شہزادہ اور پاکستانی نوجوان
شاہینوں, کبھی تم نے خود سے یہ سوال کیا ہے؟
"میں تو نیکی کرتا ہوں، کسی کا دل نہیں دکھاتا، کسی کا حق نہیں مارتا — پھر میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوتا ہے؟"
تم دفتر میں ایمانداری دکھاؤ تو چالاک لوگ ترقی لے جاتے ہیں۔
تم کاروبار میں سچ بولو تو جھوٹے زیادہ کماتے ہیں۔
تم صبر کرو، معاف کرو، مدد کرو — مگر بدلے میں طنز، دھوکہ، اور تنہائی ملتی ہے۔
دل کہتا ہے شاید نیکی اب اس دنیا میں فائدہ نہیں دیتی۔
مگر رکو۔۔۔
یہی وہ لمحہ ہے جہاں نیک انسان کمزور بنتا ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ نیکی کا مطلب ہے دوسروں کے لیے قربانی دینا، خود کے لیے خاموش رہنا۔
اور یہ وہی مقام ہے جہاں میکیاویلی کی کتاب The Prince حقیقت کا آئینہ بن جاتی ہے۔
میکیاویلی نے پانچ سو سال پہلے کہا تھا —
“نیکی اگر اندھی ہو، تو وہ کمزوری بن جاتی ہے۔
مگر نیکی اگر عقل کے ساتھ ہو، تو وہ سب سے بڑی طاقت ہے۔”
یہ کہانی اُن سب پاکستانیوں کے لیے ہے جو نیکی کرتے ہیں مگر تھک جاتے ہیں۔
جو سچ بولتے ہیں مگر ہار جاتے ہیں۔
جو خیر بانٹتے ہیں مگر خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔
یہ کہانی اُنہیں بتاتی ہے کہ نیکی چھوڑو مت — مگر اسے سمجھ کے کرو۔
نکولو میکیاویلی کوئی ظالم یا سازشی انسان نہیں تھا جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں۔
وہ فلورنس (اٹلی) کا ایک سفارت کار اور فلسفی تھا،
جس نے زندگی بھر عدل، طاقت، اور انسانیت کے توازن کو سمجھنے کی کوشش کی۔
اس نے The Prince میں لکھا:
“دنیا ظالم نہیں، عملی ہے۔
اگر تم صرف اچھے رہو گے تو تمہیں استعمال کیا جائے گا۔
اگر تم صرف سخت رہو گے تو تمہیں اکیلا کر دیا جائے گا۔
کامیاب وہ ہے جو دل میں نیکی رکھ کر دماغ سے فیصلے کرے۔”
یہ بات پاکستان کے نوجوانوں کے لیے آج زندگی بدل دینے والی سچائی ہے۔
پاکستان اور The Prince — آئینہ ایک دوسرے کا
ہم ایک ایسی قوم ہیں جہاں جذبہ تو بہت ہے، مگر نظم نہیں۔
احساس تو ہے، مگر حکمت کی کمی ہے۔
ہم ہر معاملے میں “جذباتی مسلمان” بن جاتے ہیں، مگر “سمجھدار امت” نہیں بنتے۔
اور The Prince نے بھی یہی کہا:
“جذبات تمہیں محبت دلائیں گے، مگر عقل تمہیں اقتدار دے گی۔”
ہماری حکومتیں، ادارے، حتیٰ کہ کاروبار —
سب جذبات سے چلتے ہیں، حکمت سے نہیں۔
اسی لیے ہم اچھے لوگ ہونے کے باوجود کمزور ملک بنے ہوئے ہیں۔
The Prince کے بنیادی اصول – نوجوانوں کے لیے سبق
یہ وہ اصول ہیں جو ہر نوجوان کو سمجھنے چاہئیں —
چاہے وہ سیاست میں ہو، کاروبار میں، یا زندگی کی کسی جنگ میں۔
1. اچھے بنو، مگر اندھے نہیں
میکیاویلی کہتا ہے:
“نیکی اگر اندھی ہو تو دشمن تمہیں غلام بنا لیتے ہیں۔”
پاکستانی نوجوان اکثر یہی غلطی کرتے ہیں —
وہ سمجھتے ہیں کہ اچھا ہونا کافی ہے۔
نہیں!
