الیکشن2008 میں زرداری این آر او اور نوازشریف سعودی عرب کے ساتھ معاہدوں
کی بیڑیوں میں جکڑے تھے۔ ڈیل اتنی واضح تھی کہ نوازشریف نے اپنے کاغذات نامزدگی
مسترد ہونے کی اپیل تک نہ کی اور جلسوں میں اپنی پارٹی کے حق میں کیمپین چلانا
شروع ہوگیا۔ نوازشریف کی کیمپین کا بنیادی ہدف مشرف اور چوہدری برادران تھے جبکہ
زرداری کی کیمپین کا مرکزی نقطہ بینظیر کی شہادت اور بھٹو خاندان کی قربانیاں
تھیں۔
چونکہ عمران خان نے الیکشن کا بائیکاٹ کررکھا تھا، اس لئے سب کو نظر آرہا تھا کہ پی پی وہ الیکشن جیت کر حکومت بنالے گی۔
چونکہ عمران خان نے الیکشن کا بائیکاٹ کررکھا تھا، اس لئے سب کو نظر آرہا تھا کہ پی پی وہ الیکشن جیت کر حکومت بنالے گی۔
الیکشن2013 میں صورتحال مختلف ہوچکی
تھی۔ 30 اکتوبر 2011 کے تاریخی جلسے کے بعد عمران خان کی پارٹی پوری آب و تاب سے
ملکی منظرنامے پر اپنا وجود ثابت کرچکی تھی۔ چنانچہ الیکشن سے ٹھیک 10 ماہ قبل کچھ
اس قسم کے واقعات ہونا شروع ہوئے:
۔ نمبر 1 سب سے پہلے فضل الرحمان بہانہ
بنا کر اپنے وزرا کو استعفے دلوا کر حکومت سے الگ ہوگیا اور اس نے اسلامی نظام کے
نفاذ کا چورن دوبارہ بیچنا شروع کردیا۔
نمبر 2 نوازشریف زرداری کے خلاف
میموگیٹ سکینڈل میں فریق بن کر سپریم کورٹ میں اپنے وکالت نامے کے ساتھ پہنچ گیا
اور سیاسی درجہ حرارت بلند ہو گیا۔
نمبر 3 زرداری نے نوازشریف کے خلاف
نیب کے پرانے کیسز کھلوا دیئے اور ایسا لگا کہ ملک 90 کی دہائی میں واپس جانا شروع
ہوگیا۔
نمبر 4 شہبازشریف نے زرداری کو
جلسوں میں لٹیرا کہہ کر پکارنا شروع کردیا اور اسے سڑکوں پر گھسیٹنے کا وعدہ کیا۔
نمبر5 الطاف حسین کے وزرا حکومت سے
لڑ کر علیحدہ ہوگئے۔
نمبر6 رحمان ملک نے نوازشریف کے
خلاف پرانے سکینڈلز کھولنے کا اعلان کردیا۔
ان سب اقدامات کا مقصد کیا تھا؟ مقصد یہ
تھا کہ عوام کو لگے کہ اصل مقابلہ نوازشریف اور زرداری کے درمیان ہے اور عمران خان
کی حیثیت محض 12 ویں کھلاڑی کی سی ہے۔ یہ تاثر دینے میں کافی حد تک کامیاب تو رہے
لیکن الیکشن کی رات تمام تر دھاندلی کے باوجود عمران خان کے پی کے میں فاتح بن کر
نکلا اور پنجاب میں بھی دوسری بڑی پارٹی بن گیا۔ زرداری لیگ کا دور دور تک نام و
نشان نظر نہ آیا۔
حکومت میں آنے کے بعد زرداری کو گھسیٹنا
تو دور، دھرنے کے دنوں میں میاں برادران اس کے آگے دم ہلاتے نظر آئے۔
آج کی تاریخ میں ہم جب الیکشنز سے 1 سال
کے فاصلے پر ہیں تو آپ کے سامنے ایک دفعہ پھر 5 سال پرانی فلم شرطیہ نئے پرنٹوں سے
دوبارہ چلنا شروع ہوگئی ہے۔
نمبر 1 ایک مرتبہ پھر زرداری اور
نوازشریف کے درمیان لفظی جنگ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
نمبر 2 نوازشریف سندھ کے دورے کر
رہا ہے اور زرداری لاہور میں کیمپ لگا کر بیٹھ گیا ہے۔
نمبر 3 دسترخوانی کالم نویسوں نے ان
دونوں کی اس نورا کشتی پر اخبارات کے صفحے سیاہ کرنا شروع کردیئے ہیں۔
مقصد اس دفعہ بھی وہی ہے کہ عوام کو تاثر
دیا جاسکے کہ اگلے الیکشن میں اصل مقابلہ نوازشریف اور زرداری میں ہی ہوگا۔
لیکن جس طرح پچھلے الیکشنز مین زرداری کا
صفایا ہوگیا تھا، اسی طرح اگلے الیکشن میں پنجاب سے ن لیگ کا بھی صفایا ہونے جارہا
ہے۔
لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، فیصل آباد،
پنڈی، ملتان، اٹک، چکوال، گجرات اور جنوبی پنجاب کے تمام بڑے شہروں سے عمران خان
کلین سویپ کرکے دکھائے گا۔
جس پنجاب کو نوازشریف نے اپنے سیاسی مفاد
کیلئے چھوٹے صوبوں میں تقسیم نہیں کیا، اس بڑے صوبے کے بوجھ تلے اب خود نوازشریف
آنے جارہا ہے۔ کے پی کے اور پنجاب سے عمران خان 120 سے زائد سیٹیں بآسانی نکالے گا
اور باقی کمی چھوٹی جماعتیں اور آزاد امیدوار پوری کردیں گے۔
اسی لئے عمران خان بڑے اطمینان سے
نوازشریف اور زرداری کو اگلے دس ماہ تک ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کرتا دیکھے گا
اور انجوائے کرے گا!!! بقلم خود باباکوڈا
No comments:
Post a Comment