وہ بارہ روپے
ہم
وہاں تین لوگ تھے‘ ہم میں سے ایک سینئر بیورو کریٹ تھا‘ وہ اکیسویں گریڈ
کا ایڈیشنل سیکرٹری تھا‘ دوسرا پروفیسر ڈاکٹر تھا‘ وہ دل کے امراض کا علاج
کرتا تھا اور تیسرا میں تھا‘ وقت ضائع کرنے والی خبطی صحافی۔ ہم تینوں
مذہبی طبقے بالخصوص تبلیغی جماعت کے خلاف تھے‘ ہمارا خیال تھا’’ یہ لوگ
توانائی اور وقت دونوں ضائع کرتے ہیں‘ معاشرے کو اس وقت بل گیٹس‘ وارن بفٹ
اور مارک زکر برگ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے‘ ہمیں وال ماریٹ جیسی کمپنیاں اور
سیم والٹن جیسے لوگ چاہئیں‘ اس سیم والٹن جیسے لوگ جس نے 1950ء میں
آرکنساس کے چھوٹے سے ٹاؤن میں چھوٹا سا سٹور کھولا‘ دن رات محنت کی‘ یہ
سٹور 17 برسوں میں ایک سے 24 ہوگیا‘ یہ سٹور 1970ء کی دہائی میں آرکنساس کی
سٹیٹ سے باہر نکلا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے امریکا میں پھیل گیا‘
دنیا کے 15 ملکوں میں اس وقت وال مارٹ کے ساڑھے آٹھ ہزار سٹورز ہیں‘ یہ
سٹورز کی دنیا کی سب سے بڑی چین اور دنیا کی دوسری بڑی پبلک کارپوریشن ہے‘
ملازمین کی تعداد بائیس لاکھ ہے اور یہ کمپنی سالانہ 252 ارب ڈالر کماتی
ہے‘ یہ دنیا میں سب سے زیادہ مصنوعات بیچنے والی کارپوریشن بھی ہے اور یہ
لوگ دنیا میں سب سے سستی مصنوعات بھی فروخت کرتے ہیں‘ دنیا بھر میں پھیلے
ہوئے ساڑھے آٹھ ہزار سٹورز ایک دفتر سے چلائے جاتے ہیں‘ سٹورز کے ریکس میں
مصنوعات کم ہوتی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ ہی چین کی مختلف کمپنیوں اور
فیکٹریوں میں آرڈرز پہنچتے جاتے ہیں‘ ایک خود کار نظام کے تحت یہ مصنوعات
چین سے نکلتی ہیں‘ بحری جہازوں کے ذریعے دنیا کی مختلف بندرگاہوں پر اترتی
ہیں‘ ٹرینوں‘ کنٹینروں اور ٹرکوں کے ذریعے سٹورز تک آتی ہیں اور ریک خالی
ہونے سے پہلے شیلف میں پہنچ جاتی ہیں‘ پے منٹس کا سسٹم بھی خود کار ہے‘
سٹورز کی آمدنی روزانہ بینکوں میں جاتی ہے‘ یہ بینک یہ رقم سنٹرل اکاؤنٹ
میں پھینکتے ہیں اور سنٹرل اکاؤنٹ سے یہ رقم آٹومیٹک کمپنیوں کو منتقل ہو
جاتی ہے‘ گویا مصنوعات کی ڈیلیوری‘ سیل‘ پے منٹ اور ٹیکس سے لے کر منافع تک
سارا نظام خود کار ہے‘ یہ سارے فیصلے کمپیوٹر کرتا ہے‘ مالکان‘ ڈائریکٹرز
اور شیئر ہولڈرز صرف کامیابی کو انجوائے کرتے ہیں‘‘ عالم اسلام کو ایسے لوگ
چاہئیں جو معاشرے میں تحریک بھی پیدا کریں اور معاشرے کو سکون‘ اطمینان
اور کامیابی کے ٹریک پر بھی لائیں جبکہ ہمارے علماء کرام تھوڑے بہت پڑھے
لکھے لوگوں اور معمولی درجے کا کام کرنے والے ورکروں کو بھی بے عملی اور
سستی کے غار میں دھکیل رہے ہیں‘ ہم طب‘ انجینئرنگ‘ کمپیوٹر سائنسز اور
سماجیات میں پہلے ہی دنیا سے بہت پیچھے ہیں اور جو لولے لنگڑے لوگ بچ گئے
ہیں‘ ہم انہیں بھی کام سے اٹھا کر چِلوں پر لگا رہے ہیں‘ ہم انہیں بھی
دفتروں‘ لیبارٹریوں اور ورکشاپوں سے نکال کر حجروں میں دھکیل رہے ہیں‘ یہ
کہاں کی عقل مندی‘ یہ کہاں کی دانش وری ہے‘‘ ان دونوں نے میری بات سے اتفاق
کیا‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’تعمیرات اس وقت دنیا کی سب سے بڑی انجینئرنگ
ہے‘ چین اس میدان میں کمال کر رہا ہے‘ چین نے پچھلے مہینے 18 دنوں میں 57
منزلہ ٹاور بنا کر دنیا کو حیران کر دیا‘ اس سے پچھلے مہینے 15 دنوں میں 30
منزلہ ہوٹل اور تین دن میں دو منزلہ گھر بنایا اور یہ عمارتیں قابل رہائش
بھی تھیں‘ چین اب سات ماہ میں 220 منزلہ ٹاور بنانے کا تجربہ کر رہا ہے
جبکہ ہم چالیس چالیس دن کے چِلے کاٹ رہے ہیں‘ ہم چالیس روزہ لگا رہے ہیں‘
کیا اس کی کوئی جسٹی فی کیشن‘ اس کا کوئی جواز ہے؟‘‘ وہ دونوں ہنسے اور
میری تائید کی‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’ہم فرد کو بدلنے‘ اس کو متحرک کرنے
کی بجائے اسے مزید سست بنا رہے ہیں‘ یہ دنیا عمل کی دنیا ہے‘ یہ دنیا ماں
کے پیٹ میں پلتے بچے کے دل کا آپریشن کر رہی ہے‘ یہ ہمارے خون میں چھپے ڈی
این اے سے ہمارے آباؤ اجداد کا اندازہ لگا رہی ہے‘ یہ ہمیں بتا رہی ہے‘ ہم
سب لوگ زیمبیا کے بش مین قبیلے کی نسل سے ہیں‘ یہ قبیلہ انسان کا جد امجد
تھا‘ ہم سب لوگ اس قبیلے کے خون میں سفر کرتے ہوئے دنیا کے مختلف خطوں میں
پہنچتے ہیں‘ انسان زیمبیا سے نکل کر سب سے پہلے برصغیر پہنچا تھا‘ قازقستان
کی نیازوف فیملی پورے روس‘ پورے یورپ اور پورے امریکا کی جد امجد ہے‘ یہ
لوگ برف کے زمانے میں ریڈ انڈینز کا پیچھا کرتے کرتے روس اور وہاں سے یورپ
اور پھر الاسکا پہنچے‘ برف پگھلی تو یورپ کے لوگ یورپ‘ امریکا کے امریکا
اور روس کے روس میں محدود ہو کر رہ گئے‘ ہمارے خون کا ڈی این اے ہمیں بتاتا
ہے‘ آسٹریلیا کے قدیم باشندے ابروجینل اور نیوزی لینڈ کے موری تامل ناڈو
کے گاؤں جوتھی ماڑی کم میں رہنے والے ویروماندی کے کزن ہیں‘ یہ لوگ بھی
ہزاروں سال پہلے برف پر سفر کرتے ہوئے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پہنچے تھے‘
برف پگھل گئی اور یوں ان کا تامل ناڈو سے رابطہ کٹ گیا‘ اکیسویں صدی میں جب
ڈی این اے کا انقلاب آیا اور سائنس نے انسان کے ٹریک کو ٹریک کرنا شروع
کیا تو اسے پتہ چلا ہم کون ہیں‘ ہم کہاں سے چلے اور کب اور کہاں پہنچے لیکن
ہمارے لوگ رائے ونڈ ہی سے باہر نہیں نکل رہے‘‘۔
میری گفتگو جاری تھی‘ اچانک ایڈیشنل سیکرٹری نے قہقہہ لگایا اور بولے ’’میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں‘ میں بھی یہ سمجھتا ہوں‘ ہماری عبادات صرف فرائض تک محدود ہونی چاہئیں اور ہمیں اپنے وقت کا زیادہ حصہ دنیا کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا چاہیے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے‘ تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے اور ہمیں اس رخ پر بھی توجہ دینی چاہیے‘‘ میں نے پوچھا ’’دوسرا رخ کیا ہے‘‘ وہ بولے ’’ میں ایک دن دفتر میں بیٹھا تھا‘ میرے ایک بیچ میٹ کا فون آیا‘ وہ باریش بھی ہے اور تبلیغی جماعت سے بھی تعلق رکھتا ہے‘ ان کا کہنا تھا‘ ان کے چند دوست مجھ سے ملنا چاہتے ہیں‘ میں عموماً مولویوں سے پرہیز کرتا ہوں‘ یہ میری پرانی عادت ہے‘ میں مولویوں کی دکان سے سودا تک نہیں خریدتا‘ اس کی وجہ مذہب سے نفرت نہیں ہے بلکہ میں سوچتا ہوں‘ دکاندار کی غلط بیانی‘ منافع خوری یا خریدی ہوئی چیز کے نقص مجھے کہیں مذہب اور مولویوں سے مزید بدگمان نہ کر دیں چنانچہ میں کسی ایسے شخص سے ملتا ہوں اور نہ ہی معاملہ کرتا ہوں جس سے ملاقات میری بدگمانی میں اضافہ کر دے لیکن میں اس دن بحث کے موڈ میں تھا‘ میں اس دن کسی ایسے شخص کا منتظر تھا میں جس کے ساتھ سینگ پھنسا سکوں اور میرے کولیگ نے مجھے یہ موقع فراہم کر دیا‘ میں نے ان لوگوں کو لنچ کے وقت بلا لیا‘ وہ چھ لوگ تھے‘ وہ سب صحت مند مولوی تھے‘ وہ آئے اور میرے سامنے بیٹھ گئے‘ میں نے ان کے سامنے یہی آرگومنٹ رکھا جو آپ اس وقت ہمارے سامنے کھول کر بیٹھے ہیں‘ میں نے ان سے پوچھا‘ آپ نے آج تک معاشرے اور فرد کیلئے کیا کیا؟ آپ نے دنیا کو کیا دیا؟‘‘ وہ تمام لوگ خاموشی سے میری بات سنتے رہے‘ ان میں موجود ایک شخص نے میرا نام دہرایا اور اس کے بعد پوچھا’’ مجھے آپ کا نام جانا پہچانا لگ رہا ہے‘ آپ کہیں فلاں سال سندھ کے فلاں ضلع میں ڈپٹی کمشنر تو نہیں تھے؟ میں نے ہاں میں سر ہلایا اور عرض کیا‘ جی ہاں میں اس سال سندھ میں تھا اور اس ضلع کا ڈی سی تھا‘ اس نے اس کے بعد کہا‘ جناب آپ کو یاد ہو گا‘ آپ ایک رات ہائی وے سے گزر رہے تھے اور آپ کی گاڑی ڈاکوؤں نے روک لی تھی‘ میں نے دماغ پر تھوڑا سا زور دے کر جواب دیا ہاں! آپ کی یہ بات بھی درست ہے‘ میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا لیکن میں نے یہ اپنے ڈیپارٹمنٹ اور پریس دونوں سے خفیہ رکھا‘ اس نے اس کے بعد کہا‘ آپ کو یاد ہو گا‘ آپ کو ایک نوجوان ڈاکو نے تھپڑ مارے تھے‘ آپ جب بھی یہ کہتے تھے‘ میں ڈی سی ہوں تو وہ ڈاکو آپ کو تھپڑ مارتا تھا‘ میں نے کہا ‘ہاں! یہ بھی حقیقت ہے لیکن یہ واقعہ رپورٹ نہیں ہوا تھا‘ یہ آپ تک کیسے پہنچا؟ وہ صاحب مسکرائے اور مسکرا کر جواب دیا‘ وہ تھپڑ مارنے والا ڈاکو میں تھا‘ آپ مجھے دیکھیں اور اس وقت کے ڈاکو کو ذہن میں لائیں جس نے علاقے کے ڈپٹی کمشنر کو تھپڑ مارے تھے اور آپ اس کے بعد اپنا سوال دہرائیں‘ مولویوں کی کسی تنظیم نے آج تک کسی کا مقدر نہیں بدلا‘ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا‘ میں اس کے جواب سے واقعی لاجواب ہو گیا‘ اس نے بعد ازاں بتایا‘ وہ سب سے پہلے خود تبدیل ہوا اور پھر اس کو دیکھ کر اس کا سارا قبیلہ‘ اس کے سارے ساتھی جرائم اور گناہوں سے توبہ تائب ہو گئے‘ میں یہ سن کر اپنی جگہ سے اٹھا‘ اس کا ہاتھ چوما اور اس سے اپنی مغفرت کی دعا کی درخواست کی‘‘ ایڈیشنل سیکرٹری خاموش ہو گئے‘ ہم دونوں بھی خاموش تھے۔
یہ خاموشی چند لمحے جاری رہی پھر پروفیسر صاحب نے سر اٹھایا اور بولے ’’میرے پاس بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے‘ میرے کلینک میں ایک بزرگ آدمی داخل تھا‘ اس کے پاس ہر وقت لوگوں کا میلا لگا رہتا تھا‘ لوگ ساری ساری رات اس کے کمرے کے سامنے کھڑے رہتے تھے‘ ہم جب لوگوں کو منع کرتے تھے تو وہ رونا شروع کر دیتے تھے‘ ہمیں لوگوں کی اس عقیدت نے پریشان کر دیا‘ میں جس شخص سے پوچھتا تھا‘ آپ کو اس بوڑھے سے کیا ملتا ہے تو وہ جواب دیتا تھا‘ سکون‘ ہم جوں ہی انہیں دیکھتے ہیں‘ ہمارے سینے میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے‘ میں نے ایک دن باباجی سے پوچھ لیا‘ آپ کون ہیں اور آپ کو یہ رتبہ کیسے ملا‘ باباجی نے مسکرا کر جواب دیا‘ میں لاہور کا ایک جیب کترا تھا‘ میں جیب تراشی کرتا تھا‘ میں نے ایک دن لاری اڈے پر ایک مسافر کی جیب کاٹی‘ جیب سے 38 روپے اور ایک خط نکلا‘ یہ بیٹے کا اپنی ماں کے نام خط تھا‘ بیٹے نے لکھا تھا‘ ماں میں محنت مزدوری کر کے صرف 38 روپے جمع کر سکا ہوں‘ آپ ڈاکٹر کو یہ پیسے دے کر علاج شروع کرا لو‘ میں باقی 12 روپے بھی آپ کو جلد بھجوا دوں گا‘ میں یہ خط پڑھ کر لرز گیا‘ میں اسی وقت راج مزدوروں کے ساتھ بیٹھ گیا‘ میں نے بارہ دن مزدوری کر کے بارہ روپے جمع کئے‘ حلال روزی کے یہ بارہ روپے ان 38 روپوں میں ملائے اور یہ رقم خط پر لکھے پتے پر منی آرڈر کر دی‘ بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد میرا کوئی قدم برائی کے راستے پر نہیں پڑنے دیا‘ میں نے باباجی کا ہاتھ چوماا اور باہر آ گیا‘ وہ باباجی بھی تبلیغ کا کام کرتے تھے‘‘ پروفیسر صاحب بھی خاموش ہو گئے‘ وہاں اب خاموشی کا راج تھا‘ ہم تینوں خاموش بیٹھے تھے‘ تصویر کے دوسرے رخ نے ہم تینوں کو لاجواب کر دیا تھا۔
No comments:
Post a Comment