May 05, 2019

HELP IN THE NAME OF ALLAH


نیچے والا ہاتھ۔
گاڑی سے اترا بھاگتا ہوا سٹور میں داخل ہوا اور ایک پانی کی بوتل خرید کر واپس گاڑی کی طرف لپکا۔۔
سٹور کے دروازے پر بیٹھے بوڑھے گارڈ نے مجھے سلام کیا تو میرے قدم جیسے رک سے گئے۔
اس کے الفاظ نے مجھے جکڑ لیا تھا جیسے۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی اندر دھنسی آنکھیں اور پچکے ہوئے گال مرجھائی ہوئی جلد اور جھریوں سے بھرے ہاتھوں میں کپکپاتی بندوق نے مجھے فریز کر دیا تھا۔
میں نے پوچھا۔۔ چچا کتنے پیسوں سے تمہارے سب مسائل حل ہو جائیں گے؟
یہ سوال کچھ اسقدر سیدھا تھا کہ پوچھ کر میں بھی شرمندہ سا ہو گیا اور وہ حیرانی سے جیسے پتھر کا ہوگیا۔
پھر اس کے گالوں پر آنسو رینگنے لگے۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس کی زبان بند ہو گئی تھی۔ میں نے پرس نکالا، اس میں تقریباً تیس ہزار سے کچھ اوپر روپے تھے۔
میں نے اس کی مٹھی میں تھما دیئے اور اپنا کارڈ دیا کہ اور ضرورت ہوئے تو رابطہ کر لینا۔
میں بھاگ کر گاڑی میں بیٹھ گیا اور ایک نظر اس گارڈ کو دیکھا۔۔ اس نے گنے بغیر ہی رقم اپنی جیب میں ڈال لی۔ میں پھر سے اپنی زندگی میں مصروف ہوگیا۔ میں نے دل میں نیت کی کہ یہ اس رمضان المبارک کے آخری عشرے کی 27 ویں کا صدقہ ہے اور فطرانہ بھی ادا ہو گیا ہے۔
گھر پہنچا تو امی نے فرمائش کی کہ اس بار فطرانہ کالونی میں پھرنے والے قینچی چھریاں تیز کرنے والے خان کو دینا ہے، وہ بہت حقدار ہے۔ میں نے اندر جا کر بیگ سے کچھ رقم نکالی اور امی کو تھما دی۔ فطرانہ بھی کبھی گن کر دیا جاتا ہے بھلا۔ اللہ پاک رمضان المبارک کی فضیلت اور برکات بھی تو گن کر نہیں دیتا نا، ہم کیوں گن کر شکریہ ادا کریں۔
رات کو میں تراویح سے گھر لوٹا تو میرے گیٹ پر کوئی شخص بیٹھا ہوا تھا مگر سو رہا تھا۔ میں نے اتر کر اس کو جگایا تو دیکھا کہ سٹور والا گارڈ ہے۔ اس نے جھک کر سلام کیا۔ میں نے اس کو گلے لگایا اور اندر آنے کی دعوت دی۔ اس نے بتایا کہ وہ پچھلے دو گھنٹے سے وہاں موجود ہے اور اسے جلدی گھر پہنچنا ہے۔
.
میں نے سوچا کہ شاید مزید پیسے کی ضرورت ہے اس لیے آیا ہوگا۔ مگر اس نے میرے دیئے ہوئے پیسے مجھے واپس دیئے اور بولا آپ نے غلطی سے بہت بڑی رقم مجھے دے دی صاحب جی۔
گن لیں پورے اکتیس ہزار ہیں۔ مجھے تو بس دو تین سو روپے چاہئیں رات کی روٹی اور صبح کی صحری کے لئے۔ آج پیسے بالکل نہیں تھے۔ بچوں نے روزہ پتہ نہیں کیسے کھولا ہوگا۔ میں اب کچھ آٹا دال لے کر جاؤں گا تو کھائیں گے سب۔ ابھی پہلی تاریخ دور ہے اور تنخواہیں بھی کمپنی لیٹ دیتی ہے۔ آپکی مہربانی ۔۔۔ مجھے دو تین سو دے دیں۔ تنخواہ پر لوٹا دوں گا۔ سر میں سابقہ فوجی ہوں مانگتا نہیں۔
.
اللہ پاک سے مانگ رہا تھا کہ آپ آگئے اور پیسے پکڑا دئیے۔ میں دن میں دو ڈیوٹیاں کرتا ہوں تاکہ روٹی چلتی رہے۔ تین بچیاں ہیں گھر پے۔ بیٹا نہیں ہے۔ بیوی فوت ہو گئی دو سال پہلے۔ اس نے یہ سب کچھ بتایا اور جانے لگا۔ میں نے اس کو روکا اور ساری رقم اس کو واپس دی اور کہا کہ یہ رکھ لو مجھے اپنا چھوٹا بھائی سمجھو۔
اس نے فوراً سوال کیا، سر آپ فوجی ہیں؟ میں نے کہا تمہیں کیا لگتا ہے؟
وہ کچھ دیر چپ رہا اور پھر بولا، سر ایسا صرف فوجی ہی کہتے ہیں، آپ یقیناًفوجی ہی ہیں۔ میں نے اس کو پھر گلے لگا لیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ میں بھی رو رہا تھا اور اللہ تعالیٰ کی شان دیکھ رہا تھا کہ کس طرح سے وہ ہمارے پردے بھی رکھ لیتا ہے اور جھولیاں بھی بھر دیتا ہے۔ میں نے اس کو خود سے الگ نہیں کیا اور دل کھول کر رونے دیا۔
لانس نائیک محمد بخش، 65 کی جنگ کا بھرتی، 71 کی جنگ کا غازی۔ اس حالت میں کیوں تھا؟ بہت سے سوالات تھے جو میں نے اس 73 سال کے بوڑھے سے پوچھنے تھے مگر یہ وقت نہیں تھا۔ وہ مجھ سے جدا ہوا تو میرے ہاتھ چومے اور سر نیچے کر کے پیچھے ہٹا۔ مجھے سیلیوٹ کیا۔ اور اندھیرے میں گم ہو گیا۔
اگلے دن میں نے اس سے ملنے کا ارادہ کیا اور سٹور پر گیا تو حاجی صاحب نے بتایا کہ وہ دو دن کی چھٹی پر ہے۔ میں نے ان سے اس کے بارے میں کچھ پوچھا تو وہ بولے رہنے دیں سر بہت دکھی کہانی ہے اس بابے کی۔۔ اللہ کا ولی ہے۔ جو مانگتا ہے مل جاتا ہے۔ مگر پتہ نہیں اپنے رب سے بھی زیادہ نہیں مانگتا۔ مشکل سے روٹی چلتی ہے۔
رشتے داروں نے بھی خوب لوٹا اسکو۔ بچیاں رخصت کرکے قرضے میں پھنسا ہے۔ ہم جو آج ہیں تو اس کی دعاؤں سے۔ دل سے دعا دیتا ہے۔ میرے چھوٹے بھائی کی یونٹ کا ہے۔ بیس سال سے میرے ساتھ ہے۔ پہلے میرے ساتھ ہی تھا، چھ ماہ پہلے ایک میجر صاحب نے اس کو اپنی کمپنی کی وردی دے دی ہے۔ تنخواہ وہ دیتے ہیں۔
مجھ سے پیسے وہ لے لیتے ہیں۔ کہتے تھے کہ کمپنی کا ہوگا تو محکمے والے تنگ نہیں کریں گے۔ سات بچیاں ہیں۔ چار کی شادی کردی ہے تین باقی ہیں۔ مانگتا نہیں ہے کبھی۔ تنگی ہے گھر میں۔ لیکن کبھی مجھ سے بھی نہیں کہتا۔
کہتا ہے فوجی اگر ہاتھ پھیلا دے تو اس کی فوج اور اسکی وردی کی توہین ہوگی۔ بچیاں پڑھ رہی ہیں۔ ساری بچیاں تعلیم یافتہ ہیں۔
میں نے سلام کیا اور وہاں سے چلا آیا۔ دل میں عجیب سی کھلبلی مچی ہوئی تھی۔
دو دن بعد میں صبح ہی اس کے سٹور پر تھا۔ مگر وہ نہ آیا۔ حاجی صاحب آئے تو میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو بولے بخشو بیمار ہے۔ میں نے اس کا پتہ لیا اور اس کے گھر پہنچ گیا۔ گاؤں میں شاید سب سے غریب اور مفلس گھر تھا۔ لوگ اس کو ملنگ فوجی کہتے تھے۔
میں نے گھر کے دروازے پر دستک دی تو اس کی بیٹی نے باہر آکر پوچھا۔ میں نے اپنا تعارف کروایا تو وہ فوراً بولی جی چاچو مجھے پتہ ہے آپ کا۔ اندر آ جائیں۔ میں اندر گیا تو بخشو چارپائی پر تھا اور اس کے سر پر پٹی بندھی تھی۔ ٹانگ اور جسم بھی زخمی تھے اور بخار بھی تھا۔ میں نے پوچھا تو کہنے لگا۔۔ سر مجھے بھیک راس نہیں آتی کبھی بھی۔ آپ سے مل کر واپس جا رہا تھا تو کچھ لڑکوں نے لوٹ لیا۔ مارا بھی بہت اور پھر باندھ کر جھاڑیوں میں پھینک گئے۔ بھلا ہو ایک پیزے والے رائیڈر کا جس نے مجھے گھر پہنچا دیا۔
میں نے اس کو اٹھایا۔ گاڑی میں ڈالا ہسپتال لے گیا۔ علاج شروع ہوا تو پتہ چلا کہ چاقوؤں کے گھاؤ تھے۔ جسم میں زہر پھیل گیا تھا۔ ہلدی لگا کر علاج ہو رہا تھا کیونکہ پیسے نہیں تھے۔
اسکی حالت بگڑتی گئی اور تین دن میں بخشو 
اللہ کو پیارا ہو گیا۔
پتہ نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا بخشو کے ساتھ ہی کیوں ہونا تھا؟
اللہ پاک نے اسکی بچیوں کو باپ کی جگہ ایک چاچو جان تو دے دیا مگر میں اب بھی بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ کہیں اس کا قاتل میں ہی تو نہیں۔ نہ میں اس کو پیسے دیتا نہ وہ لٹتا اور نہ وہ مرتا۔
اللہ پاک کے نظام کو ہم انسان نہیں سمجھ سکتے۔ بس یہ بات یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتا ہے اور ضرورت مند تک اس کا حق پہنچا دیتا ہے۔ آپ اپنے رب سے رابطے میں رہیں وہ خود آپ کو مستحق تک پہنچا دے گا۔
عید پر خاموش اور سفید پوش لوگوں کے ملنے کی دعا کیا کریں۔ وہ مالک ہے خود ہی رابطے کروا دے گا۔ یقین رکھیں۔ یہی توکل، اصل ایمان ہے۔
Copy Paste

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews