July 30, 2021

اولاد کی تربیت Parenting

 

_________________Parenting_______________

اولاد کی تربیت

توقیر بُھملہ
حصہ اول.
پاکستان میں کئی ایسے جڑواں شہر ہیں جو ایک دوسرے سے بے حد مختلف ہیں.
راولپنڈی اور اسلام آباد کو ہی دیکھ لیں.
راولپنڈی کے بعض علاقے ایسے تنگ و تاریک کے پیدل گزرنا دشوار اور سہولتوں کا فقدان ہے، اس کے برعکس ہر طرح کی سہولیات کے ساتھ اسلام آباد کی شاہراہوں پر جنگی طیارے تک آرام سے دوڑ پھر سکتے ہیں.
یہ ایک مختلف طرز کا تقابل ہوسکتا ہے، قدیم و جدید کا بھی، حکمت عملی اور بغیر حکمتِ عملی کا، ضرورت کے تحت بدلاؤ وغیرہ وغیرہ کا..
کہاں کس ماحول میں رہنا ہے، کیسی طرزِ زندگی اپنانی ہے، یہ فیصلہ بہت پہلے کہیں بچپن کی منزل پر شعور میں غیر محسوس طریقے سے بویا جاتا ہے، جس کا نتیجہ انسان کی زندگی میں کیے گئے فیصلوں سے برآمد ہوتا ہے.
کوئی بھی ایجاد کسی مسئلے کا حل یا پہلے سے کیے گئے حل میں بہتری کی کوششوں کا نتیجہ ہوتی ہے.
ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بے شمار مسائل دیکھتے ہیں مگر ان مسائل کے حل کی طرف بہت کم لوگ کام کرتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بہتر چیز ایک پہلے سے کمتر چیز کی بدولت اور سہولت کے فقدان کے باعث وجود میں آتی ہے..
جب ہم نے دیکھ اور جان لیا کہ نئی چیزیں پرانی چیزوں سے کئی درجے بہتر ہیں تو ہم پھر بھی تذبذب کا شکار رہے اور قدیم و جدید کے درمیان الجھ کررہ گئے.
پاکستان کے جہاں بے پناہ مسائل ہیں وہاں ایک ایسا مسئلہ ہے جو میرے خیال میں ہمارے تمام مسائل کی بنیاد یا وجہ ضرور ہے.
پچھلے دنوں ایک ورکشاپ میں شمولیت کا موقع ملا جس میں مختلف کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ہر طبقہ کے افراد (والدین) تھے،
وہاں دیگر مسائل کے ساتھ ایک ایسے مسئلے پر بات چیت ہوئی اور اس کے متعلق تربیت کرنے کا کہا گیا، جو مجھے لگا شاید ہماری (پاکستانی) کمیونٹی کے متعلق کہا جارہا ہے لیکن ہمارے ہاں تو یہ تقریباً مسئلہ ہے ہی نہیں،
وہ یہ تھا کہ آنلائن ایجوکیشن کی وجہ سے بچوں اور اساتذہ کے درمیان جو مسائل ہیں ان میں ایک یہ بھی تھا کہ، جب آن لائن گروپ کی شکل میں بچے تعلیم کے لئے اپنے کمپیوٹر یا موبائل کے سامنے آتے ہیں تو وہ ایک ایسے حلیے میں ہوتے ہیں جو کسی درسگاہ میں قابلِ قبول نہیں، مثلاً کچھ بچے والدین کے ساتھ کمبل کے اندر ہی لیٹے ہوئے آن لائن آرہے ہیں، تو کچھ نے بغیر بازو والی بنیان پہنی ہے، اور چند ایک کے ساتھ والدین بھی نظر آتے ہیں جو رویے اور حلیے میں نامناسب ہوتے ہیں،
اسی طرح کے اخلاقی مسائل تھے جن کے متعلق آگاہی دی گئی.
بچے کی جسمانی، جذباتی، معاشرتی، فکری، روحانی نشوونما اور پرورش والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس ذمہ داری کو نبھانے کا نام پیرنٹنگ یا اولاد کی تربیت ہے.
ہمارے ہاں پیرنٹگ یا والدین اور بچے کی تربیت کا باقاعدہ کوئی شعبہ یا نصاب میری نظر سے نہیں گزرا..
ہم نے جہاں بے شمار علوم و فنون پر کمندیں ڈالیں وہاں ہم نے اپنے بوسیدہ تعلیمی نظام کی طرح والدین بننے اور بچوں کی تربیت کرنے کے عمل کو یکسر فراموش یا پھر نظر انداز کیے رکھا،
ہم نے شاید ضرورت نہیں سمجھی یا ادراک ہی نہیں کرسکے کہ ہم اپنی اولاد کی بہتر تربیت نہ کرنے کی وجہ سے معاشرے کے مسائل اور بے کار افراد میں اضافہ کررہے ہیں.دوران تعلیم تو بچہ کچھ ادب آداب سیکھ ہی جاتا ہے لیکن جو بچے باقاعدہ تعلیم کی سہولت سے محروم رہتے ہیں وہ اخلاق و آداب کہاں سے سیکھتے ہیں؟ کم عمری میں ملازمت یا ہنر سیکھنے والے جب ارد گرد سے اپنے سماج اور ماحول سے اگر کچھ برا سیکھتے ہیں تو پھر ایک دن جو سماج سے لیا ہوتا ہے وہی پہلے سے بدترین شکل میں لوٹایا جارہا ہوتا ہے.
