مغرب میں آج بھی عورت کی خرید وفروخت ہو تی ہے:
مغرب میں عورت کی باقاعدہ تجارت ہو تی ہے 1997 میں مغربی محقق"کریس ڈی اسٹوب" نے یورپ میں عورتوں کی تجارت پر تحقیق کی اورانکشاف کیا کہ" مغرب میں عورت کی زندگی جہنم ہے، صرف اسپین مین 5 لاکھ خواتین جسم فروشی پر مجبور ہیں، ڈنمارک جس کو ملحدین کا گڑھ کہا جاتا ہے اب اس کو بے غیر نکاح کے شادی کی جنت کہا جا رہا ہے، سوٹزرلینڈ کو اب کلب کی لڑکیوں کا ملک کہا جاتا ہے"۔
مصدر: کریس ڈی اسٹوب/ یورپ میں عورت کی تجارت
دوسری طرف امریکی نیوز چینل CNN نے ایک اخباری رپورٹ نشر کی کہ جس میں Maryland (امریکہ) میں johns Hopkins یونیورسٹی کے اہم تحقیقات پراعتماد کیا گیا ہے جس کے مطابق امریکہ میں ہر سال 2 لاکھ بچوں اورعورتوں کی باقاعدہ غلام کے طور پرخرید و فروخت ہو تی ہے اور ایک لاکھ 20 ہزارعورتیں مشرقی یورپ(روس اور اس کے آس پاس غریب ممالک) سے جسم فروشی کے لیے مغربی یورپ سمگل کی جاتی ہیں ۔
جن سے اکثریت ڈیڑھ لاکھعورتوں کو جسم فروشی کے لیے امریکہ بھیج دیا جاتا ہے۔ ان کا تعلق میکسیو سے ہو تا ہے۔ مشرقی ایشاء سے لائی جانے والی عورت کو امریکہ میں 16 ہزار ڈالر میں بیچا جاتا ہے جن کو بے حیائی کے اڈوں کے سپرد کیا جاتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس سے بھی بڑی مصیبت ہو سکتی ہے جواب یہ ہے کہ جی اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں ان عورتوں کو بیچتے وقت نمبر اور اسٹمپ لگا یا جاتا ہے۔ برطانوی اخبار" انڈیپنڈنٹ" نے 30 ستمبر 2014 کو ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا"Human Traffickers Victims branded like cattle " جسم فروشی کی غرض سے برطانیہ سے غلاموں کو ٹرکوں میں بھر دیا جاتا ہے پھران کو 200 سے 6000 پاونڈ کے درمیان فروخت کیا جاتا ہے۔
اخبار نے اس کو عورت کی غلامی کہا ہے جس کو جانوروں کی طرح امریکہ اور یورپ میں فروخت کیا جاتا ہے باقاعدہ کمشن والے دلال ہیں جو اس میں ہزاروں ڈالرز کماتے ہیں۔
مگر میڈیا کو مغرب کی برائی نظر نہیں آتی صرف اسلامی دنیا میں تیزاب پھینکنے کے واقعات اور شوہر کی طرف سے تشدد کے واقعات ہی توجہ کا مرکز ہیں کیونکہ مغرب کے ایمج کو خراب نہیں کرنا ہے اسلام کا ایمج خرب بھی ہو جائے کونسی بڑی بات ہے!!
مغرب میں عورت کی باقاعدہ تجارت ہو تی ہے 1997 میں مغربی محقق"کریس ڈی اسٹوب" نے یورپ میں عورتوں کی تجارت پر تحقیق کی اورانکشاف کیا کہ" مغرب میں عورت کی زندگی جہنم ہے، صرف اسپین مین 5 لاکھ خواتین جسم فروشی پر مجبور ہیں، ڈنمارک جس کو ملحدین کا گڑھ کہا جاتا ہے اب اس کو بے غیر نکاح کے شادی کی جنت کہا جا رہا ہے، سوٹزرلینڈ کو اب کلب کی لڑکیوں کا ملک کہا جاتا ہے"۔
مصدر: کریس ڈی اسٹوب/ یورپ میں عورت کی تجارت
دوسری طرف امریکی نیوز چینل CNN نے ایک اخباری رپورٹ نشر کی کہ جس میں Maryland (امریکہ) میں johns Hopkins یونیورسٹی کے اہم تحقیقات پراعتماد کیا گیا ہے جس کے مطابق امریکہ میں ہر سال 2 لاکھ بچوں اورعورتوں کی باقاعدہ غلام کے طور پرخرید و فروخت ہو تی ہے اور ایک لاکھ 20 ہزارعورتیں مشرقی یورپ(روس اور اس کے آس پاس غریب ممالک) سے جسم فروشی کے لیے مغربی یورپ سمگل کی جاتی ہیں ۔
جن سے اکثریت ڈیڑھ لاکھعورتوں کو جسم فروشی کے لیے امریکہ بھیج دیا جاتا ہے۔ ان کا تعلق میکسیو سے ہو تا ہے۔ مشرقی ایشاء سے لائی جانے والی عورت کو امریکہ میں 16 ہزار ڈالر میں بیچا جاتا ہے جن کو بے حیائی کے اڈوں کے سپرد کیا جاتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس سے بھی بڑی مصیبت ہو سکتی ہے جواب یہ ہے کہ جی اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں ان عورتوں کو بیچتے وقت نمبر اور اسٹمپ لگا یا جاتا ہے۔ برطانوی اخبار" انڈیپنڈنٹ" نے 30 ستمبر 2014 کو ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا"Human Traffickers Victims branded like cattle " جسم فروشی کی غرض سے برطانیہ سے غلاموں کو ٹرکوں میں بھر دیا جاتا ہے پھران کو 200 سے 6000 پاونڈ کے درمیان فروخت کیا جاتا ہے۔
اخبار نے اس کو عورت کی غلامی کہا ہے جس کو جانوروں کی طرح امریکہ اور یورپ میں فروخت کیا جاتا ہے باقاعدہ کمشن والے دلال ہیں جو اس میں ہزاروں ڈالرز کماتے ہیں۔
مگر میڈیا کو مغرب کی برائی نظر نہیں آتی صرف اسلامی دنیا میں تیزاب پھینکنے کے واقعات اور شوہر کی طرف سے تشدد کے واقعات ہی توجہ کا مرکز ہیں کیونکہ مغرب کے ایمج کو خراب نہیں کرنا ہے اسلام کا ایمج خرب بھی ہو جائے کونسی بڑی بات ہے!!
No comments:
Post a Comment