افغانستان اور ایران مسلمان ہونے کے باوجود پاکستان کے مخالف کیوں ہیں؟
پاکستان نے افغانستان میں طالبان کو کیوں بنایا؟ روس کو کیوں توڑا گیا؟ اور حزب اسلامی کے زریعے پاکستان کو کیسے بچایا گیا؟؟؟
ان کی معاونت کی، ہتھیار فراہم کیے، ٹریننگ دی، پیسے دیے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ آخر کیوں؟؟؟
کیا جنرل ضیاء الحق، جنرل حمید گل، جنرل عبدالرحمٰن اور کرنل امام وغیرہ غلط تھے؟؟؟
لبرل/سیکولر، ملا ڈیزل اور موجودہ جمعوتی نیریٹو کے حامل فیس بکی علماء اور مشائخ اور تاریخ دانوں کے مطابق تو بس پاکستان اس خطے کا غنڈا ہے، جنگ امریکی تھی پاکستان مہرا بنا۔ ضیاء الحق ایک انتہا پسند جنرل تھا، مزہبی منافرت کا حامل اور پتا نہیں کیا کیا۔
آئیں تھوڑا سفر ماضی کا کرتے ہیں۔۔۔۔
روس اور ایران کے تعلقات کی مثالیں دنیا دیتی ہے اور واقعی یہ تعلقات تقریباً 2 صدیوں پر محیط ہیں۔ لیکن ہر ملک اپنے مفاد کا دفاع کرتا ہے اور کرنا بھی چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہے۔
روس نے ایران کو دھوکہ بھی دیا تھا۔ لیکن اپنے مفادات کی خاطر ایران کے ساتھ لگ گیا۔ ایسے ہی پاکستان کی بھی دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ گرمی سردی رہتی ہے۔
1947 میں پاکستان ہمیں طشت پر رکھ کر نہیں ملا۔ لاکھوں قربانیاں دیں عزتیں لٹوائیں۔ ہزاروں مسئلے سر اٹھا کر کھڑے تھے۔
اس حالت میں افغانستان نے پیٹھ پیچھے وار کیا اور پاکستان کی زمین پر اپنا حق جتانا شروع کر دیا۔
پاکستان کے جو علاقے افغان سرحد کو لگتے ہیں وہاں کے عوامی نمائندوں اور قبائل عمائیدین نے قائد اعظم محمد علی جناح کا بھرپور ساتھ دیا اور اسلامیہ کالج پشاور نے اس حوالے سے بہت بڑا کردار ادا کیا۔
لیکن حصولِ آزادی کے فوری بعد افغانی سرداروں نے پاکستان میں شرپسندوں کو اکسانا شروع کیا، اور نا ختم ہونے والی خلش دلوں میں رہ گئی۔
یہ ایک ایسی چنگاری تھی جو بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ شعلہ بنتی رہی۔
لیکن اس سازش کے باوجود 1948 میں کشمیر کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں قبائلیوں کی شرکت نے مہر ثبت کر دی کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
اس جنگ کے بعد بھارت بھی چپ نا بیٹھا اور افغانستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کر دیں۔ روس کی بھی حمایت حاصل تھی۔ یوں 1950 کے آس پاس افغانستان نے پاکستان کے خلاف ایک خفیہ لیکن خطرناک محاذ کھول دیا۔ اس منصوبے میں بھارت اور روس بھی شامل تھے۔ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال کو خراب کیا گیا اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا۔
1971 کی جنگ میں بنگلہ دیش کے قیام سے پاکستان کے وجود کو سخت خطرات لاحق ہو چکے تھے۔
تقریبا 2 سال بعد پاکستان کی ملٹری انٹلیجنس (ایم آئی) نے ایوانوں میں کھلبلی مچا دی۔
9 فروی 1973 کو آدھی رات کے وقت ذوالفقار علی بھٹو (جو کہ اس وقت پاکستان کا وزیر اعظم تھا) کو خبر دی گئی کہ عراق بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ نیز بلوچستان کو توڑنے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے۔ اور بی ایل ایف (بلوچ لیبریشن فرنٹ) نامی تنظیم کا ایک خفیہ دفتر بغداد میں قائم کیا گیا ہے۔ عراقی سفیر اس گھناؤنے کام میں برابر کا شریک ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کو افغانستان کے زریعے بغاوت پر امادہ کیا جارہا ہے اور عراقی ایمبیسی ان میں روسی ساختہ اسلحہ تقسیم کررہی ہے۔ یعنی اس بغاوت میں روس کی براہ راست معاونت شامل ہے۔
اس انفارمیشن کی بنیاد پر 9 فروری 1973 کی رات تقریباً 12 بجے ایس ایس جی کمانڈوز کو 1 گھنٹہ دیا گیا کہ وہ اپنی تیاری کریں۔
یہ پاکستان کی تاریخ کا اپنی نوعیت کا پہلا اور بہت حساس آپریشن ہونے جارہا تھا۔
ایمبیسی پر چھاپہ دو ملکوں کے درمیان جنگ کا باعث بن جاتا ہے۔
چنانچہ پنجاب رینجرز اور ایس ایس جی کمانڈوز نے 10 فروری، 1 بجے رات کو عراقی ایمبیسی کا گھیراو کر لیا۔ عراقی سفارت کار، ملٹری اتاشی اور تمام دوسرے عراقی اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ سفارت خانے کی تلاشی کے دوران 300 روسی ساختہ مشین گنز اور 50 ہزار گولیاں برآمد ہوئیں۔
عراق جانے والی پہلی ہی فلائٹ میں اعراقی سفیر کو پرسونا نان گراتا (نا پسندیدہ ترین شخص) قرار دے کر ملک بدر کر دیا گیا۔
یہ عراقی پلان تھا جسکا مقصد علیحدگی پسندوں کو (جو پاکستان میں بھی تھے اور ایران میں بھی تھے) ہتھیار دے کر ایران پر دباؤ قائم کرنا تھا۔
روس نے عراق پورا ساتھ دیا حلانکہ وہ ایران کا دوست ملک تھا۔
پاکستان کے ایسے چھوٹے چھوٹے حفاظتی بند نے روس اور بھارت کو پریشان کر دیا۔ انہوں نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
اسٹیک ہولڈرز وہی تھے بلکہ اس بار ایران بھی اس منصوبے میں شامل ہو چکا تھا۔ (شاید اپنے علاقے بچانے کے لیے)۔
لیکن اس بار آپریشن کی نوعیت بدلی گئی۔
افغانستان میں ایرانی اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے روس نے افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ اس وقت افغانستان میں روس کا مقابلہ کرنے کی طاقت بالکل نہیں تھی، کیونکہ زیادہ تر گروپس ایرانی حمایت میں روس کے ساتھ جا لگے تھے۔
روس افغانستان سے داخل ہوتا ہوا بلوچستان کے زریعے بحیرہ عرب تک پہنچنا چاہتا تھا۔
ان کی معاونت کی، ہتھیار فراہم کیے، ٹریننگ دی، پیسے دیے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ آخر کیوں؟؟؟
کیا جنرل ضیاء الحق، جنرل حمید گل، جنرل عبدالرحمٰن اور کرنل امام وغیرہ غلط تھے؟؟؟
لبرل/سیکولر، ملا ڈیزل اور موجودہ جمعوتی نیریٹو کے حامل فیس بکی علماء اور مشائخ اور تاریخ دانوں کے مطابق تو بس پاکستان اس خطے کا غنڈا ہے، جنگ امریکی تھی پاکستان مہرا بنا۔ ضیاء الحق ایک انتہا پسند جنرل تھا، مزہبی منافرت کا حامل اور پتا نہیں کیا کیا۔
آئیں تھوڑا سفر ماضی کا کرتے ہیں۔۔۔۔
روس اور ایران کے تعلقات کی مثالیں دنیا دیتی ہے اور واقعی یہ تعلقات تقریباً 2 صدیوں پر محیط ہیں۔ لیکن ہر ملک اپنے مفاد کا دفاع کرتا ہے اور کرنا بھی چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہے۔
روس نے ایران کو دھوکہ بھی دیا تھا۔ لیکن اپنے مفادات کی خاطر ایران کے ساتھ لگ گیا۔ ایسے ہی پاکستان کی بھی دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ گرمی سردی رہتی ہے۔
1947 میں پاکستان ہمیں طشت پر رکھ کر نہیں ملا۔ لاکھوں قربانیاں دیں عزتیں لٹوائیں۔ ہزاروں مسئلے سر اٹھا کر کھڑے تھے۔
اس حالت میں افغانستان نے پیٹھ پیچھے وار کیا اور پاکستان کی زمین پر اپنا حق جتانا شروع کر دیا۔
پاکستان کے جو علاقے افغان سرحد کو لگتے ہیں وہاں کے عوامی نمائندوں اور قبائل عمائیدین نے قائد اعظم محمد علی جناح کا بھرپور ساتھ دیا اور اسلامیہ کالج پشاور نے اس حوالے سے بہت بڑا کردار ادا کیا۔
لیکن حصولِ آزادی کے فوری بعد افغانی سرداروں نے پاکستان میں شرپسندوں کو اکسانا شروع کیا، اور نا ختم ہونے والی خلش دلوں میں رہ گئی۔
یہ ایک ایسی چنگاری تھی جو بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ شعلہ بنتی رہی۔
لیکن اس سازش کے باوجود 1948 میں کشمیر کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں قبائلیوں کی شرکت نے مہر ثبت کر دی کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
