October 16, 2025

TIPPU TRUCKAN WALA, & TEEFI MURDERS Hanif urf Hanifa Baba Part-2




 Mehdi Bukhari 

اندرون لوہاری گیٹ میں واقع سُوتر منڈی گلی سے جرم کی دنیا کے دو مشہور قاتل اُبھر کر سامنے آئے جن کے چرچے لاہور گینگ وار کے دوران رہے۔ ان کی دہشت نے بلا ٹرکاں والا اور اس کے بیٹے ٹیپو ٹرکاں والا کو بھی متاثر کر رکھا تھا۔ بلآخر ان دونوں کے ہاتھوں ہی بلا ٹرکاں والا قتل ہوا۔ اس کے بارے میں ایک روز قبل لاہور گینگ وار پر لکھی تحریر میں بتا چکا ہوں۔ حنیف عرف حنیفہ اور شفیق عرف بابا۔ 

یہ دونوں سگے بھائی تھے۔ یہ دونوں بھائی پہلے پیشے کے اعتبار سے راج مستری تھے اور ایسے راج مستری جو اپنی مہارت میں کافی مشہور تھے۔ ان کی اور بھی عجب شہرت تھی۔ حنیفہ کو سوتر بازار اندرون کے لوگ حاجی صاحب پکارتے تھے اور لوگ اس کی عزت بھی کرتے تھے۔ اس نے چار حج کر رکھے تھے اور سر پر ہر وقت نمازیوں والی ٹوپی بھی رکھتا تھا۔ حنیفہ اور بابا کی ماں نیک چلن عورت تھی۔ اس کے بارے مشہور ہے کہ وہ روز علیٰ الصبح سوتر والی گلی سے ننگے پاؤں چلتی ہوئی داتا دربار حاضری دیتی اور پھر وہاں سے نکل کر کربلا گامے شاہ پر لگے علم پر اگربتیاں سلگانے چلی جاتی۔ جب تک ان کی ماں زندہ رہی یہ دونوں بھائی بڑی بڑی مصیبتوں سے بچ نکلتے رہے۔ یہ روائیتی بریلوی سنی خاندان تھا لیکن اندرون لاہور کا مذہبی کلچر شیعہ سُنی کی تفریق سے آزاد تھا۔

ایک بار حنیفہ ظہیر عرف ہانڈا نامی بدمعاش کے قتل کے الزام میں بند تھا۔ اس نے منت مانی کہ اگر میں محرم سے پہلے رہا ہو گیا تو دس محرم کے جلوس پر زنجیر زنی کروں گا۔ وہ محرم سے پہلے ضمانت پر چھوٹ گیا۔ اندرون لاہور کے لوگوں نے دیکھا کہ حاجی صاحب نے دس محرم کو زنجیر زنی کی۔ 

شہرت کے ساتھ ان دونوں کا کردار بھی منفرد تھا۔ یہ ذاتی دشمنی میں اور اجرت پر قتل کرنے میں تو بے رحم تھے مگر بچوں اور عورتوں کے بارے بہت حساس تھے۔ مثلاً دو مقام پر دلچسپ واقعات ان کی ذات کے بارے سامنے آتے ہیں۔ جن دنوں یہ دونوں بھائی بلا ٹرکاں والا اور ٹیپو ٹرکاں والا کو مارنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ ایک دن پلان فائنل کر کے یہ ان باپ بیٹا کو مارنے کار پر نکلے۔ شاہ عالم چوک میں بلا اور ٹیپو عین سڑک پر کھڑے تھے۔ بلے نے اپنا نو ماہ کا پوتا ٹیپو کا بیٹا امیر بالاج اُٹھا رکھا تھا۔ یہ دونوں کاشنکوف لیے گاڑی سے یکدم باہر نکلے۔ انہوں نے اسلحہ تانا۔ بلے اور ٹیپو کو موت سامنے کھڑی نظر آئی۔ اچانک شفیق عرف بابا نے حنیفہ کو آواز دی “ اوئے بچہ نال اے، چل چلئیے”۔ اور پھر دونوں نے جاتے جاتے بلے کو مخاطب کر کے کہا “ اسی بچے نوں نئیں ماردے۔ اج جی لے۔ فیر ملاں گا۔”۔ یوں بالاج کی معصومیت نے اپنے باپ اور دادا کی جان بچا لی تھی۔

دوسرا واقعہ اس طرح کا ہے کہ لاہور کے ایک اور مشہور ڈان ارشد امین چوہدری کو قتل کرنے کے ارادے سے جیسے ہی دونوں بھائی آئے ۔ گلی میں سائیکل چلاتے بچے نظر آئے۔ سامنے ان کا دشمن ارشد امین نہتا کھڑا تھا۔ یہ دونوں بچوں کی موجودگی کے سبب اس کی جان بخشی کرتے اسے چھوڑ کر وہاں سے بھاگ گئے۔ ارشد امین کو انہوں نے کچھ عرصہ بعد قتل کر دیا تھا۔ 

حنیفہ اور بابا تعمیر اور تخریب (قتل) دونوں سے شناسا تھے۔ ان کرداروں کو سمجھنے کے لیے ان کا بیک گراؤنڈ سمجھنا ضروری ہے۔ ان کا والد عیدو پہلوان تھا۔ اندرون لاہور میں پہلوانی کا کلچر تھا۔ عیدو پہلوان کی ایک چھوٹی سی بیکری شاپ تھی جو مقامی گلیوں میں مشہور تھی۔ آج سے چھتیس سال پہلے ایک دن عیدو پہلوان غائب ہو گیا۔ اس کا معلوم نہیں ہو سکا کہ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ یہ دونوں بھائی باپ کے بعد مالی تنگی کا شکار ہو گئے۔ بیکری بند ہو گئی۔راج مستری کی مزدوری سے گزارا نہ ہوا تو انہوں نے اجرت پر بدمعاشی کا آغاز کیا۔ کسی سیٹھ کے کہنے پر سیٹھ کے قرضدار سے قرض نکلوانا ہو یا کہیں دکان مکان پر قبضہ کرانا ہو وغیرہ جیسے کام بھی کرنے لگے۔ اور پھر یہ بلا ٹرکاں والا کے اڈے پر بیٹھنے لگے۔ بلا ٹرکاں والا کا ان کے والد عیدو پہلوان سے پہلوانی کے سبب بہت اچھا دوستانہ بھی تھا۔ بلے نے ان کو منہ بولا بیٹا بنا لیا۔اور ان سے اپنے کام نکلوانے لگا۔یہ دونوں بھائی ٹیپو ٹرکاں والا کو بھائی کہتے تھے اس کی ہر بات پر عمل کرتے تھے۔ 

گینگ وار والی تحریر میں باقی کہانی لکھ چکا ہوں کہ کیسے ان دونوں کی ٹرکاں والا خاندان سے دشمنی پیدا ہوئی اور ایک دن انہوں نے بلا ٹرکاں والا کو قتل کر دیا اور کیسے گوگی و طیفی بٹ کے ہاں بلے کو قتل کرنے کے بعد انہوں نے پناہ لی اور پھر ٹیپو پر قاتلانہ حملے شروع کیے جن میں ٹیپو بچ نکلتا رہا اور ان کے حملوں سے زچ ہو کر وہ فیملی سمیت دبئی منتقل ہو گیا۔ 

ٹرک اڈے پر بیٹھے ایک دن ظہیر عرف ہانڈا نامی بدمعاش سے ہنسی مزاق میں بات شروع ہوئی اور پھر گالی کے سبب اس نہج پر پہنچی کہ حنیفہ نے کھڑے کھڑے طیش میں آ کر ہانڈا کا قتل کر دیا۔اس کا ذکر اوپر کر چکا ہوں۔ بلے ٹرکاں والے نے پولیس اور کچہری میں اثر و رسوخ استعمال کر کے اس کی ضمانت کرا لی۔ کچھ عرصے بعد بابا اور حنیفہ نے ایک عورت کے بھائی کا قتل کیا جو ان کی بہن سے لڑ پڑی تھی۔ حنیفہ اور بابا کی ایک بہن بھی تھی۔ اس کی کسی بات پر ایک عورت سے منہ ماری ہو گئی۔ ان دونوں بھائیوں نے گلشن راوی میں اس عورت کے گھر جا کر اس کے بھائی کا قتل کر دیا کیونکہ بھائی ان سے الجھ پڑا تھا۔اس کے بھائی کو قتل کرنے کے بعد عورت کو یہ کہہ کر چلے گئے “ ہم عورت ذات کو نہیں مارتے ورنہ آج بھائی کی جگہ تیری لاش پڑی ہوتی۔”۔ اس مقدمے میں حنیفہ نے سات ماہ جیل کاٹی اور پھر سیاسی آشیرباد کے طفیل سے باہر آ گیا۔ لاہور میں ایک سیاسی شخصیت نے اس کا مقتول خاندان کے ساتھ راضی نامہ اور معافی نامہ کروا دیا تھا۔اس سیاسی شخصیت کا نام نہیں لکھوں گا وہ آج بھی پاور میں ہیں اور نام لکھنے سے مسئلہ ہو سکتا ہے۔ 

بلا ٹرکاں والا کو قتل کرنے کے بعد یہ دونوں فرار ہو کے لنڈی کوتل چلے گئے جہاں بدنام زمانہ گینگسٹر بھولا سنیارا نے اپنا اڈہ بنا لیا ہوا تھا۔ وہ علاقہ غیر تھا۔ کچھ عرصہ یہ اس کے مہمان رہے۔ اگلے پانچ سال انہوں نے ٹیپو کو قتل کرنے کی کاوشوں میں لگائے۔ تین بار اس پر حملے کیے۔ انہوں نے مشہور ڈان ارشد امین چوہدری کو بھی قتل کیا جو محمد خان جونیجو سابقہ وزیراعظم پاکستان کا دوست تھا۔جونیجو صاحب جب لاہور ہوتے وہ ارشد امین کے ساتھ ہی پائے جاتے تھے۔ حنیفہ اور بابا نے تاجروں سے بھتہ خوری کے ساتھ اجرتی قاتلوں کا بھی کردار ادا کیا۔ مجموعی طور پر انہوں نے تیرہ قتل کئیے۔ ان کو سیاسی لوگوں کی پشت پناہی حاصل رہی۔ ان کے پولیس افسران کے ساتھ تعلقات بنے۔ اور ان کا انجام بھی ایک ایسے پولیس افسر کے ہاتھوں ہوا جس کے بارے پولیس کی اپنی رپورٹ ہے کہ وہ دبئی میں حنیفہ اور بابا کے ساتھ کچھ کاروباری معاملات میں انویسٹر تھا۔ انسپکٹر نوید سعید۔

ہوا پھر یوں کہ شاہ عالم مارکیٹ، اندرون لاہور کے تمام بازاروں کے انجمن تاجران کے صدور ایک بار جمع ہو کر اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو ملتے ہیں اور ان سے حنیفہ اور بابا کے خاتمے کی درخواست کرتے ہیں۔ تاجر برداری ان دونوں کی بھتہ خوری اور قتل و غارت سے تنگ آ چکی تھی۔ ملاقات کے بعد فوری طور پر ایک ٹیم بنائی جاتی ہے ایس ایس پی لاہور ملک احمد رضا طاہر کو کہا جاتا ہے حنیفہ اور بابا زندہ یا مردہ جیسے بھی ہو پکڑو۔ انسپکٹر نوید سعید کی رپوٹیشن پولیس مقابلہ کرنے میں بہت اچھی تھی ( یا خراب تھی جو بھی آپ کہنا چاہیں)۔ اس کو یہ ٹاسک دیا جاتا ہے۔ حنیفہ اور بابا مفرور تھے اور کراچی میں تھے۔ پولیس کو ان کی مخبری ہو جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے مخبری کرنے والا ٹیپو ٹرکاں والا تھا۔ اور ٹیپو کو بتانے والا حنیفہ اور بابا کا جگری یار منظر داؤد تھا جو خود گینگسٹر اور حنیفہ کا ساتھی تھا مگر اس نے پیسوں کے لالچ میں ٹیپو ٹرکاں والا کو انفارمیشن دے دی تھی۔

انسپکٹر نوید لاہور سے ٹیم لے کر کراچی پہنچتا ہے۔ حنیفہ کے ٹھکانے پر چھاپہ مارتا ہے۔ اس وقت بابا وہاں موجود نہیں ہوتا۔ لیکن حنیفہ پکڑا جاتا ہے۔ اسے فلائٹ سے لاہور لایا جاتا ہے۔ لاہور ائیرپورٹ پر حنیفہ کو لینے دیگر پولیس افسران موجود ہوتے ہیں۔ تین دن حنیفہ کو انارکلی تھانے کی حوالات میں رکھا جاتا ہے۔ چوتھے دن انسپکٹر نوید اسے نکالتا ہے۔ گاڑی میں ڈال کر لاہور کے اطراف کالا خطائی کے مقام پر لے جاتا ہے۔ اگلے روز تمام قومی اخباروں میں شہہ سرخی لگتی ہے

“بدنام زمانہ اجرتی قاتل اور بھتہ خور حنیف عرف حنیفہ پولیس مقابلے میں ہلاک۔” 

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق حنیفہ کو 108 گولیاں لگیں۔انسپکٹر نوید کی ٹیم نے اسے بھون کر رکھ دیا تھا۔سوتر منڈی لوہاری گیٹ کی مساجد سے حنیفہ کے جنازے کے اعلانات ہوئے۔ “ حاجی حنیف ولد عیدو پہلوان قضائے الہیٰ سے انتقال فرما گئے ہیں”۔ حنیفہ کے جنازے پر ہزاروں لوگ تھے۔ اندرون لاہور کا بڑا جنازہ تھا۔

حنیفہ کے بھائی شفیق عرف بابا نے انسپکٹر نوید پر پانچ بار قاتلانہ حملہ کیا۔ دو بار انسپکٹر نوید کو گولیاں لگیں مگر دونوں بار وہ بچ گیا۔ بابا نے اپنی پسند سے شادی کی تھی۔ اس کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی۔ انسپکٹر نوید بابا کی کمزوری جان گیا تھا۔ اس نے سول اہلکاروں کی بابا کی رہائش کے باہر فیلڈنگ لگا دی۔ ایک دن بابا کی بیوی گھر سے نکلتی ہے۔ ریلوے سٹیشن جاتی ہے اور کراچی جانے والی ٹرین پر سوار ہو جاتی ہے۔ وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ اس کا کوئی پیچھا کر رہا ہے۔ 

ٹھیک دو روز بعد انسپکٹر نوید کراچی میں ایک جگہ چھاپہ مارتا ہے۔ بابا پکڑا جاتا ہے۔ اس کو گاڑی میں جیسے ہی ڈالا جاتا ہے انسپکٹر نوید اسے چھ گولیاں گاڑی میں ہی مار دیتا ہے۔ مردہ بابا لاہور لایا جاتا ہے۔ لاش مردہ خانے بھیجی جاتی ہے۔ اگلے روز اخباروں میں وہی خبر چھپتی ہے جو حنیفہ کی باری چھپی تھی۔ جنازہ بھی ویسا ہی بڑا ہوتا ہے۔ 

حنیفہ اور بابا کی قبریں میانی صاحب قبرستان میں ساتھ ساتھ ہیں۔ سنہ 2003 میں انسپکٹر نوید کو پولیس سروس سے کرپٹ پریکٹسز کے الزام میں برخاست کر دیا گیا۔ دو سال بعد گیارہ نومبر سنہ 2005 کو انسپکٹر نوید سعید کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ انسپکٹر نوید نے دوران سروس پچاس جعلی پولیس مقابلے کئیے تھے۔اس نے بدنام زمانہ گینگسٹرز کو پار لگایا تھا جن میں حنیفہ اور بابا کے علاوہ ہمایوں گجر، ناجی بٹ، ثنا گجر اور کالی شامل ہیں۔ اس کا قاتل آج تک نامعلوم ہے۔

written by Mehdi Bukhari 

Pakistan & Afghanistan Relations


"افغانستان"
جاوید چودھری 

لاہور میں میرے ایک دوست تھے، وہ افغانستان سے آئے تھے لہٰذا ہم انھیں افغان بھائی کہتے تھے، قالینوں کا کاروبار کرتے تھے اور ارب پتی تھے، ان کے پاس تیس چالیس ملازم تھے لیکن ان میں ایک بھی افغان نہیں تھا، دو تین کو چھوڑ کر سارے پنجابی تھے، میں نے ان سے ایک دن پوچھا "افغان بھائی آپ خود نیم روز سے ہیں لیکن آپ نے اپنے گھر اور دفتر میں کوئی افغان ملازم نہیں رکھا، آپ کے چوکی دار تک بلوچ ہیں۔

اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟" افغان بھائی نے مسکرا کر جواب دیا " ہم افغان فطرتاً اچھے لوگ ہیں لیکن ہمیں وفادار رکھنے کے لیے آپ کا امیر یا طاقتور ہونا ضروری ہے" وہ تھوڑی دیر رک کر بولے "افغان کی فطرت ہے یہ آپ کے ساتھ لالچ سے رہے گا یا پھر خوف اس کی بنیاد ہوگی، یہ برابری یا عزت کی وجہ سے کبھی آپ کے ساتھ نہیں رہتا، آپ انھیں دبا لیں یا پھر خرید لیں یہ آپ کے ساتھ چلتے رہیں گے مگر جس دن آپ کے پاس یہ دونوں ٹولز نہیں ہوں گے اس دن یہ آپ کا گلہ کاٹ دیں گے اور یہ اس وقت آپ کی ساری نیکیاں فراموش کر دیں گے" ان کا کہنا تھا آپ کو اگر دوست یا ملازم چاہیے تو آپ پنجابی کا انتخاب کریں، یہ آپ کو مشکل وقت میں اکیلا نہیں چھوڑے گا" میں نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور بات بدل دی، میرا خیال تھا افغان بھائی پنجاب میں سیٹل ہیں اور ہم پنجابیوں سے بات کر رہے ہیں چناں چہ یہ ہلکا پھلکا مکھن لگا رہے ہیں لیکن آپ یقین کریں جب سے افغانوں کا نیا چہرہ میرے سامنے آیا مجھے افغان بھائی کا ایک ایک لفظ یاد آ گیا۔

پاکستان نے افغانستان کے لیے کیا کیا نہیں کیا؟ ہم نے 80 کی دہائی میں افغانوں کے لیے اپنے سارے گیٹ کھول دیے اور ان دروازوں سے 50 لاکھ افغان پاکستان آ گئے، پاکستان نے انھیں پورے ملک میں آباد ہونے اور کاروبار کی اجازت دے دی، اس کے تین نتائج نکلے، پاکستان کا کلچر بدل گیا، ہم لبرل لوگ تھے، ہم مذہبی شدت پسند ہو گئے، دوسرا ملک میں کلاشنکوف اور منشیات آ گئیں اور اس نے ہماری تین نسلیں برباد کر دیں اور پاکستان میں بے روزگاری میں اضافہ ہوگیا، کوئٹہ، پشاور اور کراچی کبھی پرامن اور صاف ستھرے شہر ہوتے تھے، لوگ چھٹیاں منانے وہاں جاتے تھے لیکن آج آپ ان کی حالت دیکھ لیں، یہ افغانوں کی مہربانی ہے۔

دوسرا افغان جنگ کی وجہ سے ہمارے اسکولوں کا سلیبس تبدیل ہوگیا، پاکستان میں اسلامیات اور مطالعہ پاکستان اسکولوں میں لازمی ہو گئے اور ان کا سلیبس امریکا میں تیار کیاگیا تھا اور اس میں افغان طالع آزماؤں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا، اسلامیات میں بھی جہاد کی آیات اور احادیث شامل کی گئیں، مسجدوں کے اماموں کو بھی جہاد کی ترویج اور فرقہ پرستی پر لگا دیا گیا چناں چہ آپ آج کا پاکستان دیکھ لیں، تاریخ میں محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور احمد شاہ ابدالی کا کیا کردار تھا، یہ لوگ ہندوستان کیا لینے آتے تھے اور اسلام کے ساتھ ان کا کیا تعلق تھا؟ ہمیں ماننا ہوگا یہ طالع آزما تھے اور یہ ہر سال ہندوستان کو لوٹنے آتے تھے لیکن یونیورسٹی آف نبراسکا نے انھیں 1980میں اسلامی دنیا کے عظیم ہیرو بنا دیا اور ہماری نئی پود نے یہ "نیونارمل" تسلیم کر لیا لہٰذا آپ آج اس جعلی تاریخ کا نتیجہ دیکھ لیں، امریکا نے پروپیگنڈے سے افغانوں کویہ یقین بھی دلا دیا تھا تمہیں آج تک کوئی فتح نہیں کر سکا۔

یہ سراسر جھوٹ تھا، افغانستان کسی بھی دور میں آزاد نہیں رہا تھا، اشوکا سے لے کر امریکا تک یہ ہر دور میں کسی نہ کسی بیرونی طاقت کا مفتوح رہا اور اس وقت تک رہا جب تک کسی دوسرے نے اس پر قبضہ نہیں کیا، آپ تاریخ پڑھ لیں، کیا یہ آشوک، یونانیوں، منگولوں، ازبکوں، ایرانیوں، ترکوں، سکھوں، انگریزوں، روسیوں اور امریکیوں کے زیرتسلط نہیں رہے، حدتو یہ تھی سیالکوٹ کے ایک راجہ منندر عرف ملند نے بھی انھیں فتح کر لیا تھا، اس کی حکومت بھی کابل تک تھی، یہ افغان راجہ رنجیت سنگھ کا مقابلہ بھی نہیں کر سکے تھے، وہ بھی 31 سال خیبر پاس پر قابض رہا اور افغانوں نے چوں تک نہیں کی۔ "افغان ناقابل تسخیر ہیں" یہ فارمولہ بھی پاکستان اور یونیورسٹی آف نبراسکا نے ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے دیا تھا اور انھوں نے اسے سچ مان کر دنیا میں اپنے واحد دوست اور محسن پاکستان پر ہی حملے شروع کر دیے۔

طالبان کون ہیں؟ یہ پاکستان میں پرورش پانے والے افغان ہیں، ہم نے انھیں 1980کی دہائی میں پناہ اور تعلیم دونوں دیے، یہ 1994 میں بھی پاکستان کی مدد سے اقتدار میں آئے تھے اور 2021میں بھی پاکستان ہی انھیں دوبارہ اقتدار میں لے کر آیا اور دونوں مرتبہ ان کے ہاتھوں ذلیل ہوا، پاکستان نے نائین الیون کے بعد انھیں 20 سال دنیا بھر سے بچا کر رکھا تھا، یہ کوئٹہ، کراچی اور راولپنڈی میں پاکستان کی پناہ میں رہے اور پاکستان نے ہی انھیں امریکا کے انخلاء کے بعد کابل کا تخت پیش کیا اور آپ آج اس کا نتیجہ دیکھ لیں، آپ طالبان کے وزیرخارجہ امیر متقی کی مثال لے لیں، یہ خاندان سمیت 1980 میں پاکستان آئے۔

آج بھی کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں ان کی اربوں روپے کی پراپرٹی ہے، یہ کاروباری لوگ ہیں، انھوں نے پاکستان سے کھربوں روپے کمائے لیکن آج یہ بھارت میں کھڑے ہو کر آزاد کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے رہے ہیں اور پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں، یہ کیا ہے؟ کیا اسے محسن کشی نہیں کہا جائے گا؟ دوسرا پاکستان نام نہاد ہی سہی لیکن مسلمان ملک ہے جب کہ بھارتی بت پرست اور مشرک ہیں لیکن آج طالبان مسلمان اور محسن پاکستان کو چھوڑ کر مشرکین کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہ خود کو مومن بھی قرار دے رہے ہیں، یہ بھی کیا ہے؟

افغانستان کا اقتدار اس وقت 35 گورنرز، وزراء اور کمانڈرز کے ہاتھ میں ہے، ان میں سے 22 پاکستان کے ساتھ ہیں، ان کا خیال ہے ہم ہر مشکل گھڑی میں پاکستان میں پناہ لیتے ہیں، ہم نے اگر اسے ناراض کر دیا تو ہم کل کہاں جائیں گے جب کہ باقی 13 پاکستان کے سخت مخالف ہیں اور بدقسمتی سے یہ اس وقت فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں، آپ یہ جان کر حیران ہوں گے یہ 13 طالبان لیڈر بھی برس ہا برس پاکستان میں رہے اور پاکستان نے جی جان سے ان کی حفاظت کی، طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوانزادہ ہیں، یہ 1979 میں خاندان سمیت کوئٹہ شفٹ ہوئے اور 1996 تک کوئٹہ میں رہے، تعلیم بھی پاکستانی مدارس سے حاصل کی، یہ 2001 میں دوبارہ کوئٹہ میں پناہ گزین ہوگئے اور پاکستان نے انھیں دوبارہ 20 سال دنیا بھر سے چھپا کر رکھا لیکن یہ اس وقت پاکستان کے دشمن نمبر ون ہیں، یہ بھارت اور امریکا دونوں سے ڈالر وصول کرتے ہیں اور پاکستان پر حملوں کی اجازت دیتے ہیں۔

صدر ابراہیم طالبان کے نائب وزیر داخلہ ہیں، اصل وزیر داخلہ سراج الدین حقانی ہیں لیکن پاکستانی ہمدرد ہونے کی وجہ سے سپریم کمانڈر نے ان کے اختیارات سلب کرکے صدر ابراہیم کو دے دیے ہیں، یہ بھی پاکستان کے سخت مخالف ہیں، ان کی زندگی کا بڑا حصہ پشاور میں گزرا اور پاکستان نے ان کی میزبانی کی، ملا عبدالغنی برادر نائب وزیراعظم ہیں، انھوں نے ملاعمر کے ساتھ مل کر طالبان تنظیم بنائی تھی، یہ 21 سال کوئٹہ میں رہے لیکن یہ بھی آج انڈین اور امریکن نواز ہیں اور پاکستان سے نفرت کرتے ہیں۔

ملا یعقوب ملا عمر کے بڑے بیٹے جب کہ طالبان کے وزیر دفاع اور ڈپٹی کمانڈر ہیں، یہ بھی طویل عرصہ کوئٹہ میں رہے لیکن آج یہ بھی ہمارے مخالف ہیں جب کہ ان کا ذاتی کردار یہ ہے ڈاکٹر ایمن الظواہری سراج الدین حقانی کے گھر میں رہتے تھے، ملا یعقوب نے دوحا میں امریکیوں کو بتا دیا اور امریکا نے 31 جولائی 2022کو ڈرون حملے کے ذریعے انھیں مار دیا، کابل میں لوگ بتاتے ہیں ملایعقوب نے اس "وفاداری" کا بھاری معاوضہ وصول کیا، ملا عبدالحق واثق طالبان کے انٹیلی جنس چیف ہیں، یہ گوانتانا موبے میں قید تھے، ان کی رہائی میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا لیکن یہ بھی اب را کے ذریعے بی ایل اے کو ٹریننگ دے رہے ہیں اور اس کی حفاظت کر رہے ہیں، ملا محمد زئی ہلمند، قندہار اور نیم روز میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے کیمپس کے نگران ہیں، یہ بہرحال جلاوطنی کے زمانے میں ایران میں رہے تھے اور ملا عبدالقیوم ذاکر پاک افغان بارڈرز کا کمانڈر ہے۔

یہ قندہاری اور انتہائی سخت مزاج ہے، یہ پکتیا میں ٹی ٹی پی کا البدر ٹریننگ کیمپ چلا رہا ہے، اس نے پاکستان میں انگور اڈہ کے لیے 300، میران شاہ کے لیے 200 اور اسلام آباد، راولپنڈی اور کوئٹہ کے لیے 500 دہشت گرد بھجوائے تھے، پاکستانی اداروں نے اس کی باقاعدہ گفتگو ریکارڈ کی جس میں یہ پاکستان میں ٹارگٹ بتا رہا تھا، قندہار میں اس وقت بھی ملا عمر کے گھر میں 300 خودکش حملہ آور تیار بیٹھے ہیں، ہلمند کا کور کمانڈر ملا شرف الدین تقی افغانستان کے بلوچوں کو بلوچستان میں لڑنے کی تربیت دے رہا ہے جب کہ قندہار اور کابل میں انڈین ماہرین طالبان کو میزائل بنا کر دے رہے ہیں۔

دو تین ماہ میں طالبان پاکستانی طیاروں پر میزائل داغیں گے، اس جنگ میں بھی طالبان نے دو روسی میزائل داغے، یہ انھیں انڈیا نے قابل استعمال بنا کر دیے تھے اور سرحد پار سے یہ خبریں بھی آرہی ہیں ڈاکٹر ایمن الظواہری نے بدخشاں میں روسی ساختہ جوہری بم چھپا رکھے تھے، یہ طالبان کے ہاتھ لگ گئے ہیں اوربھارتی ماہرین انھیں یہ چلانے کی ٹریننگ دے رہے ہیں لہٰذا اب پیچھے کیا رہ گیا؟

پاکستان کے پاس اب لڑنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ورنہ طالبان انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کو تباہ کر دیں گے، افغانستان تاریخ کے کسی بھی حصے میں آزاد نہیں رہا، یہ ہمیشہ کسی نہ کسی عالمی طاقت کے زیر تسلط رہے لہٰذا ان سے نبٹنے کا صرف ایک طریقہ ہے طاقت یا رقم، امریکا رقم دے کر جان چھڑا رہا ہے جب کہ ہمارے پاس طاقت کے سوا کوئی چارہ نہیں، آپ کو ان کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا ورنہ یہ آپ کو بیٹھنے کے قابل بھی نہیں چھوڑیں گے۔

#story 
#columns

Gangestrs Part-2

  لاہور گینگ وار

ذکر تو لاہور گینگ وار میں متحارب دو گروپس سے شروع ہوا تھا۔ طیفی بٹ کے پار لگنے کے بعد ٹرکاں والا اور بٹ خاندان کی دشمنی یاد آ گئی تو لکھ دیا۔ دراصل لاہور گینگ وار تین نسلوں کی داستان ہے۔ اس میں بہت سے بدنام زمانہ کردار ہیں۔ ہر کردار اپنی ذات میں الگ باب ہے۔ یہ جب سب نقطے ملتے ہیں تو ایک مکمل ناول یا مکمل سیریز کا مضمون ہے۔ سیریز بھی چار سے پانچ سیزن پر مشتمل ہو تو ہی انصاف ہو گا۔ یہ فلم کا ٹاپک نہیں۔ تین گھنٹے کی فلم بھی یہ مضمون کور نہیں کر سکتی۔ اس میں اتنے کردار ہیں اور ہر کردار کی کریکٹر بلڈنگ بھی ایسی عجب عجب ہے کہ کریکٹر بلڈنگ کرنے کو طویل رن ٹائم چاہئیے۔ 

سنہ 74 سے لے کر سنہ 2000 تک کے سالوں میں بڑے بڑے گینگسٹر پیدا ہوتے رہے اور مرتے رہے۔ لاہور کو اپنے اپنے علاقوں میں بانٹ رکھا تھا۔ بالکل ویسے جیسے جنگل میں شیر اپنے علاقے کی حدبندی اپنے پیشاب کی دھار سے کرتا ہے۔ کہیں یہ آپس میں کولیبریٹ کر لیتے کہیں دشمن بن جاتے۔ ایک کے مرنے سے جو خلا پیدا ہوتا وہ اس کا بھائی، بیٹا یا دوست پورا کر دیتا اور گینگ چلتا رہتا۔ 

گینگ لاہور کے ہوں یا کراچی کے۔ ان کی پشت پناہی سیاسی جماعتوں کے ممبران نے ہی کی ہے۔ آج بھی بہت سے کردار اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ پاور فل ہیں۔ گینگ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ایک کا خلا دوسرا پُر کرتا جاتا ہے۔ پولیس اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ سے ہی پنپتے ہیں۔ سیاسی آشیر باد سے ہی پروان چڑھتے ہیں۔ باامر مجبوری کالم کا مضمون بھی لمیٹد ہوتا ہے اس میں مکمل تفصیلات نہیں سما سکتیں تو جتنا لکھا جا سکتا ہے لکھ دیتا ہوں اور باامر مجبوری سیاسی لوگوں کے نام نہیں لے سکتا۔ مگر جانتا ہوں اور جب ان سیاستدانوں کے جمہوریت اور نظام اور کرپشن کے خاتمے وغیرہ وغیرہ پر بیانات سامنے آتے ہیں میرا تو ہاسا نکل جاتا ہے۔ 

سکرپٹ لکھنا مشقت طلب سہی لیکن لکھا جا سکتا ہے۔شاید کبھی کوئی سرمائے والا پروڈیوسر بنا ڈالے۔ ہمارے ہاں نیٹ فلکس کے معیار کی سیریز کا رواج بھی تو نہیں پڑا۔ یہ ویب سیریز ہی ہو سکتی ہے کیونکہ اس کی زبان کھلی ہو گی۔ یہ بدمعاشوں کی داستان ہے نیک چلن لوگوں کی نہیں۔ اس کے ڈائیلاگز بھی ویسے ہی ہو سکتے۔ ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والا مواد نہیں۔ اور پھر سو باتوں کی ایک بات کچھ سیاستدانوں کے ہوتے کون ان کا ذکر کرے گا۔ بہرحال ۔۔۔۔ مجھے بھی اپنی جان عزیز ہے۔ زیادہ کا مطالبہ نہ کیا کریں 

Written by

Mehdi Bukhari 

Gangestrs of Pakistan some of them mentioned Part-1



 اپنے وقت کے نوجوان جنھیں ظلم اور زیادتی نے جرم کی راہ پر ڈال  کر بہت بڑا  ڈان بنا دیا۔ 

اس وقت میری عمر ہو گی انیس بیس سال۔ سیالکوٹ شہر کے بیچوں بیچ حکیم خادم علی روڈ مصروف ترین سڑک ہے۔ اک جانب ماڈل ٹاؤن ہے دوسری طرف نور پورہ، بجلی محلہ ، سبزی منڈی جیسی گنجان آبادیاں ہیں۔ میرا گھر نور پورہ میں واقع تھا۔ ایک روز اہل محلہ میں خبر پھیلی کہ پولیس کا جلوس آ رہا ہے۔ میری عمر کے محلے دار دوست سب بہت جذباتی ہو رہے تھے۔ ہمیں رتی برابر اندازہ نہیں تھا کہ کونسا جلوس، کیسا جلوس اور پولیس کیا کرے گی۔ ہمیں لگ رہا تھا پولیس خادم علی روڈ پر پریڈ کرے گی۔

سڑک پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ سڑک کے دونوں طرف لوگ ہی لوگ تھے۔ ہجوم اُمڈ آیا تھا۔ سب کو پولیس کے جلوس کا انتظار تھا۔ مجھے یاد ہے میں دوستوں کے ساتھ وہیں گپوں میں مصروف تھا کہ پولیس کی گاڑیاں آنے لگیں۔ دو گاڑیوں کے بیچ ایک گدھا گاڑی تھی جو کوڑا کرکٹ یعنی کچرے سے بھری تھی اور اس کچرے کے اوپر ایک لاش تھی جس کے کھلے ہوئے منہ پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ منظر انتہا درجے کا دلخراش تھا۔ یہ کون تھا میں نہیں جانتا تھا۔ اس وقت اتنا معلوم ہوا کہ پولیس نے اس کو مارا تھا اور یہ کوئی خطرناک مجرم تھا۔ اس کی سیالکوٹ شہر میں پریڈ کرائی جا رہی ہے تاکہ لوگ اس کا انجام دیکھ لیں۔ لاش خون آلودہ تھی۔ خون جم چکا تھا۔وہ منظر دیکھ کر مجھے متلی آ رہی تھی۔ مجھ سے تو دیکھا نہیں جا رہا تھا لیکن لوگ پنجاب پولیس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ لوگ خوش تھے۔ پنجاب پولیس کے حق میں نعرے نہ اس سے پہلے کبھی لوگوں سے سنے تھے نہ اس کے بعد آج تک سنے۔ 

بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ ببو خان نامی گینگسٹر تھا۔ مجھے تب معلوم نہیں تھا ببو خان کیا کرتا تھا۔ وہ تو بہت بعد میں پتا چلا۔ لیکن یہاں ذکر ببو خان کے ساتھی اور مشہور زمانہ گینگسٹر بھولا سنیارا کا کروں گا۔ سیالکوٹ سے ببو خان، ہمایوں گجر اور بھولا سنیارا جیسے گینگسٹرز نے جنم لیا جن کی دہشت سے پورا پاکستان لرزتا رہا۔ 

بھولا سنیارا سیالکوٹ میں واقع گلی سالو گجر میں دکان کرتا تھا۔ اس کا والد سنیارا تھا۔یہ ایک عام سا نوجوان تھا جو اپنے باپ کے ساتھ سونے کے زیورات کا کام دیکھتا تھا۔ ہاں، اس کا ایک دوست ببو خان تھا جو چھوٹا موٹا چور تھا۔ ببو خان کراچی چلا گیا تھا۔ وہاں وہ لوگوں کے گھروں سے سونا یا زیورات چوری کرتا۔ طریقہ واردات اس کا یہ تھا کہ ونڈو اے سی (اس زمانے میں ونڈو اے سی ہوا کرتے تھے) کو دھکا دے کر پھینکتا اور اس سوراخ سے گھر میں داخل ہو جاتا۔ کراچی اس کے لیے بہترین تھا کیونکہ اے سی کراچی جیسے بڑے شہر میں ہی لگتے تھے اور امیر لوگ ہی افورڈ کیا کرتے تھے۔ چوری شدہ زیورات وہ کراچی سے لا کر بھولا سنیارا کو چوری کے بھاؤ بیچ جاتا۔اس طرح بھولا سنیارا کی آمدن بھی کافی ہوتی تھی۔ کہا جاتا ہے اس کا باپ بھولا کے ان کارناموں سے لاعلم تھا۔ ببو خان ابتداء میں چوری چکاری ہی کرتا اور بھولا سنیارا بھی وہی کچھ کرتا جو لالچ میں سنیارے کرتے ہیں۔ 

سنہ 1978 میں سیالکوٹ میں اس وقت کے ممبر قومی اسمبلی میاں مسعود احمد نے پانچ تولے سونا بھولا سنیارا کے والد کے پاس نقش نگاری یا ڈیزائن کی تبدیلی کے لیے بھجوایا۔ بدقسمتی سے اسی رات دکان میں چوری ہو گئی۔ چور سارا سونا لے گئے۔ میاں مسعود احمد کو یہ شک تھا کہ دکان میں چوری انہوں نے خود کرائی ہے۔ بات پہلے توں تڑاں تک پہنچی۔ اس کے بعد اگلے دن میاں مسعود نے بھولا سنیارا کے والد پر چوری کا پرچہ کٹا دیا۔اس وقت بھولا سنیارا کی عمر انیس برس تھی۔ پولیس کیس ہوا تو اس کے باپ کو حوالات کی سیر کرنا پڑی۔ بعد ازاں اسے تین سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ ایک دفعہ بھولے کی ماں کھانا لے کر جیل گئی تو ایک پولیس اہلکار نے اسے پیچھے ہٹانے کے لیے دھکا دے دیا۔ اس کی ماں کا جھٹکے سے پاؤں پھسل گیا۔ گرتے ہوئے اس کا سر دیوار سے ٹکرایا اور وہ موقع پر انتقال کر گئی۔ 

بھولا سنیارا یہ صدمہ برداشت نہ کر سکا۔ وہ معافی تلافی کرنے اور اپنے باپ کو جیل سے باہر نکلوانے کی خاطر اپنے ساتھ ایک دوست شیخ قیصر کو لے کر ایم این اے میاں مسعود کے قریبی سمجھے جانے والے  پپو بٹ کے پاس جاتا ہے تاکہ وہ اسے میاں مسعود سے ملوا دے ۔ پپو بٹ خود کن کٹا تھا اس نے سمجھا یہ حملہ کرنے آیا ہے۔ بٹ نے فائر مار کر شیخ قیصر کو ہلاک کر دیا اور بھولا سنیارا زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ گیا۔ ابھی وہ ہسپتال میں تھا کہ خبر ملی اس کا باپ بھی جیل میں ہارٹ اٹیک سے چل بسا ہے۔ جب وہ تندرست ہوا تو اس نے بدلہ لینے کا اعلان کرتے میاں مسعود کو قتل کرنے کا اعلان کر دیا۔ کاروبار ختم ہو چکا تھا۔ اس نے جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔ دو ماہ کے اندر اس نے 35 ڈکیتیاں کیں جن میں اس نے تین لوگ مار ڈالے۔ 

بھولا سنیارا کے ڈر سے میاں مسعود پندرہ سے زائد گارڈز اپنے ساتھ رکھنے لگا۔ ایک روز وہ اسلام آباد قومی اسمبلی کے اجلاس سے واپس سیالکوٹ آ رہا تھا بھولے نے حملہ کر دیا۔ اس حملے میں وہ خود تو محفوظ رہا لیکن چار گارڈز مارے گئے اور پانچ شدید زخمی ہو گئے۔ اس حملے کے بعد بھولا فرار ہو کر گوجرانوالہ چلا گیا جہاں اس نے ہمایوں گجر کے پاس پناہ لے لی۔ ہمایوں گجر بھولا سنیارا کے پھپھو کا بیٹا تھا۔ اس کا شمار بھی پنجاب کے ٹاپ ٹین گینگسٹرز میں ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت تک ہمایوں گجر جرم کی دنیا میں داخل نہیں ہوا تھا۔ پولیس نے اس کی تلاش میں بہت چھاپے مارے لیکن وہ کامیاب نہ ہو پائی۔ 

ایک سال بعد نارووال میں ایک شادی پر ایم این اے میاں مسعود موجود تھا۔ بھولے نے ہمایوں گجر کے ہمراہ حملہ کر دیا۔ میاں مسعود اپنے چار بیٹوں سمیت قتل ہو گیا۔ اس کے بعد سیالکوٹ تا لاہور سینٹرل پنجاب میں بھولا سنیارا دہشت کی علامت سمجھا جانے لگا۔ ہمایوں گجر کا نام بھی جرم کی دنیا میں بولنے لگا تھا۔ ایک بار بھولا سنیارا سیالکوٹ میں اپنے والدین کی قبروں پر فاتحہ کے لیے آیا۔ اس کی مخبری ہو گئی۔ پولیس نے گرفتار کر لیا۔ پکڑے جانے کے چوبیس گھنٹوں بعد ہی اس نے حوالات میں پولیس اہلکار سے گن چھین کر پانچ پولیس اہلکار قتل کر دئیے اور فرار ہو گیا۔ فرار ہو کر اس نے ہمایوں گجر کے ساتھ مل کر ہمایوں گجر کے دشمنوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ یہ دونوں گینگ بنا چکے تھے۔ 

پنجاب پولیس نے بھولے کے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے رکھ دی تھی۔ اسی دوران ببو خان بھی چوری چکاری چھوڑ کر اسلحہ لیے ڈکیتیاں کرنے لگا۔ببو خان، ہمایوں گجر اور بھولا سنیارا تینوں دوست تھے۔یہ اب اجرتی قاتل بھی بن چکے تھے۔پنجاب بھر میں سپاری لے کر بندے مارنے کا سلسلہ عروج پر پہنچ چلا تھا۔ عالم یہ ہو چکا تھا کہ سیالکوٹ شہر میں راتوں رات سڑکوں پر بھولا سنیارا اور ببو خان کی جانب سے بینرز لگا دیے جاتے جن میں لکھا ہوتا “ خبردار کوئی سیالکوٹ میں منشیات کا لین دین ہمارے سوا کسی اور سے نہ کرے”۔ اگلے روز پولیس اور بلدیہ وہ بینرز اتار رہی ہوتی۔ اور پھر کوئی بینرز لگا جاتا۔ یہ بینرز والا سلسلہ چلتا رہا۔

ایک بار بھولا قصور میں کسی جگہ موجود تھا۔ مخبری ہو گئی۔ پولیس نے گھیر لیا۔ اس کے پاس جدید اسلحہ تھا۔ تین گھنٹے تک بھولا فائرنگ کرتا رہا۔ اس نے دو ڈی ایس پی افسروں سمیت پانچ پولیس اہلکار قتل کر ڈالے۔ بلآخر اس کی گولیاں ختم ہو گئیں۔ اس نے سرنڈر کر دیا۔ آئی جی پنجاب نے اس کو پار لگانے کا فیصلہ کیا۔ 

پار لگانے کے لیے بھولا سنیارا کو ایک جنگل میں لے جایا گیا۔ وہاں اس کو بھاگنے کا کہا گیا۔ یہ بھاگا۔ اس کو پانچ گولیاں لگیں لیکن معجزاتی طور پر یہ بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے دو سال بعد تک بھولا سنیارا کی کوئی خبر نہ آئی۔ وہ غائب ہو گیا۔ پولیس کو گمان گزرنے لگا کہ شاید بھاگنے کے بعد یہ گولیوں کے زخم سے کہیں مر گیا ہو گا۔ لیکن دراصل وہ بھاگ کر لنڈی کوتل جا چکا تھا جہاں جمرود میں اس نے اپنا ڈیرہ بنا لیا تھا۔ جمرود علاقہ غیر تھا۔ وہاں پولیس کی عملداری نہیں تھی۔ 

لنڈی کوتل اس نے جو قلعہ نما ڈیرہ بنایا وہاں پاکستان بھر کے مفرور پناہ لیتے تھے۔ اس کے تعلقات ٹیپو ٹرکاں والے سے بنے۔ پھر گوگی بٹ نے اسے اپنی جانب کر لیا۔ جمرود میں بیٹھ کر اس نے منشیات کا کاروبار شروع کیا۔ اسلحہ کا کاروبار شروع کیا۔ لاہور گینگ وار میں اس کے گینگ کے لوگ شامل رہے۔ یہ سپاری لیتا تھا۔ اس کو ڈان آف ڈانز کہا جاتا تھا یعنی بدمعاشوں کا بدمعاش۔اور حقیقت بھی یہی تھی۔ کہا جاتا ہے اس نے پاکستان بھر میں بالخصوص پنجاب میں سات سو افراد کا قتل کروایا۔ جمرود سیف ٹھکانہ رہا۔ لیکن آخر کار حکومت پاکستان کا ضبط جواب دے گیا۔ 

پاکستان آرمی کو اس کے خلاف آپریشن کا حکم دیا گیا۔ ملٹری نے بھولا سنیارا کے ڈیرے کا گھیراؤ کیا۔ اس کے گینگ نے راکٹ لانچرز فائر کیے۔ چار گھنٹے تک جمرود میں اس کا ڈیرہ جنگ کا منظر بنا رہا۔ دنیا جہاں کا اسلحہ اس نے چلا دیا تھا۔ اور پھر یہ ملٹری آپریشن میں اپنے گینگ سمیت مارا گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بھولا سنیارا کو نوے گولیاں لگی تھیں۔ 

ببو خان کو گوجرانوالہ میں خواجہ لوسی نامی ایک پہلوان نے فائر مار کر زخمی کر دیا تھا۔ ببو خان اس کو مارنے گیا تھا۔ گوجرانوالہ کا خواجہ لوسی بھی ٹیڑھا بندہ تھا۔ وہ ہر وقت بلٹ پروف جیکٹ پہنے رکھتا تھا۔ ببو خان نے فائر کیا۔ فائر بلٹ پروف جیکٹ نے روک لیا۔ لوسی نے جوابی فائر مارا جس سے ببو زخمی ہو کر بھاگا۔ کچھ دیر بعد پولیس نے ببو کو تلاش کر لیا اور موقع پر ہی پار لگا دیا۔ ببو خان کی لاش سیالکوٹ میں کچرے سے لدی گدھا ریڑھی پر ڈال کر شہر میں گھمائی گئی۔ہمایوں گجر کا خاتمہ انسپکٹر نوید سعید نے کر دیا جس کے بارے میں لاہور گینگ وار کے اہم کرداروں حنیفہ و بابا کے ذکر میں لکھ چکا ہوں۔ 

گینگز آف وسے پور فلم کا اوپننگ ڈائیلاگ ہے” انسان جو ہیں وہ بس دو نسل کے ہوتے ہیں۔ ایک ہوتے ہیں حرامی، دوسرے بیوقوف۔ یہ سارا کھیل ان دونوں کا ہی ہے۔کب کوئی حرامی بیوقوفی پر اُتر آتا ہے اور کب کوئی بیوقوف حرامزدگی کا تالاب بن جاتا ہے، پتا ہی نہیں چلتا۔کوئی انت میں کیا ثابت ہوا وہ الگ بات ہے کم سے کم جیتے جی تو سب اپنے آپ کو پھنے خان ہی سمجھتے تھے۔

Copied 

written by  Mehdi Bukhari 


 

October 13, 2025

TIPPU TRUCKAN WALA, & TEEFI MURDERS







 لاہور انڈر ورلڈ کی داستان۔
کبھی لاہور میں ہر علاقے کا بڑا بدمعاش پہلوان کہلاتا تھا۔پاکستان بننے کے بعد یہ سلسلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہا۔سنہ 1950 کے لاہور میں نتھو نامی کوچوان کا بڑا چرچہ تھا۔ وہ کہنے کو تو صرف تانگہ چلاتا تھا مگر اس کی پہلوان جیسی جسامت سے سب ہی سہمے سہمے رہتے تھے۔ وہ اکثر لوگوں کے جھگڑے نمٹاتا اور اس کا کیا فیصلہ سب ہی کو ماننا پڑتا۔اس کے بعض فیصلوں نے کچھ متاثرہ لوگوں کو اس کا جانی دشمن بنا دیا۔ ایک دن نتھو شاہ عالم چوک سے لوہاری مسجد کے لیے نکلا ، ابھی کچھ دور ہی چلا تھا کہ یکایک اس پر کسی نے خنجر سے حملہ کر دیا۔ پے در پے وار سے نتھو نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑا اور وہیں تڑپ تڑپ کر دم توڑ گیا۔
لاہور انڈر ورلڈ کی داستان۔

کبھی لاہور میں ہر علاقے کا بڑا بدمعاش پہلوان کہلاتا تھا۔پاکستان بننے کے بعد یہ سلسلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہا۔سنہ 1950 کے لاہور میں نتھو نامی کوچوان کا بڑا چرچہ تھا۔ وہ کہنے کو تو صرف تانگہ چلاتا تھا مگر اس کی پہلوان جیسی جسامت سے سب ہی سہمے سہمے رہتے تھے۔ وہ اکثر لوگوں کے جھگڑے نمٹاتا اور اس کا کیا فیصلہ سب ہی کو ماننا پڑتا۔اس کے بعض فیصلوں نے کچھ متاثرہ لوگوں کو اس کا جانی دشمن بنا دیا۔ ایک دن نتھو شاہ عالم چوک سے لوہاری مسجد کے لیے نکلا ، ابھی کچھ دور ہی چلا تھا کہ یکایک اس پر کسی نے خنجر سے حملہ کر دیا۔ پے در پے وار سے نتھو نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑا اور وہیں تڑپ تڑپ کر دم توڑ گیا۔

 نتھو کو دنیا سے گئے کچھ زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ اس کی گدی اس کے بیٹے نے سنبھال لی ۔امیر الدین عرف بلا ۔ وہ باپ سے بھی چار ہاتھ آگے تھا۔ اپنا زور بڑھانے کے لیے بلے نے پولیس افسروں اور بااثر مقامی لوگوں سے دوستیاں بنانا شروع کر دیں۔اس نے ایک پنچائتی ڈیرہ سا بنا لیا تھا جہاں وہ لوگوں کے لین دین کے آپسی تنازعات سیٹل کرتا تھا اور اپنا “کمیشن” بھی دونوں پارٹیوں سے لیتا تھا۔شاہ عالمی مارکیٹ میں اس کے باپ کی دھاک پہلے سے ہی تھی۔ بلے نے یہاں ٹرک گڈز ٹرانسپورٹ کا کام شروع کیا جو پھیلتا چلا گیا۔کہا جاتا ہے اس کام کے لیے ابتدائی طور پر سرمایہ لاہور کے ایک بااثر سیاسی خاندان نے لگایا تھا۔یہیں سے اس کا نام پڑ گیا بلا ٹرکاں والا۔

 بلا ٹرکاں والا نے ساری زندگی پستول اپنی جیب میں نہیں رکھا، وہ اس کا سٹائل ہی نہیں تھا۔یہ کاروباری آدمی بھی نہیں تھا۔ اس کے ٹرک اڈے پر چھوٹے موٹے جرائم پیشہ کن کٹے ٹائپ لوگ جمع ہو کر بیٹھ جاتے تھے۔ بلا ان کو چرس اور دیگر لوازمات پیش کرتا اور یوں اس نے ایک گینگ سا تشکیل دے رکھا تھا۔ بلے کا کام تو  یہ تھا ٹیلی فون پر بیٹھ کر اس کو اٹھا لو اس کو پکڑ لو۔ بسیکلی وہ دکانوں پر قبضہ کرانے میں دلچسپی لیتا تھا منشیات فروش نہیں تھا، جوا نہیں کراتا تھا۔

 ٹرکاں والا خاندان کشمیری ہے جس میں کئی نامی گرامی پہلوان گزرے ہیں ۔ آج ان کا گڈز ٹرانسپورٹ کا بڑا کاروبار ہے ۔ پورے ملک میں ان کے سینکڑوں ٹرکس سامان لیے پھرتے ہیں۔ ٹرکاں والا کا ڈیرہ کیسے اشتہاری مجرموں کی پناہ گاہ بنا،  زمینوں پر قبضے سے لے کر قتل تک جرائم کا کاروبار کیسے پھیلتا چلا گیا۔ یہ داستان ہے لاہور انڈر ورلڈ کی اور بہت سنسنی خیز فلمی داستان ہے۔ بااثر سیاسی لوگوں کی آشیرباد اور پولیس افسران کے گٹھ جوڑ سے لاہور میں دو بڑے گینگ وجود میں آئے جو ایک دوسرے سے اختیار و طاقت کے حصول کے لیے لڑتے رہے۔ مارتے رہے۔ مرتے رہے۔ 

 بلا ٹرکاں والا نے تین دوستوں کو ملا کر ایک گروپ بنایا۔ الیاس جٹ جو فیصل آباد میں پیپلز پارٹی کا رکن اسمبلی تھا۔  پیلا پہلوان جو سونے کے سمگلروں میں ڈان مشہور تھا اور صوبائی اسمبلی کا رکن بھی تھا۔ ایس پی امان اللہ، جعلی پولیس مقابلے میں بندے پھڑکانے میں اس کا بھی کوئی ثانی نہ تھا۔ یہ سب عالم چوک پر بلا ٹرکاں والا کے ڈیرے پر روز محفل لگاتے۔ ایس پی امان اللہ کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ بات بعد میں کرتا تھا بندہ پہلے مار دیتا تھا۔ اب انہوں نے لاہور پر حکومت شروع کر دی۔ ایک یونیورسٹی کھول دی جس میں جرائم کی دنیا کے لوگ پرورش پاتے تھے۔ 

اب بلا لاہور انڈر ورلڈ کا بادشاہ بن چکا تھا۔ہر گینگ اور ہر اشتہاری اس کی صحبت میں تھا۔ شفیق عرف بابا ، حنیف عرف حنیفہ ، اکبر عرف جٹ، ہمایوں گجر اور بھولا سنیارا جیسے بڑے بدمعاش اس کی مٹھی میں تھے۔ یہ سب گینگسٹرز تھے۔ حنیفہ اور بابا دونوں سگے بھائی تھے ۔ بلا ٹرکاں والا ان کو اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتا تھا اور وہ بھی بلے کو ابا کا درجہ دیتے تھے۔ اور وہ اسی طرح پلے بڑھے جیسے بلے کا سگا بیٹا ٹیپو ٹرکاں والا پلا بڑھا۔ بلے کے ایک اشارے پر یہ لوگ سب کچھ کر گزرتے تھے۔ 

ایک روز بابا ، حنیف اور بلے کے سگے بیٹے ٹیپو نے اکبری گیٹ میں ایک رہائشی امیر الدین تارہ والا کو دو دوستوں سمیت قتل کر دیا۔ معاملہ دکان پر قبضے کا تھا۔ پولیس کیس ہوا تو بابا اور حنیفہ کے ساتھ بلے کا بیٹا ٹیپو بھی نامزد ہوا۔یہ تینوں قتل ٹیپو نے فائر کر کے کئیے تھے مگر بلے نے کمال ہوشیاری سے اپنے سیاسی تعلقات کے بل بوتے اپنے بیٹے کا نام کیس سے نکلوا دیا۔ بابا اور حنیفہ سے کہا کہ وہ ابھی اپنا جرم قبول کر لیں بہت جلد انہیں جیل سے وہ چھڑوا لے گا۔ انہوں نے قبول کر لیا۔ لیکن بلا ان کو چھڑوا نہ سکا۔ بابا اور حنیفہ کو سات سال قید ہو گئی۔

 اس موڑ پر یہاں انٹری ہوتی ہے گوالمنڈی کے طیفی بٹ اور گوگی بٹ کی جو ٹرکاں والا خاندان کے سب سے بڑے دشمن مشہور ہیں۔ طیفی اور گوگی آپس میں کزن تھے لیکن دونوں کی جوڑی سگے بھائیوں جیسی تھی۔ یہ ہر وقت ہر جگہ اکٹھے نظر آتے تھے۔ ان کا خاندان گوالمنڈی کا بااثر تاجر خاندان تھا۔ گوالمنڈی فوڈ سٹریٹ لاہور کی پہلی فوڈ سٹریٹ تھی جو انہوں نے بنائی تھی۔اس وقت نواز شریف پنجاب کے چیف منسٹر بنے تھے وہ خود افتتاح کرنے آئے تھے۔یہ خواجہ کشمیری تھے۔ ان کے بڑے بھائی اور بزرگ اکبری منڈی اور گوالمنڈی مارکیٹ کے صدر تھے۔ گوالمنڈی اور شاہ عالمی میں تھوڑا ہی فاصلہ ہے۔

 پنجاب سمیت ملک بھر سے آئے سامان کا لین دین اندرون لاہور کے انہی بازاروں میں ہوتا ہے۔بلا ٹرکاں والا کا گڈز ٹرنسپورٹ کا اڈا تھا۔ بات دراصل علاقے میں چودراہٹ قائم کرنے کے ساتھ منڈیوں پر کنٹرول اور دھاک بٹھانے کی تھی۔ گوالمنڈی کے طیفی اور گوگی بٹ بلا ٹرکاں والے کے سامنے بچے تھے مگر یہ بات انہیں قبول نہ تھی کیونکہ وہ خود کو زیادہ بااثر، پیسے والا اور کھرپینچ سمجھتے تھے۔طیفی اور گوگی بٹ نے سامنے آئے  بغیر بلے کا پتہ صاف کرنے کی ٹھانی۔۔

 بابا اور حنیفہ اپنی سزا بھگت کر باہر آئے تو انہوں نے بلے کے خلاف انہیں خوب بھڑکایا۔ ان دونوں کے دماغ میں یہ بات اچھی طرح اتار دی کہ بلے نے اپنے بیٹے  کو تو بچا لیا مگر تم دونوں کو جیل میں سڑتا چھوڑ دیا۔اگر تم اس کے حقیقی بچے ہوتے تو وہ ٹیپو کی طرح تمہیں بھی مقدمے سے نکلوا لیتا ۔ ٹیپو نے بندہ قتل کیا تھا لیکن وہ جیل نہیں گیا۔ تمہیں اس نے دھوکا دے کر جرم قبول کروا کے جیل بھیج دیا۔ الغرض بابا اور حنیفہ کے سر پر ایک بھوت سوار ہو گیا کہ وہ ہر قیمت پر بلے اور ٹیپو سے بدلہ لینا چاہتے تھے۔ 

طیفی اور گوگی تو ماسٹر پلانر تھے ہی۔ بھولا سنیارا جیسا خطرناک گروہ بھی بلے سے ٹوٹ کر ان کے ساتھ ہو لیا۔ بھولا سنیارا کو بھی بٹوں نے اپنے دام میں پھنسا لیا تھا۔ سنہ 1994 کی ایک صبح جب بلا اپنے ٹرک اڈے پر نماز فجر کی تیاری کر رہا تھا، گھات لگائے بابا اور حنیفہ نے  گولیوں کی برسات کر دی۔ بلا اپنے ہی اڈے پرقتل ہو گیا۔ یہاں سے شروع ہوتی ہے لاہور انڈر ورلڈ کی وہ کہانی جس نے لاہور میں خونی دشمنی کا بازار گرم کر دیا۔

 باپ کی موت نے ٹیپو کو زخمی شیر بنا دیا اور اس نے باپ کے ڈیرے کو قلعہ بنا کر دشمنی کا جواب دینا شروع کر دیا۔اس کے ڈیرے پر درجنوں محافظ ہر وقت آٹومیٹک ہتھیار لیےموجود رہتے۔  ٹیپو ایک پہلوان اور  شیروں کا شوقین تھا۔ اپنے ڈیرے پر  اس نے دس شیر پال رکھے تھے جن کو وہ کھلا ساتھ لیے پھرتا اور ان کو اپنے ہاتھوں سے کھانا اور قلفیاں کھلاتا۔ ٹیپو بالکل انپڑھ تھا۔ اس نے ایک بندہ ملازم رکھا ہوا تھا جو اس کو اخبار پڑھ کے سناتا تھا۔ اس کا ملنا ملانا بہت تھا ۔ جتنے بھی بڑے سے بڑے پولیس آفیسرز تھے اور خاص طور پر جو رینکرز پولیس آفیسرز تھے ان کا اس ساری لڑائی میں بڑا رول رہا۔ وہ بہت آکے دونوں طرف کے ڈیروں پر بیٹھتے تھے۔ 

بلا کے قتل کے بعد دشمنی کی دہکتی آگ نے کئی گھرانوں کے چراغ گل کیئے۔ ایک دوسرے کے بندوں کا قتل ہوتا رہا۔گینگ وار شروع ہو چکی تھی ۔ہمایوں گجر،  ناجی بٹ ، مناظر شاہ ، داؤد ناصر، ثنا گجر اور پنجاب کے کئی اور نامور اشتہاری گینگسٹرز ایک ایک کر کے طیفی و گوگی بٹ سے جا ملے ۔ حنیفہ اور بابا جو کبھی ٹیپو کی طاقت ہوا کرتے تھے وہ پہلے ہی طیفی و گوگی کی صفوں میں تھے ۔ ٹیپو ان سب سے باپ کے  قتل کا بدلہ لینے کیلئے بیتاب تھا۔ یہاں ٹیپو نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔ 

نعیم اور  قیصر نامی گینگسٹر  طیفی گروپ میں ٹیپو کیلئے کام کرنے لگے۔ بھولا سنیارا گروپ کے بھی کئی لوگ پیسے لے کر ٹیپو کیلئے مخبری کیا کرتے۔اور جو لوکل گینگسٹر تھے جو اس علاقے میں خاص طور پر والڈ سٹی یا اندرون لاہور میں بہت پنپ رہے تھے ، وہ دونوں گروپس کے ساتھ اپنے آپ کو لنک کیا کرتے تھے۔ کیونکہ اس طرح ان کی  گرپ بڑھتی تھی کہ فلانا فلانا اس کے گینگ میں شامل ہو گیا ، فلانا اس کے گینگ میں شامل ہو گیا۔ٹیپو نے اپنے باپ سے ایک ہی بات سیکھی تھی کہ دھاک بٹھاؤ اور سامنے آئے بغیر کام نکلواتے جاؤ ۔ باپ کا انداز اپناتے ہوئے اس نے ایک ایک کر کے تمام دشمنوں کو مروانا شروع کر دیا۔

اس کام کے لیے ٹیپو نے کرائے کے قاتلوں کا اور پولیس مقابلوں کا سہارا لیا ۔ پہلے اس نے بھولا سنیارا کو مخبری کر کے مروایا ،پھر ناجی بٹ اور ہمایوں گجر جیسے گینگسٹر بھی مارے گئے۔انسپکٹر نوید نے شاہدرہ میں پولیس مقابلے کر کے انہیں گولیوں سےبھون ڈالا ۔ٹیپو نے طیفی بٹ گینگ کے داؤد ناصر کو بھی نہیں چھوڑا جو بٹ کا رائٹ ہینڈ سمجھا جاتا تھا۔ نوے کے دہائی میں شاہ عالم گیٹ اور اندرون لاہور میں ٹیپو ٹرکاں والا خوف اور دہشت کی علامت بن چکا تھا۔ طیفی بٹ بھی موت بانٹنے کے کھیل میں ٹیپو سے پیچھے نہ تھا۔

دشمنی کی آگ میں دونوں گروہوں نے کروڑوں روپے جھونک ڈالے۔ ایس ایس پی سے لے کر کانسٹیبل تک پولیس کا ہر فرد اس لڑائی کا حصہ بنتا چلا گیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انسپکٹر عابد باکسر کے پولیس مقابلے مشہور ہو رہے تھے۔ اشتہاری ایک ایک کر کر ختم ہو رہے تھے۔ ٹیپو اور طیفی بٹ نے ایک دوسرے پر مقدمے کرنا شروع کر دیے تھے۔ کہتے ہیں دشمن داری کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ٹیپو اور طیفی کی دشمنی سے ان کی خواتین اب تک بچی ہوئیں تھیں۔مگر ایک روز ٹیپو نے ریڈ لائن کراس کر لی۔ پولیس میں اپنے لوگوں کے ذریعے اس نے حنیفہ اور بابا کی خواتین کو اٹھا لیا۔حنیفہ اور بابا اپنی خواتین پر آنچ آتی دیکھ کر غصے سے پاگل ہو گئے۔

اب ان دونوں نے باپ کے بعد بیٹے کو سبق سکھانے کی ٹھانی ۔ سنہ 2003 میں ٹیپو ایک مقدمے کی پیشی پر آیا تو لاہور کچہری کے باہر اس پر ایک بڑا قاتلانہ حملہ ہوا۔  یہ حملہ مبین بٹ کے ذریعے کیا گیا جو کہ مشہور کرائے کا قاتل تھا۔ٹیپو کے پانچ گارڈز مارے گئے اور وہ خود بھی شدید زخمی ہوا۔ٹیپو کے لیفٹ رائٹ گولیاں چل رہی تھیں لیکن وہ بھاگ کر مجسٹریٹ کی عدالت میں گھس گیا۔ مقدمہ طیفی اور گوگی بٹ پر درج ہوا۔حنیفہ اور بابا نے ٹیپو پر کئی قاتلانہ حملے کروائے  مگر قسمت یاوری کرتی رہی اور وہ ہر بار بچ نکلا۔

ٹیپو کے پاس گرے رنگ کی ایک شراڈ کار ہوتی تھی جو اس کو بہت پسند تھی۔ ٹیپو اس میں پھرتا بھی تھا۔ اس گاڑی پر تین بار قاتلانہ حملہ ہوا مگر ہر بار ٹیپو بچ نکلا۔ حنیفہ و بابا کی جانب سے بار بار کے حملوں سے تنگ ہو کر بلآخر وہ اپنے خاندان سمیت ملک چھوڑ کر دبئی منتقل ہو گیا اور وہاں ایک ہوٹل خرید لیا۔ٹیپو نے تینوں بیٹوں اور ایک بیٹی کو ملک سے باہر پڑھایا۔  ٹیپو کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔ اس کی لاہور میں جائز ناجائز اربوں روپے کی جائیدادیں تھیں۔

گینگ کو چھوڑنا یا پرانی زندگی سے نکلنا اس کے لیے ناممکن تھا۔ اس لیے وہ دبئی میں زیادہ عرصہ نہ ٹھہر سکا۔ پھر یوں ہونے لگا کہ وہ فیملی سے مل کر کچھ عرصے بعد واپس لاہور آ جاتا۔بائیس جنوری سنہ 2010 کو ٹیپو دبئی سے لاہور جانے والی پرواز میں بیٹھا تھا اور کوئی اس کی ہر حرکت پر نظر رکھی ہوئے تھا۔لاہور میں پانچ بہترین نشانہ بازوں کو ایک ہائی پروفائل قتل کی سپاری دی گئی تھی۔ لیکن جب کرائے کے قاتلوں کو ان کے ٹارگٹ ٹیپو کا نام بتایا گیا تو چاروں نے ہاتھ کھڑے کر دئیے لیکن پانچویں نشانے باز خرم بٹ نے ٹیپو کو تنہا مارنے کی حامی بھر لی۔

 خرم بٹ کا بھائی ٹیپو کے ہاتھوں بے دردی سے مارا گیا تھا اور وہ ہر قیمت پر بھائی کے قتل کا بدلہ چاہتا تھا۔ ائرپورٹ پر اسلحہ لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن خرم بٹ کو ائرپورٹ کے اندر اسلحہ پہنچا دیا گیا۔ جیسے ہی ٹیپو کار پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف آتا ہے خرم اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتا ہے۔ ٹیپو چوبیس گھنٹے ہسپتال میں موت سے لڑتا رہا اور پھر یہ جنگ ہار گیا۔ جان چلی گئی لیکن دشمنی ابھی بھی باقی تھی۔۔

ٹیپو جاتے جاتے اپنے باپ کے قتل سے شروع ہونے والی سولہ سالہ دشمنی اپنے اٹھارہ سالہ بیٹھے امیر بالاج کو ورثے میں دے گیا۔بالاج نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ملک سے باہر گزارا تھا جہاں وہ اور اس کے بہن بھائی بہترین سکولز میں پڑھے تھے۔ باپ کے قتل کے بعد اب بالاج کو اٹھارہ سال کی عمر میں ڈیرہ سنبھالنا تھا۔مگر وہ اپنے خاندان کو ورثے میں ملی دشمنیاں ختم کرنا چاہتا تھا۔ ٹیپو ہمیشہ یہ کہتا تھا کہ میں اپنے باپ کا بدلہ لوں گا۔ وہ طیفی اور گوگی کو نہیں مار سکا اور خود مارا گیا۔

ٹیپو کا بیٹا بالاج ٹرکاں والا صلح صفائی چاہتا تھا۔ وہ پڑھا لکھا نوجوان تھا۔ اس دشمنی کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کوشش کی لیکن صلح صفائی میں پڑنے اور دنوں گینگز کی گارنٹی لینے کو کوئی تیار نہ تھا۔ ٹیپو کے بعد بندوقیں کچھ عرصہ خاموش رہیں۔ امیر بالاج نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میرا باپ قتل ہو گیا اور دشمنی کا ڈھول میرے گلے میں ڈال گیا۔میری مجبوری ہے کہ مجھے یہ ڈھول بجانا ہی پڑے گا۔ بالاج جب بھی دشمنی ختم کرنے کی بات کرتا کوئی نہ کوئی اس کے سامنے آ کر اسے اپنے باپ دادا اور رشتہ دار کا خون یاد دلا دیتا۔ اُدھر طیفی بٹ گینگ کو یہ خطرہ تھا کہ بالاج ان کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھے کہ ٹیپو کا بیٹا دشمنی ختم کرنے میں مخلص ہو سکتا ہے۔

بالاج ڈیرے کی چار دیواری چھوڑ کر کہیں بھی نکلتا تو اسلحہ سے لیس محافظوں کا قافلہ اس کے آگے پیچھے ہوتا لیکن اس کا قلعے جیسا ڈیرہ اور محافظوں کا ٹولہ نہ تو دادا کی جان بچا سکا تھا نہ ہی باپ کی۔ ٹرکاں والا خاندان کے نصیب میں ایک اور موت لکھی جا چکی تھی۔ فروری سنہ 2024 لاہور کی ایک  سوسائٹی میں شادی کی تقریب جاری تھی۔ڈی ایس پی اکبر کے گھر میں شادی کے لیے راستے پہ جگہ جگہ پولیس والے کھڑے ہیں۔ یہاں آنے والے ہر شخص کو دو سیکیورٹی لیئرز سے گزرنا پڑتا تھا۔اسلحہ تو دور وہاں سوئی لانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔

تقریب میں ایک فوٹوگرافر کافی دیر سے لوگوں کی تصاویر لیتے کبھی سٹیج تو کبھی میز کے اردگرد مہمانوں کے پاس دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس کی نظریں بار بار اینٹرنس گیٹ پر اٹھتی ہیں۔ جیسے وہ کسی کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہا ہو۔ سب مہمان آ چکے تھے لیکن ڈی ایس پی اکبر کو تو بس اپنے عزیز دوست کا انتظار ہے۔بلآخر بندوق بردار محافظوں سے لدی گاڑیاں امیر بالاج کو لیے اڑتی ہوئی اپنی منزل تک آ پہنچیں۔اچانک فوٹو گرافر نے کیمرہ پھینک کر اپنے لباس سے ایک پستول نکالی اور بالاج پر فائر کر دیا۔ محافظوں نے پہلا فائر سنتے ہی جوابی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ چار گولیاں بالاج کے جسم کو چھلنی کر چکی تھیں۔اس کی لاش زمین پر پڑی تھی۔

اس گینگ وار کے دوران تین نسلیں گزریں اور بیسیوں افراد دشمنی کی آگ میں جل گئے۔بلا سے بالاج تک اس لڑائی میں زیادہ نقصان ٹرکاں والا فیملی نے اٹھایا۔طیفی بٹ کو دو روز قبل سی سی ڈی نے دبئی انٹرپول سے منگوا کر پولیس مقابلے میں پار لگا دیا ہے۔ گوگی بٹ کی تلاش کے لیے چھاپے جاری ہیں اور شنید ہے کہ اسے بھی پار لگا کر اس گینگ وار کا باب ہمیشہ کے لیے بند کیا جائے گا۔لیکن لاہور میں جرائم کی دنیا ابھی موجود ہے۔کئی گینگسٹرز آج بھی بٹ اور ٹرکاں والا کی جگہ لینے کیلئے بے چین ہیں۔

یہ ساری داستان بہت اختصار کے ساتھ بیان کی ہے۔ اس کی تفصیلات میں جائیں تو یہ بہت طویل اور بہت سنسنی خیز داستان ہے۔ کوشش کی ہے کہ خلاصہ لکھ دوں۔ اس پر ایک بہترین ویب سیریز پروڈیوس ہو سکتی ہے۔ کہانی سچی ہے۔ کہانی جرم کی ہے۔ کہانی سیاست کی ہے۔ کہانی کرپٹ سسٹم اور پولیس کے کردار کی ہے۔ بہت سے کردار ابھی ذکر میں نہیں آ سکے۔ اس داستان کا ہر کردار ایک منفرد کریکٹر ہے۔ ہر کریکٹر کا الگ بیک گراؤنڈ ہے۔ ہر کردار کی اپنی الگ کہانی ہے۔ دشمنیاں، بدمعاشی، قتل و غارت، ڈرگز، سسپنس، ایکشن، ڈرامہ، ۔۔۔۔
 نتھو کو دنیا سے گئے کچھ زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ اس کی گدی اس کے بیٹے نے سنبھال لی ۔امیر الدین عرف بلا ۔ وہ باپ سے بھی چار ہاتھ آگے تھا۔ اپنا زور بڑھانے کے لیے بلے نے پولیس افسروں اور بااثر مقامی لوگوں سے دوستیاں بنانا شروع کر دیں۔اس نے ایک پنچائتی ڈیرہ سا بنا لیا تھا جہاں وہ لوگوں کے لین دین کے آپسی تنازعات سیٹل کرتا تھا اور اپنا “کمیشن” بھی دونوں پارٹیوں سے لیتا تھا۔شاہ عالمی مارکیٹ میں اس کے باپ کی دھاک پہلے سے ہی تھی۔ بلے نے یہاں ٹرک گڈز ٹرانسپورٹ کا کام شروع کیا جو پھیلتا چلا گیا۔کہا جاتا ہے اس کام کے لیے ابتدائی طور پر سرمایہ لاہور کے ایک بااثر سیاسی خاندان نے لگایا تھا۔یہیں سے اس کا نام پڑ گیا بلا ٹرکاں والا۔

 بلا ٹرکاں والا نے ساری زندگی پستول اپنی جیب میں نہیں رکھا، وہ اس کا سٹائل ہی نہیں تھا۔یہ کاروباری آدمی بھی نہیں تھا۔ اس کے ٹرک اڈے پر چھوٹے موٹے جرائم پیشہ کن کٹے ٹائپ لوگ جمع ہو کر بیٹھ جاتے تھے۔ بلا ان کو چرس اور دیگر لوازمات پیش کرتا اور یوں اس نے ایک گینگ سا تشکیل دے رکھا تھا۔ بلے کا کام تو  یہ تھا ٹیلی فون پر بیٹھ کر اس کو اٹھا لو اس کو پکڑ لو۔ بسیکلی وہ دکانوں پر قبضہ کرانے میں دلچسپی لیتا تھا منشیات فروش نہیں تھا، جوا نہیں کراتا تھا۔

 ٹرکاں والا خاندان کشمیری ہے جس میں کئی نامی گرامی پہلوان گزرے ہیں ۔ آج ان کا گڈز ٹرانسپورٹ کا بڑا کاروبار ہے ۔ پورے ملک میں ان کے سینکڑوں ٹرکس سامان لیے پھرتے ہیں۔ ٹرکاں والا کا ڈیرہ کیسے اشتہاری مجرموں کی پناہ گاہ بنا،  زمینوں پر قبضے سے لے کر قتل تک جرائم کا کاروبار کیسے پھیلتا چلا گیا۔ یہ داستان ہے لاہور انڈر ورلڈ کی اور بہت سنسنی خیز فلمی داستان ہے۔ بااثر سیاسی لوگوں کی آشیرباد اور پولیس افسران کے گٹھ جوڑ سے لاہور میں دو بڑے گینگ وجود میں آئے جو ایک دوسرے سے اختیار و طاقت کے حصول کے لیے لڑتے رہے۔ مارتے رہے۔ مرتے رہے۔ 

 بلا ٹرکاں والا نے تین دوستوں کو ملا کر ایک گروپ بنایا۔ الیاس جٹ جو فیصل آباد میں پیپلز پارٹی کا رکن اسمبلی تھا۔  پیلا پہلوان جو سونے کے سمگلروں میں ڈان مشہور تھا اور صوبائی اسمبلی کا رکن بھی تھا۔ ایس پی امان اللہ، جعلی پولیس مقابلے میں بندے پھڑکانے میں اس کا بھی کوئی ثانی نہ تھا۔ یہ سب عالم چوک پر بلا ٹرکاں والا کے ڈیرے پر روز محفل لگاتے۔ ایس پی امان اللہ کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ بات بعد میں کرتا تھا بندہ پہلے مار دیتا تھا۔ اب انہوں نے لاہور پر حکومت شروع کر دی۔ ایک یونیورسٹی کھول دی جس میں جرائم کی دنیا کے لوگ پرورش پاتے تھے۔ 

اب بلا لاہور انڈر ورلڈ کا بادشاہ بن چکا تھا۔ہر گینگ اور ہر اشتہاری اس کی صحبت میں تھا۔ شفیق عرف بابا ، حنیف عرف حنیفہ ، اکبر عرف جٹ، ہمایوں گجر اور بھولا سنیارا جیسے بڑے بدمعاش اس کی مٹھی میں تھے۔ یہ سب گینگسٹرز تھے۔ حنیفہ اور بابا دونوں سگے بھائی تھے ۔ بلا ٹرکاں والا ان کو اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتا تھا اور وہ بھی بلے کو ابا کا درجہ دیتے تھے۔ اور وہ اسی طرح پلے بڑھے جیسے بلے کا سگا بیٹا ٹیپو ٹرکاں والا پلا بڑھا۔ بلے کے ایک اشارے پر یہ لوگ سب کچھ کر گزرتے تھے۔ 

ایک روز بابا ، حنیف اور بلے کے سگے بیٹے ٹیپو نے اکبری گیٹ میں ایک رہائشی امیر الدین تارہ والا کو دو دوستوں سمیت قتل کر دیا۔ معاملہ دکان پر قبضے کا تھا۔ پولیس کیس ہوا تو بابا اور حنیفہ کے ساتھ بلے کا بیٹا ٹیپو بھی نامزد ہوا۔یہ تینوں قتل ٹیپو نے فائر کر کے کئیے تھے مگر بلے نے کمال ہوشیاری سے اپنے سیاسی تعلقات کے بل بوتے اپنے بیٹے کا نام کیس سے نکلوا دیا۔ بابا اور حنیفہ سے کہا کہ وہ ابھی اپنا جرم قبول کر لیں بہت جلد انہیں جیل سے وہ چھڑوا لے گا۔ انہوں نے قبول کر لیا۔ لیکن بلا ان کو چھڑوا نہ سکا۔ بابا اور حنیفہ کو سات سال قید ہو گئی۔

 اس موڑ پر یہاں انٹری ہوتی ہے گوالمنڈی کے طیفی بٹ اور گوگی بٹ کی جو ٹرکاں والا خاندان کے سب سے بڑے دشمن مشہور ہیں۔ طیفی اور گوگی آپس میں کزن تھے لیکن دونوں کی جوڑی سگے بھائیوں جیسی تھی۔ یہ ہر وقت ہر جگہ اکٹھے نظر آتے تھے۔ ان کا خاندان گوالمنڈی کا بااثر تاجر خاندان تھا۔ گوالمنڈی فوڈ سٹریٹ لاہور کی پہلی فوڈ سٹریٹ تھی جو انہوں نے بنائی تھی۔اس وقت نواز شریف پنجاب کے چیف منسٹر بنے تھے وہ خود افتتاح کرنے آئے تھے۔یہ خواجہ کشمیری تھے۔ ان کے بڑے بھائی اور بزرگ اکبری منڈی اور گوالمنڈی مارکیٹ کے صدر تھے۔ گوالمنڈی اور شاہ عالمی میں تھوڑا ہی فاصلہ ہے۔

 پنجاب سمیت ملک بھر سے آئے سامان کا لین دین اندرون لاہور کے انہی بازاروں میں ہوتا ہے۔بلا ٹرکاں والا کا گڈز ٹرنسپورٹ کا اڈا تھا۔ بات دراصل علاقے میں چودراہٹ قائم کرنے کے ساتھ منڈیوں پر کنٹرول اور دھاک بٹھانے کی تھی۔ گوالمنڈی کے طیفی اور گوگی بٹ بلا ٹرکاں والے کے سامنے بچے تھے مگر یہ بات انہیں قبول نہ تھی کیونکہ وہ خود کو زیادہ بااثر، پیسے والا اور کھرپینچ سمجھتے تھے۔طیفی اور گوگی بٹ نے سامنے آئے  بغیر بلے کا پتہ صاف کرنے کی ٹھانی۔۔

 بابا اور حنیفہ اپنی سزا بھگت کر باہر آئے تو انہوں نے بلے کے خلاف انہیں خوب بھڑکایا۔ ان دونوں کے دماغ میں یہ بات اچھی طرح اتار دی کہ بلے نے اپنے بیٹے  کو تو بچا لیا مگر تم دونوں کو جیل میں سڑتا چھوڑ دیا۔اگر تم اس کے حقیقی بچے ہوتے تو وہ ٹیپو کی طرح تمہیں بھی مقدمے سے نکلوا لیتا ۔ ٹیپو نے بندہ قتل کیا تھا لیکن وہ جیل نہیں گیا۔ تمہیں اس نے دھوکا دے کر جرم قبول کروا کے جیل بھیج دیا۔ الغرض بابا اور حنیفہ کے سر پر ایک بھوت سوار ہو گیا کہ وہ ہر قیمت پر بلے اور ٹیپو سے بدلہ لینا چاہتے تھے۔ 

طیفی اور گوگی تو ماسٹر پلانر تھے ہی۔ بھولا سنیارا جیسا خطرناک گروہ بھی بلے سے ٹوٹ کر ان کے ساتھ ہو لیا۔ بھولا سنیارا کو بھی بٹوں نے اپنے دام میں پھنسا لیا تھا۔ سنہ 1994 کی ایک صبح جب بلا اپنے ٹرک اڈے پر نماز فجر کی تیاری کر رہا تھا، گھات لگائے بابا اور حنیفہ نے  گولیوں کی برسات کر دی۔ بلا اپنے ہی اڈے پرقتل ہو گیا۔ یہاں سے شروع ہوتی ہے لاہور انڈر ورلڈ کی وہ کہانی جس نے لاہور میں خونی دشمنی کا بازار گرم کر دیا۔

 باپ کی موت نے ٹیپو کو زخمی شیر بنا دیا اور اس نے باپ کے ڈیرے کو قلعہ بنا کر دشمنی کا جواب دینا شروع کر دیا۔اس کے ڈیرے پر درجنوں محافظ ہر وقت آٹومیٹک ہتھیار لیےموجود رہتے۔  ٹیپو ایک پہلوان اور  شیروں کا شوقین تھا۔ اپنے ڈیرے پر  اس نے دس شیر پال رکھے تھے جن کو وہ کھلا ساتھ لیے پھرتا اور ان کو اپنے ہاتھوں سے کھانا اور قلفیاں کھلاتا۔ ٹیپو بالکل انپڑھ تھا۔ اس نے ایک بندہ ملازم رکھا ہوا تھا جو اس کو اخبار پڑھ کے سناتا تھا۔ اس کا ملنا ملانا بہت تھا ۔ جتنے بھی بڑے سے بڑے پولیس آفیسرز تھے اور خاص طور پر جو رینکرز پولیس آفیسرز تھے ان کا اس ساری لڑائی میں بڑا رول رہا۔ وہ بہت آکے دونوں طرف کے ڈیروں پر بیٹھتے تھے۔ 

بلا کے قتل کے بعد دشمنی کی دہکتی آگ نے کئی گھرانوں کے چراغ گل کیئے۔ ایک دوسرے کے بندوں کا قتل ہوتا رہا۔گینگ وار شروع ہو چکی تھی ۔ہمایوں گجر،  ناجی بٹ ، مناظر شاہ ، داؤد ناصر، ثنا گجر اور پنجاب کے کئی اور نامور اشتہاری گینگسٹرز ایک ایک کر کے طیفی و گوگی بٹ سے جا ملے ۔ حنیفہ اور بابا جو کبھی ٹیپو کی طاقت ہوا کرتے تھے وہ پہلے ہی طیفی و گوگی کی صفوں میں تھے ۔ ٹیپو ان سب سے باپ کے  قتل کا بدلہ لینے کیلئے بیتاب تھا۔ یہاں ٹیپو نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔ 

نعیم اور  قیصر نامی گینگسٹر  طیفی گروپ میں ٹیپو کیلئے کام کرنے لگے۔ بھولا سنیارا گروپ کے بھی کئی لوگ پیسے لے کر ٹیپو کیلئے مخبری کیا کرتے۔اور جو لوکل گینگسٹر تھے جو اس علاقے میں خاص طور پر والڈ سٹی یا اندرون لاہور میں بہت پنپ رہے تھے ، وہ دونوں گروپس کے ساتھ اپنے آپ کو لنک کیا کرتے تھے۔ کیونکہ اس طرح ان کی  گرپ بڑھتی تھی کہ فلانا فلانا اس کے گینگ میں شامل ہو گیا ، فلانا اس کے گینگ میں شامل ہو گیا۔ٹیپو نے اپنے باپ سے ایک ہی بات سیکھی تھی کہ دھاک بٹھاؤ اور سامنے آئے بغیر کام نکلواتے جاؤ ۔ باپ کا انداز اپناتے ہوئے اس نے ایک ایک کر کے تمام دشمنوں کو مروانا شروع کر دیا۔

اس کام کے لیے ٹیپو نے کرائے کے قاتلوں کا اور پولیس مقابلوں کا سہارا لیا ۔ پہلے اس نے بھولا سنیارا کو مخبری کر کے مروایا ،پھر ناجی بٹ اور ہمایوں گجر جیسے گینگسٹر بھی مارے گئے۔انسپکٹر نوید نے شاہدرہ میں پولیس مقابلے کر کے انہیں گولیوں سےبھون ڈالا ۔ٹیپو نے طیفی بٹ گینگ کے داؤد ناصر کو بھی نہیں چھوڑا جو بٹ کا رائٹ ہینڈ سمجھا جاتا تھا۔ نوے کے دہائی میں شاہ عالم گیٹ اور اندرون لاہور میں ٹیپو ٹرکاں والا خوف اور دہشت کی علامت بن چکا تھا۔ طیفی بٹ بھی موت بانٹنے کے کھیل میں ٹیپو سے پیچھے نہ تھا۔

دشمنی کی آگ میں دونوں گروہوں نے کروڑوں روپے جھونک ڈالے۔ ایس ایس پی سے لے کر کانسٹیبل تک پولیس کا ہر فرد اس لڑائی کا حصہ بنتا چلا گیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انسپکٹر عابد باکسر کے پولیس مقابلے مشہور ہو رہے تھے۔ اشتہاری ایک ایک کر کر ختم ہو رہے تھے۔ ٹیپو اور طیفی بٹ نے ایک دوسرے پر مقدمے کرنا شروع کر دیے تھے۔ کہتے ہیں دشمن داری کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ٹیپو اور طیفی کی دشمنی سے ان کی خواتین اب تک بچی ہوئیں تھیں۔مگر ایک روز ٹیپو نے ریڈ لائن کراس کر لی۔ پولیس میں اپنے لوگوں کے ذریعے اس نے حنیفہ اور بابا کی خواتین کو اٹھا لیا۔حنیفہ اور بابا اپنی خواتین پر آنچ آتی دیکھ کر غصے سے پاگل ہو گئے۔

اب ان دونوں نے باپ کے بعد بیٹے کو سبق سکھانے کی ٹھانی ۔ سنہ 2003 میں ٹیپو ایک مقدمے کی پیشی پر آیا تو لاہور کچہری کے باہر اس پر ایک بڑا قاتلانہ حملہ ہوا۔  یہ حملہ مبین بٹ کے ذریعے کیا گیا جو کہ مشہور کرائے کا قاتل تھا۔ٹیپو کے پانچ گارڈز مارے گئے اور وہ خود بھی شدید زخمی ہوا۔ٹیپو کے لیفٹ رائٹ گولیاں چل رہی تھیں لیکن وہ بھاگ کر مجسٹریٹ کی عدالت میں گھس گیا۔ مقدمہ طیفی اور گوگی بٹ پر درج ہوا۔حنیفہ اور بابا نے ٹیپو پر کئی قاتلانہ حملے کروائے  مگر قسمت یاوری کرتی رہی اور وہ ہر بار بچ نکلا۔

ٹیپو کے پاس گرے رنگ کی ایک شراڈ کار ہوتی تھی جو اس کو بہت پسند تھی۔ ٹیپو اس میں پھرتا بھی تھا۔ اس گاڑی پر تین بار قاتلانہ حملہ ہوا مگر ہر بار ٹیپو بچ نکلا۔ حنیفہ و بابا کی جانب سے بار بار کے حملوں سے تنگ ہو کر بلآخر وہ اپنے خاندان سمیت ملک چھوڑ کر دبئی منتقل ہو گیا اور وہاں ایک ہوٹل خرید لیا۔ٹیپو نے تینوں بیٹوں اور ایک بیٹی کو ملک سے باہر پڑھایا۔  ٹیپو کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔ اس کی لاہور میں جائز ناجائز اربوں روپے کی جائیدادیں تھیں۔

گینگ کو چھوڑنا یا پرانی زندگی سے نکلنا اس کے لیے ناممکن تھا۔ اس لیے وہ دبئی میں زیادہ عرصہ نہ ٹھہر سکا۔ پھر یوں ہونے لگا کہ وہ فیملی سے مل کر کچھ عرصے بعد واپس لاہور آ جاتا۔بائیس جنوری سنہ 2010 کو ٹیپو دبئی سے لاہور جانے والی پرواز میں بیٹھا تھا اور کوئی اس کی ہر حرکت پر نظر رکھی ہوئے تھا۔لاہور میں پانچ بہترین نشانہ بازوں کو ایک ہائی پروفائل قتل کی سپاری دی گئی تھی۔ لیکن جب کرائے کے قاتلوں کو ان کے ٹارگٹ ٹیپو کا نام بتایا گیا تو چاروں نے ہاتھ کھڑے کر دئیے لیکن پانچویں نشانے باز خرم بٹ نے ٹیپو کو تنہا مارنے کی حامی بھر لی۔

 خرم بٹ کا بھائی ٹیپو کے ہاتھوں بے دردی سے مارا گیا تھا اور وہ ہر قیمت پر بھائی کے قتل کا بدلہ چاہتا تھا۔ ائرپورٹ پر اسلحہ لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن خرم بٹ کو ائرپورٹ کے اندر اسلحہ پہنچا دیا گیا۔ جیسے ہی ٹیپو کار پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف آتا ہے خرم اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتا ہے۔ ٹیپو چوبیس گھنٹے ہسپتال میں موت سے لڑتا رہا اور پھر یہ جنگ ہار گیا۔ جان چلی گئی لیکن دشمنی ابھی بھی باقی تھی۔۔

ٹیپو جاتے جاتے اپنے باپ کے قتل سے شروع ہونے والی سولہ سالہ دشمنی اپنے اٹھارہ سالہ بیٹھے امیر بالاج کو ورثے میں دے گیا۔بالاج نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ملک سے باہر گزارا تھا جہاں وہ اور اس کے بہن بھائی بہترین سکولز میں پڑھے تھے۔ باپ کے قتل کے بعد اب بالاج کو اٹھارہ سال کی عمر میں ڈیرہ سنبھالنا تھا۔مگر وہ اپنے خاندان کو ورثے میں ملی دشمنیاں ختم کرنا چاہتا تھا۔ ٹیپو ہمیشہ یہ کہتا تھا کہ میں اپنے باپ کا بدلہ لوں گا۔ وہ طیفی اور گوگی کو نہیں مار سکا اور خود مارا گیا۔

ٹیپو کا بیٹا بالاج ٹرکاں والا صلح صفائی چاہتا تھا۔ وہ پڑھا لکھا نوجوان تھا۔ اس دشمنی کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کوشش کی لیکن صلح صفائی میں پڑنے اور دنوں گینگز کی گارنٹی لینے کو کوئی تیار نہ تھا۔ ٹیپو کے بعد بندوقیں کچھ عرصہ خاموش رہیں۔ امیر بالاج نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میرا باپ قتل ہو گیا اور دشمنی کا ڈھول میرے گلے میں ڈال گیا۔میری مجبوری ہے کہ مجھے یہ ڈھول بجانا ہی پڑے گا۔ بالاج جب بھی دشمنی ختم کرنے کی بات کرتا کوئی نہ کوئی اس کے سامنے آ کر اسے اپنے باپ دادا اور رشتہ دار کا خون یاد دلا دیتا۔ اُدھر طیفی بٹ گینگ کو یہ خطرہ تھا کہ بالاج ان کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھے کہ ٹیپو کا بیٹا دشمنی ختم کرنے میں مخلص ہو سکتا ہے۔

بالاج ڈیرے کی چار دیواری چھوڑ کر کہیں بھی نکلتا تو اسلحہ سے لیس محافظوں کا قافلہ اس کے آگے پیچھے ہوتا لیکن اس کا قلعے جیسا ڈیرہ اور محافظوں کا ٹولہ نہ تو دادا کی جان بچا سکا تھا نہ ہی باپ کی۔ ٹرکاں والا خاندان کے نصیب میں ایک اور موت لکھی جا چکی تھی۔ فروری سنہ 2024 لاہور کی ایک  سوسائٹی میں شادی کی تقریب جاری تھی۔ڈی ایس پی اکبر کے گھر میں شادی کے لیے راستے پہ جگہ جگہ پولیس والے کھڑے ہیں۔ یہاں آنے والے ہر شخص کو دو سیکیورٹی لیئرز سے گزرنا پڑتا تھا۔اسلحہ تو دور وہاں سوئی لانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔

تقریب میں ایک فوٹوگرافر کافی دیر سے لوگوں کی تصاویر لیتے کبھی سٹیج تو کبھی میز کے اردگرد مہمانوں کے پاس دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس کی نظریں بار بار اینٹرنس گیٹ پر اٹھتی ہیں۔ جیسے وہ کسی کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہا ہو۔ سب مہمان آ چکے تھے لیکن ڈی ایس پی اکبر کو تو بس اپنے عزیز دوست کا انتظار ہے۔بلآخر بندوق بردار محافظوں سے لدی گاڑیاں امیر بالاج کو لیے اڑتی ہوئی اپنی منزل تک آ پہنچیں۔اچانک فوٹو گرافر نے کیمرہ پھینک کر اپنے لباس سے ایک پستول نکالی اور بالاج پر فائر کر دیا۔ محافظوں نے پہلا فائر سنتے ہی جوابی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ چار گولیاں بالاج کے جسم کو چھلنی کر چکی تھیں۔اس کی لاش زمین پر پڑی تھی۔

اس گینگ وار کے دوران تین نسلیں گزریں اور بیسیوں افراد دشمنی کی آگ میں جل گئے۔بلا سے بالاج تک اس لڑائی میں زیادہ نقصان ٹرکاں والا فیملی نے اٹھایا۔طیفی بٹ کو دو روز قبل سی سی ڈی نے دبئی انٹرپول سے منگوا کر پولیس مقابلے میں پار لگا دیا ہے۔ گوگی بٹ کی تلاش کے لیے چھاپے جاری ہیں اور شنید ہے کہ اسے بھی پار لگا کر اس گینگ وار کا باب ہمیشہ کے لیے بند کیا جائے گا۔لیکن لاہور میں جرائم کی دنیا ابھی موجود ہے۔کئی گینگسٹرز آج بھی بٹ اور ٹرکاں والا کی جگہ لینے کیلئے بے چین ہیں۔

یہ ساری داستان بہت اختصار کے ساتھ بیان کی ہے۔ اس کی تفصیلات میں جائیں تو یہ بہت طویل اور بہت سنسنی خیز داستان ہے۔ کوشش کی ہے کہ خلاصہ لکھ دوں۔ اس پر ایک بہترین ویب سیریز پروڈیوس ہو سکتی ہے۔ کہانی سچی ہے۔ کہانی جرم کی ہے۔ کہانی سیاست کی ہے۔ کہانی کرپٹ سسٹم اور پولیس کے کردار کی ہے۔ بہت سے کردار ابھی ذکر میں نہیں آ سکے۔ اس داستان کا ہر کردار ایک منفرد کریکٹر ہے۔ ہر کریکٹر کا الگ بیک گراؤنڈ ہے۔ ہر کردار کی اپنی الگ کہانی ہے۔ دشمنیاں، بدمعاشی، قتل و غارت، ڈرگز، سسپنس، ایکشن، ڈرامہ، ۔۔۔۔

October 12, 2025

Essential vitamins for Body



ان نشانیوں اشاروں پر توجہ دیں۔

 ہمارے جسم اکثر ہم سے بات کرتے ہیں لیکن بہت سے معاملات میں، ہم سننے میں بہت مصروف نظر آتے ہیں۔  لیکن یہ ابھی تک سگنل بھیجتا ہے جب اس میں اہم غذائی اجزاء کی کمی ہوتی ہے۔

 میں آپ کو ان علامات کی فہرست دیتا ہوں جن پر آپ کو توجہ دینی چاہیے اور ان کا کیا مطلب ہو سکتا ہے:

 1. آپ کے منہ کے کونوں میں دراڑیں: آئرن، زنک، یا بی وٹامنز (خاص طور پر B2، B3، اور B12) کی کمی کی نشاندہی کر سکتی ہے۔

 2. ٹوٹے ہوئے بال اور ناخن: اکثر بایوٹین (B7) کی کمی یا پروٹین کی کم مقدار کی علامت ہوتی ہے۔

 3. پٹھوں میں درد یا اینٹھن: اس کا مطلب میگنیشیم، پوٹاشیم یا کیلشیم کی کمی ہو سکتی ہے۔

 4. بار بار تھکاوٹ یا کمزوری: لوہے، وٹامن ڈی، یا B12 کی کم سطح کی طرف اشارہ کر سکتا ہے۔

 5. خشک یا کھردری جلد: وٹامن A اور C، یا ضروری فیٹی ایسڈز کی ضرورت کی نشاندہی کر سکتی ہے۔

 6. خراب نائٹ ویژن یا خشک آنکھیں: اکثر وٹامن اے کی کمی سے منسلک ہوتے ہیں۔

 7. ہاتھوں اور پیروں میں جھنجھناہٹ یا بے حسی: بی وٹامن کی کم سطح کا اشارہ دے سکتا ہے، خاص طور پر B6، B12، یا فولیٹ۔

 8. مسوڑھوں سے خون بہنا یا آسانی سے خراشیں: وٹامن سی کی کم مقدار کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔

 9. مسلسل منہ کے چھالے یا زخم: آئرن، زنک، یا بی وٹامنز کی ضرورت کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔

 10. بے چین ٹانگیں یا نیند میں پریشانی: میگنیشیم یا آئرن کی کمی سے منسلک ہو سکتا ہے۔

 11. ناخنوں پر سفید دھبے: اکثر زنک کی کمی سے جڑے ہوتے ہیں۔

 12. بالوں کا پتلا ہونا یا بالوں کا گرنا: کم آئرن، پروٹین یا بایوٹین کی نشاندہی کر سکتا ہے۔

 13. ہلکی یا پیلی جلد: آئرن، B12، یا فولیٹ کی کمی کا مشورہ دے سکتی ہے۔

 14. مسلسل بھوک یا خواہش: کم پروٹین، فائبر، یا میگنیشیم جیسے مخصوص مائیکرو نیوٹرینٹس کی علامت ہو سکتی ہے۔

 15. ٹھنڈے ہاتھ اور پاؤں: آئرن کی کمی یا تھائیرائیڈ کے عدم توازن کی وجہ سے خراب گردش کا اشارہ دے سکتا ہے۔

 16. زخم کا سست ہونا: اکثر وٹامن سی، زنک یا پروٹین کی کمی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

 17. بار بار سر درد یا چکر آنا: پانی کی کمی یا لوہے کی کم سطح کی نشاندہی کر سکتا ہے۔

 18. پریشانی یا موڈ میں تبدیلی: کم میگنیشیم، زنک، یا اومیگا 3 فیٹی ایسڈ سے متعلق ہو سکتا ہے.

 19. جوڑوں کا درد یا سختی: وٹامن ڈی یا اومیگا 3 کی کمی کی نشاندہی کر سکتی ہے۔

 20. قبض یا ہاضمے کے مسائل: ناکافی فائبر، میگنیشیم، یا پانی کی مقدار کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔

 میرے بھائی اور میری بہن، میں ان علامات پر توجہ دینے کی درخواست کرتا ہوں۔  صحیح غذائی اجزاء کے ساتھ اپنے جسم کی پرورش توازن کو بحال کرنے اور مجموعی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔
Cracks at the Corners of Your Mouth
 ♦️✿✿نوٹ
 پوسٹ شئیرنگ مفید معلومات و مفاد عامہ ایجوکیشنل پرپوز کے لیے ہے، جو اظہار کیا گیا ہے تشخیص و تجویز علاج معالج کا بدل نہیں، برائے مہربانی صحت کے مسائل کے کسی بھی علاج کے لیے اپنے ہیلتھ فزیشن سے رجوع کریں 

Don't be so good that you are swallowed, and don't be so bad that you are spat out

 

شہزادہ اور پاکستانی نوجوان
شاہینوں, کبھی تم نے خود سے یہ سوال کیا ہے؟
"میں تو نیکی کرتا ہوں، کسی کا دل نہیں دکھاتا، کسی کا حق نہیں مارتا — پھر میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوتا ہے؟"
تم دفتر میں ایمانداری دکھاؤ تو چالاک لوگ ترقی لے جاتے ہیں۔
تم کاروبار میں سچ بولو تو جھوٹے زیادہ کماتے ہیں۔
تم صبر کرو، معاف کرو، مدد کرو — مگر بدلے میں طنز، دھوکہ، اور تنہائی ملتی ہے۔
دل کہتا ہے شاید نیکی اب اس دنیا میں فائدہ نہیں دیتی۔

مگر رکو۔۔۔

یہی وہ لمحہ ہے جہاں نیک انسان کمزور بنتا ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ نیکی کا مطلب ہے دوسروں کے لیے قربانی دینا، خود کے لیے خاموش رہنا۔
اور یہ وہی مقام ہے جہاں میکیاویلی کی کتاب The Prince حقیقت کا آئینہ بن جاتی ہے۔

میکیاویلی نے پانچ سو سال پہلے کہا تھا —

“نیکی اگر اندھی ہو، تو وہ کمزوری بن جاتی ہے۔
مگر نیکی اگر عقل کے ساتھ ہو، تو وہ سب سے بڑی طاقت ہے۔”

یہ کہانی اُن سب پاکستانیوں کے لیے ہے جو نیکی کرتے ہیں مگر تھک جاتے ہیں۔
جو سچ بولتے ہیں مگر ہار جاتے ہیں۔
جو خیر بانٹتے ہیں مگر خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔
یہ کہانی اُنہیں بتاتی ہے کہ نیکی چھوڑو مت — مگر اسے سمجھ کے کرو۔

نکولو میکیاویلی کوئی ظالم یا سازشی انسان نہیں تھا جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں۔
وہ فلورنس (اٹلی) کا ایک سفارت کار اور فلسفی تھا،
جس نے زندگی بھر عدل، طاقت، اور انسانیت کے توازن کو سمجھنے کی کوشش کی۔

اس نے The Prince میں لکھا:

“دنیا ظالم نہیں، عملی ہے۔
اگر تم صرف اچھے رہو گے تو تمہیں استعمال کیا جائے گا۔
اگر تم صرف سخت رہو گے تو تمہیں اکیلا کر دیا جائے گا۔
کامیاب وہ ہے جو دل میں نیکی رکھ کر دماغ سے فیصلے کرے۔”

یہ بات پاکستان کے نوجوانوں کے لیے آج زندگی بدل دینے والی سچائی ہے۔

 پاکستان اور The Prince — آئینہ ایک دوسرے کا

ہم ایک ایسی قوم ہیں جہاں جذبہ تو بہت ہے، مگر نظم نہیں۔
احساس تو ہے، مگر حکمت کی کمی ہے۔
ہم ہر معاملے میں “جذباتی مسلمان” بن جاتے ہیں، مگر “سمجھدار امت” نہیں بنتے۔

اور The Prince نے بھی یہی کہا:

“جذبات تمہیں محبت دلائیں گے، مگر عقل تمہیں اقتدار دے گی۔”

ہماری حکومتیں، ادارے، حتیٰ کہ کاروبار —
سب جذبات سے چلتے ہیں، حکمت سے نہیں۔
اسی لیے ہم اچھے لوگ ہونے کے باوجود کمزور ملک بنے ہوئے ہیں۔

 The Prince کے بنیادی اصول – نوجوانوں کے لیے سبق

یہ وہ اصول ہیں جو ہر نوجوان کو سمجھنے چاہئیں —
چاہے وہ سیاست میں ہو، کاروبار میں، یا زندگی کی کسی جنگ میں۔

1. اچھے بنو، مگر اندھے نہیں

میکیاویلی کہتا ہے:

“نیکی اگر اندھی ہو تو دشمن تمہیں غلام بنا لیتے ہیں۔”

پاکستانی نوجوان اکثر یہی غلطی کرتے ہیں —
وہ سمجھتے ہیں کہ اچھا ہونا کافی ہے۔
نہیں!
اچھا ہونے کے ساتھ چالاک، باخبر، اور حکمت مند ہونا بھی ضروری ہے۔

نیکی تب طاقت بنتی ہے جب اس کے ساتھ علم اور تدبیر ہو۔

2. محبت اچھی ہے، مگر خوف زیادہ مؤثر ہے

یہ جملہ سخت لگتا ہے، مگر حقیقت یہی ہے۔
میکیاویلی لکھتا ہے:

“اگر تمہیں محبت اور خوف میں سے ایک چننا ہو تو خوف بہتر ہے —
کیونکہ محبت وقت کے ساتھ بدلتی ہے،
مگر خوف تمہیں بھلایا نہیں جانے دیتا۔”

اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم ظالم بنو —
بلکہ ایسا کردار بناؤ کہ لوگ تمہیں عزت اور احتیاط سے یاد رکھیں۔

پاکستان کے ہر ادارے نے محبت بانٹی مگر ڈسپلن اور ڈنڈا چھوڑ دیا — نتیجہ یہ کہ نظام ٹوٹ گیا، عزت ختم ہو گئی۔
صرف ایک ادارہ بچا جس نے ڈسپلن اور ڈنڈا ہاتھ سے نہیں چھوڑا،
اسی لیے آج بھی قائم ہے، مضبوط ہے، اور بااثر ہے۔

3. طاقت صرف بندوق نہیں، نظم ہے

طاقت وہ نہیں جو بندوق سے نکلے —
طاقت وہ ہے جو فیصلے پر قائم رہنے سے پیدا ہوتی ہے۔

میکیاویلی کہتا ہے:

“جو خود پر قابو نہیں رکھ سکتا، وہ دوسروں پر حکومت نہیں کر سکتا۔”

پاکستانی نوجوان اکثر باہر کی دنیا کو برا کہتے ہیں،
مگر اپنی عادات، وقت، وعدے، اور کام پر قابو نہیں رکھتے۔
طاقت حاصل کرنے سے پہلے ضبطِ نفس حاصل کرو۔

4. جذبات نہیں، نتائج دیکھو

میکیاویلی کہتا ہے:

“دنیا تمہارے نیت نہیں دیکھتی — تمہارے نتائج دیکھتی ہے۔”

ہم اکثر کہتے ہیں “میری نیت صاف تھی”۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ نیت سے نہیں، نتائج سے پہچان بنتی ہے۔

ایک ایماندار افسر اگر کام نہ کر سکے،
تو بدعنوان افسر سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔

اسی لیے نوجوانوں کو سیکھنا ہے:
صرف نیت نہیں، نظام بناؤ۔

5. اپنی نیکی کو قیمتی بناؤ

ہم ہر وقت سب کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن جب نیکی عام ہو جائے،
لوگ اس کی قدر نہیں کرتے — وہ اسے حق سمجھنے لگتے ہیں۔

میکیاویلی لکھتا ہے:

“جو ہر وقت دستیاب ہو، وہ آخرکار غیر اہم بن جاتا ہے۔”

اس لیے اپنی مدد کو حکمت کے ساتھ بانٹو۔
سب کے ساتھ اچھے رہو، مگر سب کے لیے خود کو قربان مت کرو۔

6. ظاہری نیکی اور اندرونی حکمت ساتھ رکھو

دنیا تمہارے دل کو نہیں دیکھتی، تمہارا تاثر دیکھتی ہے۔
میکیاویلی کہتا ہے:

“دنیا ظاہری کردار سے فیصلہ کرتی ہے —
اس لیے نیکی دکھاؤ، مگر عقل سے عمل کرو۔”

پاکستان میں بہت سے مخلص لوگ کاروبار میں ناکام ہوتے ہیں کیونکہ وہ “پیشہ ورانہ تاثر” نہیں رکھتے۔
دوسری طرف چالاک لوگ کامیاب نظر آتے ہیں کیونکہ وہ “دکھاوا سنبھالنا” جانتے ہیں۔

7. نیکی کا مقصد لوگوں کی واہ واہ نہیں، اللہ کی رضا ہو

یہ وہ سبق ہے جو The Prince کے فلسفے کو روحِ ایمان سے جوڑ دیتا ہے۔
اگر تم نے نیکی اس لیے کی کہ لوگ تعریف کریں —
تو تم نے نیکی کا انعام خود لوگوں سے لے لیا۔
مگر اگر تم نے نیکی صرف اللہ کے لیے کی —
تو تمہارا انعام ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“جس نے نیکی دکھاوے کے لیے کی، قیامت کے دن وہ اس کے منہ پر دے ماری جائے گی۔”

اس لیے پاکستانی نوجوانو، نیکی ضرور کرو —
مگر صرف اللہ کے لیے، عقل کے ساتھ۔

 اگر میکیاویلی آج پاکستان میں ہوتا…

وہ تم سے کہتا:

“اے نوجوان! تمہاری نیکی تمہیں عزت دے سکتی ہے،
مگر صرف تب جب تم اسے حکمت کے سانچے میں ڈھالو۔
تمہارا علم تمہیں دولت دے سکتا ہے،
مگر صرف تب جب تم اسے نظم میں بدل دو۔
تمہارا ایمان تمہیں طاقت دے سکتا ہے،
مگر صرف تب جب تم اسے عمل میں ڈھالو۔”

پاکستان کے نوجوانو —
تم وہ نسل ہو جسے اللہ نے قلم اور کوڈ دونوں کی طاقت دی ہے۔
نیکی چھوڑو مت، مگر اسے عقل کے ساتھ جیو۔
محبت بانٹو، مگر اصولوں کے ساتھ۔
ایمان رکھو، مگر علم کے ساتھ۔

اور اگر کبھی تمہیں لگے کہ نیکی کا بدلہ برا ملا ہے،
تو بس یہ یاد رکھو:

  “اللہ تمہیں دنیا سے نہیں، آخرت سے انعام دیتا ہے۔
تم اپنا حصہ ادا کرو — باقی اللہ پر چھوڑ دو۔”
یہ ملک تمہارا ہے اسے وہی بچائے گا جو نیکی اور عقل کو ایک ساتھ لے کر چلے گا۔  
نکولو میکیاویلی نے کہا تھا:
“شہزادہ وہ ہے جو جانتا ہے کب رحم کرنا ہے،
کب فیصلہ کرنا ہے، اور کب خاموش رہنا ہے۔”

اور اقبال نے کہا تھا:

“عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔”

✨ اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔
نیکی چھوڑ کر کمزور بنو —
یا نیکی کو علم، نظم، اور ایمان کے ساتھ طاقت بنا دو۔

یہی تمہارا اصل امتحان ہے۔
یہی The Prince کا پیغام ہے۔
یہی پاکستان کا مستقبل ہے۔

-عثمان چغتائی 

September 14, 2025

American, Europe Nationality Programme for Muslims, after two decades they forget islam

ایک دردناک اور ہولناک حقیقی انکشافات بھری تحریر۔
اسے مکمل لازمی پڑھیں۔۔۔۔
ایک صاحب جو کینیڈین نیشنل ہیں اور وہاں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ہیں اب پاکستان واپس شفٹ ہونے کے لیے کوشاں ہیں، ان سے جب اس کی وجہ دریافت کی تو ان کے انکشافات انتہائی خوفناک تھے، کہنے لگے کہ کالجوں یونیورسٹیوں میں بہت کانفرنسوں میں شرکت کی جن میں چند ایک اسلام پر بھی تھیں ان میں سے ایک کانفرنس کے بعد جب کچھ پروفیسر اور دیگر بیٹھے کھانے پینے میں مشغول تھے اور گپیں لگ رہی تھیں تو باتوں باتوں میں انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگ اسلام کے اتنے پیچھے بھی ہیں اور مسلمان ملکوں کے لوگوں کو نیشنلسٹی بھی دیتے ہیں تو ایک پروفیسر بولا کہ ہم مسلمانوں کو نیشنلسٹی دیتے ہیں وہ یہاں آتے ہیں ہماری خدمت کرتے ہیں اور اس کے بدلے معاوضے کو اپنا اعلیٰ کیریئر مانتے ہیں جیسے آپ آئے ہیں، آپ یہاں ہماری حکومت کی نوکری کر رہے ہیں اور ہمارے بچوں کو وہ پڑھا رہے ہیں جو ہم پڑھوانا چاہتے ہیں۔ اس کے بدلے آپ کو اچھی تنخواہ ملتی ہے اور آپ فیملی سمیت اچھی زندگی گزار رہے ہیں جو پیچھے آپ کے دیگر لوگوں کے لیے بڑی کشش رکھتی ہے اور ان میں بہت سے ہماری نوکریوں کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔  یہ ہمارا پہلا مقصد ہے اور دوسرا یہ ہے کہ آپ جیسے زیادہ تر لوگ اپنے مذہب قائم رہیں گے پر کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی اگلی نسل بھی آپ جیسی مذہب پر قائم رہنے والی ہو گی؟۔ ہمارے اندازے کے مطابق یورپی اور امریکہ کینیڈا آنے والے 70 سے 75 فی صد مسلمان اپنے عقیدے پر کسی نہ کسی طرح قائم رہتے ہیں پر اگلی نسل میں اسلام پر قائم رہنا صرف 20-25 فی صد رہ جائے گا اور اس کے بعد بس نام ہی مسلمانوں والا ہو گا اور ہو گا وہ ایسا لبرل مسلمان جو ہم بنانا چاہتے ہیں اس لیے ہماری نظر تم لوگوں کی تیسری اور چوتھی نسل پر ہے جو صرف نام کی مسلمان ہو گی بلکہ اصل اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہوں گے جو کفار کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف دلائل دیتے اور ذہن سازی کرتے نظر آئیں گے۔ 
 ہمارا پہلا مقصد تمہارے اعلیٰ دماغوں کو اچھے کیرئیر کا لالچ دے کر اپنا غلام بنانا ہے اور یہ کیرئیر ہماری نوکری کے بدلے ہے کوئی مفت میں نہیں ہے۔ دوسرا مقصد تمہاری نسلوں سے اسلام کو نکالنا ہے اور 'لبرل اسلام' کو لانا ہے اور یہ کام تمہاری آنے والی نسلیں خود کریں گی۔

وہ صاحب کہنے لگے کہ اس انگریز پروفیسر کی باتیں سن کر میں نے جب اپنے بچوں کا تجزیہ کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس پروفیسر کی باتیں اور اندازے ناقابلِ یقین حد تک درست ہیں۔ مجھے اپنے بچوں میں دنیاوی معاملات میں کیرئیر بنانے کی، آگے بڑھنے کی اور اس ماحول میں رچ بس جانے کی لگن نظر آئی اور نہیں نظر آیا تو دین نظر نہیں آیا۔ اب میرے پاس ہاتھ ملنے اور پشیمانی کے علاؤہ کچھ نہیں ہے کیونکہ دنیاوی معاملات میں الجھ کر اپنی اولاد کو نہ دین کی روشنی پہنچا سکا اور نہ ہی اپنی سماجی اقتدار سے بہرہ مند کروا سکا۔ اب واپس جانا پڑا تو خود ہی جا سکتا ہوں کیونکہ اولاد تو کینڈین شہری ہے اور ان پر اب میرا کوئی زور نہیں ہے۔

میں ان کی باتیں سن کر سوچ میں پڑھ گیا کہ اس انگریز پروفیسر کی باتیں صرف باتیں نہیں ہیں بلکہ اسلام دشمنی اور ہماری سماجی، معاشرتی اقتدار کو توڑنے کا کئی دھائیوں پر مشتمل ایک پلان ہے۔ 80/90 کی دھائیوں تک پرائیویٹ سکولوں میں داخلے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا پھر ہوا کا رخ بدلا گیا اور اب سرکاری سکولوں میں داخلے کو نیچ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کا نظام برباد کر دیا گیا۔ انگریز نے ہمارے تعلیمی نظام کو ایسا بنوا دیا کہ سرکاری سکولوں میں انگریزوں کے پالتوں کے ووٹروں اور سپوٹروں کی کھیپ تیار ہو اور پرائیویٹ سکولوں میں اچھے کیرئیر کا لالچ دے کر اپنی خدمت کے لیے غلاموں کو تیار کیا جا سکے اور ان غلاموں کے ذہنوں میں نقش ہو کہ انگریز ان سے افضل ہیں۔ آج کل کے حالات میں اپنی استعداد کے مطابق بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا بہت ضروری ہے پر ان نظر رکھنا کہ کہیں کوئی غلط عقیدہ یا نظریہ تو ان کے دماغوں میں نہیں ڈالا جا رہا یہ بھی بہت ضروری ہے اور ان کو دینی تعلیم دلوانا ہم پر لاگو ہے سکولوں کالجوں پر نہیں اس لیے ان کی دینی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرنا اشد ضروری ہے۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام اشرفیہ اور یہود ونصاریٰ کا غلام تو تیار کر رہا ہے پر وہ مسلمان تیار نہیں کر رہا جس کی 'خودی' کا، 'حرمت' کا، 'عشق' کا، 'ولولہ' کا اور 'جوشِ ایمانی' کا اظہار علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے جابجا کیا ہے۔ ہم لوگ جنت اور حوروں کے طلب گار بھی ہیں اور دعویٰ دار بھی ہیں کہ یہ سب کچھ صرف ہمیں ملے گا اور کفار کو کچھ نہیں ملے گا پر زندگیوں میں اسلام کو صرف اتنا لانا چاہتے ہیں جو ہمارے مفادات کے آڑے نہ آئے۔ امن پسند اتنے ہو گے ہیں کہ عزت و ناموس پر حملوں کے وقت بھی امن ہی یاد آتا ہے۔ انسانیت کا درس دیتے نہیں تھکتے پر جب یہود ونصاریٰ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے ہیں تب کبھی کبھار کوئی مذمتی بیان جاری کر کے جان چھڑا لی جاتی ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لی جائے 1952 کی پہلی تحریک ختم نبوت سے لے کر آج تک ہر لیڈر اور حاکم میں اسلام اور عشاق کے لیے بغض اور کفار و گستاخوں کے لیے ہمدردی نظر آتی ہے۔ بدقسمتی سے ہزاروں لاکھوں کلمہ گو، علماء اور نام نہاد عاشق بھی ان لیڈروں، حاکموں کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ اس لیے ہی آج قوم ذلت ورسوائی کی گہرائیوں میں ڈوب چکی ہے۔

اسلامی تاریخ بانگ درا بتا رہی ہے کہ عزت صرف اس کی ہوئی جس نے عزت و ناموس اور ختم نبوت پر پہرہ دیا اور وہی قوم کامیاب ہوئی جو دین حق اسلام کے قوانین پر چلی۔ 

 

September 02, 2025

PUNJABI ARE BRAVE PEOPLES, MANY PERSONS ASK AGAINST THEM -پنجابیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ بہادر نہیں، کیا کسی کو پنجابیوں کی بہادری پر شک ہے۔ تو میں بتاتا ہوں،





 کیا پنجابی اپنے اجداد پر فخر کر سکتے ہیں ؟؟۔

پنجابیوں کے لئیے اک متھ بنائی گئی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ حملہ آوروں کا ساتھ دیا اور مزاحمت سے گریز کیا۔ اور اس سلسلے میں  1857 کی جنگ آزادی میں ان کے کردار کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔

پنجابیوں کی بدقسمتی رہی کہ ان کو اپنا  دفاع کرنے اور تاریخ مرتّب کرنے کے لئیے اپنی زبان میّسر نہیں ریی کیونکہ سب سے موثر دفاع اپنی زبان میں ہی کیا جاسکتا ہے۔  پنجابی کو نہ کبھی سلیبس کی زبان کا درجہ مل سکا اور نہ ہی اسے کبھی تحریری زبان کے طور پر سند قبولیّت ملی ۔ اس لئیے زیادہ تر روایات اور لوک داستانیں ہی ملتی ہیں۔

لیکن کچھ غیر پنجابیوں نے ضرور اس پر قلم اٹھایا ہے اور پنجابیوں کا مقدّمہ لڑا اور ان کی ترجمانی کی ہے
مشہور تاریخ دان عزیزالدین صاحب کی کتاب "پنجاب اور بیرونی حملہ آور" 
اس مقدمے پر اک بہترین کاوش ہے

عزیز الدین ایک اردو اسپیکنگ لکھاری ھیں اور غیر جانبدار شخصیت ھیں۔ اُن کے مطابق پنجابیوں نے راجہ پورس سے لیکر بھگت سنگھ اور پھر بھنڈرانوالہ تک پنجاب کی سر زمین کے ایک ایک اِنچ پر مزاحمت کی ھے۔

دنیا کی مشہور قتل گاہ جلیانوالہ باغ ' جہاں پنجابیوں نے مزاحمت کا ریکارڈ قائم کیا ' کتاب میں اِسے "پنجاب کی کربلا "کہا گیا ہے
دُلا بھٹی پنجاب کا رابن ھُڈ ' پنجابیوں کی مزاحمت کی ایک لافانی مثال ھے۔ 
1857 کی جنگ ازادی شروع دلی سے ھوتی ھے ' لیکن اس کا انت پنجاب میں ھوتا ھے ' جب گوجرانوالہ پر انگریز بمباری کرتا ھے۔

برصغیر کے بہت کم علاقے ھیں جو انگریز سامراج نے لڑ کر حاصل کیے۔ بیشتر پر معاھدوں اور سازشوں کے ذریعے قبضہ کیا گیا۔ لیکن دیس پنجاب کے معاملے میں ایسا نہیں ھوا۔ سازشیں  تو برطانوی سامراج کا طرہءِ امتیاز تھیں۔ وہ پنجاب میں بھی ھوئیں۔ لیکن پنجاب میں فقط سازشوں سے کام نہ چل سکا اور برصغیر کے دیگر علاقوں کے برعکس نہ صرف یہاں دیس پنجاب پر قبضہ کرنے کے لئیے انگریزوں کو لڑنا پڑا۔ بلکہ پنجاب میں انہیں زبردست مزاحمت اور نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

پنجاب ' ھندوستان کا وہ خطہ تھا جو انگریز کے دور میں بھی آزاد حثیت برقرار رکھے ھوئے تھا۔  ایک آزاد ریاست تھا اور یہ سب سے آخر میں انگریزوں کی گرفت میں آیا۔ 
مھاراجہ رنجیت سنگھ کی 1839 میں وفات کے بعد پنجاب پر انگریز کا قبضہ 29 مارچ 1849 میں ھوتا ھے۔ جب پنجاب پر ایک 10 سالہ کم سن بچے مھاراجہ دلیپ سنگھ کا راج تھا۔

پنجابی فوج 1849 میں انگریز فوج کے ساتھ ھونے والی جنگ میں نہایت دلیری سے لڑی۔ ھندو  ' سکھ  اور مسلمان پنجابی مل کر متحدہ انگریز فوج جس میں غیر مُلکی  اترپردیش کے بھیا ' بہار کے بہاری اور کرائے کے غنڈے شامل تھے کے ساتھ لڑے۔ لیکن یہ جنگ ہار گئے

پنجابیوں کی انگریزوں کے ساتھ 10 بڑی لڑائیاں (01) مُدکی (02) فیروز شہر (03) بدووال (04) علی وال (05) سبھراواں (06) ملتان (07) رسول نگر (08) سعد اللہ پور (09) چیلیانوالہ (10) گجرات میں ھوئیں اور متعدد چھوٹی لڑائیوں میں اٹک اور جالندھر کی لڑائیاں زیادہ مشہور ھیں۔ یوں دیس پنجاب پر غاصبانہ قبضے کی خاطر انگریز سامراج کو پنجابی سرفروشوں سے کم و بیش 12 لڑائیاں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے چیلیانوالہ کی لڑائی کو غیر پنجابی تاریخ دان سید سبط حسن نے برصغیر کی سب سے خوفناک لڑائی قرار دیا ھے۔ جس میں انگریز فوجی افسروں کی بہت بڑی تعداد ماری گئی۔ 

  آج شائد موّرخ کا یہ کہنا درست لگے کہ پنجابیوں کی طرف سے جنگ آزادی میں انگریزوں کی مدد کرنا ان کی  تاریخی غلطی یا غلط حکمت عملی تھی۔ 
لیکن اس حکمت عملی کو سمجھنے کے لئیے دو بنیادی وجوہات کو دیکھنا ہو گا
 مغلوں کا پنجابیوں سے روا بے رحمانہ سلوک جس میں سکّھوں کے متعدد گُرو مارے گئے اور پنجابی ہیرو دُلّا بھٹّی اور اس کے ساتھیوں کا بے رحمانہ قتل سرفہرست یے  ۔ یہ پنجابیوں کی مغلوں کے خلاف اک مسلسل لڑائی تھی جس کا انجام پنجاب کی مغلوں سے آزادی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قیادت میں پنجاب کی آزاد ریاست کی صورت میں ہوا  ۔

سولھویں صدی میں سکھ مذھب کے بانی بابا گرو نانک دیو نے مغل حکمرانوں کی مذھبی جنونیت کی مذمت کی اور مغل شہنشاہ بابر کی ظلم اور بربریت کی کاروائیوں کا مقابلہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا جبکہ کئی سکھ گرو مغل بادشاھوں کے ھاتھوں مارے گئیے ۔

دُلا بھٹی نے اکبر بادشاہ کے خلاف علمِ حق بلند کیا اور سولھویں صدی کے مشھور صوفی بزرگ شاہ حسین نے دُلا بھٹی کے اکبر بادشاہ کے خلاف علمِ حق بلند کرنے پر دُلا بھٹی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ھوئے کہا کہ ؛ 
کہے حسین فقیر سائیں دا - 
تخت نہ ملدے منگے

دوسری بڑی وجہ پوربی سپاھیوں (بنگال آرمی کے بھیا اور بہار کے بہاری سپاھی) کا برطانوی فوج میں شامل ھو کر پنجاب کی سکھ سلطنت پر حملہ آور ھونا تھا۔ پنجابی سمجھتے تھے کہ اگر یہ بھیّے اور بہاری انگریزوں کا ساتھ نہ دیتے تو اکیلے انگریز پنجاب فتح نہیں کر سکتے تھے اس لئیے وہ ان دونوں کو مغلوں کی طرح اہنا دشمن سمجھتے تھے۔

انگریزوں کے ساتھ بھیا اور بہاری کے تعاون کی تلخ یادیں پنجابیوں کے ذھنوں میں اس قدر تازہ تھیں کہ؛ انکے درمیان کسی بھی طرح سے اتحاد ناممکن بن گیا تھا۔ کیونکہ جو لوگ اب آزادی کے لیے جنگجو ھونے کا دعویٰ کر رھے تھے ' یہ وھی لوگ تھے جنہوں نے آٹھ سال پہلے انگریزوں کی طرف سے پنجابی خودمختار ریاست کو ھڑپ کرنے میں انگریزوں کی بھرپور مدد کی تھی۔ اس کے علاوہ ' وہ اسی مغلیہ سلطنت کو  بحال کروا کر واپس لانے کی کوشش کر رھے تھے جس نے سالہا سال سے  پنجابیوں پر زندگی تنگ کی ھوئی تھی
برطانوی مسلح افواج میں بغاوت بھیا اور بہاری سپاھیوں کی طرف سے کی گئی اور سینکڑوں انگریز خواتین اور بچوں کو قتل کردیا گیا۔ جبکہ شمالی بھارت میں اسی سالہ بہادر شاہ ظفر کو مغل بادشاہ ھونے کی نسبت  سے باغیوں کی قیادت کرنے کے لئے تیار کیا گیا تھا
شاعر خازان  سنگھ نے 1858 میں لکھے گئے اپنے " جنگ نامہ دلی" میں ذکر کیا ھے کہ پوربی فوجیوں کے خلاف پنجابیوں کی شرکت کی وجہ 
"بھیا اور بہاری سپاھیوں کی طرف سے اس بات پر فخر کرنے کا ردِ عمل تھا کہ انہوں نے 46-1845 میں اور 49-1848 میں پنجابیوں کو شکست دی تھی

  پنجابیوں کو ایسی کسی تحریک کے مقصد سے کوئی ھمدردی نہ تھی جس کی سرپرستی کرنے والا ایک مغل بادشاہ تھا۔ اور بہاری اور بھئیے اس کا ساتھ دے ریے تھے۔  

پنجابیوں کی طرف سے بھیا اور بہاری کے خلاف غصّہ اور ناراضگی کا انگریزوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ 

 پنجاب پر انگریز کے قبضے کی وجہ سے رائے احمد کھرل ' نطام لوھار ' مراد فتیانہ ' خانو ' مُلا ڈولا اور بھگتاں والا بھگت سنگھ ایسے نسم ھیں ' جنہوں نے  پنجاب کی آزادی کی لڑائی میں لازوال کردار ادا کیا اور بغاوت کا علم بُلند کیا

August 15, 2025

WHAT IS CLOUD BURSTS, KPK BONIR HEAVEY RAINS FLOODS, LOT OF DEATHS

 


 

 گذشتہ کئی سالوں سے ان موضوعات کو پڑھ رہی اور لکھ رہی ہوں۔۔۔ یہ تحریر میرا حاصل مطالعہ ہے۔۔ 

کلاؤڈ برسٹ اب افسانہ نہیں رہا 
ملیحہ سید 

خیبر پختونخوا کے پہاڑی اضلاع۔۔۔خصوصاً بونیر اور سوات۔۔۔گزشتہ دنوں جس تباہ کن بارش اور اچانک سیلاب (فلیش فلڈ) کا شکار ہوئے، اس کے اسباب سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ’’کلاؤڈ برسٹ‘‘ کی واضح تعریف ضروری ہے۔ 

موسمیات میں کلاؤڈ برسٹ اس انتہائی شدید اور مقامی بارش کو کہا جاتا ہے جو عموماً پہاڑی یا وادی علاقوں میں قوی ابھری ہوئی ہواؤں (orographic lift) اور طاقتور کنویکشن کے باعث بہت کم وقت میں ایک چھوٹے رقبے پر برستی ہے۔ 

 عالمی ماہرین اسے عموماً ایسے واقعے کے طور پر بیان کرتے ہیں جس میں 30 مربع کلومیٹر یا اس سے بھی کم علاقے میں بارش کی شدت 100 ملی میٹر فی گھنٹہ یا اس سے زیادہ ہو۔یہ وہ شدت ہے جو چند منٹوں میں برساتی نالوں کو دریا بنا دیتی ہے اور ڈھلوان علاقوں میں مٹی کے تودے گرا دیتی ہے۔

 ورلڈ میٹیورولوجیکل آرگنائزیشن کے حوالہ جاتی معیارات بھی اس طرح کی بارشوں کو عام ’’ہیوی رین‘‘ سے الگ درجہ دیتی ہیں اور انہیں پرتشدد موسلا دھار شاورز کی حد تک رکھتی ہیں۔ کلاؤڈ برسٹ اکثر کُول ایئر ماس میں گرم مرطوب ہوا کے اچانک اٹھنے اور بلند بادلوں (کومولونمبس) میں بڑے قطروں کے تیزی سے جڑنے کے عمل سے بنتا ہے، اس لیے اس کا دورانیہ مختصر مگر اثر تابناک ہوتا ہے۔ 

ایسے واقعات وادیِ سوات اور بونیر جیسے خطوں میں کیوں زیادہ تباہ کن ثابت ہوتے ہیں؟ وجہ یہ کہ تنگ و عریض وادیوں، ڈھلوانی بستیاں، دریا کے کنارے آباد کاری، اور ندی نالوں کی قدرتی گزرگاہوں پر تجاوزات پانی کے بہاؤ کو محدود کرتی ہیں۔ 

جب انتہائی قلیل وقت میں بہت زیادہ بارش گرتی ہے تو پانی کو پھیلنے کی جگہ نہیں ملتی، نتیجتاً دباؤ اچانک بڑھتا ہے، کٹاؤ تیز ہوتا ہے، پل، سڑکیں اور کچے گھر بہہ جاتے ہیں، اور لینڈ سلائیڈنگ سلسلہ وار شروع ہو جاتی ہے۔ یہی کچھ حالیہ دنوں میں ہوا۔

 شمال مغربی پاکستان میں غیر معمولی موسلا دھار بارشوں اور کلاؤڈ برسٹس نے اچانک سیلاب پیدا کیے جن میں درجنوں بستیاں متاثر ہوئیں، لینڈ سلائیڈز اور ریلوں نے جانیں لیں اور مواصلات منقطع ہوئے۔ 

مستند خبررساں اداروں اور صوبائی اعدادوشمار کے مطابق سب سے زیادہ جانی نقصان خیبر پختونخوا میں ہوا، جہاں بونیر ضلع میں اموات کی تعداد غیر معمولی رہی اور سوات میں گھروں، اسکولوں اور ڈھانچوں کی تباہی ریکارڈ ہوئی۔ 

خبر رساں اداروں کے مطابق 15 اگست 2025 تک صرف شمال مغرب میں بارش اور اچانک سیلاب کے تازہ سلسلے میں درجنوں ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں، جبکہ مجموعی طور پر موسمِ برسات کے آغاز (اواخر جون) سے ملک بھر میں سینکڑوں اموات ہو چکی تھیں۔ اسی دوران ریسکیو مشن پر مامور ایک ہیلی کاپٹر بھی خراب موسم کے باعث حادثے کا شکار ہوا جس میں عملہ جاں بحق ہوا۔

یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شدید موسمی واقعات کے دوران رسائی، مواصلات اور مدد رسانی خود کتنا بڑا چیلنج بن جاتے ہیں۔ سوات دریا کے مقامات پر بھی پانی کی سطح میں خطرناک اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا اور سیاحتی وادیوں میں پھننسے لوگوں کی بڑی تعداد کو نکالنا پڑا۔ 

پاکستان میں ایسے سانحات اب ’’غیر معمولی‘‘ نہیں رہے۔عالمی موسمیاتی ادارہ (WMO) واضح کر چکا ہے کہ 2024 کرۂ ارض کا اب تک کا گرم ترین سال رہا، جبکہ ایشیا کا خطہ مسلسل غیر معمولی حدت، ریکارڈ سمندری درجہ حرارت اور اوسط سے زیادہ سمندری سطح کے اضافے کا سامنا کر رہا ہے۔ شدید بارشیں اور سیلاب 2024 میں ایشیا کے سب سے زیادہ نمایاں خطرات میں شمار ہوئے۔

