گریٹر اسرائیل کی چابی "تیسری عالمی جنگ"
تحریر : یاسررسول
تحریر : یاسررسول
آگر آپ صیہونی تاریخ پر غور کریں تو آپ کو پتا چلے گا کہ امت مسلمہ کے
اتحاد "خلافت عثمانیہ" کو توڑنے کیلئے پہلے انہوں نے جنگ عظیم اول یعنیWW1
شروع کروائی پھر جنگ کے اختتام پر "خلافت عثمانیہ" ٹوٹنے کا اعلان کرکے
تمام مسلمان ممالک کو برطانوی صیہونیوں نے اپنی کالونی بنالیا سوائے ترکی
کے۔ اس جنگ میں خلافت عثمانیہ توڑنے میں انگریز کا ساتھ "آل سعود" یعنی
سعودی عرب کے بانیوں نے دیا جسکے بدلے ان سعودی مچھیروں کو انگریزوں نے
بادشاہ بناکر سعودی عرب کا حکمران بنایا۔
پھر جنگ عظیم دوئم WW2 کیوں شروع ہوئی؟
اسے شروع کرنے کا مقصد دنیا کے نقشے پر "یہودیوں" کے لیے ایک الگ وطن قائم
کروانا تھا۔ پہلے جنگ شروع کروائی گئی، پوری دنیا کو اس جنگ میں دھکیلا
گیا، خود اپنے ہی یہودیوں کو اپنے ہی ایجنٹ "ہٹلر" کے ہاتھوں قتل کروایا
گیا، پوری دنیا میں یہودیوں پر خود ہی حملے کرواکے خود ہی خوب مظلومیت کا
رونا رویا گیا تاکہ سپر پاور امریکہ و برطانیہ ان پر ترس کھاکر انہیں
مسلمانوں کے دل فلسطین میں ایک الگ وطن "اسرائیل" بناکر دیں۔
امریکہ و برطانیہ نے واقعی بناکر دے دیا کیونکہ امریکہ و برطانیہ کی معاشی
طاقت ان ہی صیہونیوں کے قبضے میں تھی۔ ان کے بینک، سرمایہ کاری سب یہودیوں
کی ملکیت تھی لہذہ امریکہ و برطانیہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہودیوں کو مکمل
تحفظ دینے کے پابند تھے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ آئی ایم ایف۔ عالمی بینک سے لیکر
تمام عالمی مالیاتی ادارے بشمول وغیرہ آج بھی ان ہی
صیہونی یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ قصہ مختصر دوسری عالمی جنگ شروع کرنے کا مقصد
"اسرائیل" قائم کروانا تھا۔
اب صیہونیوں کو "تیسری عالمی جنگ" WW3 کیوں چاہیے؟
اسکا جواب ہے "گریٹر اسرائیل کی تشکیل" کا خواب پورا کرنا۔
دیکھیں "گریٹر اسرائیل" اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک مشرق وسطیٰ تباہ نہ
کیا جائے کیونکہ گریٹر اسرائیل کے نقشے میں مشرق وسطیٰ کے ممالک ہی شامل ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں وہ مسلمان ممالک ہیں جو سب تیل و گیس یا قدرتی معدنی زخائر
سے مالامال ہیں۔ امریکہ سے لیکر برطانیہ اور اسرائیل سے لیکر روس و چین تک
سب کی نظریں اس خطے پر ہیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ جو اس خطے کا مالک ہوگا
پوری دنیا کی دولت کا مالک ہوگا اور پوری دنیا اسی کے گھر کی لونڈی بن جائے
گی۔ تو "گریٹر اسرائیل" بنانے کیلئے ان تمام ممالک کو تباہ کرنا ضروری ہے
تاکہ ان کے وسائل پر قبضہ کرکے وہاں ایک الگ ریاست "گریٹر اسرائیل" کے نام
سے بنائی جائے۔
مشرق وسطی کو کیسے تباہ کیا جائے؟
اسکا آسان
طریقہ یہی ہے کہ اندرونی خانہ جنگی شروع کروائی جائے، شیعہ سنی مسلکی
فسادات کرواکے بھائی کو بھائی سے لڑوایا جائے تاکہ یہ ایک دوسرے کو ماریں
پھر کمزور ہوکر یہود و نصاری سے مدد مانگیں بدلے میں یہود کی غلامی قبول
کرکے گریٹر اسرائیل کی کالونی بن جائیں۔ یہ کام آسانی سے کیا جاتا رہا ہے
باقی اسرائیل ڈائریکٹ مسلم امہ سے جنگ مول نہیں لے سکتا ورنہ پاکستان کا
ایک میزائل ہی اسے صحفہ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔
آپ غور کریں کہ کس
مہارت سے صدام حسین کو راستے سے ہٹاکر عراق کو تباہ کیا، پھر شام کی طرف
آئے تو وہاں اسرائیل نے داعش تخلیق کی جس نے شام و عراق پر قتل و غارت گری
عام کرکے ایک طرف "اسلامی خلافت" کے نظام کو بدنام کیا تو دوسری طرف تیل و
گیس کے کنوؤں پر قبضہ کرکے صیہونیوں کو بیچ دیا جو امریکہ و برطانیہ کے
بھی مالک ہیں۔ داعشی کتوں کا یہ قول بھی بڑا مشہور ہے کہ جس میں انہوں نے
کہا "خدا ہمیں اسرائیل پر حملے کا حکم نہیں دیتا".
پھر یہ لبیا کی
طرف آئے تو "معمر قذافی" کو بھی اندرونی خانہ جنگی کا شکار کرکے شہید کردیا
گیا۔ یہاں سے بھی پتا صاف ہوا تو پھر یہ یمن کی طرف آگئے۔ یمن میں طریقہ
بدلا گیا، ایک طرف وہاں سے سعودیہ پر حملے کرواتے رہے تو دوسری طرف ایران
میں بھی ساتھ ہی خطرناک اندرونی "خانہ جنگی" شروع کروائی۔ ایک طرف یمن میں
حوثی پیدا کرکے سعودیہ کو ڈرا دھماکر واپس امریکہ کے قدموں میں پڑے رہنے پر
مجبور کیا جاتا رہا تو دوسری طرف ایران میں خانہ جنگی شروع کرکے ایرانیوں
کے کان بھرے گئے کہ اس سازش میں سعودی ملوث ہیں۔ یاد رہے اس خانہ جنگی میں
ایرانی عوام نے خمینی کے خلاف بہت بڑا احتجاج کیا تھا، ان کے پوسٹر پھاڑے
تھے، ان کو کھلے عام ننگی گالیاں دیں تھیں۔ وہ سب امریکی و اسرائیلی خفیہ
ایجنسیوں کے پیڈ ورکرز تھے۔ اس دوران ایران نے اس شورش سے نمٹنے کیلئے
پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے مدد طلب کی تھی تب جاکے وہاں احتجاج کا سلسلہ
رکا تھا۔
لیکن حوثی باغی پیدا کرکے سعودیوں کو پھر بھی ڈرایا جاتا
رہا۔ بےشک حوثیوں کی اکثریت ایران نواز شیعہ ہے لیکن ان میں بہت سے اثر و
رسوخ والے شیعہ درحقیقت امریکی سی ۔ اور اسرائیلی MOSSAD آئی۔اے۔کے ہی کور ایجنٹ
ہیں۔
اب صیہونیوں کی نئی گیم کو سمجھیں ۔ ۔ ۔
پہلے بھارت کے
ذریعے پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش کی مگر پاکستان ایئرفورس کے کرارے
جواب کو دیکھ کر اسرائیل، بھارت اور امریکہ کے بھی طوطے اڑا گئے۔ ناکامی کے
فورا بعد امریکہ نے پہلا کام یہ کیا تھا کہ اسرائیل کوTHAAD جدید اینٹی میزائل
سسٹم دے دیا تھا جسے فورا ہی اسرائیل میں نصب بھی کردیا گیا تھا۔
دراصل پاک بھارت جنگ کی صورت میں وہ جانتے تھے کہ پاکستان ایک میزائل
اسرائیل کو مار کر دنیا سے صیہونیت کا خاتمہ کرسکتا ہے اسی لیے فورا THAAD
تعینات کرکے امریکہ نے سب سے پہلے اپنے خدا "اسرائیل" کے تحفظ کو یقینی
بنایا.
تھاڈ سے اسرائیل فضاء سے تو محفوظ ہوگیا لیکن زمینی افواج کے
حملے کا پھر بھی خطرہ موجود تھا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے امریکہ کا
یہودی صدر ٹرمپ آگے آیا اور فورا کسی کو بھی خاطر میں لائے بغیر شام کی
"گولاں کی پہاڑیاں" اسرائیل کو گفٹ کردیں۔ گولان کی پہاڑیاں وہ علاقہ ہے
جہاں سے عرب ممالک کی زمینی افواج اسرائیل کے دارالحکومت "تل ابیب" پر حملہ
کرسکتی تھیں یا وہاں سے تل ابیب کی طرف فوجی پیش قدمی کی جاسکتی تھی لہذہ
اسرائیل کے تحفظ کے لیے ٹرمپ نے گولان کی پہاڑیاں ہی اسرائیل کو دے دیں
حالانکہ پوری دنیا نے اس فیصلے کی مذمت کی لیکن یہودی ٹرمپ اپنے فیصلے سے
پیچھے نہیں ہٹا کیونکہ یہودی اسرائیل کے تحفظ پر کبھی کمپرومائس نہیں کرتے
اور ٹرمپ بھی کٹر صیہونی یہودی ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ "گولان کی
پہاڑیاں" دینے سے پہلے ٹرمپ فلسطین کے دارلحکومت "یروشلم" کو بھی اسرائیل
کا دارالحکومت یعنی Capital City تسلیم کرچکا ہے جسکے بعد اپنا سفارت خانہ
بھی وہاں کھول چکا تھا لیکن چونکہ امت مسلمہ یہودی قرضوں کے بوجھ تلے دبی
رہتی ہے لہذہ کسی میں جرات نہیں ہوئی کہ امریکی صیہونیوں کے کسی فیصلے کی
مخالفت کریں۔ ایک ترک صدر طیب اوردھان ہی ہمیشہ مخالفت کرتا رہا ہے کیونکہ
ترک غیرتمند جنگجو قوم ہے اور ترکی پر صیہونی IMF وغیرہ کا کوئی قرض بھی
نہیں ہے۔ پاکستانی حکومت کا صیہونی ایجنڈوں کے خلاف نہ بولنے کی بڑی وجہ
یہی یہودیوں سے لیا گیا قرض ہے۔ جب آپ کسی سے قرض لیتے ہیں تو اسکے خلاف
کبھی نہیں بولتے۔
گریٹر اسرائیل کی تشکیل کیلئے اب صیہونیوں کا اگلا قدم کیا ہوسکتا ہے ؟
اسکا جواب ہے بچے کھچے مشرق وسطیٰ کو تباہ کرنا، بچے کھچے میں دبئی، قطر، ایران اور سعودیہ نمایاں ہیں۔
دبئی کے حکمرانوں کو وہ خاموشی سے رام کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں، حال ہی
میں متحدہ عرب امارات کے صدر نے امت مسلمہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ
اسرائیل سے تعلقات نہ بنانا بڑی غلطی ہے ساتھ ہی مشورہ دیا کہ اب اسرائیل
کو تسلیم کرلینا چاہیے یعنی دوسرے الفاظ میں اب مسجد اقصی اور بیت المقدس
اسرائیل کو دے دینا چاہیے۔ یہ دراصل رام ہونے کے بعد دبئی کے حکمرانوں کا
اسرائیلی غلامی تسلیم کرنے کا اعلان تھا۔ اسکے علاوہ اومان بھی اسرائیل سے
تعلقات قائم کرکے اپنی تباہی بچا چکا ہے، قطر ایران نواز ہے زیاد طاقتور
بھی نہیں ہے لہذہ اسکی باری شروع ہونے والی ہے مگر اس خطے کے جو دو اہم
ممالک ہیں وہ ایران اور سعودی عرب ہیں اور یہ اتنے خطرناک ہیں کہ ان کے
زریعے پورا مشرق وسطیٰ تو کیا پوری امت مسلمہ کو فرقہ واریت کے نام پر ٹکڑے
ٹکڑے کیا جاسکتا ہے۔
ایران اور سعودیہ دونوں ہیں تو مسلمان لیکن ایک
دوسرے کے اتنے شدید دشمن بھی ہیں کہ جتنے شاید یہ یہود و نصاری کے بھی نہ
سمجھتے ہوں۔ ان دونوں نے ہی پہلی مرتبہ امت مسلمہ میں شیعہ سنی فساد کی
بنیاد رکھی۔ ایران نے جدید دور کے شیعہ تخلیق کیے، تازیے بناکر محرم میں
جلوس نکلواکر پاکستان کو پورا شیعہ کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف سعودیہ نے
بھی اربوں ڈالرز مقامی علماء کو دیکر ہمارے ملک میں لاتعداد مدارس کھلوائے
جہاں سے نکلنے والے طلباء ایران کو کافر ملک کہتے ہیں جبکہ ایرانی پیسے سے
بنائے گئے مدارس اور امام بارگاہوں کے طلباء صرف سعودی عرب کو کافر ملک
قرار دیتے ہیں۔ ان دونوں ممالک نے مسلک پرستی کی یہ آگ صرف پاکستان تک
محدود نہیں رکھی بلکہ تمام مسلمان ممالک میں یہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے
کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں چاہے اسکے لیے انہیں یہود و نصاری سے ہی
کیوں نہ مدد لینی پڑے بلکہ یہ یہود و نصاری سے مدد لیتے بھی رہے ہیں۔
ان دونوں ممالک کے بنیاد پرست علماء میں بہت سے امریکن CIA اور اسرائیل
MOSSAD کے کور ایجنٹ ذاکروں اور مولویوں کے روپ میں موجود ہیں اور یہی
ایجنٹ جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرکے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کافر
کافر کے فتوے لگاتے ہی، صحابہ کی کھلے عام توہین کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف
آل سعود نے بھی ایران کو سبق سکھانے کے لیے امہات المومنیں اور صحابہ کرام
کے جنت البقیع میں واقع تمام مزارات منہدم کروائے۔
قصہ مختصر ایران
اور سعودیہ آج تک ویسے ہی مخالف ہیں جیسے پہلے تھے۔ یعنی یہ دونوں امت
مسلمہ کے لیے کسی بھی وقت خطرے کی گھنٹی ثابت ہوسکتے ہیں۔
حال ہی
میں ایران پر امریکی پابندیاں لگیں تو سعودیوں کی بانچھیں کھل گئیں، امریکہ
کو اندرونی خانہ مزہد ہتھ تیز کرنے کی فرمائش کرتے رہے جبکہ دوسری طرف
اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے حوثی باغیوں کے زریعے سعودیہ کی سب سے بڑی آئل
کمپنی ارامکو کے دو آئل ڈیپزو پر ڈرونز سے میزائل داغے۔ ایک طرف امریکہ
اپنا کام کر رہا ہے تو دوسری طرف اسرائیلی خفیہ ایجنسی اپنے کام کر عہی ہے،
نہ ایران کو سمجھ آئی نہ سعودی ابھی تک اس یہودی چال کو سمجھ سکا۔
اب حالات مزید خطرناک بنائے جارہے ہیں، سعودی آئل پر حملے، بحری آئل
ٹینکروں پر ایران کے قریب حملے، یہ سب واضع کر رہا ہے کہ یہود و نصاری نے
بالاخر سعودیہ کو ایران سے لڑانے کا آخری فیصلہ کر لیا ہے۔
اس جنگ
کا ٹرگر اسرائیلی و امریکی خفیہ ایجنسیاں اپنے انڈر کور ایجنٹوں کے ذریعے
دبائیں گی لیکن اپنا چہرہ چھپا کر رکھیں گی تاکہ اسرائیل پر حملہ نہ
ہوجائے۔ یمن میں حوثیوں کی شکل میں، شام و عراق میں White Helmet سے لیکر
داعش ISIS تک میں ان کے لاتعداد ایجنٹ پہلے ہی موجود ہیں، خود ابوبکر