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سماج کا پڑھا لکھا باشعور طبقہ جہاں علم و ہنر کے لیے تربیت ساز ادارے بنا رہا ہے وہاں وہ والدین کی تعلیم و تربیت کے لیے مراکز قائم کرتا، اور معاشرے میں آئندہ آنے والے نسلوں کی اخلاقی بہتری اور علمی راہنمائی کے لئے مفید اقدامات کرتا.
ایسے مراکز یا کونسلنگ اکیڈمی کی طرز کے ادارے ہوتے جہاں شادی سے پہلے مرد و خواتین کو شادی شدہ زندگی کے مسائل کے متعلق تربیت دی جاتی.
انہیں سکھایا جاتا کہ شادی کے بعد عشق و محبت کے علاوہ چند حقیقی مسائل بھی ہیں جنہیں اگر حل نہ کیا جائے یا حل کرنے کی صوابدید نہ ہو تو گھر جہنم بن جاتے ہیں اور پھر ان گھروں سے لاوا نکل کر سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے.
جہاں سکھایا جاتا کہ عورت پر مختلف اوقات میں مختلف کیفیات کا اثر ہوتا ہے جس کے تحت عورت کے مزاج میں اتار چڑھاؤ رہتا ہے.
مرد کے گرم سرد مزاج کے پیچھے کیا عوامل ہیں اور اس نفسیات کو کیسے سنبھالنا ہے. شادی ہوتی کیوں ہے اور اس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟
جب نئے جوڑے کے ہاں نئے مہمان کی آمد متوقع ہو تو اس دورانیہ کو کس طرح جھیلنا ہے اور اس دوران دونوں نے کیا کرنا ہے، سینہ بہ سینہ روایتوں کے نقصانات اور فوائد کیا ہیں؟
عورت جب ماں بننے کے مراحل میں سے گزرتی ہے تو کہاں بے حد احتیاط کیسے اور کیوں ضروری ہے؟ والدین بننے والوں کے پاس اتنی معلومات ہوں انہیں پتا ہو کہ وہ کون سے میڈیکل ٹیسٹ ہیں جو ہر صورت کرنے ہیں تاکہ دنیا میں آنے والے بچے کے متعلق پہلے سے پتا چل جائے، آیا اسے پیدائش کے بعد ذہنی و جسمانی معذوری کا سامنا ہوگا یا وہ تندرست و توانا ہوگا، اگر دوران حمل کوئی پیچیدگی یا نقص کا اندیشہ یا احتمال ہوتو اسے پیدائش سے پہلے کیسے درست کیا جاسکتا ہے.
پھر جب دنیا میں آمد ہوگئی تو اس کی تربیت کس طرح کرنی ہے؟ اسے پالنا کیسے ہے.
اکثریت اولاد کو اپنی ایسی خواہشات کے مطابق پروان چڑھاتی ہے کہ وہ تربیت مزاج اور سماج کے برعکس ہوتی ہے، کہیں محرومی تو کہیں بے جا آزادی ذہنوں میں ڈال دی جاتی ہے،
کہیں پر والدین، سختی، تشدد، روک ٹوک اور پابندیوں سے پروان چڑھاتے ہیں اور کہیں پر بالکل ہی بچے کو مادر پدر آزاد کردیا جاتا ہے،
بچے کے کھیل کود، مشاغل، مسائل، دوستیاں، ضروریات، تعلیم وغیرہ کا سارا فیصلہ والدین خود طے کرتے ہیں اور وہ ذرا سا بھی اختیار بچے کو سونپنے کے حق میں نہیں ہوتے،بچہ سماج کے لیے کارآمد ہوگا یا بے کار، شخصیت میں اعتماد ہوگا یا نہیں، نیکی و بدی، حلال و حرام میں تمیز کا تصور جو اسے سکھایا یا پڑھایا جاتا ہے وہ گھر یا سماج میں کتنا نافذ العمل ہے؟ ، انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانی حقوق و فرائض کس شکل میں ہیں، اسے جن رسم و رواج سے آشنا کیا جارہا ہے کیا معاشرے میں وہ قابلِ قبول ہیں یا نہیں؟ تخلیقی و تعمیری فکر کیسے پیدا کی جاتی ہے اور اس سے کام کیسے لیا جاتا ہے؟ والدین بچے کو جو کچھ کرنے کا کہتے ہیں کیا وہ خود اس ہر عمل کرتے ہیں یا نہیں؟ کیوں کہ ایک سٹیج ایسی ہوتی ہے جہاں پر بچہ صرف دیکھ کر عمل کرنا سیکھ رہا ہوتا ہے..
ہم ایسے افراد کی کھیپ معاشرے کے حوالے کرتے ہیں جو نہ تو اپنا خیال رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی معاشرے کے لئے کارآمد ثابت ہوتے ہیں. 
 توقیر بُھملہ
 
اولاد کی تربیت  حصہ دوم
PARENTING
توقیر بُھملہ

اولاد کی اصل و حقیقی تربیت یہ ہے کہ والدین اپنے بچے کے منفی پہلوؤں کو سمجھ کر انہیں مثبت پہلوؤں میں بدل دیں، نہ کہ صرف مثبت رجحان پر ہی توجہ رکھیں.
والدین خوش و خرم زندگی گزاریں گے تو بچے کی زندگی آسودہ ہوگی، بچہ آپ کے کہے ہوئے پر عمل کرنے کی بجائے آپ کے کیے ہوئے پر عمل اور یقین کرتا ہے،
بچوں کے قول و فعل پر رد عمل یا عمل کا باریک فرق انہیں بنانے یا سنوارنے میں مدد دیتا ہے.
اکثر والدین اولاد کی تربیت میں غلطیاں کرتے ہیں میں یہاں پر چند ایک کا تذکرہ کرنا چاہوں گا..
والدین ہمیشہ اپنے ماضی میں جینے کی کوشش کرتے ہیں اور جدید ترقی سے خوفزدہ رہتے ہوئے بچے کو اس سے دور رکھتے ہیں.
بچے کے ساتھ ہمیشہ تحکمانہ رویہ اختیار کیے ہوئے رہتے ہیں.
بچے میں اچھائیوں کی بجائے اس کے عیب تلاش کرکے اسے بار بار جتاتے جاتے ہیں.
بچے کا موازنہ ہمیشہ دوسرے کسی مختلف مزاج بچے سے کرتے ہیں.
پیدا ہونے والا ہر بچہ دنیا کے باقی بچوں سے مکمل طور پر مختلف ہوتا ہے، مگر والدین تمام بچوں کے ساتھ یکساں تربیت کا انداز اپنائے رکھتے ہیں.
وہ بچے کے ساتھ انتہائی ضرورت کے علاوہ بات چیت نہیں کرتے.
بچے پر تو اعتماد بالکل نہیں کرتے اسے ہروقت باور کراتے ہیں کہ تم ابھی بچے ہو.
تقریباً تمام والدین بچوں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں.
والدین اپنے بچے کی باتیں سننے کے ساتھ مختلف کام کرتے رہتے ہیں جس سے بچہ ان کی مکمل توجہ سے محروم رہ جاتا ہے..
وہ اپنے بچے کو بار بار یاد دلاتے رہیں گے تم نے اپنا دھیان رکھنا ہے، تم نے اپنا خیال رکھنا ہے ، وہ بچے کو غلطی کرنے کی گنجائش نہیں دیتے، اور بچہ اپنے اوپر اعتماد کی صلاحیت سے محروم رہ جاتا ہے.
والدین سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں جنہیں بچہ جان جاتا ہے لیکن والدین بچے کے سامنے اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے.
وہ اپنے بچے کی پوری بات سننے کی بجائے درمیان میں ہی ٹوک کر قہقہہ لگانے یا سمجھانے لگ جاتے ہیں، جس سے آہستہ آہستہ بچہ ادھوری یا نامکمل بات کہنے کا عادی ہوجاتا ہے..
لگے بندھے تعریفی اور تنقیدی جملے، اس کے بلند حوصلے محنت اور لگن کے رستے میں رکاوٹ بنتے ہیں،
دوستی اور تعمیری سراہنے کی بجائے والدین ایک خلا اور خلیج رکھنا پسند کرتے ہیں جس سے وہ شفقت اور راہنمائی سے محروم رہ جاتا ہے.
والدین کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنے اور اپنے بچے کے درمیان تعلق کی جانچ پرکھ کرتے رہیں، وہ دیکھیں کہ یہ تعلق کیسا ہے؟ اس تعلق سے فاصلے بڑھ رہے ہیں یا کم ہورہے ہیں؟
