروں گا‘‘
اس پر ائیر چیف کہنے لگے
’’دیکھو شاہد! تم اسی کے ساتھ تیرو گے بھی اور اسی کے ساتھ ڈوبو گے،
یہ بنا لو گے تو تیر جاؤگے اور بہت آگے جاؤ گے میں تمہیں جہاں تک لے جا سکا لے جاؤں گا اور اگر ناکام ہوئے تو ڈوب جاؤ گے ، پھر بچنا مشکل ہے ۔
دوسری بات یہ کہ میرا ائیر کرافٹ مینوفیکچرنگ کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان میں کوئی جانتا ہے ،
یہ تو چینی ہی ہیں جو سب کرتے ہیں۔ میں تمہاری کسی غلطی کی نشاندہی کر سکوں گا اور نہ ہی کچھ بتا سکوں گا ، سب کچھ تم نے ہی کرنا ہے ،over to you‘‘۔
یہ ائیر چیف صاحب کی مختصر بریفنگ تھی جس پر وہ آخر دم تک قائم رہے۔
میں نے پروجیکٹ شروع کیا اور انہیں بریفنگ دینے گیا تو وہ کہنے لگے: مجھے بریف مت کرو، مجھے نتیجہ چاہئے نتیجہ‘‘۔
انہوں نے مجھ پر اندھا اعتماد کیا، سب کچھ مجھ پر چھوڑ دیا۔
میں نے چیف پروجیکٹ بنتے ہی سپر سیون کی ڈرائنگ اٹھا کر باہر پھینک دی اور کہا سپر سیون نہیں، نیا جہاز بنانا ہے ۔
میرا ایف سوالہ سے پرانا ساتھ تھا میں اس مشین کو بہت اچھی طرح جانتا تھا، میں ویسا نہیں ، اس سے بھی بہتر جہاز بنانا چاہتا تھا ، یہی مجھے ٹاسک دیا گیا تھا ۔
ہم نے یہ پروجیکٹ ڈرائنگ بورڈ سے شروع کیا، ہم نے چینیوں کے ساتھ مل کر جہاز کا نقشہ بنایا،
میں ان کی راہنمائی کرتا رہا جسکے مطابق جہاز کی ڈرائنگ بننی شروع ہوئی اور پھر دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہونے چلا کہ ایک باقاعدہ لڑاکا فضائی فورس نے ایک کمرشل کمپنی "چینگ دو ائیر کرافٹ انڈسٹری گروپ" کے ساتھ مل کر جنگی طیارہ بنانا شروع کردیا.
دنیا میں امریکی، اسرائیلی ، انگلش ائیر فورس سمیت کوئی بھی فورس خود طیارے نہیں بناتی،
وہ صرف اپنی ضروریات بتاتے ہیں کہ ہمیں یہ چیز چاہئے اور اس ملک کے ادارے انہیں وہ چیز بنا کر دیتے ہیں، لیکن یہاں معاملہ ہی الٹ تھا، ہم خود جہاز بنانے جا رہے تھے اور جن سے بنوا رہے تھے ان کے پاس بھی ایسا تجربہ نہ تھا۔
یہ الگ بات ہے کہ چین جہاز بناتا تھا لیکن وہ دراصل کاپی ہوتے تھے ، یہاں میرا واسطہ چین کے ایک کمرشل ادارے کے ہنر مندوں سے تھا، بڑا ہی مشکل کام تھا، میں طیارے کے معیار کی بات کرتا اور وہ کمرشل بات کرتے، وہ کہتے کہ تم کر کیا رہے ہو؟ گاڑی چل پڑی ہے تو بس چلنے دو روکنے سے ہمیں نقصان ہے۔۔۔ اور میں انہیں کہتا یہ چیز ٹھیک نہیں ہے اسے ٹھیک کرو، اسے بہتر بناؤ۔۔!
دراصل مسئلہ یہ تھا کہ چین کے پاس بھی وہ ٹیکنالوجی نہیں تھی، میں ایک طرح سے ان کا کام بڑھا دیتا تھا ، جس سے انہیں ناخوش ہی ہونا چاہئے تھا۔
ہم ہر تین ماہ بعد چین جاتے ، پروجیکٹ کا معائنہ کرتے اور اس دورے میں اکثر ہی تلخ کلامی ہوجاتی۔
پھر میں نے چینیوں کی نفسیات پڑھنا شروع کی، ان کے بارے میں مطالعہ کیا کہ یہ کیسے لوگ ہیں ان کی اقدار کیا ہیں،
یہ مطالعہ میرے بہت کام آیا ، میں ان کے ساتھ گھل مل گیا، میں ان کی فیکٹری میں جاتا تو وہیں ان کے ورکروں کے ساتھ بیٹھ جاتا، ایسا بھی ہوا کہ رات ہوئی اور میں نے وہیں فیکٹری میں بستر لگا لیا ۔
میرا ہدف تھا کہ تین سال میں یہ جہاز آسمان پر اڑتا دکھائی دے، یہ بظاہر ناممکن تھا۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ڈیزائننگ سے فلائنگ تک ایسے پروجیکٹ دس سے پندرہ سال لے لیتے ہیں اور ہم یہ کام تین سالوں میں کرنے چلے تھے۔
پھر ہمارے خلاف پروپیگنڈہ بھی شروع کر دیا گیا، ہمارے بارے میں مغربی ممالک نے کہنا شروع کر دیا کہ چین اور پاکستان کو کیا پتہ جنگی جہاز کیسے بنتا ہے ان کے بنے ہوئے جہاز کاغذی جہازوں کی طرح گرا کریں گے،
ان ہی دنوں بھارت کے فائٹر جیٹ تیجا کی بھی خبریں آنے لگیں، بھارت نے اس پر کام کی رفتار تیز کردی، تیجا کا پروجیکٹ ہم سے نو برس پرانا تھا اور اسے بھارت کے چوبیس اداروں کا تعاون بھی حاصل تھا، انہیں جہاز بنانے کا تجربہ بھی تھا ۔
اور ادھر تجربہ کیا ہونا تھا ہم نے تو قدم ہی ابھی اٹھایا تھا۔
میں چینیوں کو تیجا سے مقابلے پر لے آیا، وہ کہتے آپ ہمیں جگہ جگہ روک رہے ہو، وہ دیکھو انڈیا کا تیجا تیزی سے مکمل ہو رہا ہے ، وہ ہم سے پہلے بن گیا تو ہمارا فائٹر کون خریدے گا؟
اور میں انہیں کہتا کہ دیکھو اگر ہمارے طیارے کے بارے میں تاثر عام ہو گیا کہ یہ پائلٹ اور رقم ڈبو دے گا تو اسے کون خریدے گا؟
چیز ایسی بناؤ کے جو دیکھے دیکھتا رہ جائے ، جو ثابت کر دے کہ ہاں میں ہوں۔۔۔ تو اس طرح میں انہیں پیار سے، پچکار کر، کبھی ناراضگی کا اظہار کر کے اور کبھی شاباشی دے کر کام کراتا چلا گیا۔
مجھے پریشانی یہ تھی کہ ہمارے جہازوں کی ریٹائرمنٹ قریب تھی میرے پاس وقت بہت کم اور نپا تلا تھا، میں نے2001ء میں ہی اپنے جہازوں کا سارا شیڈول بنا لیا تھا مجھے ایک ایک جہاز کا پتہ تھا کہ وہ کب ریٹائر ہو رہا ہے، مجھے یہ بھی علم تھا کہ ریٹائرہونے والے جہاز کا ہینگر خالی رہے گا، دنیا ہمیں جہاز نہیں دے گی۔۔۔
امریکیوں کا رویہ ہمارے سامنے تھا، ہمارے پاس گنے چنے ایف سولہ تھے،
ہم اردن اور آسٹریلیا کے کنڈم میراج طیارے لے کر آتے اور انہیں قابل استعمال بناتے۔۔۔ یہ بہت بڑا رسک تھا، پائلٹوں کی زندگی کے لئے بھی خطرہ تھا لیکن ہم کیا کرتے ، ہمارے پاس کوئی چارہ بھی نہ تھا،
دنیا نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ ہماری ائیر پاور نہیں بڑھانے دے گی، وہ ہمیں جہاز نہیں دے گی اور یہیں سے میرا جنرل ریٹائرڈپرویز مشرف سے رابطہ ہوا،
میں نے انہیں ایک محب وطن پاکستانی پایا، میں ان کی خوبیوں خامیوں کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا، میں ان سے براہ راست رابطے میں آچکا تھا، جب انہیں پتہ چلا کہ ائیرفورس ایک پروجیکٹ پر کام کر رہی ہے توا نہوں نے مجھے بلا لیا،
ان سے ائیر چیف نے میرا ذکر کر دیا تھا کہ سر ! یہ میرا شاگرد بھی رہا ہے اور یہ ہمیں نیا جہاز بنادے گا، مجھے سو فیصد یقین ہے ، میں مشرف صاحب سے ملنے گیا ،
اکیلے کمرے میں ہونے والی ملاقات میں انہوں نے مجھ سے پوچھا ،تم کون ہو ، اپنا بیک گراؤند بتاؤ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ مصحف نے تمہیں اپنا شاگرد ہونے کی وجہ سے اس پروجیکٹ کا چیف ڈائریکٹر بنادیا،
میں نے عرض کیا سر ! مصحف صاحب میرے فلائنگ انسٹرکٹر تو تھے، میں ان کا شاگرد بھی تھا لیکن مجھے اعزازی شمشیر ان کی سفارش پر یا بھائی بندی پر تو نہیں مل سکتی تھی ،
وہ تو صرف میری فلائنگ دیکھ رہے تھے ، اعزازی شمشیر تو کیڈٹ کی پوری کارکردگی دیکھنے کے بعد ہی دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
میں wing under officer بھی تھا۔۔۔
یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی، کہنے لگے
’’یار !بات تو تم ٹھیک کہتے ہو، تمہاری باتوں سے لگتا ہے تم میں کچھ ہے، اچھا ادھر تو تم نے مصحف کو کہہ دیا کہ جہاز بنا دوں گا، کیا واقعی ایسا کر لوگے ؟
یہ کہہ کر وہ مجھے صورتحال سے آگاہ کرنے لگے، ان کے الفاظ تھے کہ "میں جیب میں پیسے لے کر پھرتا ہوں، میں جہاز کا نام لیتا ہوں ناں کوئی ہمیں دینے کو تیار نہیں۔"
یہ وہ وقت تھا جب ہمارے اسکواڈرنز میں صرف پرانے میراج، ایف سکس اور اے فائیو جیسے طیارے تھے۔
لے دے کر ہمارے پاس گنے چنے ایف سولہ تھے جن کے لئے ہم مکمل طور پر امریکہ پر انحصار کرتے تھے۔ جب امریکہ چاہتا ان کے سامان کی سپلائی مرمت روک دیتا،
اس وقت دنیا پر AIR WARR کی اہمیت بہت کھل کر واضح ہوچکی تھی، وہ ہمیں طاقتور نہیں دیکھنا چاہتے تھے ۔
امریکہ نے افغانستان میں اپنی ائیر فورس سے تباہی پھیر دی تھی۔ اس لئے دنیا نے ایکا کر لیا تھا کہ ہمیں جہاز نہیں دینا۔
ادھر حالت یہ تھی جہازوں کی ریٹائرمنٹ قریب آتی جارہی تھی
میں نے حساب کتاب کیا توسر پکڑ بیٹھ گیا تین سالوں میں نئے جہاز نہ آتے تو ہمیں اپنے اسکواڈرن بند کرنے پڑجاتے اور یہ کسی بھی ائیرفورس کے لئے موت تھی،
میرے لئے 2003ء میں ہر حال میں اپنا جہاز Air Bornn کرنا تھا اور ایسا نہ ہوتا تو یہ ہماری موت تھی،
ان حالات میں ہم نے جان مار کر کام شروع کر دیا ، چینیوں کی دن رات کی شفٹیں لگا دیں حالانکہ وہ ایسا نہیں کرتے۔
میں ان کا مزاج رویہ سمجھ چکا تھا، ان سے برتاؤ کرنا آگیا تھا مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ چینیوں کے ساتھ کیسے کام کرنا ہے، ایسا اکثر ہوتا کہ بات چیت ہوتی تو محفل اتنی گرم ہوجاتی کہ اتنی heat ہو جاتی کہ سمجھیں جھگڑا ابھی ہوا تو ابھی ہوا ، لیکن جب بات چیت ختم ہوتی تو میں انہیں گلے لگا کر تین لفظ کہتا:
We are friend
بس اسکے بعد وہ کہتے آپ کو جو چاہئے لے لو ، جو بات تین تین گھنٹوں کی بحث میں نہ مانتے وہ ذرا سی مسکراہٹ سے، نرمی سے مان جاتے،
اس طرح دن رات کی محنت سے یہ پروجیکٹ آگے بڑھتا رہا۔
میرے ذہن میں ایف سولہ تھا، چونکہ میں نے اسے آپریٹ کیا ہوا تھا ، اس سے اچھی طرح واقف تھا، اس لئے میں اپنے جیٹ کو اسی معیار پر بلکہ اس سے بہتر بنانا چاہتا تھا اور بار بار اسی کی مثال دیتا کہ ہمیں یہ چیز ایسی چاہئے اور یہ ایسی چاہئے۔
ادھر امریکہ کو تشویش شروع ہو گئی، انہیں انٹیلی جنس رپورٹیں ملنا شروع ہو چکی تھیں۔ انہوں نے یہ پروجیکٹ ناکام بنانے کے لئے حربے اختیار کرنا شروع کر دیئے ۔
مجھے یاد ہے اس اس وقت کی امریکی سفیر این پیٹرسن نے مجھے دھمکیاں دینا شروع کر دی تھیں، وہ مجھے کسی بھی تقریب میں دیکھتیں تو ایک طرف لے جاتیں اور کہتیں تم بچ کر رہنا، ہم تمہیں سیٹلائٹ سے دیکھ رہے ہیں، اگر تم نے ہمارا نٹ بولٹ بھی چینیوں کو دکھایا تو مثال عبرت بنا دیں گے۔۔۔
پھر مجھ پر طرح طرح کے حربے استعمال کئے گئے ، عورت اور دولت کے جال پھینکے گئے، میرے اردگرد لوگ ڈالروں سے بھرے بریف کیس لے کر پھرتے رہتے۔۔۔ لیکن الحمدللہ، اللہ نے مجھے ہر جال اور ہر چال سے بچایا۔
پروجیکٹ چلتا رہا یہاں تک کہ ستمبر 2003ء میں وہ وقت بھی آ گیا جب چین کے چنگ دو رن وے پر F-17 نے دوڑنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے فضا میں بلند ہو گیا۔
یہ وہ وقت تھا جب ہم سب کی آنکھوں میں آنسو تھے ، ہم ایک دوسرے سے والہانہ انداز میں گلے لگ رہے تھے مبارکبادیں دے رہے تھے انہیں خود بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم نے کیا کر دیا ہے،
تین سال کی قلیل مدت میں ایک لڑاکا طیارہ فضا میں پہنچا دیا ہے ،
یہ پچیس منٹ کی پروٹو ٹائپ فلائٹ تھی، جس میں پائلٹ ایک ایک موومنٹ بتا رہا تھا، اسکا ایک ایک لمحہ ریکارڈ ہو رہا تھا اور ہمارے دل دھک دھک کر رہے تھے ، لبوں پر دعائیں تھیں کہ اے رب العالمین ہماری عزت رکھنا
اور پھر اس دن بھی اللہ نے ہماری عزت رکھی جب ستائیس فروری 2019 کی صبح ساڑھے نو بجے اللہ نے دشمن کے دل میں ہماری ہیبت ڈال دی ،
جے ایف سترہ کا سامنا بہترین روسی فائٹر جیٹ سوخوئی30 اور مگ اکیس سے تھا. الحمدللہ ایف سترہ نے دونوں کو دھول چٹا کر اپنی ہیبت بٹھادی، ثابت کر دیا کہ یہ فورتھ جنریشن کا بہترین لڑاکا طیارہ ہے
اور تعریف وہ ہوتی ہے جو دوسرا کرے ، آج دنیا جو کہہ رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
جو ہماری سوچ تھی ، جو ہمارا خیال تھا ایف سترہ اس سے بھی بہتر بنا ہے ،
ہم نے اسے گلاس کاک پٹ کے طور پر بنایا،
کاک پٹ میں ہر چیز ڈیجیٹل ہے ،
اس کے میزائلوں کی مار ایف سولہ کے میزائل سے زیادہ ہے ،
اسکے بی وی آر کی رینج بھی ایف سولہ کے بی وی آر سے زیادہ ہے
اسکے ریڈار کی کارکردگی ایف سولہ سے بہتر نہیں بلکہ بہت بہتر ہے،
آج مجھے اپنے بے بی پر فخر ہے ۔

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews