*حجاب
پر یونیورسٹی طالبہ اور اسکالر میں دلچسپ مکالمہ*
زیر نظر مضمون دراصل کویت کی ایک
یونیورسٹی طالبہ اور کویت کے ہی ایک سکالر جناب ڈاکٹر جاسم مطوع کے درمیان ہونے
والی گفتگو ہے، دلیل کے لیے اس کا ترجمہ چائنا میں مقیم محمد سلیم صاحب نے کیا، جو
قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے.
طالبہ: کیا قرآن پاک میں کوئی ایک بھی
ایسی آیت ہے جو عورت پر حجاب کی فرضیت یا پابندی ثابت کرتی ہو؟
ڈاکٹر جاسم: پہلے اپنا تعارف تو کروائیے.
طالبہ: میں یونیورسٹی میں آخری سال کی طالبہ ہوں، اور میرے بہترین علم کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ نے عورت کو حجاب کا ہرگز حکم نہیں دیا، اس لیے میں بے پردہ رہتی ہوں، تاہم میں اپنی اصل سے بالکل جڑی ہوئی ہوں اور اس بات پر اللہ پاک کا بہت بہت شکر ادا کرتی ہوں۔
ڈاکٹر جاسم: اچھا تو مجھے چند ایک سوال پوچھنے دو.
طالبہ: جی بالکل
ڈاکٹر جاسم: اگر تمھارے سامنے ایک ہی مطلب والا لفظ تین مختلف طریقوں سے پیش کیا جائے تو تم کیا مطلب اخذ کرو گی؟
طالبہ: میں کچھ سمجھی نہیں۔
ڈاکٹر جاسم: اگر میں تمہیں کہوں کہ مجھے اپنی یونیورسٹی گریجوایشن کی ڈگری دکھاؤ۔
یا یوں کہوں کہ اپنی یونیورسٹی گریجوایشن کا رزلٹ کارڈ دکھاؤ۔
یا پھر یوں کہوں کہ اپنی یونیورسٹی گریجوایشن کی فائنل رپورٹ دکھاؤ، تو تم کیا نتیجہ اخذ کرو گی؟
طالبہ: میں ان تینوں باتوں سے یہی سمجوں گی کہ آپ میرا رزلٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور ان تینوں باتوں میں کوئی بھی تو ایسی بات پوشیدہ نہیں ہے جو مجھے کسی شک میں ڈالے کیونکہ ڈگری، رزلٹ کارڈ یا فائنل تعلیمی رپورٹ، سب ایک ہی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ آپ میرا رزلٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر جاسم: بس، میرا یہی مطلب تھا جو تم نے سمجھ لیا ہے۔
طالبہ: لیکن آپ کی اس منطق کا میرے حجاب کے سوال سے کیا تعلق ہے؟
ڈاکٹر جاسم: اللہ تبارک و تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں تین ایسے استعارے استعمال کیے ہیں جو عورت کے حجاب پر دلالت کرتے ہیں۔
طالبہ: (حیرت سے) وہ کیا ہیں اور کس طرح؟
ڈاکٹر جاسم: اللہ تبارک و تعالی نے پردہ دار عورت کی جو صفات بیان کی ہیں انہیں تین تشبیہات یا استعاروں (الحجاب، الجلباب، الخمار) سے بیان فرمایا ہے جن کا مطلب بس ایک ہی بنتا ہے۔ تم ان تین تشبیہات سے کیا سمجھوگی پھر؟
طالبہ: خاموش
ڈاکٹر جاسم: یہ ایسا موضوع ہے جس پر اختلاف رائے تو بنتا ہی نہیں، بالکل ایسے ہی جیسے تم ڈگری، رزلٹ کارڈ یا فائنل تعلیمی رپورٹ سے ایک ہی بات سمجھی ہو۔
طالبہ: مجھے آپ کا سمجھانے کا انداز بہت بھلا لگ رہا ہے مگر بات مزید وضاحت طلب ہے۔
ڈاکٹر جاسم: پردہ دار عورتوں کی پہلی صفت (اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں، وليضربن بخمرھن على جيوبھن). باری تعالیٰ نے پردہ دار عورتوں کی جو دوسری صفت بیان فرمائی ہے، وہ یہ ہے کہ (اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں – یايھا النبي قل لازواجك وبناتك ونساء المؤمنين يدنين عليھن من جلابيبھن)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے پردہ دار عورتوں کی جو تیسری صفت بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ (گر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو – واذا سالتموھن متاعا فاسالوھن من وراء حجاب}
ڈاکٹر جاسم: کیا ابھی بھی تمہارے خیال میں یہ تین تشبیہات عورت کے پردہ کی طرف اشارہ نہیں کر رہیں؟
طالبہ: مجھے آپ کی باتوں سے صدمہ پہنچ رہا ہے۔
ڈاکٹر جاسم: ٹھہرو، مجھے ان تین تشبیہات کی عربی گرائمر سے وضاحت کرنے دو۔
عربی گرائمر میں ’’الخمار‘‘ اس اوڑھنی کو کہتے ہیں جس سے عورت اپنا سر ڈھانپتی ہے، تاہم یہ اتنا بڑا ہو جو سینے کو ڈھانپتا ہوا گھٹنوں تک جاتا ہو۔ اور ’’الجلباب‘‘ ایسی کھلی قمیص کو کہتے ہیں جس پر سر ڈھاپنے والا حصہ مُڑھا ہوا اور اس کے بازو بھی بنے ہوئے ہوں۔ فی زمانہ اس کی بہترین مثال مراکشی عورتوں کی قمیص ہے جس پر ھُڈ بھی بنا ہوا ہوتا ہے۔ تاہم ’’حجاب‘‘ کا مطلب تو ویسے ہی پردہ ہی بنتا ہے۔
طالبہ: جی میں سمجھ رہی ہوں کہ مجھے پردہ کرنا ہی پڑے گا۔
ڈاکٹر جاسم: ہاں، اگر تمھارے دل میں اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے تو۔ اور ایک اور بات جان لو کہ: لباس دو قسم کے ہوتے ہیں: پہلا جو جسم کو ڈھانپتا ہے۔ یہ والا تو فرض ہے اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔ دوسرا وہ جو روح اور دل کو بھی ڈھانپتا ہے۔ یہ دوسرے والا لباس پہلے سے زیادہ بہتر ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد مبارک ہے کہ: (اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے، ولباس التقوى ذلك خير)۔ ہو سکتا ہے کہ ایک عورت نے ایسا لباس تو پہن رکھا ہو، جس سے اس کا جسم ڈھکا ہوا ہو لیکن اس نے تقویٰ کا لباس نہ اوڑھ رکھا ہو۔ تو ٹھیک طریقہ یہی ہے کہ وہ دونوں لباس زیب تن کرے.
ڈاکٹر جاسم: پہلے اپنا تعارف تو کروائیے.
طالبہ: میں یونیورسٹی میں آخری سال کی طالبہ ہوں، اور میرے بہترین علم کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ نے عورت کو حجاب کا ہرگز حکم نہیں دیا، اس لیے میں بے پردہ رہتی ہوں، تاہم میں اپنی اصل سے بالکل جڑی ہوئی ہوں اور اس بات پر اللہ پاک کا بہت بہت شکر ادا کرتی ہوں۔
ڈاکٹر جاسم: اچھا تو مجھے چند ایک سوال پوچھنے دو.
طالبہ: جی بالکل
ڈاکٹر جاسم: اگر تمھارے سامنے ایک ہی مطلب والا لفظ تین مختلف طریقوں سے پیش کیا جائے تو تم کیا مطلب اخذ کرو گی؟
طالبہ: میں کچھ سمجھی نہیں۔
ڈاکٹر جاسم: اگر میں تمہیں کہوں کہ مجھے اپنی یونیورسٹی گریجوایشن کی ڈگری دکھاؤ۔
یا یوں کہوں کہ اپنی یونیورسٹی گریجوایشن کا رزلٹ کارڈ دکھاؤ۔
یا پھر یوں کہوں کہ اپنی یونیورسٹی گریجوایشن کی فائنل رپورٹ دکھاؤ، تو تم کیا نتیجہ اخذ کرو گی؟
طالبہ: میں ان تینوں باتوں سے یہی سمجوں گی کہ آپ میرا رزلٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور ان تینوں باتوں میں کوئی بھی تو ایسی بات پوشیدہ نہیں ہے جو مجھے کسی شک میں ڈالے کیونکہ ڈگری، رزلٹ کارڈ یا فائنل تعلیمی رپورٹ، سب ایک ہی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ آپ میرا رزلٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر جاسم: بس، میرا یہی مطلب تھا جو تم نے سمجھ لیا ہے۔
طالبہ: لیکن آپ کی اس منطق کا میرے حجاب کے سوال سے کیا تعلق ہے؟
ڈاکٹر جاسم: اللہ تبارک و تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں تین ایسے استعارے استعمال کیے ہیں جو عورت کے حجاب پر دلالت کرتے ہیں۔
طالبہ: (حیرت سے) وہ کیا ہیں اور کس طرح؟
ڈاکٹر جاسم: اللہ تبارک و تعالی نے پردہ دار عورت کی جو صفات بیان کی ہیں انہیں تین تشبیہات یا استعاروں (الحجاب، الجلباب، الخمار) سے بیان فرمایا ہے جن کا مطلب بس ایک ہی بنتا ہے۔ تم ان تین تشبیہات سے کیا سمجھوگی پھر؟
طالبہ: خاموش
ڈاکٹر جاسم: یہ ایسا موضوع ہے جس پر اختلاف رائے تو بنتا ہی نہیں، بالکل ایسے ہی جیسے تم ڈگری، رزلٹ کارڈ یا فائنل تعلیمی رپورٹ سے ایک ہی بات سمجھی ہو۔
طالبہ: مجھے آپ کا سمجھانے کا انداز بہت بھلا لگ رہا ہے مگر بات مزید وضاحت طلب ہے۔
ڈاکٹر جاسم: پردہ دار عورتوں کی پہلی صفت (اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں، وليضربن بخمرھن على جيوبھن). باری تعالیٰ نے پردہ دار عورتوں کی جو دوسری صفت بیان فرمائی ہے، وہ یہ ہے کہ (اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں – یايھا النبي قل لازواجك وبناتك ونساء المؤمنين يدنين عليھن من جلابيبھن)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے پردہ دار عورتوں کی جو تیسری صفت بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ (گر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو – واذا سالتموھن متاعا فاسالوھن من وراء حجاب}
ڈاکٹر جاسم: کیا ابھی بھی تمہارے خیال میں یہ تین تشبیہات عورت کے پردہ کی طرف اشارہ نہیں کر رہیں؟
طالبہ: مجھے آپ کی باتوں سے صدمہ پہنچ رہا ہے۔
ڈاکٹر جاسم: ٹھہرو، مجھے ان تین تشبیہات کی عربی گرائمر سے وضاحت کرنے دو۔
عربی گرائمر میں ’’الخمار‘‘ اس اوڑھنی کو کہتے ہیں جس سے عورت اپنا سر ڈھانپتی ہے، تاہم یہ اتنا بڑا ہو جو سینے کو ڈھانپتا ہوا گھٹنوں تک جاتا ہو۔ اور ’’الجلباب‘‘ ایسی کھلی قمیص کو کہتے ہیں جس پر سر ڈھاپنے والا حصہ مُڑھا ہوا اور اس کے بازو بھی بنے ہوئے ہوں۔ فی زمانہ اس کی بہترین مثال مراکشی عورتوں کی قمیص ہے جس پر ھُڈ بھی بنا ہوا ہوتا ہے۔ تاہم ’’حجاب‘‘ کا مطلب تو ویسے ہی پردہ ہی بنتا ہے۔
طالبہ: جی میں سمجھ رہی ہوں کہ مجھے پردہ کرنا ہی پڑے گا۔
ڈاکٹر جاسم: ہاں، اگر تمھارے دل میں اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے تو۔ اور ایک اور بات جان لو کہ: لباس دو قسم کے ہوتے ہیں: پہلا جو جسم کو ڈھانپتا ہے۔ یہ والا تو فرض ہے اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔ دوسرا وہ جو روح اور دل کو بھی ڈھانپتا ہے۔ یہ دوسرے والا لباس پہلے سے زیادہ بہتر ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد مبارک ہے کہ: (اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے، ولباس التقوى ذلك خير)۔ ہو سکتا ہے کہ ایک عورت نے ایسا لباس تو پہن رکھا ہو، جس سے اس کا جسم ڈھکا ہوا ہو لیکن اس نے تقویٰ کا لباس نہ اوڑھ رکھا ہو۔ تو ٹھیک طریقہ یہی ہے کہ وہ دونوں لباس زیب تن کرے.
No comments:
Post a Comment