والدین کا بنیادی مقصد ہی بچے کی اس نہج پر تربیت کرنا ہے کہ وہ سماج کے لیے ایک فعال اور مثبت و مفید شہری بنے جو اپنے فیصلے کرنے میں بااختیار ہو، اسے مشاورت کے طریقے اور فوائد کا علم ہو،
دنیا میں والدین کی چار بڑی اقسام طے کی گئی ہیں ..
1. آمرانہ مزاج والے والدین..
ایسے والدین جو تمام تر اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھتے ہوئے اپنی مرضی اور خواہش بچے پر مسلط کرتے ہیں.وہ کسی بھی طرح بچے کو اپنا مسئلہ خود حل کرنے کی اجازت نہیں دیتے. ایسے والدین بچے کو سزا دیکر درست کرنے پر یقین رکھتے ہیں.
بچے کو غلطی پر حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اس سے معافی منگوانے یا متشددانہ رویے کے تحت اسے ڈراتے ہیں کہ اگر دوبارہ غلطی کی تو فلاں سزا دیں گے یا فلاں سہولت ختم کردیں گے،
تحکمانہ رویے سے گھر میں خود کو باس اور بچے کے ساتھ ملازم جیسا برتاؤ رکھتے ہیں.
2.بااصول مگر بااختیار والدین..
ایسے والدین جو اصول و ضوابط طے کرکے اس پر بچے کو چلاتے ہیں، بچے کی مرضی اور خواہش کا احترام کرتے ہیں، مگر اسے ہر لمحے احساس دلائے رکھتے ہیں کہ وہ اس کے ایسے باپ ہیں جو حتمی اختیار اپنے پاس رکھتے ہیں.
3. دوست رویے والے والدین.
ایسے والدین جو بچے کی ہر خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسے کھل کر جینے کا موقع دیتے ہیں، اس پر روک ٹوک نہیں رکھتے، یہ صرف اس وقت مداخلت کرتے ہیں جب کوئی خطرناک بات یا سیریس مسئلہ ہو. یہ اکثر بچے کو بحث و مباحثہ کرنے کا حوصلہ دیتے ہیں مگر کیا اچھا ہے یا کیا برا ہے اس کے متعلق حتمی فیصلہ بچے ہر چھوڑ دیتے ہیں، پھر بچے کے اختیار کیے گئے فیصلے کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو ازسرنو جانچ کر اسے بتاتے یا سمجھاتے ہیں، یہ اس کی بری عادات پر زیادہ ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتے نہ ہی سختی سے بات منوانے پر یقین رکھتے ہیں. اس کی بری عادات کو سائنٹفک، پریکٹیکل اور اخلاقی طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں
4. غیر مداخلتی والدین .
یہ ایسے والدین ہوتے ہیں جو اپنا وقت اور اپنی توجہ بالکل بھی بچے کو نہیں دیتے، وہ کیا کررہا ہے، کیا پڑھ رہا ہے، اس کے رجحانات کیا ہیں، یا اسے زندگی میں آگے کیا کرنا ہے وہ ایسی نشوونما والی باتوں میں ذرا بھی دلچسپی نہیں رکھتے.
( پس تحریر، والدین کی تربیت کے متعلق مراکز قائم کرنے سے نہ صرف معاشرے کو کارآمد شہری ملیں گے (بلکہ یہ کام بطورِ بہترین روزگار بھی کیا جاسکتا ہے.
توقیر بُھملہ


No comments:

Post a Comment

Total Pageviews