اسلام
آباد (نیوز ڈیسک)میکس کی عمر اس وقت چاردن ہے‘ یہ بچی پچھلے ہفتے امریکی
ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں پیدا ہوئی‘ دنیا کے تمام والدین
اپنے بچوں کی پیدائش پر صدقہ کرتے ہیں‘ ہم مسلمان قربانی کرتے ہیں‘ قرآن
خوانی کراتے ہیں اور کھانا پکا کر محتاجوں اور مسکینوں کو کھلاتے ہیں‘ ہندو
مٹھائی تقسیم کرتے ہیں جب کہ عیسائی ضرورت مندوں میں نقد رقم بانٹتے ہیں‘
دنیا کی ہر ماں‘ ہر باپ اپنی استطاعت کے مطابق نئے آنے والے بچے یا بچی کی
خوشی مناتا ہے لیکن میکس ایک مختلف بچی ہے۔
یہ دنیا کی پہلی بچی ہے جس کی پیدائش پر اس کے والد نے 45 ارب ڈالر صدقہ کر دیے‘ یہ کسی بچی کی پیدائش پر انسانی تاریخ کا سب سے بڑا عطیہ‘ سب سے بڑا صدقہ ہے‘ یہ بچی کون ہے؟ اس کے والدین کون ہیں اور 45 ارب ڈالر کا یہ عطیہ کیوں کیا گیا؟ یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے‘یہ داستان 2004ء میں شروع ہوئی۔
2004ءمیں ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک کمرے میں تین نوجوان رہتے تھے‘ مارک ان تینوں میں نالائق‘ سست اور شرمیلا تھا‘ یہ اس وقت بمشکل 19 برس کا تھا‘ یہ 1984ءمیں نیویارک کے ایک گاو ¿ں میں پیدا ہوا‘ والد دندان ساز تھا‘ یہ خاندان کا چوتھا بچہ تھا‘ تین بہنیں اس کے علاوہ تھیں‘ اسکول میں نالائق اور غبی تھا‘ یہ 2002ءمیں ہارورڈ یونیورسٹی پہنچ گیا‘ کمپیوٹر پروگرامنگ اس کا جنون تھا‘ مارک نے 2004ئ کے شروع میں اپنے گندے کمرے میں بیٹھ کر ویب سائیٹ کی ڈومین خریدی‘ سوشل نیٹ ورک کی ویب سائیٹ ڈیزائن کی اور چار فروری 2004ئ کو فیس بک ڈاٹ کام کے نام سے یہ ویب سائیٹ لانچ کر دی۔
اس ویب سائیٹ کا مقصد ہارورڈ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کے درمیان آن لائین رابطے پیدا کرنا تھا‘ مارک نے ویب سائیٹ کے لیے تمام ڈیٹا‘ اسٹوڈنٹس کے پروفائل‘ ان کی تصویریں اور پتے یونیورسٹی کے ڈیٹا بینک سے لیے تھے‘ یہ ویب سائیٹ جوں ہی انتظامیہ کے نوٹس میں آئی‘ انتظامیہ نے ہیکنگ کا الزام لگا کر مارک کو نوٹس جاری کر دیا لیکن مارک پیچھے نہ ہٹا‘ اس کے پاس اس وقت صرف ہزار ڈالر تھے‘ اس نے اتنی ہی رقم اپنے ایک کلاس فیلو سیورن سے لی اور ویب سائیٹ کو مزید بہتر بنانا شروع کر دیا‘ فیس بک یونیورسٹی طالب علموں کے لیے دلچسپ تجربہ ثابت ہوئی‘ چار دن میں 650 طالب علموں نے فیس بک جوائن کر لی۔
یہ تعداد تین ہفتوں میں 6 ہزار تک پہنچ گئی‘ 25 فروری کو کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم بھی فیس بک جوائن کرنے لگے‘ اگلے دن یعنی 26 فروری کو سٹین فورڈ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس بھی فیس بک پر آ گئے اور 28 فروری کو ییل یونیورسٹی بھی مارک کی اس عجیب و غریب ایجاد پر نظر آنے لگی‘ مارچ میں طالب علموں کی تعداد 30 ہزار تک پہنچ گئی‘ مارک کو اب ویب سائیٹ ہینڈل کرنے کے لیے اسٹاف کی ضرورت تھی‘ جیبیں خالی تھیں اور کاروبار مشکل چنانچہ مارک نے مجبوراً اپنے رومیٹ ڈسٹن موسکووٹز کو پانچ فیصد شیئر دے کر ساتھ ملا لیا۔
موسکووٹز اس وقت یہ نہیں جانتا تھا‘ وہ ہاں جو اس نے ہنستے ہنستے کر دی تھی‘ وہ اسے مستقبل میں کروڑ پتی بھی بنا دے گی اور وہ پوری دنیا میں مشہور بھی ہو جائے گا‘ مارک نے مارچ کے مہینے میں فیس بک پر اشتہارات کا سلسلہ بھی شروع کر دیا‘ پہلے مہینے کی کمائی ساڑھے چار سو ڈالر تھی‘ کمپنی میں اپریل میں دس ہزار ڈالر کی مزید سرمایہ کاری ہوئی‘ اس سرمایہ کاری نے فیس بک کو چھ ماہ میں امریکا کی 34 یونیورسٹیوں کے ایک لاکھ طالب علموں تک پہنچا دیا اور یہ وہ کامیابی تھی جس نے مارک پر ہارورڈ یونیورسٹی کے دروازے بند کر دیے‘ وہ ہارورڈ سے نکلا اور سیدھا سلیکان ویلی پہنچ گیا اور مارک سے مارک زکر برگ ہو گیا۔
مارک زکر برگ نے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ فیس بک کی مالیت صرف چار ماہ میں دس ملین ڈالر ہو چکی تھی لیکن مارک نے کمپنی بیچنے سے انکار کر دیا‘ 2005ءکی گرمیوں میں جب فیس بک کے یوزرز کی تعداد دو لاکھ ہوئی تو پے پال کمپنی کے شریک بانی پیٹر تھیل نے فیس بک میں پانچ لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کر دی‘ یہ سرمایہ کاری یوزرز کی تعداد کو پانچ لاکھ تک لے گئی اور پھر اس کے بعد مارک نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ فیس بک اس وقت دنیا کی مقبول ترین سوشل میڈیا ویب سائیٹ ہے‘ اس کے یوزرز کی کل تعداد ایک ارب 55 کروڑ ہے‘ دنیا کے 145 ممالک کے لوگ فیس بک استعمال کرتے ہیں۔
دنیا کے تمام سربراہان‘ لیڈرز‘ اداکار‘ گلوکار‘ کھلاڑی‘ رائٹرز‘ صحافی‘ بزنس مین اور دنیا کی تمام چھوٹی بڑی آرگنائزیشنز فیس بک پر موجود ہیں‘ دنیا کا کوئی شخص زمین پر ہو یا نہ ہو لیکن وہ فیس بک پر ضرور ہوتا ہے‘ دنیا فیس بک سے قبل سات براعظموں ‘ 145 ملکوں‘ مختلف قومیتوں اورہزاروںزبانوں میں تقسیم تھی لیکن یہ فیس بک کے بعد سمٹ کر ایک وال پر آگئی‘ آج امریکا ہو‘ روس ہو یا افغانستان ہو‘ صدر اوباما ہوں‘ پیوٹن ہوں یا پھر اشرف غنی ہوں‘ یہ تمام لوگ‘ یہ تمام ملک فیس بک کے بغیر ادھورے ہیں‘ لوگ اب یہ تک کہتے ہیں‘ ڈھونڈنے والوں کو فیس بک پر خدا بھی مل جاتا ہے۔
فیس بک نے مارک زکربرگ کو 23 سال کی عمر میں ارب پتی بنا دیا‘ یہ دنیا کا پہلا نوجوان تھا جو 23 سال کی عمر میں ارب پتیوں کی فہرست میں شامل ہوا‘ یہ امریکا کا ساتواں امیر ترین شخص بھی ہے اور یہ دنیا کی ان 100 بااثر ترین شخصیات میں بھی شمار ہوتا ہے جن میں صدر اوباما‘ ڈیوڈ کیمرون‘ نریندر مودی اورپیوٹن جیسے لوگ شامل ہیں‘ فیس بک میں اس وقت 10 ہزار ملازمین ہیں‘ یہ سالانہ ساڑھے بارہ ارب ڈالر کماتی ہے‘ اس کی روزانہ آمدنی تین کروڑ 34 لاکھ ڈالر اور ایک سیکنڈ میں 387 ڈالر ہے‘ دنیا کی 56 کمپنیوں کا براہ راست روزگار بھی فیس بک سے وابستہ ہے۔
مارک زکر برگ کے پاس کمپنی کے 28.2 فیصد شیئرز ہیں‘ ان شیئرز کی مالیت 45 ارب ڈالر ہے‘ گویا اکیلا مارک زکر برگ پاکستان کے اسی فیصد قرضے ادا کر سکتا ہے‘ یہ فیس بک کا چیئرمین ہے لیکن یہ اپنی خدمات کا صرف ایک ڈالر معاوضہ لیتا ہے‘ یہ اس کی کل تنخواہ ہے‘ اس نے مئی 2012ئ میں پریسیلا چین کے ساتھ شادی کی‘ بیگم عام سی ڈاکٹر ہے‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں پچھلے ہفتے بیٹی کی نعمت سے نوازا‘ میکس ان کی پہلی اولاد ہے‘ مارک زکر برگ نے بیٹی کی پیدائش پر اپنی 99 فیصد دولت خیرات کر دی‘ یہ 45 ارب ڈالر بنتے ہیں‘ یہ رقم اس کے قائم کردہ فنڈ میں شفٹ ہو جائے گی‘ یہ اس رقم سے دنیا بھر کے مسکینوں‘ بیماروں‘ لاچاروں اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کی مدد کرے گا‘ یہ مہلک امراض کا علاج تلاش کرائے گا‘ غریب ملکوں میں اسکول اور اسپتال بنوائے گا‘ معذوروں کو مصنوعی اعضائ فراہم کرے گا اور غربت کے نچلے درجے میں زندگی گزارنے والوں کی مالی مدد کرے گا‘ مارک زکر برگ نے اپنی 99 فیصد دولت عطیہ کرتے وقت اپنی بیٹی میکس کو ایک خط بھی لکھا‘ یہ خط بھی شاہکار ہے‘ مارک نے خط میں لکھا ”آپ کی والدہ اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعے ہم آپ کو یہ بتا سکیں‘ آپ کے آنے سے ہمیں مستقبل کی کتنی امیدیں ملی ہیں‘ آپ نے دنیا میں آ کر ہمیں اس دنیا کی طرف متوجہ کر دیا جس میں آپ نے زندگی گزارنی ہے“ مارک کا کہنا ہے‘ میں اس دنیا کو اپنی بیٹی کے رہنے کے لیے بہتر جگہ بنانا چاہتا ہوں‘ مارک نے دنیا کو بہتر جگہ بنانے کے لیے اپنی 99 فیصد دولت خیرات کر دی‘ یہ اب فیس بک کے صرف ایک فیصد شیئرز کا مالک ہے۔
آپ فیس بک کے اس ایک فیصد شیئر ہولڈر کو دیکھئے اور اس کے بعد اسلامی دنیا کے ان تمام شہزادوں کو دیکھئے جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں‘ آپ ان کے بعد پاکستان کے ان ارب پتیوں کو بھی دیکھئے جنھیں اللہ تعالیٰ نے رزق اور دولت سے نوازا اور آپ اس کے بعد ملک کے ان حکمرانوں کو بھی دیکھئے جنھیں اللہ نے دولت بھی دی‘ شہرت بھی دی اور اقتدار بھی عنایت کیا اور آپ اس کے بعد سوچئے‘ یہ کیسے لوگ ہیں جن کے سامنے خلقت بھوک سے ایڑھیاںرگڑتی ہے‘ جن کے سامنے اہل ایمان پسماندگی‘ جہالت اور بیماری کی پست ترین سطح پر سسک رہے ہیں اور جن کے سامنے مسلمان جوہڑ کے پانی سے وضو بھی کرتے ہیں اور یہ پانی اپنے بچوں کو بھی پلاتے ہیں لیکن انھیں ایک لمحے کے لیے بھی خدا کا خوف نہیں آتا‘ آپ تیل کی دولت سے مالا مال عرب ملکوں اور یورپ کے عوام کا موازنہ بھی کر لیجیے‘آپ کو یورپ کی مڈل کلاس عرب ممالک کے خوش حال ترین لوگوں سے بہتر زندگی گزارتی نظر آئے گی‘ آپ پاکستان کے حکمرانوں‘ اشرافیہ اور بزنس مین کلاس کو بھی دیکھ لیجیے۔
یہ لوگ دہائیوں سے اپنے بچوں کو اس دنیا میں چھوڑ کر جا رہے ہیں جس میں بیماری‘ افلاس‘ جہالت اور جرائم کے انبار لگے ہیں‘ بھٹو کا خاندان 45 برسوں میں لاڑکانہ کو پینے کا صاف پانی‘ اچھی تعلیم‘ معیاری اسپتال اور کرائم فری ماحول نہیں دے سکا‘ باچا خان کے خاندان نے آج تک چارسدہ کی حالت نہیں بدلی‘ مولانا فضل الرحمن آج تک ڈی آئی خان کو نہیں بدل سکے اور شریف فیملی آج تک لاہور کو اتنا صاف ستھرا اور محفوظ نہیں بنا سکی کہ ان کے پوتے اور پوتیاں سیکیورٹی کے بغیر باہر نکل سکیں‘ سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کر سکیں‘ گورنمنٹ کے اسپتال میں علاج کرا سکیں اور ٹونٹی کا پانی پی سکیں‘ ہم کیسے لوگ ہیں؟ ہم خود کو اللہ تعالیٰ کی مقدس قوم بھی کہتے ہیں‘ ہم خود کو نبی اکرم? کی شفاعت کا حق دار بھی سمجھتے ہیں۔
ہم کلمہ بھی پڑھتے ہیں‘ قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتے ہیں اور باقاعدگی سے نماز بھی ادا کرتے ہیں لیکن اپنے بچوں کو بدترین ماحول بھی دے رہے ہیں! ہم کیسے مسلمان ہیں‘ ہم کیسے پاکستانی ہیں اور ہم کیسے انسان ہیں‘ ہم ایمان کے دعوے دار ہیں لیکن 31 سال کا ایک نوجوان صدقے اور خیرات میں ہم سے لاکھوں کوس آگے نکل گیا‘ ہم ایمان کے ڈھول پیٹتے رہ گئے اور بے ایمان ملک کا ایک بے ایمان نوجوان ایمان کی پوری دکان لوٹ کرلے گیا۔
کیا ہم مسلمانوں کے پاس مارک زکر برگ کا کوئی ایک متبادل ہے‘ کوئی ایک ایسا متبادل جو اپنی 99 فیصد دولت انسانیت کے لیے وقف کر دے‘ جو اپنے بچوں کو بہتر دنیا دینے کے لیے اپنی ساری دولت لٹا دے؟ میں مسلمانوں کو اس دن مسلمان سمجھوں گا جس دن یہ مارک زکر برگ جیسا ایک انسان پیدا کر لیں گے‘ ایسا مارک زکر برگ جو اپنی ساری دولت اپنی بیٹی کے نام پر صدقہ کر دے اور جو عین جوانی میں اللہ کا دیا ہوا مال اللہ کے نام وقف کر دے! کوئی ہے‘ کوئی ایک‘ 68 اسلامی ملکوں میں کوئی ایک
یہ دنیا کی پہلی بچی ہے جس کی پیدائش پر اس کے والد نے 45 ارب ڈالر صدقہ کر دیے‘ یہ کسی بچی کی پیدائش پر انسانی تاریخ کا سب سے بڑا عطیہ‘ سب سے بڑا صدقہ ہے‘ یہ بچی کون ہے؟ اس کے والدین کون ہیں اور 45 ارب ڈالر کا یہ عطیہ کیوں کیا گیا؟ یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے‘یہ داستان 2004ء میں شروع ہوئی۔
2004ءمیں ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک کمرے میں تین نوجوان رہتے تھے‘ مارک ان تینوں میں نالائق‘ سست اور شرمیلا تھا‘ یہ اس وقت بمشکل 19 برس کا تھا‘ یہ 1984ءمیں نیویارک کے ایک گاو ¿ں میں پیدا ہوا‘ والد دندان ساز تھا‘ یہ خاندان کا چوتھا بچہ تھا‘ تین بہنیں اس کے علاوہ تھیں‘ اسکول میں نالائق اور غبی تھا‘ یہ 2002ءمیں ہارورڈ یونیورسٹی پہنچ گیا‘ کمپیوٹر پروگرامنگ اس کا جنون تھا‘ مارک نے 2004ئ کے شروع میں اپنے گندے کمرے میں بیٹھ کر ویب سائیٹ کی ڈومین خریدی‘ سوشل نیٹ ورک کی ویب سائیٹ ڈیزائن کی اور چار فروری 2004ئ کو فیس بک ڈاٹ کام کے نام سے یہ ویب سائیٹ لانچ کر دی۔
اس ویب سائیٹ کا مقصد ہارورڈ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کے درمیان آن لائین رابطے پیدا کرنا تھا‘ مارک نے ویب سائیٹ کے لیے تمام ڈیٹا‘ اسٹوڈنٹس کے پروفائل‘ ان کی تصویریں اور پتے یونیورسٹی کے ڈیٹا بینک سے لیے تھے‘ یہ ویب سائیٹ جوں ہی انتظامیہ کے نوٹس میں آئی‘ انتظامیہ نے ہیکنگ کا الزام لگا کر مارک کو نوٹس جاری کر دیا لیکن مارک پیچھے نہ ہٹا‘ اس کے پاس اس وقت صرف ہزار ڈالر تھے‘ اس نے اتنی ہی رقم اپنے ایک کلاس فیلو سیورن سے لی اور ویب سائیٹ کو مزید بہتر بنانا شروع کر دیا‘ فیس بک یونیورسٹی طالب علموں کے لیے دلچسپ تجربہ ثابت ہوئی‘ چار دن میں 650 طالب علموں نے فیس بک جوائن کر لی۔
یہ تعداد تین ہفتوں میں 6 ہزار تک پہنچ گئی‘ 25 فروری کو کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم بھی فیس بک جوائن کرنے لگے‘ اگلے دن یعنی 26 فروری کو سٹین فورڈ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس بھی فیس بک پر آ گئے اور 28 فروری کو ییل یونیورسٹی بھی مارک کی اس عجیب و غریب ایجاد پر نظر آنے لگی‘ مارچ میں طالب علموں کی تعداد 30 ہزار تک پہنچ گئی‘ مارک کو اب ویب سائیٹ ہینڈل کرنے کے لیے اسٹاف کی ضرورت تھی‘ جیبیں خالی تھیں اور کاروبار مشکل چنانچہ مارک نے مجبوراً اپنے رومیٹ ڈسٹن موسکووٹز کو پانچ فیصد شیئر دے کر ساتھ ملا لیا۔
موسکووٹز اس وقت یہ نہیں جانتا تھا‘ وہ ہاں جو اس نے ہنستے ہنستے کر دی تھی‘ وہ اسے مستقبل میں کروڑ پتی بھی بنا دے گی اور وہ پوری دنیا میں مشہور بھی ہو جائے گا‘ مارک نے مارچ کے مہینے میں فیس بک پر اشتہارات کا سلسلہ بھی شروع کر دیا‘ پہلے مہینے کی کمائی ساڑھے چار سو ڈالر تھی‘ کمپنی میں اپریل میں دس ہزار ڈالر کی مزید سرمایہ کاری ہوئی‘ اس سرمایہ کاری نے فیس بک کو چھ ماہ میں امریکا کی 34 یونیورسٹیوں کے ایک لاکھ طالب علموں تک پہنچا دیا اور یہ وہ کامیابی تھی جس نے مارک پر ہارورڈ یونیورسٹی کے دروازے بند کر دیے‘ وہ ہارورڈ سے نکلا اور سیدھا سلیکان ویلی پہنچ گیا اور مارک سے مارک زکر برگ ہو گیا۔
مارک زکر برگ نے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ فیس بک کی مالیت صرف چار ماہ میں دس ملین ڈالر ہو چکی تھی لیکن مارک نے کمپنی بیچنے سے انکار کر دیا‘ 2005ءکی گرمیوں میں جب فیس بک کے یوزرز کی تعداد دو لاکھ ہوئی تو پے پال کمپنی کے شریک بانی پیٹر تھیل نے فیس بک میں پانچ لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کر دی‘ یہ سرمایہ کاری یوزرز کی تعداد کو پانچ لاکھ تک لے گئی اور پھر اس کے بعد مارک نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ فیس بک اس وقت دنیا کی مقبول ترین سوشل میڈیا ویب سائیٹ ہے‘ اس کے یوزرز کی کل تعداد ایک ارب 55 کروڑ ہے‘ دنیا کے 145 ممالک کے لوگ فیس بک استعمال کرتے ہیں۔
دنیا کے تمام سربراہان‘ لیڈرز‘ اداکار‘ گلوکار‘ کھلاڑی‘ رائٹرز‘ صحافی‘ بزنس مین اور دنیا کی تمام چھوٹی بڑی آرگنائزیشنز فیس بک پر موجود ہیں‘ دنیا کا کوئی شخص زمین پر ہو یا نہ ہو لیکن وہ فیس بک پر ضرور ہوتا ہے‘ دنیا فیس بک سے قبل سات براعظموں ‘ 145 ملکوں‘ مختلف قومیتوں اورہزاروںزبانوں میں تقسیم تھی لیکن یہ فیس بک کے بعد سمٹ کر ایک وال پر آگئی‘ آج امریکا ہو‘ روس ہو یا افغانستان ہو‘ صدر اوباما ہوں‘ پیوٹن ہوں یا پھر اشرف غنی ہوں‘ یہ تمام لوگ‘ یہ تمام ملک فیس بک کے بغیر ادھورے ہیں‘ لوگ اب یہ تک کہتے ہیں‘ ڈھونڈنے والوں کو فیس بک پر خدا بھی مل جاتا ہے۔
فیس بک نے مارک زکربرگ کو 23 سال کی عمر میں ارب پتی بنا دیا‘ یہ دنیا کا پہلا نوجوان تھا جو 23 سال کی عمر میں ارب پتیوں کی فہرست میں شامل ہوا‘ یہ امریکا کا ساتواں امیر ترین شخص بھی ہے اور یہ دنیا کی ان 100 بااثر ترین شخصیات میں بھی شمار ہوتا ہے جن میں صدر اوباما‘ ڈیوڈ کیمرون‘ نریندر مودی اورپیوٹن جیسے لوگ شامل ہیں‘ فیس بک میں اس وقت 10 ہزار ملازمین ہیں‘ یہ سالانہ ساڑھے بارہ ارب ڈالر کماتی ہے‘ اس کی روزانہ آمدنی تین کروڑ 34 لاکھ ڈالر اور ایک سیکنڈ میں 387 ڈالر ہے‘ دنیا کی 56 کمپنیوں کا براہ راست روزگار بھی فیس بک سے وابستہ ہے۔
مارک زکر برگ کے پاس کمپنی کے 28.2 فیصد شیئرز ہیں‘ ان شیئرز کی مالیت 45 ارب ڈالر ہے‘ گویا اکیلا مارک زکر برگ پاکستان کے اسی فیصد قرضے ادا کر سکتا ہے‘ یہ فیس بک کا چیئرمین ہے لیکن یہ اپنی خدمات کا صرف ایک ڈالر معاوضہ لیتا ہے‘ یہ اس کی کل تنخواہ ہے‘ اس نے مئی 2012ئ میں پریسیلا چین کے ساتھ شادی کی‘ بیگم عام سی ڈاکٹر ہے‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں پچھلے ہفتے بیٹی کی نعمت سے نوازا‘ میکس ان کی پہلی اولاد ہے‘ مارک زکر برگ نے بیٹی کی پیدائش پر اپنی 99 فیصد دولت خیرات کر دی‘ یہ 45 ارب ڈالر بنتے ہیں‘ یہ رقم اس کے قائم کردہ فنڈ میں شفٹ ہو جائے گی‘ یہ اس رقم سے دنیا بھر کے مسکینوں‘ بیماروں‘ لاچاروں اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کی مدد کرے گا‘ یہ مہلک امراض کا علاج تلاش کرائے گا‘ غریب ملکوں میں اسکول اور اسپتال بنوائے گا‘ معذوروں کو مصنوعی اعضائ فراہم کرے گا اور غربت کے نچلے درجے میں زندگی گزارنے والوں کی مالی مدد کرے گا‘ مارک زکر برگ نے اپنی 99 فیصد دولت عطیہ کرتے وقت اپنی بیٹی میکس کو ایک خط بھی لکھا‘ یہ خط بھی شاہکار ہے‘ مارک نے خط میں لکھا ”آپ کی والدہ اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعے ہم آپ کو یہ بتا سکیں‘ آپ کے آنے سے ہمیں مستقبل کی کتنی امیدیں ملی ہیں‘ آپ نے دنیا میں آ کر ہمیں اس دنیا کی طرف متوجہ کر دیا جس میں آپ نے زندگی گزارنی ہے“ مارک کا کہنا ہے‘ میں اس دنیا کو اپنی بیٹی کے رہنے کے لیے بہتر جگہ بنانا چاہتا ہوں‘ مارک نے دنیا کو بہتر جگہ بنانے کے لیے اپنی 99 فیصد دولت خیرات کر دی‘ یہ اب فیس بک کے صرف ایک فیصد شیئرز کا مالک ہے۔
آپ فیس بک کے اس ایک فیصد شیئر ہولڈر کو دیکھئے اور اس کے بعد اسلامی دنیا کے ان تمام شہزادوں کو دیکھئے جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں‘ آپ ان کے بعد پاکستان کے ان ارب پتیوں کو بھی دیکھئے جنھیں اللہ تعالیٰ نے رزق اور دولت سے نوازا اور آپ اس کے بعد ملک کے ان حکمرانوں کو بھی دیکھئے جنھیں اللہ نے دولت بھی دی‘ شہرت بھی دی اور اقتدار بھی عنایت کیا اور آپ اس کے بعد سوچئے‘ یہ کیسے لوگ ہیں جن کے سامنے خلقت بھوک سے ایڑھیاںرگڑتی ہے‘ جن کے سامنے اہل ایمان پسماندگی‘ جہالت اور بیماری کی پست ترین سطح پر سسک رہے ہیں اور جن کے سامنے مسلمان جوہڑ کے پانی سے وضو بھی کرتے ہیں اور یہ پانی اپنے بچوں کو بھی پلاتے ہیں لیکن انھیں ایک لمحے کے لیے بھی خدا کا خوف نہیں آتا‘ آپ تیل کی دولت سے مالا مال عرب ملکوں اور یورپ کے عوام کا موازنہ بھی کر لیجیے‘آپ کو یورپ کی مڈل کلاس عرب ممالک کے خوش حال ترین لوگوں سے بہتر زندگی گزارتی نظر آئے گی‘ آپ پاکستان کے حکمرانوں‘ اشرافیہ اور بزنس مین کلاس کو بھی دیکھ لیجیے۔
یہ لوگ دہائیوں سے اپنے بچوں کو اس دنیا میں چھوڑ کر جا رہے ہیں جس میں بیماری‘ افلاس‘ جہالت اور جرائم کے انبار لگے ہیں‘ بھٹو کا خاندان 45 برسوں میں لاڑکانہ کو پینے کا صاف پانی‘ اچھی تعلیم‘ معیاری اسپتال اور کرائم فری ماحول نہیں دے سکا‘ باچا خان کے خاندان نے آج تک چارسدہ کی حالت نہیں بدلی‘ مولانا فضل الرحمن آج تک ڈی آئی خان کو نہیں بدل سکے اور شریف فیملی آج تک لاہور کو اتنا صاف ستھرا اور محفوظ نہیں بنا سکی کہ ان کے پوتے اور پوتیاں سیکیورٹی کے بغیر باہر نکل سکیں‘ سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کر سکیں‘ گورنمنٹ کے اسپتال میں علاج کرا سکیں اور ٹونٹی کا پانی پی سکیں‘ ہم کیسے لوگ ہیں؟ ہم خود کو اللہ تعالیٰ کی مقدس قوم بھی کہتے ہیں‘ ہم خود کو نبی اکرم? کی شفاعت کا حق دار بھی سمجھتے ہیں۔
ہم کلمہ بھی پڑھتے ہیں‘ قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتے ہیں اور باقاعدگی سے نماز بھی ادا کرتے ہیں لیکن اپنے بچوں کو بدترین ماحول بھی دے رہے ہیں! ہم کیسے مسلمان ہیں‘ ہم کیسے پاکستانی ہیں اور ہم کیسے انسان ہیں‘ ہم ایمان کے دعوے دار ہیں لیکن 31 سال کا ایک نوجوان صدقے اور خیرات میں ہم سے لاکھوں کوس آگے نکل گیا‘ ہم ایمان کے ڈھول پیٹتے رہ گئے اور بے ایمان ملک کا ایک بے ایمان نوجوان ایمان کی پوری دکان لوٹ کرلے گیا۔
کیا ہم مسلمانوں کے پاس مارک زکر برگ کا کوئی ایک متبادل ہے‘ کوئی ایک ایسا متبادل جو اپنی 99 فیصد دولت انسانیت کے لیے وقف کر دے‘ جو اپنے بچوں کو بہتر دنیا دینے کے لیے اپنی ساری دولت لٹا دے؟ میں مسلمانوں کو اس دن مسلمان سمجھوں گا جس دن یہ مارک زکر برگ جیسا ایک انسان پیدا کر لیں گے‘ ایسا مارک زکر برگ جو اپنی ساری دولت اپنی بیٹی کے نام پر صدقہ کر دے اور جو عین جوانی میں اللہ کا دیا ہوا مال اللہ کے نام وقف کر دے! کوئی ہے‘ کوئی ایک‘ 68 اسلامی ملکوں میں کوئی ایک
No comments:
Post a Comment