May 28, 2019

TARAWEEH صلاتہ التراویح






نماز تراویح کی چار رکعت ختم ہوئیں تو نمازی صفیں توڑ کر پرُ سکون ہو کر بیٹھ گئے ۔
میں حیران ہوا کہ کیا نماز ختم ہوگئی ہے ۔مسجد انتظامیہ کے کچھ لوگ اٹھے اور پودینے کا بنا قہوہ اور عربی مٹھائیاں لے آئے ۔
میرے لئے یہ دوسری حیران کن بات تھی ۔
پہلی حیرت مجھے اس وقت ہوئی تھی جب میں نے دیکھا کہ مسجد میں مردوں کے ساتھ خواتین اور بچوں کی کثیر تعداد بھی داخل ہو رہی تھی ۔
ایسا محسوس ہوا جیسے پوری فیملی گھر کو تالا لگا کر مسجد آگئی تھی ۔
مسجد کے درمیان میں ایک پردہ لگا ہواتھا۔
پردہ کے ایک جانب مرد نمازی اور دوسری جانب خواتین اورچھوٹے بچے تھے ۔
دراصل یہ مسجد مراکش کے مسلمانوں کی تھی۔ 
عربی خواتین گھر سے عربی مٹھائیاں اور مراکش کا خاص پودینے والا قہوہ تیار کر کے لائیں تھیں جو نمازیوں کو تراویح کے وقفے میں پیش کیا گیا ۔ 
قہوہ نوشی کے دوران امام صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے تراویح میں قرآن کی جو تلاوت کی تھی اسکی تفسیر اور تشریح بیان کرنا شروع کر دی۔
مسجد میں موجود نمازیوں کا اشتیاق دیدنی تھا۔ امام صاحب کا لیکچر ختم ہوا تو ایک دفعہ پھر نمازتراویح شروع ہوئی۔ 
امام صاحب نے رقت آمیز تلاوت کی چونکہ نمازی اہل زبان تھے اس لئے تلا وت سن کر بعض نمازیوں کی تو ہچکیاں بندھ گئیں۔
یہ منظر میرے دل پر نقش ہو گیا مجھے اپنی کم علمی کا اس دن اندازہ ہوا کہ ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ ہمیں قرآن کی تلاوت مزا تو دیتی ہے لیکن اس میں چھپے پیغام کو ہم اس طرح نہیں سمجھ سکتے جس طرح ایک عربی زبان دان سمجھتا ہے 
ان دنوں میں ابھی بائیس تئیس سال کانوجوان ہونگا میرے ذہن میں بہت سے سوالوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا کہ ہماری مساجد میں تو امام کو شکایت ہوتی ہے کہ بچوں کو نہ لایا جائے کہ شور مچاتے ہیں اور خواتین کے لئے تو مسجد باقاعدہ ایک ممنوع جگہ قرا ر دے دی جاتی ہے
اسی طرح قرآن تو ہررمضان میں ہماری مساجد میں بھی پورا سنا یا جاتا ہے لیکن اس کا ترجمہ نہیں سنا یا جاتا ۔ 
رمضان کے دنوں میں قرآن ختم کرنے کی ریس ہوتی ہے لیکن اس کو سمجھ کرپڑھنے کارحجان نہیں ہے ۔ 
ذہن میں خیال آیا کہ دنیا کی ہر کتاب کا مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ اسے سمجھ کر پڑھا جائے لیکن ہمارے ذہن میں یہ کیسا تصورراسخ کردیا گیا ہے کہ ہر کوئی بس ناظرہ قرآن پڑھنے اور نیکیوں کے”پڑھولے“میں ثواب کا ذخیرہ جمع کرنا شروع کرد یتا ہے ۔
کیوں ہم یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ ہمارا مالک حقیقی ہم سے مخاطب ہے تو وہ ہم سے کہنا کیا چاہتاہے ۔
ہم سائنس جغرافیہ اور تاریخ تو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہم اردو کے شعروں تک کے مطالب ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو قرآن کے بارے میں ہماراشوق ایساکیو ں نہیں ؟
دل میں سوچا کہ ابھی تو روایات کے بت توڑنا شاید ممکن نہ ہوں لیکن اگر زندگی میں کبھی موقع ملا تو اس روایت پرستی کو ضرور توڑوں گا ۔ 
خیر وقت گزرتا رہا اور میرے شہر کی کمونٹی نے مجھے اپنی کمونٹی کاصدر منتخب کر لیا۔ اس طرح مسجد کمیٹی کا انتظام و انصرام بھی میرے ذمے آگیا مسجد میں بھی لگاتار ہم ہر سال رمضان مناتے رہے او ر مروج طریقے سے تراویح میں حفاظ کرام سے قرآن سنتے رہے 
حافظ آصف صاحب سے ہمارا رابطہ رمضان کے سلسلے میں ہی ہوا وہ حافظ قرآن تھے اور ہمیں مسجد میں قرآن سننا تھا ۔
انہیں دیکھ کر پہلی نظر میں کوئی مولوی نہیں کہہ سکتا تھا۔ 
کیونکہ ان کا تعارف ایک ایسے نوجوان کاتھا جو پاکستان سے ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کر کے آئے تھے ۔اٹلی میں ایک زمیندار کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ان کی حیثیت ایک باس کی ہے یعنی وہ بہت سے بے روزگار نوجوانوں کوبھی کام پر لگوا سکتے تھے ۔
اسی لئے انہوں نے اٹلی میں مسجد کی امامت کو بطور پروفیشن نہیں اپنا یاتھا ۔ان کا اپنا تعلق بھی زمیندار گھرانے سے ہے اس لئے اپنی اناو خودداری کو مقدم رکھتے ہیں۔ 
ہم نے ان سے درخواست کی کہ رمضان میں ہمیں قرآن سنائیں ۔
ان کی قرآت میں اللہ نے وہ تاثیر رکھی ہے کہ رمضان میں جب انہوں نے تلاوت شروع کی توہماری مسجد میں بھی مراکشی ، تیونسی اور دوسرے اہل زبان عربیوں کا رش لگنا شروع ہوگیا ۔رمضان ختم ہوا تو ان سے گزارش کی کہ ہمارے شہر کے بچوں کوبھی قرآن پڑھایا کریں جو انہوں نے اس شرط پر مان لی کہ وہ ہماری مسجد کو ٹائم تو دیں گے لیکن اس کو بطور پروفیشن نہیں اپنائیں گے وہ اپنا روزگار نہیں چھوڑیں گے خیر ان کے ساتھ بہت اچھے دن گزرتے رہے اس دوران دو تین رمضان آئے اور وہ بھی اسی مروج طریقے سے ہمیں قرآن سناتے رہے 
مسجد کے انتظامات ہاتھ میں تھے تو سوچا کیوں نہ روایات کو توڑا جائے خاص طور پر اس وقت جب مسجد کا امام ایک معاملہ فہم اور ذہین نوجوان تھا ۔ ان سے گزارش کی کہ میرا دل کرتا ہے کہ رمضان کے مہینے میں مسجد کے نمازیوں کو قرآن کا ترجمہ سنایا جائے تاکہ رحمتوں اور برکتوں کے اس مہینے میں انہیں ان کے خالق کا پیغام سمجھنے کا موقع ملے ۔
حافظ صاحب کہنے لگے کہ آپ جانتے ہیں کہ جتنا قرآن ہم سناتے ہیں اس کا ترجمہ سنانا شروع کریں تو ڈبل ٹائم لگ سکتا ہے میں نے سوال کیا کہ کیا یہ کسی حدیث میں آیا ہے کہ رمضان میں پورا قرآن ختم کرنا ہوگا پوچھنے لگے کیا مطلب ؟ 
میں نے کہا ہم تھوڑا سن لیں گے لیکن سمجھ کر سنیں گے کوئی ایک بات بھی ہماری سمجھ میں آگئی تو شاید ہدایت مل جائے میں نے تجویز دی کہ اگر ہم سال میں صرف دس سپارے سنیں اور ان کا ترجمہ و تفسیر سن لیں تو بجائے ایک سال میں ہم تین رمضان میں قرآن ختم کر سکتے ہیں کہنے لگے دینی طور پر تو ایسی کوئی قباحت نہیں ۔
مجھے کوئی اعتراض نہیں آپ نمازیوں سے مشورہ کر لیں 
نمازیوں سے مشورہ کرنے سے پہلے میں نے اپنی کمیٹی سے مشورہ کیا تو کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ اگر ہم اس طرح کریں گے تو جو نمازی پورا قرآن سننے کی نیت سے آرہے ہیں وہ مسجد نہیں آئیں گے لیکن کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ یورپ میں رہنے والے نوجوان یہ جاننا چاہتے ہیں کہ قرآن کیا کہتا ہے تو ہمیں ایسا ضرور کرنا چاہیے روایت تبدیل کرنی ہو تو غیر مقبول فیصلے کرناپڑتے ہیں ۔