بغدادی اسرائیلی خفیہ ایجنسی MOSSAD کا ہی انڈر کور ایجنٹ ہے۔ دونوں طرف جب
اپنے ایجنٹ موجود ہوں تو جنگ کا ٹرگر دبانا کوئی مسئلہ نہیں رہتا۔
مگر میری ناقص معلومات کی بنیاد پر اسرائیل فلحال سعودیہ کو نہیں چھیڑے
گا، پہلے سعودیہ کی مدد کرکے ایران کو تباہ کرے گا پھر آخر میں خود سعودیہ
کو بھی تباہ کرے گا۔
احادیث میں درج ہے کہ دجال مدینے کی سرحد تک
پہنچ جائےگا لیکن مدینے میں داخل نہیں ہوسکے گا کیونکہ مدینے کی سرحد پر
اللہ عزوجل نے فرشتوں کی ڈیوٹی لگا رکھی ہے۔ ایک اور حدیث کے مطابق مکہ میں
بھی داخل نہیں ہوسکے گا کیونکہ یہ دونوں شہر حرمیں شریفین ہیں جہاں کی
سکیورٹی فرشتے سنبھالتے ہیں۔
دجال کا مدینہ کی سرحد تک آنا واضع
ثبوت ہے کہ مکہ مدینہ چھوڑ کر دجال پورے سعودی عرب کو فتح کرچکا ہوگا۔
سعودی حکمرانوں کو یہ حدیث بار بار پڑھنی چاہیے اور پھر سوچنا چاہیے کہ
یہود و نصاری انہیں کیوں ایران سے لڑوانا چاہتے ہیں، جس دن انہوں نے سازش کی
بوء سونگھ لی تو ان شاء اللہ انہیں یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ ایران کی
تباہی کے بعد اگلی باری خود ان کی ہوگی۔
پیارے پاکستانیوں !
اگر یہود و نصاری ایران کو سعودیہ سے لڑواتے ہیں تو ہمیں اپنی آنکھیں کھولے
رکھنی پڑیں گی، ہمارے ملک میں موجود ایرانی ذاکر اور سعودی تنخواہ پر چلنے
والے علماء دونوں ہی جزباتی تقاریر کرکے ایک دوسرے کے خلاف کافر کافر کے
فتوے لگاکر ہمارا لہو بھی گرمائیں گے۔ سادہ دماغ مسلمان تو ان کی باتوں میں
آکر فورا ایک دوسری کو شیعہ سنی کی بنیاد پر کافر قرار دے ڈالیں گے۔
نوبتقتل وگارت گری یا خانہ جنگی تک پہنچ سکتی ہے۔ دوسری سوشل میڈیا پر
یہود و نصاری بھرپور "ڈس اندارمیشن" پھیلائیں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ امت
مسلمہ میں آگ بھڑکائی جاسکے۔ بھائیو ہمیں اس آگ کو روکنا ہوگا، ہمیں خود کو
شیعہ سنی ہرگز نہیں بنانا، ہم صرف مسلمان بن کر امت مسلمہ کا دفاع کریں گے
اور یہود و نصاری کی چالوں کو بےنقاب کریں گے۔
نوٹ : ایرانی ذاکروں
اور سعودی نواز علماء کیلئے دو قرآنی آیتیں پیش کر رہا ہوں، اللہ نے یہ
الفاظ آپ کے لیے ہی نازل کیے ہیں، غور سے پڑھیے
اے ایمان والو !
یہود و نصاری تمہارے کبھی دوست نہیں ہوسکتے، وہ صرف آپس میں ایک دوسرے کے
دوست ہیں، تم تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوستی کرے گا وہ
بلاشبہ انہیں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا ۔
المائدہ ( 51 )
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا
حق ہے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا © اللہ کی رسی کو سب مل کر
مظبوط تھام لو اور تفرقہ مت ڈالنا (یعنی فرقوں میں مت بٹ جانا)۔ آل عمران
(102-103)
No comments:
Post a Comment