اچھا ہونے کے ساتھ چالاک، باخبر، اور حکمت مند ہونا بھی ضروری ہے۔
نیکی تب طاقت بنتی ہے جب اس کے ساتھ علم اور تدبیر ہو۔
2. محبت اچھی ہے، مگر خوف زیادہ مؤثر ہے
یہ جملہ سخت لگتا ہے، مگر حقیقت یہی ہے۔
میکیاویلی لکھتا ہے:
“اگر تمہیں محبت اور خوف میں سے ایک چننا ہو تو خوف بہتر ہے —
کیونکہ محبت وقت کے ساتھ بدلتی ہے،
مگر خوف تمہیں بھلایا نہیں جانے دیتا۔”
اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم ظالم بنو —
بلکہ ایسا کردار بناؤ کہ لوگ تمہیں عزت اور احتیاط سے یاد رکھیں۔
پاکستان کے ہر ادارے نے محبت بانٹی مگر ڈسپلن اور ڈنڈا چھوڑ دیا — نتیجہ یہ کہ نظام ٹوٹ گیا، عزت ختم ہو گئی۔
صرف ایک ادارہ بچا جس نے ڈسپلن اور ڈنڈا ہاتھ سے نہیں چھوڑا،
اسی لیے آج بھی قائم ہے، مضبوط ہے، اور بااثر ہے۔
3. طاقت صرف بندوق نہیں، نظم ہے
طاقت وہ نہیں جو بندوق سے نکلے —
طاقت وہ ہے جو فیصلے پر قائم رہنے سے پیدا ہوتی ہے۔
میکیاویلی کہتا ہے:
“جو خود پر قابو نہیں رکھ سکتا، وہ دوسروں پر حکومت نہیں کر سکتا۔”
پاکستانی نوجوان اکثر باہر کی دنیا کو برا کہتے ہیں،
مگر اپنی عادات، وقت، وعدے، اور کام پر قابو نہیں رکھتے۔
طاقت حاصل کرنے سے پہلے ضبطِ نفس حاصل کرو۔
4. جذبات نہیں، نتائج دیکھو
میکیاویلی کہتا ہے:
“دنیا تمہارے نیت نہیں دیکھتی — تمہارے نتائج دیکھتی ہے۔”
ہم اکثر کہتے ہیں “میری نیت صاف تھی”۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ نیت سے نہیں، نتائج سے پہچان بنتی ہے۔
ایک ایماندار افسر اگر کام نہ کر سکے،
تو بدعنوان افسر سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔
اسی لیے نوجوانوں کو سیکھنا ہے:
صرف نیت نہیں، نظام بناؤ۔
5. اپنی نیکی کو قیمتی بناؤ
ہم ہر وقت سب کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن جب نیکی عام ہو جائے،
لوگ اس کی قدر نہیں کرتے — وہ اسے حق سمجھنے لگتے ہیں۔
میکیاویلی لکھتا ہے:
“جو ہر وقت دستیاب ہو، وہ آخرکار غیر اہم بن جاتا ہے۔”
اس لیے اپنی مدد کو حکمت کے ساتھ بانٹو۔
سب کے ساتھ اچھے رہو، مگر سب کے لیے خود کو قربان مت کرو۔
6. ظاہری نیکی اور اندرونی حکمت ساتھ رکھو
دنیا تمہارے دل کو نہیں دیکھتی، تمہارا تاثر دیکھتی ہے۔
میکیاویلی کہتا ہے:
“دنیا ظاہری کردار سے فیصلہ کرتی ہے —
اس لیے نیکی دکھاؤ، مگر عقل سے عمل کرو۔”
پاکستان میں بہت سے مخلص لوگ کاروبار میں ناکام ہوتے ہیں کیونکہ وہ “پیشہ ورانہ تاثر” نہیں رکھتے۔
دوسری طرف چالاک لوگ کامیاب نظر آتے ہیں کیونکہ وہ “دکھاوا سنبھالنا” جانتے ہیں۔
7. نیکی کا مقصد لوگوں کی واہ واہ نہیں، اللہ کی رضا ہو
یہ وہ سبق ہے جو The Prince کے فلسفے کو روحِ ایمان سے جوڑ دیتا ہے۔
اگر تم نے نیکی اس لیے کی کہ لوگ تعریف کریں —
تو تم نے نیکی کا انعام خود لوگوں سے لے لیا۔
مگر اگر تم نے نیکی صرف اللہ کے لیے کی —
تو تمہارا انعام ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“جس نے نیکی دکھاوے کے لیے کی، قیامت کے دن وہ اس کے منہ پر دے ماری جائے گی۔”
اس لیے پاکستانی نوجوانو، نیکی ضرور کرو —
مگر صرف اللہ کے لیے، عقل کے ساتھ۔
اگر میکیاویلی آج پاکستان میں ہوتا…
وہ تم سے کہتا:
“اے نوجوان! تمہاری نیکی تمہیں عزت دے سکتی ہے،
مگر صرف تب جب تم اسے حکمت کے سانچے میں ڈھالو۔
تمہارا علم تمہیں دولت دے سکتا ہے،
مگر صرف تب جب تم اسے نظم میں بدل دو۔
تمہارا ایمان تمہیں طاقت دے سکتا ہے،
مگر صرف تب جب تم اسے عمل میں ڈھالو۔”
پاکستان کے نوجوانو —
تم وہ نسل ہو جسے اللہ نے قلم اور کوڈ دونوں کی طاقت دی ہے۔
نیکی چھوڑو مت، مگر اسے عقل کے ساتھ جیو۔
محبت بانٹو، مگر اصولوں کے ساتھ۔
ایمان رکھو، مگر علم کے ساتھ۔
اور اگر کبھی تمہیں لگے کہ نیکی کا بدلہ برا ملا ہے،
تو بس یہ یاد رکھو:
“اللہ تمہیں دنیا سے نہیں، آخرت سے انعام دیتا ہے۔
تم اپنا حصہ ادا کرو — باقی اللہ پر چھوڑ دو۔”
یہ ملک تمہارا ہے اسے وہی بچائے گا جو نیکی اور عقل کو ایک ساتھ لے کر چلے گا۔
نکولو میکیاویلی نے کہا تھا:
“شہزادہ وہ ہے جو جانتا ہے کب رحم کرنا ہے،
کب فیصلہ کرنا ہے، اور کب خاموش رہنا ہے۔”
اور اقبال نے کہا تھا:
“عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔”
✨ اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔
نیکی چھوڑ کر کمزور بنو —
یا نیکی کو علم، نظم، اور ایمان کے ساتھ طاقت بنا دو۔
یہی تمہارا اصل امتحان ہے۔
یہی The Prince کا پیغام ہے۔
یہی پاکستان کا مستقبل ہے۔
-عثمان چغتائی
October 12, 2025
Don't be so good that you are swallowed, and don't be so bad that you are spat out
Subscribe to:
Post Comments (Atom)

No comments:
Post a Comment