 بین الاقوامی سائنسی جائزوں کے مطابق حدت میں اضافے سے فضا میں نمی زیادہ رُکی رہتی ہے اور جب وہ گِرتی ہے تو بارش کے واقعات مزید شدید ہوتے ہیں۔یعنی "جب برستی ہے تو ٹوٹ کر"۔ یہی رجحان جنوبی ایشیا کے مون سون خطے میں مختصر مگر شدید بارشی جھکڑوں اور کلاؤڈ برسٹس کے امکانات کو بڑھا رہا ہے۔ 

ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کے حالیہ اور سابقہ مطالعات نے پاکستان میں شدید بارشوں کے بعض سلسلوں میں انسانی وجہ سے ہونے والی حدت کے واضح اثرات دکھائے ہیں۔ 

تازہ تجزیوں میں 2025 کے وسطِ مون سون میں پاکستان کے کئی شہروں اور شمالی علاقوں میں ہونے والی موسلا دھار بارشوں اور شہری سیلاب میں انسانی سرگرمیوں سے پیدا شدہ حدت کو ایک اہم عنصر قرار دیا گیا۔

جبکہ 2022 کے تباہ کن سیلابوں کے بارے میں اسی نیٹ ورک کی تحقیق نے 5 روزہ شدید بارش کے واقعات میں بارش کی شدت کو بعض ماڈلز میں 50 فیصد تک زیادہ بتایا یعنی اسی نوعیت کے نظام اب پہلے سے کہیں زیادہ نمکیات اور توانائی لے کر برستے ہیں اور مروجہ ڈھانچوں کی برداشت سے باہر ہو جاتے ہیں۔ 

اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی ’’ایمیشنز گیپ رپورٹ 2024‘‘ خبردار کرتی ہے کہ اگر عالمی درجۂ حرارت کو 1.5°C تک محدود رکھنے کے تقاضے پورے نہ کیے گئے تو 2°C یا اس سے زیادہ گرم دنیا میں انتہائی موسمی واقعات،جن میں مختصر مگر شدید بارشیں بھی شامل ہیں مزید کثرت اور شدت سے آئیں گے۔ 

اسی طرح آئی پی سی سی کی تازہ جامع رپورٹ واضح کرتی ہے کہ جنوبی ایشیا میں انتہائی بارش اور متعلقہ سیلابی خطرات بڑھ رہے ہیں اور کمزور ڈھانچوں، دریا کے کنارے آبادی اور غریب طبقوں پر ان کے اثرات غیر معمولی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک جو عالمی اخراج میں کم حصہ ڈالتے ہیں، سب سے زیادہ قیمت ادا کر رہے ہیں۔ 

کلاؤڈ برسٹ کے بعد زمینی سطح پر تباہی کے بنیادی میکانزم واضح ہیں ،انتہائی قلیل وقت میں بہت زیادہ بارش، ڈھلوانوں پر مٹی کا اچانک بھربھرا جانا، لینڈ سلائیڈنگ، نالوں کا پلک جھپکتے میں سیلابی ریلوں میں بدل جانا، اور دریا کے کناروں پر تیز کٹاؤ۔ بونیر اور سوات جیسی وادیوں میں گھروں اور انفراسٹرکچر کی تباہی اسی زنجیر کی کڑیاں ہیں۔ 

حالیہ رپورٹوں میں خیبر پختونخوا کے اضلاع میں اموات، گھروں اور سکولوں کی تباہی کے اعدادوشمار سامنے آئے، جو اس بات کی گواہی ہیں کہ موسمیاتی خطرات اب ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے معمولات سے آگے کا مسئلہ بن چکے ہیں۔ 

پالیسی اور عمل کی سطح پر کیا ضروری ہے؟ 

* سب سے پہلے، ہنگامی وارننگ اور کمیونٹی رسپانس۔خاص طور پر وادیوں اور ندی نالوں کے قریب آبادیوں کے لیے،کو حد درجہ مقامی بنایا جائے۔ 

* دوسری بات، دریا اور برساتی نالوں کی قدرتی گذرگاہوں سے تجاوزات ہٹانا، خطرے کے نقشوں کے مطابق غیر محفوظ علاقوں سے محفوظ جگہوں پر منصوبہ بند منتقلی اور مقامی تعمیرات کے معیارات میں بارشی لوڈ کے مطابق بہتری لانا۔ 

* تیسری بات، سیلابی میدانوں میں کچے گھروں کی ازسرِنو تعمیر کے بجائے بلند پلینتھ اور سیلاب سے محفوظ ڈیزائن اپنانا۔ 

* چوتھی بات، سیلابی بیمہ، کمیونٹی فنانس، اور مقامی حکومتوں کے لیے موسمیاتی فنڈنگ تک رسائی۔

•  پانچویں بات، سیاحتی وادیوں کے لیے "ریئل ٹائم رسک انفارمیشن" سڑک بندشیں، دریا کی سطح، لینڈ سلائیڈ الرٹس ۔۔۔کو موبائل اور ایف ایم چینلز پر لازماً نشر کرنا۔
 کیونکہ مقامی معیشتیں سیاحت پر انحصار کرتی ہیں اور بروقت معلومات جانیں بچاتی ہیں۔

 یہ سب اقدامات اسی وسیع تر پس منظر میں معنی رکھتے ہیں جہاں عالمی درجۂ حرارت تاریخی بلند ترین سطح پر ہے اور ایشیا بھر میں سیلابی خطرات ڈیٹا کے ساتھ بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ 

بالائی پاکستان۔۔۔۔خاص طور پر گلگت بلتستان میں گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے (GLOFs) اور مسلسل لینڈ سلائیڈنگ کے خدشات کے پیشِ نظر خیبر پختونخوا اور پنجاب کے دریا بھی اچانک بہاؤ میں اضافے سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

 حالیہ ہفتوں میں قراقرم ہائی وے پر بار بار تعطل اور جانی نقصان نے دکھایا کہ ایک خطے کا خطرہ دوسرے خطوں کی رسد، تجارت اور سیاحت تک کو مفلوج کر دیتا ہے۔ اس لیے بین الاضلاعی رابطہ کاری، موسمیاتی ڈیٹا کی فوری ترسیل، اور متبادل راستوں و سپلائی چین کی پیشگی منصوبہ بندی اب لازمی ہے۔ 

آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’’کلاؤڈ برسٹ‘‘ کوئی افسانوی اصطلاح نہیں بلکہ ایک موسمیاتی حقیقت ہے جس کے پیچھے ٹھوس طبیعیات اور گرم ہوتی ہوئی دنیا کی سخت حقیقت موجود ہے۔ بونیر اور سوات میں حالیہ تباہی ہمیں بتاتی ہے کہ جب پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر چند گھنٹوں میں مہینوں جتنی بارش گرتی ہے تو کمزور ڈھانچے اور بے ہنگم آباد کاری سب سے پہلے ٹوٹتے ہیں۔ 

عالمی رپورٹس مسلسل متنبہ کر رہی ہیں کہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے موافقت (Adaptation) اور لچکدار ڈھانچے بنانا اب اختیار نہیں، مجبوری ہے اور جب تک عالمی سطح پر اخراج کم نہیں ہوتے، ایسے سانحے بار بار سر اٹھاتے رہیں گے۔

صورتِ حال ہنگامی بھی ہے اور ساختی بھی، اس لیے حکمتِ عملی کو تین دائروں میں بیک وقت چلانا چاہیے۔۔۔ جیسے 

 فوری ردِعمل، قلیل/درمیانی مدت کی تیاری، اور طویل مدتی ساختی اصلاح۔ 

ذیل میں ایک عملی روڈ میپ ہے جو خیبر پختونخوا بالخصوص سوات، بونیر اور ملحقہ وادیوں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، مگر اسے صوبائی وفاقی سطح پر بھی اپنایا جا سکتا ہے۔

سب سے پہلے ایک واضح اصول: کلاؤڈ برسٹ کم وقت میں غیرمعمولی بارش ہے، اس لیے "چند گھنٹے پہلے" درست وارننگ، "چند منٹ" میں محفوظ جگہ منتقل ہونے کے راستے، اور "چند دن" میں بحالی کی فوری صلاحیت۔۔ یہ تین ستون کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتے ہیں۔

فوری اور آئندہ مون سون کے لیے لازمی اقدامات
ہنگامی انتباہ کو آخری میل تک لے جائیں۔۔۔ موبائل سیل براڈکاسٹ، ایف ایم ریڈیو، مساجد کے لاؤڈ اسپیکر، اور مقامی والینٹیئر نیٹ ورک ایک ہی متن کے ساتھ ایک ہی وقت میں الرٹ جاری کریں۔ پیغام صرف تین چیزیں بتائے۔۔ کہ 

* خطرہ کیا ہے ؟

* محفوظ مقام کہاں ہے؟ 

* پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا؟

✓"ریڈ الرٹ پروٹوکول"طے کریں۔۔۔

•  مخصوص تھریش ہولڈ (مثلاً فی گھنٹہ غیر معمولی بارش/ندیوں کی سطح میں تیز اضافہ) ملتے ہی سکول بند، سیاحت عارضی معطل، دریا کنارے کاروبار و تعمیرات فوراً خالی، اور بستی وار محفوظ مراکز کھول دیے جائیں۔

* انخلا کے راستوں کی پیشگی نشاندہی اور نشانات: ہر یونین کونسل میں کم از کم دو متبادل راستے، راستوں پر فاصلہ/وقت کے سائن بورڈ، رات میں نظر آنے والی ریٹرو ریفلیکٹو پٹی اور پلوں کے قریب گائیڈ پوسٹس۔

* نالوں کی فوری ڈیسِلٹنگ اور قبضہ ختم کرنا۔۔۔ مون سون کے دوران ہنگامی اختیارات کے تحت برساتی گزرگاہوں سے رکاوٹیں، بجری، اور عارضی تعمیرات فوراً ہٹائی جائیں۔۔ خلاف ورزی پر موقع پر جرمانہ اور بھاری ضبطی۔

* قبل از حادثہ طبی و ریسکیو تیاری: تحصیل سطح پر ایمبولینس، کشتی، رسیاں، لائف جیکٹس، سیٹلائٹ فونز، جنریٹر، اور ادویات کا اسٹاک؛ مقامی ڈاکٹرز اور رضاکاروں کی 48 گھنٹے کی ڈیوٹی روٹیشن۔

* سیاحتی نظم و ضبط: دریا کے کنارے ہوٹلز/کیمپس پر رئیل ٹائم الرٹ اسکرینیں، خطرے کے وقت فوراً مہمانوں کی اندراجی فہرست اور اجتماعی انخلا کی مشق۔۔ غیرمحفوظ مقامات پر سیلفی/کیپنگ پر جرمانہ۔

✓ قلیل اور درمیانی مدت (۳–۱۲ ماہ)

* خطرے کے نقشے اور قانون سازی :  وادی وار فلڈ پلین/لینڈ سلائیڈ رسک میپنگ کروا کر ’’نو-بلڈ زون‘‘ قانونی طور پر مقرر کریں۔ دریاکنارے 50–200 میٹر (مقامی ہائیڈرولوجی کے مطابق) کا کوریڈور بطور ’’قدرتی گزرگاہ‘‘ محفوظ کیا جائے۔

* عمارات کے ہِل ایریا بائی لاز: نچلے فرش کی بلند بنیاد (raised plinth)، پائل/راک بولٹنگ، ریٹیننگ والز کے انجینئرڈ ڈیزائن، بڑے کلورٹس و کراسنگز کی گنجائش کو 1-in-50 یا 1-in-100 سالہ بارش کے مطابق اپڈیٹ کرنا؛ خلاف ورزی پر تعمیر سیل اور فوری مسماری کے اخراجات مالک پر۔

* ڈھیٹ بہاؤ اور ملبہ روکنے کے ڈھانچے: نالوں میں ڈیبرِس فلو بیریئرز، چیک ڈیمز، گابیون وال/ٹو وائر بنڈز، اور دریا میں ساحلی کٹاؤ روکنے کے اسمارٹ اسپَرز، مگر صرف اُن جگہوں پر جہاں ہائیڈرولک ماڈلنگ اسے مؤثر بتائے۔

* بارش و دریا کی رئیل ٹائم نگرانی: آٹومیٹڈ ویدر اسٹیشنز اور دریا سطح گیجز کی کثافت بڑھا کر ڈیٹا کو آن لائن ڈیش بورڈ/ایپ میں کھولا جائے؛ مقامی زبان (پشتو/اردو) میں الرٹس۔

* سکول و کلینک بطور پناہ گاہ: کم از کم ایک محفوظ فلور، ایڈجسٹ ایبل بیڈز، خواتین و بچوں کے لیے علیحدہ کمروں کی گنجائش، سولر بیک اپ، اور محفوظ پانی/سینی ٹیشن کے مستقل انتظامات۔

* مالیاتی تحفظ: صوبائی ڈیزاسٹر رسک فنانسنگ فریم ورک۔۔ہنگامی فنڈ، کنٹینجنسی بجٹ، اور " پیرامیٹرک مائیکرو انشورنس" ۔ جس کے تحت مخصوص بارش/دریا سطح پر کسان/دکاندار کو خودکار ادائیگی ہو۔ بنکوں کے ذریعے کم سود بحالی قرض، اور سیلابی علاقوں کے لیے ٹیکس و فیس میں عارضی ریلیف۔

* محفوظ روزگار و بحالی: "کیَش فار ورک" کے تحت نالوں کی صفائی، سڑکوں کی بحالی، سبزی/پولٹری کٹس، اور خواتین کے گھریلو روزگار پیکجز ۔۔۔ متاثرہ گھرانوں کے لیے شفاف فہرستیں اور موبائل منی ادائیگیاں۔

* کمانڈ اینڈ کنٹرول: ضلعی سطح پر "انسیڈنٹ کمانڈ سسٹم" کی باقاعدہ تربیت، سال میں کم از کم دو بڑے فلڈ ڈرلز، اور ریسکیو، پولیس، محکمۂ صحت، لوکل گورنمنٹ، سیاحت اور ہاؤسنگ کے نمائندوں پر مشتمل مشترکہ آپریشن روم۔

طویل مدت (۱–۳ سال اور آگے)

* زمین کے استعمال کی اصلاح: دریا کے قدرتی کوریڈور کی مکمل بحالی، بڑے ہوٹل/مارکیٹس کی مرحلہ وار محفوظ منتقلی، نالوں پر مستقل تجاوزات کے خلاف زیرو ٹالرنس، اور نئی ہاؤسنگ اسکیموں کی مشروط منظوری صرف خطراتی نقشے کے مطابق۔

* جامع انفراسٹرکچر ریزیلینس: پلوں کو اوورٹاپنگ سے بچانے کے لیے فری بورڈ بڑھانا، سیلابی پانی کے متبادل راستے (relief culverts)، لینڈ سلائیڈ پرن زونز میں روڈ الائنمنٹ کی تبدیلی، اور اہم سڑکوں/پُلوں کے نیچے ملبہ پھنسنے سے روکنے کے لیے ڈیٹریٹس کیچمنٹ ڈیزائن۔

* قدرتی حلوں کا مرکزی دھارا: مقامی نوع کے درختوں کے ساتھ ڈھلوانوں کی بایو انجینئرنگ، اسپرنگز اور واٹر کیچمنٹس کی بحالی، ویٹ لینڈز اور فلڈ پلین ری اسٹوریٹو پروجیکٹس تاکہ اچانک بارش کا دباؤ قدرتی طور پر تقسیم ہو۔

* گلیشیائی وادیوں کے لیے خصوصی پروگرام: GLOF مانیٹرنگ، برفانی جھیلوں کی ڈرینیج/اسپل ویز، اور قراقرم/ہندوکش ہائی ویز پر لینڈ سلائیڈ ارلی وارننگ۔

* تعلیم اور رویّہ: سکول نصاب میں مقامی ڈیزاسٹر آگہی، ہر بستی میں خواتین و نوجوانوں کی رضاکار ٹیمیں، سالانہ مشقیں، اور سیاحوں کے لیے " ڈو نَو ہارم" رہنما اصول (پلاسٹک/کچرا، دریا کنارے غیرمحفوظ سرگرمیاں، آتش بازی وغیرہ پر پابندی)۔

* ڈیٹا، تحقیق اور احتساب

 ہر واقعے کے بعد 30 دن میں ’’لَیسن لرنٹ‘‘ رپورٹ، نقصان کی کھلی ڈیٹاسیٹ اور عوامی سماعت؛ سالانہ "ریزیلینس اسکورکارڈ " جس میں الرٹ کی رفتار، انخلا کی کامیابی، ڈھانچوں کی مزاحمت، اور بحالی وقت کی پیمائش ہو۔

* ادارہ جاتی اور مالیاتی بندوبست

صوبائی/ضلعی سطح پر ایک ’’کلاؤڈ برسٹ سیفٹی سیل‘‘ بنایا جائے جس میں موسمیات، آبپاشی، پبلک ہیلتھ، پی اینڈ ڈی، لوکل گورنمنٹ، ریسکیو 1122 اور ٹورزم سب شامل ہوں۔ یہ سیل وارننگ، رسک میپنگ، اور نافذ العمل بندوبست کا نگہبان ہو۔

* فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع کریں

سالانہ ترقیاتی پروگرام میں "کلائمیٹ ایڈاپٹیشن ونڈو"، بین الاقوامی موسمیاتی فنڈز تک رسائی (گرین کلائمیٹ فنڈ/ایڈاپٹیشن فنڈ)، ڈونر پارٹنرشپس، اور ڈیزاسٹر بانڈز/انشورنس پول کے ذریعے بڑے انفراسٹرکچر کی مالیاتی حفاظت۔

* شفاف خریداری و عملدرآمد

ای ٹینڈرنگ، تھرڈ پارٹی مانیٹرنگ، اور کرپشن/بدانتظامی پر فوری سزا؛ "پراجیکٹ میپ" عوام کے لیے آن لائن تاکہ ہر بند، اسپل وے، پل اور ڈرین کی حالت اور مرمت کی تاریخ نظر آ سکے۔

اس کے ساتھ ساتھ ساتھ مقامی سطح کی چھوٹی مگر فیصلہ کن تبدیلیاں،ہر گھر کے لیے ایمرجنسی کٹ (ٹارچ، ریڈیو، پاور بینک، پہلی امداد، گرم کپڑے، خشک راشن) اور خاندان کا انخلا منصوبہ۔
گھروں کی بُنیاد بلند اور دروازوں/ونڈوز پر فلڈ اسٹاپرز؛ چھت کا پانی محفوظ کرنے والے ٹینک تاکہ اچانک بہاؤ نالیوں پر کم دباؤ ڈالے۔
کمیونٹی سطح پر ’’بارش گھنٹی‘‘ یا سائرن؛ رضاکاروں کے پاس بنیادی رَسی اور لائف جیکٹ کی دستیابی؛ دیہات میں ٹریکٹر/چار پہیہ گاڑی بطور ہنگامی نقل و حمل۔

الغرض کلاؤڈ برسٹ کے دور میں کامیابی کا راز " سیکنڈز اور منٹس" کو جیتنے میں ہے ۔۔۔ یعنی وارننگ تیز، انخلا آسان، راستے کھلے، اور ڈھانچے لچکدار۔ اگر ہم قانون، انجینئرنگ، فنانس اور سماجی نظام کو ایک لڑی میں پرودیں تو سوات، بونیر اور پورا کے پی نہ صرف کم نقصان اٹھائے گا بلکہ ہر اگلے مون سون کے ساتھ زیادہ محفوظ ہوتا جائے گا۔



Total Pageviews