اس جنگ کے بعد بھارت بھی چپ نا بیٹھا اور افغانستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کر دیں۔ روس کی بھی حمایت حاصل تھی۔ یوں 1950 کے آس پاس افغانستان نے پاکستان کے خلاف ایک خفیہ لیکن خطرناک محاذ کھول دیا۔ اس منصوبے میں بھارت اور روس بھی شامل تھے۔ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال کو خراب کیا گیا اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا۔
1971 کی جنگ میں بنگلہ دیش کے قیام سے پاکستان کے وجود کو سخت خطرات لاحق ہو چکے تھے۔
تقریبا 2 سال بعد پاکستان کی ملٹری انٹلیجنس (ایم آئی) نے ایوانوں میں کھلبلی مچا دی۔
9 فروی 1973 کو آدھی رات کے وقت ذوالفقار علی بھٹو (جو کہ اس وقت پاکستان کا وزیر اعظم تھا) کو خبر دی گئی کہ عراق بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ نیز بلوچستان کو توڑنے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے۔ اور بی ایل ایف (بلوچ لیبریشن فرنٹ) نامی تنظیم کا ایک خفیہ دفتر بغداد میں قائم کیا گیا ہے۔ عراقی سفیر اس گھناؤنے کام میں برابر کا شریک ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کو افغانستان کے زریعے بغاوت پر امادہ کیا جارہا ہے اور عراقی ایمبیسی ان میں روسی ساختہ اسلحہ تقسیم کررہی ہے۔ یعنی اس بغاوت میں روس کی براہ راست معاونت شامل ہے۔
اس انفارمیشن کی بنیاد پر 9 فروری 1973 کی رات تقریباً 12 بجے ایس ایس جی کمانڈوز کو 1 گھنٹہ دیا گیا کہ وہ اپنی تیاری کریں۔
یہ پاکستان کی تاریخ کا اپنی نوعیت کا پہلا اور بہت حساس آپریشن ہونے جارہا تھا۔
ایمبیسی پر چھاپہ دو ملکوں کے درمیان جنگ کا باعث بن جاتا ہے۔
چنانچہ پنجاب رینجرز اور ایس ایس جی کمانڈوز نے 10 فروری، 1 بجے رات کو عراقی ایمبیسی کا گھیراو کر لیا۔ عراقی سفارت کار، ملٹری اتاشی اور تمام دوسرے عراقی اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ سفارت خانے کی تلاشی کے دوران 300 روسی ساختہ مشین گنز اور 50 ہزار گولیاں برآمد ہوئیں۔
عراق جانے والی پہلی ہی فلائٹ میں اعراقی سفیر کو پرسونا نان گراتا (نا پسندیدہ ترین شخص) قرار دے کر ملک بدر کر دیا گیا۔
یہ عراقی پلان تھا جسکا مقصد علیحدگی پسندوں کو (جو پاکستان میں بھی تھے اور ایران میں بھی تھے) ہتھیار دے کر ایران پر دباؤ قائم کرنا تھا۔
روس نے عراق پورا ساتھ دیا حلانکہ وہ ایران کا دوست ملک تھا۔
پاکستان کے ایسے چھوٹے چھوٹے حفاظتی بند نے روس اور بھارت کو پریشان کر دیا۔ انہوں نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
اسٹیک ہولڈرز وہی تھے بلکہ اس بار ایران بھی اس منصوبے میں شامل ہو چکا تھا۔ (شاید اپنے علاقے بچانے کے لیے)۔
لیکن اس بار آپریشن کی نوعیت بدلی گئی۔
افغانستان میں ایرانی اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے روس نے افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ اس وقت افغانستان میں روس کا مقابلہ کرنے کی طاقت بالکل نہیں تھی، کیونکہ زیادہ تر گروپس ایرانی حمایت میں روس کے ساتھ جا لگے تھے۔
روس افغانستان سے داخل ہوتا ہوا بلوچستان کے زریعے بحیرہ عرب تک پہنچنا چاہتا تھا۔
بھٹو کی بلوچستان کے حوالے سے غلط پالیسیوں کی وجہ سے لوگوں میں حکومت کی مخالفت بہت بڑھ چکی تھی اور امید کی جا رہی تھی وہ روس کا ساتھ دیں گے۔ سوائے کچھ محب وطن سرداروں کے۔
چنانچہ پاکستان کی نیشنل سیکورٹی اور انٹیلیجنس سر جوڑ کر بیٹھ گئی کہ ان حالات میں کیا کرنا چاہیے۔
بھٹو کو قتل کیس میں قید کر لیا گیا اور جنرل ضیاء نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔
وہاں افغانستان روس اور بھارت کو پاکستان کے خلاف ایک پُل مہیا کر رہا تھا۔ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی۔
اس لیے پاکستان نے بھی اپنے اثر و رسوخ استعمال کرنے شروع کیے۔
اس سلسلے میں حزب اسلامی گلبدین کو آئی ایس آئی کی جانب سے مکمل معاونت کی گئی کہ وہ روس کے خلاف لڑے۔ (گلبدین حکمت یار پہلے ہی ایرانی اور روسی نژاد افغان حکومت کے سخت خلاف تھا)۔
چنانچہ پوری دنیائے اسلام سے مجاہدین کو اکھٹا کرنا شروع کیا گیا۔ یہاں یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اس وقت افغانستان میں طالبان کا نام بھی موجود نہیں تھا۔
آخر کار روس نے افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ بہت سے افغانی گروپس پہلے ہی روس کے ساتھ تھے اور حکومت بھی پہلے ہی روس اور ایران کے ہاتھ میں تھی۔
ان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ حزب اسلامی تھی۔
سوائے افغانستان اور ایران کے 34 مسلمان ممالک روس کے اس اقدام کے خلاف تھے۔ حزب اسلامی کو پوری دنیا کے مسلمانوں نے سپورٹ کیا۔ مجاہدین بھیجے گئے، پاکستان سے بھی امداد بھیجی گئی اور لوگ ان کی مدد کو گئے۔۔ (مستند زرائع کے مطابق امریکہ کی شمولیت سے پہلے آئی ایس آئی تنہا روس کے خلاف لڑتی رہی، اور اس آپریشن کا نام سائکلون رکھا گیا)۔
جنگ کی تفصیل بہت لمبی ہے۔ مجاہدین اور افواجِ پاکستان کے کارناموں کی لمبی لسٹ ہے۔ ہماری فضائیہ نے روسی اور افغان فضائیہ کے پاکستان پر ہر حملے کو ناکام بنادیا۔
6 روسی طیاروں کے حملے کو صرف دو پاکستانی پائیلٹوں نے ناکام بنایا۔ 4 کو گرا دیا گیا 2 واپس بھاگ گئے۔ جبکہ پاکستان کی جانب سے فلائٹ لیفٹینٹ شاہد سکندر کے طیارے کو نقصان پہنچا لیکن وہ خود بحفاظت رہے۔ اور یوں وقتاً فوقتاً اس جنگ میں 14 سے زائد روسی و افغانی طیاروں کو گرایا گیا۔
یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ انہی دنوں اسرائیل پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر حملے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔
سلام ہے پاک ائیر فورس پر، یہ دنیا کہ واحد ائیر فورس ہے جو بھارتی، روسی اور اسرائیلی طیاروں کو ائیر ٹو ائیر کمبیٹ میں گرا چکی ہے۔
بہر حال۔۔ یہ جنگ مجاہدین حزب اسلامی اور پاکستان نے جیت لی الحمدللہ اور 1991 میں روس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
طالبان اسی حزب اسلامی کی شاخ بن کر نمودار ہوئے۔
ایران اور روس نے ان گروہوں کو متحرک کیا جو روس کے ساتھ ساتھ شکست کھا چکے تھے۔ اس تحریک کو نارتھ آلائینس یا شمالی اتحاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بعد میں گلبدین حکمت یار کو ملک بدر کر دیا گیا۔ اور حزب اسلامی کو بچانے کے لیے ملا عمر رحمہ اللہ میدان میں آئے اور نارتھ الائینس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
1947 سے آج تک اپنے کرتوتوں کو پس پشت ڈال کر روس اور بھارت کی گود میں بیٹھ کر افغانی ہمیں الزام دیتے ہیں کہ افغانستان کو تباہ کرنے میں پاکستان کا ہاتھ ہے جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔
اس تحریر کا مقصد آج کے نوجوانوں کو ان حقائق سے روشناس کرانا تھا کہ روس کے قدم روکنا بہت ضروری تھا۔
جیسا ہم نے پہلے کہا ہر ملک اپنے مفادات کا دفاع کرتا ہے اور کرنے کا حق رکھتا ہے، یہاں تو ملک کے ساتھ ساتھ اسلام کے دفاع کا معاملہ بھی تھا۔
پاکستان_زندہ_باد
پاک_آرمی_بائیندہ_باد
ہماری_شان_ہماری_جان_آئی_ایس_آئی
۔افغان طالبان زندہ باد
پاک_آرمی_بائیندہ_باد
ہماری_شان_ہماری_جان_آئی_ایس_آئی
۔افغان طالبان زندہ باد
No comments:
Post a Comment