December 16, 2016

Foreign Dream Job Opportunities for Pakistanis



اوور سیزپاکستانیز
ہر شخص کا خواب ہوتا ہے کہ وہ معاشی طور پر خوشحال ہو اور دنیا میں آرام اور سکون کے ساتھ زندگی گزارے ۔ اپنے اسی خواب کی تکمیل کے لیے پھر وہ محنت کرتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں معاشی خوشحالی حاصل کرنا قدرے آسان ہوتا ہے کیونکہ وہاں پر زیادہ مواقع میسر ہوتےہیں لیکن ترقی پذیر ممالک میں خوشحالی حاصل کرنے کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت پڑتی ہے، زیادہ محنت سے بچنے کے لیے لوگ باہر کے ملکوں کا رخ کرتےہیں ۔ پاکستان کا شماربھی ترقی پذیرممالک میں ہوتا ہے یہاں پر کثیر تعداد ایسی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ اگر ہم باہر جائیں گے تو خوشحال ہو جائیں گے ، ایسے لوگ اپنی خواہشوں اور کمزوریوں کے غلام ہوتے ہیں ایسے میں جوایجنٹس ہوتے ہیں وہ ان لوگوں کی کمزوریوں اور خواہشوں کا فائد ہ اٹھاتے ہیں اورانہیں خواب دکھاتےہیں۔ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے جیسے وہ باہر کے ملک میں قدم رکھتےہیں تو انہیں حقیقت کا پتا چلتا ہے تو پھر وہ واپس آنے کے جتن کرتے ہیں۔ پھر وہی مائیں جنہوں نے کبھی ان کے باہر جانے کی دعائیں مانگیں ہوتی ہیں پھر وہی ان کے واپس آنے کی دعائیں مانگ رہی ہوتیں ہیں ۔

وہ بچے جو باہر جانا چاہتے ہیں یا جن کے والدین اپنے بچوں کو باہر بھیجنا چاہتے ہیں وہ دیکھیں کہ کیا ان میں ٹیلنٹ ہے، کیا ان میں صلاحیت ہے، کیا وہ پڑھے لکھے ہیں اگر پڑھے لکھے نہیں ہیں تو کیا انہیں کوئی ہنر آتا ہے ۔عقل مندی کی بات یہ ہے کہ جس کے پاس ہنر ہے وہ یہاں رہ کر کام کرے، کتنا بڑا المیہ ہےکہ لاہور جیسے بڑے شہر میں اگر قابل میکینک تلاش کرنا ہو تو اس کا ملنا مشکل ہو جاتا ہے اس کا مطلب ہے کہ یہاں پر بھی موقعوں کی کمی نہیں ہے اگرکوئی کمی ہے تو وہ قابلیت کی کمی ہے۔ ہمار ے ہاں تین المیے بہت عام ہیں ان میں پہلا المیہ یہ ہے کہ ہر کوئی کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں ہنر مند ہوں لیکن میر ی کوئی سنتا نہیں ہے ، میرا یہاں پر کام نہیں ہے یہ سراسر غلط بیانی ہے۔ دوسرا المیہ کام چوری ہے لوگ کام نہیں کرنا چاہتے وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں بیٹھے بیٹھائے مل جائے جبکہ تیسرا المیہ یہ ہے کہ اکثر لو گ کہتے ہیں ہم کوئی چھوٹا موٹا کام نہیں کریں گے ہمیں بڑا کام کرنا ہے۔
نوجوانوں کی اکثر تعدا د جو باہر جانا چاہتی ہے وہ یہاں پر کام کو عار سمجھتی ہے جب وہ باہر چلے جاتےہیں تو وہاں پر جاکر چھوٹے چھوٹے کام کر رہے ہوتےہیں بلکہ وہ وہ کام کر رہے ہوتے ہیں جس کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا ، پھر اس کام سے تھوڑے بہت پیسے کماتے ہیں ان میں سے کچھ بچا کر پیچھے اپنے گھر والوں کو بھیجتے ہیں۔والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں میں محنت کرنے کا جذبہ پیدا کریں، انہیں وقت پر سکھائیں ، ان کی ایسی گرومنگ کریں کہ انہیں کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہ ہو جب ایسا ہو گا تو پھر بچے محنت بھی کریں گے اور باہر جانے کے بارے میں بھی نہیں سوچیں گے۔
باہر بھیجنے کے معاملے میں والدین کا بھی بہت بڑاکردار ہوتا ہے پہلے تو ماں اپنی جمع پونجی اور زیورات بیچ کر اپنے بچے کو باہر بھیجتی ہے پھرجب بچہ باہر جا کر سیٹل ہو جاتاہے تو وہ اس کے انتظار میں آنسو بہاتی رہتی ہے یہاں تک کے بعض اوقات اس کے آنسو تک خشک ہو جاتے ہیں اور جب بچہ واپس آتا ہے تو اسے سوائے مٹی کے ڈھیر کے اور کچھ نہیں ملتا۔ اس سے سماجی بحران پیدا ہوتا ہے ، گھروں میں لڑائی جھگڑے ہو نا شروع ہو جاتے ہیں ، بیوی اپنے خاوند کے انتظار میں اپنے بال سفید کر لیتی ہے ،بچوں کی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے اور یہاں تک کہ نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔
جو نوجوان باہر جانا چاہتےہیں انہیں چاہیےکہ یہاں پر رہ کر روکھی سوکھی کھا لیں مگر باہر نہ جائیں ، یہاں پر محنت کریں اگر انہیں گلہ ہے کہ اس ملک میں مواقع نہیں ہیں تو کبھی ان لوگوں کو بھی دیکھیں جنہوں نے انہیں وسائل میں رہتے ہوئے بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔ ہمارے ملک میں سینکڑوں کہانیاں ایسی ہیں جنہوں نے اپنا سفر غربت سے شروع کیا اور امارت تک پہنچے ، جنہوں نے ناکامیوں سے اپنا سفر شروع کیا اور کامیابیاں حاصل کیں، بے شمار لو گ ایسے ہیں جن کا ہاتھ نیچے والا تھا اوپر والا ہو گیا۔

No comments:

Post a Comment

Total Pageviews