خیر یکم رمضان کو ہم نے تمام نمازیوں سے مشورہ کیا میں نے ان سے سوال کیا کہ کتنے سال سے وہ قرآن سن رہے ہیں کچھ نمازیوں نے فخر سے کہا کہ اتنے سال سے ہم ہر رمضان پورا قرآن سنتے آرہے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ آپ میں سے کتنے ہیں جن کو قرآن کی آیتوں کا ترجمہ آتا ہے یا وہ بتا سکتے ہیں کہ قرآن میں فلا ں حکم آیا ہے مسجد میں خاموشی چھا گئی اس کے بعد ان کے سامنے اپنی تجویز رکھی ۔ 
ایک دو نمازیوں نے پس وپیس کا اظہار کیا لیکن اکثریت کو رائے پسند آئی کہ ہم بھی قرآن سیکھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے محبوب حقیقی ہمار ے اللہ تعالی ٰ کا کلام ہمیں کیا پیغام دیتا ہے اگلے دن سے حافظ آصف صاحب تیاری کر کے آنا شروع ہوگئے اورہم بھی تراویح کے بعد بیٹھ کر سنی گئی تلاوت کا ترجمہ سننا شروع ہو گئے ۔اس فعل کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری مسجد میں آہستہ آہستہ نمازی کم ہونے کی بجائے زیاد ہ ہونا شروع ہو گئے ۔ بلکہ تراویح کے بعد ساری مسجد بڑے اشتیاق سے یہ سننے کے لئے بیٹھتی کہ آج انہوں نے کیا سنا ہے ۔اب الحمد للہ یہ سلسلہ کئی سال سے جاری ہے کہ مسجد میں جتنا قرآن سنا جاتا ہے اس کا ترجمہ و تفسیر بھی سنتے ہیں وقت بھی اتنا ہی لگتا ہے اور نمازیوں کے لئے بھی آسانی ہوگئی ہے 
سورة بقرہ میں واضح ہے''وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کتاب(قرآن) کی اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے ،ایسے لوگ ہی اس پر (صحیح معنوں میں) ایمان لاتے ہیں''پس ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھیں اور جو ترجمہ بھی نہیں پڑھ سکتے ان کے لئے خاص طور پر رمضان کے مہینے میں علما ءکرام کو چاہیے کہ وہ قرآن کا ترجمہ بھی سنائیں ۔
دنیا کی کوئی بھی کتاب ایسی نہیں ہو سکتی جس کو پڑھنے والے کو یہ تجسس ہی نہ ہو کہ اس میں لکھا کیا گیاہے اس تجسس کو پیدا کریں ورنہ حال بالکل اس بڑھیا جیسا ہو گا جس کا بیٹا اس کو پردیس سے ہر مہینے ایک خط میں ایک چیک بھیجتا تھا وہ بڑھیا اس خط کو وصول کرتی، اسے چومتی،اپنی آنکھوں سے لگاتی اور پھر اس کو بکسے میں بند کر کے رکھ دیتی وہ یہ تو جانتی تھی کہ اس کے پیارے بیٹے کا بڑا ہی پیارا خط ہے لیکن اس ان پڑھ بڑھیا کو پتہ نہیں تھا کہ یہ خط نہیں بلکہ اس کے بیٹے نے رقم کا چیک بھیجا ہے جسے وہ بنک لیکر جاتی تو اس کو پیسے ملتے وہ بڑھیا غریب اور افلاس سے وفات پا گئی لیکن اس کو ساری زندگی یہ نہ پتہ چل سکا کہ اس کا بیٹا اس کے لئے رقم بھیجتا رہا تھا ۔ خدا کا کلام بھی کامیابی و کامرانی والا وہ چیک ہے جس میں دنیا کے ہر معاملے کے لئے راہ ہدایت و روشنی ہے لیکن ہم نے بھی اس بڑھیا کی طرح ا سکو آنکھوں سے لگا یا ، اس کو چوما ، چھاتی سے لگایا ، غلاف میں بند کر کے اونچی جگہ پراحتراما ً رکھ دیا لیکن اس سے فائدہ اور ہدایت حاصل نہ کی ۔
#منقول#

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews