December 24, 2022

SEARCH OF LOVE, محبت کی تلاش

 سر ! پلیز ،مجهے ایک بات بتائیے ۔؟ وہ میرے سامنے میز کی دوسری طرف بیٹھ کر بڑے اعتماد سے بولی۔ جو عورت پچهلے پانچ سال سے آپ کے ساتھ ہے ،اور آپ کے دو بچوں کی ماں بهی ہے ،اس میں اچانک ایسی کیا برائی ،کیا خرابی یا کمی واقع ہو گئی کہ آپ اس کی ساری محبتیں ، خدمتیں اور قربانیاں بهلا کر ،میری طرف مائل ہو گئے ؟ ایسا کچھ بهی نہیں ،بات صرف اتنی سی ہے کہ مجهے تم سے محبت ہے، میں نے جواب دیا۔اور آپ نے اس محبت کو ملکیت سمجھ لیا ،مجهے بتاے بغیر ،مجھ سے پوچهے بغیر۔؟ اس نے سوالیہ انداز میں پوچھاپوچھ تو رہا ہوں ،تم مان جاو ،میں اسے چهوڑ دوں گا ، میں نے جواب دیا۔

یعنی آپ کی خوشی کی خاطر اپنے جیسی عورت کا گهر تباہ کر دوں ،جو بالکل بے قصور ہے ،یہ جانتی بهی نہیں کہ آپ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ،؟ مجھ میں تو اتنی ہمت نہیںسر ! وہ حتمی فیصلہ سنانے لگی ،میں بے حد پریشان ہو گیا .سمجھ میں نہیں آ رہا تها کہ اسے کیا کہوں ،مجهے خاموش دیکھ کر بولی کیا سوچنے لگے سر ؟

سوچ رہا ہوں ،رب کو منانا کتنا آسان ہے لیکن اس کے بندوں کو منانا کتنا مشکل۔ پهر تو آپ جانتے ہیں کہ رب نارا ض بهی ہو جاتا ہے . میں خاموش رہا تو میرے چہرے پر نظریں جما کر بڑے سکون سے بولی . میرے رب کو وہ انسان سب سے زیادہ نا پسند ہے ،جو میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالے ، یا ان کے بیچ نفرت پیدا کر کے ان کی علیحدگی کا سبب بنے ، کیا آپ چاہتے ہیں سر ،کہ میں خدا کے ان ناپسندیدہ بندوں میں شامل ہو جاوں ؟ میں غور سے اسے دیکهنے لگا ، بولی، یہ کیسی محبت ہے آپ کی ،جو مجهے میرے رب کے حضور شرمندہ کرنا چاہتی ہے ؟میرے پاس اس کی کسی بات کا معقول جواب نہیں تها ،میں بس اسے حاصل کرنا چاہتا تها ، لیکن وہ کسی صورت راضی نہ تهی۔ کچهہ عرصہ اسی کشمکش میں گزرا ،پهر لاسٹ سمسٹر ہوئے

اور وہ چلی گئی، جانے سے پہلے میرے پاس آئی اور بولی ، سوری سر ! میں نے آپ کا دل دکهایا ، محبت میں ہم کبهی کبهی اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ قریب کے رشتوں کی کوئی اہمیت ہی باقی نہیں رہتی ، لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ ہم غلطی پر تهے ، آپ کے ساتھ بهی ایسا ہی ہو گا ، میں چلی جاوں گی تو آپ بهی نارمل ہو جائیں گے۔

اس کے جانے کے بعد کافی عرصہ بے چینی میں گزرا ،پهر میں نے اپنی پوسٹنگ دوسرے شہر کروا لی ،ماحول بدلا ، زندگی کی مصروفیات بڑهیں تو آہستہ آہستہ اس کی یاد میں کمی آنے لگی .آخر وہ وقت بهی آیا ،کہ وہ ذہن کے پردے سے بالکل محو ہو گئی .

کافی عرصے بعد ایک تقریب میں نظر آئی ،اسے دیکھ کر ماضی یاد آ گیا ، میں اپنی احمقانہ محبت کی داستان اسے سنا کر زور زور سے ہنستا رہا ،اپنی بیوقوفیوں کے قصے دلچسپ انداز میں سنا کر خوش ہوتا رہا . اور وہ خاموشی سے سنتی رہی۔ پهر پوچها ،سناو گهر بار کیسا ہے ؟ تو زور سے ہنس کر بولی ، گهر بار کیسا سر! اکیلی بڑے مزے میں ہوں ،

مطلب ؟ میں حیران ہوا ،شادی نہیں کی تم نے ؟ میں نے سرسری انداز میں پوچها ،تو پهیکی سی مسکراہٹ لئے بولی ، کیا کرتی سر ! آپ کے بعد کوئی اور اچها ہی نہیں لگا .

چائے کا کپ میرے ہاتھ میں لرزنے لگا ،احساس ندامت نے قوت گویائی چهین لی ،ماضی آہستہ آہستہ زخم کریدنے لگا۔ جسے بهولے ہوئے مجهے زمانہ گزر گیا ،وہ آج بهی میری یاد کے ساتھ رہ رہی تهی الفاظ حلق میں اٹکنے لگے ،خود کو سنبهال کر بڑی مشکل سے کہہ پایا ،مگر تم نے تو کبهی —— میری بات کاٹ کر بڑے کرب سے بولی .جنہیں اللہ کی رضا کی خاطر چهوڑتے ہیں ،انہیں جزبوں کا احساس نہیں دلایا جاتا ،بس لاتعلقی کا گمان ہی کافی ہوتا ہے۔

چائے چهلک کر میرے کپڑے داغدار کر گئی۔

 

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews