بلاشبہ غازی ممتاز قادری شہید کا جنازہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔
--------------
ایک بین القوامی نشریاتی ادارے کی پاکستان میں ترجمانی کرنے والے دوست نے پوچھا کہ تمارے خیال میں شرکاء کی تعداد کیا ہو گی۔ عرض کیا کہ سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں جتنے افراد کی تعداد کو میڈیا ایک ملین بتایا کرتا ہے، یہ اُس سے کم از کم چھ گُنا زیادہ شرکاء تھے۔
میں دن بارہ بجے راولپنڈی کے راجہ بازار میں داخل ہوا تو جانا پہچانا منظر بلکل بدلا ہوا تھا۔ سب سے بڑا تجارتی مرکز جہاں دن کے اوقات میں پیدل چلنا بھی دشوار ہوتا ہے اس وقت خالی پڑا تھا۔ تمام لوگ صرف ایک ہی سمت رواں دواں تھے۔ کسی کو راستہ پوچھنے کی حاجت تھی نہ کسی سے منزل کا پتہ پوچھنے کی ضرورت تھی۔ دیسی لبرلز کی دلیلوں جیسی پیچیدہ گلیاں بھی آج صراط مستقیم بنی ہوئی تھیں۔ ہر جانب سے لوگ امڈ رہے تھے اور ایک جانب کو رواں ہو جاتے۔ جس طرح بہار کے موسم میں چھوٹی چھوٹی ندیاں اور نالے دریا میں شامل ہو کر آگے کی جانب رواں ہو جاتے ہیں۔
تاریخی فوارہ چوک سے آگے کا منظر واقعی ایک انسانی دریا کا منظر پیش کر رہا تھا۔ باڑہ مارکیٹ کی گلی سے آگے نکل کر جب موتی مسجد تک پہنچے تو انسانی دریا کا پاٹ اسقدر بھر چکا تھا کہ رُک رُک کر چلنا پڑ رہا تھا۔
گوالمنڈی چوک پار کرتے ہوئے ایک منظر یہ دیکھا کہ ڈیوٹی پر موجود ایلیٹ فورس اور پولیس کے اہلکار ممتاز قادری کے حق میں نعرے بازی کر رہے ہیں۔ کالی وردی میں ملبوس ایک تنومند جوان با آواز بلند کہہ رہا تھا کہ ممتاز میرا بیج میٹ تھا، لیکن کیا خبر تھی کہ وہ اتنے نصیبوں والا ہے۔
نیشنل آرٹ کونسل کے دروازے تک لوگ صفیں بنائے بیٹھے تھے۔ نئے آنے والے اس سے آگے ہیٹھتے جا رہے تھے۔ میں نے صف میں بیٹھنے کے بجائے جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ کئی برسوں کی رپورٹنگ کی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک طرف سے نکل کر مری روڈ کی طرف آ گیا۔ پہلے فیض آباد کی طرف چلنا شروع کیا، صفیں کمیٹی چوک کے انڈر پاس تک موجود تھیں، میں پلٹ کر لیاقت باغ کے سامنے سے ہوتا ہوا صدر کی جانب نکل گیا۔ جنگ بلڈنگ سے آگے مریڑ چوک کے قریب تک صفیں بنی ہوئی تھیں۔ موتی پلازہ کے پیچے راولپنڈی میڈیکل کالج تک بھی صفیں نظر آ رہی تھیں۔
یہاں سے واپسی پر ایک بار پھر کالج روڈ پر مڑ گیا۔ جہاں سیور فوڈ سے آگے کرنل مقبول کے امام باڑے تک صفیں بچھی ہوئی تھیں۔
کہا جا سکتا ہے کہ لیاقت باغ کے ہر اطراف تین کلومیٹر تک انسانی سر ہی دیکھائی دے تھے۔
ان میں بوڑھے، بچے اور جوان سبھی شامل تھے۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث کا کوئی امتیاز تو تھا ہی نہیں۔ یہاں تو مذہبی اور غیر مذہبی کی بھی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ کلین شیوڈ ٹائی اور کورٹ پہنے ہزاروں افراد بھی موجود تھے اور جینز شرٹ میں بالوں اور داڑھی کے عجیب ڈیزائن بنائے کھلنڈرے بھی موجود تھے۔ پولیس کی وردیاں پہنے سینکڑوں اہلکار بھی صفوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وکلاء بھی کالے کوٹوں میں ملبوس موجود تھے۔ اور تو اور میڈیا کے مکمل بلیک آوٹ کے باوجود درجنوں رپورٹرز، کیمرہ مین اور فوٹو گرافر بغیر کیمروں کے موجود تھے۔ یہاں تک کے اخبارات اور چینلز کے دفاتر کے اندر کام کرنے والے عملے کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔
یہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہی نہ تھا، یہاں موجود ہر شخص کا سینہ بھی
جذبات کا خزینہ تھا۔ ایسے جذبات کہ جو اس سے پہلے سُنے نہ دیکھے، بلکہ جن
کا گمان تک نہ کیا جا سکتا تھا۔ ممتاز قادری کے حق میں نعرے لگانے والے پیس
اہلکاروں کا تذکرہ تو پہلے کر آیا ہوں۔ لیکن مجمے میں نون لیگ کا ایک نو
منتخب ناظم فٹ پاتھ پر چڑھ کر نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف نعرے لگوا
رہا تھا۔
گُستاخِ رسولﷺ کی ایک سزا ۔۔۔۔۔۔ سر تن سے جدا، سر تن سے جدا کی صدا ہر سمت سے بلند ہو ہی تھی۔
جنازے میں نوٹ کی گئی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں شریک ہونے والوں میں کئی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت بھی شامل تھی۔ جس میں خود نون لیگ کے کئی سنئیر ورکز بھی شامل تھے۔ لیکن کسی بھی لیڈر نے پروٹوکول اور روایتی کر و فر کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سیاسی اور مذہبی رہنماوں میں سے کسی نے بھی سٹیج پر جانے کی کوشش نہیں کی۔ سب کے سب نے عوام میں شامل ہو کر نماز جنازہ ادا کی۔
نماز جنازہ کے اختتام پر جب لوگ واپسی کے لئے نکلنا شروع ہوئے تو بلکل حج کے موقعہ پر عرفات سے روانگی کا سا منظر تھا۔ لاکھوں افراد کا مجمع حکومت اور اُس کے مغربی آقاؤں کو یہ پیغام دے گیا کہ پاکستان محمد عربی صل اللہ علیہ وسلم کی امت کا ملک ہے۔ یہاں تم میڈیا کے زور پر لاکھ ملالہ اور شرمین جیسے جعلی ہیرو بنا ڈالو۔ یہ قوم انہیں جوتے کی نوک پر رکھتی ہے۔
اس قوم کا اصلی ہیرو غازی ممتاز قادری جیسا غیرت مند ہے، اور اس کو ہیرو تسلیم کروانے کے لئے کسی میڈیا کی ضرورت نہیں ہے۔
مہتاب عزیز سینئر صحافی راولپنڈی اسلام آباد۔
گُستاخِ رسولﷺ کی ایک سزا ۔۔۔۔۔۔ سر تن سے جدا، سر تن سے جدا کی صدا ہر سمت سے بلند ہو ہی تھی۔
جنازے میں نوٹ کی گئی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں شریک ہونے والوں میں کئی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت بھی شامل تھی۔ جس میں خود نون لیگ کے کئی سنئیر ورکز بھی شامل تھے۔ لیکن کسی بھی لیڈر نے پروٹوکول اور روایتی کر و فر کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سیاسی اور مذہبی رہنماوں میں سے کسی نے بھی سٹیج پر جانے کی کوشش نہیں کی۔ سب کے سب نے عوام میں شامل ہو کر نماز جنازہ ادا کی۔
نماز جنازہ کے اختتام پر جب لوگ واپسی کے لئے نکلنا شروع ہوئے تو بلکل حج کے موقعہ پر عرفات سے روانگی کا سا منظر تھا۔ لاکھوں افراد کا مجمع حکومت اور اُس کے مغربی آقاؤں کو یہ پیغام دے گیا کہ پاکستان محمد عربی صل اللہ علیہ وسلم کی امت کا ملک ہے۔ یہاں تم میڈیا کے زور پر لاکھ ملالہ اور شرمین جیسے جعلی ہیرو بنا ڈالو۔ یہ قوم انہیں جوتے کی نوک پر رکھتی ہے۔
اس قوم کا اصلی ہیرو غازی ممتاز قادری جیسا غیرت مند ہے، اور اس کو ہیرو تسلیم کروانے کے لئے کسی میڈیا کی ضرورت نہیں ہے۔
مہتاب عزیز سینئر صحافی راولپنڈی اسلام آباد۔
No comments:
Post a Comment