June 14, 2022

لاوا پک رہا ہے. احمد جمال نظامی

 
لاوا پک رہا ہے.....؟

احمد جمال نظامی
لاوا پک رہا ہے اور کب پھٹ پڑے، کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن اسکی ہولناکی معمولی نہ ہوگی، یہ بات اظہر من الشمس ہے! آخر ایک دو دن کی بات نہیں، پون صدی پر محیط مظالم ہیں، قوم کو ایک سوچی سمجھی ذہنیت کیساتھ آگے بڑھنے سے روکا گیا، 2015 میں سندھ کے شہر نوشہرو فیروز کے علاقہ ٹھارو شاہ میں چند روز قیام کرنے کا اتفاق ہوا، علاقہ مکینوں میں سے بہت کم لوگوں کو اردو میں بات کرنا آتی تھی، حتیٰ کے اردو میں بات سمجھنے والے بھی خاصے کم تھے، ٹھارو شاہ کی ایک مسجد میں حیدر آباد سے ریٹائر ماسٹر صاحب نماز پڑھنے آیا کرتے، ان سے علاقہ کی سیاسی صورتحال کے بارے میں بات چیت ہوتی رہی، وہ پیپلز پارٹی کو دل سے انتہائی ناپسند کرتے تھے مگر پیپلز پارٹی کے پکے ووٹر تھے، 
ان سے ہمت کر کے دریافت کیا: جناب اس امر میں کیا راز پنہاں ہے کہ آپ جس جماعت کے خلاف ہیں، ووٹ بھی اسی کو دیتے ہیں؟ ماسٹر صاحب نے سر تا پاؤں غصے سے مجھے گھورنے کے بعد جواب دیا کہ اندرون سندھ میں عوام کا ذریعہ معاش دوسرے شعبوں کی نسبت زراعت سے براہ راست منسلک ہے اور یہاں زرعی زمینوں کے مالکان کی اکثریت ان وڈیروں اور جاگیر داروں کی ہے جو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز ہیں، ان کے علاؤہ عوام کے پاس کوئی متبادل نہیں کیونکہ عوام تعلیم یافتہ نہیں اور نہ ہی نسل نو کو تعلیم کے ذرائع دستیاب ہیں، لہذا یہ وڈیرے عوام کو سالانہ راشن، عید و دیگر تہواروں پر کپڑے، زندہ رہنے کیلئے ضروری خرچہ، خدانخواستہ بیمار ہونے پر ادویات وغیرہ لے دیتے ہیں، 
سر ڈھانپنے کیلئے چھت بھی زرعی زمینوں میں مہیا کر دیتے ہیں، کیا حکومت یہ وسائل سندھ کے عوام کو فراہم کرسکتی ہے یا کوئی دوسری جماعت؟ ماسٹر صاحب کے اس سوال نے مجھے لاجواب کردیا، میں ٹھارو شاہ کے تاحد نگاہ پھیلے خوبصورت کیلے کے باغات اور ان میں سے پنجاب کی نسبت انتہائی کشادہ نہری کھالہ جات کو دیکھتا رہ گیا، جب اس علاقے میں داخل ہوا تو دیہات سے تھوڈا دور چھوٹے سے مگر گنجان آباد شہر کے گھروں اور قطار در قطار انکی چھتوں پر نصب ڈش انٹیناز کے بعد ماسڑ صاحب کی گفتگو نے لاجواب اور ورد حیرت میں ڈبو دیا تھا، سارا دن ٹھارو شاہ میں کوئی لوکل یا قومی اردو اخبار تلاش کر کر بھی حاصل نہ ہوسکا، آخر ایک اخبار فروش سے ملاقات ہوئی، جس نے بتایا کہ پورے قصبہ میں صرف ایک انگریزی اور تین اردو اخبارات آتے ہیں،
 ٹھارو شاہ کے دیہی علاقوں کی سڑکیں کارپیٹ روڈز تھیں، شہر کے بازار اور سیون شریف تک ایک آدھی ٹوٹی پھوٹی سڑک کے علاؤہ سب کشادہ اور بہتریں لیکن سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کا سراغ نہ مل سکا، اتنا معلوم ہوا کہ چھوٹی موٹی ڈسپنسریاں موجود ہیں، البتہ ایمرجنسی کی صورت میں نوشہرو فیروز جانا پڑتا ہے، دیہی ٹھارو شاہ میں عوام کو ایک سوچی سمجھی ذہنیت کیساتھ آگے بڑھنے سے روکا گیا تھا، یہ واضح طور پر عوام کے رہن سہن، سوچ، فکر اور محدود وسائل سے جھلک رہا تھا، اس علاقہ میں بیتے دنوں کی جب بھی یاد آتی ہے تو ایک مخصوص ذہنیت سے گھن آنے لگتی ہے.
 جو اتنے سادہ، خالض اور کشادہ دل لوگوں کو آگے بڑھنے سے نہ صرف دور رکھتی ہے بلکہ مواقعے حاصل کرنے کے شعور سے بھی کوسوں دور رکھے ہوئے ہے، ہم ان حالات کا وسطی پنجاب، سندھ، کے پی کے کے بڑے شہروں سے موازنہ کریں تو اندورنی کہانی زیادہ مختلف نہیں نظر آئے گی، علامتی طور پر حکمرانوں نے ہر صوبے کے بڑے شہروں میں چند ایک بڑی یونیورسٹیوں کو قائم کر رکھا ہے، نئی یونیورسٹیوں کا دائرہ کار دیگر شہروں تک وسیع نہیں کیا جارہا، آبادی کے پھیلاؤ کے تناسب سے نئے سرکاری سکول قائم نہیں کیے گئے اور نہ ہی قائم کیے جارہے ہیں، اگر شہروں کے مضافاتی علاقوں میں نئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں تعمیر ہورہی ہیں تو متوسط اور پہلے سے وہاں موجود غریب عوام کو تعلیمی اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا بھی تو حکومت کا کام ہے، 
یہ سوچنا تو درکنار نئے شہر خاموشاں تک قائم نہیں کیے جارہے، سرکاری ہسپتالوں کا عالم یہ ہے کہ ضلعی ہیڈ کوارٹرز بڑی دور کی بات ہیں، 200 سے 300 کلومیٹر دور سے مسافت کر کے عوام بڑے شہروں کے ہسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں اور وہاں سہولیات کا کیا معاملہ ہے، کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں، شاید اسی لیے ہمارے حکمران گھانسی آنے پر بھی اپنی ذات گراں قدر کیلئے بیرون ممالک کا رخ کر لیتے ہیں جبکہ دوسری طرف اشرافیہ کے پروردہ یا خود اشرافیہ تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کو اپنے کاروباری نیٹ ورک میں لاتے چلے جارہے ہیں 
لیکن یہ غریب اور متوسط کی دسترس سے دور ہیں، اسے سوچی سمجھی حکمت عملی کا نام نا دیا جائے تو کیا کہا جائے، حقیقی طور پر نظر آتا ہے کہ عام پاکستانی کو ان بنیادی ضروریات میں اتنا الجھایا جارہا ہے کہ وہ ذہنی ترقی اور سوچ و فکر کے اس معیار تک نہ پہنچ پائے، جہاں سے قوموں، معاشروں اور مملکتوں کی ترقی کا ارتکا ہوتا ہے، ہم میں سے بیشتر احباب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نہیں چاہتے کہ ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوسکیں، لہذا طے شدہ حکمت عملی کے تحت ایسی شرائطِ ایسے حکمرانوں سے طے کی جاتی ہیں جو رعایا کو کبھی عوام نہ بننے دیں، ان دنوں بھی وطن عزیز مہنگائی کی اس نہیج پر کھڑا ہے جہاں غریب، متوسط طبقہ کسی بھی عملی کاوش سے محروم ہے، اس کو اتنا زیر عتاب رکھا گیا ہے کہ وہ اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنے سے بھی عاری ہے،
 سیاسی گفتگو چند لوگوں کیلئے فیشن ہے، عام پاکستانی کو ایک مخصوص سیاسی تربیت کے زیر سایہ معاشرے میں پرورش دیکر اس غلط اصطلاح پر قائل کر دیا گیا ہے کہ اپنی جماعت کو تبدیل نہیں کیا جاتا، لہذا وہ کارکردگی کو بنیاد بنانے کی بجائے جہالت کو اکثر نظریہ مان کر اس کی گردان کرتا ہے،
 تاہم اس تناظر میں موجودہ وقت میں عوام کا مزاج بدلا ہوا ہے، عوامی جذبات ابل رہے ہیں اور وہ معاشرتی انصاف کے خواہاں ہیں، مہنگائی اور اشرافیہ کے ظلم نے اسے آخری حد تک بیزار کر دیا ہے، گویا موجودہ حالات قیامت خیز ہیں، کسی خطرناک طوفان کا عندیہ دے رہے ہیں، پالیسی ساز، سول و ملٹری بیوروکریسی نوشتہ دیوار پڑھیں، معاشرے میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے، نفرتوں کے بازار پہلے ہی گرم ہیں، لاوا پک رہا ہے اور کب پھٹ پڑے، کچھ کہا نہیں جاسکتا.

 

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews